یہ آج سے پینتالیس برس پہلے کا قصہ ہے جب ہم کوہ سلمان کے پہاڑوں میں واقع ایک گائوں میں رہا کرتے تھے۔ میرے خاندان کا تعلق ایک قدیم پہاڑی قبیلے سے تھا کہ جن کے دل انہی بے آب و گیا پہاڑوں کی طرح سخت تھے۔ ان دنوں عورتوں کا شہروں میں جانے کا رواج نہ تھا کیونکہ گائوں کے نزدیک اسکول ہی نہ تھا۔
میرے والد میٹرک پاس تھے کیونکہ دادا ایک بڑے انگریز افسر کے پاس ملازم ہوگئے تھے۔ وہ افسر شکار کا شوقین تھا۔ دادا ان کی بندوقوں اور ہتھیاروں کی دیکھ بھال پر مامور تھے۔ اسی وجہ سے نزدیک شہر ڈیرہ غازی خان (فورٹ منرو) آنا جانا رہتا تھا۔
انگریزوں کے ماحول میں رہ کر دادا جان کو بھی تعلیم کی افادیت کا احساس ہوا اور انہوں نے میرے والد کو شہرلے جاکر میٹرک تک پڑھایا۔ میرے والد ہمارے خاندان کے پہلے میٹرک پاس آدمی تھے۔ تعلیم سے شناسائی کی وجہ سے ہمارے خاندان کے مردوں کے طرز زندگی میں کچھ تبدیلی آئی لیکن ہم عورتوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ جب میرا بھائی محمدیار خان سکول جانے کے لائق ہوا تو والد صاحب کو خیال آیا کہ اس کی تعلیم کی خاطر نزدیک شہر چل کر رہنا چاہیے کہ جہاں لڑکوں کا اسکول ہو۔ لہٰذا ہم پہاڑوں کی سنگلاخ زندگی کو خیرباد کہہ کر شہر ڈیرہ غازی خان میں جابسے، جہاں لڑکوں کا ایک ہائی اسکول تھا۔ابا جان نے اسکول کے نزدیک ایک مکان کرائے پر لیا اور ہم اس میں آباد ہوگئے۔
والد صاحب کا کام اب لورا لائی سے فروٹ لاکر شہر میں فروخت کرنا تھا۔ مجھے اور میری والدہ کو شہر کی زندگی بہت اچھی لگی کیونکہ یہاں سہولتیں تھیں۔ بجلی بھی تھی اور پانی بھی چشموں سے بھر کر نہ لانا پڑتا تھا۔ گھر کے آنگن میں ہاتھ کا نلکا لگا ہوا تھا، گندم آسانی سے مل جاتی تھی۔
ہمارے گھر کے پاس لالہ انور کا مکان تھا۔ ان کے بیٹے کا نام امیر محمد تھا جس کو پیار سے ’امیرو‘ بلاتے تھے۔ جب بابا اپنے کام کے سلسلے میں شہر سے باہر جاتے تو والدہ سودا سلف لانے کے لیے امیرو کو بلالیتی تھیں۔ اس طرح ہمارے گھر میں اس پڑوسی لڑکے کا آنا جانا ہوگیا۔ والدہ لڑکے صرف والد کی غیرموجودگی میں مجبوری سے ہی بلاتی تھی کیونکہ اس زمانے میں شہر میں بھی پردے کا رواج تھا اور عورت کا گھر سے نکلنا بطور خاص دکانوں پر جانا برا سمجھا جاتا تھا۔
جب امیرو گھر میں آتا مجھے خوشی محسوس ہوتی۔ اس سے بات کرنے کی کوشش کرتی۔ شروع میں وہ مجھ سے ہمکلام نہیں ہوتا تھا۔ رفتہ رفتہ حجاب کھلا تو وہ مجھ سے بات چیت کرنے لگا، میں بھی اس کے ساتھ مانوس ہوتی گئی۔
میں اور امیر محمد اگرچہ الگ الگ تہذیبوں سے تعلق رکھتے تھے لیکن ہمارے گھروں میں زیادہ فاصلہ نہ تھا، اس لیے ہمیں ملنے میں آسانی تھی۔
