آصف مجھے اپنے چند دوستوں کی فیملیز سے ملوانے لے گیا۔ اپنے ادارے کے سالانہ ڈنر میں بھی میری شرکت کرائی اور اس موقع پر مجھے خصوصی تیاری کی ہدایت کی۔ ’’ذرا اچھی طرح تیار ہونا۔ لوگ تمہیں مسز آصف کی حیثیت سے دیکھیں گے۔‘‘
’’میری اپنی بھی تو کوئی حیثیت ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
وہ مجھے استہزائیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔
’’کیا ہوا؟ ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
وہ میرے رُوبرو آتھما۔ چند ثانیے گہری نگاہوں سے مجھے دیکھتا رہا۔ پھر میری ناک کو اپنی اُنگلی سے تھپتھپاتے ہوئے بولا۔ ’’میرے بغیر تمہاری حیثیت دو ٹکے کی بھی نہیں۔‘‘
میں دَم بخود رہ گئی۔
’’یس!‘‘ اس نے پُرزور لہجے میں کہا۔ ’’میرے بغیر تم کچھ بھی نہیں!‘‘
میں ٹکر ٹکر اس کا منہ دیکھے گئی۔
’’آزمانا چاہو تو آزما لو… تین مرتبہ نہ سہی ایک بار طلاق دے دیتا ہوں تمہیں۔ زمین پر اوندھے منہ آگرو گی… یہی لوگ جو آج تمہیں رَشک سے دیکھ رہے ہیں پہچانیں گے بھی نہیں۔ خود ہی بتاتی ہو زبیر سے طلاق کے بعد تمہارے رشتے داروں کا روّیہ بدل گیا تھا۔‘‘
میں سانس روکے اس کے جملوں کی کاٹ سہہ رہی تھی۔
ڈنر کے دوران وہ مجھے اپنے کولیگز اور ان کی فیملیز سے نہایت گرمجوشی سے ملواتا رہا۔
’’مائی وائف!‘‘
’’مائی مسز!‘‘
’’مائی بیٹر ہاف۔‘‘
لوگ مجھ سے نہایت احترام و اشتیاق اور میں لوگوں سے خندہ پیشانی سے ملتی رہی۔ مسکراہٹ کا تبادلہ ہوتا رہا مگر اس جگمگاتی محفل میں بھی میرے دل میں اندھیرا اور سنّاٹا تھا۔
ڈنر کے بعد گھر واپس لوٹتے ہوئے اس نے راستے میں مجھ سے کہا۔ ’’آج تمہیں اندازہ ہوگیا ہوگا کہ مس عفاف اور مسز آصف کی حیثیتوں میں کیا فرق ہے۔‘‘
میں کچھ نہیں بولی۔
اس نے اسٹیئرنگ وھیل سے اپنا ایک ہاتھ اُٹھا کر میرا رُخسار چھوا اور بولا۔ ’’میرے بغیر تم کچھ بھی نہیں مس عفاف۔‘‘
غیر اختیاری طور پر میرے جبڑے بھنچ گئے۔
زبیر کے ساتھ بھی میری زندگی مشکل ہی رہی تھی مگر تب توہینِ ذات کا احساس ایسا جاں گسل نہ تھا۔ وہ گھر والوں کے لاڈ میں بگڑا ایک دوست باز، خرچیلا اور لالچی بندہ تھا مگر میری زندگی میں آنے والا یہ دُوسرا مرد اس سے بڑھ کر کمینہ ثابت ہو رہا تھا۔ زبیر تو مجھے تنہا چھوڑ کر رات گئے تک دوستوں کی محفلیں گرم رکھتا تھا اور یہ میرے پاس ہوتے ہوئے بھی میرا نہیں ہوتا تھا۔
دفتر سے واپس آنے کے بعد روزانہ اپنے گھر والوں سے فون پر لمبی گفتگو کرتا۔ بچوں سے ان کی پڑھائی کے بارے میں تفصیلی استفسار کرتا۔ اس دوران مجھے منہ میں گھنگنیاں ڈالے بالکل خاموش رہنا پڑتا۔
میں کبھی کمرے سے اُٹھ کر امّی کے پاس چلی جاتی۔ کبھی دم سادھے خاموش بیٹھی رہتی۔ آصف کا کہنا تھا کہ مناسب موقع دیکھ کر وہ گھر والوں کو اپنی دُوسری شادی کے بارے میں بتائے گا۔ اس وقت تک اس رشتے کو راز رہنا چاہیے تھا۔
٭…٭…٭
مائوں کو اولاد کے دَرد کا الہام ہوتا ہے۔ گو میں نے امّی کو اپنے درد سے بے خبر رکھنے کی حتی الوسع کوشش کی مگر میری کوشش کے باوجود امّی کو میرے درد کا اندازہ ہوگیا۔
شادی کے تیسرے ماہ جب آصف ویک اینڈ کے ساتھ مزید ایک ہفتے کی چھٹی لے کر اپنے گھر والوں سے ملنے گیا تو ایک روز امّی نے مجھ سے کہا۔ ’’گڈو! اپنے پرائے سب تیرے میاں کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ تیرے مقدر پر رشک کرتے ہیں لیکن پتا نہیں کیوں میں تجھے دیکھتی ہوں تو میرا دل کہتا ہے تو آصف کے ساتھ خوش نہیں ہے۔‘‘
