چنچل ہمارے گائوں کی سب سے البیلی لڑکی تھی، جس کا نام شاہینہ تھا لیکن سبھی اُسے چنچل بُلاتے تھے اُس کی چلبلی طبیعت اور من موجی شرارتوں کی وجہ سے۔ اس البیلی کا تعلق ایک خوش حال گھرانے سے تھا۔ وہ دلکش نقوش ، اچھی سیرت کی لڑکی تھی۔ سولہ برس کی ہوئی تو خوشحال گھرانوں سے رشتے آنے لگے لیکن اس کے والد ماہتاب خان بہتر سے بہتر داماد کی تلاش میں تھے۔چنچل کے گھر ، ایک عورت برسوں سے كام كرتى تھى ، أس کا نام جنت تھا۔ یہ بیوہ محنت مزدوری کر کے بچوں کا پیٹ پال رہی تھی۔ اس کا بڑا لڑکا ہمیش گائوں کا سب سے نکما اور آوارہ لڑکا تھا۔ وہ ماں کو بلانے اکثر چنچل کے گھر پہنچ جاتا تھا۔ چونکہ بچپن اس کا اسی گھر میں گزرا تھا، لہذا کوئی بھی اس کو اندر آنے سے نہیں روکتا تھا۔ اس کو چنچل پسند تھی ۔ اس کی آرزو تھی کہ کسی طریقے سے وہ شاہینہ کو حاصل کر لے مگر اس کا گھرانہ افلاس کا مارا ہوا تھا۔ برسوں سے غربت نے ان لوگوں کا ناطقہ بند کر رکھا تھا ہمیش کا خاندان برا نہیں تھا بلکہ یہ ایک طرح سے زمانے کے ستائے ہوئے لوگ تھے۔ قصہ یوں تھا کہ جنت کے شوہر کو اس کے قریبی رشتہ داروں نے قتل کروا کر جائیداد و زمینوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ یہ ستم گر اس کے سوتیلے چچا تھے، یہ بات گائوں کے سبھی لوگ جانتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ علاقے والوں کو اس مظلوم خانوادے سے ہمدردی تھی اور جنت بی بی کو بھی وہ عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ شوہر کے قتل کے بعد جنت نے بچوں سمیت مابتاب خان یعنی شاہینہ کے والد کے گھر میں پناہ لے لی۔ کیونکہ یہ لوگ، بھی اثر و رسوخ والے تھے، وہ جنت اور اس کے معصوم بچوں کو بچا سکتے تھے چند دن تو جنت ماہتاب خان کے گھر بطور مہمان رہتی رہی بعد میں ان کے گھر کی ملازمہ ہو گئی اور چنچل کے والدین کے گھر کا تمام کام کاج اپنے ذمے لے لیا کیونکہ خوددار تھی، اسےبچوں کا پیٹ بھی پالنا تھا۔ یہاں گھریلو کام کاج کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے میں اُسے عار نہ تھا کہ ماہتاب خان اور اس کی بیوی، جنت کو بہن کی طرح سمجھتے اور ویسی ہی عزت بھی دیتے تھے ، جیسی بہنوں کو دی جاتی ہے۔ وہ اس کو ملازمہ نہیں سمجھتے تھے. اس کے بچوں کی ضروریات بے دریغ پوری کرتے کہ یہ ایک مجبور اور شریف عورت تھی اور صبر کے ساتھ بچوں کی پرورش کر رہی تھی۔ ہمیش کو گھر میں سب بامی کہتے تھے وہ ماں کا لاڈلا تھا ۔ باپ کا سایہ سر پر نہ رہا، تبھی نکما ہوگیا تھا۔ اکثر ماں سے کہتا تھا کہ کسی طرح میری شادی چنچل سے کروا دو۔ ماں سمجھاتی کہ ہم میں اور ماہتاب خان کے گھرانے میں مالی لحاظ سے بہت فرق ہے لہذا تو بچپن کی باتیں بھول جا اور اس خیال کو دل سے نکال دے۔ یہ چھوٹا منہ اور بڑی بات والا قصہ تھا لیکن ہمیش نوجوان تها، نادان تھا۔ اس کا دل اپنے قابو میں نہیں تھا۔ وہ یہ بات نہیں سمجھتا تھا کہ معاشی حالت کا فرق ایک بڑا فرق ہوتا ہے ۔ وہ ایک امیر باپ کا بیٹا تھا تو کیا ہوا؟ اب تو یہ لوگ غریب ہو چکے تھے۔ ماں نے اس لئے دیوروں سے جھگڑا نہ کیا اور چُپ سادھ لی کہ وہ اپنے بیٹے کو زندہ دیکھنا چاہتی تھی تبھی تو اُس کا نام بمیش یعنی سدا زنده يعنى طويل عمر والا ركھا تھا ہمیش نے قسم کھا لی کہ ایک نہ ایک دن چنچل کو حاصل کر کے رہے گا۔ اس کے لئے وہ دل ہی دل میں منصوبے بناتا رہتا تھا۔ وہ یہ بات بھی اچھی طرح سے جانتا تھا کہ جب تک مالی لحاظ سے ان کے ہم پلہ نہیں ہو جائے گا، چنچل کو حاصل نہیں کر پائے گا۔ ایک دن اس لڑکے کی ملاقات اپنے گائوں کے ایک ایسے شخص سے ہوگئی جس کی دولت نے دیکھتے دیکھتے دن دونی رات چوگنی ترقی کی تھی۔ یہ اسد خان تھا، جس کے ٹرک پشاور سے کراچی تک چلتے تھے۔ گائوں کے لوگ سادہ ہوتے ہیں سب نے یہی سمجھا کہ وہ بزنس کرتا ہے۔ کسی کو علم نہ تھا کہ اسد خان اسمگلنگ کرتا ہے اور ایک منشیات فروش گروہ کا کارکن بن چکا ہے۔ وہ اپنا گائوں چھوڑ کر شہر میں آباد ہو گیا تھا۔ گائوں تو وہ کبهی کبهار کسی رشتے دار کی شادی یا پھر غمی کے موقع پر آتا تھا جب اسد خان کی ملاقات بميش اندازہ کر لیا کہ یہ نوجوان تو کام کا ہے اور وہ اس کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔اس نے ہمیش کو ساتھ کام کرنے کا کہا۔ ادھر ہمیش دولت کمانا چاہتا تها، راتوں رات امیر بن جانا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے دل کی بات بھی اسد خان سے کہہ دی کہ وہ دولت اس لئے کمانا چاہتا ہے کہ چنچل کا رشتہ حاصل کر سکے۔
ہمیش نے اسد کی پیش کش کو اپنے لئے خوش بختی تصوّر کیا اور وہ اس کے ساتھ ٹرک پر بیٹھ کر گائوں سے چلا گیا۔ جب دولت بی زندگی کا نصب العین بن جائے تو انسان اکثر اپنے منصب سے گر جاتے ہیں۔ اسد تو ایسے کاموں میں ماہر ہو چکا تھا۔ بردہ فروشی سے لے کر منشیات فروشی تک وه بر قسم کا دھندہ کرتے ہوئے بالکل نہیں گھبراتا تھا کیونکہ دولت اس کے پاس تھی لہذا اس کے باتھ بھی لمبے تھے۔اس نے چند ماہ میں ہی ہمیش کو وہ گر سکھا دیئے کہ اس نے بھی غیرقانونی دھندوں کمال حاصل کر لیا – تین سال تک وہ اسد کے اشاروں پر چلتا رہا پھر اس نے ہمیش کو مالا مال کر دیا۔ اب تو وہ پہچانا نہیں جاتا تھا۔ وہ پہلا والا لاأبالی چنچل نہ رہا تھا جو دبلا پتلا اور فاقوں کا مارا احساس کمتری کا شکار نظر آتا تھا۔ اب تو وہ ایک حسین و جمیل کڑیل جوان بن گیا تھا، جس کے کپڑے کلف دار ہوتے اور جوتوں کی آواز پر لوگ اُسے مُڑ مُڑ کر دیکھتے تھے۔ اس کی ماں ابھی تک چنچل کے گھر کا کام کرتی تھی۔ یہاں کام کرتے، اس کو پندرہ برس ہو چکے تھے۔ ماہتاب صاحب اور اس کے گھر والے، اس خاتون پر اعتبار کرتے تھے۔ ہمیش تو جب کا گیا صرف تین بار ہی ماں سے ملنے آیا تھا ۔ ماں شکوہ کرتی کہ تم کیوں نہیں آتے؟ اس کا جواب ہوتا کہ اب تو میں اس وقت ہی آئوں گا جب گائوں کے لوگ مجھے اُٹھ اُٹھ کر سلام کریں گے اور جب چنچل کا باپ ماہتاب خان بھی مجھے اپنی بیٹی کا رشتہ دینے کا خواہش مند ہوگا۔ رشتے تو قسمت سے ملتے ہیں، جس سے تقدیر بندھی ہوتی ہے شادی اُسی سے ہو جاتی ہے۔ جنت ہمیشہ بیٹے کو یہی بات کہتی تھی وہ جانتی تھی کہ اس کا بیٹا چاہے جس قدر بھی کما لے، ان لوگوں کی نگاہوں میں کبھی بھی معتبر نہیں ہو سکتا، جن کے گھر کی وہ ملازمہ ہے۔ یہ لوگ کبھی بھی اس بات کو نہیں بھلائیں گے کہ اس کی ماں بُرے وقتوں ان کے گھر کا کام کیا کرتی تھی۔ اس بار جب وہ گائوں آیا اس کے ٹھاٹ ہی اور تھے۔ وہ بڑی سی قیمتی گاڑی میں آیا تھا۔ اس نے آتے ہی گائوں میں زمین بھی خرید لی۔ وہ اپنے مرحوم باپ کی ساکھ اور امیری کو دوبارہ بحال کرنا چاہتا تھا تا کہ جب اس کی ماں، ماہتاب خان کے گھر جا کر ان کی بیٹی کا رشتہ طلب کرے ، تو وہ اس کو رَد نہ کر سکیں۔ ہمیش کے ٹھاٹ باٹ دیکھ کر گائوں والوں کی تو آنکھیں پھٹی رہ گئیں۔ بدقسمتی کہ ان ہی دنوں شاہینہ کے رشتہ کی بات چل رہی تھی۔ اس لڑکے کا نام عنبر خان تھا۔ اس کا خاندان مالی لحاظ سے کافی مضبوط تھا۔ اس بات کا پتا جنت کو اس وقت چلا جب شاہینہ کی بات چیت عنبر خان سے پکی ہو گئی جنت نے گھر جا کر بیٹے کو بتایا ۔ اس نے کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔ خدا جانے اس نے جی میں کیا ٹھان لی تھی کہ بنا کچھ کہے گھر سے چلا گیا۔ عنبر خان کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ ہمیش کے دل میں اس کی منگیتر کی تصویر برسوں سے چسپاں ہے ۔ دونوں کی خوب دوستی ہوگئی تھی۔ جتنے دن وہ گائوں میں رہا، خوشحال گھرانوں کے فرزند، جن میں عنبر خان بھی شامل تھا، اس کے ساتھ ساتھ رہے ۔ کسی کو بھی یہ یاد نہ رہا تھا کہ وہ ایک غریب اور بیوہ ماں کا بیٹا ہے دولت میں ایسی طاقت ہے کہ اس کا ساتھ ہو تو لوگ آپ کی بہت سی باتیں اور کوتاہیاں تک بھلا دیتے ہیں۔ جب ہمیش گائوں سے چلنے لگا تو اس نے عنبر خان سے کہا ۔ دوست میں شہر میں اپنے کاروباری شراکت داروں کی بہت بڑی دعوت کرنے والا ہوں۔ اس میں تمہیں بھی مدعو کرتا ہوں ، تم کو بھی اس میں آنا ہو گا۔ عنبر خان نے وعدہ کرلیا کہ وہ ضرور آئے گا۔ ایک ماہ بعد ہی ہمیش کا دعوت نامہ مل گیا۔ وعدے کے مطابق وہ دعوت میں شریک ہونے پشاور گیا اور جب سونے کے لئے بیڈروم میں لیٹا تو اس کی نظر میز پر رکھی ایک البم پر گئی ۔ اس نے البم اٹھا لی اور اس کی ورق گردانی کرنے لگا۔ ایک تصویر پر دفعتاً اس کی نگاہیں ٹھہر گئیں ۔ یہ چنچل کی تصویر تھی جو خاصی پرانی تھی۔ یہ تصویر اس نے ہمیش کے ساتھ کبھی بچپن میں اتروائی تھی جب وہ سات آٹھ برس کے تھے ۔