میںاُن دِنوں طالبہ تھی۔ ہماری کلاس کالج کی طرف سے گلگت سیر کو گئی۔ وہاں میری ملاقات ایک نوجوان اجمل سے ہوگئی وہ بھی اپنے ڈپارٹمنٹ کی جانب سے سیاحت کے لئے آیا ہوا تھا۔ ہم نے کچھ دیر آپس میں بات کی اور پھر اپنے ایڈریس لکھ کر ایک دوسرے کو دیئے۔
اپنے شہر آ کر میں نے اجمل سے رابطہ کیا۔ وہ اسی بات کا منتظر تھا فوراً ملنے کو کہا۔ دل نے کہا۔ جب گلگت میں ملنے میں حرج نہ تھا تو یہاں اپنے شہر میں ملاقات کرنے میں کیا حرج ہے۔ پس میں خود کو نہ روک سکی۔ اجمل سے ملنے اُس کے بتائے ہوئے مقام پر چلی گئی۔ یوں ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا اور پھریہ ملاقاتیں محبت میں بدل گئیں اور ہم نے عہدِ وفا باندھ لیا۔
میں نے اجمل سے کچھ نہیں چھپایا۔ اُسے بتا دیا کہ میں ایک صراف کی بیٹی ہوں اور ہمارے گھر دولت کی ہی نہیں سونے کی بھی ریل پیل ہے۔ امّی کے پاس اعلیٰ درجے کے زیورات تھے۔کچھ ایسے بھی تھے جن میں بیش قیمت ہیرے جڑے ہوئے تھے۔
جب اجمل سے ملنے جاتی ،کوئی ایسا ہلکا پھلکا جڑائو سیٹ پہن کر جاتی کہ اُس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی تھیں۔ وہ میرے خاندان کی امارت سے بہت مرعوب تھا گرچہ خود کو ایک بڑے اور کام یاب بزنس مین کا بیٹا بتاتا تھا لیکن مجھے اس میں کچھ شک تھا کیونکہ میرے اندازے کے مطابق وہ اتنا امیر کبیر نہیں تھا جتنا ظاہر کرتا تھا۔ آدمی اپنی حرکات سکنات، اُٹھنے بیٹھنے کے طور طریقوں سے پہچانا جاتا ہے تاہم وہ بے حد پُرکشش شخصیت کا نوجوان تھا۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ وہ امیر ہے یا غریب، مجھے تو بس اپنے پیار سے غرض تھی کیونکہ محبت میں امیری غریبی نہیں دیکھی جاتی بلکہ دلی سکون دیکھا جاتا ہے۔
بے شک میں ایک متموّل خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ تاہم والد صاحب بیٹیوں کو کھلی چھٹی دینے کے قائل نہ تھے۔ تعلیم کی خاطر جائز آزادی دینے کے حامی ضرور تھے۔ وہ مجھے اس طرح زندگی کا ساتھی چننے کی اجازت بھی نہیں دے سکتے تھے جبکہ میری منگنی اپنے خاندان ہی میں ایک میٹرک پاس لڑکے سے ہو چکی تھی جو ہمارے ایک رشتہ دار کا بیٹا تھا اور اپنے والد کے ہمراہ دکان پر کام کرتا تھا۔ ان تمام حقائق سے میں نے اجمل کو آگاہ کر دیا۔
جب میں نے تعلیم مکمل کرلی تو اجمل نے مجھ سے شادی کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ میں نے کہا۔ تم رشتہ لے کر ہمارے گھر آئو، لیکن اکیلے مت آنا۔ اپنے گھر والوں کو ساتھ لانا ورنہ تمہاری پذیرائی ہمارے گھر میں نہ ہوگی۔ لیکن اجمل نے عذر پیش کر دیا کہ وہ اپنے والدین کو ساتھ نہیں لا سکتا کیونکہ وہ اس کی شادی اپنے عزیزوں میں کرنا چاہتے ہیں جبکہ وہ لڑکی اُس کو پسند نہیں ہے۔
