مدثر بہت تابعدار تھا، مسکین سا۔ ہر ایک کو جی کہنا اس کی فطرت ثانیہ بن چکی تھی۔ ایک اور صفت بھی تھی اس میں کہ وہ غیر حاضر نہیں رہتا تھا۔ ایسے نوکر کی قدر نہ کرنا کفرانِ نعمت ہو گا۔ ایسے خدمت گار کم ہی ہوتے ہیں اور قسمت والوں کو ملتے ہیں۔ پھر اچانک ہی وہ پریشان رہنے لگا اور غیر حاضر بھی۔ ایک دن میں نے پوچھ لیا: کیا بات ہے مدثر! خیریت تو ہے، تم آئے دن غیر حاضر رہنے لگے ہو۔ وہ نظریں جھکائے، خاموشی سے زمین پر نگاہ جمائے کھڑا تھا، جیسے وہاں کوئی سونے کا سکہ پڑا ہو۔ میں نے دوبارہ پوچھا تو بولا: جی، اب چھٹی نہیں کروں گا۔ بھئی، میں تمہاری غیر حاضری کی وجہ پوچھ رہی ہوں۔ اپنی پریشانی بتاؤ۔ کیا بچے بیمار ہیں؟ جی نہیں، بیوی کی پریشانی ہے۔ وہ گھر چھوڑ کر چلی گئی ہے جی۔ گھر چھوڑ گئی ہے؟ مگر کہاں؟ کسی اور مرد کے ساتھ۔ لیکن مدثر، تمہارے تو چار چھوٹے چھوٹے بچے ہیں؟ جی۔ اس نے سر ہلا دیا۔
سب سے چھوٹی بچی کتنی عمر کی ہے؟ جی، دو سال کی۔ اتنی چھوٹی بچی ماں کے بغیر کیسے رہے گی؟ میرا سانس رکنے لگا۔ کتنی بے رحم عورت ہے، بچے چھوڑ کر چلی گئی! میرے منہ سے نکل گیا۔ خدا تم پر رحم کرے۔ اس نے حسب معمول جی کہا اور چائے بنانے چپ چاپ چلا گیا۔
اب میرا ذہن الجھ گیا۔ عورت کی خودغرضی کی بھی حد ہوتی ہے۔ خدا جانے اس کی شوہر سے نفرت کی انتہا کب ہوئی اور آغاز کس وقت سے ہوا جب وہ اتنے سالوں کی رفاقت اور بچوں کی محبت کو ٹھوکر مار کر کسی اور کے ساتھ چلی جاتی ہے۔ میرا جی چاہا کہ اس عورت سے ملوں اور پوچھوں: اے اللہ کی بندی! تیرا دماغ کب اور کس وجہ سے خراب ہوا کہ تو اپنے پیارے پیارے بچے، بسا بسایا اچھا بھلا گھر چھوڑ کر چلی گئی؟ تبھی مجھے مسکین صورت مدثر پر ترس آیا، جو اپنے بچوں اور بے وفا بیوی کی خاطر سارا دن ہمارے افرادِ خانہ کے سامنے جی جی کرتا تھا اور ہر ایک کا حکم بجا لاتا تھا، اور ہم اسے ایک منٹ بھی سانس لینے کی فرصت نہیں دیتے تھے۔ اب مدثر کے لیے میرے دل میں ہمدردی بڑھنے لگی اور اس کی بیوی پر غصہ آنے لگا، جو ادھیڑ عمری میں نَوخیز خواب سجائے گھر بار کو قدموں تلے روند کر چلی گئی تھی۔ مدثر تو سارا دن صرف اپنی غلط خواہشات پوری کرنے کے لیے کام کرتا ہے۔ میں سوچ رہی تھی کہ مدثر تو سارا دن ہمارے گھر کام پر رہتا ہے، پھر اس کے بچوں کو کون دیکھتا ہے؟ بچوں کی کسمپرسی کا سوچ کر مجھے ترس آنے لگا، حالانکہ میں نے ان کو آج تک دیکھا نہیں تھا۔ ایک دن وہ آیا تو چہرہ اترا ہوا تھا۔ اندازہ ہو گیا کہ وہ تمام رات بچوں کے ساتھ جاگتا رہا ہے۔ پوچھا تو گویا ہوا: چھوٹی بیٹی کو بخار ہے، بیگم صاحب، اس نے رات بھر سونے نہیں دیا۔ کیا تمہارے بچے ماں کو یاد کرتے ہیں؟ اس سوال پر وہ رو پڑا اور اپنے اندر کے الاؤ کو آنسوؤں کی جھالر میں چھپانے کی کوشش کرنے لگا، جو اس کی پلکوں پر چمک رہی تھی۔ اس نے کہا: بیگم صاحب، چھوٹے تو ناسمجھ ہیں، ماں کو یاد کر کے روتے ہیں اور پکارتے ہیں، لیکن بڑے دونوں مجھے کہتے ہیں: ابا! تم نہ رونا۔ دفع کرو اماں کو۔ میں سوچتی تھی کہ کسی دن زبیدہ مل جائے تو خوب لعن طعن کروں اسے اور سمجھاؤں کہ ایسا نہیں کرتے۔ خدا نے اگر ماں کے درجے تک پہنچایا ہے تو اس کی لاج تو رکھنی تھی۔ ایک دن میں نے مدثر سے کہا: میں تمہاری بیوی سے ملنا چاہتی ہوں تاکہ اسے سمجھاؤں کہ وہ بچوں کا احساس کرے۔ وہ بولا: بی بی جی! آپ عزت دار لوگ ہیں اور ہم کمی کہلاتے ہیں۔ آپ نیچ ذات کے منہ نہ لگیں۔ میری بیوی اپنے چاچا کے گھر ہے اور اس کا چاچا بڑا بے غیرت ہے۔ آپ کا وہاں جانا مناسب نہیں، اور وہ یہاں نہیں آئے گی۔ کس منہ سے آئے گی؟ میں خاموش ہو گئی۔
اب میں اس کو بہت رعایت دینے لگی تھی کیونکہ وہ مشکل حالات میں تھا۔ وہ آتا، دیر سویر کرتا، میں کچھ نہ کہتی۔ کافی سارے کام خود کر لیتی، اور جاتے ہوئے پکا ہوا کھانا اسے ضرور دے دیتی کہ بچوں کو کھلا دینا۔ ایک مرد کے لیے بچوں کو سنبھالنا جبکہ بیوی گھر میں نہ ہو، بڑے جان جوکھم کا کام ہوتا ہے۔ پھر ایک دن زبیدہ نے یونین کونسل میں مقدمہ دائر کر دیا۔ اس روز تو مدثر واقعی رو رہا تھا۔ میں نے ہمدردی کی تو اس کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اور وہ روتے روتے نڈھال ہو گیا۔ بیگم صاحب! میں نے بہت چاہا کہ صلح ہو جائے، مگر اس پر عشق کا بھوت سوار ہے۔ صاف منع کر دیا کہ مجھے مدثر کے ساتھ نہیں رہنا۔ ثالث نے بھی کافی سمجھایا کہ ایسا نہ کرو، چار بچوں کا سوال ہے، مگر اس پتھر دل عورت پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس نے مطالبہ کیا کہ بچے وہ رکھے گی، لیکن میں بچے اسے نہیں دے سکتا۔ جب وہ طلاق مانگتی ہے تو پھر بچے میں اسے کیوں دوں؟ ترسے ان سے ملنے کو، میں اب ملنے بھی نہیں دوں گا۔ جب اس نے دوسری شادی کرنی ہے تو پرائے مرد کے حوالے اپنے بچے کیوں کروں؟ دکھ سکھ جھیل لوں گا، آخر بچے بڑے ہو جائیں گے۔ ایک دن وہ کچھ زیادہ افسردہ تھا، دو دن کی چھٹی کر کے آیا تھا۔ وجہ پوچھی تو بولا: بیگم صاحبہ، میں نے زبیدہ کو طلاق دے دی ہے۔ نہ دیتا تو کیا کرتا؟ جب عورت بے وفائی کرتی ہے تو پھر اسے دوبارہ گھر میں بسانا مرد کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ چند دن تک وہ بہت اداس اور بجھا بجھا رہا۔ غریب آدمی کے لیے دوسری شادی کرنا آسان نہیں ہوتا، اور پھر بچوں کو سوتیلی ماں کے حوالے کر کے کام پر جانا، یہ سب دل دہلا دینے والے معاملات تھے۔ میں اس کے بچوں کا بہت خیال رکھنے لگی تھی۔ عید پر ان کو کپڑے دلوائے اور عیدی کے لیے رقم بھی دی۔ اتوار کے ساتھ ہر ہفتے ایک آدھ دن کی اور چھٹی دیتی کہ وہ بچوں کو نہلا دھلا سکے۔ بچا ہوا کھانا فریج میں رکھنے کے بجائے اسے دے دیتی کہ کل تازہ پک جائے گا۔ اس کے بچے کھا لیں گے، ان کے گھر میں ماں تو ہے نہیں، بیچارہ خود جا کر پکاتا ہوگا۔ سردیوں کی لمبی راتوں میں یہ سب کچھ بہت دردناک لگتا تھا۔بچی ماں کو یاد کرتی ہو گی۔ اس ظالم عورت پر غصہ آتا، جس نے اپنی خواہش کی خاطر اپنے جگر گوشوں کو اپنی محبت سے محروم کر دیا تھا۔
