ساون کا مہینہ تھا۔ پل میں بارش ، پل میں دھوپ۔ تبھی ایک روز کالج جاتے ہوئے بارش نے آلیا۔ نپے تلے قدم اٹھاتی کالج جارہی تھی۔ سڑک پر ایک جگہ نشیب میں پانی جمع تھا، کسی منچلے نے تیزی سے گاڑی نکالی اور گدلے پانی کے چھینٹوں نے میرے اجلے یونیفارم کو خراب کر دیا۔ گھبرا کر مڑی تو پائوں رپٹ گیا اور میں پوری کی پوری اسی گدلے پانی میں جاپڑی۔ کار تو فراٹے بھرتی نکل گئی لیکن ایک نوجوان جو اس کار کے پیچھے آرہا تھا، اس نے اپنی بائیک روک لی اور آگے بڑھ کر مجھ کو اٹھنے میں سہارا دیا۔ کتابیں پانی میں جاپڑی تھیں ، ان کو چن کر اٹھایا۔ خفت سے اپنی چوٹ بھول چکی تھی۔ اس نے پوچھا۔ آپ ٹھیک تو ہیں؟ چل سکتی ہیں ؟ آپ نے جانا کہاں ہے ؟ پہلے تو کالج جارہی تھی لیکن اب میں نے روہانسی ہو کر اپنے یونیفارم کو دیکھا جو بارش کے پانی سے چیزی پرنٹ ہو گیا تھا۔ اگر برا نہ مانیں تو آپ کے گھر تک ڈراپ کردوں؟ مجھے لنگڑاتے دیکھ کر بولا ۔ واقعی مجھ سے چلا نہ جا رہا تھا۔ مجھے رکشہ لادیں، خود چلی جائوں گی۔ اس نے اپنی موٹر بائیک فٹ پاتھ پر ایک دکان کے چھجے کے نیچے کھڑی کر دی اور میرے لئے رکشہ لینے چلا گیا۔ میں اس کی بائیک کے پاس کھڑی تھی۔ دس منٹ بعد وہ رکشہ لے آیا۔ بڑی مشکل سے سوار ہوئی کیونکہ چوٹ درد کر رہی تھی۔ گھر پہنچی تو والدہ نے کہا۔ خیریت ہے ، واپس آگئی ہو ؟ ہاں امی جان بارش کی وجہ سے … میرے کپڑے دیکھ کر سمجھ گئیں۔ سہارا دے کر پلنگ پر لٹایا۔ پین کلر دے کر میرے لئے چائے بنانے چلی گئیں۔ سارا دن اسی نوجوان کا خیال آتارہا، جو کہ خوش اخلاق تھا اور خوش شکل بھی ! اس کی نیکی سے دل متاثر تھا، جس نے مجھ کو چلتے ٹریفک میں مزید ہزیمت سے بچا لیا تھا۔ چوٹ لگنے کی وجہ سے تین روز تک کالج نہ جا سکی۔ تیسرے روز اسی جگہ اس کو کھڑے پایا، جیسے کسی کا انتظار کر رہا ہو۔ میں نے شکریہ کہا تو پوچھا۔ اس روز گرنے سے آپ کو چوٹ آئی تھی، اب تکلیف تو نہیں ہے ؟ تین روز تک کالج نہیں آئیں۔ کیا تین روز تک آپ میری راہ دیکھتے رہے ؟ ہاں، میں تو پہلے بھی آپ کو دیکھتا رہا ہوں۔ دراصل میر ا دفتر بھی آپ کے کالج کے قریب ہے اور ہمارا راستہ بھی ایک ہے۔ اس روز پڑھائی میں جی نہ لگا۔ سوچ اس نوجوان کے خیال میں اٹکی تھی، جس نے میرے ساتھ بھلائی کی تھی۔ دل میں پچھتاوا تھا کہ اس کا نام ہی پوچھ لیتی کیونکہ وہ اچھا لگا تھا۔
