Wednesday, October 16, 2024

Dum Saaz

احد مجھے پیسے چاہئیں۔ ثمرا نے احد کے سامنے چائے کا کپ رکھتے ہوئے کہا۔ اپنے فون پر گیم کھیلتا احد فون سے نظریں ہٹا کر ثمرا کو گھورنے لگا۔ وجہ تو سن لیں کیوں پیسے چاہئیں۔ احد کی نظروں سے خائف ہوتے ہوئے ثمرا سامنے صوفے پر بیٹھی تھی۔ مجھے کوئی وجہ نہیں جاننی۔ پیسے کیا درختوں پر لگ رہے ہیں۔ جو توڑ توڑ کر تمہیں دیتا رہوں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ مہنگائی ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اور تم ہو کہ احساس کرنے اور بچت کرنے کے بجائے مجھے روز ایک نیا پیغام سنا دیتی ہو ۔ احد نے فون سائڈ ٹیبل پہ رکھتے ہوئے ثمرا کو گھورا۔ اپنے لیے تھوڑی مانگ رہی ہوں ۔ رضا کے اسکول میں اسپورٹس ڈے ہے۔ اُسے بیٹ لے کر دینا ہے۔ اور ساتھ میں فیبا کے لیے اسکول بیگ اور شوز بھی چاہئے۔ ثمرا روہانسی ہوئی تھی۔ چائے کی طرف ہاتھ بڑھاتے احد کے ہاتھ رکے تھے۔ دس دن پہلے تو کلر ڈے منایا گیا ہے اسکول میں۔ بچوں کو گرین سوٹس لے کر دیئے تھے اور اب یہ اسکول والوں کا نیا ٹنٹا ۔ ہر دس پندرہ دن کے بعد اسکول میں کوئی نا کوئی ڈے لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ماں باپ اسکول کے اخراجات اور فیس ہی مشکل سے پوری کرتے ہیں۔ ایسے میں اسکول والوں کے یہ نت نئے چونچلے۔ کم از کم میری تو برداشت اور حیثیت سے باہر ہیں۔ بہتر ہے تم بچوں کا اسکول چینچ کروا دو۔ احد نے کہتے ہوئے چائے کا کپ اٹھا کرلبوں سے لگا لیا تھا۔ احد کی بات سنتی ثمرا، احد کی آخری بات پہ اچھل کر رہ گئی تھی۔ ارے ایسے کیسے اتنے آرام سے کہ رہے ہیں۔ اسکول چینچ کروا دو۔ یہ کوئی آسان تھوڑی ہے۔ ویسے بھی اب تو ہر اسکول میں ایسے ہی ہوتا – ایسے نہیں ہوتا۔ احد نے تیزی سے ثمرا کی بات کاٹی تھی۔ کمال کے بچے بھی تو اسکول جاتے ہیں۔ ان بچوں کے اسکول والے تو آئے دن بچوں کے والدین کی جیب ہلکی کروانے کے چکر میں نہیں رہتے۔ تمہاری طرح بچوں کا اسکول بھی عجیب ہے۔ جس کا بس نہیں چلتا میرے والٹ سے کیسے پیسے نکلوائے۔ بہر حال میری طرف سے صاف انکار ہے۔ ثمرا میں اتنا افورڈ نہیں کر سکتا۔ تم خود خیال کرو۔ دو دو جاب کرنے کے بعد بھی گھر چلانا مشکل ہو رہا ہے مجھ سے۔ مجھے مزید فضول کے خرچوں میں مت الجھاؤ احد نے ہاتھ میں پکڑا جائے کا کپ میز پر غصے سے رکھا اور اپنا فون اٹھا کر باہر کی سمت بڑھ گیا۔ ارے بات تو سنیں چائے تو پی جائیں۔ ثمرا احد کو آوازیں دیتی رہ گئی تھی۔ لیکن احد سنی ان سنی کرتا وہاں سے جا چکا تھا۔ لو بتاؤ ابھی اتنی مہنگائی کا رونا رو رہے تھے- اور اب چاۓ کا آدھا کپ چھوڑ گئے ۔ یہ قوم فضول خرچی سے باز نہیں آسکتی ۔ ثمرا نے بڑبڑاتے ہوئے کہا اور خودی اپنی بات پہ ہنس کر، احد کے کپ سے چائے اپنے کپ میں انڈ یل کر پینے لگی تھی۔
☆☆☆

