میری شادی ایک خوشحال گھرانے میں ہوئی تھی۔ شوہر زمیندار تھے، زندگی کسی خوبصورت خواب جیسی تھی سوچا نہ تھا کبھی بُرے دن بھی آئیں گے۔ رزق کی فراوانی نے مجھے ساری دُنیا سے بے نیاز کر دیا تھا۔ کسی کا دُکھ محسوس نہ کر سکتی تھی۔ بستی کی غریب عورتیں جب ہمارے گھر آکر اپنی مفلسی کے دُکھ بیان کرنے لگتیں تو مجھے ان کی باتوں سے اُلجھن ہوتی۔ سوچتی ان کا بس ہر وقت کا یہی رونا دھونا ہے۔ کون آئے دن ان کی فضول باتیں سنے۔
جانتی نہ تھی کہ ہمارے ملک میں بھوک کی بیماری بھی کوڑھ کے مرض کی طرح ہے اس کو جس قدر چھپائو اچھا ہے۔ خاص طور پر سفید پوش طبقے کو تو یہ گھن کی مانند کھانے لگتی ہے، وہ حالات کے بھاری پاٹوں کے بیچ تڑپتا رہتا ہے مگر اُف نہیں کر سکتا، ورنہ رہی سہی عزت بھی خاک میں مل جاتی ہے۔
شرافت اور ظاہرداری کی کند تلواروں سے معاشی مسائل کی بے رحم فوج کا مقابلہ کرنا اور چپ رہنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، لب خاموش رہیں تو مسائل کی یہ فوج انسان کی قوتوں کو اپنی زہریلی زبانوں سے چاٹ چاٹ کر بھربھرا بنا دیتی ہے، بالآخر ایک روز وہ پرانی اور بوسیدہ دیوار کی مانند ڈھے جاتا ہے۔
ہماری زرعی زمین کافی تھی جس میں باغات بھی تھے۔ ایک روز میرے شوہر عابد خان پھل توڑ رہے تھے کہ پیر پھسلا اور نیچے آ رہے۔ میں نے منع بھی کیا تھا کہ درخت پر نہ چڑھنا جامن کی لکڑی کچی ہوتی ہے، یہ نہ مانے، بچوں نے جامن کی فرمائش کی تو یہ درخت پر چڑھ گئے اور ان کے بوجھ سے سوکھی ٹہنی ٹوٹ گئی۔
ٹہنی کے ٹوٹ کر گرنے سے ان کو ریڑھ کی ہڈی پر سخت چوٹ آئی تھی۔ چلنے پھرنے کے قابل نہ رہے۔ فوراً انہیں گائوں سے شہر لائے۔ کافی عرصہ اسپتال میں داخل رہے۔ مسئلہ یہ تھا کہ اب بالکل سیدھے لیٹنا تھا۔ کروٹ بھی نہ لے سکتے تھے، ہلنے جلنے میں تکلیف ہوتی تھی اور کافی احتیاط کی ضرورت تھی۔
بہت دن اسپتال میں ریڑھ کی ہڈی کا علاج ہوتا رہا۔ آپریشن ہوا۔ اللہ کا شکر کہ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے، لیکن اب محنت طلب کام نہ کر سکتے تھے۔ کچھ دنوں بعد دوبارہ تکلیف شروع ہوگئی، چلنے پھرنے سے گردوں میں درد ہونے لگتا تھا۔ وہ اکثر رات کو کراہنے لگتے اور میں ان کی کراہیں سن کر جاگ جاتی تو تمام رات جاگتے گزر جاتی۔
اب زمین کا سارا انتظام مزارعوں کے حوالے تھا نوکر کہاں تک نیّا پار لگا سکتے ہیں۔ وہ ہماری فصل کو ٹڈی دل کی طرح کھانے لگے۔ میں عورت وہ بھی پردہ نشین کھیتوں میں نا جا سکتی تھی اور نا ہی ملازمین کی کارکردگی پر نظر رکھ سکتی، اس کی دیکھ بھال کیسے کرتی۔
