جن دنوں میں تھر ڈایئر میں تھی، بہت پریشان رہنے لگی تھی، کیونکہ والدین میری شادی آفتاب سے کرنے کا ارادہ کر چکے تھے ، جو میرا کزن تھا جبکہ میرے خیالوں میں صفدر بس چکا تھا، میرے دو سالوں کا ہم سفر ۔ قصہ یہ تھا کہ ہم اتفاق سے ایک ہی بس میں بیٹھا کرتے تھے۔ وہ بھی تھرڈ ایئر کا طالب علم تھا اور گاؤں سے شہر پڑھنے آیا ہوا تھا۔ شروع دنوں وہ مجھ کو کن انکھیوں سے دیکھا کرتا تھا پھر میرا کرایہ بھی دینے لگا۔ میں تو یوں خاموش تھی کہ دوسرے مسافر غلط نہ سمجھ لیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہماری جان پہچان بڑھنے لگی اور ہم کالج میں بات چیت بھی کرنے لگے ، پھر ایسا وقت آیا کہ جس روز وہ کسی باعث کالج نہ آتا یا بس میں موجود نہ ہوتا تو میں پریشان ہو جاتی تھی۔ میں کچھ بھائی بہنوں میں سب سے بڑی اور والدین کی پیاری بیٹی تھی۔ انہوں نے کبھی مجھے ڈانٹا پیٹا اور نہ کسی چیز کی کمی کا احساس ہونے دیا تھا۔ میرے والدین زیادہ امیر نہ تھے مگر میں جو چاہتی مل جاتا تھا۔ ان کا بس چلتا تو سارے جہاں کی خوشیاں میرے دامن میں بھر دیتے۔ امی نے جب بتایا کہ امتحانوں کے بعد ہم تمہاری شادی کی تاریخ رکھ رہے ہیں تو دل پر بجلی سی گر پڑی۔ میں کسی صورت آفتاب کی دلہن بننے کو تیار نہ تھی۔ کھوئی کھوئی اور اداس رہنے لگی تو امی نے محسوس کر لیا کہ میں کسی الجھن کا شکار ہوں۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا۔ کیا بات ہے، تم کیوں ہر وقت آزردہ اور پریشان رہتی ہو ؟ ہم نے تمہیں خوش کرنے میں کوئی کمی تو نہیں رکھی ، پھر تمہیں کس بات کی پریشانی ہے ؟ میں نے ہمت کر کے ان کو بتا دیا کہ مجھے آفتاب سے شادی نہیں کرنی۔ انہوں نے بہت سمجھایا کہ آفتاب سے میری نسبت بچپن میں ٹھہرا دی گئی تھی اور ہمارے بزرگوں کا فیصلہ ہے۔ وہ تمہارے چچا کا بیٹا ہے ، دیکھا بھالا اور خوبصورت و خوب سیرت ہے۔ آخر اس میں کیا کمی ہے ؟ سب سے بڑھ کر یہ اپنے لوگ ہیں۔
یہ بات صحیح تھی کہ یہ اپنے لوگ تھے۔ میرے والد اور چچا میں بے حد پیار تھا اور چچی بھی ہم پر واری صدقے ہوتی تھیں۔ ایسا رشتہ چھوڑ دینا کہاں کی عقلمندی تھی، ایک ایسے اجنبی کی خاطر جس کا کوئی ٹھکانہ اتا پتا تک معلوم نہ تھا۔ ماں کی باتیں میرے دل کو لگتی تھیں۔ مجھ کو آفتاب کبھی بھی برا نہ لگا تھا۔ وہ انجینئر بن رہا تھا، اس کا مستقبل روشن تھا۔ گھرانہ بھی مالدار تھا، مگر برا ہو دل کی لگی کا ، اپنے ان آدرشوں کا کیا کرتی جو اس وقت سنہرے خواب بن کر مجھے بھٹکا رہے تھے۔ گرچہ ان سنہرے خوابوں کی حقیقت اس زمانے میں محض سرابوں کی سی تھی، تاہم مجھے اس بات کا علم کہاں تھا کہ حقیقی زندگی میں خوابوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہ شبنم کے ان نازک قطروں کی مانند ہوتے ہیں جو سورج کی پہلی کرن پڑتے ہی اڑ جاتے ہیں۔ یہ قدرتی بات ہے کہ جب جدائی پڑنے والی ہو یا جدائی کی باتیں ہونے لگیں، کسی کی محبت جو دل دکھا رہی ہوتی ہے، اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ جونہی آفتاب کے ساتھ میری شادی کے تذکرے ہونے لگے ، میرے دل میں صفدر کی محبت نے شدت پکڑ لی، جیسے ہوا کے جھونکوں سے جنگل کی آگ جہنم کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ صفدر نے مجھے کبھی مخاطب کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اس کی شرافت ہی تو مجھے اس کے قریب لے گئی تھی اور پھر ان تشنہ ملاقاتوں نے ہمارے دلوں میں خوبصورت جذبوں کو جنم دے دیا۔ اب میں صفدر سے اصرار کرنے لگی کہ وہ اپنے والدین کو لے کر ہمارے گھر آئے جبکہ وہ کہتا تھا کہ وہ ابھی اپنے والدین کو راضی نہیں کر سکا ہے ۔ تاہم اس نے مجھے کئی بار تسلی دی کہ دنیا چاہے ادھر کی ادھر ہو جائے ، میں تم سے کبھی بے وفائی نہ کروں گا۔ ماں باپ کو چھوڑنا پڑا تو چھوڑ دوں گا، ہرحال میں شادی تم ہی سے کروں گا۔ میں صفدر کو اپنا سمجھ کر انتظار میں دن گزار نے لگی اور گھر میں ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ ماں کو چچا اورچچی سے انکار کرتے ہی بنی۔ انہیں بہت دکھ ہوا مگر کیا ہو سکتا تھا۔ جب میں ہی راضی نہ تھی تو وہ اپنے بیٹے کی شادی زبردستی مجھ سے کیسے کرتے کہ آخر ان کی بھی تو خوشیوں کا سوال تھا اور میرے والدین بھی مجھے ہر حال میں خوش دیکھنا چاہتے تھے۔ صفدر نے مجھے کہا تھا کہ میں اس دن تمہارا ہاتھ مانگنے آؤں گا ، جب پڑھ لکھ کر خود کسی قابل ہو جاؤں گا۔
دن، ہفتے ، مہینے اسی طرح گزرتے گئے۔ صفدر کا گھر گاؤں میں تھا۔ وہ اپنے چچا کے پاس تعلیم حاصل کرنے شہر آیا ہوا تھا۔ اس نے کالج کی تعلیم مکمل کر لی اور یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ میں بھی گریجویشن مکمل کر کے گھر بیٹھ گئی۔ آفتاب کی شادی ہو گئی۔ مجھ کو ذرا سا بھی قلق نہ ہوا بلکہ خوشی ہوئی کہ اس کا گھر تو بس گیا جبکہ مجھے صفدر کا انتظار تھا کہ آج نہیں تو کل وہ مجھ کو بیاہنے ضرور آئے گا۔ اس دوران میری چھوٹی بہن کی شادی بھی ہو گئی۔ صفدر اکثر اپنے گاؤں جاتا اور دو تین دن بعد ہی لوٹ آتا۔ میں بھی سلائی کا کورس کرنے کے بہانے گھر سے نکلتی اور اس سے باہر مل لیا کرتی۔ ایک دن اس نے کہا۔ طیبہ ! میری بہن کی شادی ہے، اس لئے اس بار گاؤں جاؤں گا تو کچھ دن لگ جائیں گے۔ میں بولی۔ اگر بہت دن کے لئے جارہے ہو تو پھر مت ہی جاؤ۔ وہ بولا ۔ اچھا ٹھیک ہے ، نہیں جاتا۔ والد صاحب سے کوئی بہانہ کر دوں گا۔ تبھی میں نے سوچا کہ میں کتنی خود غرض ہوں۔ صفدر کو اس کی بہن کی شادی پر جانے سے روک رہی ہوں۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ صفدر دل میں کیا خیال کرے گا۔ میں نے اس سے کہا ہے ، تمہاری بہن کی شادی ہے، تم گاؤں جاؤ لیکن پندرہ دن بعد ضرور واپس آجانا۔ میں بہت اداس رہوں گی ۔ ٹھیک ہے ، تمہارے بغیر دل نہ لگے گا۔ صفدر گاؤں چلا گیا، ایک ماہ گزر گیا اور وہ نہ لوٹا۔ لگتا تھا جیسے وہ واپس شہر آنا ہی بھول گیا ہے۔ ایک دو اور پھر تین ماہ گزر گئے۔ آخر کار اس کا خط آگیا۔ لکھا تھا۔ پریشان مت ہونا، میری کچھ مجبوریاں ہیں تبھی جلد نہیں آسکتا، تاہم جس قدر جلد ہو سکا آنے کی کوشش کروں گا اور پھر وہ دن بھی آجائے گا جب میں تم کو اپنی دلہن بنا کر لے جاؤں گا۔ میں نے تو صفدر پر اعتماد کیا تھا پھر کیوں نہ اس کا اعتبار کرتی۔ اس کا انتظار تو اب مجھے عمر بھر کرنا تھا۔ میں اس کے انتظار میں دن رات جلتی رہتی۔ اب میں تھی اور میری تنہائیاں تھیں۔ ہر روز اسے یاد کرتی، نمازیں پڑھ پڑھ کر خدا کے حضور دعا کرتی کہ اے اللہ وہ واپس آ جائے۔ اس کو اچھی نوکری مل جائے تا کہ وہ مجھ کو اپنانے کے قابل ہو جائے۔
امی بھی اب روز ہی پوچھتی تھیں کہ جس کی خاطر تم نے اپنے منگیتر کو چھوڑا ہے، وہ ابھی تک تیرا ہاتھ مانگنے کیوں نہیں آیا؟ مجھے تو لگتا ہے کہ وہ فراڈ ہی تھا اور اب کبھی نہیں آئے گا۔ جب وہ ایسا کہتیں تو میرا دل بیٹھ جاتا تھا۔ شاید میری دعاؤں کا اثر تھا کہ جب میں مایوسی کی آخری حد پر پہنچ گئی تو اچانک صفدر آ گیا۔ وہ دو سال بعد آیا تھا اور آج بھی اس کی محبت میں کوئی فرق نہ تھا۔ وہ پہلے کی طرح ملنے لگا۔ ہم اکٹھے تنہائی میں بیٹھتے تھے مگر اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے اور مجھے اس کی یہی بات پسند تھی۔ میں اس کی شرافت سے متاثر تھی، اس پر اعتماد کرتی تھی۔ اس نے بتایا ایم اے کے بعد میں نوکری کی تلاش میں تھا۔ نوکری ملتی نہ تھی۔ کس منہ سے تمہارے گھر تمہارارشتہ طلب کرنے آتا۔ آج کون کسی بیروز گار لڑکے کو اپنی بیٹی کا رشتہ دینا پسند کرتا ہے۔ دو سال تک لگا تار کوشش میں رہا، ہر جگہ درخواستیں بھجواتا رہا۔ گاؤں میں سیاسی اثر ورسوخ تلاش کرنےمیں لگارہتا رہا ہوں ، اب کامیابی ملی ہے۔ ہمارے علاقے کے ایم پی اے صاحب نے مجھ کو یہاں نوکری دلوادی ہے۔ اسی شہر میں ملازمت محض تمہاری خاطرڈھونڈ رہا تھا، سو مل گئی۔ اب ہماری جدائی کے دن بھی تمام ہو جائیں گے۔ میں صفدر کی باتیں سن کر خوش ہوئی۔ فخر محسوس کرتی تھی کہ دیکھو میری خاطر اس نے کتنا دکھ سہا ہے۔ جدائی کے دنوں کی ساری کلفت بھول جاتی تھی۔ اب میں اور زیادہ دل و جان سے صفدر کو چاہنے لگی تھی۔ سہیلی کے گھر کا بہانہ کرتی اور صفدر سے جا ملتی۔ ایک دفعہ پھر میری زندگی میں بہار آ گئی تھی۔ لگتا تھا کہ سارا جہان میرے لئے بنایا گیا ہو۔ یوں چار سال گزر گئے صفدر کے ساتھ ، اس دوران ہم کہاں کہاں نہیں گھومے پھرے۔ اب اس کے پاس گاڑی بھی تھی۔ ہم شہر سے دور نکل جاتے تھے۔ خوبصورت تفریح گاہوں، پارکوں میں، ہر جگہ ہم ساتھ ہوتے تھے۔ انہی دنوں والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ گرچہ گھر یلو حالات ہمارے دگرگوں ہو گئے لیکن مجھے کوئی فرق نہ پڑا بلکہ میں تو اب پہلے سے زیادہ آزاد ہو گئی اور زیادہ بے خوفی سے اس کے ساتھ جانے لگی۔ ماں بیچاری کہہ سن کر چپ ہو جاتی-
میں ان کی کسی بات کو خاطر میں نہ لاتی تھی۔ آخرامی نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ دیکھ لینا تو اس شخص کے ہاتھوں برباد ہو گی۔ یہ تجھے دھوکا دے گا اور پھر کبھی پلٹ کر نہیں آئے گا۔ اگر اس نے تجھ کو اپنانا ہوتا تو اتنی مدت کافی تھی مگر اس دوران یہ ایک بار بھی تیرا ہاتھ مانگنے نہیں آیا۔ یہ تجھ سے کبھی شادی نہیں کرے گا۔ ایسے ہی وقت گزاری کرتا رہے گا۔ مجھے تو لگتا ہے کہ اس کو کوئی اور مجبوری نہیں بلکہ یہ شادی شدہ ہے۔ میں صفدر کے پیار میں اتنی اندھی اور مست ہو چکی تھی کہ مجھے کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا، جیسے میری آنکھوں پر پٹی بندھی ہو۔ پہلے وہ تعلیم کا بہانہ بناتا تھا پھر نوکری کا اور اس کے بعد وہ اب گھر کا بہانہ بنا رہا تھا۔ کہتا تھا، بس چند دن اور صبر کر لو، گھر مل جائے تو پھر تم کو ٹھاٹھ سے اپنی دلہن بنا کر لے جاؤں گا اور سب دیکھتے رہ جائیں گے۔ جو آج تمہیں یہ کہتے ہیں کہ میں دھوکے باز ہوں، کل وہی میری وفا پر حیرت اور مسرت کا اظہار کریں گے ۔ یوں دو سال اور گزر گئے، نہ گھر کا بہانہ ختم ہوا اور نہ صفدر گھر آیا، نہ مجھ سے شادی کی بلکہ شادی کے آسرے ہی دیتا رہا۔ ایک دن میں اور امی شاپنگ کے سلسلے میں بازار گئے کہ اچانک میری نظر صفدر پر پڑی۔ وہ ایک عورت کے ساتھ بچوں کے ریڈی میڈ کپڑے خرید رہا تھا۔ عورت کی گود میں دو سال کا بچہ بھی تھا۔ مجھے دیکھ کر اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اور وہ جلدی سے آگے نکل گیا۔ اس نے یہ بھی خیال نہ کیا کہ اس کی ساتھی بچے کے ہمراہ بھیٹر میں اکیلی رہ گئی ہے۔ امی تو اس کو پہچانتی نہ تھیں لیکن میری نظریں کیسے دھوکا کھا سکتی تھیں۔ گھر آئی تو گم صم تھی۔ دل ویران سا، تو دماغ ماؤف، کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا۔ ذہن اس بات کو تسلیم کرنے پر تیار ہی نہ تھا۔ وہ عورت جو اس کے ہمراہ تھی، اس کی بیوی ہو گی۔ اگر بیوی نہ تھی تو پھر کون تھی ؟ اس سوال کا جواب تو صرف صفدر ہی دے سکتا تھا۔
