تاجی ایک معصوم سی کمسن لڑکی تھی جو شہر کی سینٹرل جیل میں بند تھی، اس کا مکھڑا حسن کے نور سے روشن مگر آنکھیں بجھی بجھی تھیں۔ میں نے سوال کیا، یہاں کیسے آئی ہو؟
وہ جواب دینے سے ہچکچا رہی تھی۔ میرے دوستانہ انداز گفتگو سے اس کی جھجک ختم ہو گئی، میرے اصرار پر بتایا… میں نے جام پور کے ایک چھوٹے سے گائوں میں جنم لیا۔ 9برس کی تھی تو میرا نکاح چچازاد گل رخ سے کر دیا گیا۔ وہ مجھ سے 20برس بڑا تھا۔ اس سے بڑا ڈر لگتا تھا۔ وہ ہم عمر ساتھی نہ تھا۔ میری ذہنی حالت کو سمجھ نہ سکتا تھا۔ ہر کام میں میری ’’نہ‘‘ کو ’’ہاں‘‘ میں بدلنے کے لئے اس کے پاس مجھے آنکھیں دکھانے کے سوا چارہ نہ تھا۔
ہوا یوں کہ جب زلیخا کا نکاح میرے بھائی سے ہوا وہ سولہ، سترہ سال کی تھی، جبکہ میں آٹھ، نو برس کی، ہمارے چچا نے شرط رکھی ہماری بیٹی لو اور اپنی بیٹی دو۔ ابا تو ہر صورت بھائی کی بیٹی کو بہو بنانا چاہتے تھے، انہوں نے یہ شرط منظور کر لی۔ مجھ چھوٹی سی بچی کا نکاح اپنے بھتیجے گل رخ سے پڑھوا دیا اور بدلے میں زلیخا کو بہو بنا کر لے آئے۔ گلیوں میں بھاگتی اور گڑیوں سے کھیلتی کو بھلا شادی کے تقاضوں کا کیا پتا تھا۔ چچا کے گھر جاتے ہی رونے لگی۔ چچی نے پیار کیا، دلاسا دیا کہ آج میرے پاس رہ جا، وعدہ ہے کل تمہارے گھر لے جائوں گی۔
مجھ ننھی منی دلہن نے وہ رات اپنی چچی کے پہلو میں سو کر گزاری۔ یہ تو ایک شرط تھی چچا کی، ورنہ میری رخصتی کا ابھی وقت نہیں آیا تھا۔ اماں نے اگلے دن منت سماجت کر کے دیورانی سے منوا لیا کہ فی الحال کچھ دن اسے ہمارے پاس چھوڑ دو، سمجھا بجھا کر واپس لے آئوں گی، نکاح تو کر دیا ہے، اب ڈر کس بات کا ہے، تمہاری ہی بہو ہے۔
صد شکر کہ چچی نے اماں کی بات مان لی، ورنہ ان کو ایک کم عمر نوکرانی کی اشد ضرورت تھی۔ سوچا کہ اگر تاجی کو کچھ عرصہ ماں کے گھر رہنے دوں تو اس کی ماں احسان مند ہو گی اور میری بیٹی سے شفقت بھرا سلوک کرے گی۔ ایسا ہی ہوا…ماں نے زلیخا کے معاملے میں نرمی سے کام لیا، ورنہ انہیں بھی باندی کی اشد ضرورت تھی۔ اب میں بھابی کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹاتی تو اسے آرام ملتا۔
