میرے میاں عیاش آدمی تھے۔ اپنی ذات پر ان کے اخراجات ہی بے بہا تھے۔ اچھی شکل وصورت، خوش لباس ہر وقت عمدہ خوشبو میں مہکتے ، دوسروں کے ساتھ خوش اخلاق مگر میرے ساتھ نہیں۔ کاروبار بھی ان کا خوب چلتا تھا لیکن اوباش بہت تھے۔ دولت برسنے لگی تو بری صحبت میں پڑ گئے۔پہلے بہت اچھے تھے۔ میرا خیال رکھتے تھے، جب تین بچوں کی ماں بن گئی، میری توجہ بچوں کی جانب مبذول رہنے لگی۔ موصوف نے مجھے نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔ ساری توجہ باہر کی سرگرمیوں کی طرف رہنے لگی۔ باہر کی سرگرمیاں کیا تھیں۔ رقص و موسیقی کے رسیا تھے، کوٹھوں پر جا کر طوائفوں کا ناچ گانا سنتے۔ پہلے کبھی کبھار جاتے پھر یہ روز کا معمول ہو گیا کہ ایک نو خیز طوائف زادی سے دل لگا لیا تھا۔ شراب و کباب کے اس قدر رسیا ہو گئے کہ گھر بار کا ہوش نہ رہا۔ بچوں کی ذمہ داریاں مجھ پر ڈال دیں اور خود آزاد ہو گئے۔ دن بھر اپنے کاروبار کے سلسلے میں اور رات کو عیاشی میں ڈوبے رہتے۔ صبح گیارہ بارہ بجے سو کر اٹھتے اور دفتر چلے جاتے۔ یہی ان کا معمول تھا۔ ان کو اپنی سرگرمیوں سے فرصت نہ تھی کہ بیوی بچوں کو کچھ وقت دے پاتے ۔ گھریلو مسائل سے نظریں چرانے لگے۔جب ان کی لا پروائیاں حد سے بڑھ گئیں، میں نے دبی زبان میں احتجاج شروع کر دیا۔ پہلے تو جھوٹ کا سہارا لیا کہ کاروبار بہت بڑھ گیا ہے تبھی مصروفیت بڑھ گئی ہے۔ گھر کو ٹائم نہیں دے پاتا۔ روز آدھی رات کے بعد شراب کے نشے میں دھت آتے اور بات بے بات الجھتے ، میری اور بچوں کی نیند خراب کرتے۔ کچھ کہتی تو بری طرح مارنے لگتے ، تب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جا تا خوب روتی رہتی اور نصیب کو کوستی کہ خدا کرے یہ دولت نہ ر ہے جس کے بل بوتے پر خود تو عیاشی کرتے ہیں اور ہم کو پائی پائی کے لئے ترساتے ہیں۔خدا کی کرنی انہی دنوں میرے شوہر کو ان کا ایک پرانا کلاس فیلو ملا ۔ اس کا نام شاہد تھا۔ بہت نیک تھا۔ یہ ان کا بچپن کا دوست تھا۔ اسکول میں پرائمری سیکشن کے طالب علم تھے۔ مدت بعد شاہد سے ملاقات ہو گئی، دونوں بہت خوش ہوئے۔ ظاہر ہے کہ بچپن کے دوستوں سے ملاقات دلی مسرت کا باعث ہوتی ہے۔ شاہد کو خبر نہ تھی کہ نعیم کو دولت نے اس قدر تبدیل کر دیا ہے کہ ایک محنتی اور ذہین آدمی اب شراب و کباب کی نذر ہو چکا تھا۔ وہ دوسرے شہر میں رہتا تھا، اس لئے مدت سے ملاقات نہ تھی اور نعیم کی زندگی کا یہ پہلو اس سے چھپا ہوا تھا یہ شاہد کوگھر لائے۔ باتوں باتوں میں اس سے ذکر کیا کہ ملازمت اس شہر میں ہو گئی ہے اور اب وہ رہائش کے لئے کرائے پر مکان کی تلاش میں ہے۔ میرے شوہر نے فورا آفر کر دی کہ میرا گھر حاضر ہے۔ اتنا بڑا گھر ہے۔ اس کی اینکسی میں رہائش پذیر ہو جاؤ۔ کرائے وغیرہ کی تو نعیم کو حاجت نہ تھی اور انیکسی خالی پڑی تھی۔ ان کو فائدہ یہ تھا کہ شاہد اور ان کے افراد خانہ کو ساتھ رکھنے سے میں تنہا نہیں رہوں گی کیونکہ وہ خود تو اب مستقل گھر سے غائب رہتے تھے اور میں کلی طور پر ملازموں کے رحم و کرم پر رہ جاتی تھی۔ شاہد نے کچھ پس و پیش کے بعد اس آفر کو قبول کر لیا اور ہفتہ بعد وہ بڑی بہن کے ہمراہ ہماری انیکسی میں شفٹ ہو گیا۔ اس کی یہ بہن شادی شدہ تھی لیکن شوہر سے ناراضگی کے سبب اپنے بھائی کے ساتھ رہتی تھی۔ اس کا نام تسلیم تھا۔
