رسول کریم ﷺ کے ایک صحابی سخت بیمار ہو گئے اور شدت ضعف و نقاہت کی وجہ سے اٹھنے بیٹھنے سے بھی معذور ہو گئے۔ حضور کو خبر ہوئی تو آپ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے ۔ انہوں نے جب حضور کو دیکھا تو فرط مسرت سے اٹھ کر بیٹھ گئے اور عرض کی یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! یہ کتنا مبارک مرض ہے کہ اس کی بدولت میرے غریب خانے کو صبح سویرے شاہ دو عالم کے پائے اقدس چومنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ احسان اور شکر ہے کہ اس نے مجھ کو اس بڑھاپے میں ایسی بیماری میں مبتلا کیا کہ میرے آقاو مولی کا دریائے رحمت جوش میں آگیا۔ حضور نے فرمایا: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تو نے کوئی نامناسب دعا مانگی جو بارگاہ الہی میں قبول ہو گئی۔ ذرا یاد کر تو نے کیا دعا مانگی تھی ؟ صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! دعا تو میں نے ضرور مانگی تھی لیکن اس وقت وہ میرے ذہن سے اتر گئی ہے۔ حضور دعا فرمائیں کہ مجھے یاد آجائے۔ سرور دو عالم نے ان کے حق میں دست دعا پھیلا دیئے۔ معا ان کو وہ دعا یاد آگئی اور انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ مجھ کواپنی دعایاد آگئی ہے۔ میں نے بارگاہ الہی میں عرض کی تھی کہ الہی میرے گناہوں کا جو عذاب تو نے مجھے آخرت میں دینا ہے وہ اسی دنیائے آب و گل میں دے دے۔ یہ دعا میں نے بار بار مانگی یہاں تک کہ بیمار ہو گیا۔ یہ بیماری اس قدر بڑھی کہ میں سوکھ کر کانٹا ہو گیا اور عبادت و ذکر الہی کرنے سے بھی معذور ہو گیا اور برے بھلے اپنے بیگانے سب فراموش ہو گئے۔ ۔ اگر آپ کا روئے اقدس نہ دیکھتا تو تو بس میرا کام تمام ہو چکا تھا۔ آپ کے لطف و کرم اور غم خواری نے مجھ کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔ حضور نے فرمایا: خبردار! ایسی دعا پھر کبھی نہ کرنا۔ انسان تو ایک کمزور چیونٹی کی مانند ہے اس میں یہ طاقت کہاں کہ آزمائش کا اتنا بڑا پہاڑ اٹھا سکے۔ صحابی نے عرض کی: اے شاہ دو عالم! میری ہزار بار تو یہ ہے کہ آئندہ کبھی ایسی بات زبان پر لاؤں۔ حضور اب آئندہ کے لیے میری رہنمائی فرمائیں۔
رسول اکرم نے فرمایا کہ تو حق تعالی سے ہمیشہ یہ دعامانگا کر کہ اے خدا! مجھ کو دنیا و آخرت میں نیکی عطا فرما اور میرے راستے کی مشکلوں کو آسامان کر دے۔ حاصل کلام یہ کہ اللہ تعالی کی آزمائش سے پناہ مانگنی چاہئے۔