خدا کی کرنی انہی دنوں والد صاحب کا تبادلہ ہو گیا اور ہم کو وہ شہر چھوڑنا پڑا۔ تبادلے کے بعد سامان کی پیکینگ ، پھر نئی جگہ ، نئے گھر میں شفٹنگ ۔ امی پر کام کا ایسا لوڈ پڑا کہ بیمار پڑ گئیں اور میں کالج میں دوبارہ داخلہ نہ لے سکی۔ بیماری تو ایک بہانہ تھی۔ ان کے اندر شاید پہلے سے ہی کسی مرض نے جڑ پکڑ رکھی تھی۔ جو نہی کام کا بوجھ پڑا ، مرض ظاہر ہوا اور رفتہ رفتہ بالآخر وہ ایک روز وہ ہم سے منہ موڑ گئیں۔ ہم پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ جینا اور سانس لینا بھی ان کے بنا محال لگنے لگا۔ اب کالج کیسے جا سکتی تھی ، فوری طور پر گھر سنبھالنا تھا۔ چھوٹے دونوں بہن اور بھائی اسکول جاتے تھے۔ جب کبھی فرصت ملتی اسی نوجوان کا خیال آجاتا جو بارش والے دن میرے لئے رکشہ لایا تھا۔ دل میں کسک سی ہوتی تھی۔ سوچتی تھی کہ اے کاش! ایک بار پھر ملوں۔ اس کا نام پوچھ لوں مگر ہم تو وہ شہر ہی چھوڑ آئے تھے لہٰذاد و بارہ اس سے مل سکی اور نہ ہی رابطہ ہو پایا کیو نکہ میرے پاس اس کا پتا نہ تھا۔ امی کی وفات کو تین برس گزر چکے تھے۔ چھوٹی بہن نے میٹرک کر لیا تو ابو کو میری شادی کی فکر ہو گئی۔ کچھ رشتے آئے بھی تو ان کو پسند نہ آئے۔ ایک روز خالہ لاہور سے پنڈی آئیں۔ انہوں نے ایک رشتہ والد صاحب کو بتایا کہ لڑکا بیرون ملک کام کرتا ہے۔ لڑکی کا نکاح ٹیلیفون پر قبول ہو تو یہ رشتہ بہت اچھا ہے۔ یہ ہمارے خالو کے رشتے دار تھے۔ تبھی خالہ نے اس رشتے کی ضمانت دی تھی۔ والد صاحب نے تصویر دیکھی، تفصیلات حاصل کیں اور رشتہ قبول کر لیا۔ یوں میرا انکاح ٹیلیفون پر ہو گیا۔ نکاح کے بعد بھی مجھے بیرون ملک جانے کے لئے ڈیڑھ برس انتظار کرنا پڑا۔ بالآخر انہوں نے میر اویز بھیجا اور میں اکیلی ہی روانہ کر دی گئی۔ شادی کا ہنگامہ اور نہ ڈھول، شہنائیاں بجیں، شاید کہ ایسی ہی رخصتی میری تقدیر میں تھی۔ جب ایئر پورٹ پر اتری عرفان کی تصویر ہاتھ میں تھی، لیکن ان کو پہچانتی نہ تھی۔ ان کے ہمراہ جو دوسرا شخص مجھے لینے آیا تھا، اس نے مجھے اور میں نے اسے پہچان لیا۔ بے اختیار ہم دونوں کے منہ سے ایک ساتھ یہی الفاظ ادا ہوئے ۔ آپ ؟ عرفان نے حیرت سے ہم دونوں کو دیکھا اور بولے۔ تم دونوں تو ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے پہچانتے ہو، ہم یو نہی پریشان تھے۔ یہ دوسرا شخص عرفان کا چھوٹ بھائی فرقان تھا۔ وہی نوجوان جو بر سات کے دن ملاتھا اور میرے لئے رکشہ لایا تھا۔ جس کو دوبارہ دیکھنے کی آرزو دل میں کسک پیدا کرتی تھی اور آج دعا قبول ہوئی بھی تو کس موڑ پر، کسی رشتے سے کہ میں اس کی بھائی اور وہ میر ادیور تھا۔ پہلی نظر دیکھ کر تو سچ مچ حیران ہوئی۔ خوشی بھی ہوئی پھر نجانے کیوں دل بجھ سا گیا۔ وہ بھی مجھ سے بیگانہ سا اور ریز رو ہو گیا۔