چچی نے گل رخ کو سمجھا دیا تھا بیٹا…ایک، دو سال بعد رخصتی لے لیں گے، ابھی وہ چھوٹی ہے، یہاں لا کر قید کیا تو گھبرائے گی، پریشان کرے گی، ہم بھی بے سکون رہیں گے اور وہ بھی، وہاں تیری بہن کے ساتھ کام کرا لیتی ہے۔ میری بیٹی کو آرام ملتا ہے اور ساس بھی اسی کارن زلیخا پر مہربان رہتی ہے۔ سچ ہے وقت اپنے پروں پر محو سفر رہتا ہے۔ دو سال پلک جھپکتے گزر گئے۔ جب میں بارہ سال کی ہونے کو تھی، ساس، سسر مجھے باقاعدہ رخصت کرا کے لے گئے۔ میرا اب بھی سسرال میں جی گھبراتا تھا لیکن وہ سب کہتے تھے کہ اب یہ بڑی ہوگئی ہے، آخر تو گھر بسانا ہے۔ میرے سسرال آنے کے بعد اماں نے گھر کا تمام کام زلیخا پر ڈال دیا۔ اب وہ اسے میکے بھی آنے نہ دیتی تھیں۔ یہ بات چچی کو ناگوار گزرتی، انہوں نے بھی مجھ پر سختی شروع کر دی۔
زلیخا اور مجھ پر دونوں طرف سے سختیوں کا دور شروع ہو گیا، گویا یہ بدلے کی شادی نہ تھی، عذاب دینے کا مقابلہ تھا۔ میری بھابی بھی اماں کے کم ظلم نہ سہہ رہی تھی۔ صبح منہ اندھیرے اٹھنا، جانوروں کو چارہ ڈالنا، دودھ دوہنا، لسّی بلونا، آٹا گوندھ کر سارے ٹبّر کا ناشتہ تیار کرنا، دو چھوٹے بچّوں کو سنبھالنا اور ایسے ہی ڈھیر سارے کام صبح سے رات تک وہ مشین کی طرح جتی رہتی، لیکن کام ختم نہ ہوتے، اس پر شوہر کی جھڑکیاں اور ساس کے طعنے الگ تھے۔ جب میری ساس کو اماں کے سخت رویّوں کی اطلاع ملتی وہ بھی مجھ پر جوتا اٹھا لیتیں اور توقع کرتیں کہ گھر کا تمام کام میں اکیلی کروں۔ بارہ برس کی لڑکی بچی ہی ہوتی ہے، مگر ان کی نظروں میں، میں اب بچی نہ تھی۔
اماں کا گھر قریب ہی تھا مگر ساس جانے نہ دیتیں، کیونکہ زلیخا کو بھی بغیر اجازت میکے آنے کی اجازت نہ تھی۔ جب میں وہاں تھی بھابی خوش تھی لیکن اب میں نہیں جانتی تھی کہ زلیخا میرے بھائی کے ساتھ خوش رہتی ہے یا نہیں۔ لیکن میرا یہ حال تھا کہ جیسے خوشی مجھ سے چھن گئی تھی۔ بھلا گیارہ، بارہ برس کی لڑکی اپنا گھر چھوڑ کر کسی اور گھر میں کیوں کر خوش رہ سکتی ہے۔
رفتہ رفتہ چچی کا دل مٹی سے پتھر جیسا ہوگیا۔ اس کو مجھ پر ذرا بھی ترس نہ آتا۔ وہ اب مجھ سے اتنا کام لیتی کہ میں چلچلاتی دھوپ میں کنبے بھر کی روٹیاں پکاتے پکاتے بے ہوش ہوجاتی۔ ایسا وہ اس لئے کرتی تھی کہ میرے باپ کے گھر میں اس کی بیٹی پر بھی میری ماں ایسی ہی سختیاں کرتی تھی۔
دیہات کی عورتوں کی زندگی آج کے اس جدید دور میں بھی صدیوں قبل جیسی مشقّت بھری ہے۔ شہر کی عورتیں ایک دن ان جیسا گزار لیں تو ان کے پسینے چھوٹ جائیں۔ وہاں اب بھی بہوئوں سے ایسے ہی کام لیا جاتا ہے جس طرح خرکاروں کے کیمپوں میں اغوا شدہ افراد سختی اور زیادتی برداشت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ میں اپنے سگے چچا کی بہو تھی مگر ظلم سہنے پر اس لئے مجبور تھی کہ ان کی بیٹی بھی ہمارے گھر میں سکھی نہیں تھی۔ ان حالات سے گھبرا کر میں نے گھر سے بھاگنا شروع کر دیا۔ جب موقع ملتا بھاگ کر ماں کے گھر جا چھپتی۔ تب ہی ساس امّی کے پاس آ کر مطالبہ کرتی، اپنی لڑکی رکھ لو اور ہماری بیٹی واپس کر دو۔