اب عابد کو اپنے لٹنے کا تماشہ خود دیکھنا تھا۔ دو قدم چلتے بیٹھ جاتے، بڑی مشکلوں سے کھیتوں تک پہنچتے۔ گردوں میں درد کی ٹیسیں اُٹھنے لگتیں تو کبھی کمر میں تکلیف اُبھر آتی۔ ڈاکٹر ہدایت کرتے زیادہ سے زیادہ آرام کرو۔ ان حالات میں باغ اُجڑنے لگے اور زمین سے آمدنی نہ ہونے کے برابر ہونے لگی تو میں نے عابد کو مشورہ دیا کیوں نہ ہم شہر چلے جائیں۔ میں اپنی بہن اور بہنوئی کو راضی کرتی ہوں کہ وہ اس مشکل گھڑی میں ہمارا ساتھ دیں۔ انہوں نے جواب دیا۔ جیسی تمہاری مرضی۔
میری چھوٹی بہن عابد کے چھوٹے بھائی ساجد سے بیاہی ہوئی تھی، اتنا قریبی رشتہ تھا کہ اس بُرے وقت میں ہمارا ساتھ دینا ان کا فرض بنتا تھا۔ جب میں نے بہن اور ان کے شوہر کو احوال بتا کر مدد کی درخواست کی تو انہوں نے ہمیں مایوس نہ کیا۔ بولے آپ ہمارے پاس شہر میں رہیں یہی بہتر ہے کیونکہ یہاں رہنے سے عابد بھائی کو اسپتال میں داخل ہونے کی سہولت بھی حاصل رہے گی اور علاج معالجے میں آسانی ہو جائے گی کہ عابد کی طبیعت وقفے وقفے سے بگڑ جاتی تھی۔
میرے دونوں بچّے کم سن تھے۔ بہن نے ان کو پرائمری اسکول میں داخل کرا دیا۔ یہ اسکول گھر سے نزدیک تھا اور ان کے بچّے بھی اسی میں پڑھتے تھے۔ میں ان کی بہت مشکور ہوئی۔ میاں بیوی نے دلسوزی سے ہمارے مسائل سمیٹ لئے۔ وہ کہتے تھے کہ اپنے ہی اپنوں کی مدد کیا کرتے ہیں۔ ہم آپ کا ساتھ نہیں دیں گے تو اور کون دے گا۔
ساجد بھائی نے میرے خاوند کو اسپتال میں داخل کرا دیا اور ان کے علاج میں بھرپور تعاون کیا۔ وہ کچھ بہتر ہوگئے اور گھر آ گئے تاہم ڈاکٹر نے انہیں شہر میں ہی
رہنے کی تاکید کر دی کہ گائوں سے بار بار سفر کر کے اسپتال تک پہنچنا ان کے لئے باعث تکلیف تھا۔
اب بڑا مسئلہ زرعی زمین کی دیکھ بھال تھا جس پر ہماری خوشحالی کا انحصار تھا۔ یہ فریضہ بھی ساجد بھائی نے سنبھال لیا۔ وہ صبح نوکری پر جاتے اور دوپہر کو گائوں چلے جاتے۔ کبھی رات گئے اور کبھی بہت سویرے شہر واپس لوٹ آتے۔ ان کے پاس گاڑی بھی نہ تھی، موٹرسائیکل پر شہر سے گائوں آتے جاتے تھے۔ سخت سردیوں میں موٹرسائیکل پر میلوں کا سفر جان جوکھم کا کام ہوتا ہے، دُھند کی وجہ سے اکثر حادثے ہو جاتے ہیں، دُھند صبح اور رات کو زیادہ ہوتی تھی۔ پھر بھی ساجد بھائی نے ہمت نہ ہاری، وہ باقاعدگی سے ہماری اراضی پر جاتے اور وہاں کے معاملات کی دیکھ بھال کرتے تھے جبکہ صبح ان کو اپنے دفتر ڈیوٹی پر حاضر ہونا ہوتا۔
