یہ ان دنوں کی بات ہے جب والد صاحب نا گہانی ایک حادثے کا شکار ہو کر وفات پاگئے اور ہم اس دنیا میں بے یارو مددگار رہ گئے ۔ گھر کا سر براہ اور واحد کفیل نہ رہا تو حالات بہت خراب ہو گئے ۔ ہم چار بچوں کے اخراجات اٹھانا اکیلی ماں کے بس کی بات نہ تھی جبکہ وہ پڑھی لکھی بھی نہ تھیں۔ صرف محنت مزدوری ہی کر سکتی تھیں – مجھے اور میرے بھائی احمد کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ ان دنوں احمد بھائی چھٹی جماعت میں اور میں پانچویں میں تھی ، جب ہم کو اسکول چھوڑنا پڑا ، حالانکہ احد تو پڑھائی میں اول نمبر تھا لیکن ہم مجبور تھے کہ گھر میں فاقے ہو رہے تھے۔ جس دن ہم بہن بھائی آخری بار اسکول گئے تو واپسی میں تمام رستہ روتے آئے تھے کہ اے کاش نہ ہمارے ابو مرتے اور نہ ہم کو اسکول کو خیر باد کہنا پڑتا۔ دوسرے روز احمد بھائی گھر سے نکلے اور سیدھے بس اڈے پر چلے گئے۔ مجھ کو کہا تھا کہ وہاں مسافروں کا سامان اُٹھانے کے کچھ پیسے مل جاتے ہیں شاید مجھے بھی ایسی کوئی آسان مزدوری مل جائے۔ اُن دنوں احد کی عمر صرف گیارہ سال تھی۔ سارا دن وہ بس اڈے پر بھاگ دوڑ کرتا رہا لیکن کسی مسافر نے اُسے سامان اٹھانے کے لئے نہ بلایا۔ شام ہو گئی تو بھوکا پیا سامنہ لٹکا کر واپس آ گیا۔
اس دن کھانے کو گھر میں کچھ نہ تھا۔ ماں پڑوس میں اُدھار مانگنے گئی تو پڑوسن نے بھی انکار کر دیا کہ روز روز کون کسی کو اُدھار دیتا ہے جبکہ واپس لوٹانے کی کوئی امید نظر نہ آتی ہو۔ وہ اپنا اناج پھٹک رہی تھی، اس نے کہا کہ میرے ساتھ مدد کر لو تو میں تم کو کچھ آٹا اور آلو دے دوں گی ۔ گھر جا کر آلو ابال لینا اور روٹی پکا لینا۔ کل کی صبح کا اللہ مالک ہے۔ البتہ اگلی صبح بھی ویسی ہی سونی سونی آگئی جیسی کہ گزشتہ صبح تھی۔ بھائی احد کم عمری کے باوجود بے حد حساس اور کمانے کے متعلق سوچوں میں غلطاں تھا تا کہ ماں اور چھوٹے بہن بھائیوں کا پیٹ بھر سکے ۔ وہ دوبارہ بس اڈے چلا گیا شاید آج کوئی کام وہاں مل جائے ۔ شام تک بھاگ دوڑ کرنے کے بعد اُسے صرف دو مسافروں نے بلایا۔ اُن کا سامان اٹھا کر ٹیکسی میں رکھوانا تھا۔ وہ بمشکل بیس روپے کما پایا۔ بھلا بیس روپے سے کیا گھر کا گزارا چلتا۔ پھر بھی اس نے ہمت نہ ہاری، تیسرے روز بھی وہ بس اڈے جا پہنچا۔ اب کی بار دو پہر تک بھی کسی نے منہ نہ لگایا تو وہ نجانے کیا سوچ کر شہر جانے والی ایک لاری میں چڑھ گیا۔ ٹکٹ کے پیسے بھی پاس نہ تھے لیکن وہ ایک معصوم صورت ، فاقہ زدہ، مفلوک الحال نو عمر لڑکا تھا، شاید اسی لئے اُس سے کسی نے کچھ نہ کہا، جب بس شہر پہنچی تو وہ لاری سے اُتر گیا۔ وہ شاید اس اُمید پر شہر گیا تھا کہ اس نے سنا تھا وہاں چھوٹے لڑکوں کو آسانی سے کام مل جاتا ہے جبکہ گاؤں میں تو مزدوری بھی نہیں ملتی تھی ، وہ ہر قسم کی محنت اور مزدوری کرنے کیلئے تیار تھا۔ اس نے یہ بھی نہ سوچا کہ شہر میں تو اُس کا کوئی جاننے والا بھی نہیں ہے۔ اُسے کون نوکری پر رکھے گا اور کیا مزدوری ملے گی۔ وہ پہلی مرتبہ آیا تھا اس شہر کی سڑکوں پر نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھر نے لگا۔ بھوک سے برا حال تھا اور حالت قابل رحم تھی۔ تبھی وہ ایک شخص کے پاس گیا اور کہنے لگا، مجھے کام چاہئے، تا کہ کچھ کما کر کھانا لے سکوں ۔ اس شخص نے احد کو غور سے دیکھا، پھر بولا۔ آؤ میرے ساتھ ۔ رستے میں وہ اس سے باتیں کرتا گیا۔ اس آدمی کا نام رحیم بخش تھا اور اس کا گھر لاری اڈے سے زیادہ دور نہیں تھا۔ باتوں باتوں میں اس نے احد سے اس کے گھر یلو حالات پوچھ لئے جبکہ حالات بتاتے ہوئے احد رو رہا تھا۔ رحیم بخش نے اُس کو تسلی دی اور کہا، سنو بیٹے چھ برس قبل میرا بیٹا کھو گیا تھا۔ اس کی صورت کچھ تم سے ملتی ہے۔ جیسا میں کہوں تم ویسا ہی کرو تو تمہارے اور تمہارے گھر والوں کے دن پھر سکتے ہیں۔ پھر رحیم بخش نے بتایا۔ میری بیوی اپنے بیٹے کے غم میں نیم پاگل ہو چکی ہے۔ وہ اس کی جدائی میں رورو کر اپنی بینائی کھوتی جا رہی ہے۔ نجانے کس ظالم نے میرے بچے کو اغوا کر لیا۔ وہ اسکول گیا تھا اور واپس نہ آیا۔ میں نے بہت تلاش کیا ہے۔ میرے بیٹے کا نام سمیع اللہ تھا۔ بیٹا اب وہ تو کھو چکا لیکن اب فکر مجھے اپنی بیوی کی ہے جس کی حالت کسی طور نہیں سنبھلتی۔ تم اگر سمیع اللہ بن جاؤ تو میں بیوی کو یہی کہوں گا کہ تیرا کھویا ہوا بیٹامل گیا ہے۔ اس کی حالت سنبھل جائے گی تو میرا بکھرا ہوا گھر بھی سنبھل جائے گا۔ تم میرے گھر پر میرا بیٹا بن کر رہنا منظور کر لو، میں تم کو پڑھا لکھا دوں گا۔ اس طرح میری نیم جان بیوی شاید ٹھیک ہو جائے ورنہ میری دو بچیاں بھی رل جائیں گی جو ماں کی اس حالت سے از حد پریشان اور متاثر ہو رہی ہیں۔ لیکن میں تو اپنی بیوہ ماں، بھائی اور بہنوں کی خاطر گھر سے کمانے نکلا ہوں پھر ان کا کیا بنے گا؟ اس کی تم فکر نہ کرو۔ تمہارے گھر فاقے ہو رہے ہیں۔ تم ابھی چھوٹے ہو اتنا نہیں کما سکتے کہ گھر کے اخراجات پورے کر سکو، مجھے اللہ نے بہت کچھ دیا ہے اور میں صاحب جائیداد بھی ہوں ۔ ہم چل کر تمہاری والدہ کو سمجھا لیں گے۔ ہر ماہ باقاعدگی سے میں ان کو خرچہ بھیج دیا کروں گا۔ اس طرح تم یہاں پڑھ لکھ جاؤ گے اور وہاں گاؤں میں تمہاری ماں اور بہن بھائی بھی سکھ کا سانس لے سکیں گے۔ یوں سمجھ لو کہ تم کو عمر بھر کے لئے ایک اچھی اور مستقل نوکری مل گئی ہے۔ اچھا کھانا، اچھی رہائش ، گھر اور گھر والوں کی محبت اور کیا چاہئے تم کو؟ بھائی تو نادان تھا یہ نہ سمجھا کہ یہ شخص اُسے خرید رہا ہے، اس نے فورا ہامی بھر لی اور کہا ٹھیک ہے آپ میری امی کو سمجھا دیں میں آپ کے پاس رہوں گا ، جیسا آپ کہیں گے ویسا کروں گا، اور آپ میرے گھر والوں کو خرچہ بھجوا دیا کریں۔ احمد تو ہر حال میں ہم کو فاقوں سے بچانا چاہتا تھا اور گاؤں میں اتنی مزدوری کا ملنا محال تھا کہ گھر کے اخراجات چلیں اور ہم سب پڑھ لکھ بھی سکیں۔
احد نے سکھ کا سانس لیا، کیونکہ رحیم بخش نے ہمارے گھر آکرامی کو صورت حال بتا کر راضی کر لیا تھا، یہ بھی کہا کہ ہر عید پر یہ آ کر آپ سے مل جایا کرے گا۔ بیٹے کے کھو جانے سے ابھی تک ان کے گھر کی فضا سوگوار اور اداسی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ رحیم بخش خوش خوش میرے بھائی کو گھر میں لے گیا اور بیوی کو بتایا کہ آؤ دیکھ تمہارا کھویا ہوا بیٹ مل گیا ہے۔ عورت دوڑی آئی ، اس نے اپنی بیمار آنکھوں سے بغور میرے بھائی کو دیکھا۔ وہ واقعی آنسو بہا بہا کر نیم بینائی کھو چکی تھی اور اب اُسے دُھندلا نظر آتا تھا ، اس کی آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ہوئے تھے۔ آتے ہی وہ میرے بھائی سے لپٹ گئی اور میر اسمیع کہہ کر گلے سے لگا لیا۔ اس نے شوہر کی ہر بات کا یقین کر لیا ، شاید کہ وہ غم کے بھنور میں غوطے کھا کر تھک چکی تھی اور اب ہر صورت کنارے لگنا چاہتی تھی۔ ڈبڈبائی آنکھوں سے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے کہ اس کے کھوئے ہوئے بیٹے کی شکل بھی اس کے آنسوؤں میں ڈوب چکی ہے۔ اس کو اس یقین کے سوا اور کچھ نہیں سوجھ رہا تھا کہ جو لڑ کا اس کی نگاہوں کے سامنے کھڑا ہے وہ اُس کا کھویا ہوا بیٹا ہی ہے۔ رحیم بخش اچھی اداکاری کر رہا تھا۔ اس نے بیوی سے کہا کہ اپنے بچے کو کھانا تو دو۔ اتنے برس بعد ملا ہے، تب تک میں اس کے لئے بازار سے کپڑے اور دوسرا سامان خرید کر لاتا ہوں۔ عورت نے بیٹی سے کہا۔ صائمہ جلدی بھائی کو کھانا لا کر دو۔ میں واری جاؤں کتنا بدل گیا ہے میرا بچہ ، شاید کہ خرکاروں کے پاس رہا ہے۔ ہاں ، ماں … مجھے خرکاروں نے ہی اٹھایا تھا۔ پولیس کا چھاپہ پڑا اور بچے بھی اُن سے آزاد ہوئے، شاید اپنے گھر پہنچ گئے ہوں گے، بہت سے بچے تھے میرے ساتھ کیمپ میں۔ جہاں ہم مٹی ڈھوتے تھے اور کام کرتے تھے۔ یہ سن کر بیچاری ماں کی سسکیاں نکل گئیں۔ اب رحیم بخش کی بیوی رفتہ رفتہ افسردگی کی کیفیت سے نکلنے لگی، پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس کی ذہنی اور جسمانی حالت بہتر ہونے لگی۔ وہ احد سے اکثر طرح طرح کے سوالات کرتی ۔ کیسے کھو گئے، کس نے ورغلایا ، کون اُٹھا کر لے گیا۔ تم تو اسکول گئے تھے۔ وہاں کیا کیا ہوا۔ روز و شب کی داستان وہ سننا چاہتی تھی جب احمد خاموش رہتا تو رحیم بخش بیوی کو سمجھاتا۔ خوش قسمت … شکر کر تیرا بیٹا مل گیا ہے۔ اس کو ان گزرے ہوئے اذیت بھرے دنوں کی بار بار یاد نہ دلایا کر کہ اس کی زبان بھی گنگ رہ جاتی ہے ، نجانے ان ظالموں نے کتنی ماؤں کے جگر نوچے ہوں گے اور وہ دکھ سبہ سبہ کر گونگے ہو گئے ہوں گے۔ خدا جانے وہ اپنی ماؤں سے مل بھی سکے کہ نہیں ۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ پولیس والے مجھے جانتے تھے اور میں وقتا فوقتا بیٹے کی گمشدگی کے بارے اُن سے استفسار کرتا ہی رہتا تھا ۔ جب ان کے ہاتھ آیا اس کو میرے سپرد کر دیا، اگر میں اس کی تلاش چھوڑ دیتا تو آج یہ ہم کو نہ ملتا۔ رحیم بخش نے احد بھائی سے کیا وعدہ پورا کیا۔ وہ شخص ہر ماہ معقول رقم امی جان کو منی آرڈر کر دیا کرتا تھا جس سے ہمارے گھر کا چولہا جلنے لگا اور میرے دونوں چھوٹے بھائی دوبارہ اسکول جانے لگے۔
رحیم بخش کی بیوی سچ سچ احد کو اپنا سمجھ کر چاہنے لگی۔ اسی طرح پیار کرتی جیسے کوئی ماں اپنے بیٹے سے کرتی ہے۔ لیکن احد بالکل چپ چپ رہتا تھا۔ دراصل اسے اپنی ماں اور بہن بھائی بہت یاد آتے تھے جن کی خاطر اس نے یہ قربانی دی تھی کہ رقم کے بدلے ہماری جدائی خرید لی تھی۔ محلے میں بھی زیادہ کسی سے بات نہ کر تا سب اُس کو سمیع اللہ کہ کر بلاتے اور وہ بھی اپنا یہی نام بتاتا۔ لوگ کہتے خرکاروں نے بچے پر کتنا ظلم کیا ہے کہ بیچارا بولنا بھی بھول گیا ہے۔ محلے کے بہت سے لوگ مبارک باد دینے آئے کہ رحیم بخش تم کو تمہارا بیٹا مل گیا ہے، خیرات کرو اور مبارک باد قبول کرو تم تو خوش قسمت ہو، ورنہ ایسا نہیں ہوتا، چھ سال بعد کھوئے ہوئے بچے کامل جانا ایک معجزہ ہی تو ہے۔ رحیم بخش کے گھر میرے بھائی کے ارد گرد کچھ رشتہ دار لڑ کیاں بھی جمع رہتی تھیں، وہ جب آتیں اس سے باتیں کرنے کی کوشش کرتیں۔ ان ہی میں سے ایک نائلہ تھی جو بہت زیادہ احد میں دلچسپی لینے لگی تھی ۔ اس کا گھر پاس ہی تھا۔ نائلہ رحیم بخش کی بیوی کی بھتیجی تھی۔ وہ پھوپھی کی لڑکیوں سے ملنے کے بہانے آتی اور احد کے پاس بیٹھ جاتی۔ وہ باتیں کرتی مگر بھائی اُسے جواب نہ دیتا۔ تب وہ کہتی کیا تم گونگے ہو کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ وقت گزرتا رہا۔ بالآخر نائلہ نے آنا چھوڑ دیا تو احد کو اس کی کمی محسوس ہونے لگی۔ شاید کہ اُس کی دلچسپ باتوں سے میرے بھائی کا دل بھی بہل جاتا تھا۔ روز گلی میں نکل کر ادھر اُدھر دیکھتا۔ آخر ایک روز وہ نظر آ گئی ، تب احد نے اُسے پکارا اور پوچھا کہ اب تم نے آنا کیوں چھوڑ دیا ہے۔ اس نے جواب دیا، کیوں کیا میرے نہ آنے سے تم اُداس ہو گئے ہو۔ ہاں احد نے کہا۔ وہ بولی تو پھر تم کو مجھ سے محبت ہوگئی ہے۔ دراصل میں اب بڑی ہو گئی ہوں اور تم بھی ، اس لئے امی نے مجھے روک دیا ہے کہ اب زیادہ پھو پھی کے گھر مت جایا کرو ورنہ لوگ باتیں بنائیں گے۔ پھر ایک دن اس نے ماں سے سنا کہ میں اپنے سمیع کی شادی نائلہ سے کروں گی۔ یہ اس کے بچپن کی منگ ہے۔ تب احد نے دل میں پہلی بار خوشی کی لہر محسوس کی کیونکہ جب سے وہ رحیم بخش کا بیٹا بنا تھا۔ چار یا پانچ باری گھر آیا تھا وہ بھی چند گھنٹوں کے لئے۔ رحیم اُسے ساتھ لایا اور ساتھ لے گیا۔ میری ماں تو بیٹے کی راہ ہی تکتی رہ جاتی، لیکن کیا کرتی پیٹ کا دوزخ بھرنا بھی تو ایک مجبوری تھی ۔ احد مگر زیادہ اداس رہتا تھا۔
رحیم بخش کے گھر وہ چھ برس رہا۔ اس دوران انہوں نے گھر پر ہی اتالیق رکھ دیا۔ اسکول نہیں بھیجا کیونکہ رحیم کی بیوی اُسے خوف سے اسکول نہیں بھیجتی تھی کہ کہیں کوئی پھر سے اُسے اغوا نہ کرلے۔ وہ رحیم بخش کے بغیر گاؤں بھی نہ آسکتا تھا۔ اس کا دل اب تک وہاں نہ لگا تھا ، احد کو ہم سب بہت یاد آتے تھے، بس ایک سمجھوتے کے تحت وقت گزار رہا تھا۔ اگر وہاں کوئی ہستی اس کے لئے پر کشش تھی تو وہ صرف نائلہ کی ذات تھی جو چھوٹی سی عمر میں بڑی بڑی باتیں کرتی تھی اور اس کے ساتھ باتوں باتوں میں لگاوٹ کا اظہار بھی کرتی تھی۔ اسی وجہ سے اُس کا وہاں دل لگ گیا تھا۔ اُدھر رحیم بخش کی بیوی باور کراتی کہ میرے بیٹے بہت جلد نائلہ تیری دلہن بن کر ہمیشہ کے لئے ہمارے گھر آجائے گی۔ امی کو منی آرڈر تو باقاعدگی سے مل جاتے تھے لیکن اس رقم کی بھی انہوں نے بیٹے سے مستقل جدائی کی صورت میں بڑی قیمت چکائی تھی کہ بیٹے کی صورت دیکھنے کو ان کی آنکھیں ترستی تھیں۔ احمد کو گاؤں میں ہماری طرف خط لکھنے کی اجازت نہ دی تھی، مگر رحیم خود خط لکھ کر احد کی خیر خیریت تحریر کرتا تھا اور جب میری ماں جواب بھیجتی تو وہ احد کو ان کا خط پڑھوا دیتا، یوں میرے بھائی کو اپنے گھر والوں کے بارے تسلی مل جاتی تھی۔ احد سوچتا تھا۔ ایک دو سال بعد جب اور بڑا ہو جاؤں گا تو چھپ کر ماں سے مل کر آ جایا کروں گا۔ دل کی اسی تسلی کے سہارے ایک سال اور گزر گیا ، اچانک ایک روز دھماکا ہو گیا۔ رحیم بخش کو حقیقت میں اُس کا اصلی کھویا ہوا بیٹا مل گیا۔ اب اس گھرانے کو میرے بھائی کی ضرورت نہ رہی تھی۔ ماں جو پہلے احد کو نائلہ سے بیاہنے کے خواب دیکھ رہی تھی ، جو احد سے سگی ماں کی طرح محبت کرنے لگی تھی وہ بھی اب بدل گئی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کو گلے لگاتی اور احد اُسے دیکھ کر حیران ہوتا۔ تاہم احد کو بھی دُکھ دینا نہ چاہتی تھی کیونکہ میرا بھائی بھی اس نئی ماں سے محبت کے رشتے میں بندھ چکا تھا۔ بہر حال حقیقت تو حقیقت ہوتی ہے۔ اب کہانی کا انجام قریب ہو گیا۔ بھائی اس قدر افسردہ نہ ہوتا اگر نائلہ کی ذات درمیان میں نہ ہوتی، کیونکہ یہ ایک دوسرے سے پیار کرنے لگے تھے۔ دونوں ہی خوش تھے کہ عنقریب شادی کے بندھن میں بندھ جائیں گے۔ احد اس رہائی پر خوش تھا مگر ناخوش بھی کیونکہ اس کی شادی نائلہ سے نہیں ہو سکتی تھی۔ رحیم بخش کے کاروبار اور اس کی اصل جائیداد کا وارث سمیع اللہ واپس آچکا تھا۔ ان لوگوں نے احد اور نائلہ کی ملاقات پر بھی پابندی لگا دی۔نائلہ کی شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ اس کے آنسوؤں کو کسی نے نہ دیکھا کیونکہ احد اُس کی پھوپھی کا لڑکا نہیں تھا یہ ثابت ہو گیا تھا اور یہ بھی کہ وہ گاؤں کا ایک غریب لڑکا ہے، لہذا اب دولہا تو سمیع اللہ ہی کو بننا تھا۔ میرا بھائی نائلہ اور سمیع کی شادی کے ایک دن بعد گھر واپس آ گیا۔ ہمیشہ کے لئے یہ دن میری ماں اور ہم سب بہن بھائیوں کے لئے روز عید تھا۔ ماں تو ایسے خوش تھی جیسے مدتوں بعد اُس کا کھویا ہوا بیٹا مل گیا ہو۔ احد بھی پھر کبھی لوٹ کر رحیم بخش کے گھر نہ گیا۔ البتہ رحیم اور اس کی بیوی ایک دو بار ملنے کو ہمارے گھر آئے اور میرے بھائی کے لئے کچھ تحائف بھی لائے تھے۔ اس کے بعد وہ بھی پھر کبھی نہ لوٹے ۔ ہم ان کے لئے اور وہ ہمارے لئے قصہ پارینہ بن گئے ۔ احد کو آج بھی دُکھ ہے کہ دنیا کتنی جلد آنکھیں بدل لیتی ہے مگر میری ماں خوش ہے کہ اُس کا کھویا ہوا بیٹا اسے مل گیا ہے۔