Monday, March 17, 2025

Doulat Nay Barbaad Kiya | دولت نے برباد کیا

میرے ابّو ریلوے میں ملازم تھے۔ اچانک زندگی کی گاڑی کو دھچکا لگا۔ وہ اپنی ڈیوٹی دیتے ہوۓ ریلوے کے ایک حادثے میں ہم سے بچھڑ گئے ۔ ان دنوں بھائی گریجویشن مکمل کر چکے تھے اور میں آٹھویں میں تھی۔ اب زندگی کی گاڑی کو نئے سرے سے چلانا تھا،گھر کی باگ ڈور بھائی جان کے ہاتھ میں آگئی تھی۔ انہوں نے ہمت کی جو رقم والد صاحب کی محکمہ ریلوے کی طرف سے ملی، ایک دوست کے ذریعے ویزا خریدا اور دبئی چلے گئے۔ کہتے ہیں سفر وسیلہ ظفر … بھائی جان کو بھی یہ نقل مکانی راس آ گئی۔ وہاں ایک کمپنی میں انہیں اچھی ملازمت مل گئی۔ دو سال وہ د بئی میں رہ کر کماتے رہے اور روپیہ جوڑتے رہے۔ ہم کو بھی خرچہ کے لئے رقم بھجواتے تھے۔ پھر بھی انہوں نے خاصی رقم جوڑ لی۔ ادھر امی بھی کفایت شعاری سے خرچ کرتی تھیں۔ کچھ عرصہ بعد اتنی رقم جمع ہو گئی کہ دبئی سے آتے ہی بھائی نے ایک نئی کالونی میں پلاٹ خرید لیا۔ اس پر ایک خوبصورت سا بنگلہ بنانا ان کا مقصد حیات بن گیا۔ وہ دوبارہ د بئی چلے گئے۔ اس بار اور اچھی نوکری ملی اور وہاں خواب کمایا، جو کماتے والدہ کو بھجواتے تھے ، وہ بینک میں جمع کرتی جاتی تھیں۔ سلمان بھائی دو سال بعد لوٹے اور آتے ہی انہوں نے پلاٹ پرکوٹھی کی تعمیر شروع کرادی۔ ان کی چھٹی ڈیڑھ ماہ تھی۔ جاتے ہوۓ مکان کی تعمیر کا کام خالہ زاد بھائی راحت کے سپرد کر گئے۔ اب سلمان بھائی کے قدم دبئی میں جم چکے تھے اور اچھے لوگوں سے واقفیت بن گئی تھی۔ محنتی اور ایمان دار تھے ۔ یہی دولت ان کے دامن میں تھی جس کا ثمر ملنے کا وقت آگیا تھا۔ انہوں نے دبئی کے ایک مالدار آدمی کے ساتھ کاروبار شروع کر دیا۔ رسوخ اس کا تھا اور محنت بھائی سلمان کی ، خوب سرمایہ کمایا۔ کار و بار دن رات ترقی کرنے لگا۔ بس پھر کیا تھا، سلمان بھائی اپنے ذاتی کاروبار کی وجہ سے پہچانے جانے لگے ۔ اب ہمیں سب کچھ حاصل تھا دولت ، عزت، سکھ چین البتہ امی جان کو ہمیں بیاہنے کی فکر تھی۔ وہ پہلے بھائی جان کا گھر بسانا چاہتی تھیں۔ ان کے لئے لڑ کی موجود تھی۔ ان کو بہو کی تلاش میں کہیں بھٹکنے کی ضرورت نہیں تھی۔ صبیحہ میری خالہ کی بیٹی تھی۔ سلمان بھائی کی منگنی امی نے ان کے بچپن ہی میں صبیحہ کے ساتھ کر دی تھی اور اب وقت آگیا تھا کہ بھانجی کے ساتھ بیٹے کی شادی کر کے وہ خوشیاں گھر میں سمیٹ لا تیں۔ اس بار بھائی دبئی سے آئے تو امی نے ذکر چھیٹر دیا۔ سلمان میں تیرا گھر بسانا چاہتی ہوں۔ ماں جیسی آپ کی مرضی۔ میں آپ کی رضا میں راضی ہوں۔ سلمان بھائی نے جواب دیا۔ میں اور بھائی یہ سمجھ رہے تھے کہ ماں صبیحہ کو بیاہ کر لانا چاہتی ہیں ،لیکن جب انہوں نے ملنے جلنے والی عورتوں سے کسی اچھی لڑکی کو دکھانے کا تذکرہ شروع کر دیا تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ صبیحہ سلیقہ شعار خو بصورت پڑھی لکھی لڑ کی تھی۔ بھائی کی بچپن سے منگیتر ،امی کی سگی بھانجھی ، ہم اس سے اور وہ ہم سے محبت کرتی تھی تو کیاوجہ کہ میری ماں اس کے ہوتے کسی اور لڑ کی کارشتہ تلاش کر رہی تھیں ؟ صبیحہ اور خالہ کا دل توڑ دینا مذاق تو نہیں تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میری ماں کو کیا ہو گیا ہے۔ وہ ان دنوں کیسی باتیں کرنے لگی ہیں۔ سلمان کی بات تو یہ تھی کہ ماں نے کبھی خالہ اور صبیحہ پر یہ ظاہر نہ ہونے دیا کہ وہ اپنا ارادہ بدل چکی ہیں۔ وہ خالہ کے گھر پہلے کی طرح آتی جاتیں اور پہلے کی طرح ملتی جلتی تھیں۔ صبیحہ سے اسی طرح محبت جتلاتی تھیں جیسے پہلے جتلاتی تھیں۔ خالہ زاد بھائی راحت سے کوٹھی بنوائی۔ وہ اپنا کام چھوڑ کر ہمارے کام کی نگرانی میں دن رات ایک کرتے رہے اور بھی سو طرح کے مسئلے تھے ہمارے ، جو وہ بلا تکلف راحت سے حل کراتی تھیں۔ اور وہ بھی خالہ ، چی خالہ کہتے ہوئے دوڑ دوڑ کر ان کے مسئلے مسائل حل کر آتے تھے۔ یہ گویا راحت کی ڈیوٹی تھی کہ روز آکر پوچھتے ، خالہ جی کوئی کام تو نہیں۔ امی روز ہی ان کو کوئی نہ کوئی کام بتادیتی تھیں جیسے وہ ہمارے ملازم ہوں۔ کیا آپ صبیحہ کو بہو بنانے کا ارادہ نہیں رکھتیں اور کیا آپ نے خالہ کو یہ بات بتلادی ہے ؟ ایک روز سلمان بھائی نے امی سے پوچھ ہی لیا۔ بے وقوف ہو تم۔ابھی سے بتادوں تا کہ وہ ہم سے دور ہو جائیں۔ ابھی تو مجھے راحت سے سو کام پڑنے ہیں کہہ دوں گی تو یہ لوگ ہمارے گھر کی دہلیز بھی پار نہیں کریں گے ۔ ہم اکیلے ہیں ، ہم کو رشتہ داروں کا آسرا بھی تو چاہیے ۔ ماں … یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ؟ بھائی ہکا بکا رہ گئے تھے۔ اف میرے خدا اس روز تو مجھے امی جان کی خود غرضی پر بے حد رونا آیا۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ یہ ایسی لالچی ہو چکی ہیں۔ اپنے فائدوں کے لئے ان غریبوں کو کب سے فریب دے رہی تھیں۔ جی چاہا کہ آج ہی جا کر خالہ سے تمام صورت حال واضح کر دوں مگر میں امی سے ڈرتی تھی تھی یہ امر میرے بس میں نہ تھا۔ سارا زمانہ گھومنے کے بعد ماں کو ایک لڑکی پسند آ ہی گئی۔ بھائی اور میرے منع کرنے کے باوجود انہوں نے بات پکی کر دی۔ وہ چاہتی تھیں کہ ان کی بہوامیر گھرانے کی ہو اور اس کے گھر والے صاحب حیثیت لوگ ہوں ، سوان کو ایک ایسی لڑکی پسند آئی کہ جس کی عمرا گرچہ زیادہ تھی لیکن اس کے والد اور بھائی صاحب حیثیت اور اچھے عہدوں پر تھے۔ یہ امیر لوگ تھے۔ خوب سارا جہیز ملنے کی بھی توقع تھی۔ اگر چہ ہمارا گھر پہلے سے فرنیچر سے آراستہ تھا مگر ماں کی آرزوئوں کا کیا کہنا۔ بھائی سلمان ماں کی آرزو کو مٹی میں نہ ملا سکے ۔ ان کا جوش اور جنون و کچھ کر خاموش ہور ہے۔ لڑکی کا نام حنا تھا۔ گوری چٹی ، صحت مند ، قد کاٹھ بھی اچھا تھا جبکہ اس کے مقابلے میں صبیحہ دبلی پتلی ،دھان پان کی تھی۔ دو تین بار وہ لوگ ہمارے گھر آئے ۔ ماں نے خوب خاطر تواضع کی۔ رشتہ طے ہو گیا تو امی نے سارے محلے میں مٹھائی تقسیم کی ۔ ایک ڈ باخالہ کے گھر بھی بھجوایا، ڈرائیور سے کہا۔ کہہ دینا کہ خوشی کی مٹھائی ہے۔ سلمان میاں کی منگنی کی ہے۔ خالہ نے دروازہ کھولا۔ ڈرائیور نے ان کو باد یا او بتایا کہ سلمان میاں کی منگنی کے لڈو ہیں۔ اخالہ کے ہاتھ سے ڈ بہ زمین پر گر گیا۔ وہ دروازے کو تھام کر بیٹھ گئیں۔ ڈرائیور نے آکر ماں کو بتا یا تو وہ بس مسکرا کر رہ گئیں۔ مجھے خبر نہ تھی کہ میری ماں اتنی اذیت پسند ہوں گی ۔ اذیت بھی کس کو دی اپنی سگی بہن کو، بھا نجی اور بھانجے کو، یہ وہ لوگ تھے جو ان پر جان نچھاور کرتے تھے۔ غریب تھے مگر ہم لوگوں سے سچی محبت کرتے تھے۔ خالہ آسیہ بڑی تھیں اورامی چھوٹی لیکن انہوں نے چھوٹی بہن کو بڑار شتہ دے رکھا تھا۔ ماں ہمیشہ ان پر حکمرانی کرتی آئی تھیں۔ خالہ جب آئیں ،امی کے سر میں تیل ڈالتیں اور ان کے کنگھا کر تھیں، چوٹی بنائیں ، میری ماں پلنگ پر بیٹھے کر کہتیں ۔ آ پا را پانی تو پلا ناتب خالہ بیچاری دوڑ کر باورچی خانے جاتی۔ تبھی میں سوچتی تھی کہ ماں کو یہ رتبہ دولت
نے دیا ہے کہ خالہ کی محبت نے ؟ بھائی جان کی شادی کے کارڈچھپ گئے ۔ خالہ جان کو امی خود کار ڈ دینے گئیں۔ میں ساتھ تھی۔امی نے کہا تھا۔ آسیہ آپا ! اگر شادی میں نہ آئیں تو ہمیشہ کے لئے بہن کارشتہ ختم کر دوں گی۔ صبیحہ کو بھی ضر ور لا ناور نہ علیہ اپنے بھائی کے لئے مہندی نہ کھولے گی۔ خالہ آسیہ جیسی اعلی ظرف عور تیں میں نے شاید ہی کہیں دیکھی ہوں۔ ایک حرف بھی شکایت کالبوں پر نہ لائیں۔ کہنے لگیں۔ فار یہ فکر نہ کرو میں سلمان بیٹے کی شادی پر ضرور آئوں گی ۔ تاہم اس وقت صبیحہ کا چہرہ ایسا تھا جیسے بت کے چہرے ہوتے ہیں۔ جن کے نقوش خوبصورت ہوتے ہیں مگر ان میں روح نہیں ہوتی۔ اس کے دل کی جو حالت تھی، وہ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔ مجھ میں ہمت نہ تھی کہ صبیحہ سے کوئی بات کروں۔ لگتا تھا گر میں نے ہمدردی کی ایک نظر بھی اس پر ڈالی تو دوز مین پر ڈھے جاۓ گی۔ کچھ کہے بنا میں امی کے ساتھ خالہ کے گھر سے چلی آئی۔ وہاں توان کے آنسو نہ ر کتے تھے جن کو میری والدہ نے برسوں سے دھوکے میں رکھا ہوا تھا۔ سلمان بھائی کی خیر سے شادی ہو گئی۔ خالہ صبیحہ اور راحت اپنا سا منہ لے کر چلے گئے اور حنا ہمارے گھر کی عزت بن کر آگئی۔ صبیحہجو بھی تھی اب مگر حنا میری بھابھی تھی۔ میرے اکلوتے بھائی کے سر پر سہرا بندھا تھا اور ووڈ لہن بنی ہوئی تھی ۔ مجھے اس سے بھی پیار کرنا تھا۔ ماں خود اسے دلہن بنا کر لائی تھیں۔ اس میں ،اس لڑکی کا تو کوئی قصور نہ تھا۔ مجھ کو اس کا د لار تو کر نا ہی تھا۔ ۔ رتبہ تھا اس کا گھر میں ، وہ میری بڑی بھاوج تھی اور میں اس سے چھوٹی تھی۔ بھائی سلمان کا بھی خیال تھا مجھ کو ، اب یہ ہوا کہ وہ مجھ پر حکم چلانے لگیں مگر میں ان پر واری صدقے ، قربان ہو جانے لگی۔ بھائی پیارے ہوتے ہیں تبھی تو بھا بھیاں پیاری ہوتی ہیں۔اگر وہ عزت پاتی ہیں، اچھی لگتی ہیں تو اپنے بھائیوں کی وجہ سے ۔ اس پر اگر وہ ہم سے حسن سلوک سے رہیں تو یہ بڑی خوش قسمتی کی بات ہوتی ہے نندوں کے لئے۔
حنا کے معاملے میں ایسا نہ ہو سکا۔ وہ بالکل غیر خاندان سے تھی۔ اس کو اپنے والد ین اور بھائیوں کی دولت کا غرور تھا۔ بھالی ہمارے بھائی کے ساتھ تو بہت خوش تھی مگر ہم انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے۔ میں جتنی ان سے محبت کرتی وہ اتنی ہی مجھ سے کھنچتیں۔ امی کو تو حنا نے ایک تنکے جتنی اہمیت نہ دی بھائی تین ماہ گھر پر رو کر واپس دبئی چلے گئے۔ ان کو اپنے کاروبار کی فکر تھی۔ میں کالج جانے لگی کہ اب امی اکیلی نہ تھیں۔ گھر میں بہو بھی تھی ، یہ میری خام خیالی تھی۔ بھابی کو کب امی کے پاس رہنا گوارہ تھا۔ ان کا جب بھی چاہتا میکے چلی جاتیں ، جب بھی چاہتالوٹ آتیں۔ بھائی امی سے پو چھتی تک نہ تھیں کہ میکے جار ہی ہوں اور اتنے دن بعد لوٹوں گی۔ وہ ہم سے دلی طور پر کوسوں دور تھیں۔
پہلے ہر ماہ بھائی رقم امی کے نام بھجواتے تھے۔ جانے کیا ہوا کہ وہ روپے اپنی بیوی کے نام بھجوانے لگے ۔ ہمارا کوئی اور تو کمانے والا نہ تھا۔ امی جان نے سارار پیسہ جو جمع کیا تھا، بھائی کی شادی میں خرچ کر دیا تھا۔ اب ان کا ہاتھ تنگ رہنے لگا۔ بھابھی رقم اپنے بینک اکائونٹ میں جمع کرادیتی۔ امی سے کہتیں کہ خود اپنے گھر کا خرچہ وہاں سے چلائو جو تم نے
بیٹے کی کمائی ماضی میں جمع کی ہے۔ جھگڑے کے ڈر سے کچھ دنوں تک تو امی خرچہ جوں توں چلاتی رہیں مگر ان کے پاس جب پیسے بالکل ختم ہو گئے تو انہوں نے ہاتھ اوپر کر دیئے ، بس پھر کیا تھا بھائی اور بھابی میں لڑائی ہو گئی۔اس کے بعد یہ تو تو ، میں میں روز کا معمول بن گئی۔ گھر کا سکون برباد ہو گیا۔ جیسے کسی کی نظر لگ گئی ہو۔ وہ جو ہمارا خوشیوں کا پچپن تھا، وہاں بے سکونی نے ڈیرہ جما لیا۔ جب کالج سے تھکی آتی نظام درہم بر ہم ملتا۔ سب کچھ ہوتے ہوۓ بھی گھر میں کچھ نہ رہا۔ اب امی کو بڑی بہن یاد آئی۔ جب پر یشان ہو تیں ، آسیہ آپا کے گھر کے سوا نہیں کوئی اور گھر نہ سوجھتا۔ وہ تسلی دیتیں، محبت سے پیش آئیں۔ کہتیں ، فاریہ بیٹے کو خط میں سب احوال لکھ بھیجوتا کہ وہ گھر کے اخراجات کو تمہیں علیحدہ رقم بھیجوایا کرے۔ ان دنوں موبائل فون کا رواج نہ تھا، خطوط کا سسٹم رائج تھا۔ امی جواب دیتیں آپا کیو نکر اسے لکھوں جبکہ سلمان جاتے ہوئے کہہ گیا تھا۔ اماں تم نے صاحب حیثیت لوگوں سے رشتہ جوڑا ہے ،اب ان سے بگاڑنا نہیں ورنہ یہ اپنی سی کر گزریں گے اور جو بھی حالات ہوں خود فراست سے کام لینا اور مجھ کو ساس بہو والے جھگڑے سے دور رکھنا ورنہ میں کار و بار چھوڑ کر ادھر الجھ گیا تو بہت نقصان ہو جائے گا۔ اب میری ماں ادھر سے بھی چپ سادھنے پر مجبور تھیں کہ سب ان کا ہی کا کیا دہرا تھا۔ ان دنوں میں کتنی پریشان رہتی تھی کیا بتائوں ؟ جی چاہتا تھا کوئی تو ایسا ہو کہ جس کے کندھے پر سر رکھ کر خوب روکوں۔ ان دنوں مجھ کو کسی اپنے کی بہت ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ تبھی ایک لڑکا میری زندگی میں آیا جس نے میری پریشان حالی کو نوٹ کیا۔ وہ میرا کلاس فیلو عباس تھا۔ حالات سے تنگ آکر امی جان نے لوگوں کے کپڑے سینے شروع کر دیے تا کہ میرے کالج کے اخراجات پورے کرسکیں۔ امی کو سلائی آتی تھی، خدا کا شکر ان کی محنت سے ہم ماں بیٹی کا خرچہ چل نکلا۔ بھائی ہمارا پکا ہوا کھانا نہیں کھاتی تھیں ، ز یادہ تر باہر سے کھا تھیں یاں میکے جا کر رہنے لگتیں، ہوٹل سے پکا پکا یا منگوالیتیں۔انہوں نے ہم سے کوئی تعلق ہی نہ رکھا، سواۓ اس کے کہ ہم سب ایک ہی گھر میں رہتے تھے ۔ میں پر یشان ہو کر تمام حالات عباس کو بتاتی۔ وہ کہتا تم مجھ سے شادی کر لو۔ میں تم کو خوش رکھوں گا۔ بھلا بھی کی رضامندی کے بغیر میں اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کیونکر کر سکتی تھی۔ روز روز اس کا ایک ہی سوال سن کر تنگ آگئی۔ امی جان کو بتادیا کہ کلاس فیلو مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ بیٹے کو بتائے بغیر وہ کوئی فیصلہ نہیں کر سکتیں۔ سلمان کا انتظار کر نا ہی ہو گا۔ ہمارے سالانہ امتحان ختم ہوئے تو عباس نے مجھ سے حتمی جواب مانگا۔ کہا کہ تم سے ہمیشہ ایک سوال کرتا ہوں اور تم جواب نہیں دیتی ہو۔ آخر تم کس مٹی کی بنی ہو۔ میں تمہارے ساتھ سنجیدہ ہوں اور تم ہوں ہاں نہیں کرتی ہو۔ مجھے اس کی عجلت پسندی پر غصہ آگیا اور اس بات پر ہماری لڑائی ہو گئی۔ میں نے زچ ہو کے کہہ دیا کہ جب تک میرے بڑے بھائی دبئی سے نہیں آ جاتے ، میں تم کو کوئی جواب نہیں دے سکتی۔ تم اگر انتظار نہیں کر سکتے تو بے شک چلے جائو میری زندگی سے اور پھر بھی مت آنا۔ اگر اتنے انتظار کے بعد تمہارے بھائی نے ہماری شادی سے منع کر دیا تو ؟ تو قصہ ختم ۔ میں نے غصے میں ایسا کہا تھاوہ مایوس ہو گیا اور واقعی پھر بھی نہ آیا۔ کچھ عرصہ بعد بھائی جان آگئے۔ گھر کاماحول پھر سے اچھا ہو گیا کیونکہ بھابی ، بھائی سلمان کے سامنے امی سے بالکل نہیں لڑتی تھیں۔ میرے اور امی جان کے دن فاقوں سے بھی گزرے تھے مگر بھائی کو بالکل بھی خبر نہ تھی۔ اب امی نے ان کے کان میں تھوڑی سی باتیں ڈالیں کہ خرچے کی رقم مجھ کو الگ سے بھیجنا، بہو سے بار بار روپے لینا اچھا نہیں لگتا۔ سلمان بھائی نے کہا۔ ٹھیک ہے۔ وہ چند دن رہ کر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد بھابی نے پھر سے پہلا والا رویہ اختیار کر لیا تو بات دوبارہ لڑائی تک پہنچ گئی۔ دونوں میں ہاتھا پائی ہو گئی۔ بھابھی نے امی کو دھکادیا اور ان کے بال کھینچے تو ظاہر ہے اب ہم یہاں نہیں رہ سکتے تھے کیونکہ گھر تو بھائی جان کے نام تھا۔ امی بھائی کے میکے جاکر بھی فریاد نہ کر سکتی تھیں کیونکہ وہ تو بڑے لوگ تھے ۔امی کو اس برے وقت پھر سے خالہ یاد آئیں اور وہ مجھ کو لے کر ان کے گھر چلی گئیں۔ جب امی خالہ کے گھر پہنچیں ان کا دل دکھ سے بھرا ہوا تھا۔ جو نہی خالہ نے دروازہ کھولا ، میری ماں ان کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ انہوں نے آنسو پونچھے ، کمرے میں لے گئیں ، تسلی دی۔ صبیحہ بھی یہ حال دیکھے پر یشان ہو گئی۔ دوڑی ہوئی کچن میں گئی، شربت بنا الائی۔ اصرار کر کے امی کو کھاناکھلایا۔ صبیحہ نے قسمیں دے دے کر اپنے ہاتھ سے امی کے منہ میںلقمے دیئے۔ یہ دوروز سے بھوکی تھیں ، نڈھال ہو رہی تھیں۔ نقاہت کے مارے بات نہ ہو پارہی تھی۔ میں چونکہ بھابھی کے منہ کو نہیں لگتی تھی ، ان سے بچی رہتی تھی۔ خالہ نے امی کو دوبارہ گھر جانے نہ دیا۔ کہا کہ تم بیٹے کو احوال سے آگاہ نہیں کر سکتیں تو میں کروں گی۔ اب تم ادھر ہی رہو۔ وہاں جا کر بہو سے مزید بے عزتی کرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ خالہ آسیہ نے سلمان بھائی کو خط میں تمام احوال لکھا۔ جو جواب آیاد و حیران کرنے کو کافی تھا۔ انہوں نے لکھا کہ حنا نے پہلے سے مجھے تمام حالات سے آگاہ کیا ہوا ہے۔ میں احترام کی وجہ سے چپ تھا مگر یہ بات تو سب مانتے ہیں کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجھتی۔اگر قصور میری بیوی کا ہے تو امی جان نے بھی کمی نہ کی ہو گی۔ بہر حال اگر امی جان حنا کے ساتھ نہیں رہنا چاہتیں تو جہاں ان کی خوشی رہیں ، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ میں بیوی کو گھر سے نہیں نکال سکتا۔ امی جان کا خرچہ میں الگ سے بھجوادیا کروں گا۔ اس جواب سے امی جان کا دل ٹوٹ گیا۔ سال بھر بھائی نے خالہ کے پتے پر امی کو خرچہ بھجوایا۔ سال بعد وہ آئے تو ہم سے ملنے خالہ کے گھر بھی آئے۔ جاتے ہوئے کہا کہ سارا قصور تو امی کا ہے۔ انہی کو بڑے لوگوں کی سدھن بننے کا شوق تھا۔ انہی نے حناکارشتہ تلاش کیا، سب کچھ ان کی مرضی پر ہوا۔ میں تواپنی منگیتر ہی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ میری ماں ہی نہ مانتی تھیں۔اب میں سسرالیوں سے بگاڑ کر گھر تو نہیں اجاڑ سکتا۔ انہی کو اپنے کتنے پر صبر کر نا ہو گا۔ میں ایک بیٹی کا باپ ہو کر اور دوسرا ہو نے والا ہے۔ اولاد کی خاطر سہی مجھ کو اپنی بیوی کا خیال رکھنا ہی ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں دبئی پہلے حنا اور اپنے بچوں کو بلوائوں گا اور میں آپ لوگوں کو بلانے کی کوشش کروں گا۔ اس دوران طیبہ کارشتہ آجائے تو اس کی شادی کر دینا۔ میں شادی کے خرچے کے لئے رقم بھیج دوں گا۔ جب تک بھابھی پاکستان میں تھیں ، سلمان بھائی ہم کو خرچے کے لئے بھجواتے رہے۔ جو نہی وہ دبئی پہنچیں یہ رقم آنی بند ہو گئی۔اس کے بعد میں نے بہت چاہا مجھے عباس مل جاۓ مگر رابطہ نہ کر سکی۔ جاتے ہوۓ اس نے اپنا پتا تک نہ دیا تھا۔ امی نے میرے رشتے کی پریشانی کاذکر خالہ سے کیا۔ وہ بولیں۔ تم نے ہم کو اپنے جو ڑکانہ سمجھا تو میری بیٹی نہیں لی۔ اب اگر ہمیں اپنے جوڑ کا سمجھو تو میرے بیٹے کے لئے طیبہ کارشتہ دے دو۔ یوں تم بھی اکیلی نہ رہو گی بلکہ ہمارے پاس رہو گی۔ آپا میں تم سے بہت شرمندہ ہوں۔ نجانے خوشحالی پا کر مجھے کیا ہو گیا تھا؟ مجھ کو معاف کر دو۔ میں اب بہو بیٹے کے پاس نہیں رہ سکتی ، تو یہ کہاں جاۓ گی ؟ خالہ نے بڑا دل کر کے مجھے بہو بنالیا۔ اس میں کسی کی پسند نا پسند کا کوئی دخل نہ تھا۔ بس انہوں نے تو آسرا د یا تھا۔ وہ ہم سے پیار کرتی تھیں ، میں نے بھی اس رشتہ کو ہی غنیمت جانا کہ رہنے کو گھر تو مل کیا تھا۔ خالہ اگر چہ غریب تھیں لیکن ان لوگوں میں عظمت تھی ، شرافت تھی۔ راحت اگر چہ معمولی ملازم ہیں ، ہم روکھی سوکھی کھاتے ہیں ، مگر خوش ہیں۔ امی نے غریبی کے سبب صبیحہ کو ٹھکرا دیا۔ اس کا جہاں سے رشتہ آیاوہ پہلے امیر نہ تھے۔ صبیحہ کی شادی کے بعد اس کی قسمت سے ان کے کاروبار میں ترقی ہوتی گئی۔ یہ لڑ کی کی قسمت ہے کہ آج صبیحہ دولت میں کھیل رہی ہے۔ سوچتی ہوں کہ حنا کی بجاۓ اگر صبیحہ ہی میری بھائی بنتی تو آج ہمارے حالات کتنے مختلف ہوتے نا تو ہم بے گھر ہوتے اور نہ یوں امی اس بڑھاپے میں اپنی بہن کے گھر آ پڑتیں – دولت کی لالچ نے ہمارے خاندان کی بنیادیں ہلا دیں – کاش میری امی نے یہ سب نہ کیا ہوتا –

Latest Posts

Related POSTS