Thursday, November 7, 2024

Dyne Wala Hath

ریشم اپنے موبائل میں گم ، دنیا جہاں سے بے خبر صوفے میں دھنسی بیٹھی تھی۔ بچوں کی پیدائش کے بعد وزن بڑھ گیا تھا۔ اور اصل عمر سے کچھ بڑی بڑی دکھائی دے رہی تھی۔ میں آج بھائی، بھابھی سے ملنے آئی تو پتا چلا کہ ان کی اکلوتی بیٹی بھی دو دن سے میکے آئی ہوئی ہے بھائیوں، بہنوں کی اولاد میں میری سب سے زیادہ دوستی ریشم کے ساتھ تھی ۔ مجھ سے مل کر اور حال چال پوچھ کر وہ پھر سے موبائل میں گم ۔ بھائی نے کہا۔ آؤ شائستہ اندر بیٹھتے ہیں۔ یہاں بچوں نے پھیلاوا کیا ہوا ہے۔میں فورا بولی۔ ارے نہیں نہیں بھائی نہیں لاؤنج میں ٹھیک ہے۔ میں کوئی مہمان تھوڑی ہوں۔ صاف اور نفیس طبیعت کے بھائی کے لاؤنج کو دیکھ کر مجھے تھوڑا خود بھی عجیب محسوس ہو رہا تھا۔ ریشم کا ایک پانچ سالہ بیٹا ، ماں کی طرح ہی ہاتھ میں آئی پیڈ پکڑے، قالین پر لیٹا کھا رہا تھا۔ قالین اور کشن پر چپس اور چاکلیٹ کے خالی ریپر تھے۔ جب کہ اس کی بیٹی کھلونوں کی پوری ٹوکری الٹ چکی تھی۔ اور پھر بھی اس کی پسند کا کھلونا نہیں مل رہا تھا۔ ادھر ادھر کھلونے بسکٹ کے ریپر ، اور کیچپ کی بوتل اور جانے کیا کیا الا ہلا پڑا تھا۔ بھائی کی گھوری پر ریشم نے کچن کا رخ کیا۔ ننگے پیر قالین پر کوئی ٹوٹا کھلونا اس کے پاؤں پر لگا اور زور سے کراہتے ہوئے ایک ہاتھ بیٹی کو جڑ دیا جس نے یہ سارا گند پھیلایا تھا۔ ریشم کی بیٹی نے وہ شورڈالا کہ خدا کی پناہ بھائی فورا اٹھ کر بچی کو بہلانے لگے لیکن اس کے شور میں کمی واقع نہ ہوئی۔ شور سے ویڈیو دیکھتا بیٹا متاثر ہو رہا تھا سو فوراً اٹھا اور بہن کو ڈانٹنے لگا۔ چپ کر جاؤ مجھے سنائی نہیں دے رہا۔ پانچ سال کے بچے کا یہ لہجہ سن کر میں حیران رہ گئی اپنے پرس سے چاکلیٹ نکال کر بچی کو دی۔ اور بیٹے کو پاس بلا کر پوچھا۔ آپ کیا دیکھ رہے ہو ؟ فورا بولا۔ میں اسپائیڈرمین دیکھ رہا ہوں ۔ میں نے بہلا کر اپنے ساتھ بٹھا لیا اور کہا۔ واہ آپ کا اسپائیڈرمین تو بڑا ہیرو ہے لیکن ان سے بھی بڑےیرو کی اسٹوری سناؤں آپ کو۔ بچہ تھا اور خوش ہو کر بولا ۔اس سے بھی اسٹرونگ ۔ میں نے اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قصہ جو انہوں نے قلعہ خیبر کا دروازہ ، اپنے ہاتھوں سے اکھیڑا تھا کو بچوں کی ذہنیت کے مطابق کر کے سنایا تو خوش ہو کر بولا۔ آپ کے پاس اوراسٹوری بھی ہیں ؟ یعنی بچوں میں کہانیاں سننے کی چاہ ہے لیکن ہم نے انہیں آسان اور نقصان دہ آلات کے ساتھ چھوڑ دیا کہ خود دیکھیں اور تربیت حاصل کریں۔ میں نے جھٹ ریشم سے کہا جو چائے اور لوازمات رکھ رہی تھی۔ بیٹا شام کو آنا میری طرف اتنے عرصے بعد آئی ہو۔ ریشم نے فورا ہامی بھر لی۔میں شام کو ریشم کو دینے والی میں ذہن میں ٹپس تیار کرنے لگئی۔
☆☆☆

چائے پی کر میں گھر روانہ ہوئی۔ ریشم کی پسندیدہ چاٹ اور پاستا کی تیاری کرنے لگی۔ کام سے فارغ ہوئی نماز مغرب ادا کی تو ریشم آ گئی۔ بیٹے کو ساتھ لائی تھی اور بچی کو نانی کے پاس چھوڑ آئی تھی ۔ پھوپھو ! آپ تو ابھی بھی جوان لگتی ہیں۔ آتے ہی میرے گلے لگ گئی۔ مجھے دیکھیں کتنی موٹی ہو گئی ہوں ۔ میں نے یہیں سے شروع کر دیا۔ بیٹا دینے والا ہاتھ ہو اور لینے والا نہیں ۔ ریشم نے نا سمجھی سے مجھے دیکھا اور پھر فورا بولی پھوپھو! میں تو ہر ماہ صدقہ نکالتی ہوں۔ اور بلکہ ہر ہفتے اپنی کام والی ماسی کو تنخواہ کے علاوہ بھی دیتی رہتی ہوں بس اللہ دینے والا ہاتھ رکھے۔ میں مسکرائی اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بولی۔ بیٹا! ایک مفہوم تو یہ ہے کہ دینے والا ہا تھ یعنی پیسے سے مالی مدد کرنا۔ ایک دوسرا مفہوم بھی ہے جس پر ہم سب مسلمانوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ کیا مطلب پھوپھو ؟  ریشم نے فوراً سوال کیا۔ بیٹا ! جو شخص اپنا وقت، اپنی توانائی، اپنی ذاتی خوشیاں، آسانیاں دوسروں کو دے دیتا ہے وہ اصل میں دینے والا ہا تھ ہوتا ہے۔ جیسے تم اگر اپنا وقت موبائل کے بجائے اپنے بچوں کو دو۔ اپنی خوشی کو چھوڑ کر اپنی آسانی کو چھوڑ کر اپنی ماں اور ساس کے ساتھ بیٹھو۔ گھر داری میں اپنی جسمانی کوشش کو استعمال کرو۔ سارا گھر ماسی پر چھوڑنے کی بجائے خود بھی ساتھ ساتھ کام  کرو تو وزن بھی کم اور دوسروں کو خوشی، سکون دے کر جو مخلص دعائیں تم  لو گی وہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ یہ دعائیں تمہارے اور بچوں کے مستقبل کے لیے کتنی ضروری ہیں۔ تمہیں قدم قدم پر احساس ہوگا۔ پھوپ ھولینے والا ہاتھ اور دینے والا ہاتھ ۔ اس مفہوم پہ تو میں نے سوچا ہی نہ تھا۔ ریشم کے چہرے پر ایک انوکھی چمک تھی اور کچھ کرنے کا عزم ۔ سچ ہے اس نسل کی تربیت پر ہم نے محنت کر لی تو اگلی نسلوں پر اس تربیت کا اچھا اثر ہوگا۔
☆☆☆

Latest Posts

Related POSTS