میری دوستی کشور سے اس وجہ سے تھی کہ ہم ایک ہی محلے میں رہتے تھے اور اکٹھے اسکول جایا کرتے تھے۔ وہ ایک غریب گھر کی لڑکی تھی اور ہم خوشحال تھے مگر بچپن میں طبقاتی فرق سے بالاتر ہوتا ہے۔ وقت گزرتا گیا اور ہم اسکول سے کالج میں آگئے لیکن ہماری دوستی پھر بھی قائم رہی۔ وہ اونچے خیالات رکھتی تھی۔ ہمیشہ ایسے خواب دیکھتی جو کبھی پورے نہیں ہو سکتے تھے ، پھر بھی وہ خواب دیکھے جاتی۔ امی میرا کسی کے گھر جانا پسند نہیں کرتی تھیں اور کشور کی ماں اسے سہیلیوں کے گھر جانے سے نہیں روکتی تھی، تبھی وہ زیادہ وقت میرے گھر میں گزارتی تھی۔ ایف اے کے بعد کشور نے کالج جانا بند کر دیا تھا۔ یہ اس کی مجبوری تھی۔ اس کے والدین کے پاس بیٹی کو تعلیم دلوانے کے لئے رقم نہیں تھی۔ مجھے اکیلے کالج جانے کی عادت نہیں تھی لیکن اب اکیلی جاتی تھی۔ اس کے بغیر کالج میں دل نہیں لگتا تھا۔ کالج سے آنے کے بعد امی سے اجازت لے کر کشور کے گھر چلی جاتی۔ ماں مجھے منع نہ کرتیں کیونکہ ان دنوں میری سہیلی بہت افسردہ رہا کرتی تھی۔ کالج چھٹ گیا تھا اور اب اس کے والدین اس کی شادی کرنے کا سوچ رہے تھے۔ وہ بھی ایک ایسے لڑکے سے جو آٹھویں پاس بھی نہ تھا اور نہ ہی خوبصورت تھا، جبکہ کشور کا خواب اعلی تعلیم یافتہ اور خوبصورت نوجوان تھا۔ جیسا کہ ہر لڑکی کا خواب ہوتا ہے اور اُسے بھی یہ خواب دیکھنے کا حق تھا۔ جس لڑکے سے اس کے والد شادی کرنا چاہتے تھے ، وہ اس کی پھوپھی کا بیٹا واحد تھا۔ واحد پست سوچ کا نکما سا لڑ کا تھا۔ معاملہ یہ تھا کہ اس کی منگنی بہت چھوٹی عمر میں کشور سے کر دی گئی تھی لیکن جب اس نے آٹھویں میں اسکول کو خیر باد کہہ دیا تو کشور کی ماں سوچ میں پڑ گئی۔ اس نے نند سے کہا۔ تمہارا لڑکا کم از کم میٹرک تو کر لے۔ اس ساتویں پاس کو کون نوکری دے گا۔ جب واحد کو پتا چلا کہ ممانی نے ایسا کہا ہے تو اس نے خاندان بھر میں کہنا شروع کر دیا کہ ماموں سلیم نے کشور کی شادی مجھ سے نہ کی تو میں اس کی شادی کسی اور سے بھی نہ ہونے دوں گا، بلکہ اس کے اور اپنے گھروں کو آگ لگادوں گا۔ اس کی دھمکیوں سے کشور کے والد گھبرا گئے۔ ان کی اور لڑکیاں بھی تھیں۔ بغیر جہیز کے جن کی شادیاں اچھے گھرانوں میں نہیں ہو سکتی تھیں۔ انہی دنوں ہمارے پڑوس میں ہمارے رشتہ دار آ گئے۔ ان کا لڑکا و قار انجینئر بن رہا تھا۔ اسے سوائے اپنی پڑھائی کے ، کسی سے سروکار نہ تھا۔ کشور نے جب وقار کو دیکھا تو بولی۔ رشنا ! کاش میری شادی تمہارے اس کزن سے ہو سکتی۔ میں نے جواب دیا کہ تمہارا منگیتر تو قسم کھا چکا ہے، کہ اگر اس کی شادی تم سے نہ ہو سکی تو وہ سارے محلے کے گھروں کو آگ لگادے گا۔ وقار مجھے بھی اچھا لگا۔ یہ عجیب بات تھی کہ ہم دونوں کو ایک ہی لڑکا پسند آیا تھا۔ کشور کو جو چیز پسند آتی وہ مجھ سے مانگ لیتی لیکن میں نے اس سے کبھی کچھ نہیں مانگا تھا۔ پڑوس میں خالہ سلمیٰ کے آنے سے رونق ہو گئی تھی انہوں نے ہمارے گھر اور ہم نے ان کے یہاں آنا جانا شروع کر دی۔ وہ کافی باتونی مگر پیار کرنے والی خاتون تھیں۔ ایک دن میں خالہ سلمیٰ کے گھر گئی تو دیکھا، وقار صحن میں بیٹھا ہے۔ خالہ نظر نہ آئیں تو میں نے اس کو سلام کیا اور خالہ کے بارے میں پوچھا۔ وہ بولا۔ کچن میں ہیں، بلائوں؟ لیکن میں وقار کو دیکھ کر ایسی گھبرائی کہ اس کی بات کا جواب دیئے بنالئے قدموں گھر لوٹ آئی۔ اسی شام میں کشور کے گھر گئی۔ اس کو بتایا کہ آج و قار صاحب کے درشن ہو گئے ہیں۔ وہ بولی۔ تم اکیلی کیوں گئیں ؟ ہم دونوں ساتھ جاتیں تو کچھ بات بھی کرتے۔ اگلے روز وہ آئی اور میرے سر ہو گئی کہ چلو خالہ کے گھر چلتے ہیں۔ مجبوراً مجھے اس کے ساتھ خالہ کے گھر جانا پڑا۔ وہ حسب معمول کرسی صحن میں ڈالے پڑھ رہا تھا۔ میں چپ رہی، کشور نے اسے سلام کیا۔ اس نے جواب دیا، تبھی خالہ کچن سے نکلیں اور ہمیں آواز دی۔ ہم خالہ سلمی کی طرف چلی گئیں۔ اس کے بعد تو کشور کو وقار کے خواب آنے لگے۔ ان خوابوں کا گویا تانتا بندھ گیا۔ وہ روز ہی کہتی کہ چلو، تمہاری خالہ کے گھر چلتے ہیں۔ میں اسے سمجھاتی کہ روز روز جانا ٹھیک نہیں، بار بار جانے سے جانے وہ کیا سمجھ بیٹھے۔ میرے بار بار منع کرنے پر وہ چپ ہو گئی اور میرے سامنے و قار کا ذکر کرنا بھی چھوڑ دیا مگر اس کے دل میں میرے کزن کے لئے ایک طوفان چھپا ہوا تھا۔ انہی دنوں اس کے والدین نے اس کی شادی واحد سے کر دی جو اس کو بالکل بھی پسند نہیں تھا۔ وہ والدین کے مجبور کرنے پر مارے باندھے راضی ہو گئی۔ جس روز دلہن بنی وداع ہو رہی تھی، بہت غمگیں تھی۔ مجھے دکھ ہو رہا تھا کہ اس کی شادی اس کی مرضی کے بغیر ہو رہی تھی۔ اس کے چلے جانے کے بعد دن بہت بور گزرنے لگے۔ زبردستی میں نے پڑھائی میں دل لگا لیا۔ گریجویشن کے بعد ایسی اکتاہٹ ہوئی کہ چین نہ آتا۔ والد سے اجازت لی اور ایک اسکول میں پڑھانا شروع کر دیا۔ ایک روز اسکول سے گھر لوٹ رہی تھی کہ بارش نے آ لیا۔ لمحوں میں تمام بھیگ گئی۔ سنبھل سنبھل کر چل رہی تھی کہ پانی سے بھرے راستے میں پھسل نہ پڑوں، تبھی وقار آتا نظر آیا۔ وہ اپنے کالج سے آرہا تھا۔ میرے قریب آکر سواری روک لی اور کہنے لگا۔ میں گھر جارہا ہوں، میرے ساتھ ساتھ چلو ورنہ بھیگ جائو گی۔ میں نے انکار کر دیا کہ خود چلی جائو گی۔ کیسے جائو گی اتنی بارش میں ؟ کوئی رکشہ کرلوں گی۔ اچھا ! رکشے والا زیادہ معتبر ہے مجھ سے ؟ ٹھیک ہے ، میں تم کو رکشہ کئے دیتا ہوں۔ اس نے ذرا آگے جاکر ایک رکشہ والے کو پکڑا اور میرے پاس لے آیا۔ میں رکشہ میں بیٹھ گئی۔ اس نے اپنی کار میرے پیچھے رکھی۔ جب گھر پر اتری، جلدی سے اندر چلی گئی۔ پلٹ کر نہیں دیکھا کیونکہ رکشے والے کو کرایہ اس نے پہلے سے دے دیا تھا۔ گھر آتے ہی ایک بڑی پریشانی نے استقبال کیا۔ امی جان بستر پر پڑی تھیں۔ ان کی طبیعت خراب تھی، والد گھر پر نہ تھے۔ امی دمے کی کیفیت میں تھیں۔ میرے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ تبھی دوڑی خالہ سلمی کی طرف ، وہ میرے ساتھ آ گئیں۔ انہوں نے فورأ وقار کو بلایا اور امی کو کار میں ڈال کر اسپتال لے گئے۔ وقار نے بھاگ دوڑ کی، بڑے ڈاکٹر صاحب کو لایا۔ کمرہ بھی مل گیا۔ امی کو آکسیجن لگادی گئی لیکن ان کی حالت سنبھلنے کی بجائے بگڑتی گئی۔ خدا کی مرضی میں کسی کا دخل، ان کے بچنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا۔ میں زور زور سے رونے لگی۔ خالہ جان اور وقار نے مجھ کو تسلی دی مگر میرے دل کو چین کہاں۔ ابو مجھ کو تسلی دینے کی بجائے امی کی حالت دیکھ کر خود نڈھال تھے۔وہ امی سے بہت پیار کرتے تھے۔ اماں کو آپریشن کے لئے تھیڑ لے گئے مگر وہ جہانِ فانی سے ہی چلی گئیں۔ میری بھی جان نکل گئی۔ ابو دل تھام کر بیٹھ گئے۔ وہ شریک حیات کی موت کی خبر برداشت نہ کر سکے اور کرسی پر ہی اس جہان سے کوچ کر گئے۔ یہ سچ تھا ایسی محبت اور ذہنی ہم آہنگی میاں بیوی کے درمیان کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ سب ان کے ایک ساتھ اس دنیا سے چلے جانے پر حیران تھے اور میری حالت کا کون اندازہ کر سکتا ہے، جس کے ماں باپ ایک ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئے ہوں۔ ان کے اکٹھے جنازے جاتے دیکھ کر میں خود بھی اسی لمحے مر جانا چاہتی تھی۔ چند دن تو رشتہ دار میرے ساتھ رہے پھر ایک ایک کر کے سبھی رخصت ہو گئے ، صرف سلمیٰ خالہ رہ گئیں۔ وہ مجھے اپنے گھر لے گئیں مگر مجھے وہاں چین نہ ملا۔ میں نے کہا۔ خالہ مجھے اپنے گھر پر رہنا ہے۔ خالہ نے مستری کو بلوایا اور اپنے اور ہمارے گھر کے بیچ اٹھی دیوار میں ایک در لگوا دیا تاکہ وہ اپنے گھر میں گھریلو فرائض انجام دیں اور در کھلا رہنے سے میں بھی اپنے گھر میں خود کو اکیلا محسوس نہ کروں۔ وہ لمحہ لمحہ میری خبر رکھتی تھیں۔ ماموں اور ممانی کراچی سے آئے تو کہا کہ تم ہمارے ساتھ چلو۔ میں نے انکار کر دیا کہ میں کسی صورت والدین کا گھر چھوڑ کر نہیں جائوں گی۔ تبھی ماموں ممانی اور خالہ سلمیٰ نے فیصلہ کیا کہ میری شادی وقار سے کر دیں تا کہ میں زندگی بھر اپنے ہی گھر سکون سے رہ سکوں۔ وقار ابھی شادی نہ کرنا چاہتا تھا۔ اس کی تعلیم کا آخری سال تھا، لیکن والدین کی وفات کے بعد میں اکیلی رہ گئی تھی۔ اس کا احساس وقار کو بھی تھا۔ وہ ایک اچھا انسان تھا، ایسا رشتہ تو کسی خوش نصیب کو ہی ملتا ہے۔ مجھے تو وہ پہلے سے ہی اچھا لگتا تھا۔ وقار نے مجھ سے شادی کی ہامی بھر لی اور ہماری منگنی ہو گئی۔ شادی ایک سال بعد ہونا تھی ، تاہم اب میں وقار کے سامنے زیادہ نہیں آتی تھی۔ جب ہم آمنے سامنے ہوتے ، میں گھبرانے لگتی۔ اسے میری یہ ادا اچھی لگتی تھی یوں وہ بھی مجھ سے زیادہ باتیں نہیں کرتا تھا۔ سبھی جاننے والے خوش تھے کہ مجھے یتیم کو ایک اچھا رشتہ مل گیا ہے۔ اب سلمی خالہ ہماری شادی کی تیاریوں میں مصروف تھیں اور مجھے کشور بہت یاد آرہی تھی۔ جب سے اس کی شادی ہوئی تھی ، وہ ملنے نہ آسکی تھی۔ خبر نہیں اس کا شوہر اسے کہاں لے گیا تھا؟ اس کا شوہر نشہ کرتا تھا۔ جب یہ حقیقت ہمارے علم میں آئی تبھی سے میں اس کے بارے فکر مند رہتی تھی۔ایک دن میں سلمی خالہ کے بلانے پر ان کے گھر گئی۔ وہ وقار کے پاس بیٹھی چائے پی رہی تھیں۔ انہوں نے اصرار کر کے مجھے بھی چائے دی اور بولیں۔ ادھر دیکھو کون آیا ہے ؟ میں چونک گئی۔ کشور ان کے گھر آئی ہوئی تھی اور سامنے والے کمرے کے دروازے پر کھڑی تھی۔ میری آواز سن کر کمرے سے باہر آ گئی۔ ہم دونوں گلے لگ گئیں۔ وہ رونے لگی تو میری بھی پلکیں بھیگ گئیں۔ اتنے عرصے بعد ہم دونوں ملے تھے۔ اس کی شوہر سے ناچاقی ہو گئی تھی۔ ایک تو یہ غم تھا، دوسرے اب واحد نے اس کو طلاق بھی دے دی۔ وہ بے گھر ہو گئی تھی ، ایک بچہ اس کے ساتھ تھا۔ میں تو سمجھتی تھی کہ وہ اپنے گھر میں خوش اور آباد ہے۔ سلمیٰ خالہ سے اجازت لے کر میں اس کو اپنے گھر لے آئی۔ اس کے بیٹے بلال کو پیار کیا، کشور کو تسلی دی، کھانا کھلایا۔ ماں بیٹا دونوں بھوکے تھے ، کشور کے والد بوڑھے تھے۔ دونوں بہنوں کی شادیاں ہو گئی تھیں۔ والد فوت ہو گئے تو اس کی ماں اپنے بھائی کے گھر چلی گئی۔ ممانی نے کشور اور اس کے بچے کو رکھنے سے انکار کر دیا۔ دونوں بہنوئی بھی کشور کو اپنے گھر رکھنے سے گریزاں تھے ، اب اس کا کوئی سہارا نہ تھا، جو کفالت کرتا۔ ہم ایک بار پھر سے گلے لگ کر روئیں۔ ہم دونوں پر ہی مصیبت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔ وہ مجھ سے زیادہ دکھی تھی۔ ہر طرف سے ٹھکرائی جا چکی تھی، سو میرے ساتھ ہی رہنے لگی۔ میں بھی گھر میں اکیلی تھی، اس کے آجانے سے رونق ہو گئی۔ شروع میں تو ہم دن رات باتیں کرتی رہتی تھیں۔ بچپن کی یادیں اور جوانی کے دُکھ سکھ کی باتیں گویا ختم ہی نہ ہوتی تھیں۔ ایک دن وہ بولی۔ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ تم پر بوجھ بنوں۔ میں کوئی ملازمت ڈھونڈتی ہوں۔ میں نے اسے یہ کہہ کر روک دیا کہ تھوڑا صبر کر لو۔ میرے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے۔ ابو بینک میں کافی دولت چھوڑ گئے ہیں۔ تمہارے کھانے سے کم نہیں ہو جائے گا۔ مجھے یہ اچھا نہیں لگتا کہ میں گھر میں آرام کروں اور وہ محنت کرے۔ میں یہ بھی چاہتی تھی وہ ہر وقت میرے پاس رہے تاکہ مجھے تنہائی محسوس نہ ہو۔ کشور کو ابھی تک اس بات کا علم نہ تھا کہ میری منگنی وقار سے ہو چکی ہے۔ وہ اب بھی اس کا ذکر چاہت سے کرتی اور اسے پسندیدہ نگاہوں سے دیکھتی تھی، تبھی ایک روز میں نے سوچا کیوں نہ وقار سے کہوں کہ وہ میری بجائے کشور سے شادی کر لے ۔ ایک مطلقہ کو اور اس کے بچے کو سہارا دے دے جو چھوٹی سی عمر میں باپ کی شفقت سے محروم تھا۔ میں چاہتی تھی، میری برباد سہیلی کو گھر کی عزت اور خوشیاں مل جائیں۔ سلمیٰ خالہ سے تو یہ بات کہنے کی جرأت نہ تھی، تبھی سوچا کہ وقار سے کہہ کر دیکھوں، شاید مان جائے۔ یہ ایک انہونی بات تھی لیکن دنیا میں معجزے بھی تو ہو جاتے ہیں۔ ایک دن وہ اکیلا بیٹھا تھا۔ میں اس کے پاس گئی اور بات کہنے کی اجازت طلب کی۔ وہ بولا، کہو۔ اس میں اس قدر جھجکنے کی کیا بات ہے۔ میں مدعا لبوں پر لائی تو وہ ہنس پڑا اور اسے مذاق سمجھا۔ کیسے اس کو سمجھاتی کہ دوستی کی خاطر میں سب کچھ کر سکتی ہوں۔ سوچتی تھی کہ جب کشور کو پتا چلے گا کہ جس شخص کو وہ پسند کرتی ہے ، میں اس سے شادی کرنے جارہی ہوں تو اس پر کیا گزرے گی؟ اسی سوچ میں ساری خوشی بھول جاتی تھی۔ ایک دن وقار نے مجھے گم صم دیکھا تو بولا۔ کن سوچو میں ڈوبی ہو ؟ میں تو کشور کے مستقبل کے بارے میں سوچوں میں ڈوبی تھی، وقار کی آواز پر کانپ گئی۔ ارے کیا ہو گیا ہے ؟ وہ میرے قریب آگیا۔ بتائو کیوں پریشان ہو ۔ بے اختیار میرے منہ سے نکالا۔ وقار کیا تم مجھ سے محبت کرتے ہو ؟ ہاں، محبت کرتا ہوں تب ہی تو شادی کر رہا ہوں۔ اگر میں تم سے کچھ مانگوں تو انکار نہیں کرو گے ؟ اگر تم میری جان بھی مانگو گی تو انکار نہ کروں گا۔ تم میری سہیلی کشور سے شادی کر لو۔ یہ سنتے ہی اس کا موڈ خراب ہو گیا۔ کہنے لگا۔ شاید تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ، اپنے کمرے میں جا کر آرام کرو، مگر میں نہ مانی۔ وقار اگر تم اس سے شادی کر لو تو اس کو اور اس کے بچے کو سہار ا مل جائے گا، اور مجھے عمر بھر کے لئے سکون مل جائے گا کیونکہ میری سہیلی تم کو شادی سے پہلے بھی پسند کرتی تھی اور اب بھی کرتی ہے۔ اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ میری تمہارے ساتھ منگنی ہو گئی ہے اور نہ میں نے اسے بتایا ہے ورنہ اور زیادہ دکھی ہو جائے گی۔ یہ سنتے ہی اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ کہنے لگا۔ تم کس قسم کی لڑکی ہو؟ یہ ہر گز نہیں ہو سکتا۔ تم میری منگیتر ہو اور میں تم کو پسند کرتا ہوں پھر کیوں اس سے شادی کروں۔ یہ بات دوبارہ مت کہنا۔ اس کو جلال میں دیکھ کر میں سہم گئی۔ خالہ سلمیٰ کا بھی ڈر تھا – لہذا میں اپنے گھر آگئی۔ ایک بار بات منہ سے نکل جائے تو پھر اس کا بار بار کہنا آسان ہو جاتا ہے۔ اب جب بھی وقار مجھے اکیلا نظر آتا، میں اس سے منت سماجت کرنے لگتی کہ تم میری سہیلی کا سہارا بن جائو۔ ایک روز اس نے کہا۔ تم بھی تو اکیلی ہو۔ اگر میں اس کا سہارا بن گیا تو پھر تم کو کون سہارا دے گا۔ میں اکیلی ضرور ہوں مگر تعلیم یافتہ ہوں۔ مجھے اچھی ملازمت مل سکتی ہے۔ صاحب جائیداد ہوں ، والد صاحب کا بینک بیلنس میرے نام ہے ، کچھ تو ہے میرے پاس، اس کے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ سب کچھ تم اس کو دے دو اور تم میرے ساتھ آجائو۔ میں کیوں تمہاری سہیلی کی خاطر اپنی دنیا اجاڑوں؟ کیا تم احمق ہو یا میرا امتحان لے رہی ہو ۔ اب جب وہ بات سنتا کہ ایک مطلقہ اور اس کے بچے کو کون اپنائے گا تو غصے میں آپے سے باہر ہو جاتا۔
مجھے کشور کا غم کھائے جارہا تھا۔ ہر وقت اس کا اترا ہوا بے رونق چہرہ دیکھتی تو اس کی اُداسی میرا دل چیر دیتی۔ میں سوچتی کہ پہلے تو ہم دونوں کتنی خوش رہتی تھیں۔ کوئی غم ہمارے قریب نہ پھٹکتا تھا، اب ہم کیا سے کیا ہو گئے ہیں؟ یہی سوچیں میرے دل کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے لگی تھیں۔ ایک روز جب میں وقار سے باتیں کر رہی تھی کہ کشور نے میری باتیں سن لیں۔ وہ خاموشی سے چلی گئی اور ہمیں پتا بھی نہ چلا۔ اس کے بعد سے وہ چپ چپ ، پژمردہ ہی رہنے لگی اور بیمار ہو کر بستر پر گرگئی۔ میں اصرار کر کے اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ لکھ کر دیئے۔ خالہ سلمی نے اس کے ٹیسٹ کروا دیئے۔ وقار رپورٹیں لے آیا۔ ڈاکٹر نے رپورٹس دیکھ کر جو کہا، اس نے ہم کو نہ بتایا۔ کشور نے مجھے کہا کہ میں ایک دن کے لئے اپنی ماں کے پاس جانا چاہتی ہوں۔ ان سے ملنے کو دل چاہ رہا ہے تم اگر بلال کو اپنے پاس رکھ سکو تو میں آسانی سے سفر کر سکوں گی۔ بلال مجھے سے گھلا ہوا تھا۔ میں نے کہا۔ ہاں تم چلی جائو اور اسے میرے پاس رہنے دو۔ وہ بیٹے کو میرے حوالے کر کے ماں کے پاس چلی گئی۔ جاتے ہوئے وہ پریشان سی تھی۔ صبح گئی اور شام ہو گئی ، وہ نہ لوٹی۔ بلال کو میں نے کھانا کھلا کر سلا دیا۔ وہ اگلے دن بھی شام تک نہ لوٹی۔ مجھے فکر ہو گئی۔ سلمیٰ خالہ سے کہا کہ وہ کشور کا پتا کریں۔ وہ وقار کے ساتھ اس کی ماں کے گھر گئیں۔ پتا چلا کہ وہ اسپتال میں داخل ہے۔ اس کے ماموں نے بتایا کہ رپورٹیں ٹھیک نہیں آئیں۔ اس کو کینسر ہے اور وہ چند ماہ کی مہمان ہے۔ وقار بھی افسردہ ہو گیا۔ کشور نے اسے ایک خط دیا کہ یہ رشنا کو دے دینا۔ اس خط میں اس نے لکھا تھا کہ میں نے تمہاری باتیں سن لی تھیں۔ وقار تم سے محبت کرتا ہے ، تم اس سے شادی کر لینا۔ میں بلال تم کو سونپ رہی ہوں۔ کبھی کبھی دوستی کا حق بھی ادا کرنا پڑتا ہے، لہذا تم بلال کو ماں کا پیار دینا کیونکہ مجھے دنیا میں تمہارے سوا کسی پر اعتبار نہیں ہے۔ میری زندگی کے دن کم ہیں ، نجانے کب چلی جائوں۔ وقار سے درخواست ہے کہ میرے بچے کو اپنی شفقت کے سایے میں رہنے دیں۔ یہ خط پڑھ کر میں بہت روئی۔ اس کے بعد جتنے دن وہ زندہ رہی میں اور وقار اس کے پاس روز جاتے تھے۔ آخری دنوں میں جب ڈاکٹر نے اسے لا علاج قرار دے دیا تو اس کی ماں اس کو اپنے بھائی کے گھر لے گئی۔ میری پیاری سہیلی اتنی جلد مجھ سے بچھڑ جائے گی علم نہ تھا۔ میری شادی کشور کی وفات کے تین ماہ بعد وقار سے ہو گئی۔ میں نے اپنی مرحوم سہیلی سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا اور اس کے بیٹے کو ماں بن کر پالا ۔ مجھے خدا نے تین بیٹیوں سے نوازا۔ آج میرا ایک ہی بیٹا ہے اور وہ بلال ہے۔ میں اپنی سہیلی کا یہ احسان کبھی نہیں بھول سکتی کہ اس نے بلال کی صورت میں مجھے بڑھاپے کا سہارا دیا، ورنہ شاید اولاد نرینہ نہ ہونے کا دکھ ہم دونوں میاں بیوی کو عمر بھر سہنا پڑتا۔ اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے۔ جانتی نہ تھی کہ بلال کی صورت میں خدا نے کتنی بڑی نعمت اور تحفے سے ہم کو نوازا ہے۔ کبھی کبھی دوست کی قربانی کا صلہ بھی اللہ تعالی کی طرف سے ایک بہترین انعام کی صورت میں انسان کو مل جاتا ہے۔