مظہر بارہ سال بعد اپنے آبائی شہر حیدرآباد آیا تھا اور اب گھوم پھر کر پرانی یادیں تازہ کر رہا تھا۔ وہ ان تمام جگہوں کو ایک بار پھر دیکھنا چاہتا تھا جو کسی یادگار کی مانند اس کے ذہن میں محفوظ تھیں۔ اس کا اپنا گھر جہاں اس نے جنم لیا تھا۔ وہ گلیاں جہاں کھیلتے کودتے اس کا بچپن گزرا تھا۔ وہ اسکول، کالج جہاں زندگی کے بہترین ایام گزرے تھے۔
بارہ سالوں میں حیدرآباد میں بہت تبدیلیاں آ چکی تھیں۔ شہر چاروں طرف سے بہت پھیل گیا تھا۔ کھلے کھلے بڑے گھروں کی جگہ اونچے اونچے پلازہ تعمیر ہو چکے تھے۔ سڑکوں پر ٹریفک کا اژدھام تھا۔ کشادہ سڑکیں بھی اب بہت تنگ دکھائی دینے لگی تھیں۔ آبادی بڑھ جانے کی وجہ سے مسائل بھی بہت بڑھ چکے تھے۔
اس شہر میں تعلیم مکمل کرتے ہی اس کے والد نے اسے اپنے جاننے والوں کی مدد سے کراچی میں بہت اچھی سرکاری نوکری دلوا دی تھی اور اب وہ مختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے اپنے محکمے کے اعلیٰ ترین عہدے پر پہنچ گیا تھا۔ زندگی اس قدر مصروف ہوگئی تھی کہ اپنے آبائی شہر سے ناتا بالکل ہی ٹوٹ گیا تھا۔ اب اس کے محکمے کی طرف سے حیدرآباد میں نئے پروجیکٹ لگانے کے سلسلے میں سروے کیا جا رہا تھا اور وہ اسی سلسلے میں ایک ہفتے کے لئے حیدرآباد آیا تھا۔ اس کے ساتھ اس کے بیوی بچے بھی تھے۔ جنہیں وہ اپنی جائے پیدائش اور آبائی شہر دکھانے کی غرض سے اپنے ساتھ لے آیا تھا۔
وہ شہر کے اعلیٰ ترین ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ حیدرآباد کا بازار جو ریشم گلی کے نام سے پورے پاکستان میں مشہور تھا۔ یہ قدیم ترین بازار بھی اب پھیل کر بہت بڑا ہو چکا تھا۔ پتلی اور تنگ گلیوں میں لاتعداد دکانیں کھل گئی تھیں۔ پرانے قدیم گھروں کو توڑ کر ان کی جگہ پلازہ تعمیر کر لئے گئے تھے۔ غرض پورے شہر کی طرح یہ بازار بھی بہت پھیل چکا تھا۔
اس کی بیوی ثوبیہ کو یہ بازار دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ اس شام وہ بیوی بچوں کو لے کر ریشم گلی دکھانے چلا آیا۔ بازار میں اس وقت بے پناہ رش تھا۔ کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ ثوبیہ نے رش میں کھو جانے کے ڈر سے دونوں بڑے بچوں کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھے اور مظہر نے ڈھائی سالہ حماد کو گود میں اٹھا رکھا تھا۔ ثوبیہ پیچ در پیچ گلیوں میں بنی مختلف ساز و سامان سے بھری دکانوں کو دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔ بازار کی ایک نسبتاً کشادہ جگہ پر مختلف چھوٹی موٹی اشیاء سے بھرے ہوئے کئی ٹھیلے کھڑے تھے اور گاہک ان سے خریداری میں مصروف تھے۔ ان میں ہی ایک ٹھیلا پلاسٹک کے چھوٹے موٹے کھلونوں سے بھرا ہوا تھا۔ مظہر اس کے قریب سے گزرنے لگا تو اس کی گود میں چڑھے حماد نے ٹھیلے پر لٹکے ہوئے پلاسٹک کے جہاز کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔
