Sunday, December 15, 2024

Din Badal Jatey Hain

یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب برصغیر پر انگریزوں کا راج تھا۔ پھر آزادی کی تحریک چلی اور ہندو مسلم اتحاد کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ اسی دوران ہمارے پڑوس میں ایک گھرانا آباد ہوا، ان کی بڑی بیٹی نوراں میری ہم جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ دوست بن گئی۔ یہ چار بہن، بھائی تھے، دو بیٹے اور دو بیٹیاں۔ اس کے والد قائداعظم کے ساتھ مسلم ہند و اتحاد کے زبردست حامی تھے۔ اچانک سوچ کی فضا بدلی۔ دو قومی نظریہ اجاگر ہوا اور ہندو مسلمان علیحدہ علیحدہ ہو گئے پھر جنگ شروع ہوگئی۔ اس فساد میں میری سہیلی کے ابو بھی شہید ہو گئے اور ان کے سر سے باپ کی شفقت کا سایہ اٹھ گیا، یہ لوگ در بدر ہو گئے۔ نور کا بڑا بھائی ایک روز ہمارے گھر آیا۔ اس وقت گھر پر میں اکیلی تھی۔ دروازہ کھولا تو سامنے ایک خوبرو نوجوان کھڑا تھا۔ چند سیکنڈ ہم مبہوت ایک دوسرے کو دیکھتے رہ گئے۔ وہ واقعی مثل یوسف تھا۔ اس کا نام کامران تھا۔ کہنے لگا آپ کے والد صاحب سے ملنا ہے۔ نور نے بتایا ہے کہ انکل کا بہت بڑا کاروبار ہے۔ چاہتا ہوں کہ وہ میری کہیں نوکری لگوادیں۔ وہ صرف میٹرک پاس تھا اور میں ان دنوں میٹرک کی طالبہ تھی۔ اپنے تئیں اچھے برے کی تمیز کرسکتی تھی اور شعور کی منازل میں قدم رکھ چکی تھی۔ والد صاحب میری ہر بات مانتے تھے کیونکہ مجھ سے محبت کرتے تھے۔ میں نے کامران سے کہا امی ابو کہیں گئے ہوئے ہیں تم شام کو آجانا۔ اس نے میرے کہے کی تکمیل کی۔ کامران کے جانے کے گھنٹے بعد والدین آگئے۔ میں نے مختصراً اس کے بارے میں بتادیا۔ شام کو وہ پھرآیا ، اب کہ ہاتھ میں اسناد بھی تھیں۔ والد صاحب نے چند سوالات پوچھنے کے بعد اسے نوکری پر رکھ لیا۔ اب وہ روز ہمارے گھر آتا کیونکہ بابا جان کا ملازم تھا۔ دکان کا کام کرتا اور گھر کا سوداسلف بھی لا دیتا۔ کچھ دن گزرے کہ گھنٹی بجی۔ اتفاقاً امی ، ابو آج بھی کہیں گئے ہوئے تھے۔ میں نے در کھولا تو کامران تھا۔ جی کامران کیا بات ہے؟ بڑے صاحب نے بلایا تھا۔ ابو تو باہر گئے ہیں، شاید تم نے آنے میں کچھ دیر کر دی۔ وہ جانے کو پلٹا۔ ٹھہروہ پنکھا اٹھا کر میرے کمرے میں رکھ دو، یہ ذرا بھاری ہے۔ میرے کمرے کی چھت والا پنکھا نہیں چل رہا۔ جب اس نے پیڈسٹل فین برآمدے سے اٹھا کر کمرے میں رکھا، اسے اندازہ ہو گیا میں گھر میں بالکل اکیلی ہوں۔ پنکھا چلانے کے بعد بولا … بس بی بی جاؤں یا کچھ اور کام ہے؟

