Thursday, February 20, 2025

Ek Zara Si Chingari | Teen Auratien Teen Kahaniyan

میری نند سات بہنوں کی اکلوتی بہن تھی، نام عریبہ تھا۔ بہت لاڈلی تھی۔ ہماری ساس کو بیٹی سے پیار تھا۔ وہ ساتوں بھائیوں سے چھوٹی تھی۔ ماں اس کو کبھی نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے دیتی تھی۔
جب تمام بیٹوں کی شادیاں ہوگئیں اور وہ بال بچوں کے ساتھ اپنے گھروں میں آباد ہوگئے تو گھر میں امی جان یعنی میری ساس کے علاوہ میں اور میری نند رہ گئے۔
میرے خاوند بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے لہٰذا ہم امی جان کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ عریبہ مجھ سے دو تین برس ہی چھوٹی تھی۔ میری اس کی دوستی تھی اور ہم بہنوں کی طرح رہتیں۔
شادی کے بعد چھ سالوں میں تین بچوں کی ماں بن گئی۔ تب ہی عریبہ مجھے اور بھی پیاری لگتی۔ ہم نند بھاوج کا آپس میں حسنِ سلوک مثالی تھا۔ ہمارا گھر خوشحال اور خوشیوں سے بھرا ہوا تھا۔ مگر ایک فکر کھائے جاتی تھی، وہ یہ کہ عریبہ27سال کی ہوچکی تھی، اس کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی تھی۔
وجہ یہ نہ تھی کہ رشتے نہیں آتے تھے۔ بہت رشتے آئے اور سب اچھے گھرانوں سے، مگر ہماری ساس کو نجانے کیا نفسیاتی مسئلہ تھا کہ ہر رشتہ میں مین میخ نکال کر رد کردیتی۔ بعض تو ایسے رشتے بھی آئے کہ خوش نصیبوں کو ملتے ہیں لیکن امی جان کی نظروں میں کوئی جچتا ہی نہیں۔
جب عریبہ کے سر میں چاندنی کے بال چمکنے لگے تو میں اور فیصل واقعی فکر کے سمندر میں غرق ہوگئے، امی جان کو بہت سمجھایا، بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ ہماری ساس دراصل بیٹی کی جدائی بردداشت نہیں کرسکتیں۔ تب ہی وہ اسے بیاہنے سے خائف ہے۔
اس مسئلے کا یہ حل نکالا گیا کہ لڑکے کو گھر داماد بناکر رکھ لیں گے… انہی دنوں شرجیل کا رشتہ آگیا۔ میں نے فیصل سے کہا (میرے جیون ساتھی) رشتہ برا نہیں ہے لڑکا اکیلا ہے، والدین وفات پا چکے ہیں، اپنا کاروبار ہے۔ اس کی شادی اسی وجہ سے التوا میں رہی کہ ماں باپ، بہن بھائی، کوئی نہ تھا جو اس کا رشتہ کراتا۔
یہ رشتہ میرے شوہر کے دوست کے توسط سے آیا تھا۔ دوست کی بیگم ثروت کا کزن تھا۔ شرجیل اچھی شکل و صورت کا اور بہت مہذب سا بندہ تھا۔ 35 برس کا تعلیم یافتہ بزنس مین تھا۔ سلجھا ہوا اور مالدار بھی تھے۔ تو ایسے رشتے قسمت سے ہی ملتے ہیں۔
ساتوں بھائی اس امر پر متفق ہوگئے کہ شرجیل سے عریبہ کا رشتہ طے کرلیتے ہیں۔ بے شک گھر داماد ہوجائے گا۔ اس پر میری ساس راضی ہوگئیں۔