’’بابا، میں یہ لوں گا۔‘‘ وہ انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
’’کیا؟‘‘ مظہر نے مڑ کر دیکھا۔
حماد نہایت معمولی جہاز کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔
’’ارے بیٹا، یہ کوئی لینے کی چیز ہے۔‘‘ مظہر اس کا مذاق اڑاتے ہوئے بولا۔
’’نہیں بابا، میں تو یہی لوں گا۔‘‘ حماد کو نہ جانے کیوں وہ کھلونا بھا گیا تھا۔
’’گھر میں ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت اور قیمتی جہاز بھرے پڑے ہیں، لیکن ان کو دیکھو یہ کیا فضول جہاز پسند فرما رہے ہیں۔‘‘ مظہر نے مڑ کر ثوبیہ سے کہا۔
’’یہ تو ایسے ہی کرتا ہے، آپ آگے چلیں۔‘‘ ثوبیہ بولی۔
’’نہیں بابا، میں تو یہ لوں گا۔‘‘ حماد مچل گیا۔
مظہر اور ثوبیہ کو معلوم تھا کہ ان کا یہ بچہ بے حد ضدی ہے جس بات پر اڑ جائے اڑا ہی رہتا ہے۔ اس لئے ناچار وہ ٹھیلے کے نزدیک آگئے۔ ٹھیلے والا گردن جھکائے کھلونوں کو دوبارہ ان کی جگہ پر سیٹ کر رہا تھا جو گاہکوں نے الٹ پلٹ کر دیئے تھے۔
’’ارے بھائی، یہ جہاز کتنے کا ہے۔‘‘ مظہر نے بے دلی سے پوچھا۔
ٹھیلے والے نے گردن اٹھا کر دیکھا تو دونوں ہی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
’’ارے محمود تم؟‘‘ مظہر کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
’’ہاں یار۔‘‘ محمود نے یہ کہتے ہوئے ٹھیلے کے پیچھے سے آگے آ کر دونوں ہاتھ آگے بڑھا دیئے۔
وہ دونوں گرمجوشی سے گلے ملنے کے بعد ایک دوسرے سے الگ ہوئے۔
’’یہ… یہ؟‘‘ مظہر نے ٹھیلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حیرت بھرے انداز میں کہا۔
’’یہ میرا ٹھیلا ہے۔ میں اس کا مالک ہوں۔‘‘ محمود کے لبوں پر افسردہ سی مسکراہٹ آگئی۔
’’لیکن یار تم؟‘‘ مظہر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہے۔ اپنی کلاس کے سب سے جینئس، قابل طالب علم کو اس طرح ٹھیلے پر پلاسٹک کے معمولی کھلونے بیچتے دیکھ کر اس کی حیرت کسی طرح کم نہیں ہو رہی تھی۔
’’بس یار، میری قسمت۔‘‘ محمود کے لبوں پر بدستور افسردہ مسکراہٹ جمی ہوئی تھی۔
پیچھے کھڑی ثوبیہ بھی ان دونوں کو گلے ملتے دیکھ کر حیرت زدہ سی تھی۔
مظہر اور اس کی بیوی بچوں کے لباس اور چہروں پر چھائی آسودگی ان کی امارت اور شان و شوکت کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ انہیں دیکھتے ہی محمود کو اندازہ ہوگیا تھا کہ مظہر کسی اعلیٰ عہدے اور مقام پر پہنچ چکا ہے۔
’’اور تم سنائو، ترقی کی کتنی منازل طے کرلیں؟‘‘ محمود نے خوشدلی سے پوچھا۔
’’بس یار، اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب کچھ دے دیا ہے۔‘‘ مظہر نے کہا۔
’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔‘‘ محمود بولا۔