ہاں کچھ کام تو ہے۔ میں نے سوچتے ہوئے جواب دیا- میرے لبوں پر مسکراہٹ تھی وہ بھی مسکرا دیا۔ کامران سمجھ چکا تھا کہ میں اسے پسند کرتی ہوں۔ اس نے بے ساختہ پوچھا کیا تم مجھ سے شادی کروگی ؟ میں اس سوال کیلئے تیار نہ تھی۔ تم ایسا کیسے کر سکتے ہو؟ یہ مجھ پر چھوڑ دو، صرف اپنی مرضی بتا دو۔ ہاں کروں گی اگر تم میرے ابو کو راضی کر لو۔ اس نے میری بات گرہ میں باندھ لی۔ پانچ سال تک میرے والد کی دکان پر کام کیا، ایمانداری سے، دن رات محنت کر کے ثابت کر دیا کہ وہ ایک اچھا انسان ہے- ۔ والد صاحب کو اس کی محنت سے بہت کاروباری فائدہ ہوا اور ان کے دل میں کامران کیلئے ایک خاص مقام اور جگہ بن گئی۔ تب ایک روز نور اور اس کی امی آئیں، والدین سے میرے رشتے کیلئے استدعا کی۔ وہ ہمارے اچھے پڑوسی تھے۔ جب سے ہمارے مکان کے پہلو میں آکر آباد ہوئے تھے، انہوں نے کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا تھا. تاہم والدین کامران کو داماد بنانے سے جھجھک رہے تھے۔ انہوں نے نور کی والدہ کو یہی جواب دیا کہ فی الحال ہمارا ایسا ارادہ نہیں ہے کیونکہ صبیحہ کے رشتے خاندان میں موجود ہیں۔ اگرغیروں میں شادی کر دی تو قریبی رشتہ دار ناراض ہو جائیں گے۔ یہ ماں بیٹیاں مایوس ہو کر چلی گئیں۔ اگلے روز دونوں دوبارہ ہمارے گھر آئیں اور کامران کی ماں نے امی کے پاؤں پکڑ کر کہا کہ میرا بیٹا گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے، آپ کے انکار سے اسے بہت صدمہ ہوا ہے۔ خدارا میری درخواست پر دوبارہ غور کریں تا کہ میرا بیٹا مجھے واپس مل جائے۔ والد صاحب کامران کو پسند تو کرتے تھے، بس مالک اور ملازم والا فاصلہ تھا، تاہم کامران ایک اچھے خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ تھوڑے سے غورو خوض کے بعد ابو کو اس رشتے میں کوئی قباحت نظر نہ آئی۔ سوچا لڑکا دیانتدار ہے اور میری اولاد نرینہ بھی نہیں ہے۔ بہتر ہے اس کو گھر داماد بنالوں، میرے بعد شاید یہی میرے کنبے کو سنبھال لے۔ انہوں نے رشتے کیلئے ہاں کہہ دی۔ بہت خوش تھی ، اللہ نے میری دلی مراد پوری کر دی تھی اور کامران نے بھی اللہ تعالی پر مکمل بھروسہ کر کے جو محنت میری خاطر کی تھی اس کا ثمر اسے مل رہا تھا۔

