Friday, February 14, 2025

Dolat Bani Dushman

کہتے ہیں، جہاں دولت کا سکھ ہوتا ہے ، وہاں اولاد کی طرف سے ضرور دکھ ملتا ہے۔ ایسا ہی کچھ میرے والدین کے ساتھ ہوا- میری ماں بہت خوبصورت تھیں مگر بے حد غریب کشمیری خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ ڈیڈی نے غربت پر حسن کو ترجیح دی اور امی سے شادی کر لی۔ مما اور ڈیڈی کی آپس میں محبت تھی۔ وہ بہت خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔

جب میں بڑی ہوئی تو مما کی خوشیوں کو نظر لگ گئی اور میں نے ڈھیر سارے دکھ ان کی جھولی میں ڈال دیئے۔ یہ سب میری ناسمجھی کے باعث ہوا، ورنہ میں آج اتنی دکھی اور برباد نہ ہوتی ۔ ہمارے گھر کے سامنے والے گھر میں نئے لوگ آکر آباد ہوئے تھے، انہوں نے یہ بنگلہ خرید لیا تھا جو عرصے سے برائے فروخت تھا۔ کبھی کبھی ان سے ہماری ملاقات ہو جاتی تھی۔ جب جان پہچان بڑھی تو میں ان کے گھر بھی جانے لگی کیونکہ رابیل کی امی مجھ سے بہت پیار کے ساتھ ملتی تھیں۔ کسی دن رابیل گھر پر ہوتا، اس سے بھی بات چیت ہو جاتی۔ رابیل آنٹی کا خوبصورت بیٹا بہت خوش گفتار تھا۔ زیادہ تر ہماری ملاقات گیٹ کے قریب ہونے لگی تھی، کیونکہ میں روز ٹہلنے کے لئے قریبی پارک جاتی ، اس وقت وہ بھی اپنے گھر سے چہل قدمی کے لئے نکل رہا ہوتا۔ ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے اور خدا حافظ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ۔ سب جانتے ہیں کہ زیادہ تر اپر کلاس گھرانوں میں تکلیف نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ بیرون ملک آنے جانے کی وجہ سے ان کا طرز زندگی بھی عام لوگوں سے مختلف ہو جاتا ہے۔ کسی سے ملنے پر پابندی نہیں ہوتی۔ بیرون ملک آنے جانے کی وجہ سے ان کا طرز زندگی بھی عام لوگوں سے مختلف ہو جاتا ہے۔ کسی سے ملنے پر پابندی نہیں ہوتی۔ میں چاہتی تو رابیل کو اپنے گھر مدعو کر سکتی تھی مگر میں نے ایسا نہ کیا، کیونکہ ابھی تک میرے ذہن نے اس کو بطور دوست قبول نہیں کیا تھا۔ اکثر تو میں اس کو نظر انداز کرنا چاہتی لیکن سامنا ہو جاتا تو ہیلو ہائے کرنا پڑتی۔ کچھ دنوں بعد جانے کیا ہوا کہ جب تنہائی میں بیٹھتی تو اس کا خیال تنگ کرنے لگتا۔ میں اس کے خیال کو جھٹک دینا چاہتی تھی مگر ایسا نہ کر سکی۔ وہ نظر نہ آتا تو پریشان ہو جاتی ۔ عجیب مصیبت میں گرفتار ہو چکی تھی۔ ابھی تک میرے ذہن کی سلیٹ صاف تھی ۔ اس پر کسی کا نام نہیں درج تھا۔ اب میں سمجھی کہ کسی کو چاہنے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ سچ کہتے ہیں، اس جذبے پر کسی کا اختیار نہیں۔