ماں کیسے زلیخا کو واپس کر سکتی تھی، وہ تین بچّوں کی ماں بن چکی تھی، مگر شوہر کو میرا ایک دن میکے رہ جانا گوارا نہ تھا جبکہ میں شادی کی رفاقتوں سے نفرت کرتی تھی۔ یہ عذاب سہتے میری حالت قابل رحم ہو گئی۔ میں ایک ایسے ماحول میں سانس لے رہی تھی کہ جہاں عورت کو جانور سمجھا جاتا تھا۔
عذاب سہتے سہتے میں امید سے ہو گئی۔ ایک بیٹے کو جنم دے کر ماں تو بن گئی لیکن بچّہ سنبھالنا میرے بس سے باہر تھا۔ دن کو ساس ہی اس کو سنبھالتی، رات کو وہ اسے میرے حوالے کر دیتی۔ بچّہ شب بھر میں کئی بار اٹھتا، روتا رہتا اور مجھ پر نیند کا غلبہ طاری ہو جاتا تو گل رخ غصّے میں اٹھ کر مجھ سوتی کے بال پکڑ لیتا۔ اس کی نیند بار بار ٹوٹتی تھی، تب وہ پاگل سا ہو جاتا۔ آدھی رات کو مجھے دھنک کر رکھ دیتا کہ بچّے کو چپ کرا، اسے بھوک لگی ہے، اسے دودھ پلا۔ ایسے حالات میں کوئی مرد کیسے خوش رہ سکتا ہے۔ گل رخ نے اپنی ناآسودگی کا حل تلاش کر لیا۔ گائوں کی ایک الھڑ مٹیار سے دوستی کی پینگیں بڑھا لیں۔
یہ عورت وقوفہ تھی۔ شادی کے ایک سال بعد شوہر نے طلاق دے دی تھی۔ گل رخ نے اس کے والد سے بات کی۔ اس کے باپ اور بھائی اس شرط پر رشتہ دینے پر راضی ہوئے کہ بدلے میں وقوفہ کے بھائی ظہور کو وہ اپنی بہن کا رشتہ دے گا۔
گل رخ کی ایک ہی بہن تھی ’’زلیخا‘‘ جو بیاہی جا چکی تھی اور تین بچّوں کی ماں بن چکی تھی لیکن یہاں معاملہ دل کا تھا۔ وہ ہر قیمت پر اپنے دل کی آرزو پوری کرنا چاہتا تھا چاہے بیاہتا بہن کا گھر برباد ہو جائے۔ اس نے باپ سے فریاد کی۔ ابا تم نے اتنی چھوٹی لڑکی سے میرا بیاہ کر کے کس جرم کی سزا دی ہے۔ یہ میرے پاس بسنے کو تیار ہی نہیں ہے، مجھے اس سے سکون کی بجائے کوفت ملتی ہے۔ اب اگر تم نے میری بات نہ مانی تو میں ریل کی پٹری پر جا کر لیٹ جائوں گا۔
آخر چاہتے کیا ہو؟ چچا نے بیٹے سے سوال کیا۔
