Saturday, December 14, 2024

Dua ki Taqat

پھوپھی صندل نے اپنی مرضی سے شادی کر لی تو سب گھر والے ان سے خفا ہو گئے۔ بہر حال پھوپھی کی رخصتی ہو گئی اور انہوں نے دل پر صبر کا پتھر رکھ لیا۔ ہمارے والدین نے ان سے رابطہ رکھا اور نہ ہی انہوں نے ہم سے میل ملاقات کی کوشش کی۔ پھوپھی نے جس شخص کو اپنا جیون ساتھی چنا تھا وہ پہلے سے شادی شدہ اور بال بچوں والا تھا۔ اسی اختلاف کے باعث میرے والدین پھوپھی کی وہاں شادی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ خیر، شادی ہو گئی اور اس کے بعد جیسے بھی حالات رہے، پھوپھی نے کبھی اپنے میکے سے امداد طلب نہ کی۔ وہ برا بھلا وقت گزارتی رہیں اور ہمارے گھر بھی نہیں آئیں۔

ہم جب بڑے ہو گئے تو سنا کہ ہماری ایک پھوپھی ہیں جو کسی بستی میں بیاہی ہوئی ہیں اور ہمارے گھر شادی کے بعد کبھی نہیں آئیں۔ شادی بیاہ و دیگر تقریبات میں جب رشتہ دار اکٹھے ہوتے تو دادی جان پھوپھی صندل کی کمی محسوس کیا کرتی تھیں، لیکن وہ بھی بیٹوں کے آگے مجبور تھیں۔ تاہم جب دادی کا وقت قریب آیا تو مرنے سے پہلے انہوں نے میرے والد کو بلا کر کہا کہ اگر کبھی صندل یا اس کی اولاد خود رابطہ کرے تو میری آخری خواہش یہ ہے کہ تم لوگ اسے ٹھکرانا نہیں۔ اس کی خطا کو معاف کر دینا اور اسے گلے سے لگا لینا۔ اگر وہ تم لوگوں سے دوبارہ رشتہ جوڑنا چاہے تو اس کی اولاد سے اپنی اولاد کا رشتہ کر کے اس برسوں کے ٹوٹے ہوئے تعلق کو جوڑ لینا۔ ابو جان نے وعدہ کر لیا۔ اللہ کا کرنا کہ اس کے تین دن کے بعد دادی جان فوت ہو گئیں۔ مجھے اس شفیق ہستی کے دنیا سے چلے جانے کا بہت قلق تھا۔ ہر وقت سوچا کرتی، اے کاش میں ان کی آخری خواہش پوری کر سکتی اور ان کی بچھڑی بیٹی صندل کو خاندان سے ملانے کا وسیلہ بن سکتی۔ یہ مگر بہت مشکل تھا بلکہ ناممکن سی بات لگتی تھی۔ اب صرف دعا کا ہی سہارا رہ گیا تھا۔

ایک دن میں گھر میں کھانا پکار رہی تھی کہ فون کی بیل ہوئی۔ میں نے ریسیور اٹھا لیا۔ ایک اجنبی لڑکے کی آواز تھی۔ سمجھی کہ رانگ نمبر ہے۔ میں نے فون رکھ دیا۔ ذرا دیر بعد پھر گھنٹی بجی۔ وہی لڑکا بول رہا تھا۔ کہنے لگا، پلیز شاہینہ، فون بند مت کرنا۔ میں حیران رہ گئی، یہ کون ہو سکتا ہے جو اس قدر بے تکلفی سے بات کر رہا ہے اور اسے میرا نام بھی معلوم ہے۔ میں نے پوچھا، آپ کون صاحب بول رہے ہیں؟ وہ بولا، میں تمہاری پھوپھی صندل کا بیٹا بات کر رہا ہوں۔ پھوپھی صندل کا نام سن کر میرا دل دھڑکنے لگا۔ مجھے کس قدر اشتیاق تھا ان سے ملنے کا، ان کو دیکھنے کا اور آج ان کا بیٹا ہمارے گھر فون کر رہا تھا۔ میں تو اس دن کو ترستی تھی جب کبھی میں اپنی پھوپھی کو دیکھوں۔ بار بار دادی جان کے منہ سے ان کا نام سنا تھا۔ دادی کبھی کبھی اپنی اس بیٹی کو یاد کر کے ٹھنڈی آہیں بھرتی تھیں اور آنسو بہایا کرتی تھیں، جس کو اپنی پسند کی شادی کرنے کی سزا ملی تھی۔