یہ صورت حال زیادہ دن ان سے نہ سنبھل سکی، دفتر سے چند ماہ کی چھٹی لے لی کیونکہ فصل کا موسم تھا اور ان کا وہاں موجود رہنا ضروری تھا۔ اُمید تھی کہ ساجد بھائی کی اس قربانی سے ہمارے دن دوبارہ پھر جائیں گے۔ آپریشن کے کچھ دنوں بعد عابد کی کمر اور گردوں میں پھر سے تکلیف شروع ہوگئی۔ ایک بار پھر اسپتال میں ایڈمٹ ہونا پڑا۔ غرض پریشانیاں کم ہونے کی بجائے بڑھتی جاتی تھیں۔
ہم تو پریشان تھے ہی ہمارا ساتھ دینے والے ہم سے بھی زیادہ پریشان تھے۔ صفیہ سگی بہن اور ساجد میرے شوہر کے سگے بھائی نہ ہوتے تو یقیناً وہ ہمیں اپنے ساتھ رکھنے سے معذرت کر لیتے لیکن رشتہ اتنا قریبی تھا کہ ہمارا ساتھ ہر حال میں دینے پر مجبور تھے۔
زرعی زمین کی مالیت کافی زیادہ تھی۔ ساجد نے اپنے حصے کی آدھی ملکیت پہلے ہی میرے خاوند کو فروخت کر دی تھی کیونکہ ان کو شہر میں مکان خریدنا تھا۔ نوکری بھی شہر میں تھی۔ اپنے بچوں کی تعلیم کے خیال سے اُس وقت یہی مناسب لگا کہ اپنا حصہ بڑے بھائی کو دے کر رقم لے لیں۔ ان کے بقول گائوں میں کیا دھرا تھا۔ بجلی نہ گیس، اچھا اسپتال اور نہ اسکول کالج جبکہ شہر میں یہ ساری سہولتیں میسر تھیں۔ آج کہتے تھے دیکھا بھابی میں نے وقت پر شہر میں سکونت پذیر ہونے کا دُرست فیصلہ کیا تھا۔ آپ لوگوں کو بھی شہر میں قیام کرتے بنی ہے ورنہ عابد بھائی کا علاج ممکن نہ تھا۔
اب کی فصل سے اچھی آمدنی ہوئی جو کہ ساجد بھائی کے حوالے کر دی کیونکہ تمام اخراجات ہمارے وہی اُٹھا رہے تھے۔ عابد کہتے تھے اللہ جانے کب مجھے مکمل صحت نصیب ہو، میں شاید تب بھی محنت والا کام نہ کر سکوں۔ زمین کے تمام امور ساجد ہی کو سنبھالنے ہوں گے۔
میرے دیور کو بھی اراضی کے امور کی دیکھ بھال پر اعتراض نہ تھا لیکن ملازمت ان کی مجبوری تھی۔ جب تمام آمدنی ان کو دے دی تو وہ خوش ہوگئے۔ مزید چھٹی نہ مل سکتی تھی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ نوکری کو خیرباد کہے دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ بڑے بھائی مکمل صحت یاب ہو جائیں تب دونوں بھائی مل کر کوئی کاروبار کر لیں گے۔ نوکری میں کیا رکھا ہے۔ لگی بندھی تنخواہ ملتی ہے جبکہ زمین کی صحیح دیکھ بھال کرو تو وہ سونا اُگلنے لگتی ہے۔
یہ ان کی نیک نیتی تھی اور ہم نے یہی سمجھا کہ وہ ہم سے مخلص ہیں۔ جب انہوں نے ملازمت سے استعفیٰ دیا میرے شوہر نے اراضی کا مختار نامہ ان کو سونپ دیا کہ اب وہی سیاہ و سفید کے مالک تھے، بچّے ہمارے چھوٹے چھوٹے، ہم اور کیا کر سکتے تھے۔ میرے خاوند کی صورت حال یہ تھی کہ کچھ دنوں آرام کے بعد ان کا مرض پھر سے عود کر آتا تھا اور انہیں اسپتال میں داخل ہونا پڑتا تھا۔ ان کے گردے فیل ہو رہے تھے اور مثانے میں انفیکشن ہوگیا تھا۔ سمجھ میں آ گیا کہ دُکھ کیا ہوتے ہیں اور پریشانیاں جب انسان کو گھیر لیتی ہیں تو اُسے کس قدر شدت سے غمگسار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب بستی کی مفلس اور پریشان حال عورتوں کے چہروں سے ٹپکتی افسردگی میرے دل پر خون کے آنسوئوں کی صورت گرتی محسوس ہوتی تھی۔ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتی تھی کہ اے میرے رب مجھے ان کسمپرسی کے دنوں سے نکال دے اور میرے شوہر کو صحت عطا فرما دے تو کبھی افسردہ دلوں کا دل نہ توڑوں گی۔
اللہ تعالیٰ اپنے حقوق معاف کرتے ہیں مگر حقوق العباد وہی لوگ معاف کرتے ہیں کہ جن سے ہم لاپروائی برتتے ہیں۔ جن کی ہم دل آزاری کرتے ہیں۔ یوں اللہ بے نیاز ہے جو چاہے ہو جاتا ہے۔ ہزار علاج پر بھی عابد مکمل صحت یاب نہ ہو سکے۔ درخت
ٹہنی کے ٹوٹ جانے سے یہ کچھ اس طرح زمین پر گرے تھے کہ کمر کی چوٹ ایک بہانہ بن گئی، دراصل ہماری خوشحالی کو کسی کی نظر لگ گئی تھی۔ ایک وقت تھا کہ ہمارے پڑوسی زمیندار ہماری خوشحالی اور لہلہاتی فصلوں سے حسد کیا کرتے تھے۔ فصلیں اب بھی لہلہاتی تھیں مگر سکھ رُوٹھ گئے تھے۔ اسے نصیب کی گردش ہی کہنا چاہیے۔
ایک آس تھی کہ شہر میں علاج جاری رکھنے پر بالآخر ایک دن عابد ٹھیک ہو جائیں گے تو ہم گائوں چلے جائیں گے اور یہ اپنی اراضی خود سنبھال لیں گے، لیکن اس بار جب وہ اسپتال سے چیک اَپ کرا کر آئے تو بتایا کہ ایک گردہ ناکارہ ہو چکا ہے اور دوسرا بھی دھیرے دھیرے کام چھوڑ رہا ہے۔ آپریشن کے لئے کہتے ہیں مگر ضروری نہیں کہ آپریشن کامیاب ہو۔ ان دنوں اپنے ملک میں گردے کی تبدیلی بھی نہ ہو سکتی تھی۔ بیرون ملک جانا لازمی تھا۔ اسی مجبوری کے سبب ان کو اسپتال سے رُخصت کر دیا گیا کہ اب وہاں علاج ممکن نہیں رہا تھا۔
ساجد بھائی تسلی دیتے، مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، آپ لوگوں کی اراضی زرخیز ہے اتنی اچھی فصل ہوئی ہے کہ ہم بھائی عابد کو علاج کے لئے بیرون ملک لے جا سکتے ہیں۔ اس دفعہ تو آم کے باغات نے بھی بہت اعلیٰ فصل دی تھی۔ دیور کی باتوں سے میرا دل بڑھ جاتا تھا، انتظار تھا کہ فصل کی رقم ہاتھ آ جائے تو ساجد سے اصرار کروں گی کہ اب عابد کو علاج کے لئے جہاں بھی معالجہ ممکن ہے لیے چلتے ہیں۔
انسان محنت کرے تو دنوں میں وارے نیارے ہو جاتے ہیں بشرطیکہ اللہ راضی ہو۔ ساجد کہتے تھے سچ ہے نوکری ایک طرح کی غلامی ہوتی ہے۔ نوکری میں کیا رکھا ہے۔ اب پتا چلا ہے کہ زمین تو دولت اُگلتی ہے، اگر آدمی جی توڑ کر کام کرے۔ میں نے اپنی عمر عزیز کے اتنے دن ناحق ضائع کر دیئے۔ معمولی سی تنخواہ کی خاطر۔ اب احساس ہوا ہے کہ زمین سونے کی کان ہے، ناحق بیچ کر شہر آ بسا، کیا مل گیا مجھے یہاں آ کر۔ ایک گاڑی لے لیں تو گائوں اور شہر کا فاصلہ گھنٹے بھر میں نمٹ جاتا ہے۔ میں تو اتنے برسوں میں ایک کار نہ خرید سکا۔
