Sunday, October 6, 2024

Dil Ki Sachi Lagan

میں اپنی خالہ زاد کی شادی کی وجہ سے تین دن سے خالہ کے گھر میں ٹھہری ہوئی تھی۔ ہم لڑکیوں کی تیاریاں زوروں پر تھیں کہ مہندی والا دن آ گیا۔ ہر کوئی بنے سنورنے میں مصروف تھا۔ مالا جو میری سب سے بہترین کزن تھی، مجھے چھیڑ رہی تھی کہ اتنے سنگھار کی ضرورت نہیں ، ایسا نہ ہو کہ اغوا ہو جاؤ۔ میں نے غصے سے کہا۔ تو اپنی خیر منا۔ میں تو اس پر مصنوعی غصہ کر رہی تھی، مگر وہ  بر امان گئی اور مجھے چھوڑ کر دوسری کزنز کی طرف چلی گئی۔ اس دن میں نے پیلا جوڑا پہنا ہوا تھا۔ جب ہم لڑکی والوں کے گھر مہندی لے کر جارہے تھے تو ایک لڑکی نے مہندی کا تھال مجھے تھما دیا۔ سبھی لڑکیاں کسی نہ کسی گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ میں تھال ہاتھ میں لئے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی کہ مالا کے چچا کا بیٹا اپنی گاڑی ہماری طرف لے کر آ گیا۔ ہمیں جلدی میں مجبوراً اس کی گاڑی میں بیٹھنا پڑا۔ میں نے غور کیا کہ یہ تو وہی تھا، جو ذرا دیر پہلے مجھ کو گھور گھور کر دیکھ رہا تھا اور اب بھی اپنی گاڑی کے شیشے میں سے مجھے دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس بات کو دوسری لڑکیوں نے بھی نوٹ کیا۔ میرا شرم کے مارے برا حال تھا۔ راستہ بھر سبھی ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہوئے گئے تھے ، لیکن میں چپ تھی، جبکہ وہ بار بار کہتا تھا کہ یہاں کوئی ایسا بھی ہے، جو بے زبان ہے۔ جسے بات کرنی بھی نہیں آتی۔ میں نے پھر بھی جواب میں کچھ نہ کہا۔ تبھی منزل آ گئی اور ہم سب گاڑی سے اتر گئیں۔ جب مہندی کی رسمیں ختم ہو گئیں تو ہم لڑکیاں دولہا کے گھر میں ہی ٹھہر گئیں، کیونکہ وہ بھی ہمارا کزن تھا۔ جب اس کو پتا چلا کہ میں دولہا کے گھر ٹھہری ہوں تو وہ بھی وہاں رک گیا کیونکہ وہ خالو کارشتہ دار تھا۔ میں بالائی منزل پر ایک کمرے میں ٹھہری تھی اور میرے کپڑوں کا بیگ وہاں ہی رکھا ہوا تھا۔ مجھ کو بہت نیند آرہی تھی، لہذا میں نے کپڑے تبدیل کئے۔ جب کپڑے بدل کر آرہی تھی کہ اچانک اس سے ٹکراؤ ہو گیا۔ میں نے اس کی جانب دیکھا اور بس دیکھتی رہ گئی۔ سیاہ پینٹ کوٹ میں وہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ میں نے پہلی بار اس کو غور سے دیکھا تھا۔ وہ بھی حیران تھا کہ میں کیسے اس کو تکے جارہی ہوں، تبھی وہ کھنکارا۔ مجھ کو ہوش آ گیا اور میں شرمندہ ہو کر اپنے کمرے کی جانب چل دی۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ بارات والے دن بھی یو نہی ہوا۔ ہر لڑکی چاہتی تھی کہ وہ اس سے بات کرے، اس کی طرف دیکھے کیونکہ وہ نہایت شوخ اور دلچسپ انداز سے گفتگو کرنے والا لڑکا تھا۔ وہ سب کی نظروں میں تھا لیکن میں تو اس کے قریب جانے سے بھی ڈرتی تھی۔ میں ڈھولک بجاتی، گاتی مسکراتی لڑکیوں سے دور تھی۔ اچانک وہ کمرے میں داخل ہوا اور اتنی تیزی سے گلاب کا پھول میرے بالوں میں ٹانک دیا کہ کوئی بھی اس کی اس حرکت کو نہ سمجھ سکا۔ تبھی اس نے اپنا منہ میرے کان کے قریب لا کر کہا۔ میں شاہ میر ہوں۔ میرا نام یادرکھنا۔ میں سرتا پا سرخ ہو گئی اور وہ آنا فانا جیسے آیا تھا، ویسے ہی چلا بھی گیا۔

شادی کا ہنگامہ ختم ہو گیا۔ اب تو مجھے بھی چین نہیں تھا۔ ساری رات جاگ کر کاٹتی۔ اگر نیند آتی تو خواب میں بھی وہی نظر آتا۔ یہ سب حال میں نے اپنی سہیلی کو بھی بتایا کیونکہ اپنے دل کی ہر بات اسے بتایا کرتی تھی۔ روز و شب اس طرح گزرنے لگے لیکن اس کی یاد نہ گئی۔ اس بات کو دو سال گزر گئے مگر میرے بالوں سے گلاب کے اس پھول کی مہک اسی دن جیسی تازہ تھی ، جب شاہ میر نے اس کو میرے بالوں میں     اُڑ سا تھا۔ باغ میں جانے سے یہ مہک اتنی تیز ہو جاتی کہ پھولوں کے علاوہ پتیوں اور مٹی کے ذروں سے بھی یہی مہک آنے لگتی تھی۔ کبھی کبھی میں سوچنے لگتی تھی کہ میں نے کیوں اسے نہ بھلا یا جبکہ وہ تو مجھے بالکل بھول گیا ہو گا۔ میں نے اس کو بھلانے کی بہت کوشش کی۔ چاہتی تو اس کے گھر جا سکتی تھی کیونکہ وہ مالا کا چچازاد تھا اور یہ بھی ایک قریبی رشتہ تھا۔ میں یہ بھی سوچتی تھی کہ اس تقریب سے پہلے میں نے کبھی اس کو کیوں نہ دیکھا تھا ؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ خالو ہم سے زیادہ میل جول نہ رکھتے تھے۔ ایک دن میں کالج جاتے ہوئے شاہ میر کے بارے سوچتی جارہی تھی۔ میں آج اکیلی تھی اس لئے جلدی جلدی قدم بڑھا رہی تھی کہ اچانک ایک گاڑی میرے سامنے آکر رک گئی، دیکھا تو گاڑی میں وہی بیٹھا تھا۔ کہنے لگا۔ کیا آپ مجھے جانتی ہیں ؟ میں نے کہا۔ جی ، آپ میرے کزن کے چچا کے بیٹے ہیں۔ اور بھی تو کچھ آپ سے استدعا کی تھی۔ آپ شاہ میر ہیں یہی کہا تھا نا، آپ نے مجھے بھلانا نہیں۔ سو تم نے بھلادیا مجھے ؟ تبھی بے اختیار میرے منہ سے نکل گیا کہ بھلا تو آپ نے دیا ہے۔ میری بات سے اس کا حوصلہ بڑھ گیا۔ وہ اصرار کرنے لگا کہ میری گاڑی میں بیٹھو۔ تم سے نہایت ضروری بات کرنی ہے۔ میں گاڑی میں بیٹھ گئی ، وہ آہستہ آہستہ گاڑی چلانے لگا۔ میں منہ نیچے کئے بیٹھی تھی۔ وہ کہنے لگا۔ ثانیہ تم نہیں جانتیں کہ میں نے یہ دو سال کیسے گزارے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں آیا جب تمہیں یاد نہ کیا ہو۔ میں نے صرف تم سے محبت کی ہے۔ قسم کھا کر کہتا ہوں۔ رابطہ اس لئے نہ کیا کہ کہیں تم بد نام نہ ہو جاؤ۔ کہیں تمہاری عزت پر حرف نہ آجائے۔ اب بتاؤ، اگر تم مجھ سے شادی پر راضی ہو تو میں اپنے والدین کو تمہارے گھر بھیجوں۔ تم کو کوئی اعتراض تو نہ ہو گا۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ میں نے کہا اور وہ کھل اٹھا۔ میرا رنگ بھی سرخ پڑ گیا، تبھی اس نے قریب اتار دیا۔ میں بہت ڈری ہوئی تھی کہ کوئی گاڑی سے اترتے دیکھ نہ لے۔ شکر ہے کہ کسی نے مجھے نہ دیکھا، ورنہ خدا جانے کیا ہو جاتا۔

