محبت، ذہانت، کیریئر سب اپنی جگہ مگر والدین کی فرمانبرداری زندگی میں جو سکون اور خوشیاں دیتی ہے- اس کا وقت گزرنے کے بعد ہی پتہ چلتا ہے- کون سوچ سکتا تھا کہ ملنسار خوش مزاج سی تائی امی، اپنی بہو کے لیے روایتی ساس ثابت ہوں گی- اور نازک مزاج اکھڑ سی پھوپھو اپنی بہو کو ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھیں گی – کچھ باتوں کو قسمت پر ہی چھوڑ دینا بہتر ہوتا ہے- آپ سب کو میری یہ باتیں سمجھ میں نہیں آ رہی ہوں گی میں آپ کو شروع سے بتاتی ہوں – صفا نے بی اے کر لیا تھا بس اب اسے میرے شاہ زیب کی دلہن بنا دو- پھوپھو نے خوشگوار انداز میں امی سے کہا- میں اپنے دھیان میں اندر اتے ہوئے دروازے کے باہر ہی رک گئی -ان دونوں نے مجھے نہیں دیکھا – لہذا میں وہیں کھڑے ہو کر بات سننے لگی- میں صفا کے ابو سے بات کرتی ہوں پھر جیسے وہ کہیں -امی نے ٹالنے والے انداز میں کہا، گو وٹا سٹا ہونے کی وجہ سے وہ بھی پھوپھوکی نند تھی اور برابر کی دھونس جما سکتی تھی مگر عمروں کا فرق اور پھوپھو کا مزاج انہیں ہمیشہ زیر رکھتا تھا – حد کردی سیما، سلیم نے بھلا کیا کہنا ہے- میں نے تو شاہ زیب کو بچپن سے کہہ رکھا ہے کہ اپنی بھتیجی کو بہو بناؤں گی- تو مجھے یہ بتاؤ کہ کب رشتہ لے کر آؤں- اس دن شادی کی تاریخ بھی رکھ دیں گے- انہیں فورا برا لگا -جبھی لہجے میں کرواہٹ گھل گئی- ارے آپا ایسی بات نہیں، شاہ زیب سے بڑھ کر کون ہوگا؟ دراصل بڑی بھابی کا بھی صفا کے لیے ارادہ ہے- امی کی دوغلی بات پر میں حیران رہ گئی- نوجوانی کی جذباتیت ،مصلحت اور حکمت جیسے الفاظ سے نا آشنا تھی، درست یا غلط فوری ردعمل میری تسلی کا باعث بنتا تھا -لو بھلا جب معلوم ہے کہ صرف عادل بھائی ہی آپی کو پسند نہیں کرتے بلکہ آپی کا رجحان بھی وہی ہیں- تو صاف منع کر دینا چاہیے تھا- میں اندر ہی اندر امی کی بات سن کر تلملا گئی- مگر پھوپھو کی بات پر مجھے اور بھی غصہ آ یا جو کہہ رہی تھیں، پہلا حق تو میرا ہے مجھے صفا جیسی ہنسنے بولنے والی لڑکیاں پسند ہیں- صبا تو بہت سنجیدہ ہے مگر خیر پھر بھی ایک بھتیجی تو میری ہی بہو بنے گی -ان کے یوں میرے ذہین فتین صبا بچوں پر تبصرے اور حتمی رائے سنتے ہوئے اندر ہی اندرکڑھتی ہوئی واپس کمرے میں چلی آئی – بھتیجیاں نہ ہوئیں بھیڑ بکریاں ہو گئیں-ہم تینوں بہنیں ایک ہی کمرے میں رہتی تھیں – مگر اس وقت وہ خالی تھا – بمشکل بی اے کی سپلی پاس کر کےآج کل صفا آپی کا مشغلہ ککنگ تھا- طرح طرح کی ترکیبیں آزمانا ان کا مشغلہ تھا- وہ اس وقت باورچی خانے میں مصروف تھی-
