Tuesday, October 3, 2023

Dil Per Nahi Ikhtiyar

ہمارے گاؤں میں خالہ کو ماسی کہا جاتا تھا۔ تبھی ہم پڑوسی دینو کی بیوی صاحبہ خاتون کو ماسی صوبی کہتے تھے ۔ ماہی صوبی بڑی تند مزاج عورت تھی کسی سے خار کھا جاتی تو جھاڑ کے کانٹوں کی طرح پیچھے پڑ جاتی تھی۔ اس کی زبان گندی اور گز بھر لمبی تھی۔ غرض سارا گاؤں اس سے پناہ مانگتا تھا۔ حبیب میرا اکلوتا بھائی تھا، ان دنوں اس کی عمر اٹھارہ برس تھی۔ اس نے گاؤں کے اسکول سے آٹھ جماعتیں پاس کر لیں تو بے کا ر پھرنے لگا۔ والد صاحب نے امی سے کہا کہ حبیب کی پڑھائی کا سلسلہ تو ختم ہوا، اس کو سمجھاؤ کہ روز مرہ کے کاموں میں میرا ہاتھ بٹایا کرے، ان کا مطلب تھا کہ حبیب اپنے مال مویشی روزانہ چرانے لے جائے، جبکہ میرے بھائی کو یہ منظور نہ تھا۔ آٹھ جماعتیں پڑھ کر وہ خود کو جانے کیا سمجھنے لگا تھا کہ مال مویشی کو چرانے لے جانا اپنی توہین گردانتا تھا۔ کچھ عرصہ والد صاحب اسے کھیتی باڑی کے کاموں کی طرف راغب کرتے رہے جب حبیب نے ایسے کسی کام میں دلچسپی نہ لی جس سے اس کے اجلے کپڑوں پر مٹی لگ جائے تو ابو نے ایک دوست سے کہہ کر اسے پلمبری کا کام سیکھنے پر لگا دیا۔ حبیب چھ ماہ تک یہ کام سیکھنے شہر جاتا رہا۔ اس دوران اس کے استاد نے ابو سے کہا کہ اگر تم چاہو تو میں حبیب کو دبئی بھیجوا سکتا ہوں، ذرا کام میں مہارت درکار ہوگی۔ ایک سال اسے میرے پاس رہنے دو۔ انشاء اللہ یہ بہت اچھا پلمبر بن جائے گا۔ حبیب چھ دن شہر میں اپنے استاد کے ڈیرے پر ہوتا۔ صرف جمعہ کی چھٹی کر کے وہ گاؤں آجاتا تھا۔ اس روز بھی جمعہ تھا۔ ابو نماز پڑھنے مسجد چلے گئے۔ حبیب کو تلقین کی کہ تم جلد کپڑے وغیرہ تبدیل کر کے مسجد آجاؤ۔ حبیب نے نہا دھو کر اجلے کپڑے پہن لئے اور جمعہ کی نماز میں شامل ہونے کے لئے گھر سے نکل گیا۔ مسجد والے راستے میں ماسی صوبی کا مکان تھا۔ جونہی بھائی ادھر سے گزرا ماسی کی بیٹی صورت بی بی کو دیکھا۔ وہ اپنے گھر کے دروازے پر کھڑی جھانک رہی تھی ۔ صورت کی عمر سولہ برس تھی اور وہ اچھی شکل و صورت کی دوشیزہ تھی۔ اس نے بھی گاؤں کے اسکول سے چار جماعتیں پڑھی تھیں، کبھی وہ حبیب کی ہم جماعت رہی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کو جانتے تھے کہ بچپن ساتھ گزرا تھا۔ بچپن کی شناسائی کی وجہ سے یہ لڑکی دوڑ کر میرے بھائی کی طرف آئی اور اس سے ہم کلام ہو گئی۔ پوچھنے لگی حبیب اب تم کیسے ہو اور کہاں ہوتے ہو۔ اس نے جواب دیا۔ میں جہاں بھی ہوتا ہوں۔ تم سے کیا سروکار تم گھر کے اندر جاؤ۔ اگر تمہاری ماں یا کسی رشتے دار نے تم کو باتیں کرتے دیکھ لیا تو وہ برا منائیں گے۔ کیوں برا منائیں گے۔ کیا ہم نے کسی کی چوری کی ہے؟ تم کو قسم ہے سچ بتاؤ کہ تم کہاں ہوتے ہو میں شہر میں کام سیکھ رہا ہوں ۔ اس کے بعد کیا واپس گاؤں آجاؤ گے۔ نہیں بس دبئی چلا جاؤں گا۔ دبئی گاؤں والوں کے لئے بڑے اعزاز کی علامت تھا۔ گاؤں سے اکثر بے روز گار لوگ دبئی یا پھرسعودی عربیہ جاتے تھے۔ وہ وہاں محنت مزدوری کرتے لیکن جب لوٹتے، اپنے گھر والوں کے لئے انواع و اقسام کے تحفے لاتے اور دبئی کی کمائی سے اپنے مالی حالات سدھارنے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ صورت بی بی کا آئیڈیل بھی ایک ایسا ہی نوجوان تھا جو دبئی یا سعودی عربیہ میں کام کرتا ہو اور ریالوں میں تنخواہ لیتا ہو اور جب وہ واپس آئے تو اس کا سوٹ کیس تحفوں سے پر ہو۔ اس نے فوراً حبیب کو اپنا آئیڈیل بنا لیا جو مستقبل میں دبئی کو پرواز کرنے والا تھا۔ اب بہانے بہانے سے یہ لڑکی ہمارے گھر کے چکر لگانے لگی، خاص طور پر جمعہ کے دن جب حبیب شہر سے آیا ہوتا- میں صورت بی بی کی بیتابی سمجھ چکی تھی، لیکن اسے بے آس نہیں کرتی تھی- ۔ وہ جب آتی میں پیار سے بات کرتی اور اس کی خاطر مدارات بھی شربت اور کبھی میٹھے چاولوں سے کرتی۔ وہ مجھ سے بہت خوش ہو کر ملتی تھی ۔ گرچہ ساری توجہ اس کی حبیب کی طرف رہتی تھی مگر میرا بھائی لحاظ والا تھا، وہ شریف طبع تھا۔ گاؤں کی لڑکیوں سے دور دور رہتا۔ کوئی خود بات کرتی تو بس سلام دعا کی حد تک کلام کر کے چلا جاتا۔ یہ بات سب کو پتا تھی کہ حبیب ایسا نہیں ہے لیکن جب سے صورت ہمارے گھر کے چکر لگانے لگی تھی اس کی ماں کو شک ہو گیا ، ضرور اس کی بیٹی کا حبیب سے کچھ معاملہ ہے کیونکہ ہر جمعہ کو حبیب جب نماز پڑھنے نکلتا تو صورت بی بی اپنے دروازے پر کھڑی ملتی اور اس سے بات کرنے گئی کوشش کرتی۔ وہ اخلاق کے مارے اس کے ایک آدھ سوال کا جواب دے دیتا اور آگے بڑھ جاتا۔

اس روز بھی ایسا ہی ہوا۔ جب میرا بھائی ماسی صوبی کے گھر کے سامنے سے گزر رہا تھا تو منتظر لڑکی دوڑ کر اس کی جانب آئی آج اس کے ہاتھ میں گلاب کا پھول تھا جو اس نے کیاری سے توڑا تھا وہ اس نے آنا فانا حبیب کے ہاتھ میں تھما کر کہا۔ لو اسے سونگھو دیکھو کتنی پیاری خوشبو ہے۔ ابھی یہ بات ہوئی تھی کہ سامنے سے صوبی ماسی کے بھائی اور شوہر نمودار ہوئے۔ انہوں نے جو اپنی بیٹی کے قریب حبیب کو دیکھا تو غضب ناک ہو کر اسے للکارا اوے لڑکے تو یہاں ہمارے گھر کے سامنے کیوں کھڑا ہے۔ ان کی للکار سن کر حبیب ڈر گیا اور جو پھول صورت نے اسے دیا تھا وہ اس نے زمین پر پھینک دیا اور خود دوڑتا ہوا گھر کولوٹ آیا۔ ان مردوں نے زمین سے پھول اٹھا لیا اور لڑکی سے سوال کیا کہ یہ پھول کیا حبیب نے تمہیں دیا تھا وہ بولی ہاں وہ دینا چاہتا تھا لیکن آپ لوگوں کی آواز سن کر اس نے پھول پھینک دیا اور وہ بھاگ گیا۔ لڑکی نے اپنا کیا میرے بھائی پر ڈال دیا۔ اس طرح اس نے اپنی جان بچالی مگر یہ ان پڑھ گنوار لوگ میرے بھائی کے پیچھے پڑ گئے۔ انہوں نے اعلان کر دیا کہ حبیب اگر ان کو نظر آیا تو وہ اس کو گولی ماردیں گے۔ انہوں نے میرے والد صاحب کو بھی بلا کر دھمکیاں دیں کہ اپنے بیٹے کی شکل یہاں سے گم کرو۔ ورنہ تمہاری ہماری دشمنی نسلوں تک چلے گی، والد صاحب گھبرا گئے ، حبیب ان کا اکلوتا بیٹا تھا وہ کسی صورت اسے کھونا نہ چاہتے تھے لہذا انہوں نے استاد جی سے بات کی اس نے کہا آپ فکر نہ کریں، اس نے کافی کام سیکھ لیا ہے، میں اس کو اپنے دوست کے پاس دبئی بھجوا دیتا ہوں۔ حبیب دبئی چلا گیا، میں اپنے بھائی کے لئے اداس رہنے لگی۔ امی بھی رات دن اس کی خیر و عافیت کی دعائیں کرتی تھیں کہ خدا کرے میرا بیٹا پردیس میں خیریت سے ہو۔ وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ تین سال گزر گئے حبیب نے دبئی میں اچھا خاصا کمالیا وہ ہر ماہ امی ابو کو رقم بھیجوا تا رہا۔ اس رقم سے والد صاحب نے اپنا کچا مکان پکا کر والیا اور ہمارے مالی حالات بہت بہتر ہو گئے۔ امی کا خیال تھا جب میرا بیٹا لوٹے گا تو اس کا سہرا سجانے کا اہتمام کروں گی ، اس غرض سے انہوں نے اپنی بہن خالہ عشرت سے بات کر لی تھی جن کی بیٹی سے امی حبیب کی شادی کرنا چاہتی تھیں ۔ انتظار کی گھڑیاں طویل سہی ختم ہو جاتی ہیں۔ آخر وہ دن آگیا جس دن کے ہم سب منتظر تھے۔ حبیب کا دبئی سے فون آیا کہ وہ فلاں دن گھر پہنچ رہا ہے۔ امي خوشی سے نہال تھیں۔ میں بھی پھولی نہ سماتی تھی کہ اتنے عرصے بعد میرا بھائی مالدار ہو کر لوٹ رہا تھا۔ ہم غریبوں کے لئے زندگی کی تھوڑی سی آسائشیں ہی مالدار ہونے کا احساس بخش دیتی ہیں ۔ حبیب کے لوٹ آنے کی خوشی میں والدہ نے میٹھے چاول بنا کر مسجد میں تقسیم کرائے اور پاس پڑوس میں بھی بھجوائے۔ میرے والدین نے سمجھا کہ گلاب کے پھول والا قصہ پرانا ہوچکا ہے۔ لہذا انہوں نے ماسی صوبی کے یہاں بھی میٹھے چاولوں کی پلیٹ بھجوا دی۔ انہوں نے چاول لے لئے، اور شام کو ماسی خود طشتری لوٹانے آئیں ، مبارک باد بھی دی کہ حبیب خیر سے لوٹ آیا تھا۔ جب صورت بی بی کو خبر ہوئی کہ میرا بھائی آچکا ہے تو وہ کسی طرح اس کے دیدار کو تڑپنے لگی۔ کسی بہانے سے ہمارے گھر آگئی، تب میں اس کی جرات پر حیران ہوئی ، میں نے کہا صورت تم کو نہ آنا چاہئے تھا۔ کیا تم چاہتی ہو کہ جو دشمنی مردوں میں تمہاری وجہ سے ہوتے ہوتے رہ گئی تھی۔ وہ قصہ دوبارہ جوان ہو جائے ، خدارا اب تم ہمارے گھر سے دور رہو۔ کہیں تمہارے کارن خون خرابہ نہ ہو جائے۔ اس نے میری بات کا برا مانا۔ بولی ٹھیک ہے آج آئی ہوں دوبارہ نہ آؤں گی ہاں تمہاری بڑی مہربانی ہوگی۔ میں اپنے اکلوتے بھائی کے پیچھے بندوق اور گولی کا کوئی واقعہ نمودار ہوتے نہیں دیکھنا چاہتی۔ حبیب گھر پر نہیں تھا۔ وہ منہ بسور کر چلی گئی۔ اس کے ذہن سے میرے بھائی کا خیال چپک گیا تھا، شاید اسے اپنے دل پر قابو نہ تھا۔ وہ پھر سے پہلے کی طرح حبیب کی منتظر رہنے لگی تھی۔ بار بار اپنے دروازے سے جھانکتی، شاید وہ ادھر سے گزرتے ہوئے نظر آجائے۔ جب کوئی کسی کی اتنی زیادہ جستجو کرتا ہے تو اس کی تمنا بر آتی ہے۔ ایک روز مغرب کے وقت حبیب اپنے کسی دوست سے مل کر گھر آرہا تھا جونہی وہ ماسی صوفی کے گھر کے آگے سے گزرا۔ اسی وقت صورت چھلاوے کی طرح دروازے سے باہر آگئی۔ جانے وہ کب سے منتظر کھڑی تھی یا پھر یہ اتفاق تھا۔ بہر حال اس نے حبیب کو دیکھا تو بے اختیار اسے پکار لیا۔ حبیب نہ رکا لیکن ماسی صوبی نے بیٹی کی آواز سن لی اور وہ گھر سے نکل کر دروازے سے باہر آگئی۔ حبیب آگے بڑھ گیا تھا لیکن بے قرار بیٹی اس کے ہاتھ آگئی۔ ماسی صوبی نے جوتا اتار کر لڑکی کو مارنا شروع کیا اسے مارتی ہوئی اندر لے گئی۔ بولی۔ بد بخت کس کس کی موت کو آواز دینا چاہتی ہے۔ خود تو تو مرے گی ہی۔ اس روز پانی لگانے کی باری صورت کے باپ اور بھائی کی تھی یہ دونوں گھر سے کافی دور اپنے زمیندار کے کھیتوں کو سیراب کرنے گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے تین روز بعد گھر لوٹنا تھا۔ صورت کے لئے یہ بے خوفی اور آزادی کے دن تھے۔ لیکن ماں نے اس کی ایک نہ چلنے دی اور اس کو کمرے میں بند کر دیا۔ بد قسمتی سے جس کمرے میں صورت بند تھی ۔ اس کی دیوار میں ایک کھڑکی بھی تھی جو ان کے گھر کے عقبی طرف کھلتی تھی۔ اس طرف میدان تھا جہاں گاؤں کے لڑکے بھی کبڈی اور کرکٹ کھیلتے تھے۔ اس روز ان کا کرکٹ میچ تھا دولڑ کے ہمارے دروازے پر آئے اور میرے بھائی کو خاص طور پر اپنا میچ دیکھنے کے لئے مدعو کر گئے ۔ وہ پرانے دوستوں کے اصرار کی وجہ سے میچ دیکھنے چلا گیا۔ میچ ختم ہو گیا اور لڑکے میدان سے چلے گئے تو حبیب بھی گھر کی طرف آنے لگا تبھی اس کو کسی نے آواز دی حبیب حبیب ادھر دیکھو اس طرف آجاؤ۔ اس نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا سامنے کھڑکی کا پٹ نیم وا تھا اور صورت بی بی اس میں سے جھانک رہی تھی۔ بھائی ٹھٹک کر ٹھہر گیا۔ ابھی تک اس کی سمجھ میں نہ آسکا تھا کہ کون اس کو پکار رہا ہے، تبھی وہ لڑکی کھڑکی کے اندر لگی زنجیر کھولنے میں کامیاب ہوگئی اور آنا فانا کود کر باہر نکل آئی۔ ماسی صوبی اپنے کمرے میں سورہی تھی ، وہ شوگر کی مریضہ تھی اور کافی موٹی تھی تھوڑا سا کام کاج کر کے تھک جاتی تھی۔ وہ تو گھر کو تالا لگا کر اطمینان سے سوئی تھی کہ اب بیٹی باہر نہ جاسکے گی مگر پاگل صورت بی بی میرے بھائی کی محبت میں عاقبت نا اندیش ہو چکی تھی- اس نے کچھ نہ سوچا دوڑ کر حبیب کی طرف آگئی۔ اس کو یوں یکایک سامنے دیکھ کر وہ گھبرا گیا۔ اس نے کہا واپس گھر لوٹ جاؤ اس سے پہلے کہ کوئی تم کو یہاں میرے ساتھ میدان میں دیکھ لے۔ ابا اور بھائی کھیتوں میں پانی لگانے گئے ہیں، اب کسی کا ڈر ہے ماں سو چکی ہے۔ تم دو گھڑی بات کرلو۔ پھر ایسا موقع نہیں ملے گا تم کو خدا کا واسطہ حبیب میں تمہارے لئے بہت بے چین ہوں۔ ایک لمحے کو بات سن لو۔ تین سالوں سے میں تمہارا انتظار کر رہی تھی۔

حبیب کو اس لڑکی سے محبت نہ تھی ، مگر اس کے والہانہ انداز کی وجہ سے وہ مزید گھبرا گیا کہ کہیں پاگل پن میں یہ کوئی غلط قدم نہ اٹھالے اور اس کو بڑی مصیبت میں ڈال دے۔ میں تم سے کسی محفوظ جگہ پر ملوں گا لیکن اب تم جاؤ خدا کے لئے ۔ یہ کھلا میدان ہے پاس پڑوس والوں میں سے کسی نے دیکھ لیا تو بے پر کا کوا بن جائے گا اور تمہارے رشتے دار کلہاڑیاں لے کر میرے سر پر پہنچ جائیں گے۔ جس بات کا ڈرزیادہ ہو وہ ہو بھی جاتی ہے۔ جب حبیب یہ بات کہہ رہا تھا اسی وقت ماسی صوبی کی ایک پڑوسن ادھر آنکلی وہ اس طرف اپنی بکری تلاش کرتی آگئی تھی، اس نے جو ان کو بات کرتے دیکھا تو ششدر رہ گئی۔ لڑکی تم دن دھاڑے اس کے ساتھ عشق و عاشقی میں مشغول ہو۔ تم کو اپنے باپ اور بھائی کی عزت کا بھی پاس نہیں ہے۔ ٹھہرو میں ابھی جا کر بتاتی ہوں تمہاری ماں کو پہلے بھی یہ قصہ سارے گاؤں میں مشہور ہوا تھا اور اب پھر تم لوگ اسی رستے پر چل رہے ہو جانتی ہو اس محبت کا انجام؟ وہ عورت اپنی گمشدہ بکری بھلا کر ایک نئے کام میں مشغول ہوگئی۔ حبیب پریشان حال گھر آگیا، اس نے مذکورہ عورت زینت کی منت بھی کی کہ خالہ خدا کے لئے کسی نے ذکر نہ کرتا۔ میں نے صورت بی بی کو نہیں بلایا۔ یہ خود آئی تھی لیکن وہ پیٹ کی ہلکی تھی ، اس نے ساری بستی میں یہ بات پھیلا دی کہ حبیب صورت کو دن دھاڑے بھگا کر لے جارہا تھا۔ یہ تو میں سر پر پہنچ گئی ورنہ آج یہ دونوں بستی سے غائب ہو چکے تھے۔ ماسی صوبی کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی وہ جانتی تھی یہ خبر اس کے شوہر اور بیٹوں کو ضرور ملے گی اس کے بعد کا منظر وہ تصور نہ کر سکتی تھی۔ تبھی آنے والی قیامت سے بچنے کے لئے وہ ہمارے گھر آئی اور حبیب کو ایک طرف کونے میں لے جا کر بولی۔ آج رات عشاء کے بعد میرے گھر آنا تم سے ایک بات کرنی ہے۔ حبیب پاگل نہ تھا کہ اس چلتر باز کے جھانسے میں آجاتا۔ اس نے عافیت اسی میں جانی کہ وہ اسی وقت اپنے ماموں سے ملنے کے بہانے ساتھ والے گاؤں چلا گیا۔ ماسی صوبی نے گھر کے دروازے پر چار پائی بچھالی۔ اب وہ اس انتظار میں تھی کہ کب حبیب ادھر سے گزرے اور وہ اس کے لتے لے۔ ایک دن ماموں کے گھر رہ کر وہ رات کو دیر سے گھر لوٹ رہا تھا کہ کتوں نے بھونکنا شروع کر دیا۔ وہ ان سے بچنے کو تیز تیز چلا تو وہ بھی اس کے پیچھے لپکے تبھی بوکھلا کر وہ راستے کے بیچ پڑی ماسی صوبی کی چار پائی سے ٹکرا گیا۔ ماسی شاید اس وقت غنودگی کے عالم میں تھی، اچانک چارپائی کو دھکا لگا تو بوکھلا کر چیخ ماری اور حبیب کا گریبان پکڑ لیا۔ وہ بے چارا خود کو چھڑاتے ہوئے چارپائی پر جا گرا۔ ماسی صوبی نے ایسا ہنگامہ کیا کہ ساتھ والے گھروں سے مرد نکل آئے، سبھی نے یک زبان ہو کر پوچھا۔ کیا ہوا بھئی کیا ہو گیا۔ ماسی نے فریاد کی کہ اس نابکار حبیب کو حوالہ پولیس کرو شاید کہ اس نے میری بیٹی سے چوری چھپے ملاقات کا پروگرام بنایا ہوگا تبھی یہ میری چار پانی سے ٹکرا گیا اور مجھے پر گر گیا۔ حبیب نے لاکھ کہا کہ اس کو کتوں نے بوکھلا دیا تھا، اندھیرے میں چار پائی دکھائی نہ دی۔ تبھی ٹکرا گیا تھا کتوں کے بھونکنے کی آواز تو پڑوسیوں نے بھی سن لی تھی تبھی ان میں سے ایک نے کہا صاحبہ خاتون ، حبیب سے تو ہم نمٹ لیتے ہیں تم یہ بتاؤ کہ رات کے وقت تم نے کیوں دروازے سے باہر چارپائی بچھا رکھی تھی ۔ گھر سے باہر نکل کر سونے کا کیا مطلب تھا؟ میں اپنے گھر کی حفاظت اور نگرانی کر رہی تھی، شوہر اور بیٹے گھر پر نہ ہوں اور حالات مشکوک ہو جائیں تو کیا کرنا چاہئے ۔ آپ خود سوچیں گھر میں اکیلی جوان بیٹی ہے اور حبیب نے جیسے میرا گھر تاک رکھا تھا۔ ایک پڑوسی سیانہ تھا اس نے عورت کو سمجھایا کہ تم غلط طریقے پر چل رہی ہو یہ گزرگاہ ہے ادھر کسی عورت کا چار پائی ڈال کر سونا بری بات ہے، بے شک دروازہ اپنا ہی کیوں نہ ہو لیکن ہم کو اعتراض ہے تم آئندہ یہاں مت سونا۔ بات بڑھانے کی بجائے ان لوگوں نے حبیب کو کہا کہ تم آئندہ عشاء کے بعد ادھر سے مت گزارنا ورنہ ہم تم کو مجرم سمجھ لیں گے اور پھر جانتے ہو اس لا پروائی کا انجام- میرا بھائی بے چارہ جان بچا کر بھاگا کہ وہ سخت مشکل میں گھر گیا تھا بنا کسی قصور کے ایک بڑی سزا اس کے لئے تیار تھی۔ لوگ انجام سے بے پروا بس چسکے میں اکثر ایسی الٹی سیدھی باتیں کر جاتے ہیں جو کسی شخص کو موت کی وادی کی طرف بھی لے جاتی ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ہونے والا تھا۔ کیونکہ… جب ماسی صوبی کے بیٹے اور شوہر گھر لوٹے ۔ کسی طرح کچھ بد خواہوں نے بے پر کی بھی اڑا دی۔ معاملہ ان کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا۔ پڑوسی فساد کے خوف سے چپ تھے کیونکہ انہوں نے حبیب کو کسی لڑکی سے بات کرتے نہ دیکھا البتہ ماسی صوبی اور چار پائی والا معاملہ طشت از بام ہو گیا۔ ماسی کے شوہر نے باز پرس کی تو اس نے صحیح بات بتادی کہ گھر کی حفاظت کے خیال سے چار پائی باہر بچھائی تھی۔ حبیب کو رات کے اندھیرے میں دکھائی نہ دی وہ ٹھوکر کھا کر اوندھے منہ چار پائی پر گر گیا تو میں نے ڈر کر شور مچا دیا۔ شوہر نے آنکھیں نکال کر کہا۔ حبیب اتنی رات گئے ادھر کیوں آیا تھا۔ وہ گھر سے ادھر نہیں آیا تھا۔ بلکہ ماموں کے گاؤں سے گھر جارہا تھا کہ کھیتوں کے کتوں نے اس کو ہراساں کیا۔ بھاگتے ہوئے ٹھوکر لگ گئی۔ بیوی کے بیان کا یقین کرتے ہوئے اس کا خاوند تو چپ ہو گیا مگر گاؤں میں چار پائی سے ٹھوکر ایک کہانی بن گئی کچھ بدزبانوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ حبیب ماسی صوبی کی عزت خراب کرنے اس کی چارپائی پر جان بوجھ کر گرا تھا- کسی کے منہ پر کون ہاتھ رکھ سکتا ہے۔ حالانکہ یہ تو سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ حبیب اپنی ماں جیسی عمر والی عورت کے ساتھ بدنیتی کا ناٹک کرے گا۔ ان حالات کی وجہ سے ابا مجبور ہو گئے کہ وہ اپنے اس گاؤں کو خیر باد کہہ دیں جہاں ان کے آبا و اجداد کی قبریں تھیں۔ میرے والد یہاں پیدا ہوئے پلے بڑھے اولاد والے ہو گئے تھے۔ ہم لوگوں نے بھی اسی جگہ جنم لیا تھا، ہم کو اپنے گاؤں سے بہت محبت تھی لیکن مجبوری تھی ، گاؤں نہ چھوڑتے تو کل جانے کیا ہو جاتا کیونکہ گاؤں میں اگر ایک بار کسی کی عزت خراب ہو جائے تو پھر لوگ اس کو مشکوک جان لیتے ہیں اور اس پر اعتبار نہیں کرتے۔ ہمارا گھر بار چھوٹا ، کھیت کھلیان اونے پونے ابا نے بیچ دیئے ، پھر ہم وہاں سے کوچ کر کے ماموں والے گاؤں میں جا کر آباد ہو گئے۔ جس روز ہم جا رہے تھے صورت بی بی اپنے دروازے میں کھڑی جھانک رہی تھی، وہ بڑی حسرت اور دکھ سے ہمیں جاتے دیکھ رہی تھی۔ اس وقت بھائی کے چہرے پر بھی افسردگی تھی۔ کاش صورت بی بی کو عقل ہوتی تو ہم کو اپنا گاؤں نہ چھوڑنا پڑتا ۔ دل کی لگی ہے ہی ایسی چیز کہ اس میں عقل جاتی رہتی ہے۔ آج بھی اپنے گاؤں کے درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں اور اپنا گھر بار یاد آتا ہے تو دل کو ٹھیس سی لگتی ہے، ایک ہم جولی سے سنا تھا کہ صورت بی بی کی شادی ہو گئی ہے لیکن وہ ابھی تک میرے بھائی کو یاد کر کے اداس ہو جاتی ہے-

Latest Posts

Related POSTS