نوشین میرے چچا کی بیٹی تھی۔ اس کی پیدائش پر بزرگوں نے طے کیا تھا کہ وہ اس کی شادی میرے بھائی سبحان سے کریں گے، چچا کی ملازمت ایسی تھی کہ ان کا تبادلہ مختلف شہروں میں ہوتا رہتا تھا، لہٰذا وہ کم دنوں کے لئے آبائی شہر آتے تھے۔ وقت گزرتا رہا۔ ہم سبھی بڑے ہوگئے۔ اب نوشین اور سبحان بھائی کی شادی کا معاملہ زیربحث لایا گیا اور چچا جان نے رشتے کے لئے والد پر دبائو ڈالنا شروع کر دیا۔
والد صاحب نے بیٹے سے بات کی۔ سبحان نے کہا کہ میں نوشین سے شادی نہیں کروں گا۔ اس پر والد صاحب ناراض ہوگئے۔ کہا کہ تم نے بہنوں کے بارے میں سوچا ہے۔ ہمارے گھر میں بھی بیٹیاں ہیں اگر تم ان کی بیٹی سے شادی نہ کرو گے تو تمہارے چچا بھی ہماری لڑکیوں کا رشتہ نہیں لیں گے۔ تب ہمیں لامحالہ غیروں کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
والدہ نے بھی یہی بات کہی۔ بیٹے سے التجا کی کہ وہ نوشین سے شادی پر راضی ہو جائے۔ ماں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر وہ ماں کی بات کو رَدّ نہ کرسکے اور نوشین سے شادی پر راضی ہوگئے، جبکہ انہیں یہ لڑکی قطعی پسند نہ تھی۔ ان کی اس کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی نہ تھی، وہ کچھ آزاد خیال اور فیشن کی دلدادہ تھی، جبکہ بھائی کو سادگی پسند تھی، اس کے علاوہ نوشین کے بارے میں کچھ غلط قسم کی باتیں بھی اُڑ گئی تھیں جو سبحان کے کانوں تک پہنچ چکی تھیں، وہ اس وجہ سے بھی اس کے ساتھ شادی سے گریزاں تھے۔ بلاشبہ نوشین ایک لااُبالی اور فضول خرچ لڑکی مشہور تھی۔ بھائی نے ماں سے کہا۔ صرف بہنوں اور آپ کی خاطر دل پر پتھر رکھ رہا ہوں۔ ورنہ نوشین مجھے ذرا بھی پسند نہیں ہے۔ بہرحال نوشین اور سبحان کی شادی ہوگئی۔ اس کے بعد میری دو بہنوں کی شادیاں بھی چچا کے بیٹوں سے ہوگئیں۔
تین گھر تو بس گئے لیکن سبحان کا سکون لٹ گیا، حالانکہ اس نے ارادہ کرلیا تھا کہ اس شادی کو ہر صورت نبھائے گا کیونکہ بہنیں اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ میرے بھائی نے بیوی کو خوش رکھنے کی ہرممکن کوشش کی مگر نوشین کا دل ہمارے گھر میں نہ لگا۔ اُس کا رویہ ہر کسی سے سرد رہا۔ دراصل وہ بھی بھائی سے شادی نہ کرنا چاہتی تھی بلکہ جہاں ملازمت کرتی تھی وہاں کے ایک آفیسر سے دلی وابستگی ہوگئی تھی۔ وہ اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتی تھی مگر چچا نے بیٹی کی ایک نہ چلنے دی اور زبردستی سبحان سے بیاہ دیا۔