چھ ماہ بعد شادی ہوگئی۔ والد صاحب کا ایک مکان قریب ہی تھا جو خالی پڑا تھا، انہوں نے وہ مجھے لکھ دیا۔ تاہم میں فی الحال اپنی والدہ کے ہمرا رہی تھی۔ سسرال میں تو ہفتہ میں دو، تین دن رہتی تھی۔ زیادہ تر ابو امی کے گھر قیام تھا۔ شریف لوگ تھے کچھ نہ کہتے تھے۔ وقت تیزی سے گزرتا گیا۔ میرے والد وفات پاگئے ۔ اب تمام کاروبار کامران سنبھالتے تھے۔ امی اور میری بہن کو خاطر خواہ رقم دیتے اور امی کا بہت خیال رکھتے تھے۔ میری شادی کو دس برس بیت گئے۔ پر سکون زندگی جی رہی تھی۔ دو بچے بھی ہو گئے ۔ رفتہ رفتہ میرے سسرال والوں کی زندگی بھی خوشحالی کی منازل طے کرتی گئی۔ وہ بہت امیر ہو گئے۔ ان کی امارت میں جہاں میرے خاوند کی مدد شامل تھی وہاں ان کی اپنی محنت بھی شامل تھی۔ کامران کے بھائی اور بھتیجوں نے بہت زیادہ محنت کی تھی اور بہنوں نے بھی مشقت کے دن خوب صبر سے گزارے تھے۔ اب خوشحالی کا دور آچکا تھا۔ کہتے ہیں کہ انسان کو زیادہ دولت حاصل ہو جائے تو مزاج کا بدلنا بھی لازمی ہے۔ دولت آدمی کو بدل دیتی ہے۔ وہ مغرور ہو جاتا ہے۔ کسی حد تک یہ سچ بھی ہے۔ اللہ تعالی مفلس کے زیادہ نزدیک ہوتا ہے اور خوشحالی میں اکثر انسان اللہ کی یاد کو بھلا دیتا ہے۔ ایسا ہی کچھ معاملہ کامران اور ان کے بھائی اور بھتیجوں کے ساتھ ہوا۔ دولت نے ان کو مغرور بنا دیا، اب وہ غریبوں کی داد رسی کرنے کی بجائے ان کو جھڑکنے لگے۔ یہ بات کامران کی امی اور میری والدہ کو پسند نہ آتی۔ وہ ان کو سمجھاتی تھیں کہ دیکھو دولت تو آنی جانی شے ہے، اصل بات تو یہ ہے کہ آدمی خوشحال ہو کر بھی اللہ تعالیٰ کو نہ بھولے اور اس کی مخلوق کا خیال رکھے۔ کم ہی لوگ ہوتے ہیں جو دولت پاکر آپے میں رہیں، زیادہ تر انسان جو بہت خوشحال ہو جاتے ہیں ان کو غریبوں کا احساس نہیں رہتا۔ ہمارے گھر کے نزدیک ایک بڑا اسپتال تھا جہاں اکثر غریب مریض آیا کرتے تھے۔ والد صاحب ان میں سے ضرورت مندوں کی وقتا فووقتا مدد کر دیا کرتے تھے، خاص طور پر اگر ان کو دوا لینے میں غربت آڑے آتی تو دوائیں لے دیتے۔ وہ دعائیں دیتے تھے۔ والد کی وفات کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ کچھ عرصہ امی اور کامران نے ابو کی اس روایت کو قائم رکھا لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا کامران کچھ غفلت کرنے لگے اور ان کے بھائی بھی ضرورت مند مریضوں کو گداگر جان کر حقارت سے جھڑک دیا کرتے تھے، تب امی اور ہماری ساس ان کو ٹوکتیں کہ اگر امداد نہیں کرتے تو ترش لہجے میں بھی ان سے بات نہ کیا کرو بلکہ نرمی سے منع کر دیا کرو۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ عادی مانگنے والے ہوتے ہیں ، نرمی سے کب مانتے ہیں اور جان سے چمٹ جاتے ہیں۔ ایک دن ایک عورت نے دکان پر جا کر کامران اور ان کے بھائی سے کہا کہ میرا بیٹا اسپتال میں داخل ہے اور وہ کینسر کا مریض ہے، خدا کیلئے مجھے دس ہزار کی رقم دے دیں تا کہ اس کا آپریشن کرا سکوں۔ میرے دیور نے اس کو غصے سے کہا۔ دفع ہو جاؤ تم روز مانگنے آجاتی ہو۔ خبرنہیں تمہارا بیٹا بیمار ہے بھی کہ بہانے سے رقم لے جاتی ہو۔ ان کی جگہ میرے والد ہوتے تو اس عورت کے ہمراہ خود اسپتال چلے جاتے اور پوری تحقیق کرتے۔ اگر واقعی یہ سخت ضرورت مند ہوتی تو کچھ نہ کچھ مدد ضرور کرتے۔ یہی ان کا وطیرہ اور مدد کرنے کا طریقہ تھا کہ مستحق کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتے تھے تب ہی اللہ تعالیٰ نے کاروبار میں اس قدر برکت ڈال دی تھی۔ بہرحال ہر کسی کا اپنا اپنا طریقہ اور مزاج ہوتا ہے، جب اس عورت کو ڈانٹ کر دونوں بھائیوں نے دکان سے بھگا دیا تو وہ آنسوگراتی مایوس لوٹ گئی۔