جب بھابی ثروت دوبارہ عریبہ کا رشتہ مانگنے آئیں تو میری ساس نے برملا کہہ دیا… میری بیٹی اکلوتی اور سات بھائیوں کی بہن ہے۔ ہم اس کو خود سے جدا نہیں کرسکتے۔ اگر شرجیل کو گھر داماد بننا منظور ہے تو ہم رشتہ دینے پر راضی ہیں، مگر عمر بھر ہمارے ساتھ رہنا ہوگا۔
بھابی ثروت نے کہا کہ وہ شرجیل سے پوچھ کر جواب دیں گی۔ انہوں نے شرجیل سے بات کی، اس نے کہا کہ اگر عریبہ کے بھائی اپنے بزنس میں شامل کرلیں اور شراکت دار بنا لیں تو مجھے گھر داماد ہونے میں اعتراض نہیں، یوں بھی اکیلا رہتا ہوں۔
یہ شرط بھائیوں نے منظور کرلی، یوں عریبہ کی شادی ہوگئی اور اس کو کوٹھی کے اوپر کا پورشن رہنے کے لئے دے دیا گیا۔
گھر داماد ہونے میں شاید کچھ قباحتیں ہوتی ہوں گی، لیکن ہمارے یہاں ایسا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ عریبہ اور شرجیل شادی کے بعد ہنسی خوشی ہم لوگوں کے ہمراہ رہنے لگے۔ میرے خاوند نے بہنوئی کو کاروبار میں شامل کرلیا اور آدھا حصہ دے دیا۔ اب جو منافع آتا دونوں میں برابر تقسیم ہوجاتا۔
شرجیل نے شادی کے بندھن میں بھی بزنس کیا تھا۔ اس کا کاروبار چھوٹا تھا لیکن جب میرے شوہر کے ساتھ شراکت کی تو کاروبار میں منافع دوگنا ملنے لگا۔ ہم لوگوں کو اس بات پر کوئی اعتراض یا تاسف نہ تھا، کیونکہ عریبہ خوش تھی اور ہماری ساس بھی خوش تھیں۔
شادی کے دو سالوں میں عریبہ کے دو بچے ہوگئے۔ ہمارا گھر ننھے منے پھولوں کی چہکاروں سے چہک مہک گیا۔ میرے بچے اب کچھ سیانے تھے اور اسکول جانے لگے تھے مگر اس کے بچے چھوٹے تھے۔
چھوٹی بیٹی حفصہ ابھی دو سال کی نہیں ہوئی تھی کہ عریبہ کے یہاں پھر ایک اور بچے کی آمد آمد ہوگئی۔ وہ بیچاری ان کو سنبھالنے میں ہلکان رہنے لگی۔ بے شک میں کچھ مدد کردیا کرتی تھی، مگر میرے اپنے بچے تھے اور گھر بار کی بھی ذمہ داریاں تھیں، غرض ان دنوں ہم کو ایک آیا کی اشد ضرورت تھی جو نہ مل پا رہی تھی۔
ایک روز ہم سب کھانے کی میز پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اور آپس میں ہنسی مذاق چل رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ ہماری پرانی ملازمہ اماں کشور نے در کھولا۔ اماں کشور برسوں سے ہمارے پاس رہتی تھیں لیکن وہ صرف کھانا بناتی تھیں۔ کچن کے باہر کا کام نہیں کرتی تھیں اور نہ بچوں کو سنبھالتی تھیں۔
ایک چھوٹی لڑکی ہے، اسے کام چاہئے۔ انہوں نے آکر بتایا عریبہ جلدی سے بولی … اماں کشور اسے آنے دو کیا پتہ کام کی ہو۔ مجھے بچوں کو کھلانے کے لئے لڑکی چاہئے۔
