کتنے انمول تھے وہ دن ، جب میں کسی آزاد پرندے کی مانند گھر کے چمن میں ادھر سے ادھر اڑتی پھرتی تھی۔ کائنات کی ہر شے سے بیگانہ ، میری زندگی بچپن کے سفر میں تھی۔ یہ میرے بچپن کے دن تھے ، جن کو میں کبھی نہیں بھلا سکتی ۔ اس کے بعد عمر کا وہ دور آیا جب آئینے کے مقابل اپنے عکس سے باتیں کرنے لگی۔ شاید شعور کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھی جبکہ میری دونوں بہنیں ابھی چھوٹی تھیں۔ اب میں عمر کے اس حصے میں تھی، جس میں تمنائوں ، چاہتوں اور ارمانوں کی گنگناہٹ دھیمے سروں میں سنائی دینے لگتی ہے اور ہر لڑکی اپنے مستقبل کے بارے سوچتی ہے۔ میں بھی تصورات میں کھوئی آنے والے دنوں کی خوشیاں خوابوں میں سمیٹ رہی تھی کہ ایک دن کچھ انجانے لوگ ہمارے گھر آئے اور میرا رشتہ طلب کیا۔ والدین کو رشتہ پسند آگیا اور منگنی ہو گئی۔ کچھ عرصہ بعد پھر وہی لوگ آئے۔ میں خوشی سے پھولی نہ سمارہی تھی۔ سنا تھا کہ شادی کی تاریخ لینے آرہے ہیں۔ مہمان آکر رخصت ہو گئے مگر میرے گھر والوں کے چہروں پر مسکراہٹ نہ تھی۔ وہ مایوس اور مضطرب دکھائی دیئے۔ ان کے مرجھائے چہرے دیکھ کر سمجھ گئی کہ ان کی آس ٹوٹ گئی ہے۔ تبھی امی نے بتایا کہ لڑکے والے منگنی توڑ کر چلے گئے ہیں۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے ، پہلی بڑی کو پسند کر کے رشتہ طے کر لیا اور اب بڑی کو چھوڑ، منجھلی کو مانگ رہے تھے۔ بھلا یہ کیا شریفوں کا طریقہ ہے۔ لڑکیاں نہ ہوئیں، کھلونے ہو گئیں۔وہ رشتہ ختم کر گئے ہیں۔ یہ سن کر زمین پیروں تلے دھنستی معلوم ہوئی اور میرے خواب شیشے کے کی طرح ٹوٹ کر بکھر گئے۔ دکھ اس بات کا نہیں تھا کہ وہ رشتے کی بات ختم کر گئے تھے ، بلکہ دکھ اس بات کا تھا کہ میری دونوں چھوٹی بہنوں کا کیا ہو گا۔ ایک تو اب بچپن کی دیوار پھلانگ کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والی تھی اور دوسری ابھی چھوٹی تھی۔ منگنی اس بات پر ٹوٹی تھی کہ لڑکے نے منگنی والے دن میری منجھلی بہن کو دیکھا تو گھر جا کر اپنی ماں سے کہا کہ تم نے بڑی کا رشتہ کیوں لیا جبکہ دوسری اُس سے زیادہ خوبصورت اور دلکش خدو خال والی ہے۔ آپ کو وہ نظر نہیں آئی تھی ؟ میری شادی کرنی ہے تو دوسری والی کا رشتہ طلب کریں میں ان کی بڑی لڑکی سے شادی نہیں کروں گا۔ لڑکے کی اس بات کا ذکر انہوں نے جب میرے والدین سے کیا تو میرے والدین نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ جب تک بڑی کی شادی نہیں ہو جاتی، ہم چھوٹی لڑکیوں کی شادی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اگر آپ کو ہماری بڑی بیٹی قبول نہیں ، تورشتہ چھوڑ دیجئے۔ اس میں شک نہیں کہ چھوٹی بہنیں مجھ سے کہیں زیادہ خوبصورت تھیں اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ میرے برابر ہو رہی تھیں مگر امی ابو ان کے لئے آئے رشتے اس وجہ سے ٹھکرارہے تھے کہ بڑی کی موجودگی میں چھوٹی بیٹیوں کو کیونکر بیاہ دیں۔ یہی سوچ کر آنکھیں بھر آتی تھیں کہ میری معمولی صورت کے باعث میری بہنوں کے اچھے نصیبوں کو ٹھوکر لگائی جارہی تھی۔
