Thursday, April 18, 2024

Ek Adhori Neki | Teen Auratien Teen Kahaniyan

ان دنوں ایف اے میں تھی جب ایک بم دھماکے میں والد صاحب لا پتہ ہو گئے۔ وہ جائے وقوعہ پر ڈیوٹی دے رہے تھے۔ پھر ان کا جسد خاکی ملا اور نہ قبر بنی کہ فاتحہ کو جاتے تو بے قرار دل کو تسکین مل جاتی۔
میرے بھائی حامد ان دنوں بی اے کر رہے تھے ۔بھائی جان مجھ سے صرف دو برس بڑے تھے۔ ان کی تعلیم ادھوری رہ گئی کیونکہ ہم دونوں میں سے اب صرف ایک ہی تعلیم جاری رکھ سکتا تھا ۔ میں چاہتی تھی بھائی جان تعلیم جاری رکھیں اور وہ چاہتے تھے میں ایف اے مکمل کر لوں ۔وہ کہتے۔ نعیمہ میں لڑکا ہوں، مزدوری بھی کر لوں گا لیکن تم لڑکی ہو تمہیں ضرور تعلیم حاصل کرنی چاہئے تاکہ برے حالات میں اس قابل ہو کہ اپنے پائوں پر کھڑی ہوسکو۔
بہت اصرار کیا حامد بھیا نہ مانے اور مجھے ایف اے کا امتحان دلوا دیا،تاہم آگے نہ پڑھ سکی کیونکہ جو کچھ ابو کی شہادت کے بعد ان کے محکمے سےملا وہ صرف دو سال کا خرچہ تھا جبکہ ہم چھ بہن بھائی ،والدہ اور دادی سمیت گھر کے کل آٹھ افراد بنتے تھے۔ ہمارا گھر بھی اپنا نہیں تھا۔
حامد بھائی کو نوکری نہ ملی تو میں نے حالات کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے ایک سہیلی کے مشورے پر نرسنگ ٹریننگ لے لی۔ تربیتی کورس مکمل ہوتے ہی ایک اسپتال میں نوکری مل گئی۔ ہمارے حالات ان دنوں بے حد خراب تھے۔ میری ملازمت کی وجہ سے گھر کو کچھ سہارا ملا اور زندگی کی گاڑی جوں توں چلنے لگی۔بھائی نے بی اے مکمل کر لیا تومیں نے انہیں بھی اسپتال میں ملا زمت دلوا دی ۔ جب ہم دونوں بہن بھائی کمانے لگے تو چھوٹے بہن بھائی پھر سے اسکول جانے لگے ۔ہماری زندگی کی اس وقت سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ بہن بھائی تعلیم حاصل کر لیں۔
جس اسپتال میں ہم کام کرتے تھے ،وہاں ایک عدیلہ نامی نرس تھی۔ وہ ہر دم بنی سنوری رہتی تھی بظاہر ہنستی رہتی مگر اس کی ہنسی میں دکھ کی گھلاوٹ تھی جیسے وہ کوئی غم چھپائے ہو۔ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ باتیں بھی دل موہ لینے والی کرتی۔ ایک بار جو اس سے گفتگو کر لیتا وہ اس کا گرویدہ ہو جاتا۔ میں بھی اس کی گرویدہ ہو گئی۔ ہماری دوستی ہو گئی۔ایک دن عدیلہ نے بتایا کہ سابقہ اسپتال میں جہاں وہ پہلے کام کرتی تھی وہاں کا ایک ڈسپنسر جس کا نام اظہار تھا اس میں دلچسپی رکھتا تھا۔ وہ اس سے دوستی کرنا چاہتا تھا تبھی وہ ملازمت چھوڑ کر اب اس اسپتال میں آ گئی ہے۔ مجھے اظہار کے قصے سے کوئی لگائو نہ تھا سو اس معاملے کو زیادہ نہ کریدا ،خاموشی اختیار کر لی۔