پہلے یہ بتائو کہ تمہارے بھائی کے گھر تمہاری بیٹی سکھی ہے، کیا وہ لوگ تمہاری لڑکی سے کوئی رو رعایت کرتے ہیں؟ تم نے بیٹی اسی کارن بھائی کے گھر دی تھی کہ اپنے ہیں اور زلیخا کا خیال کریں گے تو کتنا خیال کیا ہے؟اس کی زندگی برباد کر کے رکھ دی ہے اور مجھے کیا ملا ہے، تمہاری بیوقوف بھتیجی سے شادی کر کے، جو ہر روز بچّہ چھوڑ کر ماں کے گھر بھاگ جاتی ہے اور ابھی تک گڑیوں سے کھیلنے کے ارمان کرتی ہے۔ تم آخر کیا چاہتے ہو پتر بتائو؟
میں چاہتا ہوں کہ تم اپنی لڑکی ان سے واپس لے آئو اور تاجی کو ان کو لوٹا دو۔ بے شک وہ اپنے بچّے رکھ لیں، ہم بھی اپنا بچّہ رکھ لیتے ہیں۔
دو گھر برباد کر بھی دوں تو پھر کیا ہوگا؟
بہت اچھا ہو جائے گا، نورنگ والے اپنی لڑکی کا رشتہ دینے کو تیار ہیں، مگر بدلے میں اپنی لڑکی تو دینی پڑے گی۔ زلیخا کو دے کر وقوفہ کو لے آئیں گے۔
میرا بھائی ایسا کبھی نہ مانے گا پتر…زلیخا کے اب تین بچّے ہیں۔ لاکھ ظلم سہے گی اپنے بچّے وہ بھی نہ چھوڑے گی۔ یہ ممکن نہیں ہے، مگر تو دھیرج رکھ میں کوئی اور تدبیر کرتا ہوں۔ فضل دین نے بھائی سے مشورہ کیا، وہ بولا… تمہاری لڑکی نہیں بستی، ہماری لڑکی تو بس رہی ہے نا، اس کا گھر کیوں برباد کرتے ہو۔ اپنی لڑکی کو طلاق دلوانی ہے تو کوئی اور تدبیر ڈھونڈو، ہم مفت میں اپنی بہو کیوں دیں۔ میرا بیٹا پھر کیا کرے گا، اس کی اگر بیوی لے جائو گے۔ اتنے پیسے بھی نہیں ہیں ہمارے پاس کہ اس کے لئے کسی لڑکی کا رشتہ خرید لیں۔
گل رخ نے دیکھا اس کا تایا بڑا کائیاں بن رہا ہے۔ اس نے خود جا کر میرے ابا سے بات کی، بولا تایا جی سنو…تمہاری لڑکی وہاں سے بھاگتی ہے لہٰذا میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں، ہماری بہن واپس کر دو، نہیں تو اپنی بیٹی کو کسی اور جگہ بیاہ کر بدلے میں ان کی لڑکی ہمیں لا دو۔ میں وقوفہ کے بھائی سے اس کی شادی کرا کر ان کی شرط پوری کر دوں گا تو وہ وقوفہ کا نکاح میرے ساتھ کر دیں گے۔ قریبی رشتہ داری تھی، زلیخا کا باپ تنازعہ بڑھانا نہ چاہتا تھا، ورنہ بہو کے ساتھ پوتے پوتیاں بھی جدا ہو جاتے۔ اس نے کہا …ٹھیک ہے تم تاجی کو طلاق دو میں اس کو کہیں اور بیاہ کر بدلے میں لڑکی لا کر وقوفہ کے باپ کی شرط پوری کر دوں گا۔
اس گائوں میں یہ کیسا بدلے کا رواج تھا کہ اس کے بغیر کوئی نوجوان شادی نہ کر سکتا تھا۔ اگر بدلے کا رشتہ موجود نہ ہوتا تو بدلے کی شرط پوری کرنے کو رقم یا زمین دینی پڑتی تھی اور یہ دونوں چیزیں فضل دین اور فاضل کے پاس نہ تھیں۔
بھائی آپس میں جدا نہ ہوں، اس کے لئے اولاد کی قربانی تو دینی پڑتی ہے اور بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں کی قربانی دینا ایک باپ کے لئے آسان بات تھی۔
