تقسیم ہند کے وقت اپنا سب کچھ چھوڑ کر ہجرت کرنے والوں میں ایک ہمارا گھرانہ بھی تھا – اپنا سب کچھ یوں چھوٹ جائے تو زندگی آسان نہیں ہوتی اور اگر میری جیسی عورت جس کا شوہر اس کا نہ رہے تو وہ تو ایک لٹے ھوے قافلے کا وہ سپاہی ہوتی ہے جس کا آنے والا کل غیر محفوظ ہوتا ہے- میری شادی پاکستان کے وجود میں آنے سے سال قبل آگرہ میں ہوئی تھی۔ ان دنوں تحریک پاکستان زوروں پر تھی پھر تقسیم برصغیر کے بعد نیا ملک وجود میں آ گیا۔ سسر صاحب میرے سگے چچا تھے۔ وہ اور ان کے بیٹوں نے تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ جونہی برصغیر کی آزادی کا اعلان ہوا ، ہم سب بہت خوش ہوئے۔ خاص طور پر جہاں چاچا جان کی خوشی میں اضافہ ہوا وہاں اب ان کا شہر میں رہنا عذاب جان ہو گیا۔ وجہ یہ تھی کہ جس محلے میں چچا جان رہتے تھے، وہاں زیادہ تر ہندو گھرانے آباد تھے۔ ان لوگوں نے ہمارے سسر صاحب کا جوش و خروش اور تحریک آزادی میں ان کی شمولیت کو نوٹ کرلیا تھا۔ چچا جان ایک جوشیلے مقرر تھے اور ان کی تقریروں میں بڑا اثر تھا۔ پاکستان وجود میں آتے ہی کچھ محلے دار چچا کے پاس آۓ اور کہا کہ۔۔۔۔ فاروقی صاحب، ہم آپ کی بہت عزت کرتے ہیں۔ آپ ہمیشہ سب کے کام آتے تھے اور کسی کو بھی رنجش کا موقع نہ دیا۔ لہذا ہم چاہتے ہیں کہ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچ جاۓ۔ آپ تحریک آزادی کے زبردست حامی رہے ہیں، اس بنا پر کچھ ہندو محلے داروں کی نظروں میں کھٹک رہے ہیں۔ مبادا وہ آپ کو نقصان پہنچائیں، بہتر ہوگا کہ وقت سے پہلے یہاں سے نکل جائیں اور اپنا مال و اسباب بھی محفوظ کر لیں، کہیں ایسا نہ ہو بلوائیوں کے ہاتھوں جان اور مال سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ یہ لوگ چچا جان کے بہت اچھے دوست تھے، بچپن ساتھ گزرا تھا۔ اس لئے ان دوستوں نے وقت پر خبردار کر دیا۔ یوں سسر صاحب نے نئے وطن کے لئے رخت سفر باندھ لیا۔ جائداد چھوڑی ، صرف اپنے خانوادے کو ساتھ لیا اور بحفاظت پاکستان کی سرزمین پر پہنچ گئے۔ یہاں آکر بہت سے مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑا۔ تاہم پڑھے لکھے تھے۔ جلد مسائل پر قابو پالیا اور ایک اچھے محکمے میں نوکری مل گئی۔ گھر بھی مل گیا۔ زندگی کی گاڑی رواں دواں ہوگئی۔ میرے دونوں جیٹھ کاروباری ذہن رکھتے تھے۔ انہوں نے تھوڑے سے سرمائے سے ذاتی کاروبار شروع کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا بزنس بھی ترقی کرتا گیا۔ ایک دن آیا کہ وہ خوشحال ہوگئے ۔ اپنے گھر بنا لئے اور پرسکون زندگی گزار نے لگے۔ بدقسمتی سے میرے شوہر عظمت زیادہ پڑھ لکھ نہ سکے تھے۔ کاروبار میں بھی دلچسپی نہ لی۔ بیکار رہنے کی وجہ سے چند اوباش قسم کے دوست بن گئے۔ سارا وقت انہی کے ہمراہ گزارنے لگے۔ یوں اپنا وقت بر باد کرتے رہے اور خرچ کے لئے اپنے والد سے روپے مانگتے رہے۔ میں ناچار ساس سسر کے ساتھ رہتی رہی ۔ شوہر کماتے نہ تھے تو علیحدہ گھر کیسے بناتی۔ پھر میں نے ساس سسر کی خدمت کو وتیرہ بنا لیا کیونکہ انہوں نے میرے بچوں کی پرورش کا ذمہ لے لیا تھا۔ میری جٹھانیاں عیش کی زندگی بسر کر رہی تھیں اور میں ضروریات زندگی کو ترس رہی تھی۔ مجھ کو شوہر سے نہیں، اپنی قسمت سے گلہ تھا۔ ادھر عظمت ہر وقت کہتے کہ مجھ کو بدصورت اور ان پڑھ شریک حیات ملی ہے اور یہی میری غربت کا سبب ہے- بے شک میں زیادہ پڑھی لکھی نہ تھی لیکن بدصورت نہ تھی ۔ حالات کی وجہ سے نقوش بگڑ گئے تھے اور رنگ روپ جل گیا تھا۔ گھر کے کام کاج سے وقت بچ جا تا تو کڑھائی کر لیا کرتی تھی ۔ یوں چار پیسے ہاتھ آ جاتے تھے۔ یہ کام میں نے انڈیا میں سیکھا تھا۔ میرے میکے کے گھر سے قریب ہی وہاں ایک دستکاری اسکول تھا، جہاں لڑکیوں کو مفت کڑھائی سکھائی جاتی تھی۔ صد شکر کہ میں نے کڑھائی سیکھ لی تھی جو آج بہ وقت ضرورت یہ ہنرمیرے کام آرہا تھا۔ میرے میکے والوں نے ہجرت نہ کی۔ وہ انڈیا میں رہ گئے اور میں سسرال والوں کے ساتھ نئے وطن آ گئی تھی- اب والدین سے ملا بھی آسان نہیں تھا- بے شک زندگی کی گاڑی دو پہیوں سے چلتی ہے۔ ساس سسر کی وفات کے بعد ہماری ذمہ داری عظمت کو ہی اٹھانی تھی۔ لیکن ایک پہیہ اگر ٹھیک نہ ہوتو زندگی کی گاڑی سلیقے سے نہیں چلتی۔ میں جلد تھکنے لگی ۔ عظمت گھر کی طرف دھیان نہ دیتے تھے اور بچوں کی ذمہ داریاں اکیلی نہ اٹھا سکتی تھی ۔ وہ جو کماتے اپنی ذات کی آسائش پر خرچ کردیتے تھے۔ بچے اب باشعور ہو چکے تھے۔ لڑکیوں کی شادیاں کرنی تھیں۔ میں نے بڑے جیٹھ سے کہا کہ آپ عظمت کو سمجھائیں ۔ یہ اپنے فرائض سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔ جب دونوں جیٹھ اس معاملے کے بیچ پڑے تو عظمت نے گھر کا خرچہ باندھ دیا مگر اس شرط پر کہ وہ جو مرضی آۓ کریں، جیسی زندگی چاہیں گزار ہیں، میں دخل نہ دوں گی۔ یہ کون سی نئی بات تھی ۔ شروع دن سے ہی وہ اپنی مرضی کی زندگی گزار رہے تھے۔ ان کی اپنی سرگرمیاں تھیں ۔ مجھ میں پوچھنے کی جرات کہاں تھی۔ سسر صاحب نے بھلا کیا کہ اپنا بنگلہ میرے حوالے کر گئے ۔ ان کا کہنا تھا۔ میرے باقی بچے سب خوشحال زندگی گزار رہے ہیں اور ان کے اپنے بنگلے موجود ہیں ۔