کچھ ہی دن گزرے تھےکہ عدیلہ پریشان دکھائی دینے لگی۔ وہ اب چادر میں آنے لگی تھی ۔میرا ماتھا ٹھنکا، پریشانی کا سبب پوچھا۔ بولی کہ وہ کم بخت یہاں بھی آنے لگا ہے۔میرا پیچھا کرتا ہے، ملنا چاہتا ہے۔ اب مجھے تنہا جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے، تم اگر بس اسٹاپ تک چھوڑ دیا کرو تو مہربانی ہو گی۔
تم جانتی ہو کہ میں بھائی کے ساتھ آتی جاتی ہوں۔ان سے بات کرتی ہوں،تب ہم لوگ بس اسٹاپ تک پہنچا دیا کریں گے۔ بلکہ اس وقت تک تمہارے ساتھ رہیں گے جب تک تمہاری سواری نہیں آ جائے گی۔اس نے سکون کا سانس لیا۔ میں نے چائے کے وقفے کے دوران ڈسپنسری آفس جا کر بھائی حامد سے بات کی۔ وہ بولے ۔کیوں نہیں ہم اسے چھوڑ دیا کریں گے۔ بس اسٹاپ زیادہ دور نہیں ہے۔
ایک اسٹاف ممبر کی حیثیت سے ہم نے یہ فرض جانا کہ اس کی پریشانی میں معاون و مددگار ہو جائیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ حامد بھائی کی موٹر سائیکل پر میںان کے ساتھ آتی تھی ۔ہم دونوں پہلے اسے پیدل بس اسٹاپ پر چھوڑنے جاتے۔ میں وہاں رک جاتی اور بھائی اپنا موٹر سائیکل لے کر آ جاتے۔ عدیلہ بس پر سوار ہو جاتی اور میں بس اسٹاپ سے ہی حامد بھائی کے ساتھ گھر آ جاتی۔
کچھ دن بعد عدیلہ نے کہا۔ نعیمہ تم اگر برا نہ مانو تو ایک بات کہوں۔ کہو۔ میں نے جواب دیا۔ حامد میرے بھی بھائی جیسے ہیں۔ وہ اگر مجھے اسٹاپ تک اپنی بائیک پر چھوڑ دیا کریں تو تم پیدل جانے سے بچ جائو گی۔ میں نے حامد سے بات کی ۔وہ بولے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں، اسٹاف کے لوگ کہیں باتیں نہ بنائیں۔انہیں چھوڑیں، دنیا کی پروا کریں گے تو کیا حاصل ہو گا۔ وہ میری دوست ہے اور بیچاری ہر وقت ڈری سہمی رہتی ہے۔ میری وجہ سے ایسا کہہ رہی ہے ۔غرض کسی طور میں نے بھائی کو راضی کیا۔ اب چھٹی کے وقت وہ پہلے عدیلہ کو اپنی بائیک پر بٹھا کر بس اسٹاپ لے جاتے۔ اس کی بس آ جاتی تو پھر اسپتال واپس آکر مجھے ساتھ لے جاتے۔
دنیا واقعی بری جگہ ہے۔ لوگ اپنے کام بھول کر دوسروں کی ٹوہ میں لگ جاتے ہیں۔ہمارے اسٹاف ممبرز میں سے دو افراد رشید اور اعظم بھی ٹوہ میں لگ گئے ۔انہوں نے بھائی کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔وہ اکثر طنزیہ جملے بھی کہنے لگے۔ تب ایک روز میں نے ان کو ڈانٹا کہ اگر تم لوگ باز نہ آئے تو سرجن سے شکایت کر دوں گی۔ اس کے بعد انہوں نے حامد بھائی کا پیچھا چھوڑ دیا لیکن موقع ملتے ہی عدیلہ کو ضرورتنگ کرتے۔
ایک روز عدیلہ بہت رنجیدہ تھی۔ میں نے وجہ پوچھی تو رونے لگی کہ دیکھو نعیمہ لوگ کتنے بے رحم ہیں۔ کوئی لڑکی کبھی خوشی سے گھر کے آرام کو تج کر دفتروں میں کام کرنے نہیں نکلتی۔ گھر کی ٹھنڈی چھائوں کو چھوڑ کر مریضوں کی ڈیوٹی دینے آنا مجبوری ہے۔ اگر مجبور نہ ہوتی تو یوں تپتی دھوپ میں ڈیوٹی کے بعد اکیلے گھر جانا نہ پڑتا۔ بلکہ گھر کی محفوظ چار دیواری میں دوپہر کی نیند کے مزے لیتی۔ یہاں تو قدم قدم پر ہم جیسی مجبور لڑکیوں کے لئے جال بچھائے رکھے ہیں ۔پھونک پھونک کر قدم رکھنے کے باوجود بیچاری ملازمت پیشہ عورت ان جالوں میں پھنس کر برباد ہو جاتی ہے یا پھر تڑپتی رہ جاتی ہے۔ ہم مجبور لڑکیاں اس معاشرے میں پیٹ کی خاطر ٹھوکریں کھانے سے پہلے مر جائیں تو اچھا ہے۔