تایا اور چچا کی باہمی رضامندی سے تاجی کو طلاق ہو گئی اور فیصلہ یہ ہوا کہ ساتھ والے گائوں کے منظور کے لڑکے سے اس کی شادی کے عوض ایک لاکھ روپے کی رقم لے کر وقوفہ کے باپ کو دے دی جائے تاکہ وہ اس رقم سے اپنے بیٹے کے لئے کسی لڑکی کا رشتہ خرید کر گھر بسا سکے۔ یہ صورتحال وقوفہ کے والد اور بھائیوں کے آگے رکھی گئی تو اتنی بڑی رقم دیکھ کر ان کے منہ میں
پانی بھر آیا۔ بولے ہمیں یہ منظور ہے کہ ایک لاکھ کے بدلے میں آپ وقوفہ سے گل رخ کا نکاح کرالیں۔ ہم آپ کی دی ہوئی رقم سے اپنے بیٹے کے لئے رشتہ لے لیں گے۔
جب تاجی نے سنا کہ اس کے دام لے کر اسے ساتھ والے گائوں بھیجا جا رہا ہے تو وہ بہت پریشان ہوئی۔ وہ تمام رات سو نہ سکی۔ لاکھ چھوٹی عمر سہی پھر بھی وہ ایک ماں تو تھی اور وہ اس کے بچّے کو جدا کرکے بالکل اجنبی لوگوں کے سپرد کر رہے تھے جن سے وہ کبھی ملی تھی اور نہ جن کو کبھی دیکھا تھا۔
شادی وٹے سٹے کی ہوتی تو میکے سسرال کا ناتا قائم رہ جاتا، یہ تو رقم کے بدلے کی شادی تھی گویا وہ اب میکے والوں کے لئے مر گئی تھی۔ وہ مجھے مار دیتے یا بیچ دیتے، میں کچھ نہ کر سکتی تھی، اپنوں سے فریاد کرنے اور ان تک رسائی کے سارے رستے بند ہو رہے تھے۔ اس نے راتوں رات ایک عجیب فیصلہ کر لیا۔ آدھی رات کو اپنے بچّے کو سینے سے لگا کر گھر سے نکل گئی۔ نہیں جانتی تھی کہ اس کی منزل کہاں ہے لیکن وہ بس چلتی جا رہی تھی، سوچ رہی تھی صبح جب شہر پہنچ جائے گی تو وہاں کسی شہر والے سے بپتا سنا کر مدد کی درخواست کرے گی۔ سن رکھا تھا کہ شہر میں ایک جگہ دارالامان بھی ہے جہاں لاوارث اور مظلوم لڑکیوں کو پناہ دی جاتی ہے۔ ابھی اس نے ایک میل کا رستہ بھی طے نہ کیا تھا کہ اپنے تعاقب میں لوگوں کے دوڑنے کی آوازیں سنائی دیں۔ یقیناً یہ اس کے والد، تایا، بھائی اور چچازاد تھے، ان کو معلوم ہو چکا تھا کہ وہ رات کو گھر سے نکل پڑی ہے۔
اس نے بھاگنے میں پورا زور لگا دیا، مگر ایک کمزور لڑکی کب تک بھاگ سکتی ہے۔ وہ ایک ایسی دہشت زدہ ہرنی تھی کہ جس کے پائوں زخمی تھے اور طاقت جواب دے چکی تھی۔ ایک جگہ پتھر سے پائوں ٹکرایا اور وہ لڑکھڑا کر گر پڑی اور بچّہ…اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گرگیا۔ بڑی مشکل سے اٹھی کہ قریب سے کتوں کا ایک غول اس پر جھپٹا۔ وہ حواس باختہ ہو کر بھاگی اور بچّے کو نہ اٹھا سکی کہ خونخوار جنگلی کتّے اس کے نزدیک آ چکے تھے۔ انہوں نے بچّے کی بو سونگھ لی تھی۔ وہ اس کا تعاقب چھوڑ کر اس پر جھپٹنے لگے۔ اس کے دل کی کیا حالت ہوئی، وہ خود کو بچاتی یا بچّے کو، اگر ان کتوں کو پرے کرتی تو کیوں کر، اس کے پاس تو کوئی لاٹھی بھی نہ تھی۔ تعاقب میں آنے والوں کے قدموں کی آوازیں بہت نزدیک آ چکی تھیں۔ وہ کتوں کو لاٹھیوں سے مارنے لگے اور اسے وہاں سے نکل بھاگنے کا موقع مل گیا۔
چادر گری دیکھ کر وہ سمجھے کہ وہ گر پڑی ہے اور کتّے اسے بھنبھوڑ رہے ہیں لیکن وہ اس کے معصوم لخت جگر کو بھنبھوڑ رہے تھے۔ اسے خبر نہ رہی وہاں کیا ہوا۔ کتوں کو انہوں نے بھگا دیا اور وہ سرپٹ بھاگتی پکّی سڑک تک پہنچ گئی، جہاں ایک پرانی ویگن نہ جانے کب سے کھڑی تھی۔ وین کے ڈھانچے میں چھپ کر بیٹھ گئی۔
سمجھ رہی تھی کہ وارثین نے کتوں کو بھگا کر اس کے لخت جگر کو اٹھا لیا ہوگا۔ وہ اس کی سلامتی کی دعا کر رہی تھی۔ صبح تک بس یہی دعا کرتی رہی لیکن دعا پوری طرح قبول نہ ہوئی۔ انہوں نے بچّے کو اٹھا لیا مگر وہ صحیح سلامت نہ رہا تھا۔ کتّوں نے اس کو بھنبھوڑ دیا تھا، وہ نہ بچ سکا۔
صبح ایک ٹریفک پولیس کا ٹرک ادھر سے گزرا، انہوں نے برباد وین کے ڈھانچے کے پاس اپنا ٹرک روک دیا، شاید کہ اسے دیکھ لیا تھا۔ پولیس والے پہلے اسے تھانے لائے، پھر مجسٹریٹ کے پاس بیان ہوا۔ اس کے والد بھائی، تایا اور گل رخ بھی کچہری آ چکے تھے۔ گل رخ نے درخواست دی کہ میری بیوی آدھی رات کو میرا بچّہ لے کر گھر سے نہ جانے کس کی خاطر بھاگی تھی، بچّے کو خاردار ویرانے میں پھینک دیا اور کتوں نے معصوم کو بھنبھوڑ کر اس کی جان لے لی۔ یہ میرے بچّے کی قاتلہ ہے۔ بس اسی جرم میں وہ جیل میں تھی۔ اس نے اپنی کہانی سنا کر کہا باجی… آپ یہ بتایئے کیا کوئی ماں اپنے بچّے کی قاتلہ ہو سکتی ہے۔ میں گھر سے نکلی ہی اس لئے تھی کہ اپنے بچّے سے جدا نہ ہونا چاہتی تھی۔ مجھے اس کی جدائی گوارا نہ تھی۔
تاجی کی زبانی اس کی داستان غم سن کر میں بہت افسردہ تھی۔ بعد میں کیا ہوا نہیں معلوم، وہ رہا ہوئی کہ اسے سزا ہوئی لیکن مجھے ایک ایسی کہانی مل گئی جس میں وہ لوگ اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں جو آج بھی بیٹوں کی خوشیاں پوری کرنے کے لئے بیٹیوں کی قربانیاں دیتے ہیں، جو آج بھی بدلے کی رسم کو رواج دیتے ہوئے عورت کو ایک بکنے والی شے سمجھتے ہیں۔ کاش ہمارے دیہاتوں میں علم کی روشنی پھیل جائے تاکہ جہالت کے اندھیرے ختم ہوں۔
(س الف…ڈیرہ غازی خان)