جب سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آیا تھا۔ متوسط طبقے کی تو کیا ، پیسے والے لوگوں کی بھی چیخیں نکل گئی تھیں۔ ایک چیز جو پہلے آدھی قیمت پہ مل جاتی تھی۔ اب دگنی تگنی قیمت پر مل رہی تھی۔ گھر میں کھانے پینے کی ضروریات ہی پوری کرنا مشکل ہو چکا تھا۔ بجلی کے بلوں کی ادائیگی دل چاہتا تھا بجلی کے میٹر کو اتار کر کسی انٹیک پیس کی طرح چھپا کر رکھ لیا جائے ۔ ہائے یہ دل اور اس کی ایسی کتنی خواہشیں جو دن میں کئی بار ثمرا کے دل میں آتی ہیں۔ اور وہ ہر بار اپنی سوچ پر خود ہی ہنس کر رہ جاتی تھی۔ اس کالونی میں ثمرا ہی کی نہیں، اس کے جیسی کتنی ہی خواتین کی ایسی خواہشیں۔ جو ہر روز مہنگائی کی طرح بڑھتی چلی جارہی تھیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی میں، ہر چیز کی طرح بچوں کی فیس اور رکشے والے کے پیسے بڑھانے پہ ثمرا کا سر گھوم کر رہ گیا تھا۔ احد کا آفس تو پہلے بھی بچوں کے اسکول کے مخالف سمت تھا۔ اور حسب عادت احد نے بچوں کو اسکول سے ہٹا کر ، نزدیکی اسکول میں داخل کروانے کا حکم سنا دیا تھا۔ جو کہ ثمرا کو کسی بھی صورت منظور نہیں تھا۔ ایک سال پہلے ہی احد نے سیکنڈ ہینڈ گاڑی لی تھی۔ ثمرا کو ڈرائیونگ آتی تھی ۔ اس لیے اس نے بچوں کو خود اسکول چھوڑنے اور لے کر آنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اگرچہ ثمرا کے لیے صبح ، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور چبھتی دوپہر میں واپس گھر لے کر آنا ایک دشوار مرحلہ تھا۔ لیکن بچوں کی اچھی اسکولنگ کے لیے ثمرا نے اس کڑوے گھونٹ کو خوشی خوشی بھر لیا تھا۔ ایک مسلۓ کا حل تو ثمرا نے نکال لیا تھا۔ لیکن بڑے بڑے خرچوں کے بعد اسکول میں آئے دن ہونے والے مختلف ڈیز کے، خرچوں نے ثمرا کو پریشان کر دیا تھا۔ اچھے اسکول میں اچھی پڑھائی کی لالچ میں کتنے ہی ماں باپ کو ا یسے کڑوے گھونٹ پینے پر مجبور کر رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی۔ ثمرا نے بچت کے پیسوں میں سے پیسے نکال کر بچوں کی ضروریات کو پورا تو کر دیا تھا۔ لیکن وہ اپنا دل مسوس کر رہ گئی تھی ۔ مہینوں کے بچائے ہوئے پیسے منٹوں میں خرچ کر کے وہ دو دن اُداس رہی تھی۔ لیکن پھر رضا کے ہاتھ میں میچ ونگ، کپ دیکھ کر وہ اپنی اداسی بھول گئی تھی۔
☆☆☆