صبا بجو کو پڑھنے کا بہت شوق تھا – آپی سے سال بھر چھوٹی ہونے کے باوجود دونوں نے ایک ساتھ میٹرک کیا تھا – پھر بجو اپنے خوابوں کو پورا کرنے یونیورسٹی تک جا پہنچی اور زیادہ تر یونیورسٹی کی لائبریری میں ہی وقت گزارنے لگی – ان کے پاس سائنس کے مضامین تھے- انہیں گولڈ میڈل لینا تھا- ڈاکٹریٹ کرنی تھی- اور اللہ جانے ان کے کیا کیا خواب تھے- اس وقت بھی وہ یونیورسٹی سے واپس نہیں آ ئی تھی – آپی اور بجو سے کافی چھوٹے میں اور اسامہ تھے اور ہم دونوں جڑواں تھے – میٹرک کے بعد اس سال ہی میں نے خوشی خوشی کالج میں داخلہ لیا تھا- کالج جا کر میری ساری خوشی پر پانی پھر گیا – کالج میں بھی سکول کی طرح اسمبلی ہوتی- یونیفارم کی پابندی تھی -اور تمام کلاسز اٹینڈ کرنا لازمی تھا- اس لیے آ ج میں نے طبیعت کی نا سازی کا بہانہ بنا کر چھٹی کی تھی – اور یہ احتیاط ضرور کی کہ اسامہ کو میری چھٹی کا علم نہ ہو- اس کا کالج الگ تھا – وہ پبلک بس سے جاتا تو جلدی نکل جاتا- میرے لیے شاہ زیب بھائی کے کہنے پر وین لگوائی گئی تھی- شاہ زیب بھائی ہمارے گھریلو معاملات میں بہت دخل دیتے تھے – رشتے میں تو وہ ہمارے ماموں کے بیٹے تھے مگر میٹرک کے بعد ہی ہمارے گھر آ کر رہنے لگے – اس کی ایک وجہ تو ابو کی نوکری تھی – جس میں دن رات کی ڈیوٹیاں لگتی تھیں – کچھ امی کے اکیلے پن اور چھوٹے بچوں کا خیال، تو کچھ بڑے شہر میں اچھی تعلیم کا سوچ کر ماموں نے بیٹا بہن کو دیا تھا – میں پہلی جماعت میں تھی جب وہ ہمارے گھر کا فرد بن گئے – اور انہوں نے مجھے اور اسامہ کو پڑھانے کی ذمہ داری سنبھال لی- ہم دونوں آپس میں اتنا لڑتے تھے کہ آپی اور بجو کے لیے ہمیں پڑھانا تو دور کی بات بلکہ صلح صفائی سے بٹھانا بھی مشکل ہو جاتا تھا – انہوں نے شروع سے ہی ہمیں کچھ ڈانٹ اور کچھ لاڈ سے یوں قابو کیا کہ ہم انہیں دل سے بڑا بھائی ماننے لگے- یہیں رہ کر انہوں نے تعلیم مکمل کی، کیریئر بنایا انہیں اس شہر میں رہتے ہوئے اٹھ دس سال ہو گئے تھے – اور آئندہ بھی یہی رہنا چاہتے تھے – اس لیے ماموں نے اپنے بڑے بیٹے اور بیٹی کی شادی کے بعد ہمارے ہی محلے میں ایک مکان خریدا، یوں ماموں اور پھوپھو بیٹے کے ہمراہ یہیں آباد ہو گئے – شاہ زیب بھائی کی رہائش تو بدل گئی مگر وہ آج بھی امی ابو کے لیے بڑے بیٹے کی حیثیت رکھتے تھے-
اب پھوپھو نے یہ داماد والا نیا مسئلہ کھڑا کر دیا تھا- میں کمرے میں اکیلی لیٹے یہی سوچ رہی تھی ابھی پھوپھو ہمارے ہی گھر میں تھی سو میں نے دل میں بات دبا لی- لیکن موقع ملتے ہی میں نے اپنا پیٹ بہنوں کے ساتھ ہلکا کیا- کیا واقعی دونوں کا رد عمل بے ساختہ تھا- آپی کا رونے والا منہ دیکھ کر میں نے مزید کہا – سچی میں نے خود سنا تھا – بلکہ پھوپھوتو کہہ رہی تھی کہ صفا ہو یا صبا کسی ایک کو تو میں ضرور اپنی بہو بناؤں گی- حد ہو گئی میں کہاں سے آ گئی – میرے پاس ابھی شادی کا بالکل وقت نہیں- اپنے نام پر بجو کے چہرے کے تاثرات بگڑ گئے – مجھے شاہ زیب بھائی سے شادی نہیں کرنی- پلیز صبا کچھ کرو- آپا نے ملتجی انداز میں بچوں کو