مظہر اس کے ٹھیلے پر رکھے ہوئے سامان کو دیکھنے لگا۔
’’تم تو حیدرآباد سے ایسے گئے کہ کبھی دوبارہ ملاقات ہی نہیں ہوئی۔‘‘ محمود نے کہا۔
’’ہاں یار، مجھے نوکری ملنے کے کچھ عرصے بعد ہی ابا ریٹائر ہوگئے تو ہماری پوری ہی فیملی کراچی شفٹ ہوگئی۔ پھر زندگی اس قدر مصروف ہوگئی کہ کبھی دوبارہ یہاں آنا نصیب ہی نہیں ہوا۔ اب بھی اپنے محکمے کی طرف سے یہاں نئے پروجیکٹ لگانے کے سلسلے میں سروے کرنے کی غرض سے ایک ہفتے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔‘‘ مظہر نے بتایا۔
’’چلو، اس بہانے ہماری ملاقات تو ہوگئی۔‘‘ محمود بولا۔
’’لیکن یار، سمجھ میں نہیں آ رہا، تم اور یہ کام؟‘‘ مظہر نے محمود اور اس کے ٹھیلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’اتنے عرصے بعد ملاقات ہوئی ہے۔ کل جمعہ ہے، بازار بند ہوگا۔ سارا دن گھر پر فرصت سے رہوں گا۔ کل میرے گھر آ جائو، ساتھ کھانا کھائیں گے… ماضی کی یادوں کو دہرائیں اور میں تمہیں اپنے متعلق سب کچھ تفصیل سے بتائوں گا۔‘‘ محمود نے کہا۔
’’تمہارا گھر؟‘‘ مظہر نے سوالیہ انداز میں کہا۔
’’اسی جگہ، وہی گھر…!‘‘ محمود نے بتایا۔
’’تم اسی گھر میں ہو؟‘‘ مظہر نے پوچھا۔
’’ہاں یار، پھر کل آئو گے نا۔‘‘ محمود نے پوچھا۔
’’ہاں یار، تمہاری امی کے ہاتھ کے پکے آلو کے پراٹھوں کا ذائقہ تو ابھی تک یاد ہے۔ میں کل بھی صرف آلو کے پراٹھے ہی کھائوں گا۔‘‘ مظہر نے بے تکلفی سے کہا۔
’’امی تو اب زندہ نہیں ہیں، البتہ میری بیوی تمہاری فرمائش پوری کرے گی۔‘‘ محمود نے کہا۔
’’تمہاری امی فوت ہوگئیں؟‘‘ مظہر کو جھٹکا سا لگا۔
’’ہاں، کئی برس ہوگئے۔‘‘ محمود نے بتایا۔
’’اب چلیں نا۔‘‘ ثوبیہ ان دونوں کے پیچھے کھڑی ان کی گفتگو سن رہی تھی۔ اس کے چہرے پر ناگوار سے تاثرات پھیلے ہوئے تھے۔ شاید اسے اپنے اعلیٰ مرتبت شوہر کا ایک ٹھیلے والے سے بے تکلفی سے گفتگو کرنا پسند نہیں آ رہا تھا۔
’’ہاں چلو۔‘‘ مظہر نے ثوبیہ کے ناگوار تاثرات بھانپتے ہوئے جلدی سے کہا۔
’’کل آئو گے نا؟‘‘ محمود نے ہاتھ بڑھا کر ڈوری سے بندھا لٹکتا ہوا جہاز اتار کر حماد کی طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں، میں ضرور آئوں گا۔‘‘ مظہر نے کہا۔
حماد نے جہاز ہاتھ میں لیا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
ثوبیہ نے مظہر کو گھورا تو اس نے جلدی سے قدم آگے بڑھا دیئے۔
’’کون تھا یہ؟‘‘ کچھ دور جا کر ثوبیہ نے ناگواری سے پوچھا۔
’’میرا کلاس فیلو، میرا جگری دوست، بچپن سے ساری تعلیم ہم نے ایک ساتھ ہی حاصل کی ہے۔‘‘ مظہر نے بتایا۔
’’کمال ہے، آپ کے جگری دوست ٹھیلے والے بھی ہوسکتے ہیں۔‘‘ ثوبیہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