ابھی چند دن بھی نہیں گزرے تھے۔ جب بچوں کے اسکول سے بلاوا آ گیا تھا۔ کال سنتے ہی ثمرا پریشان ہو گئی تھی۔ اس کی پریشانی بلاوجہ نہیں نکلی تھی۔ پرنسپل نے فیس بڑھانے کی کیا بات کی ثمرا تو یہ سنتے ہی روہانسی ہو گئی۔ سوری مسزاحد، ہماری بھی مجبوری ہے۔ پرنسپل صاحبہ نے ثمرا کے چہرے کی ہوائیاں اڑتی دیکھ کر معذرت خواہانہ لہجے میں کہا تو ثمرا بمشکل مسکرا کر ان کے آفس سے باہر نکل آئی تھی۔ احد کو بتانے کا مطلب تھا۔ بچوں کو اسکول سے ہٹانا۔ ثمرا کا سوچ سوچ کر برا حال تھا۔ لیکن مرتے کیا نا کرتے کے مصداق اسے احد کو بتانا ہی پڑا تھا۔ حسب معمول احد نے فوری جواب دینے کے بجائے ثمرا کی طرف استفہامیہ انداز میں دیکھا۔ احد ، ہم کم کھائیں گے لیکن بچوں کو اچھا پڑھائیں گے۔ تاکہ آنے والا کل آج سے بہت بہتر ہو۔ میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نا ثمرا نے کہنے کے بعد تائید بھری نظروں سے احد کی طرف دیکھا۔ اللہ بہتر کرے گا، کہہ کر کروٹ بدل چکا تھا۔ ثمرا بھی گہرا سانس لے کر لیٹ گئی۔ اور پھر کچھ دیر کے بعد خود بھی سوگئی تھی۔
☆☆☆

