میں پندرہ برس کی نادان لڑکی ، زمانے کی اونچ نیچ سے ناواقف تھی، دنیا کو اپنی سادہ و معصوم جذبات کی نظر سے دیکھتی تھی۔ تب یہ دُنیا مجھ کو بڑی بھلی لگتی تھی۔ اگرچہ غربت کے منحوس سایے ہر دم میری ماں کے دل میں اندھیرا ڈھائے رہتے تھے ، پھر بھی میں نے کبھی زندگی کو بہت زیادہ تلخ اورناقابل برداشت محسوس نہ کیا تھا۔ روکھی سوکھی جوں توں مل ہی جاتی تھی۔ ابھی آرزو کی دُنیا میں ہلچل نہ مچی تھی، نہ خواہشوں کے غنچوں نے آنکھیں کھول کر دل میں چٹخنا سیکھا تھا۔ ماں گھروں کے کام کرتی تھیں، باپ تھا ہی نہیں۔ ہم تین بہنیں گھرمیں ہی محنت مشقت کا کام کر لیا کرتی تھیں۔ بڑی دو بہنوں کو کڑھائی سلائی اچھی آتی تھی۔ میں کیونکہ سب سے چھوٹی تھی، اس لئے اس ذمے داری سے بھی تقریباً آزاد سمجھی جاتی تھی۔ من چاہا تو دو ٹانکے لگا دیئے ، ورنہ نہیں۔ ماں کام پر جاتی، بہنیں گھر کے کام میں یا پھر کڑھائی سلائی میں مصروف ہو جاتیں، میں بیکار میں ادھر اُدھر کھڑکیوں میں سے سڑک پر جھانکتی۔ کبھی چھت پر چڑھ جاتی۔ ہر جگہ تنہائی کاٹنے لگتی اور دل کہیں بھی نہ لگتا۔ اماں کو ساتھ لے جانے پر اعتراض تھا اور میری یہ خواہش ہوتی کہ کسی طرح ان کے ساتھ لگی پھروں۔ مجھے دوسروں کے گھروں سے بڑی دلچسپی تھی۔ مزے مزے کی باتیں سننے کو ملتیں ، دل سارا دن بہلا رہتا، اس لئے کبھی کبھار موقع نکال کر ماں کے ساتھ چپک جاتی تھی۔ ماں کو بہنوں کی شادی کی بہت فکر تھی۔ ان کا ابھی تک کہیں بھی رشتہ طے نہ ہو سکا تھا۔ یہ نہیں کہ رشتے آتے نہ تھے ، رشتے بہت آتے تھے مگر سبھی آخر میں مجھ کو پسند کر لیتے تھے۔ میں دونوں بہنوں سے زیادہ خوبصورت، صحت مند اور کم عمر تھی، اس لئے جو لوگ بہنوں کو دیکھنے آتے، مجھے دیکھ کر اپنا ارادہ بدل دیتے۔ ظاہر ہے اماں کو بڑی لڑکیوں کی فکر تھی، میرا رشتہ کیسے کر دیتیں۔ وہ صاف کہہ دیتیں کہ جب تک میری بڑی لڑکیوں کے ہاتھ پیلے نہیں ہو جاتے، چھوٹی کے رشتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس پر آنے والے خالی ہاتھ لوٹ جاتے۔ ایک روز امی نے مجھے سمجھایا۔ دیکھو حمیرا جب تمہاری بڑی بہنوں کے رشتے کے لئے لوگ آئیں تو تم سامنے مت آنا۔ جب تک دونوں کے رشتے طے نہ ہو جائیں، تمہارا سامنے آنا ٹھیک نہیں ہے۔ اس بات کو سمجھ کر دھیان میں رکھ لو۔ میں یہ سن کر بہت شرمندہ ہوئی کہ میرے سبب سے اُن کے رشتے نہ ہو سکتے تھے۔ میں خود کو اپنی بہنوں کی خوشیوں کا قاتل سمجھنے لگی اور احساس جرم میں مبتلا ہو گئی۔ یہاں تک کہ اب میں اپنی بہنوں کے سامنے آنے یا ان سے آنکھ ملانے سے بھی حجاب محسوس کرنے لگی تھی۔ ایک روز میری خالہ آئیں۔ اُس وقت امی سامنے کے بنگلوں میں کام کرنے گئی ہوئی تھیں۔ خالہ کہنے لگیں۔ حمیرا آج تیری ماں سے بہت ضروری کام ہے۔ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ تو ماں کو کہیں سے بلا کے لے آ۔ میں نے کہا۔ یہ بھی کوئی بڑی بات ہے ؟ ماں سامنے کے گھروں میں کام کرنے گئی ہیں۔ میں ابھی جا کر بلا لاتی ہوں۔ میں دل ہی دل میں سوچے جارہا تھی کہ ضرور خالہ میری بہنوں کے لئے رشتے کی بات کرنے آئی ہوں گی۔ اس سے ضروری بات بھلا اور کیا ہو سکتی ہے؟