اب میری زمین تمہارے حوالے ہے بھیّا۔ میرا علاج کرائو یا گاڑی خرید لو تمہاری مرضی میں تمہارے اختیار میں ہوں، اسی لئے مختار کار تم کو بنا دیا ہے کہ سگے بھائی ہو، مر بھی گیا تو میرے بچوں کے حق کی حفاظت کرو گے۔ فصل کی آمدنی کو جیسے چاہو خرچ کرو، اب تمہارے علاوہ کون ہے ان بُرے دنوں میرا ساتھ دینے والا۔ میرے بچوں کو دیکھنے والا۔
فکر نہ کیجئے بڑے بھائی، فصل اُترنے دیں میں سب سے پہلے آپ کو علاج کے لئے بیرون ملک لے کر جائوں گا، باقی کام ہوتے رہیں گے۔ اللہ آپ کو صحت دے۔
فصل اُتر گئی تو ساجد بھائی نے مزید اراضی پر توجہ دی، وہاں ٹیوب ویل لگوا دیا، بڑا جنریٹر لے لیا، ٹریکٹر اور تھریشر قسطوں میں خرید لیا۔ موٹر گاڑی بھی لے لی مگر عابد کے لئے بیرون ملک علاج کا انتظام نہ کر سکے، کہتے تھے گردے کی پیوند کاری میں ان کو گردہ چاہیے، اگر اپنا گردہ دے دوں تو اپنا اور آپ لوگوں کا خرچہ زمین اور بھائی جان کی دیکھ بھال یہ سب کون کرے گا۔ میرے بھی بچّے ہیں، ان کا بھی پیٹ بھرنا ہے، بستر پر پڑ گیا تو سب بے یارو مددگار ہو جائیں گے۔ ان کے لئے کسی ایسے شخص کی تلاش میں ہوں جو اپنا گردہ عطیہ کر دے۔ اس کے لئے تھوڑا سا وقت چاہیے، دن رات بس اسی تگ و دو میں لگا ہوں۔ کئی ڈاکٹروں سے بات کی ہے، کچھ دوستوں سے بھی کہا ہے، اللہ تعالیٰ کوئی سبیل پیدا کر ہی دے گا۔
انہی تسلیوں میں ایک برس نکل گیا۔ دُوسری فصل بھی اُتر گئی۔ اب ساجد بھائی اپنا آپ بھلا کر دن رات اراضی پر رہتے تھے جو حصہ غیرآباد پڑا تھا اُسے بھی انہوں نے خوب محنت کر کے آباد کرلیا۔ پیداوار دُگنی سے چوگنی ہوگئی، فصل کی فروخت سے اتنا روپیہ آ گیا کہ نہال تھے، مگر اپنے بھائی کو بیرون ملک علاج کے لئے نہ لے جا سکے۔ وقت گزرتا جا رہا تھا اور دھیرے دھیرے موت میرے بے بس خاوند کی طرف بڑھتی چلی آ رہی تھی۔ میں ان سے کہتی تھی اب اراضی کو چھوڑیئے اپنے بھائی کی خبر لیجئے کہ ان کی زندگی کا چراغ رفتہ رفتہ گل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ جواب دیتے بھابی اراضی چھوڑ بیٹھوں تو فصل لوگ کھا جائیں گے پھر ہم سب کیا کھائیں گے۔
اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ وہ تو نہ پچھتائے ہم پر ضرور یہ مثل صادق آ گئی کہ انہیں مختار کار بنا کر اب پچھتا رہے
