میں نے میٹرک پاس ہی کیا تھا کہ والد صاحب ریٹائر ہو گئے، تاہم کسی قسم کی مالی پریشانی نہیں تھی۔ ان کا اپنا بزنس تھا اور وہ خاصے صاحبِ حیثیت تھے۔ ریٹائرمنٹ بھی اپنی مرضی سے لی، حالانکہ ملازمت بہت اچھی تھی۔ انہوں نے یہ قدم اپنے دوست وحید کے کہنے پر اٹھایا، جس کا کہنا تھا کہ ملازمت کی وجہ سے وہ کاروبار کو پوری توجہ نہیں دے پاتے۔ یوں ابو نے اچھی بھلی سروس چھوڑ دی۔والد صاحب بظاہر ذہین انسان تھے، تاہم وحید صاحب ان کے خیالات پر چھائے رہتے۔ وہ ہر فیصلہ انہی کے مشورے سے کرتے۔ امی اکثر اعتراض کرتیں کہ آپ ہر کام اپنے دوست کے کہنے پر کیوں کرتے ہیں، جو بھی فیصلہ کرنا ہو، اپنی عقل سے کریں۔ والد صاحب کو اپنی اور وحید کی دوستی میں ماں کی یہ مداخلت سخت ناگوار گزرتی تھی۔ وہ غصے میں کہہ دیتے: تم بس بیوی ہی رہو، میری کمانڈر مت بنو۔ اپنے کام سے کام رکھو… تمہارا میرے دوست یا اس کی دوستی سے کیا لینا دینا ہے؟اس بات پر گھر میں جھگڑا ہو جاتا اور گھر کی فضا مکدر ہو جاتی۔
ہم بہن بھائی سہم جاتے، کیونکہ ہم جھگڑوں سے بہت ڈرتے تھے۔ ماں کا بھی قصور نہ تھا۔ دراصل والد کے اس غیرمعمولی رویے کا ذمہ دار ہم سب وحید ہی کو گردانتے تھے، جس پر میرے باپ جان چھڑکتے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ ہمارے گھر میں ابو کے روپ میں وحید ہی کی حکمرانی ہے۔یہ شخص میرے والد کے دل و دماغ پر اس طرح قابض تھا، جیسے شہنشاہ جہانگیر کے ذہن پر نور جہاں کی حکمرانی تھی۔ تبھی اکثر ہمارے قریبی رشتہ دار بھی والد کو خبطی اور بے وقوف سمجھتے، حالانکہ وہ واقعی بے وقوف نہ تھے۔ وہ بلا شبہ ذہین اور معاملہ فہم انسان تھے۔ اگر عقل مند نہ ہوتے تو وہ کاروبار، جو تھوڑے سے سرمایے سے شروع کیا تھا، اتنی تیزی سے کیسے ترقی کرتا؟ شاید وحید ہی ان کے کاروبار میں معاونت کرتا ہو، اسی لیے والد نے اتنی اچھی ملازمت کو بھی خیر باد کہہ دیا اور اب وہ دولت میں کھیل رہے تھے۔والدہ بے حد خوبصورت، سگھڑ اور نیک خاتون تھیں۔ مگر والد کی نظروں میں وہ صرف ان کے بچوں کی ماں اور ایک گھرداری کرنے والی عورت تھیں۔ ان کے لیے وہ ایک شریکِ حیات کی حیثیت نہیں رکھتی تھیں۔ امی ان سے ڈرتی تھیں، اور ہم بھی۔ کیونکہ ابو غصیلے تھے، جب انہیں غصہ آتا تو وہ اندھا دھند ہمیں مارنے لگتے، بغیر اس کے کہ قصور کس کا ہے۔ ہاں، جب خوش ہوتے تو بہت محبت کرتے، اتنا کہ ہمیں لگتا ابو سے زیادہ شفیق کوئی نہیں۔خدا جانے وہ کس قسم کے ذہنی انتشار کا شکار تھے، آج تک میں یہ نہیں سمجھ سکی۔ بس اتنا جانتی تھی کہ وحید کے روپ میں کوئی سانپ سا ان کی زندگی میں ڈس رہا ہے۔ اسی شخص نے انہیں شراب نوشی کا عادی بنا دیا۔ اب تو یہ حال تھا کہ دونوں گھر پر کمرہ بند کر کے گھنٹوں اس مشروب میں غرق رہتے۔یہ بات نہ صرف امی کو بلکہ ہم سب کو ناگوار گزرتی، مگر ہم کیا کر سکتے تھے؟ وہ بااختیار تھے اور ہم ان کے محکوم۔ میں امی کے آنسو پونچھ کر انہیں تسلی دیتی کہ دعا کریں ہمارے والد راہِ راست پر آ جائیں اور یہ منحوس شخص ان کی زندگی سے نکل جائے، جس نے کسی زمانے میں قرض دے کر گویا انہیں خرید لیا تھا۔ رفتہ رفتہ وہ ہمارے گھرانے کے تمام فیصلے کرنے لگا۔ابو نے وحید کے کہنے پر ہی میری پڑھائی بھی ختم کروا دی۔ اور بعد میں میری شادی بھی اسی کے مشورے سے اپنے ایک رشتہ دار سے کر دی، حالانکہ وہ شخص میرے کسی بھی جوڑ کا نہ تھا۔ نہ خوش شکل، نہ دولت مند، اور تعلیم بھی واجبی سی۔ اس کا نام معمار احسن تھا۔ وہ ایک لا ابالی، آرام طلب اور کام چور انسان نکلا۔ کوئی کام دلجمعی سے نہیں کرتا تھا۔خدا جانے وحید کو اس کے گھرانے سے کیا لالچ تھا کہ مجھے ایسی آگ میں دھکیل دیا۔امی اس شادی پر قطعی راضی نہ تھیں۔ جب وہ لڑکے والوں کا گھر دیکھ کر آئیں تو بہت روئیں۔ مگر والد نے زبردستی یہ رشتہ منوایا اور میری شادی معمار سے کر دی۔ میرے دل میں جو نفرت کا بیج بچپن سے بویا گیا تھا، والد کے اس فیصلے پر وہ تناور درخت بن گیا۔
زبردستی کی شادی نے میرے مزاج کو درہم برہم کر دیا تھا۔ نکاح کے وقت میں مجبور تھی۔ ماں نے کہا کہ خاندان کی لاج رکھنی ہے، اس لیے میں نے زبان نہ کھولی۔ لیکن شادی کے بعد دل میں بغاوت نے کچھ اس طرح سر اٹھایا کہ میں اس آگ سے اپنا دامن نہ بچا سکی۔ایک طرف اندر کا کہرام، اوپر سے لوگوں کی طرح طرح کی باتیں۔ کوئی کہتا، “بیچاری کی قسمت پھوٹ گئی، ماں باپ نے بن دیکھے بھالے ایسے گھر بیاہ دیا کہ اب قسمت کو روئے گی۔ کوئی کہتا، حور کے پہلو میں لنگور۔ خدا کی قدرت! یہ تو اتنی خوبصورت اور شوہر معمار۔ کہاں راج بھوج، کہاں گنگوا تیلی، مگر اس تیلی کی مراد بر آئی تھی۔ان باتوں نے میرے اندر کے الاؤ کو مزید بھڑکا دیا۔ جب لوگوں نے بار بار خوبصورتی کا احساس دلایا تو دل میں اضطراب بھر گیا۔ شوہر کو خود کے قابل نہ سمجھتی تھی۔ جب وہ سامنے آتا، میں بے حس ہو جاتی۔ میرے سرد رویے پر وہ غصہ کرتا، بات بات پر مجھے مارنے کو دوڑتا، شور مچاتا، برتن پٹختا۔ مگر شریف ماں کی نصیحت تھی: بیٹی! گھر اجاڑ کر مت آنا ورنہ مجھے بہت تکلیف ہو گی۔ اسی کے خیال سے سب کچھ سہتی رہی۔مگر نہ تو گھر بسانے کی ہمت بچی تھی، نہ اجاڑنے کی اجازت۔ معمار کے گھریلو اور مالی حالات دونوں ناساز تھے۔ وہ شدید احساسِ کمتری کا شکار تھا۔ بات بات پر لعن طعن کرتا اور میں اندر ہی اندر گھلتی رہتی۔ مزید ستم یہ کہ اس کی عادتیں عورتوں جیسی تھیں — باتیں ادھر کی اُدھر کرنا، ایک بات کو بار بار دہرانا، جگہ جگہ میری شکایتیں کرنا۔معمار احسن کی عادتیں بالکل احسن نہ تھیں۔ وہ میرے مزاج سے بالکل مختلف انسان تھا۔ میرے میکے سے کوئی آ جاتا تو میں ان سے گھر کی کوئی بات نہ کرتی۔ جھگڑا ہو رہا ہوتا تو پردہ ڈال دیتی۔ گھر کے تقدس کو ہر حال میں قائم رکھتی۔ لیکن میرا شوہر انتہائی ذاتی باتیں بھی چوراہے میں بیان کر دیتا، جس سے مجھے سخت کوفت ہوتی تھی۔میری زندگی تلخیوں سے بھر گئی۔ والدین میرے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ دیکھ کر یہی سمجھتے کہ میں خوش ہوں۔ قصور بھی میرا تھا کہ میں شوہر کے جھوٹے پروپیگنڈے کی تردید نہ کرتی۔ مجھے اوچھا پن محسوس ہوتا۔ اور لوگ اس کی باتوں پر یقین کر لیتے۔اس کے سب رشتہ داروں کے گھر قریب تھے۔ وہ ایک ایک کے پاس جا کر کہتا، میری بیوی کھانا نہیں پکاتی، حالانکہ میں سب کچھ لا کر دیتا ہوں۔ میں کسی سے کچھ نہ کہتی، یہ بھی نہ بتاتی کہ وہ کچھ لاتا ہی نہیں، تو میں کیا پکاتی؟ عزت کے خیال سے خاموش رہتی۔ اور لوگ کہتے، کیسی بری عورت ہے، شوہر کو کھانا نہیں دیتی، بیچارا خوشبو سونگھتا پھرتا ہے۔ایسی بے شمار باتیں تھیں جو مجھے دلی صدمہ دیتی تھیں۔ سسر کی پنشن سے گزارا مشکل تھا۔ معمار چند دن کام کرتا، پھر گھر بیٹھ جاتا۔ جب فاقے پڑنے لگتے، تب کام ڈھونڈتا۔ کچھ دن کام کرتا، پھر بے چینی گھیر لیتی۔ اکثر دیر سے آتا، اور کچھ ہی عرصے میں کام چھوڑ دیتا۔اس کے بھائی اور بھابھی نے خرچ دینے سے صاف انکار کر دیا۔ اور مجھ سے کہا کہ اب تم اپنے باپ سے ہر ماہ خرچ لایا کرو۔ میں نے سوچا، اگر ایک بار لائی، تو ہمیشہ لانی پڑے گی۔ پھر تو یہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں گے۔میں نے معمار سے کہا، میں میکے سے رقم نہیں لاؤں گی، ہاں تم کو اعتراض نہ ہو تو میں خود کام ڈھونڈ لوں گی۔اس نے کہا، تو پھر دیر کس بات کی، آج ہی نکلو تلاش میں۔ابو کے ایک جاننے والے، امتیاز صاحب کی ایک ایکسپورٹ فرم تھی۔ میں وہاں گئی۔ انہوں نے حوصلہ دیا اور کہا، تمہارے والد کے ہم پر بہت احسانات ہیں، سمجھو یہ فرم تمہاری ہے۔یوں میں نے ملازمت اختیار کر لی۔ امتیاز صاحب مجھ سے عمر میں دگنے تھے، مگر نہایت شائستہ اور بااخلاق انسان۔ جب میرا بنایا ہوا ٹیکسٹائل ڈیزائن منظور ہوا تو بہت خوش ہوئے۔ مزید کام دینے لگے۔ میرے حالات سے وہ بخوبی واقف تھے۔ شادی میں بھی آئے تھے۔ یہاں تک کہا تھا کہ، یہ لوگ تمہارے لائق نہیں-میں نے خوب محنت کی۔ امتیاز صاحب بہت خوش ہوئے۔ لیکن مجھے اندازہ نہ تھا کہ ان کے دل میں میرے لیے پسندیدگی کے جذبات پیدا ہو رہے ہیں۔میری پہلی تنخواہ کے وقت شوہر اور ساس نے مجھے سانس لینے نہ دیا۔ تنخواہ کا مطالبہ کیا۔ میں نے ساری رقم شوہر کو دے دی۔ پھر تو اس نے گویا قسم کھا لی کہ عمر بھر کام نہیں کرے گا۔ وہ مہینے بھر تنخواہ کا انتظار کرتا، بستر پر پڑا رسالے پڑھتا رہتا۔ مجھے دکھ ہوتا، مگر چپ رہتی۔ادھر امتیاز صاحب ہر دکھ سکھ میں شریک ہوتے، اگر واپسی میں سواری نہ ملتی، تو ڈرائیور بھیج دیتے۔ایک دن میں سخت بیمار ہو گئی۔ امید سے تھی۔ طبیعت خراب رہتی، مگر شوہر کو فکر تھی کہ کہیں نوکری نہ چلی جائے۔ اس نے مشورہ دیا کہ ماں بننے سے جان چھڑائوں۔ اس بات نے مجھے گہرا صدمہ پہنچایا، اور اسی صدمے کی وجہ سے میں ماں بننے کی نعمت سے محروم ہو گئی۔اس حادثے کے بعد میں نے تہیہ کر لیا کہ اب مزید ظلم نہیں سہوں گی۔ اگر دوبارہ جھگڑا ہوا تو گھر چھوڑ دوں گی۔ وہ دن آ ہی گیا۔ معمار کی ایک بات پر میں میکے چلی گئی اور سب کچھ والدین کو بتا دیا۔ابو کے دوست وحید صاحب نے مداخلت کی، مجھے زبردستی واپس بھجوا دیا۔ مگر اس بار میں دل سے باغی ہو چکی تھی۔ آئینہ دیکھ کر دل سلگتا تھا۔ ذہن میں بار بار آتا: یہ سب میں نے اپنے ساتھ کیا کر لیا؟میں اعزازی نمبروں سے ماسٹرز کر چکی تھی، اور شوہر تھا جاہل، نکھٹو، بے حس۔ کبھی سوچتی، کیا یہی میری قسمت ہے؟ مگر اب میں خود اپنی تقدیر بدلنے کا ارادہ کر چکی تھی۔پھر امتیاز صاحب کے بیٹے شاہد کی پاکستان آمد ہوئی۔ میں نے اس کے لیے گھر سجایا، کھانے بنوائے۔ وہ خوبصورت، بااخلاق نوجوان نکلا۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ وہ طلاق یافتہ ہے۔اگلے دن امتیاز صاحب میرے والد سے ملے۔ اور والد نے پہلی بار خود کہا کہ، میں نے تمہارے ساتھ ظلم کیا، اب تمہیں خلع لے کر اپنی نئی زندگی شروع کرنی چاہیے۔میں حیرت زدہ رہ گئی۔ قسمت جب پلٹتی ہے تو انسان کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ اس بار میں نے فیصلہ والد پر چھوڑ دیا، مگر اتنا کہہ دیا کہ اب معمار کے پاس نہیں جاؤں گی۔یوں شاہد سے میری شادی ہو گئی۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ زندگی یوں کروٹ لے گی۔ آج میں خوش و خرم زندگی گزار رہی ہوں۔ امتیاز انکل اب اس دنیا میں نہیں رہے، لیکن دل سے ان کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