ندیم، میرا ہی نہیں، میرے سب بھائی بہنوں کا نام جانتا تھا۔ اس کے دل کا بھی یہی حال تھا کہ جو میرا تھا، وہ بھی ہم سب سے ملنے کو ترستا تھا کیونکہ پھوپھی اب بھی ہم سے محبت کرتی تھیں اور انہیں حسرت تھی کہ ان کے بھائی اور بھاوج ایک بار آ کر انہیں گلے سے لگا لیں۔ اگلے دن اس نے پھر فون کیا۔ میں نے فون اٹھایا۔ اس دن کے بعد یہ روز کا معمول ہو گیا۔ وہ فون کرتا اور ہم دو چار باتیں کر لیتے لیکن میں امی کے ڈر سے کسی کو نہ بتاتی تھی کہ پھوپھی کا بیٹا فون کرتا ہے کیونکہ امی جان ابھی تک پھوپھی سے نفرت کرتی تھیں۔ چھ ماہ تک میں ندیم سے چپکے چپکے باتیں کرتی رہی۔ جی چاہتا تھا کہ اسے دیکھوں۔ ایک دن اس نے کہا، میں فلاں وقت تمہاری گلی سے گزروں گا، تم مجھے دیکھ لینا۔ میں چپکے سے چھت پر گئی اور دیکھ لیا۔ ندیم مجھے بہت اچھا لگا۔دوسرے دن اس نے فون پر پوچھا، بقول آپ کے، آپ کو ندیم نام تو بہت پسند ہے۔ کیا آپ کے ذہن میں میری کوئی تصویر بھی ہے؟ میں نے کہا، ہاں، بالکل آپ جیسی ہی آپ کی تصویر میرے ذہن میں تھی۔ میں نے اس سے اس کا آئیڈیل پوچھا۔ اس نے بتایا، تو اسے سن کر میں ڈر گئی کیونکہ میں اس کا بالکل الٹ تھی۔ اس لئے اب جب بھی ندیم کہتا، میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں، تم اپنے گھر کے گیٹ پر فلاں وقت آنا، میں ادھر سے گزروں گا، میں ٹال جاتی تھی۔ میں تو بالکل خوبصورت نہیں ہوں، وہ مجھے دیکھ کر کتنا مایوس ہو گا۔

ایک رات میں اپنی بہن کے ساتھ تھی۔ میری بہن جانتی تھی کہ میں کسی ندیم نامی لڑکے سے فون پر بات کرتی ہوں۔ انہوں نے سمجھایا، مگر میں تو نام کے ساتھ ساتھ ان سے بھی محبت کرنے لگی تھی۔ فون کی بیل پر میں نے دعا کی، خدا کرے ندیم کا فون ہو۔ میں نے فون اٹھایا، تو ندیم کی آواز تھی۔ اس نے بتایا کہ وہ شہر میں ایک جنرل اسٹور چلاتا تھا، جبکہ پہلے وہ اپنی بڑی امی کے پاس بستی میں رہتا تھا اور اس کی اپنی امی یعنی ہماری پھوپھی اور پھوپھا جان کوئٹہ میں رہتے تھے۔ کیونکہ پھوپھی کی ملازمت کوئٹہ میں تھی، ندیم کی بڑی امی اپنی سہیلی کی بیٹی سے اس کی شادی کرنا چاہتی تھیں۔ اس نے فون کر کے مجھے سب کچھ بتا دیا اور پوچھا کہ اب میں کیا کروں؟میں تو پریشان ہو گئی مگر جلدی سے خود کو سنبھال لیا کہ اگر میں اس سے محبت کرنے لگی ہوں تو ضروری نہیں کہ ندیم بھی مجھ سے محبت کرتا ہو۔ اس نے تو مجھے ابھی تک دیکھا بھی نہیں تھا۔ لہٰذا میں نے کہا، آپ وہاں شادی کر لیں۔ ندیم نے پوچھا، کیا آپ میرے ساتھ محض وقت گزاری کر رہی ہیں؟ تو مجھے بہت برا لگا۔ پھر اس نے کہا، کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی؟ اگر ہاں تو مجھے کتنا انتظار کرنا ہو گا؟یہ برسوں کا خاندانی تنازع تھا، اس لئے میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔ اس نے کہا، آپ ہاں کر دیں، میں دس نہیں، ساری زندگی انتظار کر سکتا ہوں۔ میں روپڑی اور فون بند کر دیا۔ مجھے یقین تھا کہ بڑوں کا تنازع کبھی ختم نہیں ہو گا۔

