Saturday, April 26, 2025

Dohri Azmaish

شادی کے بعد بہت عرصے تک میرے والدین بہت عرصے تک اولاد کی نعمت سے محروم رہے۔ کچھ مدت اسی انتظار میں گزر گئی کہ اللہ تعالیٰ کسی وقت اپنا کرم کر دے گا اور وہ اولاد کی خوشی دیکھ سکیں گے۔ اسی لیے، لوگوں کے کہنے کے باوجود انہوں نے کوئی بچہ گود نہ لیا، بلکہ دعا اور دوا میں مصروف رہے۔ جب صدقِ دل سے دعائیں کی جائیں تو وہ ضرور قبول ہوتی ہیں۔

میرے والدین کی بھی دعا قبول ہو گئی، اور شادی کے دس سال بعد قدرت نے ہمارے گھر کے آنگن میں ایک نہیں، بلکہ دو پھول کھلا دیے، اور یوں ہم جڑواں بہنیں پیدا ہوئیں۔امی اور ابو کو دوہری خوشی ملی، لیکن ساتھ ہی مشکلات بھی۔ جڑواں بچیوں کی پرورش امی کے لیے ایک دشوار مرحلہ تھا، مگر انہوں نے خوشی خوشی اس مشکل کو برداشت کیا، کیونکہ وہ طویل انتظار کے بعد اولاد کی نعمت سے سرفراز ہوئے تھے۔ سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ ہم دونوں بہنوں کی شکل و صورت ایک جیسی تھی، اور ہمیں پہچاننا بہت مشکل تھا۔ اگرچہ نام علیحدہ علیحدہ رکھ دیے گئے تھے، لیکن کوئی یہ سمجھ نہیں پاتا تھا کہ گل مینا کون ہے اور زرمینہ کون۔ خود والدین کو بھی ہماری پہچان میں دشواری ہوتی۔ اس مسئلے کے حل کے لیے امی نے ایک بچی کے بال رکھ دیے اور دوسری کا سر منڈوا دیا، مگر یہ بھی ایک عارضی حل تھا۔ جب ہم بڑی ہونے لگیں تو امی نے اور نشانیاں رکھیں۔ آخرکار ایک پائیدار حل یہ نکالا گیا کہ میرے بازو پر میرا نام “گل مینا” اور بہن کے بازو پر “زرمینہ” گودوا دیا گیا۔ اب جب بھی کوئی مغالطہ ہوتا، امی ابو ہمارے بازو دیکھ کر شناخت کر لیتے۔وقت گزرتا گیا، اور ہم دونوں بڑی ہو گئیں۔ ہمارے بعد صرف ایک بھائی پیدا ہوا، اور ماں کے لیے گلشن کے یہ تین پھول بہت تھے۔ وہ ہمیں پا کر اتنی خوش تھیں جیسے انہیں دنیا جہان کی تمام خوشیاں مل گئی ہوں۔ امی نے ہمیں میٹرک تک تعلیم دلوائی، پھر سلائی، کڑھائی اور کھانے پکانے کے کورس کروائے، تاکہ ہم جس گھر جائیں، وہاں کسی کو تکلیف نہ ہو، بلکہ دوسروں کے لیے باعثِ رحمت بنیں۔ ہم نے والدین کے گھر ایک اچھی اور پُرسکون زندگی گزاری تھی، آئندہ کی فکر بھی نہیں تھی، مگر اگر کسی کو ہماری فکر تھی تو وہ امی تھیں۔ وہ ہمیشہ ہمارے اچھے نصیب کے لیے دعا کرتی رہتی تھیں اور کہتی تھیں کہ بیٹیاں بہت پیاری ہوتی ہیں، مگر ان کے نصیب سے ڈر لگتا ہے۔ خدا کرے ان کے مقدر اچھے ہوں، ورنہ والدین جیتے جی مر جاتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ماں باپ ہمیشہ بیٹیوں کے لیے اچھے نصیب کی دعا کرتے ہیں، اور میری امی خصوصاً اس لیے بھی دعا کرتی تھیں کہ انہوں نے یہ نعمت بڑی منتوں اور مرادوں کے بعد پائی تھی۔اب امی ابو نے ہمارے رشتوں کے لیے تگ و دو شروع کر دی۔ وہ غیروں میں رشتہ کرنے سے ڈرتے تھے، لہٰذا انہوں نے اپنوں میں رشتے کی خواہش کا اظہار کیا۔ میری پھپھو نے اپنے بیٹے وقاص کے لیے ہامی بھر لی، اور یوں میری شادی میرے کزن سے طے پا گئی، مگر مجھ سے اس بارے میں نہیں پوچھا گیا۔ گھر والوں کا خیال تھا کہ اس معاملے میں لڑکیوں سے رائے لینے کی ضرورت نہیں۔ یہی ہمارے خاندان کی روایت تھی، اس لیے میں چپ رہی اور ماں باپ کی مرضی کو اپنی قسمت سمجھ کر قبول کر لیا۔جب وقاص کو معلوم ہوا کہ گل مینا کو اس کی شریکِ حیات بنایا جا رہا ہے تو اس نے شادی سے انکار کر دیا، کیونکہ ہمارے خاندان میں لڑکوں سے بھی اس بارے میں رائے لینے کی روایت نہیں تھی۔ دراصل، وہ کسی اور لڑکی کو پسند کرتا تھا۔ اس کے انکار پر سب گھر والے پریشان ہو گئے۔

میری دادی جان وقاص کے گھر والوں کے پاس گئیں اور انکار کی وجہ پوچھی۔ وہ ان کا اکلوتا بیٹا تھا، اس لیے اس کے والدین اپنی اولاد کی خواہش کے آگے خاموش تھے، مگر ہمارے خاندان میں اگر کسی لڑکی کی منگنی ہو کر ٹوٹ جائے یا لڑکا شادی سے انکار کر دے تو اسے بڑی ذلت کی بات سمجھا جاتا تھا۔دادی جان نے وقاص سے خود بات کی اور کہا، بیٹا، مجھے اپنی مجبوری بتاؤ تاکہ میں اس مسئلے کا حل نکالوں۔ جب دادی نے اسے محبت اور اعتماد دیا تو وقاص نے بتایا کہ وہ کسی اور لڑکی کو پسند کرتا ہے اور اسی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ دادی جان نے اس سے کہا، اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟ تم گل مینا سے شادی کر لو، پھر میں تمہاری دوسری شادی تمہاری پسند سے کروا دوں گی۔ دادی کی یقین دہانی پر وقاص راضی ہو گیا، اور یوں میں اس کی دلہن بن کر اس کے گھر چلی گئی۔عام لڑکیوں کی طرح مجھے دلہن بننے کی کوئی خوشی نہ ہوئی، کیونکہ میرا دل مستقبل کے خدشات میں گھرا ہوا تھا۔ جب میں شادی کے بعد اپنے سسرال پہنچی، تو سب نے مجھے خوش آمدید کہا۔ مجھے سجے ہوئے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ میں دھڑکتے دل کے ساتھ اپنے دولہا کے قدموں کی چاپ سننے کی منتظر تھی۔ وہ آئے اور گھونگھٹ اٹھانے سے پہلے ہی کہہ دیا، گل مینا! تم صرف چند دن کے لیے میری بیوی ہو، کیونکہ میں ناز سے محبت کرتا ہوں اور جلد ہی اس سے شادی کرنے والا ہوں۔یہ سن کر میرے حواس مختل ہو گئے، مگر میں نے صبر کیا اور وقاص کا دل جیتنے کی کوشش کی۔ میں اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی، رات دیر سے آنے پر اس کے لیے دروازہ کھولتی، کھانے کا پوچھتی، مگر اس پتھر دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ گھر کے بڑے سمجھتے تھے کہ شادی کے بعد اس کی سوچ بدل جائے گی، مگر وہ اپنی محبوبہ کی یاد میں پہلے سے بھی زیادہ بے قرار ہو گیا اور دوسری شادی کے لیے ضد کرنے لگا۔ میں اندر ہی اندر گھلتی رہی، مگر زبان سے کوئی شکوہ نہ کیا۔پھر ایک دن، وقاص جلدی گھر آیا اور مجھ سے کہا، تیار ہو جاؤ، میں تمہیں سیر کے لیے لے جا رہا ہوں۔ میں حیران رہ گئی، مگر اس کے ساتھ چلی گئی۔ اس دن اس نے مجھے باہر کھانے پر لے جانے کے علاوہ، بازار سے کپڑے اور زیور بھی لا کر دیے۔ میں اور میرے گھر والے یہ سمجھنے لگے کہ شاید اب اس نے دوسری شادی کا ارادہ ترک کر دیا ہے اور مجھے قبول کر لیا ہے۔ مگر یہ سب ایک سراب ثابت ہوا۔بالآخر، وقاص نے ناز سے شادی کر لی اور اسے گھر لے آیا۔ اس نے مجھے اور میری بیٹی کو ایک طرف کر دیا اور ساری توجہ اپنی نئی بیوی پر مرکوز کر دی۔ میرا دل خون کے آنسو روتا تھا، مگر میں مجبور تھی۔ میری ساس نے مجھے صبر کی تلقین کی، مگر میں خود کو بے بس محسوس کر رہی تھی۔وقت گزرتا گیا، اور پھر ایک دن ناز، اپنے دوسرے بچے کی پیدائش کے دوران دنیا سے رخصت ہو گئی۔ وقاص پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، اور میں نے اس کے بچوں کو ماں جیسا پیار دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ، وقاص نے میری قدر کرنا شروع کر دی اور اب مجھے “ناز” کہہ کر بلانے لگا۔ مگر میں برا نہیں مانتی تھی، کیونکہ وہ اب مجھے عزت دینے لگا تھا۔ میری زندگی میں سکون آ گیا تھا، مگر میری بہن کی قسمت مجھ سے بھی زیادہ خراب نکلی.اس کی صورت ہی نہیں بلکہ قسمت بھی ہو بہو مجھ سے ملتی جلتی ہے۔ لگتا ہے کاتب تقدیر نے قسمت لکھتے وقت ہم دونوں کی تقدیر کو ایک ہی قلم سے لکھ دیا تھا۔ جب اس کے بارے میں بتاؤں گی تو آپ حیران ہوں گے۔

جس لڑکے سے زرمینہ کی شادی کی جارہی تھی ، وہ بھی ہمارا رشتہ دار اور کسی اور لڑکی کو پسند کرتا تھا۔ وہ بھی والدین کا اکلوتا تھا، اس کا نام زوہیب تھا۔ وہ جس محلے کی لڑکی کے چکر میں تھا اس لڑکی کا نام شمع سمجھ لیں۔ زوہیب پروانہ وار شمع پر نثار تھا۔ ادھر اس کے والدین اس شادی میری بہن سے کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ آخر جیت والدین کی ہوئی اور زوہیب کی شادی زرمین سے ہو گئی، یعنی بالکل میری طرح کا قصہ ہوا۔ ماں باپ کے اصرار پر اس نے زرمین سے شادی کر تولی، لیکن اس کا دل شمع میں تھا۔ پہلے روز اس نے میری بہن کا گھونگھٹ نہ اٹھایا اور کہا کہ دنیا کی نظروں میں تم میری بیوی سہی، لیکن میری نظر میں تم ایک غیر لڑکی رہو گی۔ اگر تمہیں میرے ساتھ ایسی زندگی قبول ہے تو بے شک رہو، ورنہ طلاق لے لینا۔ یہ شادی میرے والدین نے زبردستی مجھ پر مسلط کی ہے۔ میں نے تو ان کو کافی منع کیا تھا۔ وہ نہیں مانے، تو میں کیا کروں ؟ اب تمہیں سزا بھگتنی ہوگی، سو بھگتو۔ یہ تھے وہ استقبالیہ الفاظ ، جن کو سن کر میری بہن بیچاری سن رہ گئی۔ بہر حال نکاح کا مقدس بندھن تو ان دونوں کے درمیان تھا۔ زرمین نے اس حقیقت کو زہر کا گھونٹ سمجھ کر خاموشی سے پی لیا۔ کسی سے اس بات کا تذکرہ نہ کیا اور میکے پلٹنے کی بجائے سسرال میں رہنے کو عزت جانا۔ زرمینہ بہت شریف اور صابر لڑکی تھی۔ اس نے ساس سے بھی تذکرہ نہیں کیا کہ اس کا شوہر اسے بیوی نہیں، غیر لڑکی سمجھتا ہے۔ وقت گزرتا رہا، جب سال گزر گیا اور اولاد نہ ہوئی تو ساس کو فکر ہوئی وہ بہو کو ایک لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ اس نے کہا کہ لڑکی غیر شادی شدہ ہے۔ آپ اس کی شادی نہ کریں گی تو اولاد کیونکر ہو گی۔ اس پر سانس شرمندہ ہو گئی اور اس پر گھروں پانی پڑ گیا۔ گھر آکر ماں نے بیٹے سے بات کی، تو اس نے بات کو ٹال دیا۔ یوں دو سال گزر گئے۔ ماں زوہیب کو لعن طعن کرتی کہ بہتر تھا کہ شادی نہ ہی کرتے۔ آپ جو خود کشی کر رہی تھیں تو میں کیا کرتا۔ آپ کی خوشی پوری کرنے کے لئے تو دولہا بن گیا اور اس کو دلہن بنا کر لے آیا ہوں اور کیا کروں ؟ عرض زوہیب ضد کا پکا تھا۔ وہ بیوی کو اس کے حقوق اور پیار نہ دے سکا بلکہ ماں سے کہا۔ اگر چاہتی ہیں کہ زرمینہ بطور بہو اس گھر میں رہے تو میری شادی شمع سے کرا دیجئے۔ ماں نے ڈنڈا اٹھا لیا لیکن میری بہن نے حوصلے سے کام لیا اور شوہر سے کہا۔ آپ امی جان سے نہ الجھیں۔ جو مسائل ہیں، ہم خود حل کریں گے۔ زوہیب نے اکیلے میں بیوی سے فرمائش کی کہ تم میری کزن بن کر شمع کے گھر جاؤ اور میرے رشتے کی بات کرو۔ شمع کے والدین کی یہی شرط ہے کہ لڑکے کے گھر سے کوئی رشتہ لینے آئے۔ زرمین نے مجھے بلایا اور قسمیں دے کر ساتھ لے گئی۔ ہم شمع کے گھر گئے ، رشتے کی بات کی۔ انہوں نے ہاں کہہ دی۔ لڑکی ایف اے پاس اور شکل و صورت میں اچھی تھی، لیکن اس کو ایک نظر دیکھتے ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ اس کا چال چلن درست نہیں ہے۔ خاندان بھی اچھا نہ تھا۔ ماں باپ بھی ایسے ویسے ہی تھے۔ ہم نے آکر زوہیب کو یہ رپورٹ دی، تو وہ الٹا ہم پر برہم ہوا کہ حسد کے مارے تم لوگ کیڑے نکال رہے ہو ، ورنہ شمع ایسی ویسی نہیں ہے۔ وہ بڑی شریف اور سادہ مزاج لڑکی ہے۔ جب شوہر کے ایسے تیور دیکھے ، ساس سسر کی ناراضی کے باوجود زرمین نے زوہیب کی دوسری شادی شمع سے کرادی۔وہ شدید بیمار پڑ گئی اور کافی عرصہ بستر پر رہی۔ان دنوں، میری امی جان میرے رشتے کے لیے بہت فکرمند تھیں اور میری شادی کسی غیر خاندان میں کرنا نہیں چاہتی تھیں، جبکہ اپنوں میں کوئی مناسب رشتہ موجود نہ تھا۔ جب رابعہ اور ناصر کی منگنی ختم ہو گئی تو امی جان کو خیال آیا کہ کیوں نہ اپنی بیٹی کا رشتہ اپنے بھتیجے ناصر کو دے دوں؟ اس طرح بھائی سے رشتہ مضبوط ہو جائے گا۔ وہ کسی غیر لڑکی کو ناصر کی دلہن بنا کر نہیں لائیں گے اور گھر کی دولت بھی گھر میں رہے گی۔ اس معاملے میں امی نے خالہ، یعنی رابعہ کی ماں، کا بھی خیال نہ کیا۔امی نے ماموں سے بات کی۔ انہوں نے چند دن سوچنے کے بعد اس رشتے پر رضامندی ظاہر کر دی۔