مجھے بھی اپنا منگیتر پسند نہیں ہے۔ تو اب کیا کرنا چاہئے۔ اس مسئلے کا کوئی حل تو ڈھونڈنا ہوگا ورنہ پھر اپنی راہیں الگ کرنی ہوں گی۔ پہلے قدم پر ہی تم اٹک گئے ہو۔ اپنے والدین کو نہ سہی کسی رشتے دار مثلاً ماموں چچا کسی کو لے آئو۔ وہی تو چاہتے ہیں کہ میں ان کا داماد بنوں وہ میرے ساتھ آنے پر کیسے راضی ہوں گے… ہاں اگر دوستوں کو کہو تو ساتھ لے آتا ہوں۔ میں نے کہا۔ تمہاری مرضی لیکن اس طرح بات نہیں بنے گی۔
خیر کوئی دُوسرا حل نہ پا کر وہ اپنے ایک دوست کے ہمراہ ہمارے گھر آ گیا۔والد اور بھائی دُکان پر تھے، امّی گھر پر تھیں۔ اس نے امّی کے سامنے اپنا مدعا بیان کر دیا، لیکن میری والدہ نے اجمل سے صاف کہہ دیا کہ نبیلہ کی منگنی ہو چکی ہے اور یہ منگنی ٹوٹ نہیں سکتی لہٰذا تم دوبارہ یہاں مت آنا، ورنہ کہیں میرا خاوند تمہاری بے عزتی نہ کر دے۔ اس انکار پر میں سخت دلبرداشتہ ہوئی اور اجمل کا منہ اُتر گیا۔ وہ ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح ہمارے گھر سے نکلا تھا۔ اُسے دُکھی دیکھ کر میرا دل اور زیادہ پریشان اور بے قرار ہوگیا تھا، تبھی اُسے فون کیا اور کہا کہ تم پریشان مت ہو، میں ہر صورت عہدِ وفا نباہوں گی اور ہم کورٹ میرج کر لیں گے۔
ٹھیک ہے، لیکن کچھ دن صبر کرو کیونکہ ابھی میں شادی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ میں سخت جذباتی ہو رہی تھی۔ پوچھا کیوں؟ ابھی کیوں نہیں۔ میں سمجھ رہی تھی کہ اس کی ہمارے گھر آکر جو سبکی ہوئی ہے یہ اس وجہ سے خفا ہے اور اب مجھ سے دامن چھڑا رہا ہے۔ وہ بولا۔ایسی بات نہیں ہے دراصل مجھے کاروبار میں خسارہ ہوگیا ہے۔ اس وجہ سے پریشان ہوں۔ کچھ رقم کی ضرورت ہے، اُسے حاصل کرنے میں کافی وقت لگے گا۔
میں نے کہا ۔تم رقم کی فکر مت کرو۔میری امی کے پاس بہت زیورات ہیں، نقدی بھی بغیر گنی ان کی سیف میں پڑی رہتی ہے۔ چابیوں کا مجھے علم ہے کہاں رکھتی ہیں۔ جب چاہوں جس قدر چاہوں رقم نکال سکتی ہوں۔ دیر نہ کرو۔ والد میری شادی کے پروگرام کو حتمی شکل دینے والے ہیں وہ آج کل میں تاریخ طے کر لیں گے پھر کچھ نہ ہو سکے گا۔ وہ میری شادی کر دیں گے اور تم حالات سُدھارتے رہ جائو گے۔
قصّہ مختصر ہم نے شادی کرلی۔ ماں باپ کے دل پر جو گزری سو گزری لیکن میں کافی زیورات اور نقدی والدہ کے سیف سے زادراہ کے طور پر لے آئی تھی۔ اس کے بعد مجھے گھر والوں کے حالات کا علم نہ ہو سکا۔ نکاح… اجمل کے ایک دوست کے گھر پر ہوا اور اس کے بعد ہم ہنی مون منانے مری آگئے۔ ہم یہاں ایک ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ میرا سارا زیور اجمل کی تحویل میں تھا۔ چند دن ہم خوشیوں میں ڈُوبے رہے۔ لگتا تھا کہ اجمل کو پا کر جیسے مجھے سارا جہان مل گیا ہے۔ ایک دن اجمل نے کہا کہ اُسے کاروبار کے سلسلے میں راولپنڈی جانا ہےلہٰذا ہوٹل چھوڑنا ہے۔ وہ بولا۔ آئمہ میں تمہیں اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتا۔ تمہیں میرے ایک دوست کے پاس یہیں ٹھہرنا ہے۔ میرے دوست کا یہاں اپنا گھر ہے۔ تم اس کے گھر ٹھہرو گی اور میں دو چار دنوں بعد کام نمٹا کر لوٹ آئوں گا۔ زیورات میں لا کر میں رکھوا دیتا ہوں۔
اجمل نے اپنے دوست کا نام ثاقب بتایا۔اس نے کہا۔ یہ دوست نہیں میرے بھائی جیسا ہے۔ اس پر مجھے مکمل بھروسہ ہے۔ تمہیں ہرگز کوئی تکلیف نہ ہوگی۔ بس دو چار دن کی بات ہے۔ پنڈی مری سے کچھ زیادہ دُور بھی نہیں ہے۔
اجمل مجھے لے کر دوست کے گھر آ گیا۔وہ اکیلا رہتا تھا۔ ایک ملازم ساتھ تھا۔ مجھے عجیب سا لگا لیکن مجبور تھی۔ اجمل چلا گیا اور میں دو دن ثاقب کے گھر رہی… اس شخص نے میرا خیال رکھا۔ وہ سارا دن گھر سے باہر ہی رہتا۔ رات کو آ کر اپنے کمرے میں سو جاتا اور میں اپنے کمرے کو اندر سے لاک کر کے سو جاتی۔
ٹھیک دو روز بعد اجمل لوٹ آیا۔ میری جان میں جان آگئی۔ دو تین دن ہم اسی گھر میں ٹھہرے۔ پھر اجمل نے کہا کہ والد صاحب کسی کام سے بیرون ملک جا رہے ہیں۔ مجھے ہفتے بھر کے لئے جانا ہے اور ان کا آفس سنبھالنا ہے۔ تمہیں ساتھ نہیں لے جا سکتا۔ فی الحال یہ شادی خفیہ رکھنی ہے۔ ورنہ طلاق دلوا دیں گے۔ رفتہ رفتہ ان کو راضی کرنے کےبعد تمہیں اپنے ساتھ گھر لے جا سکوں گا۔
اتنے دن میں اکیلی تمہارے دوست کے گھر کیسے رہوں گی۔ دو دن کی بات اور تھی اب نجانے تم کب آئو۔
کیا کروں… مجبوری ہے۔تمہیں یہیں رہنا ہوگا، اب میکے میں تو تم جا کر نہیں رہ سکتیں۔ یہاں رہنے میں کوئی حرج نہیں، خوفزدہ نہ ہو۔ یہ میرا بچپن کا دوست ہے۔ تمہیں کوئی تکلیف نہ ہوگی۔ اگر تمہارا جی گھبرائے گا تو یہ اپنی والدہ کو گائوں سے یہاں بلوا لے گا۔ غرض بہت زیادہ اعتبار دلا کر اجمل مجھے ثاقب کے گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ اور میں دھڑکتے دل کے ساتھ اکیلی رہ گئی۔
اجمل کو گئے ایک ہی دن گزرا تھا کہ بھید کھل گیا۔ اس نے مجھ سے دھوکا کیا تھا اور مجھے جان بوجھ کر ثاقب کے حوالے کر گیا
تھا۔ یہ اس کا دوست نہیں تھا ایک ایسا خریدار تھا جو مری میں اپنی دولت کے بل بوتے پر عیش کرنے آیا تھا۔
اُسی نے مجھے بتایا کہ اجمل کا کام ہی یہی ہے۔ بھولی بھالی لڑکیاں پھانس کر انہیں ذلیل و خوار کرنا اور ان کے بدلے میں رقم کمانا۔ اب تم لعنت بھیجو اس مردود پر اُسے بھول جائو۔ میں اس قدر روئی کہ ثاقب گھبرا گیا۔ بالآخر اُسے مجھ پر رحم آگیا۔ میں نے بتایا کہ اس نے مجھ سے نکاح کیا تھا پھر بھی دھوکا کر گیا۔ ثاقب بولا۔ وہ نکاح نامہ جعلی تھا۔ جسے وہ میرے حوالے کر گیا ہے تا کہ میں اسے کالعدم کرا دوں۔ جعلی ہے تب بھی ہم قانونی طور پر اُسے کالعدم کرائیں گے پھر میں تم سے نکاح کر لوں گا۔ میں نے سوچ لیا ہے کہ تمہیں قانونی طور پر اپنا کر پناہ دوں۔