میرا جی بھر آیا… اس احساس سے کہ اس بھری دُنیا میں کوئی تو تھا جسے میرے درد کی خبر تھی تاہم میں نے امّی کی تسلی کو اپنے آنسو پیتے ہوئے بظاہر بشاش دکھائی دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’ایسی کوئی بات نہیں امّی… میں خوش ہوں۔‘‘
’’میرا دل نہیں مانتا۔‘‘امّی آزردہ ہو رہی تھیں۔
’’دل کیوں نہیں مانتا۔‘‘ امّی کو دکھانے کے لیے میں نے مسکرانے کی کوشش کی۔
’’بس… میرا دل کہتا ہے تو خوش نہیں… آج تک اس نے ایک چھلّا تک نہیں دلوایا تجھے۔‘‘
’’میری پیاری ماں… اگلی بار چھٹی لیں گے تو وہ مجھے دبئی لے جا کر شاپنگ کرائیں گے۔‘‘
’’جب کرائے گا تب دیکھا جائے گا۔ یہاں مارکیٹیں مٹ گئی ہیں کیا… ارے جو مرد عورت کا خیال رکھنے والا ہوتا ہے وہ ویرانے میں بھی اس کے لیے پھول ڈھونڈ نکالتا ہے… سمندر کے کنارے گھونگھے، موتی تلاش کر کے ہار پرو لیتا ہے… پہاڑ کھود کر دُودھ کی نہر نکال لیتا ہے۔‘‘
میں بے ساختہ مسکرا دی۔ ’’میں کون سی کوئی شیریں ہوں امّی جو وہ فرہاد بن کر میرے لیے پہاڑ سے جوئے شیر نکالے گا۔‘‘
’’اچھے مرد کے لیے اس کی بیوی شیریں سے کم نہیں ہوتی۔ اچھا شوہر اپنی بیوی کو خوش رکھنے کے لیے ہر جتن کرتا ہے۔ اللہ بخشے تیرے ابّا اگر ڈبل ڈبل نوکریاں کر کے یہ گھر نہ بنا گئے ہوتے تو میں آج کس کے آسرے پر بیٹھی ہوتی۔‘‘
’’ارے میری ماں پریشان نہ ہوں۔‘‘
’’کیسے پریشان نہ ہوں… تو سمجھتی ہے میری آنکھیں نہیں یا میں پاگل ہوں بولتی نہیں تو کیا، سمجھتی سب ہوں۔ یہ بال دُھوپ میں سفید نہیں ہوئے ہیں میرے… مجھے پتا ہے وہ تجھے کچھ نہیں دیتا۔ مجھے تو لگتا ہے گھر کا کرایہ بھی تو دیتی ہے۔ سودا سلف بھی تو ہی اپنے پیسوں سے لاتی ہے بلکہ وہ تجھے تیرے دفتر لانے لے جانے کے عوض تجھ سے اپنی گاڑی میں پٹرول بھی ڈلواتا ہوگا۔‘‘
میں امّی کے کشف پر حیران رہ گئی۔ بالخصوص ان کے آخری فقرے پر کہ آصف واقعی ہر تیسرے چوتھے دن اپنی گاڑی میں فیول ڈلوانے کے لیے مجھی سے ادائیگی کرواتا تھا۔
امّی کے اظہار ِکشف کا یہ فائدہ ہوا کہ میں جو امّی کو صدمے سے بچانے کے لیے آصف کی حرکتیں ان سے مسلسل چھپاتی آرہی تھی اور تنہا یہ درد جھیل رہی تھی مجھے اب اپنا دل ہلکا کرنے کے لیے ایک کندھا مل گیا۔
٭…٭…٭
اپنے گھر والوں کے ساتھ چند دن گزارنے کے بعد آصف نہایت خوش و خرم واپس لوٹا۔ اس نے گھر والوں کو اپنی نئی شادی کے بارے میں بتا دیا تھا اور بقول اس کے کسی نے زیادہ برہمی کا اظہار نہیں کیا تھا۔
’’امّی ابو کو تو احساس تھا کہ مجھے ایک پڑھی لکھی بیوی کی ضرورت ہے اس لیے انہوں نے کوئی خاص ناراضگی نہیں دکھائی۔‘‘
’’یعنی ناراض ہوئے؟‘‘
’’تھوڑا سا۔‘‘
’’اور آپ کے بیوی بچّے؟‘‘
’’ایک دو دن سب کے منہ پھولے رہے۔ پھر ٹھیک ہوگئے… شادی میری ضرورت تھی۔ مرد تنہا رہے تو گناہ کا اندیشہ ہوتا ہے۔ گناہ سے بہتر ہے کہ آدمی نکاح کر لے۔‘‘
آصف اپنے گھر والوں کی تازہ تصاویر اور ویڈیوز بھی اپنے لیپ ٹاپ میں محفوظ کر کے لایا تھا۔ اس نے مجھے وہ تصویریں اور ویڈیوز دکھائیں تو ان کی خوبصورت اور نوجوان گھریلو ملازمہ تازہ تصاویر اور ویڈیوز میں بھی ادائیں دکھاتی نظر آئی۔
’’بڑی شوقین مزاج لگتی ہے، مجھے آپ کی یہ نوکرانی۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں ہے تو شوقین مزاج۔‘‘
’’عام طور پر نوکرانیاں اتنی خوبصورت اور اسمارٹ ہوتی نہیں ہیں۔‘‘
’’ایسی نوکرانیاں مالک کو مشکل میں ڈال دیتی ہیں۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