میں عمر میں ناصر سے سات برس بڑی تھی۔ اگرچہ دبلی پتلی ہونے کی وجہ سے اس کی ہم عمر لگتی تھی، تاہم حقیقت یہی تھی کہ وہ مجھ سے کافی چھوٹا تھا۔ بےچارہ ناصر یوں تو خاندانی معاملات میں بولنے کی طاقت نہ رکھتا تھا، مگر اس معاملے میں ماں کے آگے بول پڑا کہ لڑکی عمر میں سات برس بڑی ہے۔ اس پر ممانی برہم ہو کر گویا ہوئیں کہ نادان لڑکے، لڑکی بڑی ہے تو کیا ہوا؟ سگھڑ ہے، اپنے خاندان سے ہے، دیکھی بھالی ہے۔ غیروں میں رشتہ کریں گے تو نجانے وہ کیسے لوگ ہوں، کیسے رنگ دکھائیں؟ ہم مشکل میں پڑ جائیں گے۔ماں نے ناصر کو سمجھا بجھا کر چپ کرا دیا۔ میں جانتی تھی کہ ناصر بادل نخواستہ یہ شادی کر رہا ہے، مگر میں کیا کر سکتی تھی؟ میں بھی تو مجبور تھی۔ کچھ بول نہیں سکتی تھی اور نہ ہی میری اس معاملے میں کوئی چلتی تھی۔ میں ناصر اور رابعہ کی گہری محبت سے بھی واقف تھی، مگر اس رشتے کے ٹوٹنے میں میرا کوئی دوش نہیں تھا۔بہرحال، میری شادی ناصر سے ہو گئی اور میں بیاہ کر ماموں کے گھر آ گئی۔ ناصر کا رویہ میرے ساتھ سرد مہری والا تھا۔ میری ساس ہر وقت اسے سمجھاتی رہتی تھیں، اور وہ مجبوراً میرے ساتھ میاں بیوی کا رشتہ نبھا رہا تھا، ورنہ اس کا دل گھر میں نہیں لگتا تھا۔ وہ کسی چیز میں بھی دلچسپی نہیں لیتا تھا۔ میں نے اسے خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی، کیونکہ اس کے دکھ سے واقف تھی۔ وہ مجھ سے بے رخی برتتا تو بھی میں اف نہ کرتی، کوئی شکوہ زبان پر نہ لاتی۔میں جانتی تھی کہ وہ ایک مجبور انسان ہے۔مجھے اپنے ماموں کے گھر کھانے پینے یا روپے پیسے کی کوئی تکلیف نہ تھی، سوائے اس کے کہ ناصر کی سرد مہری کبھی کبھار دل آزاری کر دیتی تھی۔ تاہم، میں یہی سمجھتی تھی کہ کبھی نہ کبھی وہ رابعہ کی یاد کو دل سے بھلا ہی دے گا، کیونکہ اب وہ اس کی ہو نہیں سکتی تھی۔ میری ساس کا خیال تھا کہ جب بچے ہوں گے تو ناصر کے دل میں میرے لیے محبت پیدا ہو جائے گی۔سال بعد اللہ نے ہمیں ایک بیٹا دیا۔ سب گھر والے خوش تھے، میرے میکے والے بھی اور سسرال والے بھی۔ ناصر بھی بظاہر خوش نظر آتا تھا، مگر اس کے مزاج میں جو بیزاری زہر کی طرح رچ بس گئی تھی، وہ اب بھی باقی تھی۔کچھ عرصے بعد میرے ماموں اور خالہ میں شکر رنجی دور ہو گئی اور ناصر نے رابعہ کے ہاں آنا جانا شروع کر دیا۔ اگرچہ یہ بات مجھے اور میری ساس کو پسند نہ تھی، پھر بھی ہم ناصر کی غصیلی طبیعت کی وجہ سے اسے روک نہ سکے۔جب وہ رابعہ کے گھر جا کر بیٹھنے لگا تو میرے ماموں اور میرے میکے والوں نے بھی اس بات کو محسوس کیا۔ انہوں نے ناصر کو روکا تو وہ سب سے الجھ پڑا اور گھر چھوڑنے کی دھمکی دے دی۔ اس ڈر سے کہ بات طول نہ پکڑ جائے، سب چپ ہو گئے۔ رابعہ کے گھر والے بھی خوب جانتے تھے کہ ناصر صرف رابعہ کی خاطر آتا ہے، مگر انہوں نے اسے نہ روکا۔ الٹا، رابعہ کی امی اس کی زیادہ آؤ بھگت کرنے لگیں۔ میری امی جانتی تھیں کہ وہ ایسا کیوں کر رہی ہیں، کیونکہ امی نے میرا رشتہ ناصر کو دیا تھا۔ اب وہ انتقاماً اسے اپنے گھر بٹھائے رکھتی تھیں، کیونکہ اس بات سے مجھے تکلیف ہوتی تھی۔ بھلا کون سی بیوی چاہے گی کہ اس کا شوہر اپنی سابقہ منگیتر اور محبوبہ کے گھر بیٹھا رہے؟اب ناصر کا رویہ مجھ سے مزید خراب ہو چکا تھا۔ وہ مجھ سے کلام تک کرنا پسند نہیں کرتا تھا۔ میں اندر ہی اندر گھلتی جا رہی تھی۔ وہ آفس سے آ کر کھانے کے بعد آرام کرنے کے بجائے رابعہ کے گھر چلا جاتا اور رات گئے اس وقت واپس آتا، جب سب سو چکے ہوتے۔ سبھی کو خبر ہو گئی تھی کہ رابعہ اور ناصر کا رومانس دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔امی نے جا کر خالہ جان سے احتجاج کیا، یہاں تک کہ میں نے خود رابعہ کے والد سے فریاد کی، مگر انہوں نے ہماری کسی بات کو کوئی اہمیت نہ دی۔

ایسا لگتا تھا کہ سب کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہو رہا ہے۔ جب میں نے ناصر سے کھل کر احتجاج کیا، تو اس نے مجھ پر ہاتھ اٹھا لیا۔ بات بڑھ گئی اور امی مجھے آ کر اپنے گھر لے گئیں۔جب معاملہ حد سے بڑھنے لگا تو میرے  سسر صاحب کو مداخلت کرنا پڑی۔ انہوں نے میرے خالو سے کہا کہ یہ معاملہ اب یہیں ختم ہونا چاہیے۔ ناصر کی شادی ہو چکی ہے اور قسمت کا یہی فیصلہ تھا۔ ہم اس فیصلے کو بدل نہیں سکتے، لہٰذا آپ رابعہ اور ناصر کو روکیں۔ اس پر خالو جان نے جواب دیا کہ آپ اپنے بیٹے کو خود روک لیجیے، ہم اسے اپنے گھر آنے سے کیسے منع کر سکتے ہیں؟ ظاہر ہے، ناصر کسی کی سننے والا نہ تھا۔ ہم اسے روکتے بھی تو وہ نہ رکتا، اور یہ بات بڑے خالو جانتے تھے۔ گویا وہ اب ہماری بے بسی کا تماشا دیکھنا چاہتے تھے۔جب خاندان والوں نے حالات کو حد سے زیادہ بگڑتے دیکھا، تو کچھ بزرگوں نے مداخلت کی۔ اس پر خالو جان نے فیصلہ کیا کہ وہ نقل مکانی کر جائیں گے، لہٰذا وہ پشاور چلے گئے۔ نہ پڑوس میں گھر ہو گا، نہ یہ مسئلہ کھڑا ہو گا۔ وہ گھر تو کیا، پورا شہر ہی چھوڑ گئے۔ ہم سب نے شکر ادا کیا کہ خالو جان نے ہم سب کی خاطر نقل مکانی کر کے بہت بڑی قربانی دی، ورنہ ناصر باز آنے والوں میں سے نہ تھا۔رابعہ کے گھر والوں کے پشاور منتقل ہونے کے بعد کچھ عرصے تک تو میرا شوہر سخت مضطرب اور پریشان رہا، پھر اچانک ایک دن وہ گھر سے غائب ہو گیا۔ ایسا غائب ہوا کہ پورے پندرہ دن کوئی خبر نہ ملی کہ کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔سب کا یہی خیال تھا کہ ہو نہ ہو، وہ پشاور گیا ہو گا۔ میرے سسر صاحب پشاور گئے تو رابعہ کے والد نے کہا کہ ناصر یہاں نہیں آیا۔ اگر وہ آیا تو میں خود اسے ساتھ لے کر آپ کے گھر آ جاؤں گا۔ایک ہفتے بعد خالو جان یعنی رابعہ کے والد ناصر کو لے کر آئے اور اسے ہمارے گھر چھوڑ کر واپس چلے گئے، مگر ناصر نے اپنے والدین سے کوئی بات کی اور نہ ہی مجھ سے کلام کیا۔ جب میں نے اسے مجبور کیا تو اس نے صاف کہہ دیا کہ میں رابعہ سے دوسری شادی کر لوں گا۔ وہ میری منگیتر تھی۔ والدین نے اپنے جھگڑوں میں مجھے کس بات کی سزا دی تھی، جو میری محبت کو مجھ سے چھین لیا؟ مجھے اب کسی کی پروا نہیں۔ اگر تم میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتیں، تو اپنے والدین کے ہاں جا سکتی ہو۔