گھر آ کر کامران نے امی سے کہا کہ ایک عورت تو بس اسپتال سے روز ہی آجاتی تھی بیٹے کیلئے دوا کے پیسے مانگنے لگتی تھی۔ آج میں نے اور ذیشان نے اس کو ڈانٹ کر بھگا دیا ہے۔ اب نہیں آئے گی۔ امی نے کہا بیٹا بھڑکنے سے پہلے اسپتال جا کر اس کے بیٹے کی حالت دیکھ لیتے ۔ اللہ نے بہت دیا ہے۔ ایسے ضرورت مند کو جھڑک کر اس کی دل آزاری کرنا ٹھیک نہیں ہوتا۔ اماں جی آپ بھی بس اگلے وقتوں کی ہیں ، آپ کو کیا خبر کیسے کیسے ٹھگ یہاں گدا گر بن کر پھرتے ہیں۔ میں گداگری کی حمایت نہیں کر رہی مگر معاملے کو اگر دیکھ لیا جائے تو کسی واقعی مستحق کی مدد بھی تو ہو جاتی ہے، اس سے اللہ خوش ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کو اس کی مدد منظور ہوگی تو ضرور کہیں اور سے بھی ہو جائے گی، کامران نے غرور سے کہا ایک ہم ہی رہ گئے ہیں سارے جہاں کے دکھ سمیٹنے والے، اس پر ماں چپ ہو گئیں۔ اس واقعے کے ایک ماہ بعد ایک روز کامران نے اپنے گال کے اندر کچھ سوزش محسوس کی۔ پہلے تو پروانہ کی پھر جب یہ محسوس کیا کہ دانہ سا ہے اور درد کرتا ہے تو ڈاکٹر کو دکھایا۔ اس نے بائیوپسی کرانے کو کہ دیا۔ رپورٹ آئی تو پتہ چلا کہ کینسر کا دانہ ہے۔ بہت گھبرائے اور سارا گھر ہی پریشان ہو گیا کہ ناگہانی مصیبت کہاں سے ٹوٹ پڑی ہے۔ جب پہلے میں نے کہا کہ ڈاکٹر کو دکھائیے، آخر گال کے اندر کیوں درد ہوتا ہے تو کہتے تھے کہ بھئی ذرا سا دانہ ہی تو ہے کوئی ایٹم بم تو نہیں ہے، خود بہ خود ٹھیک ہو جائے گا اور اب تو واقعی یہ ایٹم بم ہی بن گیا تھا، ذرا سا دانہ- یہ بھی اسپتال کے چکر لگا ر ہے تھے کہ ان کی امی جان کو شوگر کی وجہ سے پیر میں تکلیف ہو گئی۔ زخم بن گیا اور علاج سے ٹھیک نہ ہوا تو پیر سے محروم ہونا پڑا ۔ اب روزانہ ان کو خون کی ایک بوتل لگتی تھی جو کہ ان کے چاروں بچے ایک ایک دن کر کے دیا کرتے تھے۔ امی بھی ان کے پاس اسپتال میں ہوتی تھیں۔ آخر کا روہ بے چاری اسی بیماری سے وفات پاگئیں۔ ان کی وفات کے بعد ذیشان بھائی کی بیوی نے ایک بچی کو جنم دیا جو بہت کمزور پیدا ہوئی اور بیمار رہنے لگی۔ تین ماہ تک مسلسل علاج کراتے رہے، ایک روز زیادہ طبیعت خراب ہو گئی تو جناح ہسپتال لے گئے، پتا چلا بچی کے دل میں سوراخ ہے اور دو والو بھی صحیح کام نہیں کر رہے۔ ذیشان بھائی اکثر اسے چیک اپ کے لئے لے جاتے اور اس کا علاج چل رہا تھا۔ بچی بے چاری نہ کھاتی ، پیتی اور اکثر الٹیاں کرتی رہتی جس کی وجہ سے گھرانا پریشان رہنے لگا۔ ذیشان بھائی کاروبار چھوڑ بچی کے آپریشن کی تیاریوں میں لگ گئے۔ خاصا مہنگا آپریشن تھا۔ ادھر کامران کے گال کے اندر کا دانہ باہر نکل آیا اور ایک روز خود به خود پھٹ گیا۔ شدید تکلیف میں تھے، کاروبار کو نہیں جاتے تھے، تمام وقت درد کی وجہ سے اسپتال کبھی گھر پر لیٹے رہتے۔