میں جس ماحول میں پلی بڑھی تھی، یہاں لڑکیوں کا اپنی شادی اور رشتے ناتے پر اظہارِ خیال معیوب بات سمجھی جاتی تھی جبکہ میں اپنے والدین کو سمجھانا چاہتی تھی کہ اگر لوگ میرے بجائے، منجھلی یا چھوٹی کو پسند کر لیں تو اچھا رشتہ گنوانے کی بجائے ہاں کر دینی چاہئے تا کہ غربت میں ایک بچی کے فرض سے تو سبکدوشی پائیں۔ جب میرے مقدر میں ہو گا تو میرا رشتہ بھی ہو جائے گا لیکن والدین نے اپنی سوچ نہ بدلی۔ وقت کے ساتھ ساتھ دونوں بہنیں میرے برابر کی ہو گئیں۔ والدین اپنی ضد پر قائم رہے۔ والدہ پھر سے مصلے پر بیٹھ گئیں اور رات دن میرے نصیب کھلنے کی دعائیں مانگنے لگیں۔ ان کو اس قدر محویت سے دعائیں مانگتے دیکھ کر میرے دل سے آہ نکل جاتی اور میں بھی دعا کرنے لگتی کہ اے اللہ ! میری والدہ کی سن لے اور ان کو سکون دے ۔ اللہ نے ان کی سن لی۔ اس بار پھر لوگ آئے اور میری چھوٹی بہنوں کو دیکھنے کے باوجود انہوں نے میرارشتہ ہی طلب کیا۔ کچھ دنوں بعد وہ میرے سر پر گوٹے والی چیزی ڈال اور انگوٹھی پہنا کر چلے گئے۔ ہمارے گھر میں خوشیوں کا ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ جلد شادی کی تاریخ مانگ رہے تھے۔ میرا جہیز تو تیار رکھا تھا۔ والد صاحب نے فرنیچر بنوانے کا بھی آرڈر دے دیا۔ اب شادی کی تاریخ کا اعلان باقی رہ گیا تھا کہ اچانک منگنی ٹوٹنے کا اعلان ہو گیا۔ پتا چلا لڑکے کو کوئی اور لڑکی پسند تھی اور اس کے والدین کو وہ لڑکی پسند نہ تھی۔ ماں باپ کے دبائو میں آکر پہلے تو وہ چپ رہا مگر عین وقت پر جھگڑا کھڑا کر کے شادی سے انکار کر دیا اور گھر سے بھاگ جانے کی دھمکی بھی دے دی۔ ماں باپ سٹپٹائے کہ اب کیا کریں، مگر جوان اولاد جب قابو میں نہ آئے تو وہ طوفان ہوتی ہے۔ کاش کہ وہ چپ نہ رہتا اور پہلے ہی بول پڑتا تو مجھ غریب کو دوسری بار منگنی ٹوٹنے کا دکھ نہ سہنا پڑتا۔ اس ظالم کو کیا خبر کہ جب دوسری بار منگنی ٹوٹ جائے تو لڑ کی پر کیا گزرتی ہے۔ آئندہ کی امیدیں ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ ہم تو غریب لوگ تھے۔ بڑی مشکل سے گزر بسر ہو رہی تھی۔ سفید پوشی کا بھرم رکھنے کو چھوٹی چھوٹی خواہشات کا بھی گلا دبانا پڑتا تھا۔ میں بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی۔ اب تو چہرے کی نوخیزی بھی کم تھی۔ تبھی والد میری فکر میں گھلے جاتے تھے ۔ آخر کار وہ بیمار پڑ گئے۔ اس وقت میری عمر چھبیس برس تھی۔ ہمارا گزارا تھوڑی سی زمین کی پیداوار پر تھا۔ کافی عرصہ میرے لئے کوئی رشتہ نہ آیا۔ رشتہ کرانے والے بھی جانتے تھے کہ جب تک بڑی بیٹی ہے ، یہ لوگ چھوٹی لڑکیوں کے رشتے نہیں کریں گے، تبھی اب دوسری ، دونوں بہنوں کے رشتے بھی نہیں آرہے تھے پھر دو بار کی منگنی ٹوٹنے کا قصہ خاندان بھر میں سبھی کو معلوم تھا اور یہ دنیا والوں کے لئے معمولی بات نہ تھی۔ ہم جہاں رہتے تھے، یہ پہاڑی علاقہ تھا۔ وہاں نلکوں سے پانی نہیں آتا تھا بلکہ چشمے سے لوگ پانی لیتے تھے۔
