Friday, October 11, 2024

Dosti Ki Azmaish

سبز جنگلی گھاس اور خوب صورتی سے ترشی ہوئی باڑھ، بہت بھلی لگ رہی تھی۔ باغ کی جانب سے آنے والی ہوا  تروتازہ اور خوشبو سے بھری ہوئی تھی۔ کبھی ابر چھا جاتا اور کبھی دھوپ نکل آتی ۔ گل بانو نے کھڑکی کھول کر دور تک پھیلی ہوئی نرم چمکیلی دھوپ کو دیکھا۔ اسے ہمارے پڑوس میں آئے دوسرا دن تھا۔ وہ کچھ دیر تک کھڑکی میں کھڑی لمبے لمبے سے سانس لیتی رہی ، پھر اپنے بال سمیٹے۔ اسے دیکھ کر مجھے اپنی دوست فاریہ یاد آ گئی، جو ہو بہو اس جیسی تھی ۔ فاریہ عادتا بھی گل بانو کی طرح تھی۔ وہ بھی اس  باغ میں روز شام کو سامنے والی بینچ پر بیٹھ کر خوشبوؤں سے باتیں کیا کرتی تھی۔ میں اسے کبھی نہ بھول پاؤں گی ۔ وہ اور میں اکٹھے کالج میں پڑھتے تھے۔ ہم دونوں کے گھر ایک ہی بلاک میں تھے، اس لیے ایک ہی کالج میں داخلہ لیا تھا۔ وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھی ، اسی وجہ سے شروع میں اس کو مجھ سے بات کرنے میں جھجک ہوتی تھی۔ جب اس نے میری عادت کو سمجھ لیا تو ہماری خوب دوستی ہو گئی۔

میرے والد ایک معروف تاجر تھے۔ میں ان کی اکلوتی اولاد تھی ۔ اس حساب سے مجھے بگڑا ہوا ہونا چاہیے تھا لیکن والدہ نے تربیت کچھ اس طرح کی کہ دولت نے میرا دماغ خراب نہیں کیا اور نہ ہی مجھے بدتمیز بنایا۔ تب ہی میں شروع سے باادب اور تمیزدار رہی جبکہ فاریہ گھر بھر کی لاڈلی تھی۔ والدین کے علاوہ بھائی بھی اس کو بہت چاہتے تھے۔ جب وہ بھائیوں کی شکایتیں ماں باپ سے کرتی تو ان بے چاروں کو بلاوجہ ڈانٹ پڑ جاتی، یوں وہ کچھ سر چڑھی ہو گئی تھی۔ فضول خرچی اسے پسند تھی۔ ہمہ وقت نت نئے لباس خریدنے کی فکر میں رہتی جبکہ دولت ہونے کے باوجود، میں سادہ لباس میں سکون محسوس کرتی تھی ۔ ہماری دوستی میں بس اتنا ہی تضاد تھا ، یوں وہ بہت رحم دل اور نرم مزاج تھی- ایک دن فاریہ آئی، بڑی بنی ٹھنی اور خوش نظر آ رہی تھی، آتے ہی بولی ۔ تمہیں کچھ خبر ہے ! ہمارے پڑوس کے خالی مکان میں لوگ آ گئے ہیں ۔ اچھا! مگر یہ کوئی ایسی خاص خبر تو نہیں ہے۔ میں نے جواب دیا۔ خاص ہے، کیونکہ اس میں خاص قسم کے لوگ آئے ہیں۔ اچھا بابا! ہوں گے خاص، اب تم مجھے پڑھنے دو۔ کل ٹیسٹ ہے اور تم نے بھی تو ٹیسٹ دینا ہے، تیاری کرلو، اس میں ہمارا بھلا ہے۔ پہلے میری پوری بات تو سن لو! آؤ ذرا سامنے کھڑکی کے پاس چلو۔ وہ بازو سے پکڑ کر مجھے ادھر لے گئی۔ وہ دیکھو۔ سامنے ایک خوب صورت لڑکا کھڑا تھا۔ وہ بولی ۔ ہیں ناخاص لوگ ؟ اچھا تو تم مجھے یہ دکھانے لائی ہو؟ مل چکی ہوں میں اس کی بہن گل بانو سے- جانتی ہو اس کا نام کیا ہے۔ بھئی رہنے دو بس۔ میں نے ناگواری سے کہا ۔ اب مجھے پڑھنے دو۔ میں اپنی جگہ آ کر بیٹھ گئی۔ فاریہ کا منہ بن گیا تھا ، جیسے اس کا دل ٹوٹ گیا ہو۔ اس نے کہا۔ امتحان میں کافی وقت پڑا ہے اور تم ابھی سے سر کھپا رہی ہو۔ وہ بور ہو کر چلی گئی۔ میں نے شکر کیا کہ اس نے میرا زیادہ وقت نہیں لیا۔