’’آپ پڑے مشکل میں؟‘‘
’’ہاں یار پڑ تو گیا تھا۔‘‘
میں نے چونک کر آصف کی طرف دیکھا اور قدرے تجسس سے پوچھا۔ ’’پھر؟‘‘
’’پھر کیا؟‘‘
’’میرا مطلب ہے کیسے نکلے اس مشکل سے؟‘‘
’’نکلا کہاں؟‘‘ وہ معنی خیزی سے مسکرایا۔ ’’پھنس گیا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ میں چونکی۔
’’شادی کرنی پڑی یار۔‘‘
’’کس سے؟‘‘ میں نے آصف کو حواس باختہ ہو کر دیکھا۔
’’اسی سے۔‘‘
’’کیا!‘‘ میں ہکّا بکّا ہو کر اسے دیکھنے لگی۔
’’ہاں نا…‘‘ وہ اپنے لیپ ٹاپ پر روشن تصویر کو بڑا کر کے بولا۔ ’’یہ میری دُوسری بیوی ہے اور اس کی گود میں میرا بیٹا۔‘‘
مجھے یوں لگا جیسے میں کسی دُوسرے سیّارے سے… خلائی مخلوق کی آواز سن رہی تھی۔ میں دم بخود تھی۔ صدمے میں تھی۔
میرا جی چاہا۔ اس کا گریبان پکڑ لوں۔ منہ نوچوں مگر مجھے دوبارہ اس صدمے سے بچنا تھا جس نے میری رُوح کو گھائل کر دیا تھا۔ سو میں نے اپنے رنج، صدمے اور غصّے کو قابو میں رکھتے ہوئے کہا۔ ’’آپ نے پہلے یہ بات کیوں نہیں بتائی کہ آپ کی ایک نہیں دو بیویاں ہیں۔‘‘
’’تم بھول رہی ہو بتایا تھا۔‘‘
’’کب؟‘‘ میں چونکی۔
’’جب میں تمہارے بلانے پر پہلی بار تمہارے آفس آیا تھا… تمہیں یاد ہوگا تم نے مجھ سے پوچھا تھا بیوی ایک ہی ہے نا۔‘‘
’’ہاں… مجھے یاد ہے۔‘‘
’’اور میں نے جواب میں کہا تھا دین تو مرد کو چار کی اجازت دیتا ہے۔‘‘
’’ہاں مجھے یاد ہے آپ نے یہی کہا تھا۔ مگر آپ نے یہ کب کہا تھا کہ آپ کی پہلے ہی دو بیویاں موجود ہیں۔‘‘
’’میں اگر ایسا کہتا تو کیا تم مجھ سے شادی کرتیں؟‘‘ وہ مسکرایا۔
’’ہر گز نہیں۔‘‘
’’اسی لیے میں نے سیاسی جواب دیا۔ جھوٹ بولا نہ اقرار کیا۔‘‘
میں نے دل ہی دل میں اسے گالی دی۔ اس کی عیّاری اور مکّاری پر مجھے بے پناہ غصہ آرہا تھا۔ میں بے طرح تلملا رہی تھی۔
’’تم شاکڈ ہوئیں؟‘‘
’’بہت!‘‘ میری آواز میں رقّت گھلی تھی۔ ’’آپ نے مجھے دھوکا دیا۔ میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔‘‘
’’یہ نہیں کہہ سکتیں تم… میں نے دینی مسئلہ بیان کر دیا تھا۔‘‘
مجھے اس سے کراہیت محسوس ہوئی۔ دین کی آڑ میں آصف جیسے عیّار لوگ اپنے بدنما چہرے اور مکروہ اعمال کیوں کر چھپاتے ہیں۔
اس رات میں سو نہ سکی۔ مجھے نہایت بے چینی کا احساس تھا۔ بستر پر کیڑے رینگتے محسوس ہو رہے تھے جو میرے وجود کو جا بجا کاٹ رہے تھے۔ میں ساری رات کروٹیں بدلتی رہی اور وہ بڑے آرام سے گہری نیند سوتا رہا۔
صبح دفتر جانے سے پہلے میں نے امّی کو یہ بات بتائی تو وہ اپنا سر دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر چکراتے ہوئے بیٹھ گئیں۔
’’اوہ۔ امّی میں نے آپ کو اس لیے تھوڑی بتایا کہ آپ اتنی پریشان ہو جائیں۔‘‘
امّی رونے لگیں۔
’’پلیز امّی!‘‘
امّی نے میرا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھام لیا اور ڈُبڈبائی آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں بولیں۔ ’’میں تیری مجرم ہوں… تجھے دوبارہ بسانے کی جلدی میں، میں نے تیری قسمت پھوڑ دی۔‘‘
’’آپ میرا بُرا تھوڑی چاہ سکتی تھیں امّی… بس میری قسمت۔‘‘ امّی کو دلاسا دینے کے لیے مجھے حوصلہ دکھانا پڑا۔
امّی گھٹ گھٹ کر رونے لگیں۔
’’امّی پلیز! اگر آپ نے ہمت نہ پکڑی تو میں آفس بھی نہ جا سکوں گی۔‘‘
’’اب کیا ہوگا؟‘‘ امّی نے روتے ہوئے کہا۔
’’گزارہ۔ امّی اور کیا۔ مجھے دُنیا کو پھر دوبارہ اپنے اُوپر ہنسانا تھوڑی ہے۔‘‘
امّی دیوانہ وار کبھی میرے ہاتھ، کبھی چہرہ چومنے لگیں۔ کسی عقیدت مند کی طرح!