ہماری خالہ کا گھر قریب تھا اور ان کے گھر پانی آتا تھا، لہذا نہانے اور کپڑے دھونے کے لئے ہم لوگ خالہ زاہدہ کے گھر چلے جاتے تھے۔ خالہ کا بیٹا بابر مجھ سے چند برس بڑا تھا۔ جب میں ان کے گھر کپڑے دھونے جاتی ، وہ گیلے کپڑے رسی پر ڈالنے میں میری مدد کرتا تھا۔ اس کے ساتھ یہ رسمی بات چیت محرومیوں سے روشن خوابوں میں بدلنے لگی۔ اُدھر وہ میری کمی محسوس کرتا تو میں بھی تبھی کسی بہانے اس کے دیدار کو خالہ کے گھر جا پہنچتی۔ خالہ کی جہاں دیدہ نگاہوں نے جان لیا کہ ہم ایک دوسرے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ انہوں نے والدہ سے تذکرہ کیا۔ کہا کہ تم صنوبر کا رشتہ بابر کے لئے دے دو۔ اسی میں ہم دونوں گھرانوں کی بھلائی ہے۔ کہیں یہ نہ ہو کہ ہمارے بچے کوئی غلط قدم اٹھا لیں۔ بات دراصل یہ تھی کہ والد کا زمین کے بٹوارے پر کچھ مسئلہ تھا۔ نانا کی زمین میں سے والدہ اور خالہ کو حصہ ملا تو خالو نے اثر رسوخ استعمال کر کے جس زمین پر پھلوں کے درخت تھے، اپنی طرف لے گئے اور میری والدہ کو بے آباد زمین کا ٹکڑا دیا۔ اس پر والد ان سے خفا تھے۔ والدہ نے جھگڑا کرنے سے ابو کو روک دیا تھا۔ وہ اپنی بہن سے تعلق خراب نہ کرنا چاہتی تھیں مگر ابو خالو کو ناپسند کرتے تھے ، اسی وجہ سے ان کے لڑکے کو کسی بیٹی کارشتہ دینا نہیں چاہتے تھے۔ جب خالہ نے امی کو سمجھایا کہ یہ رشتہ نہ ہوا تو ہمارے بچے کسی لغزش کا شکار نہ ہو جائیں تب امی نے زور دے کر والد سے منوا لیا اور وہ میرا انکاح بابر کے ساتھ کرنے پر رضامند ہو گئے تاہم رخصتی کے لئے تھوڑے عرصے کی مہلت لی تا کہ شادی کی تیاری کر سکیں۔ جب میرا نکاح بابر سے ہو گیا تو والدہ نے مجھے منع کیا کہ اب میں خالہ کے گھر اس وقت تک نہ جائوں جب تک رخصتی نہ ہو جائے ، ورنہ خاندان والے باتیں بنائیں گے۔ میں اور باہر اس پابندی سے بہت بے چین ہو گئے۔ ایک دوسرے سے ملے بغیر ہم کو قرار نہ آتا تھا اور بہانے بنا کے ہم ملتے بھی تھے۔ خالو نے اس بات کو پسند نہ کیا اور بابر پر سختی کی کہ جب تک رخصتی نہیں ہوتی تم منکوحہ سے نہیں ملو گے اور وہ بھی تمہارے سامنے نہیں آئے گی۔ اب ہم سخت مجبور ہو گئے۔ ادھر والد صاحب فصل کی فروخت کا انتظار کر رہے تھے تا کہ یہ رقم ہاتھ آئے تو مجھ کو عزت سے رخصت کر دیں۔ فصل اتری ، فروٹ پیٹیوں میں بند ہو گیا اور آڑھتی لے گئے اب رقم کے ملنے کا انتظار تھاتا کہ شادی کی تاریخ رکھی جائے اور میری رخصتی عزت سے ہو جائے۔