اگلے دن ڈائری میں سب باتیں لکھ رہی تھی اور رورہی تھی۔ یقین تھا کہ ندیم اب نکاح کے بعد ہی آئیں گے کہ ان کی بہن کا فون آ گیا۔ اس کا نام ناہید تھا۔ انہوں نے کہا، شاہینہ، میں کل تم سے ملنے آئوں گی۔میں گھبرا گئی کیونکہ امی کو تو ندیم کے بارے میں کچھ بتایا ہی نہیں تھا۔ دوسرے دن باجی ناہید آ گئیں۔ کسی کو نہ بتایا کہ پھوپھی صندل کی بیٹی ہیں۔ بھابھی سمجھیں کہ یہ میری سہیلی ہو گی۔ انہوں نے آ کر سب سے پہلے میرا پوچھا، پھر میرے کمرے میں چلی آئیں اور مجھے خوب پیار کیا۔ بتایا کہ بھائی نے ضد کر کے بڑی امی سے انکار کر دیا ہے کہ وہ وہاں نکاح نہیں کریں گے، بلکہ یہاں مجھے لائے ہیں تاکہ تم سے مل لوں اور تمہاری رائے معلوم کرلوں۔ ناہید باجی نے کہا، اس جھگڑے کا کیا ہو گا جو میرے والدین نے برسوں سے اپنے دلوں میں پال رکھا ہے؟ وہ بھی میرے گلے لگ کر رونے لگیں اور کہا کہ میری بھابھی صرف تم ہی بنو گی، اور اس رشتے کے ذریعے ہی ماموں اور ممانی سے ہم لوگوں کی صلح ہو گئی۔ کافی دیر تک کمرہ بند کر کے ہم دونوں روتی رہیں۔ پھر وہ میری ڈائری لے گئی تاکہ میں ندیم بھائی کو بتا سکوں کہ تم ان سے کتنا پیار کرتی ہو۔ اگلے دن ندیم کا فون آگیا کہ پلیز مجھے معاف کر دو شاہینہ، مجھے خبر نہیں تھی کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔ تم نے مجھے کچھ بتایا تو ہوتا۔میں نے جواب دیا، کیا اب مجھے ہر بات اپنی زبان سے کہنی پڑے گی؟ میں تو ڈرتی تھی کہ آپ کا آئیڈیل نہیں ہوں۔ تو وہ بولے، آپ جیسی بھی ہیں، میرا آئیڈیل ہیں۔ اب میں امی کو آپ کے گھر بھیجوں گا۔ میرے لئے یہ تصور ہی خوش آئند تھا کہ پھوپھی صندل ہمارے گھر آ رہی تھیں۔ مجھے ابو کی طرف سے اطمینان تھا کیونکہ انہوں نے دادی جان مرحومہ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر کبھی پھوپھی ہمارے گھر آئیں گی تو انہیں ٹھکرائیں گے نہیں، جبکہ امی کی طرف سے خدشہ ضرور تھا۔ لیکن ان دنوں ہم دو بہنیں اپنے بھائی کے پاس تھیں، جبکہ باقی بہن بھائی اور امی لاہور میں تھے۔