’’یہ ہماری کلاس کا سب سے جینئس، بااخلاق، قابل ترین لڑکا تھا، نہ جانے اس پر کیا گزری کہ بازار میں اس طرح ٹھیلا لئے کھڑا ہے۔‘‘ مظہر نے افسوس بھرے انداز میں کہا۔ سندھ کی دستکاریوں سے سجی ہوئی بڑی سی دکان پر نظر پڑتے ہی ثوبیہ دو تین سیڑھیاں چڑھ کر دکان میں داخل ہوگئی تو مظہر بھی اس کے پیچھے چلا آیا لیکن اب اس کی طبیعت مکدر ہوگئی تھی۔ اپنے بچپن کے دوست کو اس حال میں دیکھ کر اس کے ذہن پر بوجھ سا پڑگیا۔ ثوبیہ نے بازار میں گھوم پھر کر اچھی خاصی خریداری کر لی تھی۔ جب وہ اور بچے تھک گئے تو وہ ہوٹل واپس آگئے۔ ثوبیہ اور بچے تو کھانا کھانے کے بعد سونے کے لئے لیٹ گئے اور جلد ہی سو بھی گئے لیکن مظہر کو نیند نہیں آئی۔ اس کے دل و دماغ پر گزرے دنوں کے عکس لہرانے لگے… اور وہ ماضی کی وادیوں میں کھو گیا۔
٭ … ٭ … ٭
وہ دونوں پہلی کلاس میں ایک ہی دن داخل ہوئے تھے اور اسی دن ان کی دوستی کی ابتدا ہوگئی تھی۔ محمود ذہین ترین طالب علم ثابت ہو رہا تھا۔ وہ ہر سال اول آتا تھا۔ اپنی اچھی شکل و صورت اور کلف لگے استری شدہ یونیفارم پہننے کے سبب وہ کسی اچھے گھرانے کا چشم و چراغ دکھائی دیتا تھا۔ پڑھائی کے ساتھ وہ کھیلوں کی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتا۔ ہنس مکھ، خوش اخلاق، ملنسار اور ذہین محمود ہردلعزیز تھا۔ ان دونوں میں بہت گہری دوستی قائم ہوچکی تھی، لیکن یہ دوستی صرف اسکول تک ہی محدود تھی۔ انہوں نے ایک دوسرے کے گھریلو معاملات کے متعلق جاننے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔
مظہر کے والد سرکاری عہدے پر فائز تھے۔ ان کے گھر میں خوشحالی تھی۔ محمود کے متعلق وہ نہیں جانتا تھا۔ یہ تو اسے بہت بعد میں پتا چلا کہ محمود کے والد ٹھیلے پر آلو چھولے بیچتے ہیں۔ مظہر نے تو کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ محمود ٹھیلے پر آلو چھولے بیچنے والے کا بیٹا ہے۔ یہ پتا چلنے پر اس کی طبیعت مکدر تو ضرور ہوئی لیکن اس وقت تک ان کی دوستی اس قدر مضبوط اور گہری ہوچکی تھی کہ اس نے محمود کی کم مائیگی کے احساس کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا اور ان کی دوستی برقرار رہی۔
میٹرک کے امتحان نزدیک آ رہے تھے۔ مظہر کئی مضامین میں بہت کمزور، جبکہ محمود ان میں بہت اچھا تھا۔ محمود شروع ہی سے پڑھائی
میں مظہر کی مدد کرتا چلا آ رہا تھا اور اب بھی وہ اس کی مدد کر رہا تھا لیکن اسکول میں ٹائم کم ہونے کی وجہ سے وہ پڑھائی ناکافی ثابت ہو رہی تھی۔ پھر اسکول میں چھٹیاں بھی شروع ہونے والی تھیں۔ لہٰذا محمود کے کہنے پر مظہر نے کبھی کبھار پڑھائی میں مدد لینے کی غرض سے اس کے گھر جانا شروع کردیا۔