اس زبردستی کی شادی کا یہ انجام ہوا کہ نوشین نے ہمارے گھر کو اپنا گھر نہ جانا آئے دن بہانہ بنا کر میکے جا کر رہنے لگی۔ اس دوران اللہ تعالیٰ نے اُسے ایک بیٹی سے نواز دیا لیکن ممتا بھی اس کے دل میں شوہر اور گھر سے محبت پیدا نہ کر سکی۔ اس کے دل میں ابھی تک اپنے کولیگ کی محبت موجود تھی۔
وہ ایک ماہ میں بمشکل دس روز ہمارے گھررہتی۔ باقی دن میکے میں گزارتی، اس کے والدین سمجھاتے مگر اس پر کچھ اثر نہ ہوتا… اس وجہ سے بھائی کو اور پریشانی رہتی کہ آخر اُس کی بیوی اپنے گھر میں کیوں نہیں رہتی۔
وہ ان دنوں بہت افسردہ اور پریشان رہنے لگے تھے۔ گاڑی بھی ٹھیک سے نہیں چلا پاتے تھے۔ باتیں کرتے کرتے کھو جاتے یہی حال ان کا گاڑی ڈرائیو کرتے وقت ہوتا تھا، انہیں یاد ہی نہ رہتا تھا کہ وہ روڈ پر ہیں اور گاڑی ڈرائیو کر رہے ہیں۔ بالآخر ان کی اس ذہنی کیفیت نے ایک دن ان کی زندگی چھین لی۔ دفتر کے کسی کام سے وہ سرگودھا جا رہے تھے کہ راستے میں ایک جیپ سے ٹکرا گئے۔ گاڑی بے قابو ہو کر سڑک پر لگی لوہے کی ریلنگ کو توڑتی ہوئی نشیب میں جا گری اور وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔
ان دنوں والد صاحب سعودی عربیہ میں تھے۔ جہاں وہ ایک کمپنی میں ملازمت کر رہے تھے انہیں بیٹے کی وفات کی اطلاع ملی تو فوراً آ گئے۔ یہ صدمہ ان کے اور ہم سب کے لئے جانکاہ تھا، جسے سہنا کسی قیامت سے کم نہیں تھا۔ مگر سہنا ہی تھا۔ جب ذرا صدمے سے سنبھلے تو والد صاحب نے دادا سے بینک بیلنس کے بارے میں پوچھا کیونکہ وہ پیسے دادا جان کے اکائونٹ میں ڈلواتے تھے۔
دادا جان نے بتایا کہ کچھ ہی رقم باقی ہے گھر پر خرچہ ہوتا رہا ہے۔ امّی کو تو ابو کی کمائی کے بارے میں کچھ علم نہ تھا، انہیں اتنا خرچہ دیا جاتا کہ بمشکل گزارہ ہوتا تھا۔ میرے والد کی محنت شاقہ کی کمائی کا کوئی حساب نہ تھا کیونکہ وہ اپنے والد سے حساب بھی نہ پوچھ سکتے تھے۔
اب وہ خالی دامن تھے۔ بیٹے کی جوان موت کے صدمے نے ان کی ہمت چھین لی تھی اور اس سانحہ دلخراش کے سبب ان کی ایسی حالت تھی جیسے کسی نے ان کے جسم سے تمام خون نچوڑ لیا ہو۔ اپنی امیدوں کے اکلوتے چراغ کے بجھ جانے پر موت کی آرزو کرنے لگے تھے، مگر اپنی نہیں کسی اور کی زندگی جینے پر مجبور تھے۔ نوشین بھابی صرف بھائی کی میت اُٹھنے کے دن آئیں پھر دوبارہ ہمارے گھر کا رُخ نہ کیا۔ اللہ ایسے امتحان میں کسی کو نہ ڈالے۔ ان دنوں ہمارے دل پر سوگواری چھائی رہتی تھی۔ امّی، سبحان بھائی کو یاد کرکے خود سے باتیں کرنے لگتی تھیں اور میرا عالم یہ ہوگیا تھا کہ سبحان کی عمر کے کسی بھی نوجوان کو دیکھتی تو اسے بھائی پکارنے لگتی تھی۔