آسان نہیں تھا مگر مجھے اس مشکل سے مفاہمت کرنا پڑی۔ آصف کی دُوسری بیوی کی موجودگی کے انکشاف کے بعد اس کی تیسری بیوی بن کر رہنا میرے نزدیک میری توہینِ ذات تھی مگر میں بہت سی وجوہات کی بنا پر مجبور تھی۔ امّی کو صدمہ ہوتا۔ وہ لوگ جو آصف سے میرے عقدِ ثانی کو میری خوش قسمتی قرار دے رہے تھے انہیں ہنسنے اور باتیں بنانے کا موقع ملتا۔ آصف سے علیحدگی کی صورت میں لوگ مجھی پر اُنگلیاں اُٹھاتے۔ دستور یہی ہے قصور مرد ہی کا کیوں نہ ہو موردِ الزام عورت ہی کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ تان اسی پر آکر ٹوٹتی ہے کہ حالات اور واقعات جو بھی سہی مرد تو مرد ہوتا ہے۔ عورت کو گزارے کی راہ نکالنی چاہیے۔
میں پہلے ہی ایک تلخ تجربے سے گزر چکی تھی۔ زبیر سے طلاق کے بعد مجھے ہر دن بے ردائی کا احساس ہوا تھا۔ لوگوں کی نظریں مجھے سوال کرتی محسوس ہوتیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ مجھے نظریں چرا لینی پڑتیں… لوگوں کا سامنا کرنا مشکل ہوتا۔ میں نے خود کو ایک خول میں محصور کرلیا تھا۔ بڑی مشکل سے اس خول سے نجات ملی تھی۔ اب دوبارہ اسی خول میں محصور ہو جانے کا تصوّر بھی مجھے لرزا دیتا تھا۔ سو اس خول سے باہر رہنے کی خواہش مجھے اپنی زندگی میں آنے والے دُوسرے مرد سے نہ چاہتے ہوئے بھی ’جیسا ہے، جہاں ہے‘ کی بنیاد پر گزارہ کرنے کا پابند کرتی تھی۔
٭…٭…٭
کئی دن بعد ایک روز آصف نے مجھ سے کہا۔ ’’میں سوچ رہا تھا میری دُوسری بیوی کی موجودگی کی خبر سن کر تم میرا بُرا حشر کر دو گی۔‘‘
میرے سینے میں دَرد کی ایک لہر اُٹھی۔
’’تم تو کچھ بھی نہیں بولیں… کیوں آخر؟‘‘
’’کیونکہ زندگی کبھی کبھی امتحان بھی لیتی ہے۔‘‘
اس نے تالی بجائی اور میرا مذاق اُڑانے والے انداز میں بولا۔ ’’اچھا ڈائیلاگ ہے۔‘‘
’’آپ کے لیے!‘‘ میں نے تلخ لہجے میں کہا۔
’’اور تمہارے لیے؟‘‘
’’ایک حقیقت۔‘‘
’’ناراض ہو؟‘‘
’’میری کیا مجال!‘‘
’’نہیں… ایسا بھی نہیں… بیوی ہو میری تمہیں ناراضگی کا حق ہے۔‘‘
’’کس کس کا حق ادا کریں گے۔‘‘
وہ ہنسا۔ پھر یک بیک سنجیدہ ہو کر مجھے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا۔ ’’کیا کروں یار… عورتیں آپ ہی جھولی میں آ گرتی ہیں۔‘‘
میں نے اسے ٹیڑھی نظروں سے دیکھا اور کہا۔ ’’براہِ کرم مجھے آپ ان میں شمار نہ کریں اور بائی دی وے آپ ایسے راجہ اندر بھی نہیں ہیں۔‘‘
’’تم سمجھتی ہو میں جھوٹ بول رہا ہوں۔‘‘ اس نے میری کلائی پکڑی اور کھینچ کر مجھے اپنے نزدیک بٹھا لیا۔ سرہانے رکھا لیپ ٹاپ اُٹھایا اور اسے اپنی گود میں رکھ کر کھول لیا۔ لیپ ٹاپ آن کر کے اس نے بڑی سرعت سے اُنگلیاں مینو پر گھمائیں، لیپ ٹاپ کی روشن اسکرین پر ایک خوبرو نوجوان لڑکی کی تصویر نمودار ہوئی۔
’’یہ روشنی ہے… کمپنی کے ایچ آر ڈپارٹمنٹ میں ہوتی ہے۔ مرتی ہے مجھ پر۔ میں نے بتایا بھی شادی شدہ ہوں۔ آٹھ بچوں کا باپ ہوں… کہتی ہے آئی ڈونٹ مائنڈ۔‘‘
اسکرین پر تصویر بدل گئی۔
’’یہ رابعہ ہے۔ ایک روز سڑک کے کنارے کھڑی تھی۔ میری گاڑی کو ہاتھ دیا۔ فرنٹ سیٹ پر ساتھ بیٹھ گئی۔ راستے میں بولی کہیں لے کر چلیں۔ میں ایک ریسٹورنٹ میں لے گیا۔ چائے منگوائی۔ اس دن کے بعد سے پیچھا نہیں چھوڑتی ہے۔ دن میں کئی کئی مرتبہ فون کرتی ہے۔‘‘
