زندگی میں رشتے دولت سے زیادہ اہم ہوتے ہیں لیکن میرے والد نے اپنے جوان بیٹے کو کھو کر یہ جانا – اپنی انا اور رعونت کے چکر میں اپنا خاندان تباہ کر لیا – اور ہاتھ بھی کچھ نہ آیا – کہتے ہیں خاندانی ہونے کی یہ نشانی ہے کہ آدمی کو اس کے پرانے ملازم بھی چھوڑ کر نہیں جاتے۔ امی بھی ایک خاندانی خاتون تھیں۔ وہ نوکروں کو پیار سے رکھتی تھیں۔ ان کو اپنے بچوں سے پہلے کھانا دیتیں ، یہی وجہ تھی کہ ان کے پاس پرانے نوکر بھی ابھی تک جڑے ہوئے تھے۔ ہم بچوں پر امی کی تربیت کا بہت اثر تھا۔ ہم چار بہن بھائی تھے ۔ سب ہی صلح جو ،امن پسند اور باادب تھے۔ ہماری ماں نے یہ سکھایا تھا کہ کبھی غریبوں کو اپنے سے کم ترمت سمجھنا اور نہ ہی غریب رشتہ داروں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا- لیکن والد صاحب امی سے بوہت مختلف سوچ رکھتے تھے وہ ایک اعلی آفیسر تھے۔ ہمارے ایک ہی چچا تھے ۔ بد قسمتی سے وہ تعلیم حاصل نہ کر سکے اس لیے کریانے کی دکان کھول لی کہ روزی روٹی ہر حال میں کرنا ہی ہوتی ہے ، یوں ہمارے اور ان کے درمیان طبقاتی فرق پیدا ہو گیا۔ چچا جان کی دکان گرچہ ٹھیک ٹھاک چلتی تھی۔ ان کے گھر کا گزارہ بخوبی ہو جاتا تھا لیکن میرے ابو آفیسری ملنے کی وجہ سے اسٹیٹس کو اہمیت دینے لگے اور اپنے سگے بھائی سے دوری اختیار کر لی ،لیکن میری والدہ کو ابو کی یہ نخوت پسند نہ آئی۔ آفیسر کے بچوں میں اگر نخوت و غرور ہوتا ہے تو والدین کی وجہ سے ہوتا ہے۔ میری ماں سیدھی سادی عبادت گزار خاتون تھیں۔ وہ انسان کو انسان ہی سمجھتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ہمیں اچھی تعلیم دی اور اپنے غریب رشتہ داروں سے قطع رحمی نہیں سکھائی۔ ہم چچا کے گھر آتے جاتے اور ان کے بچوں سے پیار و محبت سے ملتے تھے۔ چچا اپنے آبائی مکان میں مقیم تھے جو پانچ مرلے کا تھا اور پرانے طرز کا بنا ہوا تھا جبکہ والد کو سرکاری بنگلہ ملا ہوا تھا جو کئی ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔ ہمارے پاس گاڑیاں تھیں اور نوکر چاکر بھی لیکن والدہ صاحبہ کی تربیت کی وجہ سے ہم میں غرور نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ میرے سب سے بڑے بھائی محسن ہم سب سے زیادہ خوبصورت ، ذہین و فطین تھے مگر صاف گو، نڈر اور منہ پھٹ تھے تبھی ان کی اکثر لوگوں سے نہیں بنتی تھی۔ جہاں بیٹھے ہوتے سب سے الگ تھلگ نظر آتے ۔ پڑھائی میں وہ تیز تھے ،کلاس میں اول آتے تھے۔ ان کو سب سے زیادہ چچا جان کے گھرانے سے شغف تھا۔ فارغ وقت میں وہاں چلے جاتے اور زیادہ تر چچا کے بچوں کے ساتھ وقت گزارنا پسند کرتے۔ میرے والد کو اپنے افسر ہونے کا کچھ زیادہ ہی احساس تھا۔ وہ اپنے بھائی کو کمتر سمجھتے تھے ۔ وہ ہمارا چچا کے گھر آنا جانا اور ان کے بچوں کے ساتھ ملنا جلنا قطعی پسند نہ کرتے بلکہ ہمیں بھی منع کرتے۔ ابو نہ کسی کو اپنے حلقے میں یہ بتاتے کہ میرے بھائی کی کریانہ کی دکان ہے یا یہ کہ میرا کوئی بھائی بھی ہے ۔ وہ اپنے دوستوں سے بھائی اور بھتیجوں کا تعارف کروانا اپنی توہین خیال کرتے تھے۔ اگر ان کو پتا چل جاتا کہ محسن چچا کے گھر گیا تھا تو سخت خفاہوتے ، کہتے کہ ان لوگوں کے ساتھ میل جول سے کبھی بھی تم لوگوں کے رشتے اچھے گھرانوں میں نہیں ہو سکتے جبکہ میں تم لوگوں کے رشتے خاندان سے باہر اعلی افسروں کے گھرانوں میں کرنا چاہتا ہوں۔ تم لوگ یہ بات کیوں نہیں سمجھتے کہ اعلی گھرانوں کے لوگ رشتے ناتے کرنے سے پہلے یہ چھان پھٹک بھی کرتے ہیں کہ جن لوگوں سے رشتہ جوڑ رہے ہیں ان کا خاندانی پس منظر کیا ہے ؟ وہ اپنے چھوٹے بھائی کے بارے میں کہتے تھے کہ کاش یہ بھی پڑھ لکھ کر آفیسر بن جاتا تو میری لو گوں کے سامنے ایسی سبکی نہ ہوتی۔ گویا ابو جان کی نظر میں دیگر پیشوں کی کوئی حرمت نہ تھی۔ وہ تو بس آفیسر ہونے کو ہی سب کچھ جانتے تھے۔ ابو کی نخوت کے سبب چچا ہمارے گھر نہیں آتے تھے اور نہ ان کے بچے ہمارے گھر آنا پسند کرتے۔ ظاہر ہے جب سگا تایا ہی منہ نہ لگائے تو کیونکر ان کا دل کرتا آنے کو ،البتہ جب امی اور ہم لوگ ان کے گھر جاتے ہماری بہت آؤ بھگت کرتے اور بہت تپاک سے ملتے تھے ۔ امی نے ان لوگوں سے اپنے طور پر ناتا رکھا ہوا تھا۔ ان کی خوشی غمی میں از خود شریک ہوتی تھیں ، لیکن محض ابو جان کی خفگی کے خوف سے ، کھلم کھلا ان سے نہیں ملتی تھیں۔ یوں ہمارے خاندان میں عجیب سے احساسات رواں پاگئے۔ ہم اپنے غریب رشتہ داروں سے ملتے تھے ،ان سے پیار بھی کرتے تھے اور اس بات کو سب سے چھپاتے بھی تھے۔ اپنے باپ کے اس طرز سے ہم خوش نہ تھے۔ بس چلتا تو ان کی سوچ ہی بدل دیتے ۔ وقت گزرتارہا، یہاں تک کہ ہم بڑی کلاسوں میں پہنچ گئے۔ حسن بھائی نے ایم بی اے کر لیا تو ان کو ملک سے باہر جانے کی سوجھی ۔ ابو چاہتے تھے کہ وہ کسی اعلی افسر کی بیٹی سے شادی کر لیں اور اس کے ذریعے باہر نکل جائیں۔اس کے لئے انہوں نے کافی تگ ودو کی۔ والد صاحب اعلی افسران کی مع فیملی ،دعوتیں کرتے۔ یہ ایسے افسر تھے جو اپنی بچوں کے لئے ہونہار نوجوانوں کی تلاش میں تھے اور اپنے ہونے والے داماد کو بیرون ملک بھجوانے کی استطاعت بھی رکھتے تھے لیکن محسن بھائی کو والد کے یہ منصوبے پسند نہ تھے۔ وہ کہتے تھے کہ میں کسی کے دبائو میں رہ کر خوشی کی زندگی نہیں گزار سکتا سو اپنی کوشش سے جائوں گا اور اپنی کوشش سے جانے کا مطلب تھا کہ بندے کے پاس بہت سا مال و دولت ہو۔ ابو جان نے محسن بھائی کو بڑے گھرانے میں رشتے کے لئے راضی کرنا چاہا مگر ان کو وہ لڑکیاں پسند نہیں آئیں جو ابو نے ان کے لئے پسند کی تھیں۔ ان دونوں لڑکیوں کے باپ اس قدر صاحب حیثیت تھے کہ وہ محسن کو اپنے خرچے پر یا حکومتی ذرائع سے بیرون ملک اعلی تعلیم دلوا سکتے تھے ، بزنس کرا سکتے تھے اور دولت مند بنا سکتے تھے۔ میرے والد کو بیٹے کے رویئے کا بڑا دکھ تھا۔ محسن بھائی والد کی سوداگرانہ باتوں کو نہ صرف یہ کہ سمجھتے نہیں تھے بلکہ سرے سے اہمیت ہی نہیں دیتے تھے۔ اس کے برعکس وہ چچا جان کے گھر دوڑے دوڑے جاتے۔ دراصل شروع سے ہی بھائی چچا زاد عتیقہ کو پسند کرتے تھے اور اس کے ساتھ شادی کے آرزومند تھے۔ اس بات کا تذ کرہ انہوں نے مجھ سے اور امی جان سے بھی کیا مگر ہم لوگ عقیقہ کو چاہتے ہوئے بھی ابو کے خوف سے دم سادھے تھے۔ محسن بھائی نے بتلا دیا کہ شادی کروں گا تو عتیقہ سے ورنہ کسی سے نہیں کروں گا۔ یہ بات آپ میری سن رکھیں۔ بہت کوششوں سے وہ اپنے بل بوتے پر بیرون ملک جانے میں کامیاب ہو گئے ، جاتے ہوئے مجھے تاکید کر گئے کہ عتیقہ کی خبر رکھنا۔ ایسانہ ہو کہ میرے پیچھے اس کی کسی اور سے شادی ہو جائے ۔ حالات مجھ کو لکھتی رہنا۔ اگر اس کے رشتے کی سن گن پائو تو فورا خبر کرنا، میں فوراً پہنچ جائوں گا۔ تین برس بعد وہ بیرون ملک سے وطن واپس آگئے۔ ان دنوں عتیقہ فائنل ایئر میں تھی اور ابھی تک اس کے رشتے کی کہیں بات طے نہیں ہوئی تھی۔ محسن بھائی نے جب ہر طرح سے اطمینان کر لیا تو دوبارہ بیرون ملک جانے کی سوچنے لگے۔ اس بار امی اور میں نے بہت منع کیا لیکن انہوں نے یہی کہا کہ ایک بار اور میرا جانا ضروری ہے۔ اگلی بار آئوں گا تو عتیقہ سے شادی کر لوں گا۔ چچا جان اور چچی سے کہہ دینا کہ اگر انہوں نے بیٹی کارشتہ کہیں اور کیا تو میں گھر کی اینٹ سے اینٹ بجادوں گا اور آپ لوگ بھی ہماری شادی کی تیاری رکھنا۔ گھر والوں نے ان کی کسی بات کو سنجیدگی سے نہ لیا کیوں کہ ہم سب ہی ابو کے اشاروں کے غلام تھے ۔ چچا بھی ان کا مزاج جانتے تھے۔ میں نے ان کو محسن بھائی کا پیغام پہنچادیا۔ وہ سن کر خاموش ہی رہے۔ چاچا جان ! محسن ہی نہیں میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ عتیقہ میری بھابھی بنے ۔ میں نے کہا تھا۔ بیٹی ، تمہارے چاہنے سے کیا ہوتا ہے ؟ اصل بات تو تمہارے ابو کی ہے اور تمہارے ابو بڑے افسر آدمی ہیں ، رہی محسن کے چاہنے کی بات تو یہ وقت جوش ہے۔اس عمر میں سبھی نوجوان ایسا سوچتے ہیں۔ تم اپنے والد کو کہو۔ اگر وہ عتیقہ کو بہو بناناچاہتے ہیں تو مجھ سے بات کر لیں ، مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ابو سے کلام کرنے کی مجھ میں جرات نہ تھی۔ میں نے امی کو راضی کیا کہ ابو سے بات کریں۔ تب ہم دونوں نے مل کر ان سے بات کی لیکن انہوں نے کوئی توجہ نہ دی۔ محسن بھائی کینیڈا میں تھے ۔ انہوں نے مجھ سے رابطہ رکھا ہوا تھا۔ وہ مجھ سے عتیقہ کے بارے پوچھتے رہتے تھے۔ بے شک محسن بھائی نے عتیقہ سے بھی زبانی اظہار محبت نہ کیا تھا لیکن دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے زبردست چاہت تھی ۔ محسن بھائی کو گئے تین برس بیت گئے تھے ۔ ابو امی ان کے لئے بہت اداس تھے۔ والد نے رابطہ کیا کہ بیٹا اب آ جائو تا کہ ہم تمہاری شادی کر دیں۔ تمہاری ماں تمہاری شادی کی خوشی دیکھنے کی آرزومند ہے۔ بالآخر اس نے ابو کو کہہ دیا کہ میں تب ہی واپس آئوں گا جب آپ میری عتیقہ سے شادی کر یں گے ۔ والد نے جواب دیا۔ تم آئو تو سہی ،اس مسئلہ پر بھی بات کر لیں گے ۔ جب وہ لوٹا تو انہوں نے پھر سے پہلے والا طرز اپنالیا۔ اعلی خاندان کی خوبصورت لڑکیاں دکھائیں لیکن بھائی کا ایک ہی جواب تھا۔ چچا کا خاندان کیا برا ہے ؟ آخر تو وہ ہمار اپنا ہی خاندان ہے ۔ دولت کے فرق سے ذات اور رشتے تو نہیں بدل جاتے۔ ایک روز میں چچا کے گھر گئی تو پتا چلا کہ عتیقہ کی تو منگنی ہو گئی ہے ۔ میں نے محسن بھائی کو یہ خبر نہ پہنچائی کہ پردیس میں پریشان ہوں گے، تقریبا ایک ماہ بعد شادی تھی۔ عتیقہ کی شادی سے ایک ہفتہ قبل محسن کا فون آگیا، کہنے لگا۔ عارفہ ، میں نے خواب دیکھا ہے کہ عتیقہ کی شادی ہو رہی ہے۔ کیا بات ہے ، کہیں یہ سچ تو نہیں؟ مجھ سے جھوٹ نہ بولا گیا ورنہ وہ بعد میں ناراض ہوتے۔ سب سچ بتا دیا وہ پھر بھی ناراض ہوئے اور فون رکھ دیا۔ عتیقہ کا گھر سجا ہوا تھا، اگلے دن اس کی رخصتی تھی کہ محسن بھائی آ پہنچے۔ سارے گھر والے حیران تھے کہ یہ عین وقت پر کیونکر پہنچ گیا ؟ خدا خیر کرے، کہیں رنگ میں بھنگ ہی نہ ڈال دے کیونکہ اس کے مزاج کو سبھی جانتے تھے ۔ جو بات کرنی ہوتی ڈنکے کی چوٹ پر کر گزرتا تھا۔ محسن بھائی کے تیور دیکھ کر میں ڈر گئی۔ دعا مانگنے لگی کہ خدا خیر کرے ،دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ گھر پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد وہ نہا دھو کر لباس تبدیل کر کے گاڑی میں چچا جان کے گھر چلا گیا۔ عتیقہ کے گھر بارات کا انتظار ہو رہا تھا اور وہ دولہن بنی بیٹھی تھی۔ چچا جان محسن کو دیکھ کر گھبرا گئے لیکن وہ اس وقت بالکل نارمل لگ رہا تھا، نہ اس نے گھبراہٹ ظاہر کی۔ اس نے چچا کی گلی میں گاڑی پارک کر دی اور فل آواز میں ٹیپ چلا دیا ۔ چچا جان نے ابو کو فون کیا۔ تبھی امی دوڑی ہوئی گئیں اور کسی طرح بیٹے کو سمجھا کر گھر لے آئیں۔ یہ کہ کر کہ تمہارے والد سے بات کرتی ہوں۔ ابھی تو عتیقہ کا نکاح باقی ہے۔ تم خاطر جمع رکھو ہم کچھ نہ کچھ کرتے ہیں۔ ابو بظاہر نکاح رکوانے گئے تھے۔انہوں نے وہاں کچھ نہ کیا، الٹا گواہ بن کر آگئے ۔ تھوڑی دیر محسن نے انتظار کیا کہ ابوا اچھی خبر لاتے ہیں۔ جب کچھ خبر نہ آئی تو وہ پھر اٹھ کر چچا کے گھر چل دیئے۔ وہاں تو رخصتی تیار تھی۔ دولہا دلہن اسٹیج پر بیٹھے تھے۔ محسن بھائی اسٹیج پر چڑھ گئے۔ جتنی رقم جیب میں تھی ، سب دولہا کو بطور سلامی دے دی اور بولے کہ کاش کچھ اور ہوتا تو وہ بھی دے دیتا۔ پھر انہوں نے گاڑی کی چابی بھی اس کو دے دی اور عتیقہ سے کہنے لگے کہ میں نے آج تک اپنی چاہت کا اظہار تم سے نہیں کیا تھا۔ بس بزرگوں کی منتیں کرتا رہا لیکن آج بھری برادری کے سامنے کہتا ہوں کہ میں نے زندگی میں تمہارے سوا کسی کو نہیں چاہا لہذا اب میں تم کو اب شخص کے ساتھ نہیں جانے دوں گا۔ اس کو طلاق دینی ہو گی اور تم کو میرا ہونا ہو گا۔ یہ کیا اول فول بک رہے ہو ؟ شاید پھر نشہ کر لیا ہے۔ چچا اور قریبی رشتہ داروں نے محسن بھائی کو قابو کیا پھر حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوۓ وہ سب یک زبان ہو کر کہنے لگے۔ یہ ہمارا کزن نشہ کرتا ہے ،اسی لئے اس کی دماغی حالت ٹھیک نہیں۔ اس کا ذہنی توازن خراب ہے۔ عقل زائل ہو گئی ہے ، یہ نیم پاگل ہے۔ اس کو ابھی اسپتال لے جاتے ہیں یہ مینٹل ہاسپٹل سے بھاگ کر آ گیا ہے۔ یہ ہر دفعہ جہاں بھی عزیزوں کے ہاں شادی ہو رہی ہوتی ہے ،ایسے ہی اول فول بکنے لگتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان لوگوں نے پکڑ دھکڑ کر کے محسن کو قابو میں کیا اور اٹھا کر ایک کمرے میں لے گئے۔ کمرے کو باہر سے بند کر دیا گیا۔ اس کے چیخنے چلانے کی بھی پروانہ کی گئی۔ بچاری عفیفہ حیران و پریشان رونے گئی۔ اس نے کچھ کہنا چاہا تو اس کی ماں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ فورا ہی رخصتی کر دی گئی ،اس سے پہلے کہ دولہا والے معاملے کو سمجھ جاتے ۔ ان کو دلہن کے ہر قریبی عزیز نے یہی سمجھایا کہ محسن ان کے خاندان کا ایک پاگل لڑکا ہے۔ اگر ذہنی طور پر درست ہوتا تو بھی اس طرح کی حرکت نہ کرتا۔ گرچہ دولہا والوں کے ذہن میں سوال اٹھے بھی ہوں گے مگر وہ نہایت شریف لوگ تھے ، خاموش ہو گئے اور کسی نے کبھی تقریب میں رنگ میں بھنگ نہیں ڈالا۔ جو بیٹیوں والے ہوتے ہیں ایسے وقت میں حالات کو بگاڑنے کی بجاۓ سنبھالنے کی کو شش کرتے ہیں۔ رخصتی ہو گئی ، بارات چلی گئی۔ چچی نے کمرے کا درواز کھولا۔ محسن بھائی ان کے گھر سے بغیر کچھ کہے نکل گئے۔ دولہا دلہن گاڑی میں اور بارات بس میں گئی تھی۔ ابھی بارات جی ٹی روڈ تک پہنچی تھی کہ سڑک پر محسن بھائی پہنچ گئے۔ انہوں نے کتنی تیز رفتاری سے گاڑی چلائی تھی۔ وہ دولہا دلہن والی گاڑی کے آگے آگے چلنے لگے۔ گاڑی نے سائیڈ دے کر ان کو بچانے کی کوشش کی مگر باراتیوں سے بھری بس جس کی رفتار تیز تھی ان کی گاڑی پر چڑھ گئی اور بھائی کی کار بری طرح بس کی زد میں آ گئی۔ بھائی سڑک پر تڑپنے لگے۔ بس رک گئی ، باراتی بس سے اتر گئے۔ سب جائے حادثہ پر جمع ہو گئے۔ محسن بھائی نے موقع پر دم توڑ دیا۔ اس وقت دلہن کو نہ بتایا گیا کہ کون بس کے نیچے آ گیا ہے بلکہ چچا دولہا دلہن کی گاڑی کو بہت آگے نکال کر لے گئے۔ جب مرنے والا جان ہار گیا تو کسی نے دلہن سے کیا حساب لینا تھا ۔ اس بچاری کا کوئی قصور بھی نہ تھا۔ بہر حال جیسی بھی زندگی ملی ، عتیقہ نے گزار دی مگر میرا پیارا بھائی اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ جنون عشق نے ان سے جان کی قربانی لے لی ۔ کاش میرا بھائی ہوش سے کام لیتا اور ایسا انتہائی قدم نہ اٹھاتا۔ ماں باپ بچوں کی مرضی کو اہمیت دیں تو ایسے بہت سے واقعات رک سکتے ہیں لیکن بڑوں کی ہٹ دھرمی نقصان کی بھر پائی نہیں کر سکتی-