کہتے ہیں پابندیاں انسان کو اور بے قرار کرتی ہیں یہ بات سچ ہے۔ ایک دن خالہ اپنی لڑکیوں کے ہمراہ ہماری شادی کی خریداری کے سلسلے میں مظفر آباد گئی ہوئی تھیں اور گھر میں بابر کے سوا کوئی نہیں تھا۔ خالو بھی ان کے ساتھ ہی گئے تھے ، جبکہ میرے والد بھی شہر گئے ہوئے تھے۔ میں میلے کپڑے دھونے کے بہانے ان کے گھر جا پہنچی۔ میرے جانے سے بابر کی عید ہو گئی۔ کیونکہ جدائی ہم دونوں کی دشمن تھی۔ اب گھر میں تنہائی تھی اور ہم دونوں تھے لہذا یہ تنہائی جدائی سے بھی زیادہ بیری نکلی۔ پہلے تو بابر ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا پھر اس کو ایک گمبھیر خاموشی نے گھیر لیا اور برے وقت کا مجھے بالکل بھی پتا نہ چلا۔
ہوش آیا تو ندامت کے کانٹوں سے دامن تار تار تھا۔ بابر نے کہا۔ ایسے ہماری چند دنوں بعد شادی ہو جائے گی، تم اس بات کا کسی سے ذکر نہ کرنا کہ ہم ملے ہیں۔ خدا کی کرنی کچھ اور ہوتی ہے اور انسان کچھ اور سوچ رہا ہوتا ہے۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا کہ میرے والد صاحب جب آڑھتیوں سے فصل کی رقم لے کر شہر سے واپس گائوں آرہے تھے تو کسی بد خواہ کو علم ہو گیا کہ ان کے پاس خاصی رقم ہے۔ پس انہوں نے ایک ویران جگہ پر رستے میں ان کو گھیر لیا اور رقم چھین لی۔ مزاحمت پر والد صاحب کو دھکا دیا۔ وہ اس طرح گرے کہ ان کا سر ایک پتھر سے جا ٹکرایا اور اس شدید چوٹ سے ہوش ہو گئے کافی دیر بعد جب کچھ راہ گیروں نے ان کو سڑک کنارے بے ہوش پایا تو اٹھا کر اسپتال لے گئے مگر انہیں ہوش نہ آیا اور اسی بے ہوشی کے عالم میں چل بسے۔ وہ گھر جو شادی کی خوشیوں کا منتظر تھا، وہاں صف ماتم بچھ گئی۔ ظاہر ہے شادی بھی چھ ماہ کے لئے ملتوی ہو گئی۔ یوں میری رخصتی ہوتے ہوتے رہ گئی۔ والد کی وفات سے میں بہت غمزدہ تھی۔ باہر مجھے تسلی دیتا کہ صبر کرو اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا۔ اس کی تسلی سے مجھے ڈھارس ملتی ، سکون محسوس ہوتا۔ وہ سمجھاتا کہ ہم بے بس ہیں۔ جب اللہ کو منظور ہو گا ہم ایک ہو جائیں گے۔ تم میری منکوحہ ہو پھر خوف کس بات کا ہے۔ والد کی وفات کے بعد اب میں بلا خوف اپنے گھر سے متصل باغ میں باہر سے ملنے لگی۔ والد تو رہے نہ تھے والدہ اور بہنوں کا ڈر نہ تھا، بھائی باہر ہوتے اور خالو ہماری طرف آتے نہ تھے۔ ان کو علم ہی نہ تھا کہ ہم ملتے ہیں۔ اب صرف ملاقات پر اکتفا نہ رہا تھا۔ دُوریاں نزدیکیوں میں سمٹتی جاتی تھیں اور یہ سچ ہے جب ایک بار قدم بہک جائیں تو پھر برائی کا خوف جاتارہتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا۔ ایک دن پتا چلا کہ میں ذلت کے اتھاہ گڑھے میں گرنے والی ہوں۔ وہ دن قیامت کا تھا۔ میں حقیقت سے بابر کو آگاہ کرنا چاہتی تھی مگر قدرت نے ہم کو شاید اس لغزش کی سزا دینا تھی کہ ہمیں موقعہ ہی نہ ملا۔ بابر اپنے والد کا ٹرک لے کر پشاور گیا ہوا تھا کہ وہ واپس نہ آیا۔ جانے کیا معاملہ ہوا ٹرک سمیت وہ منظر سے غائب ہو گیا۔ خالو بچارے اس کی تلاش میں بھاگ دوڑ کر رہے تھے مگر کچھ پتا نہ چلا، یہاں تک کہ ایک ماہ گزر گیا۔ بالآخر کسی طرح بابر نے رابطہ کیا کہ کچھ قرض خواہ اس کو ٹرک سمیت اغوا کر کے علاقہ غیر لے گئے ہیں۔ جب تک قرض کی تمام رقم وہ ادا نہیں کریں گے ، اس کو رہائی نہیں ملے گی۔ خالو نے اب رقم کے لئے بھاگ دوڑ شروع کر دی اور میری شادی ایک بار پھر ملتوی ہوگئی کیونکہ پہلےتو بابر کو بازیاب کرنا تھا۔ اب معاملہ مزید گمبھیر ہو گیا۔ بات کہنے کی نہ تھی۔ کس طرح اپنا راز کسی کو بتاتی۔ حالات کے تھپیڑے سہنے کو تنہا رہ گئی تھی۔ ماں کو پتا چلا، انہوں نے سر پیٹ لیا مگر سر پیٹ لینے سے تو مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ ناچار ماں نے خالہ زاہدہ کو معاملے سے آگاہی دی۔ انہوں نے تسلی دی کہ صبر کریں اور خاموش رہیں۔ گھر کا معاملہ ہے بابر کا والد بیٹے کو جلد لے کر آئے گا اور جھٹ پٹ ہم رخصتی کر لیں گے۔ راز راز ہی رہے گا۔ زاہدہ خالہ نے کہا تھا کہ اس بات کا کسی سے ذکر نہ کرنا، یہ ہماری بہو ہے عنقریب ہمارے گھر آجائے گی مگر انہوں نے کیا مجھے بہو بنانا تھا۔ بابر کے آنے سے پہلے ہی میری چچی کو شک ہو گیا۔ اس نے چچا کو بتایا اور اس طرح میرے بھائیوں کو بھی انہوں نے شک میں ڈال دیا کہ ان کی بہن کی لغزش سے خاندان کی ناموس خاک میں ملنے والی ہے تو انہوں نے ایک رات جب میں سو رہی تھی مجھ پر چاقو سے حملہ کر دیا۔ وہ مجھے ختم کر دینا چاہتے تھے لیکن خدا کو میری موت منظور نہ تھی۔ میں شدید زخمی ہو کر بھی زندہ بچ گئی۔
میری ماں نے بیٹوں کے ڈر سے مجھے کو ایک رشتہ دار کے گھر دوسرے گائوں بھیج دیا۔ وہاں میں نے ایک بچی کو جنم دیا۔ ان لوگوں نے میرا بہت خیال رکھا کیونکہ میں زخمی حالت میں گئی تھی اور ماں نے مجھے پر سسرال والوں کے ظلم کی جھوٹی کہانی گھڑ کر سنادی تھی۔ تین ماہ بعد ماں آکر مجھے کو لے گئی اور اس نے بچی کو ایک تیسرے گائوں جو کافی دور تھا وہاں لے جا کر اپنے کسی اور رشتہ دار کے گھر دے دیا۔ جس خاتون کی گود میں بچی کو ڈالا ، وہ بے اولاد تھی۔ میں اکیلی ہی گھر آگئی اور ماں کی منت سماجت اور رونے بلکنے سے بھائی چپ ہو رہے ۔ انہوں نے معاملے کو اپنا شک جانا اور بات دب گئی۔ جب بابر رہا ہو کر آیا اور اس کو والدہ نے حالات سے آگاہ کیا تو وہ برہم ہو گیا۔ اس نے کہا کہ اگر آپ لوگوں کا دعوی ہے کہ بچی میری ہے تو اس کو واپس لانا ہو گا ورنہ میں صنوبر سے شادی نہیں کروں گا۔ ماں نے کہا کہ فی الحال بچی واپس نہیں لائی جاسکتی اور نہ میرے بیٹے صنوبر کو زندہ نہ چھوڑیں گے ۔ بابر کی نیت وہ جانے ، مگر اس بات کا بہانا بنا کر اس نے مجھ سے نکاح ختم کر دیا۔ اس طرح میں آباد ہونے سے پہلے اجڑ گئی اور طلاق کا دھبا بھی مجھے پر لگ گیا۔ان دنوں میں رنج و غم اور بابر کی بے وفائی کے صدمے سے نڈھال تھی۔ جس روز اس نے مجھے طلاق دی، دکھ سے برا حال تھا۔ اپنے کمرے میں صبح سے رات تک ایک ہی جگہ بیٹھی روتی رہی یہاں تک کہ نصف شب بیت گئی۔ سوچتی تھی میرا قصور کیا تھا، جس کی اتنی بڑی سزا ملی۔ لیکن میرا قصور تو تھا کہ میں بزرگوں کے منع کرنے کے باوجود تنہائی میں بابر سے ملتی تھی۔ انسان خطا کا پتلا ہے اور جب غلطی ہو جائے تو بعض دفعہ اس کی سزا بھی مل کر رہی تھی۔ مجھے سزا بچی کی جدائی اور بابر کی بے وفائی کی صورت میں مل گئی۔ رات کا بڑا حصہ بیت چکا تھا۔ دور دور تک سناٹا تھا۔ کبھی کبھی کتوں کے بھونکنے کی آواز میں آتیں تو کلیجہ کٹنے لگتا تھا۔ میں رات کی تاریکی میں بیٹھی اپنی قسمت کو کوس رہی تھی۔ ماضی کی یادیں اور بابر کے ساتھ بیتے لمحات فلم کی اسکرین کی طرح آنکھوں کے سامنے چل رہے تھے۔
دو سال میری زندگی کے انہی اوپلوں میں دبی آگ جیسی سلگن میں سلگتے کٹ گئے۔ شکر ہے کہ مجھ کو لوگوں کی تیکھی نظروں اور طعنوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا، پھر میری ایک دور کی خالہ نے اپنے بیٹے کے لئے میر ارشتہ مانگا اور سادگی سے میرا نکاح کچھ عرصہ بعد شفیق سے ہو گیا۔ شفیق ایک نہایت شریف انسان تھے۔ شادی کے دو سال پر سکون گزر گئے۔ ایک دن میری ساس اس گائوں جانکلی جہاں میری اور بابر کی بچی نے جنم لیا تھا۔ کسی نے اس کو مجھ پر ظلم کی استان سنائی تو وہ ہکا بکار گئے۔ اس نے کہا کہ میری بہو کی تو کوئی بچی نہیں ہے۔ یہ کیا معاملہ ہے ؟ وہ معاملے کی تحقیق میں لگ گئی۔ اس نے بڑی چالاکی اور ہوشیاری سے کام لیا اور مجھ سے پوچھا اور اس کو میرے پاس لانے کا وعدہ کیا۔ ساس کا محبت بھرا رویہ دیکھا تو اس کی چال کو نہ سمجھ سکی۔ یہ بھول گئی کہ یہ ماں نہیں، ساس ہے۔ بس وہ دن میری زندگی کے سکون کا آخری دن تھا۔ میرے خاوند کو انہوں نے بتا دیا۔ اس کے بعد دن رات کے طعنوں نے میری زندگی اجیرن کر دی۔ میرے بھائی کی شادی پر بھی ان لوگوں نے مجھے میکے نہ جانے دیا۔ کہہ دیا کہ اب تم میکے سے کوئی تعلق نہ رکھو گی اور وہاں کبھی نہ جائو گی۔ ہم تو سمجھے تھے تم پر ظلم ہوا ہے۔ ہم کو کیا خبر تھی کہ اس سے آگے بہت کچھ ہو چکا ہے۔ اب نہ تمہارے میکے سے کوئی یہاں آگے گا اور نہ تم وہاں جائو گی۔ رور و کر میرا برا حال ہو گیا۔ اب میں اپنے میکے کی دہلیز پر کیسے قدم رکھ سکتی تھی۔ وقت گزرتا رہا، میں گیلی لکڑی کی طرح جلتی بجھتی اور سلگتی رہی۔ شفیق احمد اور اس کے گھر والوں نے مجھے کبھی میکے جانے نہ دیا اور نہ ہی گھر کا سکھ دیا۔ میں بس ان کے گھر کی خدمت گار کی حیثیت سے رہتی تھی کیونکہ آگے بھائیوں کا ڈر تھا۔ بابر سعودی عربیہ چلا گیا اور واپس نہیں لوٹا لیکن اپنی معصوم بچی کو غم مجھے دیکھنا تھا۔جس عورت نے میری معصوم بچی کو گود لیا، اس نے اس کا نام گل ناز رکھا تھا۔ وہ کوئی اچھی عورت نہ تھی۔ اس نے اپنے طریقے سے اس کی پرورش کی اور اس کی شادی ایک اپنے واقف کار گھرانے میں کر دی۔ میری بیٹی بہت خوبصورت تھی اس لئے بہت سے اچھے گھرانوں سے اس کے رشتے آتے تھے۔ خدا جانے اس عورت نے اس کا رشتہ ظہور سے کیوں کیا ؟ وہ ایک غریب اور مزدور پیشہ تھا، لیکن اس کا بھانجا قاسم ایک امیر آدمی کا بیٹا تھا۔ جب گل ناز کا نکاح ظہور سے ہو گیا اس کا بھانجا بھی گھر آنے لگا۔ اب اس عورت کو خیال آیا کہ میں نے غلط کیا ہے۔ بجائے ماموں کے، میں گل ناز کو قاسم سے بیاہتی تو اچھا تھا۔ آج لڑکی بھی عیش کرتی اور میں بھی۔ اتفاق کہ قاسم کو بھی گل ناز اچھی لگتی تھی۔ رشتہ داری کی وجہ سے قاسم کے گھر آنے جانے کو ظہور نے بھی برا نہ جانا۔ وہ یہی سمجھا کہ شاید میرا خیال کرتے ہوئے بھانجا سودا سلف لانے کو اپنی ممانی کے پاس آتا ہے ، جبکہ گھر میں وہ عورت گل ناز اور قاسم کے درمیان کوئی اور ہی تعلق بنا چکی تھی۔ اس سے پہلے کہ اس تعلق کا کسی کو علم ہوتا، گل ناز اور قاسم گائوں چھوڑ کر نکل گئے۔ ان کے چلے جانے کے بعد اس عورت نے شور مچادیا کہ ظہور احمد میری بیٹی کو طلاق دے کیونکہ اس کا بھانجا گل ناز کو لے گیا ہے۔ یہ گائوں گائوں شہر شہر چھپتے رہے کیونکہ ظہور نے ان دونوں کو قتل کرنے کی ٹھان لی تھی۔ کچھ دنوں بعد ہی قاسم گرفتار ہو گیا اور گل اکیلی رہ گئی۔ اس نے اپنی منہ بولی ماں کو پیغام بھیجا کہ میں اکیلی رہ گئی ہوں ، اب تم میرے پاس آجائو۔ ماں اس جگہ چلی گئی جہاں گل ناز تھی۔ ایک روز اچانک محلے والوں کو معلوم ہوا کہ ان عورتوں کے گھر کوئی مشتبہ شخص آتا ہے۔ انہوں نے ماں بیٹی سے معاملے کا کھوج لگایا اور ظہور کو ان کے معاملے سے آگاہی دی۔ اگلے دن ہی ظہور احمد کا چھوٹا بھائی منظور احمد اور ساس اس کو لینے آگئے۔ انہوں نے کہا جو بھی ہوا لیکن ہم گل ناز کو عزت بنا چکے۔ یہ ہماری بہو ہے۔ ہم نے معاف کیا۔ اب یہ ہمارے ساتھ گھر چلے مگر لڑکی نے جانے سے انکار کر دیا۔ ظہور کو بھی ضد ہو گئی تھی کہ ایک بار تو بیوی کو ضرور گھر لانا ہے۔ اس کے بعد جو چاہے اس کا میں حشر کروں۔ وہ ہر دوسرے تیسرے دن ماں اور بھائی کو ان کے پاس بھیجنے لگا۔