محبت تو خود بخود گلے کا ہار ہوئی جاتی تھی۔ یہ کیسا جذبہ ہوتا ہے آدمی نہ بھی چاہے خیالات پیچھا نہیں چھوڑتے۔ یہ شاید عمر کا تقاضا تھا یا میرا ذہن اس قدر کیا تھا۔ رابیل کا خیال میرے وجود پر چھاتا گیا اور میں بے بس ہوگئی ۔ اب وہ سامنے ہوتا تو میرا چہرہ سرخ ہو جاتا اور دل پر گھبراہٹ طاری ہو جاتی ۔ وہ نہ ملتا تو بے چینی بڑھ جاتی۔ کبھی وہ بات کر رہا ہوتا اور میں گم صم ہو جاتی تبھی بات جلدی ختم کر کے واپس لوٹنے کی کوشش کرتی ۔ ان حرکتوں سے وہ میری دلی کیفیت کا انداز ہ لگا چکا تھا۔ ہماری گفتگو اکثر پارک میں چہل قدمی کے دوران ہوتی تھی۔ ڈیڈی میری حالت کو نوٹ کر رہے تھے۔ میں پہلے کی طرح ہنستی بولتی نہ تھی ۔ میرے اندر اب وہ زندہ دلی نہ رہی تھی جو میری طبیعت کا خاصہ تھی۔ ایک دن ڈیڈی بولے۔ میں دیکھ رہا ہوں تم بہت دنوں سے چپ چپ ہو۔ جاؤ، شاپنگ کر آؤ ۔ انہوں نے مجھے کافی رقم دی لیکن میں شاپنگ پر نہ گئی۔ ڈیڈی نے پوچھا تم نے شاپنگ نہیں کی؟ کیسے جاتی ڈیڈی ، گاڑی تو بھائی لے گئے تھے ۔ آپ کی گاڑی آپ کے پاس ہوتی ہے اور ممی کی گاڑی میں نہیں چلا سکتی ۔ اب میں اس وقت کہیں جاؤں گی، جب آپ مجھے علیحدہ گاڑی لے دیں گے۔ والد صاحب نے اگلے روز علیحدہ گاڑی خرید کر مجھ کو گفٹ کر دی۔ اب میں صاحب کارتھی ۔ جب چاہے، جہاں چاہے جاسکتی تھی۔ اسی روز کار نکال کر ایک کیفے میں پہنچ گئی۔ وہاں اکیلی بیٹھی چائے پی رہی تھی ۔ آج میں بہت خوش تھی ۔ اس خوشی میں مگن تھی کہ رابیل وہاں آ گیا اور میرے پاس آکر بیٹھ گیا۔ اس نے میرا تعاقب کیا تھا۔ اس دن ہم نے بہت سی باتیں کیں۔ میں نے اس سے اظہار محبت کر دیا۔ اس نے بھی وعدہ کیا کہ اس رشتے کو نباہے گا جو ہمارے دلوں کے درمیان جڑ چکا تھا ، تبھی نئی گاڑی پر ہم نے خوب سیر کی ۔ وہ بار بار یہی الفاظ کہتا تھا کہ مجھے تم سے محبت ہے، تمہارے والد کی دولت سے غرض نہیں ۔ مجھے تم آزما لینا ۔ اب یہ ہمارا معمول ہو گیا روز شام کو اکٹھے گھومنے پھرنے نکل جاتے ۔ ایک روز رابیل نے کہا۔ چلو ہاکس بے چلتے ہیں۔ میں نے بتایا وہاں ہمارا ہٹ بھی ہے ۔ تب تو سارا دن وہاں گزاریں گے، بڑا مزہ آئے گا۔ اگلی صبح ہی کچھ سامان لے کر ہم دونوں ہاکس بے چلے گئے۔ دوپہر تک بہت اچھا وقت گزرا۔ خوب انجوائے کیا، لہروں سے اٹکھیلیاں ہوئیں ، دوپہر کے بعد ہم تھک کر ہٹ میں آکر بیٹھ گئے۔ میں میوزک سننے لگی اور وہ مشروب پینے وہ لگا جو اپنے بیگ میں ساتھ لایا تھا۔ جب میری نظر اس کی بوتل پر پڑی تو کہا۔ رابیل! یہ کیا کر رہے ہو؟ یہاں مت پیو۔ تم کو زیادہ نشہ چڑھ گیا تو میں کیا کروں گی؟ یوں بھی یہ کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ میں جانتا ہو سونی ! لیکن کبھی کبھی ریلیکس ہونے کے لئے پینا اچھا رہتا ہے۔ اتنا خوبصورت موسم ، یہ فضاء یہ ہوا، پھر کہاں ملے گی ؟ تم ساتھ ہو تو سیر کا لطف دوبالا ہو جائے گا۔ کیا میرا ساتھ کافی نہیں ہے جو اسے پینے کی ضرورت پڑگئی ہے۔ وہ پیگ ختم کر چکا تھا، میں نے بوتل اس کے سامنے سے ہٹالی اور دوبارہ کہا۔ کیا میرا ساتھ کافی نہیں تھا دل کی خوشی کے لئے ، اب بھی جھوٹے نشے کی ضرورت ہے؟ اچھا تم کہتی ہو تو اور نہیں پیوں گا ۔ وہ بولا ۔ ہم نے کھانا کھایا اور ذرا ستانے کو دراز ہو گئے ۔ یہ ایسا دن تھا جب خوبصورت عمر تھی، امنگیں تھیں ، خواب تھے، تنہائی تھی اور دلربا محبت بھی تھی۔ ایسے میں کسی غلطی کا امکان غالب تھا۔ محبت کی پاک دامنی کو جذبات کی جھلستی آگ سے نہ بچا سکتے تھے۔ اس روز میں اس ظالم آگ کی لپیٹوں سے اپنا دامن جلا بیٹھی ۔ ہوش آیا تو پاکیزہ محبت کا تاج محل جل کر راکھ ہو چکا تھا۔