ایک دن چوکیدار نے بتایا کہ مدثر کی بیوی لوٹ آئی ہے اور ہماری پڑوسن کے سرونٹ کوارٹر میں رہ رہی ہے۔ وہاں وہ کام کرتی ہے۔ بچے بھی اس کے پاس چلے گئے ہیں۔ مجھے تعجب ہوا کہ کتنی جلدی اس عورت کے سر سے عشق کا بھوت اتر گیا۔ یہ کیسی محبت تھی، کیسا بندھن تھا؟ جس کی خاطر وہ گھر سے نکلی۔ خیر، مجھے کیا لینا دینا، شکر ہے کہ وہ واپس آ گئی۔
بچارے بچے تو ماں کے بازوؤں میں سما گئے تھے۔ مدثر آیا تو پہلا سوال یہی کیا: کیا تمہاری بیوی واپس آگئی ہے؟ جی، واپس آ گئی ہے، مگر علیحدہ رہ رہی ہے۔ بچے اس کے لیے اداس تھے، تو میں نے انہیں اس کے پاس جانے دیا ہے۔ تم نے اچھا کیا، مدثر! میرے ذہن میں کئی سوالات جنم لے رہے تھے کہ وہ کیسے واپس لوٹی۔ شاید اس آدمی نے چند دن کی جھوٹی خوشیاں دے کر، جب اس کا دل بھر گیا، تو چلتا کیا ہوگا یا شادی سے منع کر دیا ہوگا، یا عورت حاصل ہو گئی تو اس کی قدر ختم ہو گئی۔آج بہت دنوں بعد سنہری دھوپ نکلی تھی۔ میں بارش اور سردی کے بعد دھوپ کی تمازت سے لطف اندوز ہونے کے لیے برآمدے میں کرسی ڈال کر بیٹھ گئی تھی کہ کسی کے قدموں کی چاپ نے مجھے چونکا دیا۔ ایک خوش شکل عورت دو چھوٹے بچوں کے ہاتھ تھامے میری جانب چلی آ رہی تھی۔ اس کے گال اندر کو دھنسے ہوئے اور آنکھوں میں حلقے پڑے تھے۔ گندمی رنگت کی دبلی پتلی، عمر کوئی تیس برس ہوگی۔ وہ سفید رنگ کی چکن کی چادر اوڑھے ہوئی تھی۔ آتے ہی ادب سے سلام کیا۔ میں نے اسے حیرت سے دیکھا تو وہ بولی، بیگم صاحبہ، کیا مدثر کام کرنے گیا ہوا ہے؟ تم اس کی کون ہو؟ اس سوال پر وہ خاموش رہی۔
تم زبیدہ تو نہیں ہو، اس کی بیوی؟ حالانکہ وہ اب اس کی بیوی نہیں رہی تھی، مگر اس نے مدثر کا نام اس قدر اپنائیت سے لیا تھا کہ میں بھول گئی کہ اس کو طلاق ہو چکی ہے۔ میں نے کرسی کی طرف اشارہ کیا تو وہ جھجکتے ہوئے میرے سامنے بیٹھ گئی۔ چھوٹی لڑکی یوں ماں سے چپکی ہوئی تھی جیسے اسے ڈر ہو کوئی اس سے ماں کو چھین نہ لے۔ اس کے معصوم بچے اب میرے سامنے تھے۔ وہ انہیں صاف ستھرے کپڑے پہنا کر لائی تھی۔ میری آنکھیں اس کے بچوں پر مرکوز تھیں۔ نکھرے ہوئے رنگ، سنہری بال، قدرت کے حسین تحفے تھے وہ۔ ماشاءاللہ، زبیدہ! کتنے خوبصورت بچے اللہ نے تم کو دیے ہیں اور تم بد نصیب انہیں چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔ کس قدر پتھر دل ہو تم۔ کیا مدثر برا آدمی ہے؟ یا تمہیں اس سے کسی سبب سے نفرت ہے؟ کیا وہ تمہیں مارتا ہے؟ میرے سوالوں کی بھرمار سے وہ پریشان ہو گئی، تاہم اندر سے بہت پُراعتماد لگی۔ ایسا اعتماد بے وفا عورت کے چہرے پر ہرگز نہیں ہوتا۔ ہاں، ایسی عورت کے چہرے پر ضرور ہوتا ہے جسے اپنی ممتا کی سچائی کا یقین ہو۔ تم زبیدہ ہی ہونا؟