لہذا میں یہ گھر صالحہ کو دیتا ہوں کہ اس نے بیٹی بن کر میری خدمت کی ہے۔ عظمت کی ہم سے دور رہنے کی وجہ دراصل ایک عورت تھی جو خوبصورت تھی اور پڑھی لکھی بھی تھی ۔ وہ اس کے چکر میں آگئے تھے۔ والدین کی وفات کے بعد انہوں نے مجھ سے اصرار شروع کر دیا کہ تم مجھے دوسری شادی کی اجازت دے دو۔ اس عورت نے یہ شرط رکھی تھی کہ میں تب ہی تم سے شادی کروں گی جب تمہاری بیوی تمہیں دوسری شادی کی اجازت دے گی۔ عظمت نے کہا کہ تم مجھے اجازت نہ دو گی تو ہمارا واسطہ ختم ہو جاۓ گا۔ یہ حکم تھا یا دھمکی ، میں نہ سمجھ سکی۔ میں نے ان کو اجازت دے دی۔ وہ پہلے بھی میری کون سی پروا کرتے تھے ۔ اس عورت سے ان کا تعلق کب سے تھا، میں نہیں جانتی۔ اس کا نام عرفہ تھا۔ وہ ایک چلتی پرزہ قسم کی عورت تھی۔ میرا اس دنیا میں شوہر کے سوا کوئی نہ تھا۔ مجھ کو ہر صورت عظمت کی خوشنودی درکارتھی۔ عظمت نے بالآخر اس عورت سے شادی کر لی اور اس کو بیاہ کر گھر لے آۓ۔ اس نے شروع میں مجھ سے اچھا رویہ رکھا۔ بچوں سے بھی پیار سے پیش آئی۔ رفتہ رفتہ وہ گھر کی ہرشے پر قبضہ جمائی گئی۔ میرے بچوں کو باپ کی دوسری شادی کا بڑا غم تھا۔ دادا کے مرنے سے ان کے سارے سہارے ختم ہوگئے تھے۔ ایک گھر تھا جو وہ ہم کو دے گئے تھے۔ اس پر بھی سوتن نے قبضہ جمالیا تھا۔ ایک دن عظمت نے مجھے اور بچوں کو ایک معمولی سے گھر میں منتقل کر دیا جس میں کھڑی چارپائیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ سسر کے گھر سے نکلتے وقت میں نے اپنے اور بچوں کے کپڑے اور ان کی کتابوں کے سوا کچھ نہ اٹھایا تھا کہ عظمت نے کہا تھا۔ ہر شے نئی لے دوں گا۔ یہاں سے کچھ مت لے جانا۔ یہاں کی چیزیں یہیں رہنے دو۔ میرے بچوں نے باپ کے اس رویے کا بہت غم کیا۔ خاص طور پر بڑے بیٹےاحمد کو بہت رنج ہوا کیونکہ وہ دادا کا پیارا تھا اور دادا نے مرنے سے قبل سب کچھ اسے سونپ کر کہا تھا کہ میرے تمام سامان کے تم وارث ہو۔ احمد بی اے کے پیپرز دے چکا تھا۔ اسے اپنے تایا کے توسط سے ایک بینک میں نوکری مل گئی۔ اس نے گھر سنبھال لیا۔ وہ اب اپنے باپ کی شکل بھی نہ دیکھنا چاہتا تھا۔ ادھر عظمت نے جب دیکھا کہ احمد نے ہم کو سنبھال لیا ہے تو وہ ہم سے ہر طرح سے لاتعلق ہو گئے اور اپنی نئی بیوی کے ہو رہے۔ وہ اب ہم سے ملنے بھی نہ آتے۔ خرچہ تو کجا عید، بقرعید پر بھی بچوں کو کچھ لے کر نہ دیتے تھے۔ ان کے تایا ہی سب کرتے۔ یوں میرے دونوں جیٹھ اپنے لڑکوں سے میری بیٹیاں بیاہ کر لے گئے ۔ عظمت صرف نکاح کے وقت آئے اور رخصتی کے بعد واپس چلے گئے ۔ لڑکیاں گھروں کی ہوگئیں۔ احمد اور انعام رہ گئے ۔ انعام کی بھی نوکری لگ گئی۔ میرے دکھ دور ہوگئے۔ اب لڑکوں کو بھی باپ کی چاہ نہ رہی بلکہ وہ یہی کہتے تھے کہ امی نہ ہی آئیں تو اچھا ہے۔ ایسے بے وفا باپ سے ہم کو ناتا نہیں رکھنا۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا۔ میں دونوں بیٹوں کی شادی کا سوچ رہی تھی کہ ان ہی دنوں میرے جیٹھ آۓ اور انہوں نے عظمت کی بیماری کی خبر دی۔ انہوں نے بتایا کہ عظمت کافی بیمار ہیں کیونکہ ان کو کینسر ہے ۔ یہ سن کر میں پریشان ہوگئی۔ چاہا کہ ان کی عیادت کو جاؤں لیکن دونوں لڑ کے اڑے آ گئے- کہنے لگے امی جان جب انہوں نے آپ کی پروہ نہیں کی تو اب اپ کو وہاں جانے کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے سمجھایا کہ وہ شدید بیمار ہیں اور کینسر جان لیوا مرض ہے۔ایسے وقت ہم کو انہیں تنہا نہیں چھوڑنا چا ہے ۔ وہ تنہا کب ہیں۔ ان کی دوسری بیوی ساتھ ہیں ۔ وہ مزے سے ہمارے گھر پر قابض ہیں اور ہم ان کو پوچھنے جایں؟ ایسا نہیں سوچتے بیٹا۔ دنیا فانی ہے۔ کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جن کو توڑا نہیں جاسکتا۔ بہر حال بہت سمجھا بجھا کر میں نے بچوں کو تیار کیا اور ہم عظمت کو دیکھنے پہنچ گئے۔ وہ بستر پر دراز تھے۔ اتنے نحیف ہو چکے تھے کہ نظر نہیں آرہے تھے۔ نقاہت سے بول بھی نہ سکتے تھے۔ ہم کو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں آنسوبھر آئے جیسے وہ بھی ہم سے ملنے کو تڑپ رہے ہوں۔ مجھے اشارے سے پاس بلایا اور سامنے بیٹھنے کو کہا۔ بہت نحیف آواز میں کہا کہ تم یہیں رہ جاؤ۔ مجھے چھوڑ کر مت جانا۔ مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ بچے بھی ان کو اس حال میں دیکھ کر رونے لگے۔ ان کی بیگم یہ منظر دیکھ رہی تھیں۔ ان سے برداشت نہ ہوا تو دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔ جب لوٹیں تو گھر سے جانے کو تیار تھیں ۔ کہا، اب تک میں نے ان کی خدمت اور دیکھ بھال کی ہے۔ اب تم ان کے پاس رہ کر دیکھو کہ مریض کی خدمت کتنے جان جوکھم کا کام ہوتا ہے۔ ذرا تم بھی خدمت کرو۔ یہ تمہارا بھی تو شوہر ہے۔ پھر عظمت سے مخاطب ہو کر بولی۔ کینسر کے مریض دنیا سے جلدی نہیں جاتے اور میں تھک گئی ہوں، مجھے آرام کی ضرورت ہے، لہذا دو چار دن کے لئے میکے جارہی ہوں ۔ تب تک تمہاری بڑی بیگم تمہاری دیکھ بھال کر لیں گی۔ عظمت نے بے بسی سے عرفہ کی طرف دیکھا جیسے ان کو اپنے کانوں پر یقین نہ آرہا ہو۔ میں نے کہا عرفہ بیگم اپ جائیں- ہم ان کی خدمت اور دیکھ بھال کر لیں گئے. اور جب تک جی چاہئے آرام کریں اور میکے میں رہیں- عرفہ نے مجھے غصے سے دیکھا اور چلی گئی- عظمت کی میں نے دل سے دن رات خدمت کی ۔ روز پانچ وقت نماز کے بعد اللہ تعالی سے ان کی سلامتی کی دعایں بھی مانگتی تھی اور یہ دعا بھی کرتی تھی۔ اے رب العزت ان کی تکلیف کو کم کر دے اور ان کو آرام وسکون عطا کر ۔ ایک دن انہوں نے اشارے سے احمد کو بلا کر کہا کہ فلاں جگہ دفتر ہے وہاں سے میرے وکیل کو لے آؤ۔ اس نے باپ کے حکم کی تعمیل کر دی ۔ وکیل صاحب آگئے تو میرے سرتاج نے کہا کہ جو وصیت میں نے پہلے لکھوائی تھی اسے روک دو اوراب نئی وصیت لکھو۔ پہلی وصیت میں انہوں نے اپنی ساری جمع پونجی اور بینک بیلنس اپنی دوسری بیگم کے نام کر دیا تھا، یہ سوچ کر کہ وہ بے اولاد ہے، اسے تحفظ کی ضرورت ہوگی ۔لیکن اب انہوں نے وصیت کو تبدیل کرا دیا کہ شرعی طور پر میرے ہر وارث کو میری جائداد اور جمع پونجی سے اس کا حصہ دیا جائے ۔ یوں عرفہ بیگم اکیلی شوہر کی جائداد کی وارث ہونے سے رہ گئیں اور وارثوں کو عظمت کی وفات کے بعد ان کا جائز حق مل گیا جبکہ عرفہ کو اتنا ہی ملاجس قدران کا شرعی حصہ بنتا تھا۔ کہتے ہیں کہ انسان کی پہچان دیکھ سکھ کے وقت ہوتی ہے۔ سکھ کے تو سب ہی ساتھی ہوتے ہیں لیکن اصل دوست وہی کہلاتا ہے جو دکھ کے دنوں میں ساتھ دے۔ عرفہ نے سکھ کے دنوں میں عظمت کو اپناۓ رکھا لیکن جب ان پر دکھ کا پہاڑ ٹوٹا، وہ انہیں میرے حوالے کر کے چلتی بنی۔ اس کا خیال تھا کہ یہ کینسر کا مریض ہے، جانے کب مرے لیکن مجھے اپنے خاوند سے پیار تھا، اسی لئے میں نے صرف یہ سوچا کہ ان کی تکلیف میں کام آؤں اور دکھ کے دنوں میں ساتھ رہوں تا کہ ان کو دکھ کا احساس کم ہو۔ ان کی تکلیف دور ہوجاۓ۔ اللہ تعالی کی مرضی وہ جس کو زندگی دے، شفا دے یا آرام و مصائب سے ہمیشہ کے لئے نجات دلا کر اپنے پاس بلا لے۔ خالق نے میرے جیون ساتھی کو بھی اپنے پاس بلا لیا لیکن ان کی زندگی دوسروں کے لئے ایک سبق بن گئی کہ وفا ہمیشہ وفادار سے ملتی ہے ، جو محض طمع کے لئے ساتھ ہو لیتے ہیں ، وہ زندگی کے اصل ساتھی نہیں ہوتے ۔ کاش میرے میاں اپنی جوانی میں اپنے بچوں کے ساتھ اچھا وقت گزر لیتے نہ تو میرے بچوں میں باپ کی کمی کا احساس عمر بھر رہتا جو ہوتے ھوے بھی ان کی ہر ذمہ داری سے بری تھا – یہ میری اچھی تربیت تھی کہ ان کے آخری وقت میں نہ صرف انہوں نے اپنے باپ کو سنبھلا بلکہ باپ کی شفقت جس کو وہ تمام بچپن اور جوانی ترستے رہے وہ بھی میرے بچوں کے نصیب میں آئی –