دونوں مسکرا رہے تھے۔ تصویر دیکھ کر عنبر کے ہوش اُڑ گئے۔ اس نے دوسرے کمرے میں لیٹے ہوئے اپنے دوست ہمیش کو آواز دی اور پوچھا۔ تم کو پتا ہے یہ لڑکی کون ہے؟ چنچل ہے یعنی شاہینہ، مگر میں اب بھی اُسے چنچل ہی کہتا ہوں۔ بچپن سے اسی نام سے پکارا کرتا تها تم لوگوں نے اکٹھے کیسے تصویر کھنچوا لی؟ کس نے کھینچی تھی یہ تصویر اور کہاں؟ عنبر نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر دیئے۔ ان کے گھر میں عید کا دن تھا، میں عید ملنے گیا تھا تو چنچل کی بہن نے ہماری یہ تصویر اتار لی تھی۔ بڑی یادگار فوٹو ہے۔ ہمیش نے کہا۔ اسی لئے تم نے اسے سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ نہیں، اس لئے نہیں بلکہ اس لئے کہ چنچل مجھ سے . محبت کرتی ہے اور اس نے محبت کے بلند بانگ دعوے بھی کر رکھے ہیں ۔ ہمیشہ ساتھ نباہنے اور ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائیں تھیں۔یہ تصویر ان دنوں کی ہے جب میرے والد کے قتل ہو جانے کے بعد اماں نے ہم بچوں کے ساتھ ماہتاب خان کے گھر میں پناہ لی تھی ۔ کیا تم جانتے ہو کہ شاہینہ کی منگنی میرے ساتھ ہو چکی ہے؟ اس بات کا کسی نے مجھ سے ذکر نہیں کیا ، حتی کہ میری ماں نے بھی نہیں۔ شاید وہ سمجھتی ہے کہ اس طرح مجھ کو دُکھ ہوگا لیکن حیرت ہے کہ اس لڑکی نے منگنی تمہارے ساتھ کیسے کر لی؟ اس نے تو میرے ساتھ جینے اور مرنے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ کہہ کر ہمیش افسرده ہو گیا دوست کو افسرده دیکھ کر عنبر خان کو بھی دکھ ہوا۔ اس نے کہا۔ فکر نہ کرو۔ شاہینہ اگر تمہاری محبت ہے تو میرے نزدیک وہ تمہاری امانت ہے۔ اچھا ہوا کہ مجھے بروقت علم ہوگیا ورنہ عمر بھر کا عذاب ہی رہتا۔ گائوں آ کر عنبر خان نے اس واقعہ سے اپنے والدین کو باخبر کیا۔ اس طرح اس نے منگنی توڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ گرچہ ان کے قبیلے میں منگنی توژنا ایک معیوب بات تھی مگر دوست کی خاطر عنبر خان نے ایسا کرنا ہی تها چنچل اپنی منگنی پر خوش تھی۔ گرچہ اس نے عنبر خان کو دیکھا نہیں تھا مگر اس کی تعریف سنی تھی۔ وہ تو بس اتنا جانتی تھی کہ ایک حیثیت والے معزز گھرانے کی بہو بننے جا رہی ہے اور لڑکا بھی بہت خوبصورت بتایا جا رہا ہے۔ اس نے تصوّر میں اپنے منگیترسے محبت کرنی شروع کر دی۔ جب کوئی اس کے سامنے عنبر خان کا نام لیتا ، وہ شرمانے لگتی۔