بتا نہیں سکتی اس دن میں کتنی خوش تھی، جیسے وہ صرف میرا ہو۔ سبھی پوچھ رہے تھے کہ کیا بات ہے ، آج بڑی خوش نظر آرہی ہو۔ جس پر میں مسکرا دی، پھر  اگلے دن اس کے ابو امی آ گئے اور انہوں نے میرا رشتہ مانگ لیا۔ بھلا والدین کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ اتنے امیر لوگ ، لڑکا خوبصورت کہ ہر لڑکی اس کی شریک حیات بننے کی آرزو کرے۔ امی ابو نے ہاں کہہ دی۔ مجھ کو پھولوں کے زیور پہنائے گئے، کیا بتاؤں ، وہ کیسا      خوبصورت دن تھا، جب میں ہواؤں میں اڑ رہی تھی۔ میرے سپنے چاند سورج اور ستاروں سے مزین تھے۔ میرے خواب کو تعبیر مل گئی تھی۔ اس کے بعد ہر آن، ہر لمحہ بس میں نے شاہ میر ہی کے خواب دیکھے۔ ہر وقت اس کا خیال میرے دل کا ہم راز رہتا۔ اس کی سوچوں میں عمر بسر کی۔ میں خوبصورت سے خوبصورت ہوتی جاتی تھی، نکھرتی سنورتی چلی جاتی تھی۔ آنے والے وقت کی بڑے شدت سے منتظر تھی ، جب میں شاہ میر کی دلہن بننے والی تھی۔ دو عیدیں آئیں منگنی کے بعد اور دونوں عیدوں پر میرے سسرال کی طرف سے نہایت بیش قیمت اور خوبصورت جوڑے بھیجے گئے۔ والدہ تن دہی سے میرا جہیز بنانے میں لگی تھیں اور میں آنے والے وقت سے شرمارہی تھی۔ جب میں بابل کے گھر سے رخصت کی جاتی کہ اچانک ایک دھماکا ہوا، جس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ میں تو بالکل ہی ٹوٹ کر رہ گئی۔ پتا چلا کہ شاہ میر کے گھر والوں نے منگنی توڑنے کا اعلان کیا ہے۔ امی خود وہاں گئیں کہ وجہ تو معلوم ہو۔ وجہ کیا تھی ؟ ؟ سب سے بڑی وجہ دولت تھی کیونکہ وہ بہت امیر لوگ نے تھے اور شاہ میر کے والدین ان کی شادی کسی امیر  گھرانے میں کر رہے تھے جیسا کہ وہ پہلے سے چاہتے تھے ، لیکن بیٹے کی ضد سے مجبور ہو کر ہمارے گھر چلے آئے تھے، تاہم اب تو انہیں ایک منسٹر صاحب کی بیٹی کارشتہ مل گیا تھا اور اب انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو بھی مجبور کر کے اپنا ہم خیال بنا لیا تھا۔ میں تو سوچتی ہی رہ گئی کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا ؟ اور جنہوں نے کچھ کرنا تھا، کر بھی گزرے۔ انہوں نے شاہ میر کی شادی اپنی منشا کے مطابق دولت مند گھرانے میں کر دی۔ کافی دنوں تک یہ دھچکا میرے والدین کا سکون تہہ و بالا کرتا رہا اور میں تو مردوں میں تھی اور نہ زندوں میں ، کیونکہ شاہ میر سے محبت کرتی تھی، رات دن اس کے خواب دیکھے تھے ، اس کے خیالوں سے باتیں کی تھیں۔ میرا کیا حال ہوا ہو گا؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ عرصہ دراز تک پریشان رہی، اس کے بعد جب وقت نے سنبھالا دیا تو میں نے ایک اسکول میں سروس کرلی۔ بچوں کو پڑھا کر اپنا وقت پاس کرتی رہی، دل بہلانے کے جتن کرتی تھی، مگر یہ ظالم بہلتا نہ تھا۔