میں دم بخود بیٹھی تھی۔
’’اور یہ مس کیتھرین ہے۔ ایک پٹرولیم کمپنی میں باس کی سیکرٹری ہے۔ اچھا کماتی ہے۔ آئے دن گفٹ دیتی ہے مجھے۔ وہ جو میری بلیو شرٹ ہے اسی نے گفٹ میں دی تھی۔ کہتی ہے شادی کرلو۔ مسلمان ہو جائوں گی۔‘‘
مجھے سانس لینا بھی دوبھر محسوس ہونے لگا۔
’’یہ مسز عالی! بے چاری بیوہ ہے۔ ایک بیٹی ہے اس کی۔ کہیں پڑھاتی ہے۔ کہتی ہے مجھے اپنی بیٹی کے لیے باپ چاہیے۔ میں کوئی پاگل ہوں جو دوسرے کی اولاد کا باپ بنوں۔‘‘
مجھے اپنی رَگوں میں خون کی گردش تیز ہونے سے گرمی کا احساس ہونے لگا۔
’’اور یہ نازنین…‘‘
’’اسٹاپ اِٹ۔‘‘ برداشت کا آخری لمحہ بھی گزر گیا تھا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ وہ مجھے حیرانی سے دیکھنے لگا۔
’’کچھ شرم کریں۔ میں آپ کی بیوی ہوں۔‘‘
’’ہاں تو کیا ہوا؟‘‘
’’بیوی کو آپ اپنی گرل فرینڈز کی تصویریں دکھا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
وہ مسکرایا اور بولا۔ ’’یہی کہ بیوی خوش قسمت ہے جو اسے مجھ جیسا شوہر ملا جس پر نہ جانے کتنی عورتیں مرتی ہیں… اور دکھائوں؟‘‘
’’آئی ہیٹ دیم!‘‘ میں نے نفرت سے کہا۔
’’کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘ اس نے شانے اُچکائے۔
’’مجھے پتا ہوتا کہ…‘‘ میں نے جملہ اَدھورا چھوڑا اور جبڑے بھینچ لیے۔
’’آپ پر اتنی عورتیں مرتی ہیں تو میں آپ سے شادی نہ کرتی۔ یہی کہنا چاہتی تھیں نا؟‘‘ اس نے مذاق اُڑانے کی کوشش کی۔
میں خود کو ہیجان سے دوچار پانے لگی۔
’’پر میں پھر بھی تمہی سے شادی کرتا کیونکہ تم میں وہ ساری خوبیاں موجود ہیں جو میری ان چاہنے والیوں میں نہیں۔ تم اپنی ماں کی اکلوتی اولاد ہو۔ خوش شکل ہو، تعلیم یافتہ ہو، جاب ہولڈر ہو۔ مجھے گھر کا کرایہ دینا پڑتا ہے نہ کھانے پینے کا۔ فرسٹ کلاس گیسٹ ہائوس میں رہ رہا ہوں۔ کسی گناہ کا مرتکب نہیں ہو رہا۔ تم سے نکاح کر رکھا ہے۔ بے شک مطلقہ ہو مگر اچھی بات یہ ہے کہ سابقہ شوہر سے اولاد کا جھنجھٹ نہیں۔ مجھے اور کیا چاہیے… اس لیپ ٹاپ میں بند باقی ساری عورتیں تو سیلفش ہیں یار۔ ہر ایک کی اپنی ہی ڈیمانڈ!‘‘
’’آپ بھی تو سیلفش ہیں۔‘‘ میں نے اسے نفرت سے دیکھا۔
وہ بے شرمی سے ہنس دیا اور بولا۔ ’’کامیاب زندگی گزارنے کے لیے بندے کا سیلفش ہونا ضروری ہے۔‘‘
’’خدایا! یہ کس قسم کا آدمی ہے۔‘‘ میں نے دل میں سوچا۔ ’’بے شرم… ڈھیٹ… مکّار… جھوٹا… خود غرض… کمینہ… رذیل…‘‘
مجھے انسانی فطرت کے جتنے بد اوصاف یاد تھے میں دل ہی دل میں دُہراتی اور اس پر ان کا اطلاق کرتی چلی گئی۔
امّی کو بتایا تو وہ روہانسی ہو کر بولیں۔ ’’یہ تو زبیر سے بھی بڑا کمینہ نکلا۔ جتنی جلدی ہو سکے تو اس سے چھٹکارا حاصل کرلے۔‘‘
’’دُنیا ہنسے گی امّی… لوگ مجھی کو قصوروار گردانیں گے۔‘‘
’’اس عذاب سے وہ عذاب اچھا۔‘‘
’’نہیں امّی میں بار بار تماشا نہیں بننا چاہتی۔‘‘
’’اور یہ جو تجھے ہر روز ڈس رہا ہے۔‘‘
’’میری قسمت!‘‘ میں نے انتہائی دل گرفتگی سے کہا۔ میں خود کو بالکل ٹوٹا ہوا محسوس کر رہی تھی… پارہ پارہ… کرچی کرچی۔
٭…٭…٭