میں افسردہ بیٹھی تھی اور وہ معافی طلب کر رہا تھا۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ مجھ سے ہی شادی کرے گا اور بہت جلد۔ ایک ہفتے تک میں اس سے نہ ملی اور نہ سامنا کیا۔ تبھی اس نے اپنے والدین کو رشتے کے لئے ہمارے گھر بھیج دیا۔ ممی نے آؤ بھگت کی مگر وہ ہمارے لگاؤ سے واقف نہ تھیں۔ یہی سمجھ رہی تھیں کہ یہ لوگ پڑوسی ہونے کے ناتے آتے ہیں۔ جب آئٹی نے رابیل کے ساتھ میرے رشتہ کی بات چھیڑی تو میرے والدین نے برا منایا کیونکہ یہ لوگ مال و دولت میں ہم سے کمتر تھے۔ ان سے صاف کہہ دیا کہ ہمارا آپ کا جوڑ نہیں ہے۔ ہم اپنی بیٹی کا رشتہ ہم پلہ خاندان میں کریں گے۔ رابیل کے والدین بڑی توقع کے ساتھ آئے تھے، یہ توہین گوارہ نہ کر سکے۔ انہوں نے صاف کہہ دیا۔ بے شک آپ کو ہم سے رشتہ کرنے میں قباحت ہو رہی ہے، مگر آپ کی لڑکی کو تو یہ رشتہ منظور ہے۔ جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی ۔ یہ بات انہوں نے اس قدر چھبتے لہجے میں کہی کہ ڈیڈی نے اسے اپنی بے عزتی خیال کیا اور رابیل کے والدین کو کھری کھری سنا دیں کہ تم لوگ پہلے خود کو ہمارے لائق تو بنا لو۔ پھربات کرنا۔ پڑوسی ہونے کی وجہ سے برداشت کر لیا ہے، ورنہ منہ توڑ جواب دیتا۔ وہ لوگ خجل ہو، اپنا سا منہ لے کر چلے گئے۔ رابیل نے مجھے فون کیا۔ کہنے لگا۔ دیکھو سونی ! اگر تم نے مجھ سے شادی نہ کی ، تو تم برباد رہوگی اور میں بھی۔ میں تم سے سچی محبت کرتا ہوں ورنہ اپنے والدین کو تمہارے گھر کیوں بھیجتا ؟ میں ان دنوں جذباتی ہو رہی تھی۔ ماں باپ سے خوب جھگڑا کیا اور خود کشی کی دھمکی دے دی۔ آخر ڈیڈی کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ میں ان کی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی تھی۔ انہوں نے کبھی میری کسی خواہش کو رد نہ کیا تھا۔ انہوں نے رابیل کے والدین کو فون کیا اور معذرت خواہ ہو کر کہا کہ مجھے بچوں کے انٹرسٹ کا علم نہ تھا، میں رشتہ دینے کو تیار ہوں۔ یوں جلد ہی ہماری شادی ہوگئی ، مگر میرے والد نے سادگی سے مجھے رخصت کیا کیونکہ وہ رابیل کی فیملی کو اپنے اسٹیٹس سے نیچا جانتے تھے اور اسی بات کا ان کو دکھ تھا کہ یہ ہمارے جیسے دولت مند نہیں ہیں محض کھاتے پیتے لوگ ہیں ۔ انہوں نے میری شادی میں اپنے حلقہ احباب اور رشتہ داروں کو بھی نہیں بلایا۔ میں رخصت ہو کر رابیل کے گھر آگئی ۔ مجھے کسی بات کی پروانہ تھی ، بس اپنی محبت کو پا کر بہت خوش تھی ۔ شادی کے بارے لڑکیاں کیسے کیسے سہانے خواب دیکھتی ہیں اور جب شادی محبت کی ہو تو عورت پیا گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی گھر کو جنت کا نمونہ بنانے کے بارے سوچنے لگتی ہے۔ چھ دن میں کائنات بنی تھی، میری شادی بھی چھ دنوں کے اندر اندر ہوگئی ، مگر خوشیوں کی یہ بیل ساتویں دن لٹ گئی۔ رابیل نے تبھی مطالبہ کر دیا کہ میں اپنے والد سے پانچ لاکھ روپے لے کر آؤ تا کہ ہم نئی خوشیوں بھری زندگی شروع کر سکیں۔ ان دنوں پانچ لاکھ بڑی رقم ہوتی تھی۔ رابیل بار بار اصرار کرنے لگے تو مجبوراً آنسوؤں کی گھٹن میں، میں نے والدین سے رقم مانگی لیکن یہ نہ بتایا کہ رابیل کے مطالبے پر مانگ رہی ہوں بلکہ یہ کہا کہ میں سیر کے لیئے ملک سے باہر جانا چاہتی ہوں۔ رابیل کے پاس اتنی رقم نہیں کہ مجھے سیر کو لے جاسکیں۔ ڈیڈی سمجھ گئے کہ میں ہنی مون کی خوشی دامن میں بھرنا چاہ رہی ہوں کہ یہی زندگی کیے یادگار دن ہوتے ہیں، تاہم ان دنوں بے شک یہ رقم زیادہ تھی ، وہ کچھ سوچ کرخاموش ہو گئے۔