اس دوران کئی رشتے میرے لئے آئے مگر میر ایمان رشتوں پر سے اٹھ چکا تھا۔ جی نہیں چاہتا تھا کہ دوبارہ کسی سے دھوکا کھاؤں۔ میرے چھوٹی بہن، بھائیوں کی بھی شادیاں ہو گئیں اور میں والدین کے ساتھ ہی رہ گئی۔ اب میں ان کے بڑھاپے کا سہار اپنی کیونکہ شادی شدہ بہن بھائی اپنے اپنے کاروبار زندگی میں مصروف و مگن ہو گئے تھے۔  بیس برس گزر گئے تھے مگر مجھ کو اس دکھ کی شدت کبھی کم محسوس نہ ہوئی۔ یوں لگتا تھا یہ کل کی بات ہے۔ اس دکھ کی دھاک میرے دل پر جم کر رہ گئی تھی۔ جو بھی میرے چہرے کی جانب دیکھتا تھا محسوس کر لیتا تھا کہ یہ کسی گہرے صدمے سے دوچار ہوئی ہے۔ اس واقعہ کے بعد پھر کبھی میں نے کسی چیز کی خواہش نہ کی، بس ایک تمنا کے سوا کہ میں روضہ رسول ہم پر حاضری دوں ، حج کروں۔ اللہ کے گھر جا کر دعا مانگنے کی سعادت حاصل کروں، لیکن میں نہیں جاسکتی تھی۔ والدین ضعیف ہو چکے تھے ، وہ سفر کی تکالیف برداشت کرنے کے قابل نہ رہے تھے۔ بالآخران کا بھی یکے بعد دیگرے انتقال ہو گیا اور میں گھر کی تنہائیاں سمیٹنے کو اکیلی رہ گئی۔ اب تو زندگی اور بھی کٹھن ہو گئی۔ سروس کی وجہ سے وقت کٹ رہا تھا ورنہ شاید میں پاگل ہو جاتی۔ لوگ رفتہ رفتہ تنہائی کے عادی ہو جاتے ہیں لیکن میں عادی نہ ہو سکی۔ میری اب یہی آرزو تھی کہ کسی طرح حج کر لوں، لیکن ساتھ جانے والا کوئی نہ تھا۔ بغیر محرم کے نہ عمرے پر جاسکتی تھی اور نہ حج پر ، سروس سے بھی ریٹائرڈ ہو چکی تھی۔ بالآخر میری مایوسی پر قدرت کو رحم آگیا۔ ایک دن میری ممانی آئیں، بولیں۔ کیا حج پر جانا چاہتی ہو ؟ اپنے پاسپورٹ اور کاغذات بنوالو، بلکہ تمہارے ماموں کو بھیج دوں گی۔ ان کے ساتھ جاکر بنوا لینا۔ ہم حج پر جارہے ہیں، تم کو بھی لے جائیں گے۔ یوں وہ گھڑی بھی آگئی جب ماموں اور ان کی فیملی کے ساتھ حج کی سعادت حاصل کرنے جارہی تھی۔ یہ کتنا خوشیوں بھر ادن تھا، جب میری دیرینہ آرزو پوری ہو رہی تھی۔ شاہ میر سے منگنی والے دن کے بعد خوشی کا ایک اور دن دیکھنا نصیب ہوا تھا۔ میں نے خدا کالاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔ مکہ مکرمہ میں ممانی کے رشتہ دار تھے ، جن کے ہاں ہم نے قیام کیا۔ ہمیں یہاں آئے دوسرا دن تھا، پتا چلا کہ پاکستان سے کچھ اور مہمان بھی حج کے لئے آرہے ہیں اور یہیں قیام کریں گے۔ تین چار دن تک وہ مہمان آگئے۔ مجھ کو اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہ آرہا تھا کہ ان میں شاہ میر بھی تھا۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، مگر کلام نہ کیا۔ وہ میرا کیا لگتا تھا جو میں اس سے کلام کرتی۔ ایک بند ھن جڑتے ہی ٹوٹ گیا تھا اور بس، لیکن دل کا بند ھن شاید اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ کبھی نہیں ٹوٹتا، تبھی تو تقدیر نے ہمیں کہاں اور کس مقام پر ملادیا تھا۔ ممانی نے شاہ میر کو میرے بارے میں بتایا۔ وہ بہت حیران ہوا کہ میں نے ابھی تک اس کے غم کو بھلایا نہیں تھا اور شادی بھی نہیں کی تھی۔ اب اس کو میری وفا اور محبت کا یقین آچکا تھا۔ اس نے ممانی کے ذریعے مجھ کو پیغام دیا کہ اگر میں راضی ہو جاؤں تو وہ زندگی کے اس موڑ پر مجھ سے نکاح کر سکتا ہے کیونکہ اس کی بیوی کا کچھ عرصہ قبل انتقال ہو چکا تھا اور اس کو پھر سے ایک جیون ساتھی کی ضرورت تھی، جو اس کے گھر ، بچوں کو سنبھال سکے اور اس کی زندگی میں ساتھی کے خلا کو پر کر سکے۔ یہ عمر ایسی نہ تھی کہ میں شادی کرتی۔

سہانے سپنے اب دھندلا چکے تھے، لیکن مجھے واقعی اس سے دلی محبت تھی۔ مجھے اس کی تکالیف کا احساس ہوا۔ دل نے کہا ، تم بھی تو تنہائیوں سے تنگ ہو۔ ان وحشتوں کا مقابلہ کرتے رہنے سے تو بہتر ہے کہ تم شاہ میر کی پیش کش قبول کر لو۔ جب تک میں یہ بات لبوں پر لاتی ، اس سے پہلے ممانی اور ماموں نے مجھے سمجھا بجھا کر اپنی دانست میں راضی کر لیا اور یوں ان کے عزیزوں کے گھر پر میرا نکاح شاہ میر سے ہو گیا۔ گویا میں وہاں گئی ہی اس لئے تھی کہ میرا من چاہا محبوب کہ جس کی میں نے عمر بھر خیالوں میں پرستش کی تھی وہ مجھے مل جائے اور خدا نے اس مقدس سرزمین پر ہمار اد ا من مرادوں کے پھولوں سے بھر دیا۔ شاہ میر مجھے پا کر بہت خوش تھے۔ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر حج کیا اور ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا، کیونکہ ہمار ا نکاح ہو چکا تھا اور اب وہ میرا محرم تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بھی مجھ سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں اور مجھ کو کبھی بھی انہوں نے دل سے نہیں بھلایا۔ اپنے والدین کی وجہ سے مجبور تھے تاہم ہمیشہ دل سے میرے ملنے کی دعا کیا کرتے تھے۔ اگر لگن سچی ہو تو مراد مل ہی جاتی ہے، دعائیں بھی قبول ہو جاتی ہیں۔ ہیں اور شاہ میر جتنے خوش و خرم ہیں، شاید ہی دنیا کا کوئی جوڑا ہو۔ یہ ایک نئی زندگی تھی جو مجھے ملی تھی۔ اب میں ہر سال عمرہ کرنے جاتی ہوں، اور شاہ میر کی سلامتی کی دعائیں کرتی ہوں۔ خدا کرے ، اب میں ان کو کبھی نہ کھوؤں۔ اللہ ان کو سلامت رکھے۔

Latest Posts

Related POSTS