والد کی اجازت سے امی نے ایک استانی کا بندوبست گھر پر کرلیا جو مجھے شام کو ایک گھنٹہ پڑھانے آتی تھی۔ یہ امیرو کی بہن تھی جو ایک نزدیکی پرائمری اسکول میں ٹیچر تھی۔ اس کا نام زینب تھا۔ اس کی بدولت دونوں گھرانوں میں روابط بڑھ گئے۔ میں نے گھر پر زینب آپا سے پانچویں تک پڑھا۔ اسی اثناء میں میرے بھائی نے میٹرک پاس کرلیا اور والد کے ساتھ کاروبار میں ہاتھ بٹانے لگا۔
میرے اور امیرو کے والدین آپس میں ہمیشہ بہت اچھے ہمسایوں کی طرح رہے، کبھی بھی دونوں خاندانوں میں ناراضگی نہ ہوئی۔ غم اور خوشی میں ایک دوسرے کے یہاں آنا جانا رہتا تھا۔ اب میں اور امیرو بھی بڑے ہوچکے تھے۔ ہمارا بچپن کا لگائو گہری چاہت میں بدل چکا تھا۔ ہماری اس چاہت کا علم دونوں کے والدین کو بخوبی تھا، تبھی امیر محمد نے اپنے والدین کو رضامند کرلیا اور وہ ایک روز میرا رشتہ مانگنے آئے۔
بابا نے اندازہ کرلیا تھا کہ میں امیرو کو کس حد تک چاہتی تھی اور وہ بھی مجھ پرجان چھڑکتا تھا۔ لہٰذا انہوں نے اس شادی پر ایک کڑی شرط رکھ دی۔ امیرو کے والدین سے کہا کہ اپنا پندرہ مرلے کا گھر میری بیٹی کے نام کردو تو ہم رشتہ آپ کو دے دیں گے۔ حالانکہ اس مکان میں امیرو کے دیگر بہن بھائی بھی حصہ دار تھے مگر بیٹے کی خوشی کی خاطر اس کے والدین نے یہ قربانی دی کہ اپنا بڑا سا دو منزلہ پختہ مکان جس کی مالیت اس زمانے میں بھی کم نہ تھی اور شہر میں پکے مکان تھے ہی کتنے… یہ جائداد میرے نام کردی، اس شرط پر کہ جس روز مکان کے کاغذات میرے نام ہوں گے، نکاح بھی اسی روز ہوگا، البتہ رخصتی بعد میں ہوجائے گی۔
مکان والدین نے میرے نام لکھوالیا مگر نکاح کی بجائے منگنی پر اکتفا کیا۔ میرمحمد کے والدین شریف لوگ تھے، انہیں میرے والد پر بے اعتباری نہ تھی، وہ مان گئے۔
میں اور امیرو بہت خوش تھے۔ ہم سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ ہمیں اتنی جلدی دلی مراد مل جائے گی۔ ہم رخصتی کے دن کے انتظار میں آنے والے زمانے کے خوابوں سے سجا رہے تھے۔ میں تو سوچا کرتی تھی کہ امیرو اور ان کے والدین کی اتنی خدمت کروں گی کہ زمانے پر یہ ثابت ہوجائے کہ محبت کی شادی کامیاب رہتی ہے۔
یہی سوچ کر دن گزار رہی تھی…بے چین تھی کہ وہ دن کب آئے گا جب ہم دونوں ہمیشہ کے لیے ایک ہوجائیں گے۔
خبر نہ تھی کہ میرے والد نے نہایت گہری چال چلی ہے۔ انہوں نے بڑی مصلحت اور نرم مزاجی سے کام لیا تھا کہ حتیٰ کہ شادی کا دن بھی مقرر کرلیا تھا۔ شادی کی تاریخ سے ایک دن پہلے چچا جان کے گھر ہماری دعوت تھی۔ چچا جان نے اس دعوت میں امیرو اور اس کے گھر والوں کو بھی بلایا تھا۔ یہ لوگ پہلے بھی کئی بار چچا جان کے گھر جاچکے تھے۔
ہم لوگ تقریباً اکٹھے ہی وہاں پہنچے مگر گھر والوں کی موجودگی کی وجہ سے میری امیرو سے کوئی بات نہ ہوئی کیونکہ جس روز سے منگنی اور کاغذی کارروائیاں ہوئی تھیں، میرا اس سے پردہ کرادیا گیا تھا۔
