Friday, October 11, 2024

Dil Ki Shahzadi

زندگی یوں تو پُرسکون انداز سے گزر رہی تھی، کبھی کبھی مگر دل اولاد سے محرومی پر افسردہ ہو جاتا تھا۔ ایک دن اُداس بیٹھی تھی کہ ایک فقیر نے دروازے پر صدا لگائی۔ میں اس وقت صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھی ناشتہ کر رہی تھی۔ صداسن کر لقمہ منہ تک نہ لے جاسکی۔ ہاتھ رُک گیا۔ روٹی کی چنگیری، جس پر مکھن والا ساگ رکھا تھا، اُٹھا کر دروازے پر چلی گئی۔ صدا لگانے والا ایک سفید ریش بزرگ تھا۔ میں نے روٹی والی چنگیری اس کی طرف بڑھا دی۔ تمہار بچے سلامت رہیں۔ بابا نے دعا دی۔ بابا بچے ہوں گے تو سلامت رہیں گے۔ بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔ آواز میں حسرت کے ساتھ دُکھ بھرا تھا۔ بابا نے میرے دُکھ کو محسوس کر لیا، کہنے لگا۔ بیٹی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، میں کوئی پہنچا ہوا بزرگ یا پیر فقیر تو نہیں، ایک عام انسان ہوں۔ ایک وظیفہ بتاتا ہوں۔ بہت آسان اور مختصر ہے، عشاء کی نماز کے بعد روز اسماء حسنہ پڑھ لیا کرو۔ اس دوران خواب میں کوئی اشارہ ملے تو سمجھ لینا مراد پوری ہو گئی۔ بابا یہ کہہ کر چلا گیا۔ میں نے اس کی بات کو سنجیدگی سے نہ لیا کیونکہ بہت علاج معالجہ کروا چکی تھی لیکن جب امید بر نہ آئی تو اللہ کی طرف سے تقدیر سمجھ کر صبر کر لیا۔ اس بات کو کچھ عرصہ ہوا تھا کہ فقیر بابا کی کہی ہوئی بات یاد آگئی۔ سوچا، بابا کا بتایا ہوا وظیفہ کر کے دیکھوں، کیا خبر اس وسیلے سے مراد بر آئے۔ عشاء کی نماز کے بعد وظیفہ پڑھتے چھ دن گزرے تھے کہ خواب میں دیکھا۔ ملبے کا ایک ڈھیر ہے ، اس کی آڑ میں ایک ٹوکری ہے ، جس کا منہ سلا ہوا ہے۔ میں نے جب اسے کھولا تو ٹوکری میں چھوٹا سا بچہ ہے۔ یہ دیکھ کر میں خوش ہو جاتی ہوں۔ بیدار ہوئی تو سوچ میں پڑ گئی کہ یا اللہ یہ کیا ماجرہ ہے ؟ اور اس خواب کی تعبیر کیا ہو گی۔ دل نے سرگوشی کی کہ اللہ تعالی اولاد کی خوشی دے گا۔ اس خواب سے تو بظاہر ایسا ہی اشارہ ملتا ہے خیر اللہ کے راز وہی جانے ، ہمیں تو اس ذات بابرکت سے اچھے کی امید رکھنی چاہئے۔ اس دن کے بعد میں نے وظیفہ پڑھنا بند کر دیا۔ سوچا کہ کوئی دوسرا خواب آگیا، جس کی تعبیر اچھی نہ محسوس ہوئی تو دل میں جاگی خوشی کی امید بھی جاتی رہے گی۔ ایک ماہ بعد اچانک یہ واقعہ وقوع پذیر ہو گیا کہ ہمارے گھر کے پچھواڑے، ہمارا ہی ایک اور مکان تھا جو کچا تھا۔ وہ سیلاب کے دنوں میں گر گیا تھا، تب سے ہی اس کا ملبہ پڑا ہوا تھا۔ میرے میاں کا ارادہ اس کو دوبارہ تعمیر کرانے کا تھا مگر اپنے کام کی وجہ سے ان کی فرصت نہیں مل رہی تھی۔ اور آج کل پر اس کی تعمیرنو ٹل رہی تھی۔ ان دنوں ہم اپنے شہر کے قریب ہی رہتے تھے۔ گرمیوں کے دن تھے۔ میں صبح کی نماز پڑھ کر گھر کے کام کاج میں لگ گئی۔ میرے میاں بھی فجر کی نماز پڑھ کر گھر آگئے ، آتے ہی کہا۔ مجھے ضروری کام سے جانا ہے ناشتہ دے دو۔ میں نے جلدی جلدی ناشتہ بنا کر دیا اور وہ اپنے کام پر چلے گئے۔ ان کے جانے کے تھوڑی دیر بعد گلی میں شور ہوا، تبھی ہمارے محلے کی ایک عورت مجھے آوازیں دیتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی۔ وہ سر سے پائوں تک کانپ رہی تھی۔ بولی، فریدہ ! جلدی چلو، تمہارے گرے ہوئے گھر کے ملبے میں ایک ٹوکرا پڑا ہے۔ اس میں سے بچے کے رونے کی آواز آرہی تھی تو وہاں لوگ اکٹھے ہو گئے ہیں۔ لوگ جمع تو ہیں مگر کوئی ٹوکرے کو ہاتھ نہیں لگا رہا۔ جلد چلو ، ورنہ بچہ دم گٹھنے سے مر نہ جائے۔ اس کی بات سن کر میں نے جلدی سے چادر اوڑھی اور اس کے ہمراہ چل دی۔ اپنے گرے ہوئے مکان کے ملبے پر سے جھانکا تو ٹوکرا نظر آ گیا۔ لوگوں کا ہجوم تھا، وہ قیاس آرائیاں بھی کر رہے تھے مگر کوئی ٹوکرے کو نہیں اٹھارہا تھا۔ ایک دو نے بوری کو ہٹانے کی کوشش کی تو اوروں نے اُسے روک دیا کہ مالک مکان خود دیکھیں گے ، تم کیوں مفت کی مصیبت مول لے رہے ہو۔ پولیس آئے گی تو تھانے میں حاضری دینی پڑے گی۔ لوگوں کا یہ رویہ دیکھ کر دکھ ہوا۔ بچے کے مسلسل رونے کی وجہ سے مجھ سے رہا نہ گیا۔ آگے بڑھی تو لوگ ایک طرف ہو گئے۔ میں نے جلدی جلدی ٹوکرے کے منہ پر سلا ہوا بوری کا پردہ ہٹایا تو اس میں ایک نوزائیدہ بچے کو روتا ہوا پایا۔ ظاہر ہوتا تھا اس کو دنیا میں آئے چند گھنٹے ہوئے تھے اور جنم لیتے ہی ٹوکرے میں رکھ دیا گیا تھا۔ جانے کون سنگدل لوگ تھے جنہوں نے اس ننھی سی جان کو اس طرح حالات کے سپر د کر دیا تھا۔ میں نے بسم اللہ پڑھ کر بچے کو گود میں اٹھالیا۔ لوگ طرح طرح کی باتیں اب بھی کر رہے تھے لیکن اب باتوں کا انداز بدل گیا تھا۔ ایک ہمسایے نے کہا۔ شاید مدبر میاں پر قدرت کو رحم آگیا ہے تبھی کوئی بچے کو ان کے مکان میں چھوڑ گیا ہے۔ کسی نے کہا بے اولاد ہیں نا! اسی لئے بچہ انہی کے مکان میں ڈالا گیا ہے تاکہ یہ اسکو پال لیں۔ اسی طرح کی باتیں میرے ذہن میں بھی آرہی تھیں- اپنے میاں کے آنے تک کوئی فیصلہ نہ کرنا چاہتی تھی لیکن ہجوم میں زیادہ دیر ٹھہرنا بھی میرے بس کی بات نہ تھی۔ ظاہر تھا کہ ہمیں بے اولاد دیکھ کر ہی قریبی محلے سے کسی نے یہ قدم اٹھایا تھا۔ جب کافی لوگوں نے کہا۔ بی بی بچے کو گھر لے جایئے۔ بعد میں جو گواہی ہو گی ہم عینی شاہد ہیں اور آپ کے ساتھ ہیں۔ انسانیت کا بھی یہی تقاضا تھا کہ فوری طور پر بچے کی خوراک کا بندوبست کیا جائے لہذا میں اس کی لاوارث اور معصوم کو گھر لے آئی۔ جو عورت مجھے اطلاع دینے گھر آئی تھی وہ بھی میرے ساتھ آگئی۔ اس کے گھر میں بکری تھی۔ میں نے کہا کہ فور تازہ دودھ بکری کا لے آئو۔ تھوڑی دیر بعد ہی وہ آگئی۔ تب تک میں نے بچے کو اپنی انگلی سے تھوڑی سی شہد چٹادی تو وہ چپ ہو گیا۔ جس کپڑے میں لپٹا ہوا تھا اسے بھی کھول دیا اسے کچھ سکون ملا۔ وہ عورت کہنے لگی۔ بچاری معصوم بچی ہے۔ لڑکا ہوتا تو کیا ہی اچھا تھا۔ میں نے کہا۔ لڑکا ہوتا تو کیا اور لڑکی ہے تو کیا۔ پھینکنے والے سنگدلوں نے تو پھینک دیا، آگے اس ننھی سی جان کی قسمت، جو رب نے اس کی تقدیر میں لکھ دیا ہے ہو گا۔ بکری کا تازہ دودھ پیتے ہی بچی سو گئی۔ ایک گھنٹے بعد میاں صاحب بھی آگئے ، میں نے پوچھا۔ جلدی آگئے ؟ بولے، ہاں جو کام پھنسا ہوا تھا، اللہ کی مہربانی سے جلد ہو گیا اور میں آگیا۔ اچھا، چلیں آپ یہ دیکھئے۔ میں نے بچی کے اوپر پڑے کپڑے کو ہٹایا اور ساری بات بھی بتائی۔ وہ حیرت میں ڈوب گئے ، پھر چند ساعتوں بعد بولے۔ علاقے کے کونسلر سے بات کرنا ضروری ہے۔ وہ کونسلر سے بات کرنے چلے گئے۔ میرا دل نہ چاہا کہ میں اس بچی کو کونسلر کے حوالے کروں۔ فیصلہ کر لیا کہ اسے خود پالوں گی۔ اللہ تعالی نے میرے ٹوٹے پھوٹے گھر میں پہنچائی ہے تو اسے نعمت سمجھوں گی، جس کے لئے برسوں سے ترس رہی تھی۔

میاں صاحب واپس آئے پوچھنے لگے اب اس کا کیا کرنا ہے ؟ اس کو رکھنا چاہتی ہو یا کونسلر کے حوالے کر دوں۔ میں رکھنا چاہتی ہوں، ہم خود اس کو پالیں گے۔ ہمیں اللہ تعالی نے یہ بچی دی ہے، کسی کے حوالے کیوں کریں۔ وہ بولے، جذبات سے نہیں، سوچ سمجھ کر جواب دو۔ اچھی طرح سوچ لو۔ اگر ماں جیسا پیار دے سکو تو گود لے لو ، ورنہ علاقے کے کونسلر میرے ساتھ آئے ہیں، ابھی لے جائیں گے۔ تبھی بچی رونے لگی۔ میں نے اس کو اٹھا کر جب سینے سے لگایا تو وہ یکدم چپ ہو گئی۔ اسے دل سے لگاتے ہی میری بھی ترسی ہوئی ممتا کو جیسے تسکین مل گئی ہو ۔ کلیجہ میں ٹھنڈک پڑ گئی تھی۔ میں نے کہا۔ میاں صاحب! مدت بعد خدا نے میری سنی ہے۔ کسی ماں کہنے والی ہستی کو خود ہی میرے گھر لا پہنچایا ہے۔ اب مجھ کو ممتا کی مٹھاس کا احساس ہوا ہے۔ مجھے اس سے محروم نہ کیجئے۔ بولے سوچ لو، یہ لڑکی ہے، لڑکا نہیں۔ اس کی حفاظت کرنا پڑے گی۔ اسے بیاہ کر رخصت بھی کرنا پڑے گا۔ لڑکا ہوتا تو فکر کی بات نہ تھی۔ الٹا کما کر لاتا بڑھاپے کا سہارا ہوتا۔ مجھ کو میاں جی کی بات اچھی نہ لگی۔ میں رونے لگی۔ بولے رومت مجھے یقین آگیا کہ تمہارے جذبے میں محض ترس ہی نہیں بلکہ خلوص اور سچائی ہے۔ ٹھیک ہے تم اسے رکھو۔ ہمیں عمر بھر اس فرض کو سچائی سے نبھانا ہے ، تاہم دو منٹ کے لئے مجھے بچی کو دو۔ میں کو نسلر صاحب کو دکھا دوں۔ وہ بچی کونسلر صاحب کے پاس لے گئے اور تھوڑی دیر بعد واپس لے آئے اور میری گود میں دے کر کہا۔ لیجئے آپ کی مراد خدا نے پوری کی لیکن آپ کو اولاد کی نعمت اس بچی کے روپ میں اس لئے ملی کہ اس کی حفاظت ہو۔ اب اس کی پرورش دیانتداری سے کرنا آپ کا کام ہے۔ اگر آپ سے ذراسی کوتاہی بھی سرزد ہو گئی تو پھر یہ یاد رکھیئے گا کہ اللہ کی بارگاہ میں روز قیامت جوابدہ ہوں گی۔ میں نے بسم اللہ کہہ کر بچی کو سینے سے لگا لیا۔ اسے اپنے دل کی شہزادی کہتی تھی۔ بعد میں اس کا نام ہی شہزادی رکھ دیا اور خلوص دل سے اس کی نگہداشت میں مصروف ہو گئی۔ شہزادی کی پرورش میں ایسی مگن تھی کہ بسا اوقات اپنے شوہر کے حقوق بھی نظر انداز کر جاتی۔ میرے میاں مدبر صاحب بہت صابر اور شریف النفس انسان تھے۔ انہوں نے کبھی اس امر کا برا نہ منایا بلکہ بچی کے ساتھ میرے لگائو اور اس کی پرورش میں انہماک اور محنت کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے ، کہتے کہ تم کو اس کا صلہ اللہ تعالی کی طرف سے ملے گا۔ میری شہزادی بڑی ہو گئی وہ اپنی توتلی زبان سے مجھے امی اور میرے شوہر کو ابو کہتی تھی۔ اس کی پیاری پیاری باتیں سن کر مدبرخوش ہوتے۔ دن رات ہم میاں بیوی بچی کے آگے پیچھے پھرتے تھے۔ اس کی وجہ سے ہماری زندگی میں رونق آگئی تھی۔ ننھی شہزادی ہم دونوں کو ہر دم اپنی جانب متوجہ رکھتی تھی۔ میں بھی اس کی دیکھ بھال میں اس طرح صبح شام کر دیتی کہ اکثر میاں گھر کا کھانا کھانے آتے تو میں بغیر کچھ پکائے بیٹھی ہوتی۔ پھر یا تو وہ بازار سے لے آتے یا بچی کو گود میں لے کر بیٹھ جاتے اور میں فٹافٹ کھانا بنانے بیٹھ جاتی۔ میری ذات کا خلاء ممتا کے جذبہ کو ملی آسودگی نے بھردیا تھا تو میاں نے بھی بچی کے پیار میں کوئی کمی نہ کی۔ وہ جب گھر آتے ان کی ساری توجہ شہزادی لے لیتی۔ اس کی ہر فرمائش پوری کرتے ، قسم قسم کے کھلونے خوبصورت کپڑے اس کی ضرورت کی ہر شے وہ ڈھیروں کے حساب سے لے آتے۔ بیمار ہو جاتی تو ہم ایک پل اس کو گود سے نہ اتارتے۔ وہ تو ہماری آنکھ کا تارا تھی۔ میں تو ایک پل بھی اس کے بنا نہیں رہ سکتی تھی۔ خدا کی قدرت جب سے شہزادی اس گھر میں آئی تھی۔ روپے پیسے کی طرف سے بہت آسودگی ہو گئی تھی۔ بیٹی تو خدا نے دے دی تھی مگر بیٹے کی آرزو دل میں باقی تھی۔ اللہ سے اکثر تنہائی میں کہتی کہ تو نے آنکھوں کا نور دے دیا مگر بڑھاپے کا سہارا نہیں دیا۔ ہمارا ایک بیٹا ہوتا تو پھر زندگی میں کسی شے کی کمی تھی۔ میں نے محسوس کیا تھا کہ یہی خلش مدبر کے دل میں بھی تھی ایک دو بار حسرت سے ان کے منہ سے بھی نکل گئی کہ میرا رب بیٹا دے دیتا تو اس کے خزانے میں کیا کمی تھی۔ تاہم صبر کے سوا چارہ کیا تھا۔ یہ اپریل کا مہینہ تھا۔ بیساکھی کا میلہ تو ہر سال لگتا تھا لیکن اس سال یہ اور طرح کا لگا۔ میرے میاں نے کہا۔ تم اجازت دو تو میں شہزادی کو اپنے ساتھ میلہ دکھانے لے جائوں۔ بچی نے سنا تو مچل گئی کہ میلہ دیکھنا ہے۔ میرا جی ڈرتا تھا سوچا، منع کروں گی تو میرے شوہر کا دل برا ہو جائے گا۔ میں نے نہلا دھلا کر شہزادی کو تیار کیا اور سجا سنوار کر ان کے ہمراہ ان کے ساتھ کر دیا۔ شہزادی ان دنوں چھ برس کی تھی۔ میلے کی جگہ ہمارے شہر سے زیادہ دور نہ تھی، یہی کوئی دو کوس پر ہو گی۔ میاں تانگے پر گئے تھے۔ ان کو دوپہر تک واپس آ جانا تھا۔ تانگے پر بیٹھنے کا ہماری شہزادی کو بڑا شوق تھا۔ وہ اس سواری میں بیٹھ کر بہت لطف اندوز ہوتی تھی۔ یہ صبح کے گئے اور دوپہر تک واپس آنا تھا۔ اس کے بعد گرمی ہو جاتی تھی جبکہ اکثر لوگ سہ پہر کے بعد جاتے تھے اور شام تک میلے کا لطف اٹھاتے۔ میلہ مغرب سے پہلے بند ہو جاتا تھا۔ ان کو دوپہر سے شام ہو گئی اور وہ نہیں آئے۔ مجھ پر گھبراہٹ طاری ہونے لگی اور دل میں برے برے خیالات آنے لگے۔ خدا خیر کرے آج انہوں نے کیوں اتنی دیر لگا دی۔ شام کو مدبر آئے تو حیران و پریشان تھے۔ ان کا منہ اترا ہوا تھا اور بچی ان کے ہمراہ نہیں تھی۔ انہیں تنہا گھر میں داخل ہوتے دیکھ کر سہم گئی۔ میری شہزادی کدھر ہے ؟ پہلا سوال جو میرے منہ سے نکلاوہ یہی تھا۔ اسی کو ڈھونڈتے تو یہ وقت ہو گیا۔ انہوں نے رندھے ہوئے گلے سے بتایا۔ وہ ہنڈولے پر بیٹھنے کی ضد کر رہی تھی۔ رش بہت تھا میں اسے ہنڈولے کے قریب لئے کھڑا تھا کیونکہ وہ اس میں جھولے کی ضد کر رہی تھی۔ ہنڈولا رکے تو میں اسے پکڑ لوں اور خالی میں اپنی شہزادی کو بٹھا دوں۔ میری توجہ جھولے پر تھی۔ جب نشستوں والا ڈبا میرے ہاتھ کے قریب آیا، میں نے جھپٹ کر اسے پکڑا اور شہزادی کو بٹھانے کے لئے اپنے پاس دیکھا، جہاں وہ کھڑی تھی مگر وہ وہاں سے غائب تھی۔ جانے بھیڑ کے ریلے میں مجھ سے دور چلی گئی یا کسی نے اس کو کھینچ لیا۔ پل بھر کو میں نے اس کا ہاتھ چھوڑا تھا۔ جھولے والا بھی حیران ہوا کہ بچی کہاں گئی ؟ بس پل بھر کی غفلت قیامت ہو گئی۔ یہ کہتے ہوئے ان کے آنسو بہہ نکلے ، میں بھی رونے لگی۔ تم نے اچھی طرح نہیں ڈھونڈا ، ادھر اُدھر ہو گئی ہو گی اور کہاں جاسکتی تھی۔ کسی بائولے کی طرح میلے میں سارا دن پھرتا رہا اس کو تلاش کرتارہا۔ شام کا اندھیرا پھیلنے لگا، جھولے والوں نے جھولے بند کر دیئے، مٹھائی اور کھلونے والے بھی شامیانے کے نیچے سے اپنی عارضی دکانیں سمیٹ کر چلے گئے مگر ہماری بچی کا نشان نہ ملا۔ سارا میدان میلے میں آنے والے لوگوں سے خالی ہو گیا۔ گرائونڈ سے سیدھا تھانے گیا۔ رپٹ لکھوا کر ابھی آرہا ہوں۔ میں رو رہی تھی ہچکیاں لے کر اور میاں مجرم بنے کھڑے تھے۔ تسلی دینے کو بھی ان کے پاس الفاظ نہ تھے۔ آنکھوں سے بس آنسو بہہ رہے تھے۔ جی چاہتا تھا اب گھر نہ جائوں ندی میں ڈوب جائوں مگر تمہارا خیال آتا تھا کہ تم انتظار کرتی ہو گی۔ سوچتا تھا گھر جاکر تم کو کیا منہ دکھائوں گا؟ کیا جواب دوں گا۔ ہم نے شہزادی کو بہت ڈھونڈا، مگر اس کو نہ ملنا تھا اور وہ نہ ملی۔ خدا جانے کون سنگدل اسے لے گیا۔ خدانے ہمیں خوشی دی مگر عارضی کہ وقت نے پھر چھین لی۔ بدلے میں ایسا درد دے دیا۔ جب تک زندہ ہیں، اس درد کی ٹیسیں اُٹھتی رہیں گی اور ہمیں ہر حال یہ درد سہنا ہو گا۔

کاش وہ ہمیں اولاد کی خوشی نہ دکھاتا تو اچھا تھا۔ وہ دکھ کم تھا مگر پا کر کھو دینے کا دکھ بہت زیادہ ہے اتنا کہ اس کی حد نہیں ۔ جب جب مجھے اپنی لاڈلی کا چہرہ یاد آتا ہے، بن پانی کی مچھلی کی طرح تڑپنے لگتی ہوں۔ اپنے اللہ سے فریاد کرتی ہوں کہ اگر یہ خوشی عارضی تھی، اگر یہ سکھ ہم کو راس نہیں تھا، تو نہ ہی ملتی ہمیں یہ خوشی۔ کوئی اور ہی لے جاتا اس معصوم کو اس طرح نہ کھوتی۔ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے۔ سب کی فریاد کو سنتا ہے مگر جواب نہیں دیتا۔ نجانے ہم سے کون سی کوتاہی ہوئی۔ اب توبہ کرتی ہوں کہ بیٹے کی جو حسرت تھی اسے بھی دل سے مٹا دیا ہے۔ وہی بیٹی رحمت تھی اور نعمت بھی وہی تھی ہمارے لئے ، جو نہ رہی۔ شاید ہم اس نعمت کے قابل نہ تھے۔ اس واقعہ کو اٹھائیس برس گزر چکے ہیں مگر زخم پہلے دن کی طرح تازہ ہے۔ لگتا ہے، جیسے کل کا واقعہ ہو۔ کوئی اگر آج بھی میری شہزادی کی خبر لا دے تو یہ جان بھی نذرانہ کر دوں۔

Latest Posts

Related POSTS