ورنہ میں یہ اراضی بیچ کر بھی اپنے شوہر کا علاج کروا لیتی۔ اب ان کا علاج نہ کروا سکتی تھی کہ زمین ساجد کے قبضے میں تھی اور ہم اپنے ہاتھ کٹوا بیٹھے تھے۔
ساجد بھائی سے بس منت سماجت کر سکتی تھی کہ شوہر کی حالت روز بہ روز بگڑتی جا رہی تھی۔ جب بہت اصرار کیا تو بگڑ کر بولے۔ تم عورتوں کی عقل بھی گدی میں ہوتی ہے۔ نادان بھابی جان… زمین بیچ کر ان کو علاج سے صحت یابی نہ ہو سکی تب کیا کریں گے۔ خالی ہاتھ رہ جائو گی اب تمہارے بچوں کو زمین کا آسرا تو ہے۔ یہ ان معصوموں کا حق ہے، رہنے دو اور زمین فروخت کرنے کی بات آئندہ زبان پر نہ لانا۔ میں بھی نوکری چھوڑ چکا ہوں۔ ہم سب کنگال ہو جائیں گے اب دو وقت کی روٹی تو عزت سے مل رہی ہے۔ میری بیوی تمہاری بہن ہے، شکر کرو کوئی دوسری عورت ہوتی تو چار دنوں میں گھر سے نکال دیتی۔ میں خاموش ہو جاتی، نہیں چاہتی تھی میرا بیمار شوہر یہ باتیں سنے اور مزید بیمار ہو جائے۔ اب ان میں رہ کیا گیا تھا ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو چکے تھے۔ جب کچھ بن نہ پڑا تو لاہور لے گئے وہاں گردے صاف کرنے کی مشین پر آ گئے۔ ڈاکٹروں نے کہہ دیا بس تھوڑے دنوں کے مہمان ہیں۔ میں تمام وقت بہن کو خوش رکھنے کے لئے اس کے گھر کا تمام کام کرتی۔ ان کے بچوں کو آرام پہنچانے کی کوشش کرتی تاکہ عابد کا علاج جاری رہے اور میرے بچوں کا مستقبل تاریک نہ ہو جائے۔
ہماری زمین سونا اُگل رہی تھی مگر ساجد بھائی کو فرصت نہ تھی۔ عابد کو ڈائی لیسز سے عارضی طور پر افاقہ ہوتا اور ہفتہ بعد پھر سے حالت خراب ہو جاتی، بار بار لاہور جانے کے لئے پانچ چھ گھنٹے کا سفر اختیار کرنا پڑتا۔ ان کے ساتھ کسی کا جانا ضروری تھا کبھی ساجد جاتے، کبھی زمین پر کام کرنے والے کسی ملازم کو ان کے ہمراہ کر دیتے۔ ساجد کہتے تھے ہر وقت غیرحاضر رہوں گا تو فصل ناکارہ اور ٹیوب ویل تباہ ہو جائے گا۔ باغات سوکھ جائیں گے میرے پیچھے ملازم ٹھیک طرح کام کرتے ہیں اور نہ وقت پر پانی لگاتے ہیں۔
اللہ جانے ساجد بھائی واقعی مصروف تھے یا کچھ اور بات تھی۔ میں یہی سمجھتی تھی کہ میرے شوہر کے علاج میں تاخیر ان کے لئے زہر قاتل ہے۔ اپنا سارا اثاثہ بیچ کر بھی انہیں علاج کے لئے بیرون ملک لے جانا چاہتی تھی، اندر ہی اندر کڑھتی اور روتی تھی۔ بہن سے بھی بار بار کہتی تو وہ تنگ ہونے لگتی کہ آپا میرے بس میں جتنا ہے وہ کر رہی ہوں۔ بتائو اور کیا کر سکتی ہوں تمہارے لئے۔ تمہارے شوہر لاعلاج مرض میں مبتلا ہیں۔ ڈاکٹروں نے بھی جواب دے دیا ہے۔ ہمارے بس میں کچھ نہیں اگر ہوتا تو ساجد کبھی اپنے بھائی کے علاج میں تاخیر نہ کرتے۔ اب بھی انہوں نے کوئی کوتاہی نہیں کی ہے جتنا ممکن ہو سکا ہے علاج کرایا ہے۔