پسماندہ علاقے میں بنا ہوا اس کا گھر ان کی کم مائیگی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ محمود کی ماں اور دونوں بہنیں اس سے مل کر بہت خوش ہوئی تھیں۔ ریحانہ اس سے بڑی اور صائمہ چھوٹی تھی۔ اس کی طرح اس کی دونوں بہنیں بھی خوش شکل اور تہذیب و اخلاق کا نمونہ تھیں۔ اس کی ماں بھی رکھ رکھائو اور محبت کرنے والی خاتون تھیں۔ جس دن وہ پہلی مرتبہ ان کے گھر آیا تو ان کے چھوٹے سے باورچی خانے میں چولھے پر رکھے پتیلے میں چھولوں میں ڈالنے کے لئے آلو ابل رہے تھے۔
’’امی آلو بھرے پراٹھے بہت اچھے بناتی ہیں۔ تم کھانا کھا کر جانا۔‘‘ محمود نے اصرار سے کہا۔
’’ہاں بیٹا، تم بھی میرے محمود جیسے ہی ہو۔ میں ابھی تمہارے لئے پراٹھے بنا کر لاتی ہوں۔‘‘ اس کی ماں نے شفقت بھرے انداز میں کہا۔
اپنے گھر کے چھوٹے سے اکلوتے کمرے میں محمود اسے پڑھانے بیٹھ گیا اور اس کی والدہ اور بہنیں مظہر کے لئے کھانے کا انتظام کرنے لگیں۔ کچھ دیر بعد انہوں نے پراٹھوں کے ساتھ اچار اور کئی طرح کی چٹنیاں لا کر اس کے سامنے رکھ دیں۔ پراٹھے واقعی بے حد لذیذ اور خستہ تھے۔ مظہر کو بہت پسند آئے اور وہ بے تکلفی سے کھاتا چلا گیا۔ اس کے بعد وہ اکثر پڑھائی کے سلسلے میں محمود سے مدد لینے اس کے گھر آنے لگا۔ اس کی والدہ اور بہنیں مظہر کے ساتھ اتنی اپنائیت اور محبت سے پیش آتیں کہ اسے بہت اچھا لگتا۔ دو چار مرتبہ محمود کے والد سے بھی ملاقات ہوئی۔ دبلے پتلے، نرم خو، مہذبانہ انداز میں گفتگو کرنے والے اس کے والد بھی مظہر سے بہت شفقت سے پیش آتے۔
’’محمود ہماری امید… ہمارا آسرا ہے۔ بس بیٹا تم بھی دعا کرو کہ یہ خوب پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بن جائے۔ کہیں افسر لگ جائے۔ ہماری تو جیسی گزر رہی ہے، گزر جائے گی لیکن ہم اپنا تن پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو تعلیم دلوا رہے ہیں، تاکہ ہمارے بچوں کا مستقبل سنور جائے۔‘‘ محمود کے والد اکثر کہا کرتے۔ ایسے میں مظہر کو ان کی آنکھوں میں امید کے دیئے سے جلتے دکھائی دیتے۔
’’آپ کیوں فکر کرتے ہیں۔ محمود تو پڑھائی میں بہت اچھا ہے۔ اس کے افسر بننے کے تو بہت امکانات ہیں۔‘‘ مظہر ہنس کر اپنے دوست کی تعریف کردیتا۔
’’ہاں یار، میں بھی بس یہی چاہتا ہوں کہ میرے دم سے میرے والدین نے جو امیدیں وابستہ کرلی ہیں، اچھے دنوں کے جو سنہرے خواب انہوں نے دیکھنے شروع کردیئے ہیں… میں ان کے خوابوں کی تعبیر بن سکوں۔ اپنے ماں باپ اور بہنوں کی خواہشیں، آرزوئیں پوری کرنے کے قابل ہو جائوں۔‘‘ محمود کہتا تو اس کی آنکھوں میں امیدوں کے دیئے جھلملا رہے ہوتے تھے۔