بہر حال میں ان کی لاڈلی بیٹی تھی ، میری خوشی ان کو ہر حال میں عزیز تھی ۔ یہ رقم ان کے نزدیک میری خوشی کے مقابلے بہت معمولی تھی۔ میں سمجھ رہی تھی کہ رقم لینے کے بعد رابیل کا دل موم ہو جائے گا اور میں اس کے ساتھ خوشگوار ازدواجی زندگی گزار سکوں گی مگر یہ میری خام خیالی تھی کیونکہ اس رقم سے رابیل نے اپنے چھوٹے بھائی کو پڑھنے کے لئے امریکہ بھجوادیا اور اس کے بعد مزید رقم کا مطالبہ کرنے لگا۔ بھلا اتنی رقم میں دوبارہ اپنے ڈیڈی سے کیونکر مانگ سکتی تھی۔ جب میں نے انکار کیا تو اس نے ایک چال اور چلی ۔ وہ مجھے اپنے دادا دادی سے ملانے کے لئے اپنے گاؤں لے گیا اور کہا کچھ دن میرے بزرگوں کے پاس رہ لو۔ میں جلد آ کر لے جاؤں گا۔ وہ سیدھے سادے شفیق لوگ تھے۔ میں رابیل کی بات مان لی ۔ وہ مجھے اپنے لوگوں کے پاس چھوڑ کر چلا گیا اور شہر جا کر ڈیڈی کو فون کیا کہ آپ کی بیٹی اغوا ہو گئی ہے۔ اگر ہم نے تاوان کی رقم نہ دی تو وہ لوگ اسے قتل کر دیں گے۔ والد اتنے بے وقوف نہ تھے۔ انہیں شک پڑ گیا کہ یہ ضرور رابیل ہی کی کوئی چال ہے۔ انہوں نے کہا۔ ٹھہرو پہلے مجھے پولیس کے پاس یہ معاملہ لے جانے دو۔ یہ سن کر رابیل ڈر گیا اور مایوس ہو کرکہیں روپوش ہو گیا۔ اب ڈیڈی پریشان تھے کیونکہ اس وقت اس کا روپوش ہونے کی کوئی وجہ نہیں بنتی تھی ۔ وہ پولیس کو اطلاع کرنا چاہتے تھے۔ میں نے چونکہ امی کے کان میں پہلے ہی یہ بات ڈال دی تھی کہ رابیل رقم کا مطالبہ کر رہا ہے لہٰذا انہوں نے ڈیڈی کو پولیس کی کارروائی سے روکا اور کہا کہ ممکن ہے اس طرح ہماری بیٹی کی سلامتی پر آنچ آجائے ۔ ہمیں رقم دے دینی چاہیے۔ اگر رابیل واقعی سچ کہہ رہا ہے تو یہ روپیہ کس کام کا، جبکہ اس کی خاطر ہماری بیٹی ہی جان سے چلی جائے۔ میں نے گاؤں سے امی کو فون کیا کہ آپ رقم دے دیں۔ میں محفوظ ہوں ، رابیل مجھے فون کرتا ہے۔ فی الحال اسے راضی کر لیں، پھر جب میں وہاں آجاؤں تو اس سے حساب کر لینا۔ ماں نے والد کو راضی کیا کہ بچی کو لوٹ آنے دو، بعد میں رابیل سے نمٹ لینا۔ والد صاحب نے رقم رابیل کی والدہ کو دے دی اور کہا کہ میرے بیٹی کو دو دن کے اندر اندر یہاں بلا لو، وہ جہاں بھی ہے ورنہ میں آپ لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کروں گا۔ میں اب بھی کارروائی کر سکتا ہوں مگر بیٹی کی خاطر مجبور ہوں ۔ مجھے رابیل نے گاؤں سے لا کر گھر چھوڑا اور خود رقم لے کر غائب ہو گیا۔