چچا کے گھر پہنچتے ہی عورتوں کے کمرے میں چلی گئی۔ میرے ساتھ میری ایک سہیلی بھی تھی۔ اس کمرے میں داخل ہوتے ہی میری تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ گھر میں رشتے دار عورتیں جمع تھیں اور بڑے کمرے میں چچا کا لڑکا دولہا بنا بیٹھا تھا۔ کچھ قریبی رشتہ دار مرد اس کے آس پاس موجود تھے۔ ان مردوں میں بابا جان نے کے علاوہ مولوی صاحب بھی تھے۔
پھر جب چاچی نے زری گوٹے والا دوپٹہ میرے سر پر ڈالا تو ساری کہانی سمجھ گئی اور مجھ پر سکتہ طاری ہوگیا۔ ماں نے پکڑ کر کمرے کے ایک کونے میں بٹھادیا جہاں قالین بچھا ہوا تھا اور گائو تکیے رکھے تھے۔
مجھے لگا کہ جیسے میرے جسم سے جان نکل گئی ہو، ماں سے کچھ کہنا چاہا اس نے سختی سے چپ کرادیا۔ گھر رشتے دار عورتوں سے بھرا ہوا تھا اور اب تو میں کچھ بول بھی نہیں سکتی تھی۔ حیران آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہی تھی اور وہاں نکاح کی کارروائیاں شروع ہوچکی تھیں۔ مجھ سے یہ ساری رسم زبردستی کرائی گئی جبکہ میرا دل آمادہ نہ تھا اور نہ ہی ذہن آمادہ تھا۔ سوچ بغاوت چاہتی تھی لیکن میں جانتی تھی کہ اب شہر میں نہیں بلکہ سیاہ اور سنگلاخ چٹانوں کی آغوش میں ہوں جہاں لڑکیوں کو بغاوت کی سزا بندوق کی گولیوں سے دی جاتی ہے۔
رسم نکاح سے فارغ ہونے کے بعد میرے والد، چچا اور ان کے تمام بیٹے بندوقیں اٹھائے مہمان خانے میں چلے گئے جہاں امیر محمد اور اس کے والدین کو ٹھہرایاگیا تھا۔ بابا نے کہا انور لالہ ہم بھائیوں کے رشتے بہت گہرے اور اٹوٹ ہیں، سارے خاندان کے اصرار پر ہم نے بیٹی کا نکاح اپنے ہی خاندان میں کرلیا ہے۔ آپ کھانا کھا کر باعزت طور پر یہاں سے چلے جائیے، یہ کھانا دراصل نکاح کی دعوت جانیے۔ معذرت خواہ ہوں کہ مجھے ایسا کرنا پڑا۔ ایسا نہ کرتا تو ضرور لڑکے اور لڑکی کی طرف سے کسی غلط جسارت کا اندیشہ تھا۔ چونکہ میں پڑھا لکھا ہوں اور قتل و غارت کے حق میں نہیں ہوں۔ اگر بچوں سے کوئی غلطی ہوجاتی تو مجبوراً بچوں کو ’’کالا اور کالی‘‘ قبائلی رسموں کے مطابق کیا جاتا۔ اس لیے ہم نے اپنی لڑکی کو قابو کرلیا، آپ بھی اپنے بیٹے کو قابو کریں۔ اب اگراس نے کوئی ایسی حرکت کی تو ہمارے لوگ آپ لوگوں کا جینا دوبھر کردیں گے۔ رہ گیا آپ کے مکان کی ملکیت کا معاملہ تو ہم آپ کا مکان واپس کردیں گے۔
امیر محمد کے والد منہ تکتے رہ گئے کہ وہ یہ کیا سن رہے ہیں… انہیں اپنے کانوں پر اعتبار نہیں آرہا تھا۔ اس وقت تو انہوں نے خاموشی ہی مناسب سمجھی اور کھانا کھائے بغیر اٹھ کر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد بابا میرے پاس آئے اور کہا۔ دیکھ لڑکی اب تیرا نکاح اپنے چچا زاد سے ہوچکا ہے، اب اگر تم نے کچھ غلط بھی سوچا تو تم کو گولیاں مار کر ختم کردیا جائے گا۔