جو سوالات ایئر پورٹ پر ذہن میں اٹھے تھے، گھر پہنچ کر ان کا جواب مل گیا۔ یہ کہ وہ عرفان کا چھوٹا بھائی ہے۔ ایف ایس سی کے بعد پڑھائی چھوڑ کر کوئی ڈپلوما کیا اور پھر عرفان صاحب نے اس کو اپنے پاس بلوا لیا۔ اب وہ بڑے بھائی کے ساتھ رہتا تھا۔ دیور کے رشتے کو مانتے ہوئے میں نے اسی وقت ماضی کی آرزو کو اپنے سینے میں دفن کرنے کا تہیہ کر لیا کیونکہ اب میں عرفان کی منکوحہ تھی لیکن پہلے ہی دن میرے عہد کرنے کے باوجود شوہر کے دل میں شک پڑ گیا کہ ہم دونوں کیونکر ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ تب ہم نے بات بنادی۔ ان کا دل مطمئن نہ کر سکی۔ اگرچہ فرقان نے اس روز کے بعد بلا ضرورت کلام ترک کر دیا تھا، مجھ سے کترانے لگا لیکن میرے سرتاج کے دل کے وسو سے نہ گئے اور وہ چپ چپ سے رہنے لگے۔ آخر ایک دن انہوں نے پوچھ ہی لیا کہ تم شادی سے پہلے کسی سے پیار تو نہ کرتی تھیں، کسی سے ملتی تو نہ تھیں؟ میں نے کہا۔ ہر گز نہیں۔ سوچا کہ شاید فرقان نے اپنے بھائی کو میرے بارے میں کچھ بتا دیا ہے تبھی میں نے بھی ان کو مطمئن کرنے کی خاطر بتادیا کہ ایک روز جبکہ صبح سویرے کالج جانے کو گھر سے چلی تھی، اچانک برسات ہونے لگی اور سڑک پر ایک جگہ نشیبی میں کچھ پانی جمع ہو گیا۔ ادھر سے گزرتے ہوئے ایک کار نے ٹکر مارنے کی کوشش کی اور میں گر گئی۔ چوٹ تو معمولی آئی مگر اس وقت کیچڑ میں گر جانے سے بھیگ گئی۔ ایک نوجوان نے رکشہ لا کر دیا اور میں گھر واپس چلی گئی۔ وہ نوجوان تمہارا بھائی فرقان تھا۔ وہ بولے ۔ اگر ایسی بات تھی تو پہلے ہی روز تم نے مجھے یہ سیارا قصہ کیوں نہ سنایا اور بات کو گول مول کر گئیں ؟ اس لئے کہ آپ مزید شک نہ کریں۔ بات اس سے زیادہ کچھ تھی بھی نہیں۔ کیا تم لوگ دوبارہ کبھی نہ ملے ؟ میں نے کہا۔ نہیں ! قسم کھائو، میرے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائو۔ تبھی میں ہچکچائی تو انہوں نے اس بات کا اور غلط مطلب لے لیا۔ ان کا دل گھٹ گیا، مگر خاموش ہو گئے جیسے کسی مصلحت سے کام لے رہے ہوں۔ اب ان کارویہ میرے ساتھ سرد مہری اور بے دلی کا سارہنے لگا۔ یہ بات بہت تکلیف دیتی تھی۔ چاہتی تھی کسی طرح ان کا دل میری طرف سے صاف ہو جائے کیونکہ میر ا فرقان کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ نہ رہا تھا کہ کسی کو اعتراض ہوتا۔ حقیقتا بس دو چار بار راستے میں ملے تھے اور کچھ خاص بات نہ تھی۔ مجھے تو اس کا نام تک معلوم نہ تھا، کسی برائی میں پڑنا تو دور کی بات تھی۔ جب غلط فہمی دل میں جنم لے لیتی ہے تو پھر اسے دور کر نالازم ہو جاتا ہے ، ورنہ کون کسے سمجھا سکتا ہے، مگر میں شوہر کی معنی خیز خاموشی کا جواب خاموشی سے دے رہی تھی۔ از خود اپنی صفائی پیش کرنے سے جی ڈرتا تھا۔ جانتی تھی کہ ایک نامعلوم اندیشے کی بنا پر میرے شوہر خواہ مخواہ شک کا شکار ہیں اور وہ بھی ایک مقدس رشتے کے بارے میں۔