جب کمانے والے بیمار ہو جائیں تو کاروبار کا کیا حال ہوگا۔ اب کاروبار کلی طور پر نوکروں کے رحم و کرم پر تھا، ادھر میری ایک نند کا سرال میں جھگڑا ہوا تو اس کو انہوں نے طلاق دے کر گھر بھجوا دیا۔ یہ صدمہ الگ تھا، ادھر بچی بیچاری جس کے دل میں سوراخ تھا، وہ آپریشن کے بعد اور زیادہ تکلیف میں آگئی بالآخر اللہ کو پیاری ہوگئی۔ بھائی ذیشان کی تو جیسے کمر ہی ٹوٹ گئی۔ بے حد افسردہ و نڈھال تھے۔ کامران اسپتال میں داخل تھے اور وہ دن رات ان کے پاس ہوتے تھے۔ دانے کا آپریشن کامیاب نہ ہو سکا، بہت روپیہ خرچ ہوا۔ پیسہ پانی کی طرح بہا دیا لیکن لا حاصل … مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ اب ان کو شعاعیں لگتی تھیں۔ گال اور منہ میں ایسے گہرے زخم بن گئے تھے کہ کھانا، پینا متروک، بڑی مشکل سے اسٹرا ہونٹ کے ایک کونے سے ڈال کر دودھ اور پانی ڈالتے تھے۔ میں دن رات روتی تھی اور مجھ سے ان کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔ واقعی کینسر ایسا موذی مرض ہے کہ اس کی تکلیف نہ تو مریض برداشت کر سکتا ہے اور نہ اس کے رشتے دار اس کی تکلیف کو دیکھ کر سہہ سکتے ہیں۔ کامران بات نہ کر سکتے تھے، جو الفاظ منہ سے ادا ہوتے میں ہی بڑی دقت سے سمجھ پاتی تھی، کوئی اور سمجھ بھی نہ سکتا تھا۔ اب وہ ہاتھ جوڑ کر شعاعیں لگوانے اور دوائیں لینے سے منع کرتے تھے۔ ہماری ایک بڑی کوٹھی جوان دنوں زیر تعمیر تھی وہ بھی ادھوری رہ گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ زخم نے ناسور کی شکل اختیار کر لی ، ان سے کروٹ پر اور نہ سیدھے لیٹا جاتا۔ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا، گھر لے آئے۔ پیٹھ اور کولہوں پر نیل اور زخم پڑنے لگے۔ ایک روز اتنی تکلیف تھی کہ ذیشان ایک مولوی صاحب کو گھر لے آئے۔ انہوں نے پاس بیٹھ کر بلند آواز سے تلاوت شروع کر دی۔ تلاوت سے یہ سیدھے ہو کر لیٹ گئے مگر بار بار کہتے تھے چہرے اور منہ پر پانی ڈالو، ہاتھ ، پیروں پر ٹھنڈا پانی ڈالو، شاید جسم میں گرمی بھر گئی تھی۔ کلام پاک کی تلاوت سے کچھ دیر میں ہی سکون مل گیا اور پھر روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ اللہ نے تکلیف سے نجات دے دی مگر ہم کو تنہا اور افسردہ کر گئے۔

بچوں کو اب اپنے چچا ذیشان کے رحم وکرم پر جینا تھا۔ کاروبارکا حال بگڑ گیا تھا، اسے رفتہ رفتہ پھر سے سنبھالنا تھا۔ بھائی ذیشان کافی عرصہ اپ سیٹ رہنے کے بعد کہیں جا کر سنبھل پائے اور آہستہ آہستہ پھر سے کاروبار کو جمایا۔ اب ماشاء اللہ دوبارہ سے اچھے دن آچکے ہیں لیکن اب ان کا وہی وطیرہ ہو گیا جو میرے ابو کا تھا۔ وہ کاروبار کی آمدنی کا دو فیصد علیحدہ کرتے جاتے ہیں اور ہفتہ میں ایک بار اسپتال جا کر دیکھتے ہیں، جوانتہائی غریب اور مستحق مریض ہوتا ہے اس کی اس مختص رقم سے ضرور مدد کرتے ہیں۔ دوائیں لے کر دیتے ہیں، کوئی کینسر کا ایسا مریض جو بے حد مفلس گھرانے کا ہوتا ہے اس کے علاج میں خاص توجہ دیتے ہیں۔ خدا ان کی اس نیکی سے خوش ہے اور دو خوبصورت صحت مند بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا ہے، گھر میں ایک بار پھر سکون اور خوشحالی نے قدم رکھ دیا ہے۔

Latest Posts

Related POSTS