اس نےمجھے اس دن اپنی غربت اور یتیمی کی ایسی لرزہ خیز داستان سنائی کہ میرا دل بھی اس کے ساتھ خون کے آنسو رونے لگا۔ اس دن کے بعد ہماری دوستی اور اعتماد کا رشتہ مزید گہرا ہو گیا۔
حامد بھائی کو خاص ہدایت کرتی کہ یہ بیچاری بہت دکھی ہے اور ہم لوگوں سے بھی زیادہ غریب ہے۔ اس خستہ حال کا خاص خیال رکھا کریں۔
ایک روز حامد بھائی اسے بس اسٹاپ چھوڑنے جا رہے تھے کہ اس نے ایک نوجوان کو دیکھا۔ وہ جلدی سے ان کی موٹر سائیکل سے اتر گئی اور بولی ۔حامد آپ ذرا دور ہو کر چلیں، کسی نے مجھے آپ کے ساتھ دیکھ لیا تو ٹھیک نہ ہو گا۔ حامد بھائی بیچارے پریشان ہو گئے تاہم انہوں نے عدیلہ کی ہدایت پر عمل کیا۔ وہ دور کھڑے رہے اور عدیلہ آگے بڑھ گئی ۔اس نے ایک رکشہ روکا اور اس پر بیٹھ کر چلی گئی۔ بھائی نے گھر آ کر بتایا کہ پتا نہیںعدیلہ کی کیا مجبوری تھی جو اس کو ایسا کرنا پڑا۔
دو تین روز بعد پھر ایسا ہی واقعہ پیش آیا تو اس بار بھائی حامد نے کچھ برا محسوس کیا ۔مجھے کہا کہ تمہاری سہیلی کو اس طرح میں کب تک ساتھ لے کر جائوں گا اور اس کا محافظ بنا رہوں گا۔ اسے کہومجھ پر پورا اعتماد کر ے یا پھر اپنا کوئی دوسرا بندوبست کر لے۔ دراصل وہ دوسروں کے سامنے اس طرح کا رویہ اپنا لیتی جیسے حامد بھائی اس کا پیچھا کر رہے ہیں تب انہیں اپنی توہین محسوس ہوتی تھی۔
ایک روز بھائی نے کہا۔ آج میں عدیلہ سے صاف بات کروں گا، اور تم درمیان میں مت آنا۔بڑے بھائی کی وجہ سے میں ان کے سامنے زیادہ تکرار نہ کر سکی۔ اگلے دن انہوں نے عدیلہ سے کہا۔ یہ معاملہ کچھ درست نہیں لگتا۔ تم جب اس نوجوان کو دیکھتی ہوتو مجھ سے ہٹ کر چلنے لگتی ہو۔آخر وہ کیوں آتا ہےتمہارے پیچھے۔ اس معاملے کے اندر کوئی بات ایسی ضرور ہے کہ تم خوف زدہ
ہو جاتی ہو۔ اگر مجھے بتائو گی تو آج کے بعد کبھی تمہارے ساتھ نہیں آئوں گا،پھر تم جانو اور تمہارا کام جانے۔
اس دن عدیلہ نے بھائی کے سامنے آنسو بہائے اور کہا کہ خدارا غلط نہ سوچئے بلکہ مجھ سے شادی کر لیجئے تاکہ مجھے سچ مچ کا تحفظ مل جائے۔ میں قسم کھاتی ہوں کہ آئندہ پھر اس کے بعد کسی سے بات نہیں کروں گی۔
اس کی خوبصورت آنکھوں سے آنسو بہتے دیکھ کر بھائی کا دل پسیج گیا۔ انہوںنے مجھ سے مشورہ کیا کہ اگر ہم اس لڑکی کو سہارا دیں تو کیا یہ اچھا نہ ہو گا۔میں تو پہلے ہی اس کے سحر میں گرفتار تھی۔ میں نے خوش ہو کر کہا۔بھائی جان یہ تو بہت اچھا ہو گا، میری پسند کی بھابھی مل جائے گی اور عدیلہ کو تحفظ مل جائے گا۔ یقیناً اس نیکی پر اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہوں گے۔کہنے لگے۔ اور امی جان! انہیں میں منا لوں گی ،یہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔
حامد بھائی شاید خود بھی اس مظلوم حسینہ کو پسند کرنے لگے تھے جب عدیلہ کی جانب سے اظہار دل بستگی ہو گیا تو پوری طرح اس کے خواب وخیال میں مبتلا رہنے لگے۔
میں بھی اس لڑکی کے لئے ہمدردی کے ساتھ ساتھ محبت کے جذبات محسوس کرتی تھی۔ عدیلہ اب مطمئن نظر آتی۔ وہ اسپتال میں پھر سے بن ٹھن کر آنے لگی ۔ہر طرف چہکتی پھرتی۔ جب بھائی کا سامنا ہوتا تو لجانے شرمانے لگتی ،تب مجھے وہ ہونے والی بھابھی کے روپ میں اور بھی اچھی لگتی ۔سوچتی کہ مرد کا تحفظ بھی عورت کے لئے کیا شے ہے۔کل تک یہ ڈری سہمی الجھی الجھی رہنے والی لڑکی اب پھول کی طرح کھلی رہتی ہے۔ زندگی اور امید کی سرخوشی سے بھرپور ،وہ اب ایک نئی عدیلہ نظر آتی تھی۔
بھائی حامد ہر وقت کہتے کہ دعا کرو، کوئی دوسری اچھی ملازمت مل جائے تو میں اسپتال کی نوکری کو خیر باد کہہ دوں گا ۔ میں نےیہ بات عدیلہ کو بتائی تو وہ بولی ۔ حامد جس حال میں ہیں، مجھے قبول ہیں۔مجھے زیادہ تنخواہ کیا کرنا ہے، اچھی زندگی گزارنے کے لئے شوہر کی محبت اور عزت چاہئے۔ حامد بھائی اب عملی طور پر ایک نئی اور اچھی زندگی کی منصوبہ بندی کرنے میں لگے تھے۔ انہوں نے موجودہ تنخواہ میں سے بھی کچھ رقم پس انداز کرنا شروع کر دی تھی۔ وہ اب فضول خرچی سے احتراز کرنے لگے تھے ۔دوپہر کی چائے تک پینی چھوڑ دی۔ دوستوں سے ملنا جلنا ترک کر دیا تھا کہ بچت ہو اور وہ عدیلہ کو آئندہ اچھی زندگی دے سکیں۔
کچھ دن بیتے ۔میں نے اپنی سہیلی کے رویئے میں تبدیلی محسوس کی ۔وہ اب مجھ سے بھی کٹی کٹی رہنے لگی۔ حامد بھائی کو دیکھ کر کترانے لگتی۔ جب وہ اس سے بات کرنے کی کوشش کرتے تو کہتی۔آپ وارڈ سے فوراً چلے جائو ورنہ لوگ نجانے کیا کچھ کہیں گے۔ اس نے چھٹی کے بعد اکیلے جانا شروع کر دیا۔ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ اچانک اسے کیا ہوا کہ وہ بدل گئی۔ جبکہ حامد بھائی تواسے پر مسرت زندگی دینا چاہتے تھے۔ میں حیران تھی کہ اب وہ آئندہ زندگی کے بارے میںمجھ سے بھی بات کرنے پر آمادہ نظر نہ آتی تھی۔حیران تھی آخر اسے ہو کیا گیا ہے۔
سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ شاید سابقہ دنوں میں اس کے مراسم اظہار یا کسی کے ساتھ رہ چکے تھے یا کسی نے اسے ورغلایا تھا کہ اس نے حامد بھائی کے ساتھ زندگی گزارنے کا وعدہ کر کے آنکھیں بدل لی تھیں۔ جلد ہی یہ راز کھل گیا ۔ وہ دو تین دن نظر نہ آئی تو اس کی ایک ساتھی نرس سے میں نے دریافت کیا کہ تمہیں معلوم ہے عدیلہ کیوں نہیں آ رہی ۔کیا اس نے چھٹی کی درخواست دی ہے؟ کہیں بیمار تو نہیں ہے۔ میرے سوالات پر نازیہ مسکرا دی۔ بولی۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔دراصل وہ اپنے پرانے مسائل کا حل تلاش کرنے گائوں چلی گئی ہے۔