بھیّا کی موت نے ہم سب کو اَدھورا کر دیا اور ابو کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ وہ دوبارہ سعودی عربیہ نہ گئے، کیونکہ ان میں کام کرنے کی سکت باقی نہیں رہی تھی۔ وطن میں بھی کام کرنے کے لئے ہمت کے ساتھ ساتھ روپے کا مسئلہ تھا۔
انہی دنوں دادا جان کو بیٹی کی شادی کے لئے رقم کی ضرورت تھی، لہٰذا انہوں نے اپنی زرعی زمین بیچ دی، بیٹی کی شادی کر دی اور کچھ رقم جو والد کے حصے میں آنی تھی انہیں دے دی کہ تم اس سے کوئی کاروبار کرلو۔ اس طرح والد کو تھوڑا سا مالی سہارا مل گیا۔
مشکلات نے ہمارے گھر کا رستہ دیکھ لیا تھا۔ حالات روز بہ روز بگڑتے جا رہے تھے۔ ابو جو بھی کام کرتے وہ بہت جلد ٹھپ ہو جاتا اور وہ ہمت ہار کر بیٹھ جاتے۔ اولاد میں ہم دو لڑکیاں باقی تھیں جو بن بیاہی تھیں انہیں ہماری بھی فکر تھی۔ وہ چاہتے نہ تھے کہ ہم نوکریاں کریں لیکن جب حالات زیادہ بگڑنے لگے تو میں اور میری بہن دونوں ملازمت کی تلاش میں گھر سے نکلیں۔
ایک روز ہم انٹرویو کے لئے ایک کمپنی کے دفتر گئیں تو وہاں انٹرویو لینے والے شخص کے پاس میرے ماموں بیٹھے تھے، انہوں نے ہمیں دیکھا تو پریشان ہوگئے۔
اگلے روز امّی کے پاس آئے اور کہا کہ تمہاری لڑکیاں یوں دفتروں میں کیوں ماری ماری پھر رہی ہیں۔ امّی نے بتایا گھر کے مالی حالات خراب ہیں۔ تمہارے بہنوئی کا کاروبار نہیں چلا۔ سُسر صاحب نے زمین بھی بیچ دی ہے اور اب کھانے کے لالے پڑے ہیں۔ ماموں حیران رہ گئے کہ حالات یہاں تک پہنچ گئے، پھر بھی میری بہن نے مجھے نہ بتایا۔ انہوں نے کہا کہ تم خاطر جمع رکھو لڑکیوں کو ایسی چھوٹی موٹی کمپنیوں میں مت بھیجو جن کے مستقبل کا پتا نہیں۔ میں احسن میاں سے بات کرتا ہوں، وہ اگر میرے ساتھ دفتر آ کر بیٹھنے لگیں تو کوئی اچھی صورت ان کے لئے نکل آئے گی اور دونوں لڑکیوں کے رشتے بھی میں اپنے لڑکوں کے لئے لے لوں گا۔
اس طرح ماموں نے پہلی بار ہمارا احساس کیا تو امّی کے تن مردہ میں جان پڑ گئی۔ میں خوبصورت تھی، ماموں نے میرے رشتے کے بارے میں اپنے بیٹے سے بات کی۔ اس نے ہامی بھر لی اور اس طرح میں فراز کی دُلہن بن کر ماموں کے گھر آ گئی۔
ماموں کا کاروبار بہت اچھا چل رہا تھا۔ کسی شے کی کمی نہ تھی وہ امیر آدمی تھے اور کاروبار بھی برسوں کا جما جمایا تھا جس میں اب ان کے دونوں بیٹے شریک تھے۔ دراصل کچھ برس قبل والد اور ماموں میں کسی وجہ سے رنجش ہوگئی تو نتیجے میں دونوں گھرانوں میں دُوری پیدا ہوگئی۔ والدہ نے اپنے شوہر کا ساتھ دیا، اس طرح ماموں امّی سے نہ ملتے تھے مگر مصیبت میں گھرا دیکھ کر خون نے جوش مارا اور وہ رنجشیں بھلا کر ہماری مدد کو آ گئے۔ کہتے ہیں نا کہ آخر کار بُرے دنوں میں اپنے ہی کام آتے ہیں یہ ماموں نے ثابت کر دکھایا۔