جب یہ لڑکی سامنے آئی تو ہم سب حیران ہوکر اس کو دیکھنے لگے کیونکہ بے حد خوبصورت تھی۔ اتنی کم سن اور معصوم کہ ہماری نظریں اسی پر جم کر رہ گئیں۔ آتے ہی وہ امی جان کی منتیں کرنے لگی۔
بڑی باجی… میری ماں اور میں اس دنیا میں بے سہارا ہیں۔ ماں بیمار ہے اور کام بھی نہیں کرسکتی، مہربانی ہوگی اگر آپ مجھے کام پر رکھ لیں۔ ہم بہت ضرورتمند ہیں۔ میں نے تو صبح سے کچھ کھایا بھی نہیں ہے۔
بچی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ہمارے دل پگھل گئے۔ امی نے اسے کچن میں بیٹھا کر کھانا دیا اور دوسرے دن ماں کو ساتھ لانے کو کہہ دیا۔
اگلے روز ماں کو ساتھ لے کر وہ آگئی۔ اس کی ماں واقعی بیمار لگتی تھی، بہت کمزور سی تھی۔ اور چند قدم چلنے سے ہانپ رہی تھی، امی جان نے بچی کو کام پر رکھ لیا، کیونکہ عریبہ کو زیادہ ضرورت تھی۔
دوسرے دن سے وہ کام پر آنے لگی۔ بڑی تیز اور پھرتیلی تھی، منٹوں میں جو کام بتاتے، نمٹا لیتی۔ کام سے فارغ ہوئی تو میری نند کے بچوں کو کھلاتی۔ اسے بچوں سے فطری پیار تھا کہ وہ اس کے ساتھ جلد مانوس ہوگئے۔ روز ریحانہ کے ساتھ مل کر ساتھ کھیل کر خوش ہوتے تھے۔
ریحانہ صبح آٹھ بجے آتی اور شام کو چھ بچے گھر لوٹ جاتی۔ امی جان روز ہی اس کی ماں کے لئے کھانا بھی ساتھ دے دیا کرتی تھیں۔
ایک روز وہ نہیں آئی۔ ہم سب کو تشویش ہوئی کہ بیمار نہ پڑ گئی ہو کیونکہ وہ کبھی ناغہ نہیں کرتی۔ دو دن کے بعد جب آئی تو ساتھ ایک عورت تھی۔
ریحانہ کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں۔ جیسے شب و روز روتی رہی ہو۔ عورت بولی… میں ان کے پڑوس میں رہتی ہوں اس کی والدہ فوت ہوگئی ہیں اور اب ریحانہ کا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ آپ اس کو اپنے گھر پر دن رات کے لئے رکھ لیں، کیونکہ جس جھگی میں رہتی تھی وہ اب خالی ہوگئی تھی۔ ہم کو بہت دکھ ہوا، سب نے دلاسا دیا۔ امی جان نے ریحانہ کو گلے لگا کر کہا کہ بیٹی اب میں ہی تیری ماں ہوں، تم فکر مت کرو… آج سے اس گھر میں رہو، ہم تیری حفاظت کا ذمہ لیتے ہیں۔
وہ عورت ریحانہ کو ہمارے سپرد کرگئی۔ اس دوران ریحانہ بہت اچھی خدمت گار ثابت ہوئی۔ اس نے کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہ دیا۔ ہم میں سے جو کوئی بھی کام کہتا وہ کر دیا کرتی، مگر عریبہ اور اس کے بچوں کا خاص خیال رکھتی تھی۔
ماہ و سال گزرتے گئے، یہاں تک کہ پانچ برس بیت گئے۔ اب ریحانہ جوان ہوگئی۔ جب وہ ہمارے گھر آئی تو گیارہ سال کی تھی، مگر غربت کی وجہ سے نو برس کی لگتی تھی اور اب پانچ سالوں میں سولہ برس کی دوشیزہ تھی۔