ایک روز میں لائبریری میں بیٹھی پڑھ رہی تھی کہ دروازہ کھلا، میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو سامنے وہی لڑکا کھڑا تھا، جسے فاریہ اس روز مجھے خاص طور پر دکھا رہی تھی۔ میں محویت سے اسے دیکھنے لگی ، تب وہ بولا ۔ کیا نظر لگانے کا ارادہ ہے؟ میں جھینپ گئی۔ وہ کہنے لگا۔ میں نے یہاں داخلہ لیا ہے اور خیر سے ہم پڑوسی بھی ہیں، تو میں آپ کو کس نام سے پکاروں؟ میں پھر بھی خاموش رہی۔ کیا آپ کا کوئی نام نہیں ہے؟ میں نے اس بات کا جواب نہ دیا لیکن کہہ دیا کہ میں آپ کا نام جانتی ہوں۔ شاہ رخ نام ہے آپ کا۔ اچھا کس نے بتادیا؟ ویسے میں بھی آپ کا نام جانتا ہوں۔ علیشہ ہے نا آپ کا نام؟ جانتے ہیں تو پھر پوچھ کیوں رہے ہیں؟ بس ویسے ہی تعارف چاہیے تھا۔ اچھا آپ مطالعہ کریں- میں کلاس میں ملوں گا۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ اس کے فوراً بعد فاریہ آ گئی، بولی ۔ کیسا لگا؟ تو تم نے اسے بھیجا تھا میرے پاس۔ ہاں، کیوں؟ تم کو برا لگا۔ برا لگا تب ہی تو کہہ رہی ہوں۔ کیوں بھیجا تھا، اسے میرے پاس؟ وہ ہمارا پڑوسی ہے اور کلاس فیلو بھی، ہم سے اس کے دو رشتے تو بنتے ہیں۔ تم کرتی پھرو اس طرح کی فضول رشتے داریاں ، مجھے پڑھنے دو۔ میں نے جل بھن کر جواب دیا۔ بڑی آئی پڑھاکو ! یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔ اس کے بعد فاریہ نے اس سے دوستی کر کے نئے رشتے بنانے شروع کر دیے۔ وہ ازخود اس سے باتیں کرتی جبکہ وہ اس کو خاص لفٹ نہیں کراتا تھا۔ تاہم جب میں فاریہ کے ہمراہ ہوتی تو وہ خوب باتیں کرتا اور گفتگو کو طول دینے کی کوشش بھی کرتا۔ میں نے اندازہ کر لیا کہ وہ فاریہ سے زیادہ مجھے اہمیت دیتا ہے اور مجھ سے باتیں کر کے راحت محسوس کرتا ہے۔ یوں چار سال گزر گئے ۔ اس عرصہ میں شاہ رخ نے بھی ہمیں شکایت کا موقع نہیں دیا۔ کالج کا دور ختم ہوتے ہی اس نے مجھے پرپوز کر دیا۔ میں اس اچانک پیش کش سے گھبرا گئی ۔ جواب میں اتنا ہی کہہ سکی کہ اگر ایسی بات ہے تو اپنے والدین کو ہمارے گھر بھیجو۔ اس سے زیادہ کیا کہہ سکتی تھی۔ جان لیا تھا کہ وہ مجھے پسند کرتا ہے اور مجھے بھی وہ برا نہیں لگتا تھا۔