تسلیم بہت اچھی خاتون تھی۔ زیادہ وقت میرے پاس گزارتی۔ جب شاہد آفس چلا جاتا، وہ میرے پاس آ جاتی۔ مجھے بھی ان دنوں کسی غمگسار کی شدید ضرورت تھی۔ تسلیم کی صورت میں ایک غمگسار اور اچھی دوست مل گئی تھی۔جلد ہی ان دونوں بہن بھائی پر میرے شوہر کے کرتوت کھلنے لگے۔ یہ بہت حیران ہوئے کہ نعیم کس ڈگر پر چلے نکلے تھے۔ ان کو مجھ سے ہمدردی ہو گئی ۔ وہ نعیم کو موقع ملتا تو دبے لفظوں میں سمجھانے کی بھی کوشش کرتے ، تب اپنے معمولات میں ان کی مداخلت بری لگتی اور ان کا رویہ شاہد سے روکھا دکھا رہنے لگا۔ شاہد نے بھی محسوس کر لیا اور ہمارے ازدواجی جھگڑے کے بارے میں اپنے دوست سے بات کرنا ترک کر دی۔ تاہم اس کا دل ضرور کڑھتا تھا کہ اتنا اچھا آدمی اس کے بچپن کا دوست کس راہ پر چل نکلا ہے۔انہی دنوں تسلیم کے ساس سسر آئے اور شاہد سے صلح کی بات چیت کی کیونکہ تسلیم کی دو بیٹیاں بھی تھیں جو اپنی دادی کے پاس تھیں۔ ان کی خاطر وہ روٹھی ہوئی بہو کو منا کر لے گئے۔ بچیوں کی خاطر اس نے بھی اپنے خاوند سے صلح کر لی۔ اس کے جانے کے بعد تو میں پھر سے تنہا اور وحشت زدہ ہو گئی۔ وہ میری غمگساری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتی تھی، اپنا دکھ سکھ کہ کر دل کا بوجھ ہلکا کر لیا کرتی تھی۔ روتی تھی تو وہ چپ کرا دیتی اور تسلیاں دیتی کہ ذرا سا اور صبر کر لو آخر تو نعیم بھائی کسی دن راہ راست پر آجائیں گے۔ تسلیم کے جانے سے میرا غم دگنا ہو گیا۔ جس کو شاہد نے بھی محسوس کیا۔ وہ میرے بچوں کا بہت خیال رکھنے لگا۔ شام کو دفتر سے آ کر ان کے ساتھ لان میں کھیلتا اور ان کو وقت دیتا۔ بچے اس سے بہت مانوس ہو گئے اور اب وہ باپ کی بجائے انکل شاہد کے گھر لوٹ آنے کی راہ تکتے تھے۔چھٹی کے دن بھی نعیم گھر نہ آتے ۔ شاہد میرے بچوں کو سیر کرانے لے جاتے۔ میں بھی اس نیک آدمی کا خیال رکھنے لگی جس کو کوئی بری عادت نہ تھی۔ گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر ، یہی اس کی زندگی تھی۔ فارغ وقت میں بور ہوتا تو میرے بچوں سے دل بہلاتا تھا۔ اب میں اسے صبح شام کھانا بھجوانے لگی۔ کبھی ملازمہ کے ہاتھ اور بھی میرے بچے لے جاتے۔ اگر کوئی فوری ضرورت پڑ جاتی، بچے بیمار ہو جاتے ، ان کے اسکول کا کوئی مسئلہ ہوتا ، شاہد کے پاس چلی جاتی کہ بھائی یہ مسئلہ ہے، وہ فورا میرا کام کر دیا کرتا تھا۔ رفتہ رفتہ ہماری رسمی سی باتیں ہونے لگی ، مثلاً میں پوچھتی شاہد بھائی آج کم کھایا ہے، کیا سالن اچھا نہ تھا۔ وہ کہتا نہیں بھابی سالن تو بہت مزیدار تھا مگر میری طبیعت کچھ بو جھل سی تھی، زیادہ بھوک نہ تھی۔ تنہائی کا شکار عورت تو چاہتی ہے کوئی اس سے بات کرے، اس کا دکھ درد بانٹے۔ تسلیم چلی گئی مگر شاہد میری چینی اور دلی کیفیت سے آگاہ تھا۔ اس کی بہن میرے بارے میں ہر بات اسے بتا دیا کرتی تھی۔ تبھی جب میں کچھ بات کرتی، شاہد غور سے سنتا اور میری دلجوئی کر دیا کرتا۔ کبھی تسلی کے دو بول کہہ دیتا تو میرا دل ہلکا ہو جاتا ، گویا تسلیم نہ تھی تو اس کا بھائی مجھے اپنا لگنے لگا تھا۔ ایک وقت آیا کہ میں اپنے گھریلو معاملات پر اس کے ساتھ کھل کر بات کرنے لگی۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ میں شدید افسردگی اور تنہائی کا شکار ہو چکی ہوں اور اس نے اگر مجھے ان جذباتی الجھنوں کے بھنور سے نہ نکالا تو شاید میں خودکشی ہی کرلوں۔
شاہد کو ہماری انیکسی میں رہ کر نعیم کے معمولات کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا تھا۔ اس نے بغور میرے خاوند کی شخصیت کا مطالعہ کیا جس کا رویہ بظاہر کچھ اور اندر سے کچھ اور تھا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ واقعی اپنی عیاشی کے مزے لوٹنے میں نعیم اندھا ہو چکا ہے اور شریک حیات کو مسلسل اذیت سے دوچار کر رکھا ہے۔ اس احساس کے ہوتے ہی اس شخص نے میرے گھر یلو اور بچوں کے مسائل اپنے سر لے لئے۔ بچوں کو اسکول کا ورک کرانا۔ ٹیوشن کا انتظام کر کے دینا، ان کو شاپنگ کے لئے ساتھ لے جاتا، بیمار ہوں تو علاج کے لئے بھاگ دوڑ میں مدد دینا جبکہ نعیم نے تو ہم کو یکسر نظر انداز کر دیا تھا، ان کے پاس ان کاموں کے لئے وقت ہی نہ تھا۔ قدرتی بات کہ ان حالات کا جو نتیجہ نکلتا ہے وہی نکلا۔ میں شاہد ہی کو اپنے درد کا مسیحا سمجھنے لگی اور اس کی ہمدردی میں سکون تلاش کرنے لگی۔ وہ غیر شادی شدہ تھا، نو جوان تھا۔ مجھے اس سے انسیت محسوس ہونے لگی۔ اس جھکاؤ کو میرے رویے سے اس نے بہت جلد محسوس کر لیا اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے بہت جلد ایک دوسرا امکان کرائے پر حاصل کر لیا۔ بہت روکنے کے باوجود وہ ہمارے گھر سے چلا گیا اور نئے مکان میں منتقل ہو گیا۔ یہ مکان ہمارے گھر کے پاس تھا اور اسی لین میں تھا۔ صرف آٹھ دس گھر درمیان میں تھے۔ بچوں کو اس نے اپنا گھر دکھا دیا کہ ضرورت ہو تو مجھے بلوا لینا۔ اس کے جانے کے پندرہ روز بعد ایک رات نعیم زیادہ نشے میں دھت گھر آئے۔ ڈھائی بجے شب کا وقت ہوگا ، آتے ہی مجھے مارنے لگے۔ بے تحاشہ مارا کہ میرے چہرے اور بدن پر نیل پڑ گئے ۔ دراصل وہ اپنے حواس میں نہ تھے نجانے کس آوارہ حسینہ سے لڑ کر آئے تھے کہ تمام غصہ گھر آتے ہی مجھ پر اتار دیا۔صبح وہ بے ہوش پڑے تھے اور میرے حال کی کچھ خبر نہ تھی ، رو رو کر ہلکان ہوگئی تو بے قراری میں بچوں کا ہاتھ تھاما اور گھر سے نکل گئی۔ گلی سے گزرتے ہوئے میرے بڑے بیٹے سلیم نے جس کی عمر ان دنوں سات برس تھی ، اشارے سے بتایا کہ امی یہ انکل شاہد کا گھر ہے۔ اتوار کا دن تھا۔ میں تو غم سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ یونہی بو جھل قدموں سے چل پڑی تھی۔ بغیر سوچے کہ بچوں کو لے کر کہاں جا رہی ہوں ۔ سلیم کے اشارے پر میں نے اپنے غمگسار کا در کھٹکھٹایا۔ شاهد خود باہر آیا، مجھے بچوں کے ہمراہ دروازے پر دیکھ کر پوچھا۔ آپ؟ خیر تو ہے؟ میں نے بتایا شاہد بھائی خیر نہیں ہے۔ رات بری طرح نشے میں نعیم نے مجھے مارا ہے اور میرا سارا بدن نیل نیل کر دیا ہے، یہ دیکھو۔ میں نے چہرے سے چادر ہٹائی اور اپنی گردن بھی دکھائی جس پر گلا دبانے سے نیلا اور کالا نشان طوق کی صورت میں موجود تھا۔ اس کو بے حد دکھ ہوا، بولا۔ بھائی اندر آ جائیے، یہاں دروازے پر بات کرنا ٹھیک نہیں۔ میں نے اس کے گھر کے اندر قدم رکھ دیا اور تمام احوال کہہ سنایا۔ حالات کا تو وہ خود چشم دید گواہ تھا، پوچھا آپ اب کیا چاہتی ہیں؟میں اس ظالم شخص سے چھٹکارا چاہتی ہوں۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔کیا عدالت سے رجوع کرنا چاہتی ہیں۔ہاں۔ کوئی اچھا سا وکیل کرنا چاہتی ہوں جو خرچہ بھی اس ظالم سے دلوائے۔ اس کے ساتھ رہنے سے اب جان کا خطرہ ہے۔ وکیل کرا بھی دیا تو اس دوران کہاں رہیں گی۔ ظاہر ہے دعوئی دائر کرنے کے بعد آپ اس کے گھر میں تو نہیں رہ سکیں گی۔ میرے پاس اتنے پیسے ہیں کہ سال بھر تک میں کرائے کے گھر میں رہ سکوں نہ زیور ہے ۔ اس نے کہا سوچ لیجئے بھائی ! میں نے سوچ لیا ہے شاہد، انسان کو اپنی جان بھی تو پیاری ہوتی ہے۔ جان کا خطرہ ہو تو کسی دیوانے کے ساتھ کون رہ سکتا ہے، بچے تو کسی صورت اس کو نہیں دے سکتی، وہ ان کے مستقبل کا بھی ستیا ناس کر دے گا۔
میری التجا پر اس نے مدد کا وعدہ کر لیا اور کہا۔ ابھی تو گھر واپس جائیے، میں کسی اچھی وکیل کو دیکھتا ہوں اور کوئی کرایہ کا مناسب مکان بھی ، باقی باتیں بعد کی ہیں۔ شاہد کے کہنے سے گھر لوٹ گئی لیکن اب مجھے شوہر سے نفرت ہوگئی تھی۔ تہیہ کر لیا کہ اب اس خطر ناک شخص کے ساتھ نہ رہوں گی جو دہری شخصیت کا مالک ہے۔ میرے مجبور کرنے پر شاہد نے ایک کرائے کا مکان تلاش کر دیا اور میں بچوں کو لے کر اس میں رہنے لگی۔ اس نے ایک اچھے وکیل کا بھی بندو بست کر دیا اور خود پس منظر میں رہا تا کہ نعیم سے براہ راست جھگڑا مول نہ لے۔ یہ سب کچھ میری التجاؤں پر کیا تھا حالانکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ میں ایسا قدم اٹھالوں لیکن ظلم سہنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔اس نے تو انسانی ہمدردی کی بنا پر میرا ساتھ دیا تھا لیکن یہ میرا قصور کہ اس سے غلط توقعات لگا لیں۔ چاہتی تھی کہ میں خلع لے کر اس سے شادی کرلوں۔ تاہم اس نے مجھے سمجھایا کہ لگالیں۔ بھائی! آپ میرے نزدیک محترم ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کیوں میری والدہ اور بہن بھائی اس پر ہرگز راضی نہ ہوں گے۔ ایسا خیال دل سے نکال دیں۔ اس کے بعد اس نے مجھ سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور گھر بھی بدل لیا۔ اب میں وکیل کے بل بوتے پر اکیلی ہی کیس لڑی رہی تھی۔ میرے پاس کافی زیور تھا جو ایک ایک کر کے بک گیا اور کیس کی نذر ہو گیا۔ آخری پیشی کے دن جبکہ میں نے عدالت میں بچوں کے ہمراہ حج کے روبرو پیش ہونا تھا، اتفاق سے شاہد بھی کسی کام سے عدالت آگیا۔ اسے خبر نہ تھی کہ آج ہم نے پیش ہونا ہے۔ جب نعیم نے اسے دیکھا وہ دوڑ کر شاہد کے پاس گیا کہ شاہد اپنی بھابی کو سمجھاؤ، وہ ایسا نہ کرے اور کیس واپس لے لے، وہ بہت برا کر رہی ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی شراب نہ پیوں گا ، اس پر ہاتھ نہ اٹھاؤں گا اور اپنے بچوں کا خیال کروں گا۔ روبی کو بھی کوئی تکلیف نہ دوں گا۔ ایک بار مجھے موقع دے۔ مجھے بہت سزا مل گئی۔ اتنا کافی ہے۔ میں سدھر گیا ہوں ، اب بچوں کو یہ در بدر نہ کرے۔نعیم کے کہنے پر وہ میرے پاس آیا۔ اسے دیکھ کر بچے دوڑ کر اس سے لپٹ گئے۔ اس نے مجھ سے بچے لے کر ان کو نعیم سے ملوایا تو بچے بھی باپ سے لپٹ گئے کہ ابو ہمارے ساتھ چلئے ، ہمارے پاس کیوں نہیں رہتے۔ نعیم نے کہا۔ میں تو تم لوگوں کے پاس رہنا چاہتا ہوں لیکن تمہاری امی ساتھ نہیں رہتا چاہتیں۔ میری بیٹی تو اپنے باپ کو بار بار چوم رہی تھی ۔ عجیب جذباتی منظر تھا، میں ذرا دور کھڑی اس منظر کوڈ بڈ بائی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ پھر نعیم، شاہد کے ہمراہ میرے پاس آئے اور بولے۔ روبی خدا کے لئے مجھے معاف کر دو، وعدہ کرتا ہوں کہ پھر کبھی تم کو شکایت کا موقع نہ دوں گا۔ ان معصوم بچوں کی خاطر ہم ساتھ رہیں گے۔ ناراضی ختم کر دو، میں تمہاری ہر شرط ماننے کو تیار ہوں۔ شاہد ساتھ نہ دیتا تو میں کیس کرنے کی جرات نہ کرتی۔ اب وہ بھی معصوم بچوں کی التجا پر پشیمان کھڑا تھا۔ جو ہاتھ جوڑ کر مجھ سے کہہ رہے تھے ممامان جاؤ نا پاپا سے صلح کر لو۔ ہم ساتھ رہیں گے۔ میں چور بنی کھڑی تھی، تب شاہد نے کہا۔ نعیم بھائی سے صلح کر لو۔ یہ اپنے کئے پر نادم ہیں۔ ان کو بچوں کی جدائی سے کافی سزامل چکی ہے۔ آپ بھی ایک اچھی بیوی ، اچھی ماں کی طرح سب دکھ سکھ بھلا کر ممتا کی لاج رکھ لیں۔اس دن میں نے بچوں کے بارے میں سوچ کر شوہر سے عدالت میں صلح کر لی اور خلع کا کیس واپس لے لیا۔ ہمارا گھر پھر سے آباد ہو گیا۔ آج بچے اپنی منزلوں پر پہنچ چکے ہیں۔ میں نے تو دکھ سکھ جھیل لیا مگر میں خود سے شرمندہ ہونے سے بچ گئی۔ اگر شاہد نے بجائے سیدھی راہ دکھانے کے بہکنے میں میرا ساتھ دیا ہوتا تو یقیناً آج میرا گھر برباد ہو چکا ہوتا اور بچے بھی نجانے کن نا مساعد حالات کا شکار ہو جاتے۔