اس صورت حال سے یہ ماں بیٹی تنگ آ گئیں۔یہ مشتبہ شخص جو ان کے گھر آتا تھا، ایک ٹرک ڈرائیور تھا جس نے ان ماں بیٹی کو سہارا دینے کی ہامی بھری تھی اور ماں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ ظہور والوں سے ان کا پیچھا چھڑوا دے تو گل ناز کی شادی اس کے ساتھ کر دے گی۔ اگلے دن ظہور کا بھائی آگیا کہ بھابھی گھر چلو۔ اس دن وہ ڈرائیور مہربان خان بھی وہاں موجود تھا تبھی یہ دونوں ماں بیٹی خوفزدہ ہو گئیں کہ یہ لڑکا اب جا کر گھر والوں کو خبر کر دے گا کہ ان کے گھر تو ایک غیر شخص موجود تھا۔ خدا جانے اس کے بعد ظہور ان کے ساتھ کیا کرے۔ پس انہوں نے منظور کو بٹھا لیا اور کہا۔ تم بیٹھو، ذرا انتظار کرو۔ تمہاری بھابھی ابھی تیار ہو کر ساتھ جاتی ہے۔ جب تک آپ لوگ چائے پیو۔ وہ اس کو باتوں میں لگا کر جھٹ پٹ چائے بنا کر بھی لے آئی۔ اس نے چائے میں نشہ آور دو املا دی تھی، جس کے پینے سے منظور پر غنودگی طاری ہو گئی وہ لیٹ گیا اور بے ہوش ہو گیا۔ اس نے ٹرک ڈرائیور سے کہا کہ مہربان! اب تم اس کو ٹھکانے لگادو، ورنہ ہمارے ساتھ ظہور تم کو بھی اپنے عتاب کا شکار بنادے گا۔ مہربان بھی ایک نوجوان لڑکا تھا۔ اس نے منظور کو کندھے پر لاد کر ٹرک میں ڈالا اور پہاڑیوں سے گہری کھائی میں گرا کر آگیا- جب منظور دو تین دن تک نہ آیا تو اس کی ماں کو فکر لاحق ہوئی کہ میرا لڑ کا بھابھی کو لینے گیا تھا۔ کہاں رہ گیا ہے ؟ وہ گل ناز کی ماں کے پاس پہنچی اور منظور کے بارے پوچھا۔ وہ بولی۔ تمہارا لڑ کا تو آدھر نہیں آیا، کہیں اور پتا کرو۔ اس کی ماں کو شک ہوا اور ان لوگوں نے تھانے جاکر رپٹ لکھوا دی۔ پولیس نے تفتیش کی تو راز کھل گیا اور دونوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ جب پولیس کے ہاتھ پڑے تو دونوں نے سارے راز اگل دیئے۔ یوں ٹرک ڈرائیور بھی گرفتار ہو گیا اور اس کی نشاندہی پر گھائی سے منظور کی لاش برآمد ہو گئی۔ ان دنوں ظہور اپنے ایک دشمن سے تنازعے کے سبب جیل میں تھا۔ جب اس کو اپنے بھائی کی موت کا پتا چلا تو وہ پاگل ہو گیا۔ وہ پولیس والوں کے پائوں پڑ گیا کہ مجھ کو صرف ایک بار چھوڑ دو۔ میں اپنی بیوی اور ساس سے اپنے بھائی کے قتل کا حساب لے لوں لیکن ایسا کب ہوا ہے کہ قانون خود کسی کو قتل کا پرمٹ جاری کر دے۔ یہ تینوں جیل میں تھے اور میں سلگ رہی تھی کہ مجھ بد نصیب کے لئے اس سے بڑی کیا سزا ہو گی کہ ان کے ساتھ جو ہوا سو ہوا مگر میں پہلے بیٹی سے جدائی کی سزا بھگت رہی تھی اور اب اس کے جرم کا سن کر زندگی میرے لئے ایک سزا ہو گئی۔ سچ ہے کہ جرم میں مرد برابر کا شریک ہو تب بھی سزاوار عورت ہی ٹھہرتی ہے۔ جرم تو بابر نے بھی کیا تھا مگر یہ کہہ کر کہ میں اس کی منکوحہ ہوں تو مجھے احساس جرم میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ، اس کے نزدیک رخصتی سے قبل قربت جرم نہ تھا۔ مجرم تو میں ٹھہرائی گئی اور سزا بھی مجھے خوب ملی جبکہ بابر کو کیا فرق پڑا جس کی وجہ سے ایک نہیں، دو زندگیاں برباد ہوئیں۔ میری بچی گل ناز غلط ہاتھوں میں چلی گئی اور اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنی خوبصورت زندگی کے خوب صورت سال قید و بند کی نذر کرنے پڑے۔