منگنی ٹوٹنے پر چنچل کو اسی وجہ سے دکھ ہوا کہ بلا سبب اس پر منگنی ٹوٹنے کا دھبہ لگ گیا۔ یہ ان کے خاندان کے لئے بھی بُری بات سمجھی جاتی تھی۔ صدمہ صرف منگنی ٹوٹنے کا ہی نہیں تھا اس بات پر زیادہ تھا کہ ناحق بدنامی کا داغ لگ گیا تھا۔ اس نے والدین کے سامنے اپنی بے گناہی کی قسم کھائی مگر بے سود، کسی نے بھی اس کی قسم کا یقین نہ کیا۔ سبھی نے گھر میں اس کے ساتھ محض شک و شبہ کی بنیاد پر توہین آمیز رویہ اختیار کر لیا کیونکہ منگنی توڑنے کے کو عنبر خان کی ماں نے خوب ہوا دی تھی کہ ہمیش نے میرے بیٹے سے خودرشتہ چھوڑنے کی درخواست دوستی کے نام پر کی ہے ، عنبر خان نے تبھی رشتہ چھوڑا ہے۔ عنبر خان کی ماں کا لوگوں نے بھی یقین کر لیا کیونکہ جنت نے بیوگی کے بعد شاہینہ کے والدین کے گھر قیام کیا اور اب تک ان کے گھر میں موجود تھی اور ماں کی وجہ سے ہمیش کا بھی شاہینہ کے گھر آنا جانا رہتا تھا۔ایک سال گزر گیا۔ اب جنت ، چنچل کے گھر کام کرنے نہیں جاتی تھی۔ ایک دن اس نے سوچا۔ لڑکی میرے بیٹے کے نام کے ساتھ بدنام ہو گئی ہے کیوں نہ اب میں رشتے کی بات کر دیکھوں۔ اس نے چنچل کی والدہ سے بات کی کہ عنبر خان کے والدین نے میرے لڑکے اور تمہاری لڑکی پر تہمت لگا کر منگنی توڑی ہے، ہمارے بچوں پر بدنامی کا داغ تو لگ گیا ہے۔ اب بہتری اسی میں ہے کہ تم اپنی بیٹی کا رشتہ میرے بیٹے ہمیش کو دے دو۔ پہلے فرق صرف دولت کا تھا اب ہمیش نے کاروبار میں محنت کی اور دولت بھی کما لی ہے۔ حیثیت میں آج وہ کسی سے کم نہیں ہے۔شاہینہ کی ماں نے شوہر سے بات کی، کہا ہماری چنچل کا قصور تھا کہ نہیں یہ خُدا جانتا ہے لوگ تہمت بھی لگا دیتے ہیں، لیکن گائوں میں کوئی دوسرا اب ہماری لڑکی کا رشتہ قبول نہیں کرے گا۔ ہماری بیٹی کی شادی ہمیش سے ہوجائے تو یہ سکھی رہےایک سال گزر گیا۔ اب جنت ، چنچل کے گھر کام کرنے نہیں جاتی تھی۔ ایک دن اس نے سوچا۔ لڑکی میرے بیٹے کے نام کے ساتھ بدنام ہو گئی ہے کیوں نہ اب میں رشتے کی بات کر دیکھوں۔ اس نے چنچل کی والدہ سے بات کی کہ عنبر خان کے والدین نے میرے لڑکے اور تمہاری لڑکی پر تہمت لگا کر منگنی توڑی ہے، ہمارے بچوں پر بدنامی کا داغ تو لگ گیا ہے۔ اب بہتری اسی میں ہے کہ تم اپنی بیٹی کا رشتہ میرے بیٹے ہمیش کو دے دو۔ پہلے فرق صرف دولت کا تھا اب ہمیش نے کاروبار میں محنت کی اور دولت بھی کما لی ہے۔ حیثیت میں آج وہ کسی سے کم نہیں ہے۔شاہینہ کی ماں نے شوہر سے بات کی، کہا ہماری چنچل کا قصور تھا کہ نہیں یہ خُدا جانتا ہے لوگ تہمت بھی لگا دیتے ہیں، لیکن گائوں میں کوئی دوسرا اب ہماری لڑکی کا رشتہ قبول نہیں کرے گا۔ ہماری بیٹی کی شادی ہمیش سے ہوجائے تو یہ سکھی رہے بہت شریف آدمی تھا اور اس کا بچپن کا دوست تھا۔ ہمیش کے باپ کا خیال آتے ہی اس نے بیوی سے کہا۔ ٹھیک ہے، مگر پہلے بیٹی سے پوچھ لو ۔ کیا وہ ہمیش سے شادی کرنا چاہتی ہے؟ ماں نے چنچل سے دریافت کیا۔وہ بولی ہرگز نہیں، مجھ کو ہمیش پسند ہی نہیں اور نہ کبھی تھا۔ مجھے تو وہ سخت بُرا لگتا تھا۔ میں ہرگز اس کے ساتھ شادی نہیں کرنا چاہتی- ہوگا کبھی اس کا باپ زمیندار، مگر اب تو وہ ہماری نوکرانی کا لڑکا ہی کہلاتا ہے- دولت کما لی تو کیا ہوا، ہے تو وہی نکما، مجھے اس سے نفرت ہے۔ ماں یہ سُن کر سکتے میں رہ گئی، پھر سوچا کہ نا سمجھ لڑکی ہے ۔ بدنام ہو جانے کا یہ ردعمل ہے۔ سکھ کی زندگی جیئے گی تو ساری باتیں بھول جائے گی۔ اس نے وہ باتیں شوہر سے نہ کہیں جو بیٹی سے سنی تھیں بلکہ جا کراپنے شوہر کو گوش گزار کر دی کہا کہ تمہاری بیٹی کہتی ہے، والد صاحب جہاں چاہیں اور جس کے ساتھ بیاہ دیں، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔اس نے کسی طور پر شوہر کو راضی کر لیا۔ ہمیش کی چال کامیاب ہوگئی بلکہ اس کی تو بن آئی اور چنچل سے شادی طے ہوگئی۔ شادی کے دن وہ گائوں آیا۔ اس کے گهر شادیانے بجنے لگے۔ وہ دوستوں کے ہمراہ قہقہوں اور مسکراہٹوں میں مصروف تھا۔ اس کے مہمان شہر سے بھی آئے ہوئے تھے۔ انہی میں سے ایک شخص نے عنبر کو بتایا۔ بھائی صاحب یہ اپنا ہمیش بھی عجب آدمی ہے۔ یہ دھن کا پکا ہے ، جس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا، اس کو حاصل کرلیا۔ لڑکی کی ایک پرانی تصویر اس کی ماں کے پاس تھی۔ اس نے کسی طرح اُڑا لی اور شہر جا کر اپنی تصویر کے ساتھ اس طرح سیٹ کروا لی کہ لگتا ہے دونوں نے اکٹھے تصویریں کھنچوائی ہو اور یہ کام اس نے مجھ سے کروایا کیونکہ میں ایک فوٹوگرافر ہوں اور میرا اسٹوڈیو شہر میں ہے۔ اس کو یہ پتا نہیں تھا کہ وہ جس کو یہ حال سنا رہا ہے ،وبی عنبرخان ہے۔ عنبر کے دل پر قیامت گزر گئی۔ ہمیش تو خوشی میں آپے سے باہر تھا ۔ شادی والے دن اُس نے عنبر کے گھر جا کر شکوہ کیا کہ دوست تم خوشی کے موقع پر میرے پاس نہیں آئے ۔ شادی کا کوئی تحفہ ہی بھجوا دیتے تم کو ایسا تحفہ دوں گا کہ تمہارے سارے لوگ یاد رکھیں گے ۔ آؤ میرے ساتھ ، میں نے تمہارے ولیمے کے لئے کچھ مویشی باڑے میں باندھ رکھے ہیں، ان کو ایک نظر دیکھ لو۔ وہ ہمیش کو اپنے ساتھ لے گیا، پہاڑی کی طرف ، جہاں اس نے باڑہ بنا رکھا تھا، وہاں اس کے تین آدمی موجود تھے۔ انہوں نے ہمیش کو قابو کر لیا اور اُسے اُٹھا کر گہری کھائی میں پھینک دیا۔ادهر لوگ سہرا بندی کے لئے ہمیش کا انتظار کر رہے تھے ۔ وہ سب فکرمند ہوگئے کہ آخر دولہا کہاں چلا گیا۔ کہیں اس کو کوئی حادثہ پیش نہ آ گیا ہو۔ اگلے دن تمام باراتی اور گائوں کے لوگ ہمیش کو تلاش کرنے نکلے۔ بالآخر ان کو دولہا کی لاش مل گئی، اس طرح خوشی میں سوگ پھیل گیا ۔ ہمیش کی ماں تو ایسی گری کہ پھر نہ اُٹھ سکی۔ لوگ کہہ رہے تھے یہ سب ہمیش کے سوتیلے چچائوں کا کیا دھرا معلوم ہوتا ہے وہ شاید اسی دن کے انتظار میں تھے، ماہتاب نے ان کے خلاف پرچہ کٹوایا مگر عدم ثبوت کی بنا پر پرچہ خارج ہو گیا۔ جو اصل قاتل تھا جنت بی بی کی خوشیوں کا، اس کی طرف تو کسی کا دھیان ہی نہ گیا۔ گائوں بھر سے کسی ایک شخص نے بھی یہ نہیں سوچا کہ عنبر خان بمیش کا قاتل ہو سکتا ہے کیونکہ جو یہاں دوست ہوتا ہے وہ
دشمن نہیں ہوتا۔