دیکھا، کرنا کیا ہے امی کو بتا دو، بجو نے ناک سے مکھی اڑائی – مجھے بھی عادل بھائی اچھے لگتے ہیں- تائی اماں بھی خوش مزاج ہیں – پھوپھو کی طرح نہیں، بے ساختہ اپنی رائے دیتے ہوئے مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ عادل بھائی اور آپی کی پسند ایک کھلا راز تھا – میرے منہ سے یہ ذکر بڑی بہنوں کو پسند نہ آیا – وہ ہر بات پر مجھے چھوٹی ہو چھوٹی بن کے رہو کہنے کی عادی تھی- اس لیے کچھ بھی کہنے کی بجائے آپی ایک دم سے چپ ہو گئیں – انہیں شاید مجھ سے اس بات کی توقع نہیں تھی – بجو کی گھورتی نظروں سے گھبرا کر میں نے کہا ، وہ امی پھوپھو کو بتا رہی تھی ،تائی اماں کا بھی ارادہ ہے شاید میری دھماکہ دار خبر مجھے ڈانٹ سے بچا گئی – آ پی نے خوش ہو کر بجو کا ہاتھ پکڑ کر زور سے ہلایا ، بس اب تم امی سے بات کرنا، پہلے انہوں نے بات کی ہے تو پہلا حق ان کا ہے-تاکہ امی میری کلاس لیں- معاف کرو بہن ، تم لوگوں کے مسئلے ختم نہیں ہوتے،آ رام بھی نہیں کرنے دیتے – مجھے ابھی اپنا اسئنمنٹ بھی بنانا ہے بجو بیزار ہو گئی- مگر مجھے معلوم تھا آپی انہیں منا لیں گی -اس لیے خاموشی سے اٹھ کر باہر آ گئی- اس کے بعد میرا پورا دھیان امی کی طرف تھا- میں چاہتی تھی کہ جب بات ہو تو مجھے فورا معلوم ہو جائے- یہ موقع بجو کو رات کو ملا- کھانے کے بعد ابو واک کرنے چلے جاتے- اسامہ اس وقت ٹیوشن جاتا تھا- میں اب بجو سے ہی پڑھ لیتی- صرف ریاضی کے لیے اسامہ یا شاہ زیب بھائی سے مدد لینا پڑتی – کیونکہ بچوں نے پری میڈیکل پڑھی تھی- آپی دانستہ کچن میں مصروف ہو گئی اور بجو اپنی اور امی کی چائے لیے ان کے پاس آ بیٹھی- بظاہر میں کتابیں پھیلائے بیٹھی تھی مگر میرا پورا دھیان ان کی طرف تھا – تائی امی نے عادل بھائی کا رشتہ مانگا ہے بجو نے تمہید باندھے بغیر امی سے پوچھا – امی بری طرح چونکی- نہیں تو بس ذکر کیا تھا کہ مجھے صفا عادل کے لیے پسند ہے- تمھیں کس نے بتایا ؟ چھوٹی نے بتایا تھا -اس نے آج آپی آپ کی بات سنی تھی چائے کا کپ منہ سے لگاتے بجو نے سکون سے میری جان نکال دی – میں نے گھبرا کر سر اٹھایا تو امی کی نظریں مجھے ہی گھور رہی تھیں- شرم ہے تمہیں کچھ ،اس لیے کالج سے چھٹی کی تھی کہ چھپ کر باتیں سنو- ان کی ڈانٹ پر میں نے من منا کر صفائی دینے کی کوشش کی- میں تو کام سے آئی تھی پھوپھو خود ہی اتنی زور سے بات کر رہی تھیں – میں خود کو بہت حاضر جواب خوش اخلاق اور پر اعتماد اور نہ جانے کیا کیا سمجھتی تھی- اس لیے کم ہی چپ رہتی- امی غصے میں خاموشی سے مجھے گھورنے لگی –