میں والدین کے گھر چلی گئی اور وہ میری محبت کے خواب اپنے دامن میں سمیٹ کر ملک سے چلا گیا۔ ڈیڈی قانونی چارہ جوئی کرنا چاہتے تھے مگر میں نے انہیں روک دیا کہ اب کیا حاصل تھا سوائے رسوائی کے۔ جب میری محبت، میرے خواب اور سہاگ ہی نہ رہا، تو قانون کی مدد سے بھی میرا دل بر باد خوشیوں سے دو چار نہیں ہو سکتا۔ ان کی اربوں کی عزت کورٹ کچہریوں میں اچھلتی۔ لوگ جو ان کو بہت معزز جانتے تھے، کیسی باتیں بناتے کہ سیٹھ نے کسی راہ چلتے لالچی اٹھائی گیرے کو اپنا داماد بنالیا ہے۔ میرے مجبور کرنے پر ڈیڈی خون کے گھونٹ پی کر چپ گئے۔ میرے ساس سسر بنگلہ بیچ کر ہمارے علاقے سے چلے گئے ۔ وہ خود بھی بیٹے کی اس حرکت پر سخت ناراض اور غمزدہ تھے۔ ڈیڈی ان کو ذلیل کرتے بھی تو کیا ملتا، سوائے لوگوں کی لعنت ملامت سہنے کے۔ انسان کو اپنی عزت کی خاطر کیا کچھ نہیں سہنا پڑتا ۔ غلطی میری تھی۔ انہوں نے تو مجھے روکا تھا، پھر میری ضد کے آگے خون کے گھونٹ پی کر چپ ہو گئے اور میں ہوں کہ اب تک خون کے آنسو بہا رہی ہوں۔ اگر اللہ نے ڈیڈی کو دولت دی تھی ، وہ مجھے اتنی آزادی نہ دیتے تو بھلا تھا۔

Latest Posts

Related POSTS