اس طرح ایک عیاش آدمی بھی میرے آنسوؤں کی سچائی سے پگھل گیا اور مجھے شرافت کی زندگی دینے پر مجبور ہوگیا، لیکن افسوس ہے اجمل پر جس نے شرافت کا لبادہ اوڑھ کر میری سچی محبت کے جذبہ کو اپنے لالچ کی تلوار سے ذبح کیا اور مجھے نیلام کر کے چلا گیا۔ زیورات اور نقدی بھی ساتھ لے گیا۔ اسے میری محبت پر تو کیا میری مظلومیت پر بھی رحم نہ آیا۔ بے شک اجمل جیسے بے ضمیر اور بے غیرت لالچی مردوں کا ٹھکانہ جہنم ہی ہوگا۔ صد شکر ادا کرتی تھی کہ میرا خریدار باضمیر تھا۔ اگر ثاقب کے دل میں انسانیت نہ ہوتی تو شاید میرا بھی ٹھکانہ اس دُنیا میں کسی ایسی جگہ ہوتا کہ جسے لوگ جہنم کہتے ہیں۔
آج وقت میرے وجود پر اپنے بھاری قدموں سے چلتا ہوا نصف صدی پار کر گیا ہے۔ ثاقب اس دُنیا میں نہیں رہے۔ بے شک وہ لوگوں کی نظروں میں ایک عیاش انسان تھے لیکن میری نظروں میں وہ کسی فرشتے سے کم نہ تھے کہ انہوں نے مجھ گم کردہ راہ کو تحفظ دے کر ایک بہت بڑی تباہی سے بچا لیا۔ اور جو غلطی کم سنی یا بے وقوفی کے باعث مجھ سے سرزد ہوئی تھی ان کی پناہ میں چلے جانے سے میں اس غلطی کی سنگین سزا سے بچ گئی ۔ وہ اگر اچھے انسان نہ ہوتے تو مجھے اپنانے کی بجائے کسی ایسے بردہ فروش کے حوالے بھی کر سکتے تھے جو بار بار میرا سودا کرتا یا پھر کسی ظالم عیاش کے حوالے کر کے اپنے دام کھرے کر لیتا۔ اُف کیا میں ایسا ظلم سہنے کی تاب رکھتی تھی۔
ایک میں ہی کیا، یہاں ہزاروں لڑکیاں اسی طرح بے وقوف بنتی رہی ہیں اور اپنی جذباتی سوچوں کے ہاتھوں آئندہ بھی بے وقوف بنتی رہیں گی۔ یہ کہانیاں اَزل تک یونہی جنم لیتی رہیں گی۔ اللہ کرےہماری لڑکیوں کو عقل آ جائے اور وہ اپنی زندگی کے فیصلے اس طرح جذبات کی رو میں بہہ کر نہ کریں۔
میری ایک سوتن اور اس کے چار بچے بھی تھے۔ ثاقب نے ان کا حق اپنی زندگی میں ان کو دے دیا تھا۔ اور زمین و جائداد میں میرے بچوں کا جو حصہ بنتا تھا ان کو دے گئے، یوں ہمارے بیچ جھگڑے اور مسائل پیدا نہ ہوئے اور ان کی وفات کے بعد بھی ہم مالی طور پر آسودہ زندگی گزارنے کے قابل رہے، ورنہ یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہوتا ہے ۔اگر شوہر فوت ہو جائے اور پہلی بیوی کے بچے عاقل بالغ اور دوسری بیوی کے بچے کم سن ہوں تب بھی وہ مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آج بھی ہر سانس کے ساتھ ثاقب کے لئے دُعا گو رہتی ہوں۔ (ل… مظفرآباد)