جب چچا نے دیکھا کہ ایک لڑکی تو ماموں کی بہو بنا دی گئی ہے تو انہوں نے اپنے تیسرے بیٹے کے لئے بھی رشتہ مانگنا اپنا فرض جانا اور جھٹ پٹ میری چھوٹی بہن کو منیب کے لئے مانگ لیا۔ والدہ نے کہا کہ خولہ ابھی چھوٹی ہے چند سال ٹھہر جائیں فی الحال منگنی کر دیں گے… لیکن چچا نہ مانے انہیں شک تھا کہ کہیں بھاوج خولہ کا رشتہ اپنے بھانجے سے نہ کر دے۔
خولہ چچازاد منیب کو پسند نہ کرتی تھی جبکہ ماموں زاد ساحر کو وہ دل سے چاہتی تھی۔ تاہم والد نے اس بار بھی اپنے بھائی کی محبت کو دل سے جدا نہ کیا اور خولہ کی منگنی منیب سے کر دی۔ انہی دنوں ایک لڑکا جس نے خولہ کو میری شادی کی تقریب میں دیکھا، اس کے پیچھے پڑگیا۔ خولہ نے اس سے کہا کہ تمہاری شکل میرے بھائی سے ملتی ہے۔ تم میرے بھائی بن جائو۔ اس نے کہا ٹھیک ہے۔ تم مجھے، اپنے مرحوم بھائی سبحان کی جگہ سمجھ لو۔ خولہ بھول پن میں اس سے ملنے لگی اور اُسے خط بھی لکھنے لگی، اس اعتبار پر کہ وہ اس کا بھائی بن گیا ہے لیکن وہ لڑکا صحیح نہ تھا اس نے میری معصوم بہن کو بے وقوف بنایا اور بعد میں اُسے بلیک میل کرنے لگا۔
خولہ کو جب اپنی غلطی کی سنگینی کا احساس ہوا تو وہ پریشان ہوگئی اور مجھے مظہر کی چالبازیوں سے آگاہ کیا۔ میں نے اپنے دیور ساحر کو ہر بات بتا دی تو اس نے مظہر کو جا پکڑا، اُس کی خوب خبر لی اور خولہ کی اس سے جان چھڑوائی۔
خولہ کے دل میں ساحر کی محبت نے گھر کر لیا لیکن اب تو منیب سے منگنی ہو چکی تھی، وہ کسی صورت ماموں کی بہو نہیں بن سکتی تھی، کیونکہ ہماری دو بڑی بہنیں پہلے ہی چچا کی بہویں تھیں اگر خولہ کا رشتہ منیب سے توڑ دیتے تو چچازاد دونوں بہنوئی بگڑ جاتے، اس طرح بہنوں کی زندگی پر بُرے نتائج مرتب ہوسکتے تھے۔
جوں جوں شادی کے دن قریب آتے جاتے تھے، خولہ رو رو کر ہلکان ہوئی جاتی تھی اس کا بس نہیں چلتا تھا کسی طرح منیب سے جان چھڑا لے… وہ آدھی رات کو اُٹھ اُٹھ کر دُعا کرتی کہ اللہ کرے کچھ ایسے اسباب پیدا ہو جائیں کہ اس کی اور منیب کی منگنی ٹوٹ جائے اور وہ ساحر کی ہو جائے۔ ساحر بھی دل میں اس کے لئے پسندیدگی رکھتا تھا لیکن اس وجہ سے مجبور تھا کہ خولہ کی منگنی ہو چکی تھی۔ بہرحال شادی کا دن مقرر ہوگیا۔ خولہ مایوں بیٹھ چکی تھی اگلے دن مہندی اور پھر رُخصتی تھی کہ اچانک وہ ہوا جس کا کسی کو گمان بھی نہ تھا۔