صفا کا رجحان بھی یہی ہے امی ،تائی امی کا مزاج بھی پھوپھو سے اچھا ہے – آپ ان کو منع کر دیں بجو نے ان کے سوال کا جواب سنے بغیر مشورہ دیا تو امی کو غصہ آ گیا- میں تمہاری ماں ہوں یا تم میری ؟ جو مرضی کروں- ابھی جو تائی اچھی لگتی ہے نا ساس بن گئی تو سارے کس بل نکال دیں گی- شکر ہے انہیں یہ پوچھنے کا خیال نہیں آیا کہ بجو کہ اس رشتے کا کیسے معلوم ہوا- ورنہ اب گھوری کی بجائے ڈانٹ پڑتی – تو بھگتے گی خود ہی -کم از کم خواہش تو پوری ہو جائے گی- بجو نے آرام سے کہا وہ تائی کو بھگتے گی، تو تم پھوپھو کو بھگت لینا – بھائی کو انکار نہیں کر سکتی میں – امی نے صاف کہا اور بچوں کو اسی بات کا ڈر تھا – میری شادی کا تو ابھی سوچیے گا بھی مت – چاہے کوئی شاہ زیب آئے یا حاجی – پانچ سال سے پہلے میں نے کوئی شادی نہیں کرنی – انہوں نے قطعی انکار کر دیا – تمہاری پھوپھو آسمان سر پر اٹھا لیں گی تمہارے ابو یہ سب نہیں سنیں گے- امی نے ڈرایا- وہ خود بہت الجھی ہوئی تھی – اس لیے اپنے مزاج کے برعکس غصے میں آ گئیں- پھپھو کو منع کرنا آسان نہ تھا اسی بات سے بجو بھی سوچ میں پڑ گئی – اس وقت تو وہ خاموشی سے وہاں سے اٹھ گئی مگر اگلے دن انہوں نے مسئلے کا حل نکال لیا- ہم شاہزیب بھائی سے بات کر لیتے ہیں وہ سمجھدار ہیں- اب زبردستی تو شادی نہیں کریں گے نا- بجو نے ہم دونوں کے سامنے تجویز رکھی – ان سے بات کیسے کریں گے اور کون کرے گا ؟ آپی نے سوال اٹھایا بات اپنے گھر میں کریں گے- آج رات کو حرا انہیں فون کر کے بلائے گی – ریاضی سمجھنے کے لیے- ابو اور اسامہ تو ہوں گے نہیں – اس لیے بات تمہیں خود کرنا ہوگی- صاف کہہ دینا کہ مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی- آپ کو انکار کرنا ہوگا- بجو نے پورا منصوبہ سمجھایا – سب کچھ ہمارے حسب منشا ہو گیا – بلکہ شاہ زیب بھائی کے آنے سے پہلے امی بھی اپنے کمرے میں عشاء کی نماز شروع کر چکی تھی- سو میدان صاف تھا- وہ ائے تو میں کتابیں لیے منتظر بیٹھی تھی – مرے مرے ہاتھ سے صفحہ پلٹتے ہوئے میں انہیں سوال بتا رہی تھی – جب بجو اورآپی اندر داخل ہوئے – آپی اتنی گھبرائی ہوئی تھی کہ بنا سلام کیے کھڑے کھڑے بولنا شروع کر دیا – شاہ زیب بھائی پھوپھو نے آپ کا رشتہ دیا ہے مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی- آپ خود ہی پھوپھو کو منع کر دیں – اگر آپ نے انکار نہیں کیا تو مجھے آپ اچھی طرح جانتے ہیں – انہوں نے جلدی جلدی دھمکانے والے انداز میں بات ختم کی اور داد طلب انداز میں ہماری طرف دیکھا – مگر حیرت انگیز طور پر یہ خبر شاہ زیب بھائی کے لیےنئی نہیں تھی نہ ہی وہ آپی کی جاندار اداکاری سے متاثر ہوئے اور انہیں جانے کا موقع دیا بغیر بولے ٹھیک ہے پھر میں ماموں جان کو بتا دیتا ہوں کہ اپ کی لاڈلی میرے سے شادی نہیں کرنا چاہتی – آپی کو ایسے کورے جواب کی توقع نہ تھی اسی لیے جب جواب نہ سوجھا توصوفے پر بیٹھ کر رونے لگی – پلیز شاہ زیب بھائی اپ تو ہمارے بھائی ہیں – آپ مدد نہیں کریں گے تو ہم کیا کریں گے – ان کے التجائیہ انداز پر ہم دونوں بہنوں نے اپنی اکڑی گردنیں نیچے کر لی – چہرے پر دکھی تاثرات لا کر ہم نے باجماعت رونے کی اداکاری کی – مسئلہ کیا ہے؟ انہوں نے ہمیں گھورتے ہوئے پوچھا – میرے منہ سے بے اختیار نکلا آپ – آپی کے اشارے پر بجو نے بولنا شروع کیا – امی نے بتایا ہے کہ پھوپھو نے بچپن میں ہی بھتیجی کو بہو بنانے کا کہہ دیا تھا – آپ چونکہ یہاں رہتے تھے تو اس بات کا پہلے ذکر نہیں کیا گیا- اب پھوپھو باقاعدہ منگنی کی رسم کرنا چاہتی ہیں صفا ایسا بالکل نہیں چاہتی- آپ تو ہمارے اصلی والی والے بھائی ہیں نا- بجو نے رام کہانی مکمل سنا دی – میں بھائی کے چہرے پر تاثرات جانچنے کی کوشش کرتی رہی – نہ یہ خبر سن کر شاہ زیب بھائی حیرت سے اچھلے – نہ آپی کا انکار سن کر ان کا دل ٹوٹا- بس ہلکی سی ناگواری والے تاثرات کے ساتھ وہ بڑبڑائے تھے- حد کرتی ہیں امی اور پھوپھو – پھر وہ آپی کی طرف متوجہ ہوئے-تو آپ شادی کیوں نہیں کرنا چاہتی ؟ مجھ سے شادی پر اعتراض ہے یا شادی ہی نہیں کرنی – چاہے کوئی کتنا ہی قریبی یا قابل اعتماد رشتہ ہو لڑکیوں کو اپنے مسائل ماں سے بیان کرنی چاہیے- اور انہی سے مدد مانگنی چاہیے – وہ نصیحتیں کر رہے تھے اور مجھے ہنسی آنے لگی – انہیں ہمارا دادا ابا بننے کا بڑا شوق تھا- اور امی اور دیگر بڑے جانے کیا سوچ رہے تھے ؟ایسے کھڑوس کے ساتھ اچھا ہی ہے آپی کی شادی نہ ہو- عادل بھائی تو بڑے ہنس مکھ ہیں- آپی اور ان کی پسند بھی ہم پر ظاہر تھی بس ایک بار یہ مسئلہ ختم ہو اورباقاعدہ رشتہ ائے تو پھر سب خیر ہی ہے- میں نے دل ہی دل میں سوچا – ہمارے خاندان میں رشتے کے لیے واحد قابلیت خاندان کا ہونا تھا خاندان سے باہر رشتوں کا رواج نہ تھا-
شاہ زیب بھائی کو بجو نے صاف صاف بتا دیا کہ علی بھائی اور آپی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں – اس لیے اگر اپ اس رشتے سے انکار کر دیں تو تبھی ممکن ہے کہ ان دونوں کی شادی ہو سکے- جس پر شازیب بھائی نے کہا میں منع کر بھی دوں تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا – کیونکہ میں امی ابو کو اپنی شادی کا مکمل اختیار دے چکا ہوں – اس دن تو بظاہر بات ختم ہو گئی ہم تینوں بہنیں کتنے دن منتظر رہیں کہ شاید کوئی ائے گا- – پر اتنے میں تایا ابو اور تائی امی باقاعدہ مٹھائی کے ساتھ آپی کا رشتہ مانگنے چلے آئے – یہ یقینا شاہزیب بھائی کا کام تھا – آپی نے سکھ کا سانس لیا- لیکن بجو کی جان سولی پر لٹک گئی کیونکہ تائی اماں نے نہ صرف رشتہ مانگا بلکہ آپی کا منہ بھی میٹھا کرا دیا-پھپھو نے آپی اور عادل بھائی کے رشتے کو قبول کر لیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ میرے لیے ساری بھتیجیاں برابر ہیں اور بجو کا رشتہ شاہ زیب بھائی کے لیے مانگ ڈالا-آپی خوش اور بجو بہت بے چین تھیں- اتنے میں وہ ہوا جو