دو دن بعد اس کے والدین رشتے کے لیے ہمارے گھر آ گئے۔ میں اپنے کمرے میں بیٹھی تھی ، جبکہ امی خوش نظر آ رہی تھیں۔ وہ کمرے میں آئیں ، کہنے لگیں ۔ عاشی چلو کچھ مہمان آئے ہیں تم سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں شرماتی جھجکتی ہوئی ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی۔ شاہ رخ کی امی نے مجھے گلے سے لگا کر پیار کیا۔ وہ لوگ اپنے ساتھ کیک لائے تھے ۔اگلی بار وہ لوگ مٹھائی لائے اور مجھے انگوٹھی پہنا کر چلے گئے۔ دو ماہ بعد میری شاہ رخ سے شادی ہو گئی ۔ شادی کے بعد میں بہت خوش تھی۔ شاہ رخ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ عورت کو شادی کے بعد خاوند کا سچا پیار مل جائے اور کیا چاہیے۔ فاریہ البتہ روٹھی ہوئی تھی۔ جو آرزو وہ اپنے لیے کر رہی تھی، میرے نصیب میں لکھی ہوئی تھی۔ چار ماہ خوشیوں بھرے گزرے، پھر شاہ رخ کا پیار رفتہ رفتہ کم ہونے لگا، ان کی توجہ گھٹنے لگی۔ اس بات کو میں نے دلی تکلیف کے ساتھ محسوس کیا۔ وہ خوبرو تھے، وجیہ تھے، لہذا سن گن ملنے لگی کہ ان کے سلسلے کئی لڑکیوں سے ہیں۔ شادی کے کچھ دن تو وہ پوری طرح میری طرف متوجہ رہے لیکن اب پھر سے پرانے  تعلق استوار ہونے لگے تھے۔ دیر سے گھر آنا ، رات کا کھانا باہر سے کھا کر آنا، مجھ سے معمولی معمولی باتوں پر الجھنا۔ ایک روز میں میکے سے اچانک گھر آ گئی، جبکہ چار دن رہنے کا کہہ کر گئی تھی۔ یہ دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ وہ گھر میں بازاری عورت کو لائے ہوئے تھے۔ میں نے کہا۔ ابھی ابھی تم دونوں گھر سے نکل جاؤ، یہ میرا گھر ہے، کوئی ریسٹورنٹ نہیں کہ ایسی عورتیں یہاں آ کر راحت افروز ہوں۔ اس پر شاہ رخ نے چلا کر کہا۔ یہ گھر میرا ہے، تمہارا نہیں ۔ تم کون ہوتی ہو میرے مہمان کو گھر سے باہر کرنے والی؟ میں جس کو چاہوں، اپنے گھر مدعو کروں ۔ مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔ مجھے تبھی غصہ آ گیا اور میں اس عورت کو دھکے دے کر گھر سے نکالنے لگی۔ تب انہوں نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا اور بازوں سے پکڑ کر، گھر سے باہر کر کے بولے۔ میکے جاؤ اور خبردار جو اپنے والدین کو کوئی بات کہی ، ورنہ طلاق دے دوں گا۔ بتاتی چلوں کہ شاہ رخ کی شادی تو سامنے والے گھر سے ہی ہوئی تھی اور میں ایک ماہ دلہن بن کر وہاں رہ پائی۔ بعد میں ان کو کمپنی کی طرف سے گھر مل گیا اور ہم اس گھر میں شفٹ ہو گئے ، تب ہی میں اپنے میکے اور سسرال سے دور ہو گئی تھی ۔ میرا سسرال تو میرے میکے کے سامنے تھا۔ ساس ، سر، دیور، نند سب وہاں رہتے تھے۔ خیر میں بمشکل اپنے میکے پہنچی اور وہاں جا کر بے ہوش ہو گئی۔ ہوش آیا تو امی ابو پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ امی مجھے اس حال میں دیکھ کر رو رہی تھیں۔ میں بھی ان سے لپٹ کر رو دی۔ میرے والدین نے داماد کو بلوا لیا۔ وہ آئے اور ابو سے بلند لہجے میں بات کرنے لگے تو انہوں نے اسی وقت مطالبہ کر دیا کہ تم ابھی میری بیٹی کو طلاق دو۔ اس کے بعد جس قدر جی چاہے رنگ رلیاں منا لینا ۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ مجھے ایسے طلاق ہو جائے گی۔