ثمرا بچوں کو گاڑی میں بٹھا کر جیسے ہی پلٹی، ساتھ گھر کے دروازے پہ آمنہ بھابھی پریشانی کے عالم میں کھڑی بچوں کےانے کا انتظار کر رہی تھیں۔ رکشے والے کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ انہیں پریشان دیکھ کر ثمرا ، آمنہ بھابھی کے پاس آئی۔ کیا ہوا بھابی، رکشے والا نہیں آیا ابھی تک ثمرا نے سوال کیا۔ ہاں ابھی تک نہیں آیا۔ اور آج فہد کا ٹیسٹ بھی ہے۔ بچہ ساری رات جاگ جاگ کر تیاری کرتا رہا ہے۔ اور اب یہ رکشے والا پتا نہیں کہاں رہ گیا ہے نہ ہی فون اٹھا رہا ہے ۔ آمنہ بھابھی نے ہاتھ میں پکڑے فون کو شمرا کے سامنے کیا۔ اچھا اچھا آپ پریشان نہیں ہوں میں بچوں کو اسکول چھوڑ دیتی ہوں ۔ ثمرا نے تسلی آمیز لہجے میں کہتے ہوئے آمنہ کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔ آریوشیو آمنہ بھابھی نے پوچھا۔ جی جی ثمرا نے مسکرا کر کہا۔ تو آمنہ اُس کا شکریہ ادا کرتی بچوں کو اندر سے بلانے لگیں۔ اور پھر رکشے والے کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے دو تین دن ثمرا ہی بچوں کو اسکول چھوڑ دیا کرتی تھی۔ جب تیسرے دن، آمنہ بھابھی نے ثمرا کو باقاعدگی سے اسکول چھوڑنے کا کہا اور ساتھ میں یہ بھی کہ جو پیسے وہ رکشے والے کو دیا کرتی تھیں۔ وہ معاوضہ وہ ثمرا کو دیا کریں گی۔ ارے نہیں بھابھی ثمرا شرمندہ ہوئی تھی۔ نہیں کیوں ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہوں۔ جو پیسے رکشے والے کو دیتی تھی وہ تمھارے کام آ جائیں گے۔ اور ساتھ میں مجھے بھی تسلی رہے گی۔ تمھارے ساتھ بچے اسکول آئیں جائیں گے۔ احمد نے مجھے کہا ہے۔ جو کرایہ تم رکشے والے کو دیتی ہو وہ تم ثمرا بھابھی کو دے دو۔ آخر کو پیٹرول سے گاڑی چلتی ہے۔ وہ حفاظت سے بچوں کو اسکول چھوڑ ، اور لے آتی ہیں یہ کم ہے کیا۔ باہر رہنے والوں کو بہت ساری باتوں کی فکریں ہوتی ہیں ثمرا اور سچ میں احمد کو جب سے میں نے بتایا ہے ثمرا بچوں کو لیے جاتی ہے۔ وہ زیادہ مطمئن ہو گئے ہیں۔ اور میں خود نہیں اپنی خوشی سے کر رہی ہوں، یہ کہتے ہوئے آمنہ نے اپنے ہاتھ میں موجود پیسوں کو زبردستی ثمرا کے ہاتھوں میں منتقل کیا تھا۔ لیکن بھابھی ثمرا ابھی بھی تذبذب کا شکار تھی۔ کوئی لیکن ویکن نہیں ۔ آمنہ بھابھی نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔ تو ثمرا نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔ یہ بات جب احد کو پتا چلی تو حیرانی سے اسے دیکھنے لگا۔ میں نے بہت منع کیا تھا بھابھی کو لیکن وہ نہیں مانیں ۔ اور ٹھیک ہی تو ہے۔ رکشے والے کو بھی پیسے دیتی ہی تھیں نا۔ وہی پیسے مجھے دے دیے۔ اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ ان تینوں کو بھی لے جایا کروں گی۔ اس میں کیا برا ہے۔ احد کہا۔ — ہاں اور جو لوگ باتیں بنائیں گے اس کا کیا ہوگا۔ احد غصہ ہوا۔ لوگوں کا کیا ہے احد ، لوگ تو ہر بات میں ہی اعتراض کرتے ہیں ۔ یہی لوگ مدد مانگنے پہ مدد نہیں کرتے۔ قرض مانگنے پہ قرض نہیں دیتے اور باتیں سناتے ہیں۔ بھوکے پیٹ کو کبھی کھانا نہیں دیتے تین ڈھانپنے کو کپڑا نہیں دیں گے۔ تب بھی صرف باتیں کرتے اور باتیں سناتے ہیں- ہمیں اپنی زندگی کو چلانا ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں عزت سے اپنے وقت کو گزارنا ہے۔ دو دو جابز کرتے ہیں آپ ہمارے لیے۔ مجھے بھی اگر موقع ملا ہے۔ تو ساتھ دینے دیں۔ میری گاڑی ہے۔ میری مرضی لوگ کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے ثمرا نے مضبوط لہجے میں کہا تو احد اُس کی طرف دیکھ کر رہ گیا۔ سوسائٹی اور لوگوں کا ڈر اس کے دل میں تھا کہ لوگ کیا کہیں گے، وہ اپنی بیوی بچوں کے اخراجات نہیں اٹھا سکتا جو ثمرا ڈ رائیور بن گئی۔ لیکن یہ چند دن کی بات تھی۔ احد جلد ہی اس فیر سے باہر نکل آیا تھا۔ کمانا مانگنے سے بہت بہتر ہے۔ احد جو آئے دن اپنے بڑے بھائی سے پیسے لے لیتا تھا۔ اسے اب اُس کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ اب تو ثمرا خود بھی اچھا خاصا کمانے لگی تھی۔ بچوں کو اسکول چھوڑنے کے بعد وہ ایک چکر کالج جانے والی لڑکیوں کو کالج چھوڑنے کا لگالیتی تھی۔ مائیں ثمرا سے منتیں کرنے لگی تھیں۔ وین اور رکشے والے کے ساتھ بھیجنے سے زیادہ انہیں ثمرا کے ساتھ بھیجنا محفوظ لگتا تھا۔ پھر ثمرا کی دیکھا دیکھی کالونی کی تین چار اور خواتین بھی بچیوں کو اسکول چھوڑنے لگیں۔ ہاتھ میں چار پیسے آتے تو کتنے ہی چھوٹے چھوٹے خرچے خود بخود پورے ہونے لگے تھے۔ اگرعورت زندگی کو چلانے کے لیے اپنے گھر والوں کا ہاتھ بٹا سکتی ہے۔ تو اس میں حرج ہی کیا ہو-

Latest Posts

Related POSTS