کس قسم کے مسائل ؟پیسوں کا کچھ لین دین ہے اظہار کے ساتھ اس کا۔ اسی کے گائوں گئی ہے۔ یہ بات صرف اس نے مجھے بتائی ہے، تم مت بتا دینا کہ میں نے بتایا ہے ورنہ وہ بہت ناراض ہو گی۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا تھا مگر یہ سچ تھا کیونکہ وہ ایک ماہ نہیں آئی ۔اس کے کسی اور جاننے والے نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ وہ اظہار سے ملتی تھی۔
ہمت نہ پڑتی تھی کہ کس منہ سے حامد کو بتائوں۔ خدا کی کرنی انہی دنوں بھائی کو بینک میں ملازمت مل گئی، تنخواہ بہت اچھی تھی۔ انہیں عدیلہ کی خاطر اچھی نوکری کی چاہ تھی اور بینک میں ملازمت مل جانےکی وجہ سے وہ بےحد خوش تھے۔ میںاس بات کو کب تک چھپا سکتی تھی جبکہ وہ روز عدیلہ کا پوچھتے تھے۔ آخر ایک دن میں نے انہیں بتا ہی دیا۔ وہ صدمے سے نڈھال سے ہوگئے۔ ان کی سوچوں میں محبت کے تاج محل سجانے والی عدیلہ نہ رہی تو وہ زندگی سے بیزار ہوگئے۔ کھانا پینا اتنا کم کردیا کہ بالآخر بیمار پڑگئے۔ انہیں اسپتال میں داخل کرانا پڑا۔
ایک روز بھائی کی حالت سے مجبور ہو کر میں نے نازیہ سے عدیلہ کا نمبر لے کر ملایا اور اس سے کہا۔ عدیلہ یہ تم نے کیا حرکت کی ہے۔ میرے بھائی کو کس جر م کی سزا دی ہےکہ تمہاری وجہ سے وہ بیمار ہو کر اسپتال میں داخل ہیں۔ کیا دکھی لوگ اپنے غمگساروں سے ایسا سلوک کرتے ہیں۔ بولی۔ اپنے بھائی کو فون دو۔ پھر بھائی سے بولی۔ خدا نہ کرے آپ کو کچھ ہو جائے ۔آپ کے بدلے میں مرجائوں۔ میں بھی آپ کی جدائی میں تڑپ رہی ہوں۔ بس کچھ مجبوریاں تھیں جس کی وجہ سے نہیں آرہی تھی۔ آپ ایک بار ملیں تو سہی۔
ایک بار پھر ڈھارس بند ھ گئی تو حامد بھائی کے چہرے پر رونق آگئی اور دوسرے روز جب وہ اسپتال سے گھر آگئےتو عدیلہ کا فون آگیا کہ وہ ملنا چاہتی ہے۔ میرا جی نہ چاہتا تھا کہ وہ آئے مگر اپنے بھائی کی خاطر میں نے اسے حامد بھائی سے ملوادیا۔ وہ بہت پشیمان تھی۔ ہاتھ جوڑ کر معافیاں مانگنے لگی۔ غرض پچھلا غم بھلا کر بھائی حامد پھر اس کی باتوں میں آگئے۔ نئے سرے سے عہد وپیماں ہوگیا۔ میں نے حامد بھائی کو سمجھایا بھی کہ اس کا خیال چھوڑ دیں ۔ یہ قابلِ بھروسہ لڑکی نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ جب ادھر سےٹھوکر لگتی ہے ہماری طرف آجاتی ہے۔ جب دوبارہ سابقہ بندے سے امید بندھ جاتی ہےتوہمیں ٹھکراکر چل دیتی ہے۔ بھائی حامد نے میری نہ سنی۔ بولے ۔پہلے تم نے اس کے دام میں گرفتار کرایا اور اب کہتی ہو۔ ایسی بات نہیں ہے۔ لوگ خواہ مخواہ ہمارے دشمن بن گئے ہیں۔ اس کی کوئی اور ایسی مجبوری تھی کہ چلی گئی تھی اب لوٹ کر آگئی ہے۔ کیا ہرج ہے۔ غرض عدیلہ سے ان کا رابطہ بحال ہوتے ہی دونوں میں کچھ ایسے معاملات پھر سے طے ہوگئے کہ بھائی کی خواہش پر ہمارے گھر میں شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔
ہم اس کے گھر گئے اس کی بیوہ ماں سے شادی کی تاریخ لی۔ اندازہ ہوا کہ اس نے ابھی تک ماں کو اس معاملے میں اعتماد میں نہ لیا تھا۔ بہرحال اس خاتون نے ہماری عزت رکھی اور تاریخ دے دی۔ اب ہم پوری طرح تیاریوں میں مصروف تھے۔ بھائی نے آفس میں اپنے ساتھیوں کوآگاہ کیا لیکن شادی سےایک دن پہلے عدیلہ کی والدہ کا فون آیا کہ عدیلہ بغیر کچھ بتائے گھر سے چلی گئی ہے۔
مجھے اتنا غصہ آیا جی چاہا کہ وہ ملے تو اس کی مرمت کر ڈالوں۔ بھائی کی بھی بری حالت تھی۔ امی جان الگ رو رہی تھیںکہ شادی کے کارڈ بانٹ دیئے تھے اب کس منہ سے رشتے داروں کا سامنا کریں گے۔ ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے تھے۔
مجھے عدیلہ پر سخت غصہ تھا۔ سوچتی تھی اب ملی تو ایسامزہ چکھائوں گی کہ یاد رکھے گی ۔ اپنے دکھ سنائے پھر ہمیں دکھی کرکے چلتی بنی۔ بار بار ہمیں دھوکا دیا۔ آخر ہماری محبت خلوص اور وفا کی بھی تو کوئی قدروقیمت تھی۔ ہم مٹی کے پتلے یا کوئی بے جان کھلونے تو نہ تھے۔
بھائی ہی نہیں ہم سب کافی عرصہ ڈسڑب رہے۔ بھائی کا دل جانتا ہے کیسے انہوں نے یہ وار سہہ لیا۔ بہت دن ہم مردہ سے رہے بالآخر وقت گزر گیا اور ہم رفتہ رفتہ


نارمل ہوگئے لیکن اب بھی جب عدیلہ کا خیال آتا سخت ہتک محسوس ہوتی۔ آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ سوچتی، اے کاش میں اپنے بھولے بھالے شریف بھائی کو نیکی کے تصور میں عدیلہ سے نہ متعارف کراتی تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔
اب حامد بھائی پہلے جیسے نہ رہے تھے۔ وہ سنجیدگی کاپیکر ہوگئے۔ بہت آزردہ دلی سے آفس جاتے۔ ایک روز جبکہ وہ آفس سے نکلے تو انہوں نے محسوس کیا کوئی تیزی سے ان کے پیچھے آرہا ہے۔ مڑ کر دیکھا تو عدیلہ تھی ۔اس نے پکارا۔ حامد رکو میری بات سن لو۔ وہ جلد ازجلد ان تک پہنچ کر بات کرنا چاہتی تھی لیکن حامد بھائی نہیں رکے وہ اپنےکولیگ کے ہمراہ تیزی سے سڑک پار کرگئے۔ وہ پکارتی رہ گئی۔ بھائی کا خیال تھا ایسی لڑکیوں سے بار بار منہ لگنا بربادی اور خود کو اذیت میں مبتلا کرلینے کے سوا کچھ نہیں۔
اس واقعے کے ایک دن بعد اسپتال کے ا س وارڈ میں جہاں میری ڈیوٹی لگی تھی۔ شور مچ گیا کہ عدیلہ نے خودکشی کی کوشش کی ہے۔ اسےبیہوشی کی حالت میں اسپتال لایا گیا تھا۔ وہ یہاں کام کرچکی تھی، اکثر ڈاکٹر اسے جانتے تھے۔ انہوں نے اس کی زندگی بچانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر نہ بچاسکے اور وہ جان کی بازی ہار گئی ۔ اس کی وفات کا دکھ ہوا جیسی بھی تھی آخر ماضی میں اس سے گہرا تعلق رہا تھا۔