بابا کو میری تندخوئی کا علم تھا، اسی لیے انہوں نے خوب اچھی طرح پیش بندی کردی تھی اور مجھے اپنے خاندان والوں کی سنگ دلی کا علم تھا۔ جانتی تھی کہ اگر دو بول بھی اپنا شرعی اور قانونی حق مانگنے کے لیے لبوں سے نکالے تو یہ لوگ وہ سب کچھ گزریں گے جو یہ کہہ رہے ہیں۔ یوں مجھ ہنس مکھ اور زندہ دل لڑکی کو میرے اپنوں نے زندہ درگور کردیا۔ سب سے بڑا قصوروار میرا چچا تھا جس نے جانتے بوجھتے اپنے بیٹے کے سر پر سہرا سجالیا جبکہ دلاور مجھے سخت ناپسند تھا۔ والدین اور چچا کو پہلے میں نے بتا دیا تھا کہ میں اس کو پسند نہیں کرتی۔
اب میں اپنی زندگی کے دن دلاور کے ساتھ گزارنے پر مجبور تھی مگر میرے دل میں امیرو کی یاد رہتی تھی۔ سوچتی تھی کہ میرا بابا پڑھا لکھا تھا مگر اس پر بھی تعلیم نے اثر نہ کیا۔ خدا جانے کب تک ہمارے قبیلے کے لوگ اپنی اولاد کی خوشیوں کا قتل کرتے رہیں گے۔ آخر کب تک ہم لڑکیوں کو ہمارا شرعی حق نہیں دیں گے اور ہمیں دنیا سے ہنستے کھیلتے اٹھا کر زندہ قبر میں دفن کرتے رہیں گے۔
برسوں امیرو نے شادی نہ کی۔ وہ ہڈیوں کا ڈھانچا بن کر رہ گیا تھا، پاگلوں کی طرح پھرتا تھا اور میں بھی نیم پاگل سی گھر میں قید تھی۔ بھلا ہم جیسے افراد معاشرے کو کیا مثبت انداز دیں گے جو زندگی کو ایک بوجھ کی طرح اٹھانے پر مجبور ہوئے۔
میں ایک عورت ہوں جس سے دنیا کی ہر خوشی چھینی جاچکی ہے۔ کالے پہاڑوں کے درمیان محبوس آج مجھے یہ دنیا بالکل سنسان اور ویران آرزوئوں کا قبرستان لگتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کبھی کوئی خوشی میرے پاس سے بھی نہیں گزری تھی۔
یہ دنیا میرے لیے ایک تاریک زنداں سے کم نہیں جس میں نہ ہوا ہے اور نہ روشنی، جس طرح کسی انسان کو جیتے جی قبر میں اتاردیا جائے اور وہ عمر بھر اس اندھیری کوٹھری میں روشنی کی ایک کرن کو تڑپتا رہے… آخر
یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے کہ کسی صورت تو رہائی ممکن ہو۔ آخر اس کڑی سزا کا جواز کیا ہے؟ کیا میری زندگی، میری زندگی نہ تھی، اگر تھی تو اس کو دوسروںکے حوالے کرنے کا یہ اتنا بڑا جبر کیوں؟
میں نے کیا قصور کیا تھا کہ مجھے دنیا کی ہر خوشی سے بیگانہ کردیا گیا۔ ایسے ہی سوالات میرے لیے سوہان روح سے کم نہیں۔ میں آج زندگی کے اس موڑ پر ہوں کہ جہاں سے نہ پیچھے مڑ کر دیکھ سکتی ہوں نہ آگے سفر کرنے کو دل کرتا ہے۔
پہلے ماں باپ کی عزت کا خیال کرنا ایک مجبوری تھی، اب شوہر کی عزت کا خیال کرنا ایک مجبوری ہے۔ اپنی مذہبی تعلیمات کا بھی خیال ہے جو اپنی پہاڑ جیسی زندگی کا بوجھ اٹھانے پر مجبور ہوں۔
تاہم اتنا ضرور کہوں گی کہ اس مذہب کا خیال میرے والدین کو بھی تو کرنا چاہیے تھا مگر انہوں نے نہیں کیا اور میری مرضی کے خلاف شادی کے نام پر مجھے زندہ قبر میں اتاردیا۔ میں نے کوشش تو بہت کی کہ خوش رہوں، شوہر کو بھی خوش رکھوں اور ماضی کی یاد کو دل سے مٹادوں مگر اس کے لیے ایک زندگی اور چاہیے۔
(س۔ش… ڈیرہ غازی خان)