تقریباً ایک سال گزرا اور یہ ایک سال میں نے کیونکر گزارہ میں ہی جانتی ہوں۔ اس سے شدید نفرت کا احساس ہوتے ہوئے بھی میں اس پر اپنی اس نفرت کا اظہار نہ کر پاتی۔ اس سے گھن اور کراہیت محسوس کرتے ہوئے بھی میں اس کے نزدیک جانے پر مجبور ہوتی۔ میں روز جیتی روز مرتی تھی۔ یہ خوف مجھے مارے ڈالتا کہ کسی روز سمجھوتے کی یہ زنجیر ٹوٹ گئی تو میں دوبارہ مرنے کے بعد کیوں کر جی پائوں گی۔ میں اللہ سے اپنی استقامت کے لیے گڑگڑا کر دُعا مانگتی۔ میں غم سے گھل رہی تھی اور وہ اپنی ساری ضرورتیں نہایت ٹھاٹھ سے پوری کر رہا تھا۔
’’میں نے آپ سے کچھ نہیں چاہا بس ایک چیز مانگتی ہوں۔‘‘ ایک شب میں نے اس سے کہا۔ حالانکہ سچ یہ تھا کہ میں اس جیسے بدطینت شخص سے وہ بھی نہیں مانگنا چاہتی تھی مگر اور کوئی چارہ جو نہ تھا۔
’’کیا؟‘‘ وہ کمرے کی نیلگوں تیرگی میں چونک کر مجھے دیکھنے لگا۔
’’بچہ!‘‘
وہ ہنس دیا۔ ’’یہ فرمائش تو تم پہلے بھی کرتی رہی ہو… اتنی چھوٹی سی فرمائش… بس!‘‘
’’بس!‘‘ میں نے بے بسی سے کہا۔
’’اوکے!‘‘ اس نے مجھے اطمینان دلایا۔
میرے دل میں اُمید کی لَو ٹمٹمائی۔ اس سے قبل وہ یہی کہتا رہا تھا جب تک وہ نہیں چاہے گا میں بچّے کی خواہش نہیں کروں گی۔ مگر میرے لیے اب اس کی خواہش کے برخلاف جانا ضروری ہوگیا تھا۔ بہت سی دُکھی اور ٹوٹی ہوئی عورتوں کو میں نے ایک بچّے کے سہارے بھرپور زندگی گزارتے دیکھا تھا۔ میری دانست میں میرے لیے اس ایک اُمید کے سوا زندگی کی ہر اُمید دَم توڑ چکی تھی۔
’’اوکے!‘‘ اس نے کہا اور میرا شانہ تھپتھپاتے ہوئے بولا۔ ’’ڈونٹ وری۔ بہت جلد مل جائے گا تمہیں بچہ۔‘‘
میری ڈھارس بندھی۔
امّی کا خیال تھا کہ ایسے آدمی سے میرے بطن سے کوئی اولاد بھی نہیں ہونی چاہیے۔ ایسے لوگ عورت کو اولاد کے نام پر بھی بلیک میل کرتے ہیں۔
٭…٭…٭
کچھ دنوں بعد جب وہ اپنے گھر والوں سے ملنے گھر گیا تو واپسی پر دو کمسن بچّے اس کے ساتھ تھے۔ سہمے سہمے، گھبرائے ہوئے، روہانسے۔ ایک لڑکا، ایک لڑکی۔ لڑکا کوئی سات آٹھ برس کا تھا اور لڑکی چار پانچ سال کی۔
’’تم نے بچّے کی فرمائش کی تھی نا… ایک نہیں دو لے آیا ہوں۔ یہ میرا بیٹا ہے سفیر اور بیٹی رانیہ۔ تم انہیں پالو پوسو، پڑھائو لکھائو۔ یہ دونوں اب تمہارے ہیں۔‘‘ اس نے کہا۔
میں دم بخود اسے دیکھ رہی تھی۔
’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں۔‘‘ میں نے مردہ سی آواز میں کہا۔
دونوں بچّے کچھ اس طور ہراساں تھے جیسے اپنی ڈار سے بچھڑی کونجیں جھٹپٹے کے وقت! مجھے ان پر ترس آ رہا تھا اور آصف سے زیادہ ان کی ماں پر غصہ جس نے اتنے چھوٹے بچوں کو خود سے، بہن بھائیوں اور گھر سے دُور بھیج دیا تھا۔ بچوں کے ساتھ ان کے اسکول بیگز بھی تھے۔
امّی ان بچوں کی آمد سے سخت ناخوش ناراض ہوئیں۔ ’’اب یہ اپنے بچّے تجھ پر ڈالے گا۔‘‘
خوش میں بھی نہ تھی ان بچوں کے آنے سے مگر ان کے باپ سے اپنا رشتہ قائم رکھنے کو اپنی ناخوشی کا واضح اظہار کرنے سے قاصر تھی۔
دو تین دن اس طور گزرے کہ میرے اور آصف کے آفس چلے جانے کے بعد دونوں بچّے گھر ہی میں رہے۔ امّی بادلِ ناخواستہ انہیں کھانا دے دیتیں۔
تیسرا یا چوتھا دن تھا ان بچوں کو آئے جب آصف نے شام کو دفتر سے گھر واپس آنے کے بعد بچوں سے کہا۔ ’’بھئی تم لوگ اپنی ماما کو اپنی بکس اور کاپیز تو دکھائو۔‘‘
’’ماما!‘‘ مجھے جھٹکا سا لگا۔
بچّے اپنا بیگ اُٹھا کر میرے سامنے آبیٹھے… سہمے ہوئے سے۔