ایک دن پھوپھی ہمارے گھر آ ہی گئیں۔ وہ دن میرے لئے عید کے دن کی طرح تھا۔ برسوں کی خواہش آج پوری ہو گئی تھی۔ میں اور باجی ان کے گلے لگ گئے۔ انہوں نے ہمیں بہت پیار کیا۔ پھر باجی سے کہا، کیا اس کا رشتہ تو طے نہیں ہوا؟ باجی نے کہا، نہیں۔ تو وہ بولیں، جب آپ کی امی آئیں تو مجھے بتا دینا۔ اس دن میں بہت خوش تھی کہ آنٹی تو مجھے مانگ لیں گی۔ اللہ کرے میرے گھر والے بھی مان جائیں۔دو ماہ بعد امی آئیں تو آنٹی بھی آگئیں اور میرا رشتہ مانگا۔ امی نے انہیں مایوس نہیں کیا۔ آنٹی سے گلے ملیں اور کہا کہ میرا بھی جی چاہتا تھا کہ تم سے دوبارہ رشتہ قائم ہو کیونکہ تمہاری والدہ تمہاری جدائی میں تڑپتی چل بسیں۔ میں ان کی خواہش کا ضرور احترام کروں گی، لیکن شاہینہ ابھی چھوٹی ہے۔ اس سے بڑی جو اور میری بیٹیاں ہیں، آپ ان میں سے کسی کا رشتہ لے لیں، مگر وہ نہ مانیں کیونکہ جانتی تھیں کہ ندیم اور میں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ میرے گھر میں یہ بات صرف میری ایک بہن کو پتا تھی۔صندل آنٹی نے بہت اصرار کیا، مگر میرے گھر والوں نے کہا کہ سوچیں گے۔ میری بہنوں نے امی کو کافی سمجھایا، لیکن وہ نہ مانیں۔ ایک دن امی ہماری سہیلیوں کے گھر گئیں، تو انہوں نے بھی امی سے کہا کہ آپ وہاں رشتے کے لئے ہاں کر دیں۔ تب میری امی سمجھ گئیں کہ ضرور کوئی بات ہے، جو سب اتنا کہہ رہے ہیں۔ کچھ دن بعد امی واپس لاہور چلی گئیں۔ بڑی عید میں ایک دن باقی تھا۔ کسی بات پر ندیم مجھ سے ناراض تھے۔ میں بازار ان کے لئے گفٹ لینے گئی اور ان کی دکان پر چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد میں نے کہا، مجھے رکشہ کروادیں، گھر جانا چاہتی ہوں۔ ہم روڈ پر آئے، سامنے سے میرا بڑا بھائی آرہا تھا۔ اس نے ہمیں دیکھ لیا۔ ہم ایک دم سے واپس مڑ گئے اور ایک دکان میں چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد ہم روڈ پر پھر نکلنے لگے تو وہاں میرا چھوٹا بھائی نظر آیا۔ اب تو میرے حواس بالکل ہی جواب دے گئے۔ ندیم نے مجھے رکشے میں بٹھا دیا اور تسلی دی، گھبراؤ نہیں، بھائی نے نہیں دیکھا۔ میں نے کہا، اب بھائی نے دیکھ لیا ہے، آپ اب مت آئیں۔گھر آ کر میں نے بہن کو ساری بات بتا دی۔ تھوڑی دیر بعد بھائی آ گئے۔ وہ بہت غصے میں تھے اور کہنے لگے، میں آج تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ انہوں نے مجھے خوب مارا، میں بے ہوش ہو گئی۔ جب بڑے بھائی گھر آئے تو انہوں نے بتایا کہ یہ ندیم کے ساتھ بازار میں گھوم رہی تھی۔صبح عید تھی اور چاند رات کو میری شامت آئی تھی۔ جب مجھے ہوش آیا اور میں کچھ سوچنے کے قابل ہوئی تو خیال آیا کہ بھائی اتنے غصے میں ہیں، ندیم ہماری گلی میں آئے تو نجانے بھائی ان کے ساتھ کیا سلوک کریں۔

میں نے بڑی مشکل سے ایک کاغذ پر لکھا کہ آپ صبح ہماری گلی میں نہیں آنا بلکہ بستی چلے جانا۔ اپنی بہن سے کہا کہ صبح سب سے پہلے یہ ندیم کو بھجوا دینا۔ اس کے بعد مجھے کچھ ہوش نہ رہا۔ نہ یہ پتا کہ صبح کب ہوئی، نہ یہ کہ قربانی کب ہوئی۔ بھائی کے ڈر سے کسی نے بھی آ کر پیار نہ کیا۔ شام کو بھابھی نے آ کر پیار کر کے اٹھایا اور کہا، کل سے بھوکی ہو، کچھ کھالو۔ میں نے کہا، جب تک آپ لوگ پھوپھی صندل کو قبول نہیں کر لیں گے، میں کچھ نہیں کھاؤں گی۔ بھابھی بولیں، میں وعدہ کرتی ہوں کہ تمہارا رشتہ وہاں کروا دوں گی۔ تب ہی زبردستی انہوں نے مجھے تھوڑا سا دودھ پلایا۔ ان کے پیار بھرے سلوک نے اس دن مجھ کو ڈھارس دی۔