میں سب سے پہلے ملک صاحب کے گھر گئی کیونکہ امی پہلے وہیں جاتی تھیں ، اس کے بعد دوسرے گھر کا نمبر آتا تھا۔ میں نے گھنٹی بجائی۔ دروازہ کھلا اور ملک صاحب کا لڑکا اختر باہر نکلا۔ میں نے اُس کے چہرے پر ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈالی اور سپاٹ آواز میں دریافت کیا کہ کیا میری ماں اندر ہے ؟ اس نے میرا رستہ چھوڑتے ہوئے کہا۔ ہاں ہاں وہ اندر ہے۔ میں بلاجھجک اندر چلی گئی کیونکہ میں اکثر ان کے گھر آتی تھی۔ ملک صاحب کی بیوی اچھی عورت تھی اور ہم ماں بیٹیوں سے بہتر سلوک رکھتی تھی۔ میں سیدھی غسل خانے کی سمت گئی، جہاں امی کپڑے دھور ہی ہوتی تھیں مگر اس وقت غسل خانے میں نہیں تھیں۔ واپس آکر اختر سے دریافت کیا کہ گھر میں تو کوئی بھی نظر نہیں آرہا۔ ماں کہاں ہے؟ وہ بولا ۔ ادھر اندر کمرے میں ہے۔ میں سمجھی کہ وہاں جھاڑو پونچا کر رہی ہوں گی۔ میں بے دھڑک کمرے میں چلی گئی۔ جونہی میں اندرداخل ہوئی، اختر بھی وہاں آگیا۔ کمرہ خالی تھا۔ میں حیرت سے اختر کی طرف دیکھنے لگی، پھرسمجھ گئی کہ گھر خالی ہے اور اختر مجھے گھیر کر یہاں لایا ہے۔ میں نے ہمت کر کے کہا۔ مجھ کو باہر جانے دو، ورنہ اتنا شور مچائوں گی کہ لوگ تم کو گھر کے اندر آ کر پکڑ لیں گے۔ وہ بڑی ڈھٹائی سے بولا۔ اس میں تو تمہاری بدنامی ہوگی ، بھلا میرا کیا جائے گا۔ تم تو خوامخواہ ڈر رہی ہو۔ مجھے جانے دو۔ خالہ انتظار کر رہی ہوں گی۔ ایک شرط پر جانے دوں گا- میرے سر میں درد ہو رہا ہے- ذرا میرا سردبا دو۔ میں سمجھ رہی تھی کہ یہ شرط اتنی سادہ نہیں ہے تاہم کیا چارہ تھا کہ میں اس کا سر دبا دوں۔ شاید اتنی دیر میں کوئی آ جائے اور میں تباہ ہونے سے بچ جائوں۔ میں نے کہا اچھا تم کرسی پر بیٹھو، میں دبا دیتی ہوں مگر جلدی مجھ کو جانے دینا۔ خالہ گھر پر میرا اور امی کا انتظار کر رہی ہوں گی۔ ابھی میں بات پوری نہ کر پائی تھی کہ اختر نے میری کلائی کو مضبوطی سے اپنی گرفت میں لے لیا۔ اس کے بعد کیا ہوا، ظاہر ہے اس کی وضاحت کرنا بیکار ہے۔ جو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ، اس طرح اور اچانک پیش آگیا کہ مجھے سوچنے سمجھنے کا موقع ملا اور نہ ہی فرار کا کوئی رستہ نظر آیا۔ اب اختر مزے سے بیٹھا ہنس رہا تھا اور میں رورہی تھی۔ غم اس قدر تھا کہ کلیجہ پھٹ رہا تھا مگر اس ظالم کو میرے دُکھ کا ذرا احساس نہ تھا۔ وہ تو ایسے خوش تھا جیسے اُس نے کوئی دُنیا فتح کر لی ہو۔ جب کافی دیر ایسے ہی گزر گئی تو وہ بولا ۔ اب خدا کے لیے جائو ، کوئی آجائے گا اور تم کو اس حال میں دیکھ لے گا تو کیا سوچے گا ؟ میرا تو کچھ نہیں جائے گا۔ ظاہر ہے یہ میرا گھر اور میں اس کا مالک ہوں ، تم ہی بے آبرو کر کے یہاں سے نکالی جائو گی۔ تیری ماں کی نوکری بھی جائے گی۔ یہ آنسو بہانا چھوڑ، یہ تو بس گھڑی بھر کے ہیں۔ کل دیکھنا، کیسے خود مسکراتی ہوئی آئے گی۔ میں اس کی باتوں پر دل ہی دل میں بد دعا دیتی رہی۔ اُٹھ کے جانا تو میں چاہ رہی تھی مگر ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے روح کو جسم سے جدا کر لیا ہو اور اب اپنی لاش کو خود اٹھائے جانا دشوار ہو گیا ہو۔ ذرا غم کم ہوتا تو اٹھ کر گھر جاتی۔ ابھی میں بیٹھی رو رہی تھی کہ دروازہ بجنے کی آواز آئی۔ اختر گھبرا گیا۔ جب اُس نے دروازہ کھولا تو اپنے دادا کو کھڑا پایا۔ وہ تو لاہور میں تھے اور اچانک اس وقت آگئے تھے۔ اختر کو آسمان گھومتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ اس کی کوشش تھی کہ وہ کسی طرح اپنے دادا کو وہاں سے سیدھے اُن کے کمرے کی جانب لے جائے مگر کمرے کی جانب جاتے ہوئے بھی راہداری سے گزرنا ضروری تھا۔ جب میری سسکیوں کی آواز سنی تو بجائے اپنے کمرے کی طرف جانے کے میری جانب چلے آئے۔ میرے سر پر شفقت کا ہاتھ پھیرا اور رونے کا سبب پوچھا۔
میں نے ٹوٹے پھوٹے لفظوں اور بھیگی ہوئی آواز کے ساتھ اپنے یہاں آنے اور ماں کو تلاش کرنے کی داستان سنائی۔ میری بپتا سن کر ان کا چہرہ کئی رنگ بدل رہا تھا۔ اسی وقت امی اور ملک صاحب کی بیگم بھی آگئیں۔ بیگم صاحبہ امی کو اس دن اپنے ساتھ بازار لے کر چلی گئیں تھیں۔ انہوں نے اچانک جو فضا کو پُراسرار پایا تو دونوں حیرت سے ہمیں دیکھنے لگیں۔ ان کی سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ یہ کیا ڈرامہ ہو رہا ہے۔ اختر ڈرا سہما پریشان سر جھکائے کھڑا تھا۔ میری آنکھیں رو رو کر سُرخ ہو چکی تھیں۔ بال بکھرے ہوئے اور کپڑے جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے تھے۔ اور دادا جان غصے میں کھڑے تھے، پھر انہوں نے گرج کر بہو سے کہا۔ آج جو تمہارے اکلوتے لڑکے نے اس غریب بچی سے سلوک کیا ہے ، میں اس کا قصور کبھی معاف نہیں کر سکتا۔ اب تم خود اس کی سزا تجویز کرو، ورنہ میں اس کو ایسی کڑی سزادوں گا کہ یہ یاد کرے گا۔ اس پر امی بولیں۔ بڑے صاحب آپ اپنے پوتے کو کڑی سزا نہ دیں۔ غلطیاں بچوں سے ہو جاتی ہیں۔ قصور تو میری اپنی لڑکی کا ہے۔ میں نے اسے ہزار بار کہا ہے کہ گھر میں رہا کرے۔ میرے پیچھے پیچھے نہ آیا کرے ، پھر بھی اس کے پائوں گھر میں نہیں ٹکتے تھے۔ سزا تو میں اسے کڑی دوں گی۔ میری بہن رشتہ لانے والی تھیں بڑی لڑکی کے لئے ، اب میں پہلے اس کی شادی کر کے اس کو گھر سے نکالتی ہوں تا کہ مجھے سکھ کا سانس ملے۔ بیٹی زینب تم کیسی بات کر رہی ہو۔ تمہاری بیٹی، ہماری بھی عزت ہے۔ تم لوگ ہمارے گھر کام کرنے آتی ہو اور جب ہماری دہلیز پار کر کے گھر کے اندر آجاتی ہو تو تم لوگوں کی عزت کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہو جاتی ہے۔ اس وقت تم گھر جائو دیکھو تمہاری بہن کیا سندیسہ لائی ہے۔ اگر وہ رشتہ لائی ہیں اور رشتہ مناسب ہے تو لڑکے اور اس کے خاندان سے ہم کو ملوائو اور بات پکی کر دو۔ صاحب، بات پکی کرنے کے لئے بھی سوچنا پڑتا ہے۔ گھر میں دو سیر مٹھائی خریدنے کو رقم نہیں ہے۔ رشتہ اچھا ہوا بھی تو اتنی جلد بات پکی کیونکر ہو گی، جبکہ دو چار لوگوں کا منہ میٹھا کرنے تک کی توفیق نہیں ہے۔ اس کی تم فکر نہ کرو۔ گھر جائو اور کل آکر تمام حالات سے آگاہ کرنا۔ امی گھر آگئیں، خالہ نے رشتہ بتایا اور بولیں۔ سوئی پھر وہیں اٹکی ہوئی ہے ، ان کو تمہاری بڑی لڑکیوں کا نہیں، حمیرا کا رشتہ ہی چاہئے اور تم پھر انکار کر دو گی۔ نہیں ، اب یہ نہ کہوں گی۔ بہتر ہے کہ پہلے اس کی کر دوں کہ یہ اب بڑی ہو گئی ہے۔ بڑی والی میری دونوں بیٹیاں تو پھر بھی گھر کی چار دیواری کے اندر ہی بیٹھی رہتی ہیں لیکن اس کے پیر ایک جگہ نہیں ٹکتے۔ مجھے اس سے زیادہ خطرہ رہنے لگا ہے۔ خالہ بولیں۔ آج تو میں نے اس کو تمہاری طرف بھیجا تھا مگر اس نے بہت دیر کر دی، اب انتظار کر کے جانے ہی والی تھی۔ اماں نے خالہ کالا یار شتہ میرے لئے قبول کرتے ہوئے ہاں کہہ دی۔ خالہ سے کہا کہ کل لڑکے اور اس کے گھر والوں کولے آنا۔ خوشحال لوگ ہیں لڑکا بھی میٹرک پاس ہے لیکن تم کو بھی تھوڑا سا تو جہیز کا انتظام کر نا پڑے گا۔ خالہ بولیں۔ اس کی فکر نہ کرو، بس کل ان لوگوں کو لے آنا۔ اگلے روز خالہ لڑکے والوں کو لے آئیں۔ لڑکا بھی آیا۔ وہ ان کو ملک صاحب کی کوٹھی پر لے گئیں۔
بڑے ملک صاحب نے ان لوگوں کو بہت عزت سے بٹھایا، خاطر تواضع کی اور شادی کی تاریخ رکھ دی گئی۔ انہوں نے میری شادی اس قدر اچھے طریقے اور دھوم دھام سے کی، جیسے میں ان کی ہی بیٹی تھی۔ جہیز بھی اتنا دیا جیسے کوئی صاحب حیثیت اپنی بیٹی کو دیتا ہے۔ بارات کا کھانا لاجواب تھا۔ اپنے گھر کے آگے شامیانہ لگوایا اور میرے سر پر ہاتھ رکھ کر مجھے رُخصت کیا، جس سے سُسرال میں میری عزت دُگنی نہیں چوگنی ہو گئی۔ ان کے اس عمل نے میری زندگی سنوار دی تب سے اب تک میں اپنے سسرال میں راج کرتی ہوں۔ بڑے ملک صاحب نے رخصتی کے وقت میرے سسر کو کہہ دیا تھا کہ حمیرا کو میں نے بیٹی بنایا ہے اور اس کو میری بیٹی جیسی ہی سمجھنا۔ اس کو کوئی تکلیف نہ پہنچانا یتیم بچی سمجھ کر ، ہم اس کے وارث موجود ہیں۔ وہ لوگ تو بس ہکا بکا تھے ، ملک صاحب کے سامنے بھلا ان لوگوں کی دم مارنے کی کیا مجال تھی۔ لوگ امیروں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ ہمیشہ ہی ایسی باتیں سننے میں آتی ہیں کہ ان کے سینے میں دل نہیں پتھر ہوتا ہے۔ وہ غریب کو انسان نہیں سمجھتے مگر بڑے ملک صاحب نے مجھے بیٹی کہہ کر یہ ثابت کر دیا کہ بعض اوقات دولت بھی انسانوں کے دلوں کو نہیں بدلتی بلکہ سونا بنا دیتی ہے۔ جن کے دلوں میں خوف خدا ہوتا ہے اور نیکی کی شمع روشن رہتی ہے ، ان کو دنیا کی کوئی شے مغلوب نہیں رکھ سکتی۔ بے شک میں ایک یتیم لڑکی اور ایک غریب بیوہ نوکرانی کی لڑکی تھی، مگر بڑے ملک صاحب نے مجھے بیٹی کا تعارف دے کر زمین سے آسمان تک پہنچادیا۔ میں آج ان کو دعائیں دیتی ہوں۔ خُدا نے میرا نصیب اچھا بنایا کہ شادی کے بعد میرے شوہر نے پڑھائی جاری رکھی اور ایف ایس سی کیا، پھر پولیس میں بھرتی ہوئے اور ترقی کرتے کرتے انسپکٹر کے عہدے پر پہنچے۔ میرے گھر خوشحالی آگئی اور کسی شے کی کمی نہ رہی۔ آج اس روز کو یاد کرتی ہوں جب ملک صاحب کے پوتے اختر نے مجھے ستایا اور رلایا تھا۔ میرا دل دُکھایا تھا، لیکن اللہ تعالی نے اس دُکھے دل کی دُعا سنی اور مجھے زندگی کی ہر آسائش اور سبھی سکھ دے دیئے۔