وہ ہمارے گھر کا ایک فرد بن چکی تھی۔ پانچ سالوں میں ایک بار بھی کوئی اس کا رشتہ دار ہمارے گھر اس سے ملنے نہیں آیا۔ جس کا مطلب تھا کہ اگر ہوتا تو کبھی تو آتا یا پھر اس کے رشتہ داروں نے اس کی ماں سے ناتا توڑ لیا تھا۔
ہم سب ہی اس سے بہت پیار کرتے تھے، اس کا خیال ر کھتے۔ خاص طور پر امی جان… جب بازار جاتیں اور ہمارے لئے خریداری کرتیں، ا س کے لئے بھی ضرور چیزیں لاتیں تاکہ وہ محرومی محسوس نہ کرے۔
رات کو وہ سوتی بھی امی جان کے کمرے میں تھی۔ سارے کام ختم کرنے کے بعد فارغ ہو جاتی تو امی کی ٹانگیں دباتی، بعد میں سونے کو لیٹتی اور صبح سویرے سب سے پہلے بیدار ہوجاتی تھی۔
عیدالفطر کی آمد آمد تھی اور عید کی تیاریاں خوب زور و شور سے ہورہی تھیں۔ امی جان فیصل کے ہمراہ جاکر سب کے لئے کپڑے خرید کر لائیں۔ ریحانہ کے لئے بھی نیا جوڑا اور جوتے لئے… اگلے روز عریبہ اور شرجیل اپنے بچوں کو خریداری کو نکلے تو انہوں نے بھی اس کے لئے عید کی شاپنگ کی۔
یہ آخری روزہ تھا خوب گہما گہمی مچی ہوئی تھی۔ یکدم سائرن بجا تو سب ہی چھت پر چاند دیکھنے پہنچ گئے۔ ریحانہ بھی ہمارے ساتھ تھی۔
سب کی نگاہیں آسمان پر لگی تھیں اور عید کے چاند کو کھوجنے کی سعی کی جارہی تھی، اچانک میں نے مڑ کر دیکھا۔ ریحانہ دبے قدموں زینہ کی طرف جارہی تھی اس کا انداز ایسا تھا جیسے چور کو چوری کے پکڑے جانے کا ڈر ہوتا ہے۔ اسے شرجیل نے بلایا تھا۔
مجھے کچھ شبہ ہوا۔ پہلی بار اس کی خوفزدہ چال تھی تو میں بھی دبے قدموں اس کے پیچھے چل دی۔ اسے علم نہ ہوسکا۔ کوئی اس کا تعاقب کررہا ہے ۔ میں سمجھی وہ کچن کی طرف گئی ہے۔ مگر وہ عریبہ کے بیڈروم کی طرف چلی گئی۔ اندر میرے نندوئی شرجیل بستر پر لیٹے ہوئے تھے اور وہ ہمارے ساتھ چاند دیکھنے چھت پر نہیں آئے تھے۔
میں دروازے کے پاس ٹھہر گئی اور کان لگا کر سننے لگی۔ وہ کہہ رہے تھے۔ ریحانہ میں نے تمہارے لئے چوڑیاں خریدی ہیں اور تمہاری باجی سے چھپا کر رکھی ہیں۔ وہ تم اپنی الماری کے اوپر سے اٹھا لینا اور جو چوڑیاں پہلے لایا تھا وہ تم نے کیوں نہیں پہنیں… وہ بولی باجی پوچھتیں کہاں سے لائی ہو چوڑیاں۔ تم ڈرتی کیوں ہو میں جو تمہارے ساتھ ہوں … سب کو چھوڑ دوں گا مگر تم کو نہیں چھوڑوں گا، اچھا دیکھو اگر کل تم نے میرا لایا ہوا عید کا جوڑا نہ پہنا تو میں ناراض ہوجائوں گا… اماں جی والا مت پہننا۔
اُف میرے خدا مجھے اپنے کانوں پر اعتبار نہ آرہا تھا، یہ الفاظ شرجیل کے منہ سے ادا ہوئے تھے جو کہ عریبہ پر سو جان سے فدا تھا اور تین بچوں کا باپ تھا۔ ایک ملازمہ پر فریفتہ دیکھ کر میرے تو اوسان ہی خطا ہوگئے۔ اور پیروں تلے سے زمین نکلتی محسوس ہونے لگی۔ مجھے نہیں معلوم ریحانہ کا کتنا قصور تھا وہ تو ابھی کم سن تھی، مگر شرجیل بھائی تو پختہ عمر آدمی تھے یقینا ان کی نیت میں فتور آچکا تھا۔