اگلے دن ذرا بیٹھنے کے قابل ہوئی، لیکن بھائیوں کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی کہ فون کی بیل ہوئی۔ بھابھی نے بھائی کو بتا دیا کہ وہی ندیم ہے، پھوپھی صندل کا بیٹا۔ بھابھی نے پھر بھائی کو سمجھایا۔ بھائی نے اتنا کہا کہ میں سارے بھائیوں اور ابو سے مشورہ کروں گا، پھر آنٹی سے بات ہو گی۔ بھابھی نے آ کر مجھے پیار کیا اور کہا کہ تمہارا بھائی کچھ کچھ مان گیا ہے۔ تب ہی بھائی نے امی کو فون کیا اور ساری بات بتائی، مشورہ مانگا، لیکن امی نے صاف انکار کر دیا۔

آنٹی آئیں تو ان کے ساتھ ندیم کے والد اور بڑے بھائی بھی تھے۔ سب کے سمجھانے سے بھائی نے ہاں کر دی کیونکہ ایک دن پہلے تینوں بھائیوں نے اکٹھے بیٹھ کر فیصلہ کیا تھا کہ بدنامی سے اچھا ہے کہ ہم خود ہی عزت سے یہ رشتہ کر لیں۔ بھائی نے ندیم کے گھر والوں کو ہاں کر دی اور دو دن بعد منگنی کا دن بھی دے دیا۔ انہوں نے امی کو دوبارہ فون کیا، مگر وہ کسی طرح نہ مانیں۔ آخر تینوں بھائیوں نے امی کو سمجھایا کہ اب ہم نے ہاں کر دی ہے، اب ہماری عزت کا مسئلہ ہے، آپ ہاں کر دیں۔ نجانے کس کس طرح بھائیوں نے امی کو سمجھایا، تو امی نے کہا، جو تمہاری مرضی میں آئے کرو، مگر میں کسی بات میں شریک نہیں ہوں گی۔

جس دن میری منگنی تھی، بتا نہیں سکتی کہ میں کس قدر خوش تھی۔ اپنے آپ کو دنیا کی خوش نصیب لڑکی سمجھ رہی تھی۔ جس دن ندیم کے گھر والے ہمارے یہاں آئے، اسی دن شام کو ہمارے گھر والے ان کے گھر منگنی کرنے گئے۔ میں گھر میں اکیلی تھی کہ فون کی بیل ہوئی۔ ریسیور اٹھایا تو ندیم تھے۔ انہوں نے بتایا کہ آپ کے گھر والے دوسرے کمرے میں ہیں، میں چوری سے آپ کو مبارکباد دے رہا ہوں۔ میں بے حد خوش ہوئی۔ پھر ندیم نے چپکے سے ہماری گلی کا ایک چکر لگایا۔

آج وہ اتنے اچھے لگ رہے تھے۔ چہرے سے خوشی جھلک رہی تھی۔ میرا چھوٹا بھائی اس قدر خوش تھا کہ بولا، آپ نے گفٹ نہیں بنوایا؟ میں نے کہا، لائے گا کون؟ وہ بولا، میں لاتا ہوں۔ وہ گفٹ لے آیا۔ میں نے اپنی طرف سے پھوپھی کو گفٹ بھیجا۔ دراصل میرے بھائیوں اور بہنوں کو بھی پھوپھی صندل کے ملنے کی بے حد خوشی تھی اور اس خوشی کا وسیلہ میں اور ندیم بنے تھے۔

آج میری منگنی کو ڈیڑھ برس ہو چکا ہے اور اب اپریل میں ہماری شادی ہو گی۔ آج میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتی ہوں اور دعا دیتی ہوں کہ اس عید رات کو جب میرے بھائی نے مجھے بازار میں دیکھا، ناراض تو ہوئے، پر سنجیدگی سے سوچا بھی۔ یوں تھوڑی سی قربانی کا صلہ مجھے اور ندیم کو دائمی خوشی کی صورت میں ملا۔ اگر ندیم کی امی میری سگی پھوپھی نہ ہوتیں تو شاید ہماری کہانی کا انجام المناک ہی ہوتا۔ یہی سوچ کر آج بھی لرز جاتی ہوں۔ میں ہر وقت خدا سے اپنے اور ندیم کے اچھے مستقبل کی دعا کیا کرتی تھی، جو قبول ہوئی۔ اس لئے کہتے ہیں کہ ہر وقت اچھی دعا کرنی چاہئے، نجانے کون سی گھڑی قبولیت کی ہو۔ یہ میرا ایمان ہے کہ خدا سے سچے دل سے جو بھی مانگو، وہ ضرور ملتا ہے۔

Latest Posts

Related POSTS