ہماری بھابی شادی سے قبل جس ساتھی آفیسر کو پسند کرتی تھی، اتفاق سے مظہر اس شخص کا چھوٹا بھائی نکلا۔ بھابی نے جب اپنے پسندیدہ کولیگ آفیسر کو منیب کی شادی کا دعوت نامہ بھیجا تو کارڈ مظہر نے بھی دیکھا اس پر پتا، فون نمبر سب درج تھا۔ خولہ کا نام دیکھ کر اس کے دل میں انتقام کی آگ بھڑک گئی اور اس نے منیب کو فون کر کے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ یوں خولہ کے کچھ خطوط اس نے منیب کو دکھائے اور کہا کہ تمہاری ہونے والی بیوی میرے ساتھ کئی ملاقاتیں کر چکی ہے جن کا تذکرہ ان خطوط میں موجود ہے۔ منیب نے نوشین بھابھی کو اس بات سے آگاہ کیا۔
نوشین کو تو جیسے موقع چاہئے تھا، وہ خولہ کے پاس آئی اور بولی۔ سچ سچ بتا دو کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ کیا یہ بات صحیح ہے کہ تم مظہر سے ملتی تھیں اور اُسے خط لکھتی تھیں۔ وہ بولی کہ ہاں… یہ بات صحیح ہے۔ میں اس سے ملتی تھی اور خطوط بھی لکھتی تھی ایسا جان کر خولہ نے کہہ دیا تاکہ وہ منیب سے جا کر یہ بات کہہ دے۔ نوشین کی اپنی شادی زبردستی ہوئی تھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ خولہ اور اس کے بھائی منیب کی شادی اس طرح ہو کہ وہ بھی زبردستی کے بندھن میں بندھ کر ناخوش زندگی گزاریں۔ اس نے منیب کو آگاہ کیا کہ خولہ کہتی ہے کہ مظہر نے صحیح کہا ہے وہ اس سے ملتی تھی اور خطوط بھی لکھے تھے۔ تبھی منیب نے عین وقت پر شادی سے انکار کر دیا۔
امّی نے پریشان ہو کر ماموں کوفون کیا تو وہ ساحر کو لے کر آ گئے اور بولے۔ خولہ مایوں بیٹھی ہے تو بیٹھی رہنے دو۔ اُسے ساحر کے نام کا زیور اور جوڑا پہنا دو۔ بارات وقت پر آئے گی لیکن دولہا اب ساحر ہوگا۔ والد پر تو منیب کا شادی سے عین وقت پر انکار ’’مَرے پر سو دُرّے‘‘ کے مصداق تھا، وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں پڑگئے تھے، جب شادیانے بجنے لگے تو چونک کر باہر آئے، والدہ نے آگاہ کیا کہ خولہ کو اس کا ماموں اپنی بہو بنانے کے لیے آ گیا ہے۔ وہ اب ساحر سے بیاہی جائے گی تم ساحر اور خولہ کے نکاح میں آ کر بیٹھ جانا، اسی میں ہماری عزت ہے۔ چچا کی بہو نہ بن سکی نہ سہی۔ ماموں کی بہو سہی۔ پہلے دو لڑکیاں چچا کی بہویں بن چکی ہیں اب دو ہماری بیٹیاں ماموں کے آنگن کا سنگھار ہو جائیں گی تو اس میں کیا قباحت ہے۔ اللہ ساحر کو لمبی عمر دے جس نے ہماری لاج رکھ لی ورنہ آج لوگ ہم پر اُنگلیاں اُٹھاتے۔
منیب نے جو ہمارے ساتھ کیا بُرا کیا لیکن اللہ تعالیٰ عزت رکھنے اور عزت بڑھانے والا ہے۔ والد نے یہ سُنا تو آنسو پونچھ لئے، سکون کا ایک تاثر ان کے افسردہ چہرے پر بکھر گیا اور خولہ کا نکاح ساحر سے ہوگیا۔ آج میں اور وہ اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ سچ ہے اللہ تعالیٰ کبھی کبھی معجزے دکھاتا ہے۔ خولہ اور ساحر کی شادی بھی کسی معجزے سے کم نہیں۔
(ر… لاہور)