یہ صورتحال کسی کے لئے بھی زیادہ عرصے تک نا قابل برداشت تھی، تبھی ایک روز میں نے فرقان سے کہا۔ تم کہیں چلے جائو ، خدارا اور کوئی نوکری تلاش کر لینا تا کہ میرا گھر تباہ ہونے سے بچ جائے اور تمہارے بھائی کو بھی سکون مل جائے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ ایک دن وہ اپنے بھائی کو خدا حافظ کہے بغیر چلا گیا۔ ایئر پورٹ سے فون کر کے عرفان کو کہا کہ جلدی میں تھا، ضروری جانا پڑ رہا ہے۔ کمپنی بھجوار ہی ہے لہٰذا آپ کو خدا حافظ نہیں کہہ سکا۔اب میں شاید ہی لوٹ کر آئوں۔ جہاں کمپنی چاہے گی، تعینات کر دے گی۔ جانتی تھی کہ یہ تو ایک بہانہ ہے ورنہ وہ ہمارے چہروں پر مسکراہٹ واپس لانے کو یہاں سے چلا گیا ہے۔ جلد ہی پتا چل گیا کہ وہ نوکری سے استعفیٰ دے گیا ہے۔ اس کے جانے سے تھوڑا سا کھلا سانس لیا، مگر پھر میرے دل پر مردنی چھا گئی کیونکہ ناحق اسے سزاوار کرنے کا قلق تھا۔ قلق بھی جاتارہتا اگر فرقان کے چلے جانے سے عرفان کو خوشی اور سکون مل جاتا۔ایسانہ ہو سکا اور ان کو خوشی پھر بھی نہ ملی، شاید کہ فرقان کے یوں چلے جانے کا انہیں بھی قلق ہوا تھا۔ آخر کار ایک روزانہوں نے مجھ سے پوچھ ہی لیا۔ سچ بتادو کیا تم شادی سے قبل فرقان سے ملا کرتی تھیں، کیا تم دونوں کے درمیان محبت کا رشتہ تھا ؟ ایسا کچھ نہیں تھا۔ میں قسم کھاتی ہوں، پھر بھی یقین نہیں تو بھی معاف کر دیجئے کہ مجھ سے اب یہ گھٹن برداشت نہیں ہوتی۔ انہوں نے یقین نہ کیا۔ ان کا رویہ میرے ساتھ بیگانہ تر ہوتا چلا گیا۔ تکلیف دہ حد تک خاموشی ہر وقت گھر میں براجمان تھی۔ یہاں تک کہ وہ مجھ سے ہنس کر اور میں ان سے مسکرا کر بات کرنے کو ترسنے لگے ، جیسے کوئی شیطانی قوت ہمارے درمیان جدائی کی چادر تانے کھڑی تھی۔ کچھ عرصے بعد ہی انہوں نے ایک عورت سے دوستی کر لی اور اب وہ زیادہ وقت باہر گزارنے لگے ، جبکہ میں دن بھر قیدی کی مانندا کیلی گھر میں رہتی تھی۔ اپنی اس زندگی سے تنگ تھی۔ وطن جانے کو کہتی تو عرفان بھڑک اٹھتے کہ کس سے ملنے کی آرزو ہے، کس کی یاد تم کو بلاتی ہے۔ میں نے اپنے شوہر کا دل جیتنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر ناکام رہی۔ پاکستان سے کبھی کبھی فرقان کا خط آجاتا، یہ جواب نہ دیتے۔ وہ خدا کے واسطے دیتا کہ بھائی جان میرا قصور تو بتادیجئے جو مجھ کو جواب نہیں دیتے لیکن اس پتھر دل پر کچھ اثر نہ ہوا۔ واقعی عرفان ایک پتھر دل انسان تھا۔ ہماری کوئی بھول نہ تھی، پھر بھی ہم کو ایسی سزادی کہ جس کو سہنا ہمارے بس کی بات نہ رہی۔ انہوں نے یہ ستم بھی ڈھایا کہ ایک عورت سے دوستی کر لی۔ اس سے فون پر باتیں کرتے اور ملنے کا وقت مقرر کرتے۔ کوئی خطانہ کر کے بھی ایسی پاپن بن گئی تھی کہ ان کے سب گناہ و ثواب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی اور اف نہ کر سکتی تھی۔