ساجد بھائی نے کوتاہی تو نہ کی مگر عابد کے فوت ہوتے ہی انہوں نے مجھے یہ جتلا دیا کہ اس دُنیا میں کوئی کسی کا سچا غمگسار نہیں ہوتا۔ آج کل کے عہد میں رشتے داری اور غمگساری بھی بغیر طمع کے ممکن نہیں ہے۔ عابد کے چالیسویں کے اگلے روز انہوں نے ایک کھاتہ کھول کر میرے سامنے رکھ دیا جس میں تین سالوں کا تمام ہمارا خرچہ اور جو کچھ آپریشنوں اور اسپتال میں علاج وغیرہ پر خرچ ہوا تھا سب کا حساب درج تھا۔ بولے بھابی غور سے پڑھ لو۔ جتنا خرچ ہوا ہے اتنی مالیت کی تم لوگوں کی اراضی نہیں ہے۔ میرا زیادہ خرچ ہو چکا ہے۔ عابد کی اراضی اسی خرچ کے عوض میں نے رکھ لی ہے مگر… وعدہ ہے کہ آپ اور بچوں کا روزی روٹی اور پڑھائی کا خرچہ باقاعدگی سے دوں گا۔ جب تک کہ یہ خود کمانے کے قابل نہیں ہو جاتے۔ چاہیں تو شہر میں رہئے۔ میں آپ کا گائوں والا مکان بیچ کر شہر میں گھر لئے دیتا ہوں۔ چاہیں تو ہمارے ساتھ رہیں، آدھا گھر دیوار اُٹھا کر آپ کو دے دوں گا اور گائوں والا مکان میں رکھ لوں گا۔ کیا چارہ تھا مختار نامہ ان کے پاس تھا۔ میں نے عافیت اسی میں جانی کہ سب کچھ ان کے حوالے کر دیا جائے، وہ میرے بچوں کی تعلیم مکمل کرا دیں اور ہم کو تنہا نہ رہنا پڑے، میرے بچوں کا باپ نہ رہا چچا کی تو ضرورت تھی ورنہ یہ ظالم زمانہ انہیں غلط راہ پر بھی لے جا سکتا تھا۔
وقت رُکتا نہیں اور اس کا ایک ایک لمحہ زندگی کی رمق گھٹاتا جاتا ہے اور پھر موت کسی کا انتظار نہیں کرتی۔ میرے دیور کو فرصت نہ ملی اور عابد قبر میں جا سوئے۔ ہمارا اب سوائے صفیہ اور ساجد بھائی کے کوئی نہ رہا تھا۔
میں نے ہر حال میں ان کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرلیا تاکہ میرے بچے سکون سے پڑھیں اور میں اپنوں کے سائبان تلے عزت سے بیوگی کے دن کاٹ سکوں۔ اس بے درد دُنیا میں بچوں کے ساتھ بیوہ کا تنہا رہنا بھی مشکل تھا۔
اللہ کا شکر کہ آج بچّے پڑھ لکھ کر جوان ہوگئے ہیں۔ وہ اچھی ملازمتوں پر لگ گئے ہیں اور بُرے دن کٹ چکے ہیں۔ انہوں نے ہمت کی اور آج ہمارا شہر میں نیا گھر تعمیر ہو رہا ہے۔
کبھی کبھی بچّے دبے لفظوں میں کہتے ہیں کہ چچا نے ہماری زمین لے کر اور ہمارا حق نہ دے کر زیادتی کی ہے۔ میں سمجھاتی ہوں انہوں نے تم لوگوں کو پڑھا دیا اور تمہارے سر پر اپنی شفقت کا ہاتھ رکھا تو آج تم لوگ کسی قابل ہوئے ہو ورنہ زمین بھی نہ رہتی اور ہم بھی دربدر ہو جاتے، لہٰذا چچا کو بُرا نہ کہو۔ جس نے جتنی مدد کی اسے کبھی نہ بھلانا چاہیے۔ (الف۔ق… ملتان)