حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک باصفا صوفی سے کسی نے کہا کہ فلاں شخص آپ کے متعلق غلط باتیں کہتا ہے اور آپ کی برائی بیان کرتا رہتا ہے۔ صوفی بولا کہ تو خاموش ہو جا کہ دشمن کی بات کو نہ جاننا ہی بہتر ہوتا ہے اور وہ جو کہتا ہے اسے کہنے دے کہ دشمن کا پیغام پہنچانے والے دشمن سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ کوئی شخص دشمن کی بات کو دوست تک نہ پہنچائے، اگر وہ دشمن کی بات دوست تک پہنچاتا ہے تو وہ دشمن کا دوست ہے، تمہارا خیر خواہ نہیں۔ دشمن میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنی بات منہ پر کہتا مگر دوست نے دشمن کی بات کو منہ پر کہہ دیا جسے سن کر میرا بدن کانپ اٹھا اے دوست تو میرا دشمن زیادہ ہے کہ تو مجھے برملا بری بات کہہ رہا ہے اور میرا دشمن وہی بات خفیہ طور پر کہتا ہے۔ دشمن کی کہی بات دوست کے منہ سے سُن کر انسان غصہ میں آ جاتا ہے۔ ایسے شخص سے بچو کہ اس کی صحبت سے بچنا تمہارے لئے بہتر ہے جو پوشیده بات کو تمہارے سامنے بیان کرتا ہے۔ چغل خوری سے بہتر ہے کہ انسان کے پائوں بندھے ہوئے ہوں اور وہ اندھے کنوئیں میں قید ہو۔ دو آدمیوں کے درمیان لڑائی کو ہوا دینا آگ کی مانند ہے اور بدبخت چغل خوره وه لکڑ ہارا ہے جو اس آگ کو بھڑکا رہا ہے۔ پس یاد رکھو کہ دشمن اگر تمہارے متعلق کوئی بات کرتا ہے تو وہ پیٹھ پیچھے کرتا ہے مگر جو دوست تم تک اس دشمن کی بات پہنچاتا ہے وہ تمہارا بڑا دشمن ہے۔