’’سوری بھئی اس وقت تو میں بہت تھکی ہوئی ہوں۔‘‘ میں نے بچوں سے بے اعتنائی سے کہا۔
آصف کا منہ بن گیا۔
’’ایک آدھ دن میں آفس سے چھٹی کر کے ان کے لیے کوئی اسکول دیکھ لو مناسب سا۔‘‘
’’آپ دیکھیں نا۔‘‘
’’کیوں تم کیوں نہیں دیکھ سکتیں۔‘‘ وہ تیوری چڑھا کر بولا۔
’’آپ کے بچّے میری ذمّے داری نہیں ہیں۔‘‘
’’میرے بچّے تمہارے بھی بن سکتے ہیں۔ اگر تم انہیں محبت دو تو… تمہیں بچہ چاہئے تھا نا میں نے ایک کی بجائے دو لا دیے ہیں۔‘‘
’’مجھے مانگے کا بچہ نہیں چاہیے تھا۔ اپنا بچہ چاہیے تھا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’انہیں اپنا سمجھو گی تو یہ تمہارے بن جائیں گے۔‘‘
میں چپ ہو رہی۔
اسی رات میری سوتے سے آنکھ کھلی تو آصف بستر پر نہ تھا۔ کھلی کھڑکی سے مبہم سی آواز سنائی دے رہی تھی۔ میں بستر سے اُٹھی اور گیلری کے رُخ پر کھلنے والی کھڑکی تک جا پہنچی۔ آصف نیم تاریک گیلری میں کھڑا فون پر بات کر رہا تھا۔
’’دونوں ٹھیک ہیں… خوش ہیں… تم گھبراتی کیوں ہو… میں ہوں نا ان کا خیال رکھنے کو… ہاں وہ کچھ خوش نہیں ہے مگر ٹھیک ہو جائے گی… ان کا خرچا اسی سے نکلوائوں گا… یار فکر مت کرو ایک ایک کر کے سب کو ادھر ہی لے آئوں گا۔ اس عورت کو بڈھی کے پاس اُوپر پھینکیں گے، نیچے میں اور میرے بچّے رہیں گے… لمبی پلاننگ سے کام کر رہا ہوں۔‘‘ وہ آہستہ سے ہنسا۔
میں دَم سادھے کھڑکی کی آڑ میں دیوار سے لگی کھڑی تھی۔ اس کی باتیں سُن کر دبے پائوں دوبارہ بستر پر جا کر لیٹی تو مجھے احساس ہوا کہ دُنیا والوں کے باتیں بنانے کا خوف معجزانہ طور پر میرے دل سے جاتا رہا تھا۔
٭…٭…٭
’’تم نے اب تک بچوں کے لیے کوئی اسکول نہیں دیکھا۔‘‘ آصف نے مجھ سے ایک دو دن بعد پوچھا۔
’’سوری! میرے لیے آپ کا بوجھ ہی بہت ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ اس نے تیوری چڑھا کر کہا۔
’’مجھے اگر اوروں کے بچّے ہی پالنے ہیں تو میں کسی یتیم کے ساتھ یہ نیکی کیوں نہ کروں۔‘‘
’’کیا بکواس ہے!‘‘ وہ غرّایا۔
’’ایزی! ایزی! زیادہ آنکھیں نکالنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’تم سمجھتی کیا ہو خود کو!‘‘
’’ایک عورت جس کا استحصال کیا جا رہا تھا مگر… اب نہیں!‘‘
وہ مجھے گھورنے لگا۔
’’بہت ہو چکا آصف صاحب… میں اب مزید بیوقوف نہیں بن سکتی۔ میں اب آپ کو پالوں گی نہ آپ کے بچوں کو۔‘‘
’’جہنم میں جائو۔‘‘ وہ با آواز بلند چلّایا۔
اس کے دونوں بچّے سہم کر دیوار سے لگ گئے۔
امّی گھبرائی ہوئی نیچے اُتریں۔ ’’کیا ہوا؟‘‘ انہوں نے تشویش سے مجھے اور آصف کو باری باری دیکھا۔
’’میرا اور آپ کی اس بیٹی کا رشتہ زیادہ عرصے نہیں چلے گا۔‘‘ آصف نے میری جانب اُنگلی اُٹھاتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔
’’زیادہ عرصے کیا!‘‘ میں نے کچھ اس طرح کہا جیسے اس کا مذاق اُڑا رہی ہوں۔ ’’جس رشتے کی بنیاد صداقت اور خلوص کے بجائے جھوٹ اور خودغرضی پر ہو اسے فی الفور ختم ہو جانا چاہیے۔‘‘
’’سن رہی ہیں آپ!‘‘ اس نے امّی کو جتایا۔
’’امّی سن بھی رہی ہیں دیکھ بھی رہی ہیں۔‘‘ میرا لہجہ ذومعنی تھا۔
’’اس نے …‘‘ وہ دوبارہ میری جانب اُنگلی اُٹھائے ہوئے امّی سے مخاطب