وطن کو چھوڑے چار سال بیت گئے تھے۔ گو د ہری ہوئی اور نہ وطن جا سکی۔ اب مجھے ابو اور بہن بھائی کی یادستاتی تھی۔ جی چاہتا وہ آجائیں یا میں ہی اڑ کر ان کے پاس پہنچ جائوں۔ دن رات دعا کرتی۔اے اللہ ! کوئی معجزہ ہو جائے اور میں پاکستان چلی جائوں۔ دعا تو قبول ہو گئی مگر جو وطن جانے کا سبب بنا اچھانہ تھا۔رضائے الٰہی سے ہماری ساس کا انتقال ہو گیا۔اب تو وطن جانا ہی تھا۔ عرفان نے فوری چھٹی لی اور ہم پاکستان آگئے۔ میرے ابو بھی فوتگی پر آئے، ایک روز رہ کر چلے گئے۔ پندرہ دن بعد دوبارہ آئے تعزیت کرنے کے بہانے اور عرفان سے کہا کہ جب سے ہم نے اپنی بیٹی تمہارے ساتھ بیاہی ہے ، اس کو دوبارہ میکے آنا نصیب نہیں ہوا۔ آج اسے لے جانا چاہتا ہوں تا کہ فلزا چند روز میرے پاس بھی رہ لے۔ بہن اور بھائی سے ملے۔ امی کا چالیسواں ابھی نہیں ہوا ہے اور یہ گھر سے جارہی ہے ، ہمارے رشتے دار کیا کہیں گے کہ بہو آتے ہی میکے چلی گئی۔ آپ اس کو چالیسویں تک یہاں ہی رہنے دیجئے۔ میں خود بعد میں آپ کے گھر آجائوں گا، فلزا کو ساتھ لے کر۔ ابو ! داماد کا یہ عذر سن کر خاموش ہو گئے۔ چالیسواں گزرا تو چھٹی میں ایک ہفتہ رہ گیا۔ عرفان کو واپس جانا تھا۔ابو نے فون کیا۔ تمہاری چھٹی ختم ہو رہی ہے ، فلزا کو ہمیں ملوانے کب لائو گے ؟ مارے باندھے یہ مجھے لاہور سے پنڈی ابو کے گھر لے آئے لیکن ایک روز کے لئے …! کہا کہ بہن، بھائی سے مل لو پھر واپس چلتے ہیں۔ یہ سن کر میں روپڑی۔ابو نے مجھے از حد افسردہ پاکر عرفان سے اصرار کیا کہ ابھی اسے رہنے دو۔ دو چار روز بعد میں خود چھوڑ جائوں گا۔ عرفان مجبور سے ہو گئے۔ ابو کے تیور کڑے دیکھ کر دم نہ مار سکے لیکن جاتے ہوئے تنہائی میں بولے۔ دیکھو یہ معاملہ الجھ جائے گا۔ اگر ابھی تم میرے ساتھ نہ چلیں۔ جان لو کہ میں پھر کبھی تم کو لینے نہیں آئوں گا۔ اس خیال سے کہ یہ نہ بھی آئے، ابو مجھے سسرال پہنچادیں گے۔ میں نے کہا۔ جو بھی ہو، ابھی تو میں میکے میں دو چار دن رہوں گی۔ بہن اور بھائی سے عرصے کی جدائی ہے ، جی بھر کے باتیں بھی نہیں کر سکی۔ سوچ لوا گر معاملہ سنجیدہ ہو گیا تو پھر مت پچھتانا۔ آپ کی بات کا مطلب میں سمجھی نہیں۔ جانتا ہوں میرے بغیر رکنا چاہتی ہو، پاکستان آنے کے لئے تم بے قرار تھیں، نجانے کس سے ملنے کی آرزومند ہو۔ انہوں نے فرقان کا نام نہ لیا مگر میری سمجھ میں پھر بھی نہ آیا کہ جب فرقان اپنی والدہ کی وفات پر بھی اپنے گھر لاہور نہیں آیا تو پھر یہ کس کی بابت شک و شبے کا اظہار کر رہے ہیں۔ عرفان نے ان پانچ برسوں میں مجھے اس قدر اذیت دی تھی کہ بے اختیار منہ سے نکلا۔ جو ہونا ہے ہو جائے ، مجھے پر وا نہیں ہے۔ اب مزید ذہنی اذیت برداشت نہیں ہوتی۔ یہ الفاظ سنتے ہی خاموشی سے اپنا بیگ اٹھا کر بغیر کسی کو خدا حافظ کہے گھر سے چلے گئے۔ اگلے روزانہوں نے دیارِ غیر واپسی کے لئے پر تولے اور پھر بغیر ہم کو اطلاع کئے وطن سے روانہ ہوگئے، جیسے کہ مجھ کو چھوڑنے کا بہانہ ڈھونڈ رہے تھے۔ چار دن بعد میں نے ابو سے کہا۔ مجھے گھر چھوڑنے چلئے۔ وہ بولے۔ ارے بھئی … ایک ہفتہ پوراتو ر ہو، میں عرفان سے بات کر لیتا ہوں۔ ابو نے فون ملایا۔ ہمارے سسر صاحب نے اٹھایا اور بتایا کہ عرفان واپس چلا گیا ہے۔ یہ سن کر والد صاحب پریشان ہو گئے۔ مجھ سے سوال کیا۔ آخر اس نے ایسا کیوں کیا، کیا کوئی خاص مسئلہ تھا، تم دونوں کے درمیان کوئی بدمزگی چل رہی تھی ؟ میں کیا بتاتی۔ ابو ! کچھ بھی ایسی بات نہ تھی شاید ان کو اپنی جاب کی وجہ سے جلد جانا پڑ گیا ہو گا۔ والد صاحب جہاندیدہ تھے، عرفان کا رویہ، میراخوف زدہ چہرہ اور میری گرتی صحت اس بات کی چغلی کھارہی تھی کہ کوئی سنگین بات ہے جو میں ان سے چھپارہی ہوں۔
دیکھو بیٹی ! مجھ سے کچھ مت چھپاؤ اور ہر بات سچ سچ بتادو، اسی میں تمہاری بہتری ہے۔ابو کو میں نے بتادیا کہ عرفان شکی مزاج ہیں اور وہ مجھ پر شک و شبہ رکھتے ہیں حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ والد نے زیادہ کرید نامناسب نہ سمجھا۔ وہ مجھ کو مزید پریشان کرنا نہیں چاہتے تھے۔ تبھی انہوں نے عرفان کو فون کیا۔ عرفان نے بھی اپنے ذہن کے اندرونی خلفشار کے بارے میں روشنی نہ ڈالی۔ بس اتنا کہا۔ آپ کی بیٹی میرے ساتھ خوش نہیں ہے۔ اسی لئے میں اس کو طلاق دے رہا ہوں اور چند دنوں بعد طلاق کے کاغذات بھیجوا دیئے گئے۔ میں بے قصور سزاوار ہو گئی۔ گھر اجڑ جانے کا دکھ کس کو نہیں ہوتا، مجھے بھی بے حد ہوا لیکن کیا کر سکتی تھی، شاید کہ یہ میری تقدیر کا لکھا تھا جو پورا ہو کر رہا۔ اپنی بد نصیبی سے سمجھوتہ کر لیا۔ سال بعد والد صاحب نے نکاح ثانی کے لئے کہا تو میں نے ہاتھ جوڑ لئے کہ اب مجھے دوبارہ اس تجربے سے نہیں گزرنا۔ ایک ہی شادی کافی ہے میرے لئے ۔ آپ کو میری ضرورت ہے۔ ماہم بیاہ کر چلی جائے گی، بھائی بھی اپنی بیوی کے ساتھ مصروف زندگی ہو جائیں گے۔ آپ کا کیا بنے گا۔ بڑھاپے میں اپنی خدمت سے محروم نہ کیجئے۔ اکلوتی بہو اتنا خیال کرے نہ کرے جس قدر میں کروں گی۔ وقت گزرنے لگا۔ ماہم کی شادی ہو گئی اور وہ آسٹریلیا چلی گئی۔ میرا بھائی بھی اب شادی شدہ تھا۔ کچھ عرصے بعد وہ اپنی بیوی کے ہمراہ سعودی عربیہ چلا گیا۔ گھر میں ابو اور میں رہ گئے ۔ ابو بیمار رہنے لگے تھے ،ان کو واقعی میری ضرورت تھی اور میں خوش تھی کہ اللہ نے والد کی آخری عمر میں مجھ کو خدمت کی سعادت نصیب کی ہے۔ والد کا بہت خیال رکھتی تھی اور دیکھ بھال میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرتی۔ ان کو میری بے حد فکر تھی۔ بیٹھے بیٹھے ٹھنڈی آہ بھرتے اور دعا کرتے۔ اے خالق دو جہاں ! میری زندگی میں ہی فلزا کو اپنے گھر کی خوشیاں نصیب ہوں۔ ایک روز اچانک ایک بری خبر سنی۔ یہ اطلاع دینے ہمارے سسر اور ساتھ فرقان آئے تھے۔ انہوں نے ابو کو بتایا کہ عرفان کا ایک حادثے میں انتقال ہو گیا ہے۔ دیارِ غیر سے میت آرہی ہے۔ میں خاص طور پر خود آیا ہوں کیونکہ میری روح دکھ سے بے قرار و بے چین ہے۔ عرفان اللہ کی امانت تھی، اس نے سنبھال لیا لیکن مجھ کو فلزا کی طلاق کا از حد رنج ہوا تھا اور آج بھی وہ رنج دل میں موجود ہے۔ گرچہ طلاق کا فیصلہ عرفان کا اپنا تھا، ہم کو اس نے اس فیصلے میں شامل نہیں کیا، پھر بھی میں بیٹی فلز اسے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ اس کو بے قصور طلاق ہو گئی ہے اور مجھے فرقان نے سب کچھ بتا دیا ہے۔ اس واقعہ کو دو سال گزر گئے۔ والد صاحب اب بہت زیادہ بیمار تھے۔ ہمارے سسر کبھی کبھی ابو سے بات کرتے اور خیریت بھی دریافت کرتے رہتے تھے۔ جب علالت کی شدت کا سنا تو ایک روز خود عیادت کو آگئے۔ والد صاحب ان کو دیکھ کر رو پڑے کہ میں تو دم رخصت ہوں، میرے بعد فلزا کا کیا ہو گا؟ سسر صاحب نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر تسلی دی اور کہا۔ اگر مجھ پر بھروسہ اور فرقان پر اعتماد کرو تو فلزا کا ایک بار پھر ہاتھ مانگتا ہوں۔ عرفان نے غلطی کی اور اب وہ اس دنیا میں ؟ بھی نہیں ہے۔ فلزا کو بیٹی بنایا تھا، آج بھی میری بیٹی ہے۔ والد صاحب نے نے بھی ملتجی نگاہوں سے میری جانب دیکھا، جیسے کہتے ہوں۔ بیٹی ! مجھ پر رحم کھا کر ہی اس فیصلے کو قبول کر لو کہ یہ تمہارے حق میں اچھا ہے اور میں بھی سکون سے مر سکوں گا۔ سسر صاحب نے بھی مجھ سے استدعا کر دی کہ بیٹی ! اب تو فیصلہ تمہارے اپنے اختیار میں ہے۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ فرقان نے بھی ابھی تک شادی نہیں کی ہے ۔ تم ایک بار پھر ہمارے گھر کی رونق بن سکتی ہو۔ کہا گیا ہے کہ باپ کی دعا قبول ہوتی ہے اور بیمار کی بھی اور اس شخص کی بھی جو زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہو۔ اپنے والد کی حالت دیکھتے ہوئے مجھے انکار کی جرات نہ ہوئی۔ فرقان سر جھکائے بیٹھا تھا اور پھر میں نے بھی اپنے دونوں بزرگوں کی التجا پر سر جھکا لیا۔ شاید کہ میری شادی فرقان سے لکھی تھی کہ اتنے کٹھن مراحل سے گزر کر بھی میں ان کی شریک حیات بن گئی۔ اسی گھر میں دوبارہ بہو کی حیثیت سے داخل ہو گئی جہاں پہلے ایک بار دلہن بن کر گئی تھی۔ میرے فرقان سے نکاح کے چوتھے روزا با جان کا انتقال ہو گیا۔ان کے چہرے پر ایسا سکون تھا جیسا ان لوگوں کے چہروں پر ہوتا ہے جن کی دعا زندگی کی آخری سانس لینے سے پہلے قبول ہو جاتی ہے۔