ایک سال بعد ابو نے میری شادی اپنے بھانجے سے کر دی۔ مجھے لگتا تھا کہ طلاق صدمہ کبھی نہ بھول پاؤں گی ، مگر فیض بے حد اچھے شوہر ثابت ہوئے ۔ انہوں نے میرا ٹوٹا ہوا دل ایسے اپنے ہاتھوں میں سنبھال لیا جیسے کوئی آبگینے کو سنبھالتا ہے۔ وہ دیر تک ڈھیروں اچھی اچھی باتیں کرتے، مجھے سمجھاتے ، دل جوئی کرتے ، تاکہ ماضی کا زخم بھول کر نئی زندگی کو خوشیوں کے ساتھ قبول کر لوں ۔ فیض کی اس سعی میں خلوص تھا ، اس لیے وہ جیت گئے اور میں گزرے دنوں کے دکھ درد بھلا کر ان کے ساتھ نئی زندگی کی خوشیوں میں کھو گئی۔ میں فیض کے ساتھ ہر لحاظ سے پرسکون زندگی گزار رہی تھی۔ ان ہی دنوں کسی نے میری پیاری دوست فاریہ کی عزت پامال کر دی ۔ اس نے شرم کے مارے خودکشی کرنا چاہی مگر زندگی تھی کہ بچ گئی۔ اس نے مجھے اپنے مجرم کا نام بتانا ضروری نہ سمجھا ، لیکن استدعا کی کہ میں کچھ دن کے لیے اسے اپنے گھر پناہ دے دوں، کیونکہ اس کے والدین فاریہ سے سخت ناراض تھے۔ انسان کی زندگی میں کچھ ایسے موڑ بھی آجاتے ہیں، جب اسے کچھ نازک اور اہم فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ فیض نے مجھے سمجھانا چاہا کہ فاریہ کا ہمارے گھر میں رہنا ٹھیک نہیں، لیکن میں اپنی دوست کو دکھ کے لمحات میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتی نے اپنے شوہر کو منا لیا اور فاریہ کو گھر لے آئی۔ کچھ عرصہ تو وہ میرے سوا کسی سے کلام نہ کرتی ۔ فیض سے بھی بات نہیں کرتی تھی، پھر رفتہ رفتہ دونوں ایک حد میں رہ کر ہم کلام ہونے لگے۔ میں اس بات کا برا نہ مناتی کہ ہر حال فاریہ کو خوش دیکھنا چاہتی تھی۔ وقت کے ساتھ ان میں اپنائیت بڑھنے لگی اور وہ آپس میں ہنسی، مذاق کرنے لگے۔ کبھی ان کے درمیان شطرنج کھیلتے ہوئے جھگڑا بھی ہو جاتا، تو میں صلح کروا دیتی کہ کھیل میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ دونوں ہی شطرنج کے رسیا تھے، جبکہ مجھ کو اس  کھیل سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ کبھی کبھی فاریہ اپنی خالہ کے گھر رہنے چلی جاتی تھی تب ہی میں نے نوٹس کیا کہ فیض کو چپ لگ جاتی ۔ جب تک وہ لوٹ نہ آتی یہ گم صم رہتے اور مجھ سے  کم بات کرتے ، لگتا کہ مسکرانا بھول گئے ہوں۔ شروع میں تو میں نے محسوس نہ کیا – مگر بعد میں کچھ کھٹکنے لگا کہ ایسی کیا بات ہے؟ کیا فیض ، فاریہ کو چاہنے لگے ہیں؟ تب ہی خود کو سمجھا لیتی کہ فاریہ میری گہری سہیلی ہے۔ ہمیشہ ہم نے ایک دوسرے پر اعتبار کیا ہے اور اب میں عام عورتوں کی طرح اپنی سہیلی کو خوش دیکھ کر بدگمان ہو رہی ہوں، اتنے اچھے شوہر کو بھی شک کی نظر سے دیکھ رہی ہوں۔ ایسی گھٹیا سوچیں مجھ کو زیب نہیں دیتیں۔ فاریہ بے چاری نے پناہ مانگی  اور اب اس کو گھر سے جانے کا کہہ دینا کم ظرفی تھی لیکن جب حقیقت کچھ اور دکھائی دے رہی ہو تو انسان کب تک خود کو ایسی سوچوں سے بہلا سکتا ہے۔