ہوا۔ ’’اس نے شادی کے بعد پہلی رات مجھ سے اپنا اور اس کا رشتہ نہ توڑنے کا وعدہ لیا تھا۔ مجھے قسم دی تھی کہ میرا اور اس کا کیسا ہی اختلاف ہو جائے میں طلاق کا لفظ زبان پر نہیں لائوں گا اور آج یہ خود اپنی زبان سے رشتہ ختم کر دینے کی بات کر رہی ہے۔‘‘
’’ہاں… کہا تھا میں نے… اور میں اپنی دی ہوئی قسم کا کفّارہ بھی ادا کروں گی۔‘‘
’’سب سمجھتا ہوں۔‘‘ اس نے مجھے گھورا۔ ’’کوئی اور دیکھ لیا ہوگا… تم جیسی عورتوں کا یہی ہوتا ہے۔‘‘
’’شٹ اَپ!‘‘ میں اپنے کردار پر اس کے اوچھے وار سے مشتعل ہوگئی۔
’’یو شٹ اَپ!‘‘ اس نے مجھے مارنے کے لیے ہاتھ اُٹھایا۔ میں اس کے وار سے بچنے کے لیے اُلٹے قدموں پیچھے ہٹی اور امّی نے اس کا ہاتھ پرے جھٹک دیا۔
میں نے اپنے دل کی تمام تر نفرت اپنی آنکھوں میں مجتمع کر کے اسے گھورتے ہوئے کہا۔ ’’تم نے میرے کردار پر وار کر کے مجھے طلاق سے بھی بڑی گالی دی ہے۔ زبیر سے طلاق کے بعد مجھے طلاق کا لفظ گالی محسوس ہونے لگا تھا۔ میں بہت روئی تھی۔ مگر اس بار میں بالکل نہیں روئوں گی کیونکہ تم سے رشتہ جڑنے کے بعد میں نے جانا کہ طلاق کبھی کبھی ایک غلط انتخاب سے نجات بھی ہوتی ہے۔ تم سے نجات پانے کے بعد میں دُنیا کا زیادہ خوشی اور اعتماد سے سامنا کروں گی۔‘‘
وہ مجھے گھورنے لگا۔
میں نے امّی کے شانوں پر اپنا بازو دراز کر دیا اور اسے ٹیڑھی نظروں سے دیکھتے ہوئے امّی سے کہا۔ ’’چلیے امّی اُوپر چلتے ہیں۔ یہ شخص مجھے طلاق دیتا ہے یا میں اس سے خلع حاصل کرنے کے لیے عدالت جاتی ہوں یہ بعد کی بات ہے۔ میرا اور اس کا راستہ اب جدا ہو چکا ہے۔ زبیر کے بعد ایک حادثہ اور آنا تھا میری زندگی میں… شکر ہے آیا اور گزر گیا۔‘‘
وہ دم بخود مجھے دیکھ رہا تھا۔ اس کے دونوں بچّے سہمے ہوئے کھڑے تھے اور امّی کی پلکوں پر آنسو جھلملا رہے تھے۔ میں نے امّی کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ کبھی کبھی ہمیں ایسی انمول ہستیوں کو بھی دلاسا دینا پڑ جاتا ہے جو ہمارے لیے سب سے بڑی ڈھارس ہوتے ہیں۔
امّی کو اپنے ساتھ لے کر کمرے سے باہر نکلتے ہوئے میں نے پلٹ کر آصف کو دیکھا اور کہا۔ ’’پہلی فرصت میں مکان خالی کر دو۔‘‘
آصف ہارے ہوئے جواری کی طرح کھڑا تھا اور امّی کے ساتھ زینے سے گھر کی بالائی منزل پر جاتے ہوئے میں خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی۔
دُنیا کیا کہے گی؟
لوگ مجھے کس نظر سے دیکھیں گے؟
اپنے لیپ ٹاپ میں محفوظ میری تصاویر کسی دوست عورت کو دکھاتے ہوئے وہ دُوسرا مرد جس سے اپنا رشتہ جڑنے کے بعد میں نے پہلی شب ہی اپنے دل کا خوف، اپنی کمزوری اس کے ہاتھ میں دے دینے کی غلطی کی تھی مجھ پر کیا تہمت لگا کر اپنی معصومیت اور پاکبازی ظاہر کرے گا۔ میں ایسے ہر خوف سے بے نیاز ہو چکی تھی۔
میرے دل میں پس ایک ہی ترنگ موجیں مار رہی تھی کہ مجھے دُوسری چوٹ کو جان کا روگ نہیں بننے دینا۔ مجھے جینا ہے… اپنے لیے… اپنی ماں کے لیے اور کیونکہ میرے دامن پر کوئی داغ نہیں سو مجھے سر اُٹھا کر جینا ہے۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک چوٹ، ہمیں بستر مرگ پر پہنچا دیتی ہے تو کبھی دُوسری چوٹ لگنے کے بعد ہم جی بھی اُٹھتے ہیں۔
دُوسری چوٹ نے مجھے سر اُٹھا کر جینے کی راہ دِکھا دی تھی۔
(ختم شد)