ہم نے نہ سوچا تھا – ابو کے پاس بجو گئی اور کہنے لگی کہ مجھے پڑھنا ہے اپنے خواب پورے کرنے ہیں – آپ ایسا نہ کریں جب ابو کمرے سے باہر ائے تو وہ بہت سنجیدہ تھے – اور بجو چادر تان کر رو رہی تھی – میں نے ان کو کبھی روتے نہ دیکھا تھا – ابو نے پھوپھو کو منع کر دیا تھا اندر خاموشی چھائی ہوئی تھی آپی خود کو مجرم سمجھ رہی تھی کہ ان کی خوشی خراب ہوتے دیکھ کر مجھے ترس آیا – مٹھائی لاؤ مٹھائی لاؤ منہ میٹھا کراؤ ایسی آوازوں کے ساتھ ڈرائنگ روم کا دروازہ کھل گیا- تائی اماں چہک رہی تھی -بہت وہ باریک ہو بیٹا تائی اماں نے مجھے لپٹا کر پیار کرتے ہوئے کہا- سب بہت خوش تھے- آپ کو بھی مبارک ہو- میں نے ہاتھ میں پکڑی پلیٹ سے مٹھائی ان کے منہ میں رکھ دی – خیال ایا کہ برابر میں بیٹھی پھوپھو ناراض ہو جائیں گی تو باقی مٹھائی ان کی طرف بڑھا دی – پھوپھو نے ہنستے ہوئے مٹھائی کھا کر مجھے گلے لگا لیا – یہ میری بلبل – میری نظر نے اج سے پہلے اتنا خوش پھپھو کو کبھی نہ دیکھا تھا- میں نے سب کو مٹھائی دی ابا اور ماموں اور تایا ابا نے مجھے بہت سر پر پیار دیا – اتنے میں امی کی اواز سنائی دی کہ چائے لےآؤ – آپی لا رہی ہیں میں نے امی کو جواب دیا – جس پر انہوں نے شعلے برساتی نظروں سے مجھے کچن کی طرف جانے کو کہا – بے وقوف لڑکی ہے یہ اس کا رشتہ شاہ زیب سے طے کر دیا- اور منہ میٹھا کروانے کے لیے بلایا اور یہ خود سب کے منہ میٹھے کرانے بیٹھ گئی – مٹھائی کے ٹوکرے سے گلاب جامن اٹھاتے ہوئے مجھے امی کی آواز سنائی دی اور گلاب جامن میرے ہاتھ سے پھسل گیا- میرے حلق میں آواز پھنس گئی- میں کہنا چاہتی تھی کہ یہ سب کیا ہو گیا ہے- اللہ تمہیں خوش رکھے میری چندا میری دلی خواہش تھی کہ میں شاہ زیب کو اپنا داماد بناؤں- امی نے مجھے بہت پیار سے سینے سے لگا لیا- صبا بجو نے اپنی بات منوا لی ،انہوں نے ابو کو احساس دلایا کہ وہ ابھی شادی سے دور رہنا چاہتی ہیں- میری تو کوئی پسند نہیں تھی- اس لیے سب لوگوں نے میری اور آپی کی شادی ایک ساتھ کر دی- صبا بجو کی شادی حسب خواہش چند سال کے بعد ہوئی- سب اپنے گھروں میں بہت مطمئن اور خوش زندگی گزار رہی ہیں- اور مجھے تو دنیا میں جنت مل گئی – عمروں کا فرق اور مزاج کے بارے میں لگائے سارے اندیشے غلط ثابت ہوئے – شاہ زیب میرا بہت خیال رکھنے والے شوہر ہیں – امی ابو کے فرمانبردار بیٹے تھے اور اب عادل بھائی کی طرح داماد بھی نہیں بنے- پھوپھو نے بھی تائی اماں کی طرح ساس بن کر نہیں دکھایا – کبھی پھوپھو سے ملتی ہوں تو وہ پیار سے چھیڑتی ہیں کہ یہ واحد لڑکی ہوگی جس نے رشتہ طے ہونے پر اپنے ساس اور سسر کا منہ خود میٹھا کرایا- شاہ زیب شرارت سے کہتے ہیں میرے جیسا ہیرا جسے ملے گا اس کی خوشی کا کیا ٹھکانہ ہوگا- میں بظاہر تو بہت چڑتی ہوں مگر بات تو یہ سچ ہے –