 اب مجھے صاف محسوس ہونے لگا تھا کہ فاریہ کے آنے سے فیض کھل اٹھتے تھے، جیسے اس کی راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھے ہوں۔ مجھے یقین ہونے لگا کہ ان دونوں کے درمیان پر کوئی ان دیکھا رشتہ استوار ہونے جا رہا ہے۔ میں کچن میں ہوتی ، وہ لوگ باتیں کرتے تو لگتا کہ شطرنج کی آڑ میں کوئی اور کھیل چل رہا ہے، گویا ان کا آپس میں کوئی پرانا بندھن ہو، یہی نہیں فاریہ اپنے سارے سارے دکھ بھول کر ہر دم مسکرانے لگی تھی۔ وہ روز بہ روز نکھرتی جا رہی تھی۔ اس کے چہرے پر بلا کی کشش نے بسیرا کر لیا تھا۔ اس کے چہرے کی چمک اب دیکھنے والے کو بار بار متوجہ کرتی تھی۔ فیض جب اسے مخاطب کرتے تو اس کے لبوں پر خفیف مسکراہٹوں کے پھول سے کھلنے لگتے تھے اور آنکھوں میں جگنوؤں کی سی دمک دکھائی پڑتی تھی۔ فیض کو مجھ میں عیب اور فاریہ میں بہت خوبیاں دکھائی دینے لگی تھیں۔ میں پھر بھی چپ تھی کہ میں نے دکھی دوست کی مدد کی ہے، کہیں دل آزاری نہ کر بیٹھوں۔ ایک دن، رات میں جب ہم اپنے بیڈ روم میں لیٹے تو فیض نے رخ پھیر کر میری طرف سے پیٹھ کر لی ، تب مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے ان سے سوال کر دیا کہ آپ کو آج کل کیا ہو گیا۔ ہے؟ آپ کبھی گم صم ، کبھی الجھے الجھے کسی کشمکش کا شکار رہنے لگے ہیں۔ مجھے اپنی الجھن بتا دیں، شاید میں آپ کی کچھ مدد کرسکوں ۔ یہ بات میں نے ایک اتنے پیار سے کہی کہ ان کے ضمیر کا بوجھ بڑھ گیا اور اس بوجھ  سے گھبرا کر انہوں نے اقرار کر لیا کہ وہ فاریہ سے محبت محسوس کرنے لگے ہیں اور اب اس کی محبت سے کنارہ کرنا ان کے  بس کی بات نہیں رہی ہے۔ یہ سن کردم بخود رہ گئی ۔ حیران تھی کہ ان کو مجھ سے ایسی بات کہتے ہوئے یہ بھی خیال نہ رہا کہ میں میں ان کی بیوی ہوں، مجھے یہ سب سن کر کس قدر دکھ پہنچے گا ۔ شاید فاریہ کی محبت اس قدر حاوی ہو گئی تھی کہ اب ان کے دل و دماغ پر اسی کی حکمرانی تھی ۔ ہمہ وقت اس کے خیال میں کھوئے رہتے ۔ رات کو جب میرے پاس ہوتے تو تنہائی میں بھی مجھ سے اسی کی باتیں کرتے تھے۔ جب وہ صبح گھر سے جاتے ، ہر روز سوچتی کہ اپنی دوست کو شوہر کی دلی کیفیت سے آگاہ کر دوں مگر یہ بات زبان تک آ کر رک جاتی اور میں کچھ بھی نہ کہہ پاتی۔ یوں لگتا کہ یہ کہہ دینے سے میرا بھی نقصان ہو جائے گا۔ اس  بات سے بھی ڈر لگتا تھا کہ فاریہ بھی کہیں ایسی باتیں نہ کہہ دے۔ اسی اذیت اور پریشانی میں دن گزرتے جارہے تھے۔ فیض کا حجاب اٹھ چکا تھا۔ وہ اصرار کرنے لگے تھے کہ تم اگر میری دوست ہو تو فاریہ کو میری دلی کیفیت سے آگاہ کرو، پھر منع بھی کرتے کہ نہیں، اسے مت بتانا، ورنہ تمہارا نقصان ہو جائے گا اور میں نہیں چاہتا کہ تمہارا نقصان ہو۔ بار بار کہتے اس کو نظروں سے دور کرنا چاہتا ہوں ، مگر سوچتا ہوں کہ اگر ایسا کیا تو کہیں اس سے باہر نہ ملنے لگوں ، تب اور بھی برا ہو جائے گا۔ یہ کہہ کر مجھ سے معافیاں بھی مانگتے ، میرے پیروں کو ہاتھ لگاتے کہ بے بس کو معاف کر دو، دراصل میں ادھورا ہو گیا ہوں ۔ تم ہی کو سب سے زیادہ اپنا سمجھتا ہوں ، ورنہ تم سے دل کی بات کیوں کہتا۔ خدارا میرا راز افشا کر کے مجھے رسوا نہ کرنا۔