میں سوچوں کے سمندر میں ڈوبی ہوئی تھی کہ عربیہ کی آواز آئی۔
بھابی… بھابی … ادھر آئیے ارے کدھر ہیں آپ، چاند نظر آگیا ہے… نند کی آواز سن کر تیزی سے نیچے اتر گئی اور امی جان کے کمرے میں پہنچ گئی۔ انہوں نے جو مجھے پھولی سانسوں کے ساتھ دیکھا۔ بولیں… کیا ہوا ہے؟ مناہل طبیعت تو ٹھیک ہے تمہاری… میں نے بمشکل کہا۔ ہاں امی جان… چاند ہوگیا ہے۔
ہاں وہ تو نظر آہی گیا ہے تم ایسی کیوں بولا رہی ہو ۔
جانے کیوں میں اتنی جذباتی ہوگئی کہ ان کو کھڑے کھڑے سب کچھ بتا دیا … نہیں معلوم تھا کہ عریبہ میرے پیچھے کھڑی ہے اس نے بھی حرف بہ حرف سارا ماجرا سن لیا۔
وہ تو غصے سے بے قابو ہوگئی اور بھاگی ریحانہ کی طرف۔
بس پھر کیا تھا بے تحاشہ ریحانہ کو مارنا شروع کردیا۔ میں نے اسے چھڑانے کی کوشش کی مگر ناکام رہی، اتنے میں شرجیل بھائی شور سن کر نیچے آگئے۔ بیوی کے ہاتھوں ریحانہ کو جو پیٹتے دیکھا تو وہ بھی چھڑانے لگے۔ ریحانہ کو چھڑاتے چھڑاتے انہوں نے عریبہ کی خوب پٹائی کر ڈالی۔ اور جب عریبہ غصے میں ریحانہ کو گالیاں دینے لگی تو وہ اس لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر گھر سے نکل گئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ یہ کہتے ہوئے کہ ریحانہ بے سہارا ہے، سہارا اسے چاہئے تمہیں نہیں۔ یہ سب کچھ آناً فاناً ہوگیا اور سب ہی منہ دیکھتے رہ گئے۔
آج میری نند سہاگن ہوتے بیوگی کاٹ رہی ہے اور اس غم میں جھلس کر کانٹا رہ گئی ہے۔ سارا دن نمازیں پڑھتی ہے اور بچوں کی خاطر صبر کا گھونٹ پی کر بس زندہ ہے۔
اپنی نند کی ایسی حالت دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوتا ہے اور سوچتی ہوں کہ اے کاش میں اس وقت اتنی جذباتی نہ ہوجاتی اور عقل سے کام لیتی تو آج اس کا دل ویران نہ ہوتا اور نہ گھر ہی اجڑتا۔ شرجیل بھائی بھی گھر چھوڑ کر نہ جاتے۔ ہم کسی طرح ریحانہ کا رشتہ تلاش کرکے اسے بیاہ دیتے، مگر افسوس کہ میں نے عقل سے کام نہ لیا۔ وقتی اشتعال پیدا کردیا۔ اور صبر و سکون سے مسئلے کا حل نہ نکالا ۔
عریبہ نے بھی غصے میں آکر اپنا آشیانہ چھوڑ دیا۔ سچ ہے کہ غصے کی آندھی دماغ کے چراغ کو بجھا دیتی ہے۔ ہم سب ہنسی خوشی زندگی بسر کررہے تھے۔ خیال بھی نہ تھا کہ اس چمن کو آگ بھی لگ سکتی ہے اور وہ بھی اک ذرا سی چنگاری سے…!
(ن… کراچی)

Latest Posts

Related POSTS