میں صفدر سے ملی تو وہ ذرا بھی پریشان نہ تھا۔ کہنے لگا۔ اس دن میری بھابھی ساتھ تھیں، اس لئے تم سے بات کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ دراصل ویزے کے چکر میں بھائی اسلام آباد گیا ہوا ہے۔ یہ لوگ باہر ملک جارہے ہیں، بھابھی نے کچھ شاپنگ کرنی تھی۔ ان لوگوں کے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ غرض صفدر نے ایسی باتیں اس یقین کے ساتھ کیں کہ میں مزید کوئی سوال نہ کر سکی۔ دل بھی تسلی کی خاطر ایسی باتیں تو سننا چاہتا تھا۔ اگر ایسی باتیں نہ سنتی تو پھر میرے دامن میں کیا رہ جاتا ؟ کچھ دن تک صفدر آفس نہ آیا۔ میں پریشان ہو گئی۔ سوچا گاؤں نہ چلا گیا ہو۔ جب وہ گاؤں جاتا تو مجھے ضرور بتا کر جاتا تھا۔ کہیں وہ بیمار نہ ہو، یہ خیال آتے ہی میں گھبرا گئی اور جب مجھ سے ضبط نہ ہو سکا تو اس کے دفتر چلی گئی۔ صفدر کا یہ اصول تھا کہ مجھے ایک خاص جگہ سے پک کیا کرتا تھا۔ اس نے سختی کے ساتھ منع کر رکھا تھا کہ کبھی میرے دفتر میں مت آنا۔ وہ کہتا تھا، جس لڑکی کو میں اپنی بیوی بنارہا ہوں، نہیں چاہتا کہ وہ میرے دفتر والوں کے سامنے چلی آئے اور لوگ اس کے بارے میں غلط باتیں سوچیں۔ یہ میں برداشت نہیں کر سکتا۔ اس کی سیٹ خالی تھی۔ میں نے اس کے کولیگ سے معلوم کیا۔ اس نے بتایا۔ صفدر صاحب کی بیگم بیمار ہیں اور اسپتال میں داخل ہیں، اس لیے وہ چھٹی پر ہیں۔ میں نے پوچھا۔ کسی اسپتال میں ہیں ؟ اس آدمی نے مجھ کو اسپتال کا پتا اور روم نمبر تک بتا دیا۔ اب میں سارا معاملہ سمجھ گئی۔ اس دن جو عورت صفدر کے ساتھ بازار میں شاپنگ کر رہی کر رہی تھی ، وہ صفدر کے بھائی کی بیوی نہیں، خود اس کی بیوی تھی۔ وہ بچہ بھی صفدر کا تھا۔ دل پر جیسے غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ مجھے اپنے چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آنے لگا۔
اس وقت ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے آسمان پر سورج، چاند ، ستارے، سب کے سب ٹوٹ کر گر پڑے ہوں۔ یہ دنیا، اس کی خوب صورتی، غرض کسی بات کا کوئی تصور میرے پاس باقی نہیں رہا تھا۔ میں لڑکھڑاتے قدموں سے گھر آ کر بستر پر گر گئی۔ میں نے اپنا کمرہ بند کر لیا اور بے تحاشا روتی رہی، یہاں تک کہ آنکھوں کے سارے آنسو خشک ہو گئے اور میرا تکیہ بھیگ گیا۔ اتنے برسوں بعد آج میرے یقین کو بُری طرح شکست ہوئی تھی۔ کسی کے ساتھ دھو کے بازی بھی ساری عمر تو نہیں ہو سکتی۔ ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے ، پھر خدا خود پر دے فاش کر دیتا ہے دھوکے باز کو معصوم لوگوں پر ظاہر کر دیتا ہے۔ آج میری زندگی کی بہار لٹ گئی تھی۔ جو محل میں نے تعمیر کئے تھے، وہ کتنے نا پائیدار تھے۔ میری نو برس کی محبت بھی کوئی رنگ نہ لائی۔ میں پھر بھی صفدر سے ملنے گئی۔ اپنی کہانی کو آخری انجام تک پہنچانے کے لئے۔ آج بھی موسم بہت حسین تھا مگر مجھ کو بالکل اچھا نہ لگ رہا تھا، نہ ہی اس کی خوشگواری محسوس ہو رہی تھی۔ باغ میں کھڑی ایک گھنٹے سے اس کا انتظار کر رہی تھی۔ میں نے اس کے دفتر فون کیا تھا تو اس نے کہا تھا کہ ابھی آرہا ہوں اور آتے آتے بھی اس نے ایک گھنٹہ لگا دیا۔ میں تو پہلے ہی سوختہ جاں تھی۔ جلی بھنی کھڑی تھی، اوپر سے وہ دیر لگا رہا تھا۔ سوچا، آج اس سے آخری بار لڑوں گی اور ہمیشہ کے لئے جدا ہو جاؤں گی۔ وہ آیا تو مجھ سے زیادہ پریشان۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ آتے ہی کہنے لگا کہ یہ لڑنے کا وقت نہیں ہے۔ میری بیوی سخت بیمار ہے ، موت وزیست کی کشمکش میں گرفتار ہے۔ تم دعا کرو کہ وہ بچ جائے ورنہ میرے دونوں بچے برباد ہو جائیں گے۔ یہ کہہ کر وہ بچوں کی طرح رونے لگا۔
پہلی بار مجھ پر انکشاف ہوا کہ وہ اپنی بیوی سے کتنی محبت کرتا ہے۔ اف میرے خدا ! یہ آج تو نے اس کا کون سا روپ مجھے دکھایا ہے۔ آج یہ مو یہ شخص کتنا بدلا ہوا تھا۔ اس کو میرا کوئی خیال نہ تھا۔ اپنے گھر کی بربادی کے خوف سے ، اپنے بچوں کے دکھوں کے خیال سے وہ رو رہا تھا۔ اسے میرے اتنے سالوں کی تپسیا، میرے اتنے برسوں کے انتظار کا ذرا سا بھی ملال نہ تھا۔ وہ اپنا دکھ رو رہا تھا اور میں یہ سوچ کر حیران تھی کہ یہ کتنا سنگدل اور خود غرض انسان ہے۔ اگر اسے اپنی بیوی سے اتنی محبت ہے تو اس نے اتنے لمبے عرصے تک مجھ سے محبت کا ناٹک کیوں کیا ؟ کیوں مجھے اس بے دردی سے انتظار کی آگ میں جلاتا رہا۔ جھوٹ پر جھوٹ بولتا رہا۔ مجھ سے ناتا جوڑا اور نہ توڑا۔ آخر یہ سب کیوں اور کس لئے .. اگر یہ موڑ نہ آتا تو کیا یہ مجھے یونہی عمر بھر اپنے فریب کے جال میں پھنسائے رکھتا؟ یہ کتنے کڑوے کٹھن سوال تھے اور وہ تھا کہ میری حالت پر ایک نظر ڈالنے کا روادار نہ تھا بلکہ میری جانب رحم طلب نگاہوں سے دیکھے جاتا تھا جیسے میں آگے بڑھ کر اس کو گلے لگا کر اس کے آنسو پونچھ لوں گی۔ وہ تو اتنا بھی نہ کہہ رہا تھا کہ مجھ کو معاف کر دو طیبہ ! مجھ سے غلطی ہو گئی ہے۔ میں نے تم سے جھوٹ بولا تھا۔ بس یہی کہتا رہا کہ دعا کرو، دعا کرو کہ میری بیوی سلامت رہے ، وہ ٹھیک ہو جائے۔ میں نے دعا تو کی مگر اس کے بعد پھر لوٹ کر واپس اس رستے پر قدم نہ دھرے کہ جس پر پھولوں کی شکل میں دکھ کے کانٹے ہی کانٹے بھرے ہوئے تھے۔ اگر اس دم میری ماں کا کندھا مجھے میسر نہ آتا تو میں مر چکی ہوتی۔ خود سے اجل نہ آتی تو شاید خود کشی کر لیتی۔ کیسا شدید دکھ تھا اس وقت کا کہ لفظوں میں کبھی نہیں لکھ پاؤں گی۔