ہمارے معاشرے میں بیشتر گھرانے ایسے ہیں جو بھو کے پیٹ رہ کر بھی سفید کپڑے پہنتے ہیں اور پیٹ کی خاطر کبھی عزت کا سودا نہیں کرتے۔ میرا تعلق بھی ایک ایسے ہی گھرانے سے تھا۔ ایک روز میں اپنے گھر کی چھت صاف کرنے گئی۔ گلی میں جھانکا تو نیچے ایک نوجوان کو دیکھا۔ وہ ہمارے گھر کے دروازے پر کھڑا تھا۔ حیران ہو گئی کہ یہ کون ہے ؟ نیچے آئی تو امی نے بتایا کہ ہمارے مکان کے پورشن میں نئے کرایے دار آرہے ہیں ، ان کا لڑ کا بتانے آیا تھا کہ کل صبح سامان آجائے گا۔ تم چل کر ادھر کی جھاڑ بو ہار کر لو۔ امی کی بات سن کر مجھے ایک انجانی سی خوشی محسوس ہوئی۔ اگلے دن وہ کرایے دار نہ آئے تو مجھے بے چینی سی محسوس ہونے لگی۔ دو پہر گزر گئے، تبھی سوچاہیں کیوں اتنی پریشان ہو رہی ہوں ؟ یہ کرایے دار نہیں آتے نہ آئیں، کوئی اور آجائیں گے۔ بھلا ان لوگوں سے میرا کیا تعلق ہے۔ ابھی یہ سوچ رہی تھی کہ امی نے آواز دی ۔ نئے کرایے دار آگئے تھے۔ وہ نوجوان، جس کو میں نے چھت سے دیکھا تھا، اپنی والدہ اور بہنوں کو لے آیا تھا۔ ان کا سامان ٹرک میں آرہا تھا۔ یہ لوگ ٹرک آنے تک ہمارے گھر بیٹھے رہے۔ اس دوران لڑکیوں سے میری خوب باتیں ہوئیں اور پہلے ہی دن ان سے دوستی ہو گئی۔ لڑکے کا نام اعظم تھا۔ اس کی والدہ بہت اچھی عادات کی مالک تھیں۔ ہر کسی سے خوش اخلاقی سے ملتی تھیں۔ یوں ہمارے ، ان سے اچھے تعلقات ہیں۔ یوں ہمارے ہو گئے اب میں کبھی کبھی ان کے گھر چلی جاتی تھی۔ ان کو آئے دو ماہ ہو چکے تھے، لیکن ابھی تک میری اعظم سے بات نہیں ہوئی تھی۔ کبھی کبھار آمنا سامنا ہو جاتا تھا ، وہ بلاضرورت گھر میں نہیں ٹھہرتا تھا۔ مہمان خواتین بیٹھی ہو تیں تو وہ گھر میں نہیں آتا تھا۔ وقت گزرتے دیر نہیں لگتی، پلک جھپکتے چار برس بیت گئے۔ میرے دل میں ایک کسک سی جاگتی تھی، کاش کبھی اعظم مجھ سے بات کرے۔ میرا نام ہی پوچھ لے مگر وہ تو اس قدر محتاط تھا جیسے میں مالک مکان کی بیٹی نہیں، کسی اور جہان کی مخلوق تھی۔ خیر ، کبھی کبھی دل کی مراد بر آتی ہے۔ یہ اللہ کے کرم سے ہوتا ہے۔ اعظم کی ماں مجھ کو پرکھ رہی تھیں۔
میں نہیں جانتی تھی کہ ان کے دل میں کیا ہے، لیکن ایک روز جب انہوں نے اس کے لئے میرا ہاتھ مانگا تو پتا چل گیا کہ وہ مجھ کو پسند کرتی ہیں، البتہ یہ علم نہ تھا کہ اعظم کے دل میں میرے لئے کیسے جذبات ہیں ؟ وہ بھی مجھ کو پسند کرتا ہے یا نہیں۔ امی نے اعظم کو اچھی طرح پر کھا۔ وہ گریجویٹ تھا اور اب کمپیوٹر کا کورس کر رہا تھا۔ میرے والدین نے کچھ سوچ بچار کے بعد اس رشتے کو منظور کر لیا اور بات پکی ہو گئی۔ میں ان دنوں بہت خوش تھی۔ زندگی کی انمول چیز پسند کے ساتھی کا ملنا تھا ، وہ مجھے حاصل ہو گیا تھا۔ بے شک میں نے ابھی تک اس سے بات نہ کی تھی، لیکن چپکے چپکے اس کو چاہتی تو تھی۔ چاہت کے اظہار سے پہلے اور رسوائی کا موڑ آنے سے قبل اللہ تعالی نے گوہر مراد سے میر ادا من بھر دیا تھا۔ کیا کبھی لڑکی نے ایسا سوچا ہو گا کہ جو صورت خیالوں میں ہو ، وہی جیون ساتھی بن جائے بغیر کسی رکاوٹ کے ؟ مجھ سے زیادہ خوش نصیب اور کون ہو گا، لیکن یہ میری بھول تھی۔ قدرت نے میرے ساتھ ایک ہلکا پھل کا مذاق کیا تھا۔ خوشی دے کر چھین لی۔ میں نے ان چار سالوں میں اپنی زندگی جس کے خیال میں گزاری، اچانک اُسے بہت اچھی نوکری مل گئی ۔ ایسی نوکری جو قسمت والوں کو ملتی ہے۔ اعظم کے والد نے ایک پلاٹ خریدا تھا، جو پہلے کم آبادی والی جگہ پر تھا۔ آبادی تیزی سے بڑھی تو پلاٹ کی قیمت بھی چوگنی ہو گئی۔ انہوں نے اس کو فروخت کر کے ہمارے برابر والا گھر خرید لیا جو عرصے سے برائے فروخت تھا۔ یوں یہ لوگ ہمارا امکان چھوڑ کر اپنے خریدے ہوئے ۔ کے مکان میں منتقل ہو گئے۔ اعظم کی امی نے میری ماں سے کہا۔ بہن تمہاری بیٹی کتنی خوش قسمت ہے کہ میرے بیٹے کے نام سے منسوب ہوتے ہی پہلے اعظم کی اچھی نوکری ہو گئی پھر ہمیں اللہ نے اپنا اتنا شاندار بنا بنا یا گھر بھی دے دیا۔ ہم تو ایسا سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ اُس پر آشوب دور میں کہ جہاں معمولی نوکری کے لئے بھی رشوت کا دور دورہ ہے ، میرا بیٹا افسر لگ جائے گا۔ بے شک تیری بیٹی قسمت کی دھنی ہے۔ یہ باتیں سن میں دل ہی دل میں بہت خوش تھی۔ پھولی نہ سماتی تھی ، مگر خوشیوں کے یہ لمحات عارضی تھے۔ جو نبی اعظم بر سر روزگار ہوا اس کے خیالات بدل گئے۔ وہ کسی اور لڑکی پر فریفتہ ہو گیا جو اس کے دفتر میں کام کرتی تھی۔
اُس نے اپنی ماں سے کہہ دیا کہ وہ شادی اپنی پسند اور مرضی سے کرے گا، لہٰذا عروج سے میری بات ختم کر دی جائے۔ ان دنوں ہماری منگنی کی تیاری ہو رہی تھی کہ اس کی والدہ نے امی کو مژدہ سنایا کہ بہن، بات ختم سمجھو۔ میرا بیٹا آپ کی بیٹی سے شادی سے انکار کر رہا ہے۔ ہم نے اُسے بہت سمجھایا ہے وہ ہماری بات نہیں مانتا۔ امی کو دکھ تو ہوا، لیکن لڑکی کی ماں خاموشی اختیار کرنے کے سوا اور کیا کر سکتی تھی۔ وہ شکر کر رہی تھیں کہ اس معاملے کا خاندان میں چرچانہ ہوا ، ورنہ مفت کی بدنامی گلے پڑ جاتی۔ ایسے میں لڑکے کا تو کچھ نہیں بگڑتا، لڑکی کا بہت کچھ کھو جاتا ہے۔ امی صدمے میں تھیں، ابو بھی چپ سے ہو گئے ، مگر میرے دل پر جیسے ریل گاڑی گزر گئی ہو۔ میں تو ریزہ ریزہ ہو رہی تھی ، دیدہ و دل سبھی زخمی تھے۔ سانس بھی لیتی تو دکھ سے رُوح کھینچتی می چھیچتی محسوس ہوتی۔ میں نے کبھی اعظم سے بات نہ کی تھی، کبھی اُس کے سامنے نہ بیٹھی تھی، پھر بھی وہ میرے خیالوں میں بسا ہوا تھا۔ اب میرا یہ حال تھا کہ جی کرتا آئندہ زندگی اسی کے نام پر گزار دوں۔ ہر وقت اس کی یاد میں روتی رہتی۔ بھی سوچتی کہ اس کو بھول جائوں مگر کوشش کے باوجود اسے بھلا نہیں پاتی تھی۔ جب سے ان لوگوں نے اپنا ذاتی گھر خریدا تھا، کافی بدل گئے تھے۔ اعظم کی بہنیں بھی بہت کم ہمارے گھر آتی تھیں۔ دن گزرتے گئے ان لوگوں کو اپنے نئے گھر میں شفٹ ہوئے دو سال گزر گئے۔ ایک روزا عظم مجھے رستے میں مل گیا۔ میں نے اُسے پورے دو سال بعد دیکھا تھا۔ اسے احساس تک نہ تھا کہ اُس کے پڑوس میں عروج نامی کوئی لڑکی بھی ہے، جس نے اُسے بن جانے شدت سے چاہا تھا۔ میں نے بھی اُسے نہیں بتایا تھا کہ میں اُسے چاہتی ہوں۔ وہ میرا احساس کیوں کرتا؟ میں نے کون سا اسے وعدوں میں باندھ رکھا تھا۔ میں سوکھ کر کانٹا ہو گئی تھی۔ اُس روز مجھے بخار تھا اور ملازمہ کے ساتھ دوا لینے جارہی تھی۔ اُس نے مجھے پہچانا اور پوچھا۔ کیا بات ہے کیوں کلینک جارہی ہو ؟ وہ مجھے کلینک کے پاس ہی ملا تھا۔ میں چپ رہی تو ملازمہ نے جواب دیا۔ ان کو بخار ہے ، دوا لینے جارہی ہیں۔ آیئے میرے ساتھ ، وہ ہمدردانہ لہجے میں گویا ہوا۔ وہ آگے آگے چلنے لگا اور میں سحر زدہ ہرنی کی طرح اس کے پیچھے چلنے لگی۔ اُس نے ڈاکٹر صاحب سے بات کی، جو اس کا واقف تھا۔ ڈاکٹر نے فوراً مجھے دیکھا، نسخہ لکھا، دوادی۔اعظم نے دوالے کر میرے ہاتھ میں تھمادی۔ میں اُس کا شکریہ بھی ادا نہ کر سکی اور وہ چلا گیا۔
جس کو اتنے دنوں سے بھول جانے کی کوشش میں روز خود سے لڑتی رہتی تھی ، وہ پھر ایک تازہ جھلک دکھا گیا تھا۔ اب اُسے بھولنا مشکل تھا۔ روزارادہ باندھتی کہ کسی کی خاطر یوں ہلکان ہونے کی کیا تک ہے اور وہ بھی ایسی ہستی کے لئے جس کو ہمارا احساس ہی نہ ہو ، ہمارے ہونے یا نہ ہونے کی خبر تک نہ ہو۔ میں ہر روز خود کو وعدوں کا پابند کرتی مگر اس کے باوجود جب بھی کوئی خوبصورت چیز میرے سامنے آتی، بے اختیار اس کو یاد کرنے لگتی۔ آنکھوں میں آنسو آ جاتے اور میں رونے لگتی، یہ تک پتا نہ ہوتا کہ کون میرے سامنے سے گزرا ہے ، اور کون سامنے بیٹھا ہے۔ میں ہر بات کو بھول گئی تھی مگر وہ چہرہ یاد تھا۔ اُس چہرے کے سب رنگ یاد تھے اور شاید اس کو بھلانا میرے اختیار میں نہ تھا۔ ایک روز عید کے دن اس کی بہنیں ہمارے گھر آئیں۔ میں نے اُن سے بہت سی باتیں کیں۔ جب وہ جانے لگیں تو مجھ سے کہا۔ کل تم ہمارے گھر آنا، ہم لوگ تمہارا انتظار کریں گے۔ عید کے دوسرے دن شام کو میری بہن، میری سہیلی فرحت اور میں اُن کے گھر پہنچے۔ اعظم گھر پر موجود نہ تھا۔ وہ کافی دیر بعد گھر آیا۔ ہم دوسرے کمرے میں بیٹھے تھے ، اچانک وہ کسی کام سے کمرے میں آیا مگر میری نظریں ہی نہ اُٹھ سکیں اور اس بے نیاز نے بھی میری طرف نہ دیکھا۔ جب وہ جانے کے لئے مڑا تو میں نے اس کا چہرہ دیکھا، لیکن صحیح طرح نہ دیکھ سکی۔ سوچنے لگی، کتنی بد نصیب ہوں کہ اُس کے گھر آکر بھی اسے اچھی طرح نہ دیکھ پائی اور وہ چلا بھی گیا۔ اس روز میں تمام وقت کھوئی کھوئی رہی تھی۔ انہی دنوں میرے لئے ایک بہت اچھار شتہ آیا۔ سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ اس رشتے کو منظور کروں یا اپنی زندگی اُس کی یادوں کے سہارے گزار دوں، لیکن زندگی کا طویل سفر کوئی لڑکی تنہا کیسے گزار سکتی ہے ، اس لئے میں نے چھ سال اُس کے انتظار میں کھو دینے کے بعد بالآخر اس رشتے کو قبول کر لیا، لیکن میرادل اب بھی اُس بے وفا کی یاد میں تڑپتا رہتا تھا۔ میری بھی کیا قسمت کہ جس کے لئے اتنے روحانی کرب سے گزری وہ ملا بھی تو جب میں کسی اور کے نام سے منسوب ہو چکی تھی۔ اُس نے میری چاہ اس وقت کی جب میرے والدین کسی دوسرے شریف گھرانے کو زبان دے چکے تھے اور میں ایک بار پھر تڑپ کر رہ گئی۔
جن دنوں میری منگنی منگنی حم حمزہ سے ہونے والی تھی، اچانک اعظم مجھے بازار میں مل گیا۔ میں اپنادو پٹہ پٹہ رنگ رنگریز کو دینے گئی تھی۔ اس سانے مجھے آواز دی۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو بس دیکھے دیکھتی رہ گئی۔ اُس نے کہا۔ مجھے تم سے ایک بات کرنی ہے، ادھر آئو۔ وہ مجھے ایک طرف لے گیا قریب ریسٹورنٹ تھا۔ اس نے کہا۔ یہاں چائے پیتے ہیں اور تم سے دو چار ضروری باتیں بھی کرنا کرنا ہیں۔ ہیں۔ بہت بہت دنوں دنا سے سوچ رہا تھا کہ کیسے بات کروں ؟ آج موقع ح ملا ملا ہے۔ ہے۔ میں میں دم بخود بھی ، جیسے کسی نے مجھ پر جادو کر دیا ہو۔ زبان گنگ ہو گئی۔ آنکھیں اُس کی طرف دیکھنے کی جرات نہ کر پارہی تھیں۔ ہم دونوں ریسٹورنٹ کے کونے میں پڑی میز کے گرد جا کر بیٹھ گئے ، جہاں تنہائی اور نسبتا روشنی کم تھی اور آس پاس لوگ بھی نہ تھے۔ ہلکا ہلکا میوزک بج رہا تھا، رنگین روشنی مدھم سُروں میں اپنا سحر پھیلائے ہوئے تھی۔ میں اس ماحول میں پہلی بار آئی تھی۔ اُس نے کہا۔ عروج میری بہنوں نے مجھے بتادیا ہے کہ تم شروع دن سے چپکے چپکے مجھے چاہے جارہی تھیں۔ میری ماں کی بھی یہی خواہش تھی کہ میں تم سے ہی شادی کروں، اس وقت نادانی میں، میں نے ماں کی آرزو کو ٹھکرادیا۔ مجھ حکرادیا۔ مجھ سے بڑی غلطی ہوئی۔ ایک اور لڑکی کو شریک حیات بنانا چاہا تھا لیکن وہ دولت کی پجاری تھی، میرے قابل نہ تھی۔ میں چاہتا تھا کہ تم سے معافی مانگوں۔ عروج مجھے معاف کر دو، مجھ سے بھول ہو گئی ہے کہ تم جیسی اچھی لڑکی کو ٹھکرا کر میں کنکر کے پیچھے ہو لیا تھا۔ اب میں تمہیں اپنانا چاہتا ہوں۔ کل امی تمہارے گھر دوبارہ رشتے کے لئے آئیں گی، تمہارے والدین سے معذرت کریں گی تم انکار مت کرنا۔ مجھے میری بھول کی سزا مت دینا۔ وہ کہہ رہا تھا اور میں سُن رہی تھی، وہ بات جس کو سننے کو میرے کان ترستے تھے مگر کہی بھی تو کسی موڑ پر اب کہتی بھی تو کیا ؟ کہ جس کو پانے کے لئے خدا کے حضور دعائیں کیں ، جس کو بُھلانے کے لئے خود سے لڑی ، دل سے منتیں کیں مگر اس کو نہ پاسکی، نہ بھلا سکی اور اب کتنی مجبور تھی۔ اسے یہ بھی نہ کہہ سکی میری اس سوموار کو منگنی ہونے ے شخص سے کہ جس کو میں انے ۔ دیکھا تک نہیں۔ میری خاموشی سے اُس نے جانا میں نے اُسے معاف کر دیا ہے۔ اس کی منت سماجت قبول کر لی ہے اور میری آنکھوں میں چمکتے آنسو شاید خوشی ہونے والی ہے ، ایک ایسے کے ہیں۔
جب اس کی امی اگلے روز آئیں اور دوبارہ رشتے کی بات کی تو امی کا موڈ آف ہو گیا۔ انہوں نے کہا۔ بہن یہ کوئی گڑے گڑیا کا کھیل نہیں ہے۔ آج ہاں کر دی، کل نہ کر دی، پھر جی میں آیا تو دوبارہ تعلق جوڑنے بیٹھ گئے۔ یہ بیٹی کا معاملہ ہے۔ ہماری بیٹی کا رشتہ ایک شریف گھرانے میں طے ہو گیا ہے اور اب ہم ان کو منع نہیں کر سکتے ۔ آنٹی کو ایسے جواب کی توقع نہ تھی۔ وہ بڑی امید لے کر آئی تھیں، منہ لٹکا کر چلی گئیں۔ میری منگنی حمزہ سے ہو گئی اور ایک ماہ بعد شادی ہو گئی۔ میں ایک متوسط گھرانے کی مشرقی لڑکی تھی۔ منہ پر تالے لگا کر پیدا ہوئی تھی۔ رخصتی کے وقت اتنار وئی، اتناروئی جیسے کسی کا کوئی بہت پیار امر جاتا ہے تو وہ بلک بلک کر روتا ہے۔ حمزہ ایک اچھے انسان ہیں۔ انہوں نے مجھے کبھی کوئی دُکھ نہیں دیا، لیکن ایک خلش رہتی ہے۔ اے کاش! اعظم میری منگنی سے چند دن پہلے اپنا مدعا مجھ سے نہ کہتا تو آج بغیر اس خلش کے زندگی بسر ہوتی، جسے دل کا داغ کہتے ہیں۔ سُنا تھا کہ میری شادی والے دن اعظم بہت اداس تھا۔ دوست اُسے گھمانے پھرانے لے گئے تھے۔ پہلے جو میرا حال تھا ، اب وہی اُس کا حال ہے۔ اُس کی بہنیں باتوں باتوں میں اس کا احوال سنا جاتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ نہ جانے اب کون کرے گا اس کی مسیحائی ؟ تب میں سوچتی ہوں کہ جب وہ خود مسیحا تھے ، تب کیوں نہ کی مسیحائی۔ اب ایسے بیمار کی دوا کون کرے، جو خود اچھا نہ ہو نا چا ہے۔ حمزہ کو میرے امی ابو ، بہن بھائی اچھے لگتے ہیں۔ وہ ان سے مل کر خوش ہوتے ہیں۔ مجھ سے زیادہ میرے میکے کی طرف دوڑتے ہیں۔ ناچار مجھے جانا پڑتا ہے دوا کرتی ہوں اعظم میری گلی میں موجود نہ ہو -وہ نہ خدا کبھی نہ کبھی تو دعاقبول ہے وہ مجھے کبھی نظر نہ آئے، خدا کرے میں اسے کبھی دکھائی نہ پڑوں۔ کبھی تو یہ دعا قبول ہو جاتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی۔ تب میں مجرم کی سمٹی ہوئی سی آنکھیں نیچے کئے ، اپنے شوہر کی گاڑی سے اتر کر اس کی طرف دیکھے بنا ہی امی کے گھر میں بھس جاتی ہوں۔ اس سے پہلے کہ میرے شوہر کو ہماری ولی کیفیات کا اندازہ ہو ، کیونکہ وہ مجھے بہت چاہتے ہیں -میری ہر خواہش کا خیال رکھتے ہیں۔ میں کبھی نہ چاہوں گی کہ ان کو میری طرف سے کوئی تکلیف ہو۔ میری روحانی بر بادی میں بھلا میرے شوہر کا کیا قصور …