یوں وہ میری ذات کی توہین بھی کرتے اور معافیاں بھی طلب کرتے۔ میں پریشان ہو جاتی کہ کیا کروں؟ وہ اب خود سے بے گانہ ہو چلے تھے ، ان کو جنون جیسی کیفیت نے گھیر لیا تھا۔ ہر وقت کسی خیال میں کھوئے رہتے۔ اب کام پر ان کا دھیان نہ رہا تھا ۔ بھلا بیوی سے کوئی شوہر ایسی ہے باتیں کرتا ہے، مگر وہ کہتے ۔ عاشی! تمہاری دوست میرے دل کی دھڑکن کی طرح ہوتی جارہی ہے۔ میری رگوں میں تم دوڑتے ہوئے خون کی مانند اور وہ میرے وجود میں خوشبو کی طرح پھیل گئی ہے لیکن خدارا! اس کو مت بتانا، کیونکہ میں تمہیں بھی کھونا نہیں چاہتا، اپنا گھر برباد کرنا نہیں چاہتا۔ انسان کب تک ایسی باتیں برداشت کر سکتا ہے، خصوصاً بیوی، بس ایک روز تنگ آ کر میں نے خودکشی کی ٹھان لی ، تاکہ میں اپنے شوہر کے لیے راستہ صاف کر دوں ، مگر ایسا بھی نہ کر سکی۔  یہ چھٹی کا دن تھا۔ میں صبح صبح سو کر اٹھی ، فاریہ ابھی سو رہی تھی ، فیض بھی محو خواب تھے۔ شوہر کے نام ایک رقعہ لکھا کہ میں ماموں کے پاس گاؤں جا رہی ہوں ۔ آگے آپ جانیں اور فاریہ ۔ میں خود آپ کو موقع دے رہی ہوں ، تا کہ آپ فاریہ سے اظہار محبت کر لیں۔ اگر وہ بھی آپ کو قبول کرلے تو پھر میں آپ کی زندگی سے دور چلی جاؤں گی ۔ رقعہ میں نے کھانے کی میز پر رکھ دیا، کیونکہ دونوں اس میز پر کھانے بیٹھتے تھے۔ پہلے فاریہ اٹھی، اس  نے چائے بنائی اور ٹیبل پر آئی تو اس  نے یہ رقعہ پڑھ لیا۔ اس وقت فیض بھی آ گئے۔ اس نے رقعہ ان کو دے کر کہا کہ یہ کیا معاملہ  ہے؟ وہی ، جس کو دل کا معاملہ کہا جاتا ہے۔ فیض نے جواب دیا اور وہی معاملہ ہے جو تم نے رقعہ میں پڑھ لیا ہے۔ اب میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا یہ بات میں نے علیشہ کو بھی بتادی ہے۔ وہ بولی ۔ یہ ممکن نہیں ہے، کیونکہ میری سہیلی کا پہلا گھر بھی میری وجہ سے اجڑا ہے۔ میں نے شاہ رخ سے محبت کی اور اس نے مجھے تباہ کیا، ساتھ میں علیشہ بھی تباہ ہو گئی، پھر بھی اس نے مجھے پناہ دی۔ اب میں ہرگز اس کے گھر کو اجاڑنے کا سبب نہیں بنوں گی۔ میں چلی جاؤں گی۔ اگر تم کو مجھ سے اتنی ہی محبت ہے تو میری خاطر جا کر اپنی بیوی کو لے آؤ ۔ فاریہ نے قسمیں دے کر اسی دن فیض کو گاؤں روانہ کر دیا تا کہ وہ مجھے گھر لے آئیں ۔ جب فیض مجھے لے کر آئے ، تو فاریہ ہمارے گھر سے جا چکی تھی ، نہ جانے کہاں؟ باوجود تلاش  کے یہ آج تک معلوم نہ ہو سکا ۔

  میرا دل فیض کی وجہ سے ٹوٹا تو آئینے میں بال آ ہی گیا مگر فاریہ نے دوستی کی لاج نبھا دی، جیسے میں نے اس کے برے دنوں میں اپنے گھر پناہ دے کر اس سے دوستی کا رشتہ نبھا دیا تھا ، اس نے میرا احسان اتار دیا۔ مجھے پتا چل گیا کہ دوستی قابل اعتبار بھی ہوتی ہے لیکن میرا اعتماد پھر بھی دنیا سے اٹھ گیا ہے۔

Latest Posts

Related POSTS