ریحانہ کو پڑھائی سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ اس لئے وہ میٹرک کر کے گھر بیٹھ گئی تھی اور گھر کے کاموں میں ماں باپ کا ہاتھ بٹا رہی تھی۔ البتہ محمود سے چھوٹی صائمہ کو پڑھائی کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ وہ بے حد ذہین اور پڑھاکو تھی۔ اکثر وہ ان دونوں کے قریب بیٹھ کر ان کے سوالات حل کردیا کرتی۔ مظہر نے اس کا نام استانی جی رکھ دیا تھا۔ وہ جب بھی اسے استانی جی کہہ کر مخاطب کرتا اس کے لبوں پر بہت گہری مسکراہٹ آ جاتی۔ مظہر کو اکثر محسوس ہوتا کہ وہ ان کے قریب بیٹھی بار بار اس کی طرف دیکھ رہی ہے۔ وہ جب بھی اس کی طرف یکھتا تو وہ گھبرا کر نگاہوں کا زاویہ بدل لیتی۔ ریحانہ اور اس کی ماں باورچی خانے میں گھسی آلو اور چھولے ابالنے اور چٹنیاں پیسنے کے کام میں لگی رہتیں اور مزیدار چھولوں کی ایک پلیٹ مظہر کے لئے بھی لے آتیں۔
’’ارے خالہ، چٹنیاں پیستے تو آپ کے ہاتھوں پر چھالے پڑ گئے ہیں۔‘‘ اس دن محمود کی ماں نے پلیٹ مظہر کے آگے بڑھائی تو اس نے ان کے ہاتھوں پر پڑے چھالے دیکھ کر کہا۔
’’بس بیٹا، جب ہمارا محمود افسر بن جائے گا تو پھر ہمیں یہ چٹنیاں پیسنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔‘‘ انہوں نے امید بھری نظروں سے محمود کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’امی تو سمجھتی ہیں کہ پڑھائی مکمل ہوتے ہی میں کہیں افسر لگ جائوں گا اور گھر میں ہُن برسنے لگے گا۔‘‘ محمود ہنستے ہوئے بولا۔
’’کیوں نہیں، پڑھے لکھے کو تو فوراً نوکری مل جاتی ہے۔‘‘ وہ بولیں۔
’’جی، آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔‘‘ مظہر نے ہاں میں ہاں ملائی۔
’’ہم دونوں میاں بیوی ان پڑھ ہیں۔ اسی وجہ سے اس کے ابا ٹھیلے پر آلو چھولے بیچتے ہیں۔ اگر وہ بھی پڑھے لکھے ہوتے تو کہیں افسر لگے ہوتے اور ہمیں غربت کے یہ دن نہیں سہنے پڑتے۔‘‘ وہ بولیں۔
’’آپ دیکھئے گا ہمارا بھائی کتنا بڑا افسر بنے گا۔‘‘ صائمہ کے لہجے میں تفاخر تھا۔
’’استانی جی، مجھے تو آپ بھی بہت بڑی افسر بنتی دکھائی دے رہی ہیں۔‘‘ مظہر نے ہنس کر کہا۔
’’تمہارے منہ میں گھی شکر، دعا کرو کہ میری بیٹی بھی استانی بن جائے۔ ہمارے خاندان میں لڑکیوں کو پڑھاتے نہیں ہیں۔ یہ تو مجھے اور اس کے ابا کو اپنے بچوں کو پڑھانے کا اتنا شوق ہے کہ ہم نے ریحانہ کو بھی میٹرک تک تعلیم دلوائی ہے اور صائمہ تو انشاء اللہ خوب پڑھے گی۔ کیونکہ اسے تو لکھنے پڑھنے کا بہت ہی شوق ہے۔‘‘ محمود کی امی بولیں۔
’’میں نے تو پہلے ہی ان کا نام استانی جی رکھ دیا ہے۔‘‘ مظہر نے صائمہ کی طرف دیکھ کر ہنستے ہوئے کہا تو اس نے بھی مسکرا کر سر جھکا دیا۔
٭ … ٭ … ٭
مظہر کو محمود کے گھر آنے جانے میں الجھن محسوس نہیں ہوتی تھی۔ وہ سب صاف ستھرے اور تہذیب و اخلاق والے لوگ تھے۔ جن کی آنکھوں میں اچھے مستقبل کے خواب بسے ہوئے تھے۔
وہ بہت بے تکلفی سے اس کے گھر آتا جاتا تھا۔ محمود کے ابا کئی دنوں سے بیمار پڑے تھے۔ اس دن وہ محمود کے گھر گیا تو باورچی خانے میں سناٹا تھا۔ کام کاج کرنے اور کھٹرپٹر کی آوازیں نہیں آ رہی تھیں۔ اس کی ماں اور ریحانہ %D