اس کے بعد وہ چند دن بمشکل خود پر جبر کر سکا، پھر اطلاع دیے بغیر گھر سے چلا گیا۔ اس بار تو سسر صاحب نے بھی کہہ دیا کہ اب جو مرضی آئے، وہ کرے، میں کب تک اس کے پیچھے بھاگ سکتا ہوں؟ناصر کے دل میں جو تھا، اس نے وہی کیا۔ اس نے رابعہ سے شادی کر لی۔ رابعہ کے والدین نے بھی میرا کوئی خیال نہ کیا اور بخوشی اپنی بیٹی سوتن بنا کر بیاہ دی۔ انہیں اپنی بیٹی کی خوشی میری خوشیوں سے زیادہ عزیز تھی، اور بھلا کیوں نہ ہوتی؟ جب میری ماں نے سگی خالہ ہو کر اپنی بھانجی کا کوئی خیال نہ کیا تو وہ کیوں کرتے؟اگر ہم بھی چند دن صبر کر لیتے تو ان کی صلح ہو ہی جاتی۔ امی نے بھی تو میرا نصیب جگانے میں جلد بازی کا مظاہرہ کیا تھا۔ ایسی جلد بازی کہ نصیب کے در کھلنے کے بجائے بند ہو گئے۔ناصر نے دوسری شادی کے چھ ماہ بعد مجھے طلاق بھجوا دی تاکہ میں اپنی نئی زندگی شروع کرنے کے لیے آزاد ہو جاؤں، مگر میں آزاد ہو کر بھی آزاد نہ ہو سکی اور دوسری شادی نہ کر سکی۔ اپنے بیٹے کی خاطر میں نے بارہ برس گزار دیے۔ ناصر، رابعہ کے ساتھ بہت خوش اور مطمئن زندگی گزار رہا ہے۔ اجڑی تو میں، جو نہ اِدھر کی رہی، نہ اُدھر کی۔شاید اس کی وجہ رابعہ سے ناصر کی محبت کے علاوہ یہ بھی تھی کہ میں اپنے خاوند سے سات برس بڑی تھی اور لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ بے جوڑ شادی تھی۔پہلی رات زوہیب نے شمع کو بتا دیا کہ زرمین میری کزن نہیں، بیوی ہے، جس پر اس نے کہا کہ تم زرمینہ کو طلاق دے دو۔ زوہیب نے کہا۔ طلاق کا رواج ہمارے خاندان میں نہیں ہے۔ میں اسے طلاق نہیں دوں گا، البتہ تم چاہو تو الگ گھر میں رکھوں گا۔

زوہیب جس گھر میں رہتا تھا، اس کے ساتھ والا گھر خالی تھا۔ یہ بھی ان کا ہی تھا، پہلے کرایے پر تھا جب کرایہ داروں نے خالی کر دیا تو زوہیب نے گھر کو سجا کر نئی بیوی کو اس میں شفٹ کر دیا۔ اب میری بہن ساس سر کے ساتھ رہتی تھی اور زوہیب اپنی نئی بیوی کے ساتھ برابر والے گھر میں رہتا تھا۔ شروع میں یہ دونوں بہت خوش و خرم رہے ، پھر کھٹ پٹ رہنے لگی کیونکہ روزانہ ہی شمع کے والدین کے علاوہ اس کے رشتے دار اور کزن بھی گھر آنے لگے جس پر زوہیب کو الجھن ہوتی تھی، تاہم وہ اب بھی زرمینہ کے پاس بیٹھنا یا اس سے بات کرنا گوارا نہیں کرتا تھا۔ بس ماں باپ سے دن میں ایک مرتبہ ملنے آتا ۔ اور تھوڑی دیر بیٹھ کر چلا جاتا۔ میں نے محسوس کیا کہ شمع شوہر کو نہیں چاہتی تھی لیکن زوہیب اس پر فریفتہ تھا۔ اس کی ہر بات مانتا اور ہر فرمائش پوری کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ ان ہی دنوں زوہیب کا تبادلہ نزدیکی شہر ہو گیا۔ اب وہ صرف اتوار کو آتا، باقی دنوں ڈیوٹی پر رہتا تھا۔ جلد ہی محلے والوں نے شکایت کہ کہ شمع کے گھر بد معاش لوگ آتے ہیں اور اس طرح محلے کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں ؟ سسر نے پریشان ہو کر شمع سے پوچھا تو اس نے کہا کہ میرے کزن آتے ہیں تو محلے والوں کو کیوں اعتراض ہے ؟ کیا ان کے گھروں میں ان کے رشتے دار نہیں آتے؟ کیا ہم نے کسی پر اعتراض کیا ہے۔ سسر بیچارے چپ ہو گئے۔ دراصل اس کی دوستیاں اور لوگوں سے تھیں اور شادی کے بعد بھی یہ لوگ اس عورت سے رابطہ رکھے ہوئے تھے۔ یہ بد معاش قسم کے لوگ تھے ، جن سے جان چھڑوانا اب شمع کے بس کی بات نہ رہی تھی، ورنہ وہ اسے ذلیل کرنے کی دھمکیاں دیتے تھے۔ واقعی صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ میری بہن نے بہت صبر کیا اور اللہ تعالیٰ کو اس کا صبر پسند آیا۔ انہی دنوں حکومت کی طرف سے میرے بہنوئی کو بیرونی ملک بھیج دیا گیا اور یہ واقعہ ان کے جانے کے ایک ماہ بعد پیش آیا۔ ہوا یوں کہ شوہر کے جاتے ہی شمع کو آزادی مل گئی۔ اب وہ دن کو ہی نہیں، رات کو بھی گھر سے باہر رہتی۔ میکے جانے کے بہانے، وہ جہاں چاہتی، چلی جاتی اور جب سسر صاحب اس کے میکے بہو کا پتا کرنے جاتے، تو وہ لوگ کہتے۔ بس ابھی کسی سہیلی کے گھر گئی ہے ، آتی ہی ہو گی۔ہمارے یہاں ایسی آزادی کا تصور نہیں تھا لیکن شمع والوں کا ماحول ہم سے بالکل الگ اور مختلف تھا۔ بہر حال ساس سسر کو پتا چل گیا کہ وہ اچھی عورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہہ دیا جب تک زوہیب نہیں آجاتا، تم نے ہماری اجازت کے بغیر کہیں نہیں جانا۔ شمع کی خدا جانے ایسی کیا مجبوری تھی کہ وہ باز نہ آئی۔ اس نے گھر میں ہی برائی شروع کر دی۔ اچانک ایک روز زوہیب بغیر اطلاع گھر آگیا تو گھر میں تین چار نوجوانوں کے ساتھ بیوی نے محفل جمائی تھی اور دعوت کر رکھی تھی۔ زوہیب کی آنکھوں میں خون اتر آیا اس نے فون کر کے اسی وقت پولیس کو بلایا اور بد معاشوں کو ان کے حوالے کیا، بیوی کو بھی بہت مارا، بچی چھین لی اور بیوی کو طلاق دے کر اس کے میکے روانہ کر دیا۔ بچی کو لا کر میری بہن کی گود میں ڈالا کہ اب یہ تمہاری ذمہ داری ہے۔ اسے تم ماں بن کر پالو گی۔اس کے بعد زوہیب کو سمجھ آ گئی کہ اچھی عورت کیا ہوتی ہے اور بری عورت کیسی ہوتی ہے۔ اچھی عورت ہی بیوی بنانے کے لائق ہوتی ہے۔ اپنے بچوں کی ماں کے لئے عزت دار عورت سے ہی نکاح ہونا چاہیے۔ اگر غلط عورت سے شادی ہو جائے تو نسل تباہ ہو جاتی ہے۔ زرمین نے صبر کیا۔ اب زوہیب اس سے پیار کرتا ہے، بلکہ جان نثار کرتا ہے اور جس پر وہ پہلے جان نثار کرتا تھا، اسے اپنے کرتوتوں کی سزا اس طرح ملی کہ ایک دن سنا، اسے کسی چاہنے والے نے قتل کر دیا اور گرفتار ہو کر جیل چلا گیا۔آج شمع کے ماں باپ پچھتاتے ہیں کہ ہم نے کیوں بیٹی کو ایسی روش پر چلایا، جس کا انجام دکھ اور رسوائی کے سوا کچھ نہ تھا۔ میں اور میری بہن ، خدا کا شکر ہے کچھ عرصہ دکھ سہنے کے بعد حقیقی خوشیوں بھری زندگی گزار رہے ہیں اور والدہ کی دعائیں رنگ لے آئی ہیں کہ خدا میری بیٹیوں کے نصیب اچھے کرے۔خدا اولاد دے، تو اچھے نصیب بھی دے ، ورنہ بے اولاد رہنا بھلا ہے۔

Latest Posts

Related POSTS