اس کی وفات کے کچھ دن بعد میںنے سوچا کہ اس کی ماں کے پاس جانا چاہئے، خودکشی کی وجہ تو معلوم ہو۔کیوں اس نے جان کی بازی ہار دی؟ میں اکیلی ہی اس کے گھر چلی گئی اس کی ماں بہت دکھی تھی ۔وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئی تھی۔ مجھے دیکھ کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ جب ذرا دکھ کی آگ کم ہوئی تو میں نے پوچھا ۔خالہ جی سچ کہئے کہ اس نے کیوں خودکشی کی؟ ایسی زہریلی دوا پی کہ جان سے چلی گئی۔ خالہ جی نے روتے ہوئے بتایا۔ بیٹی وہ تمہارے بھائی حامد سے محبت کرتی تھی ۔ اسی سے شادی کرنا چاہتی تھی لیکن مجبور تھی ۔ ہم نے اظہار کے والد سے قرضہ لیا تھا جس کے بدلے انہوں نے شرط رکھ دی کہ عدیلہ اظہار سے شادی کرلے یا پھر ہم قرضہ ادا کردیں۔
اظہار میرے چچا زاد کا بیٹا ہے۔ پہلے یہ ایک ساتھ اسپتال میں کام کرتے تھے اور عدیلہ کو ملازمت بھی اسی نے دلوائی تھی۔ وہ بضد تھا کہ عدیلہ اس سے شادی کرلے جبکہ وہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔اسے یہ شخص پسند ہی نہ تھا، تبھی وہ کئی بار ان کے گائوں بھی گئی تاکہ اس کے ماں باپ سے التجا کرے کہ وہ اپنے بیٹے کو سمجھائیں۔ قرضہ رفتہ رفتہ ہم ادا کردیں گے۔ وہ مان جاتے مگر اظہار نہیں مانتا تھا اور عدیلہ کو تنگ کرتا تھا ۔جہاں ملازمت کرتی اس کا پیچھا کرتا ۔ کہتا کہ قرضہ طلب کرنے آیا ہوں۔ یہ بات وہ حامد اور تمہیں نہیں بتانا چاہتی تھی تاکہ آپ لوگوں کے دلوں میں بال نہ آجائے ازخود اس مسئلے کا حل ڈھونڈتی رہتی تھی۔ بالآخر ہمارے ایک اور رشتے دار نے معاملہ ہاتھ میں لیا جو اظہار کا پڑوسی بھی ہے۔ اس نے ہمارا قرضہ د ے کر اظہار اور اس کے والد سے لکھوالیا کہ اگر اب اظہارنے عدیلہ کا پیچھا کیا تو وہ ساری برادری اکٹھا کرلے گا اور اس بے حیا آدمی کو قید کرادے گا۔ عدیلہ کے والد کب کے ا س جہان سے گزر چکے تھے اسی وجہ سے بے آسرا عورتیںسمجھ کریہ لوگ ہمیں ستاتے تھے۔
خالہ نے مزید بتایاکہ خودکشی سے ایک روز پہلے وہ کسی طرح بینک کا پتا معلوم کرکے حامد سے بات کرنے گئی تھی تاکہ ساری بات بتاسکے مگر حامد نے بدگمانی میں اس کی بات نہیں سنی اور اسے دھوکے باز کہا تو وہ مایوس ہوگئی۔ رات بھر روتی اور جاگتی رہی۔ تمہیں بھی فون کرنا چاہا مگر نمبر نہ مل سکا ۔ اس نے اگلے دن مایوسی کی کیفیت میں زہریلی دوا پی لی۔
مجھے خالہ کی زبانی حالات معلوم ہوئے تو بے حد دکھ ہوا۔ سوچا یہ خاتون بھی کتنی سادہ ہے۔ پہلے ہی اگر سارا حال بتادیتی تو شاید عدیلہ کی خودکشی کی نوبت نہ آتی۔ مگر افسوس اب کیا ہوسکتا تھا۔ عدیلہ کا غم اور گہرا ہوگیا مگردل میں دبالیا۔ حالات بتا کر اپنے بھائی کو مزید دکھ نہ دینا چاہتی تھی۔ جو آج بھی اسے نہیں بھولے ہیں۔ (ن ۔ کراچی)

Latest Posts

Related POSTS