یقین ہونے کے باوجود، میں اس کے منہ سے سننا چاہتی تھی۔ جی، بیگم صاحبہ، اس نے جواب دیا۔ میں تم سے ملنا چاہتی تھی، شکر ہے کہ تم خود آ گئیں۔ کیسے واپس آئی ہو؟ اگر تم یہاں رہ جاتیں تو میں ضرور تمہاری مدثر سے صلح کرا دیتی۔ وہ ہمارا پرانا ملازم ہے۔ جی، بی بی صاحبہ، اگر آپ آ جاتیں تو ہمارا گھر اجڑنے سے بچ جاتا۔ مگر طلاق تو تم نے خود لی ہے؟ مدثر نے تم کو منانے کی کتنی کوششیں کی تھیں۔ اس کے چہرے پر دکھ کھنڈا ہوا تھا، جیسے کسی نے اس کی خوشیوں کو زبردستی مار کر ادھ موا کر دیا تھا۔ کہنے لگی۔ مرد طلاق نہ دینا چاہے تو عورت زبردستی نہیں لے سکتی۔ اگر وہ ساری عمر کاغذ نہ دیتا تو میں نہیں لے سکتی تھی۔ تم نے تو طلاق کے لئے خود عدالت میں عرضی دی تھی کہ مدثر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتیں۔ آخر وہ کون شخص تھا جس کی خاطر تم نے یہ سب کچھ کیا؟ اور اب واپس کیوں آ گئی ہو ؟ جس نے تم کو ورغلایا، کیا اس نے تم سے شادی نہیں کی ؟ دھوکا دے گیا ہے کیا؟
آپ کو مدثر نے غلط بتایا ہے۔ مجھے اس نے خود طلاق دی ہے اور طلاق کے بعد عورت چاہے تو دوسری شادی کر سکتی ہے۔ میرے لئے بھی، میرے بڑوں کے پاس شادی کا پیغام آتے ہیں ، مگر مجھے کسی سے شادی نہیں کرنی۔ میرے دامن میں اللہ کی دی ہوئی یہی دولت کافی ہے۔ اس نے اپنے بچوں کی طرف اشارہ کیا۔ ہیں ، اپنے بچوں کے پاس ہی رہوں گی۔ آپ مدثر کو سمجھائیے، کہ وہ مجھے بچوں کے پاس ہی رہنے دے۔ ان کو مجھ سے جدا نہ کرے۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں التجا تھی ، بے بسی تھی، بچوں سے جدائی کا خوف تھا، مگر میری سوچ کی سوئی اسی پر اٹکی ہوئی تھی کہ وہ کون تھا، جس کی خاطر بچے چھوڑ کر گئی تھی۔ کوئی نہیں تھا بیگم صاحبہ ! اور وہ تمہارے چاچا کا بیٹا شیدا ! وہ بچارا تو نوکری کرنے گاؤں سے آیا تھا۔ مدثر نے خود اسے اپنے گھر رہنے پر اصرار کیا۔ جب مدثر کام پر ہوتا تو وہ ہمارے گھر کے سارے کام کرتا۔ وہ بہت اچھا لڑکا ہے جی ، بس اس کی عادت ہنسی مذاق کی ہے۔ یہی بات مدثر کو بری لگی اور وہ مجھ پر شک کرنے لگا۔ اور جب مرد کے دل میں شک سما جائے تو مشکل سے نکلتا ہے۔ ایک رات مدثر نے مجھے کہا کہ رشید کو کھانا دے دو۔ میں سالن گرم کرنے لگی تو بولا ۔ ایسے ہی ٹھنڈا دے دو۔ میں نے کہا۔ اتنی سردی میں جما ہوا سالن کھانے کو کس کا دل چاہتا ہے۔ بس اتنی سی بات پر وہ چڑ گیا اور مجھے خوب مارا۔ رشید بچارا مجھے چھڑانے لگا تو اس کے سر میں بھی ڈنڈا دے مارا۔ اس کا سر پھٹ گیا اور وہ سر سے لہو بہاتا ہمارے گھر سے نکل گیا۔ مدثر کہنے لگا۔ تو اس کو سالن گرم کر کے کیوں دے رہی تھی ؟ کیا لگتا ہے وہ تیرا ! ایسی گندی باتیں کہیں کہ شریف عورت ڈوب میرے۔ میں نے کلام پاک پر قسم کھائی ، وہ پھر بھی نہ مانا۔ میرے چاچا کا گھر پاس ہی ہے۔ اسی وقت ان کو بلا لایا کہ اپنی بھیجی کولے جاؤ۔ مجھ کو اس بد چلن بے شرم عورت کی ضرورت نہیں ہے۔ آدھی رات کا وقت تھا چاچا منتیں کرتا رہا ۔ میں بھی رو رو کر مدثر کو خدا کے واسطے دیتی رہی مگر اس نے مجھے گھر سے نکال کر ہی دم لیا۔ چاچا، ناچار مجھے گھر لے آیا۔ اس کے بعد برادری والے اس کو سمجھاتے رہے مگر اس نے نہ مانی اور طلاق کے کاغذ دے کر دم لیا۔ بچے بھی چھین لئے۔ میں بچوں کے لئے تڑپتی تھی، روتی تھی اور یہ مجھے بچوں سے ملنے نہیں دیتا تھا۔ کچھ دن بچے سنبھالے ، جب دیکھا کہ یہ آسان نہیں تو سندیسہ بھیجا کہ آکر دو چھوٹے لے جاؤ، وہ بھی چار سال کے لئے۔ بڑے بچے تو میں نہیں دوں گا۔ بڑے بھی کون سے اتنے بڑے ہیں۔ ایک سات سال کی اور دوسرا پانچ سال کا، جو اس کے پاس ہیں۔ بچے میرے لئے بہت اداس تھے۔ میں آگئی تو دوڑ کر مجھ سے لپٹ گئے۔ میں ان کو آپ کے پاس لے کر آگئی ہوں۔ بتائیے ! یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دو بچے تو اپنے پاس رکھوں اور دو سے جدار ہوں۔ مدثر سارا دن کام پر رہتا ہے۔ بچے گھر میں اکیلے ہوتے ہیں۔ لڑکی بھی آخر دو چار سال تک بڑی ہو جائے گی۔ کیا یہ مناسب ہے کہ بیٹی ماں سے جدا رہے؟ وہ بھی اکیلے گھر میں۔
بالکل نہیں۔ میں نے کہا۔ میرے پاس دوسرا سرونٹ کوارٹر ہے ، تم اس میں رہ سکتی ہو۔ اگر تم شادی کرنا چاہو تو کر سکتی ہو۔ ابھی تم جوان ہو ، کسی اچھے آدمی سے شادی کر لوں گی تو زندگی اتنی مشکل نہ رہے گی۔ ان بچوں کے ہوتے میں کیوں اور شادی کروں ؟ خدا نہ کرے۔ وہ کانوں کو ہاتھ لگانے لگی۔ میں سلائی جانتی ہوں۔ محنت کر کے بچے پال لوں گی۔ مدثر ان کا خرچا نہیں دیتا ، نہ دے۔ بہت سی عورتیں ہیں جو خود محنت مزدوری کر کے عزت کی زندگی گزار لیتی ہیں۔ اس کے چہرے پر ایسا عجز تھا جو ناقابل شکست تھا۔ اس وقت مدثر سودا سلف لے کر آ گیا۔ زبیدہ کو دیکھ کر اس کارنگ پھیکا پڑ گیا۔ مدثر ! تم نے کیوں اتنی جلد بازی سے کام لیا؟ کیوں اس کو طلاق دی اور وہ بھی محض شک کی بنا پر ؟ بس جی، غلطی ہو گئی ۔ نجانے مجھے کیا ہو گیا تھا؟ شیطان دماغ میں ٹھس گیا تھا، وسوسے ڈال رہا تھا۔ تو اس طرح تم نے اپنا گھر اجاڑ لیا ! کتنی بڑی سزادی تم نے، اس کو بچوں سے جدا کر دیا، گھر سے نکال دیا اور مارتے بھی تھے۔ اب پچھتارہا ہوں۔ وہ ہاتھ ملنے لگا ۔ غلطی انسان سے ہو جاتی ہے۔ اب کیا کروں ؟ اب صلح ہو جائے تو جیسا کہے گی، کروں گا۔ تم نے مجھ سے غلط بیانی کی کہ بیوی گھر سے بھاگ گئی ہے۔ ایسا کیوں کیا تم نے؟ حالانکہ آدھی رات کو تم نے اس کو گھر سے نکالا تھا۔ بس جی شرمندگی کی وجہ سے ایسا کہا تھا۔ سچ بتا کر آپ کی نظروں میں گرنا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن اس طرح تم نے اپنی بیوی کو میری نظروں میں گرادیا۔ وہ مسلسل سر جھکائے ہاتھ مل رہا تھا۔ میں اس کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنے پر تیار ہوں۔ کیا کہا ! تم اسے طلاق دے چکے ہو۔ جی بی بی ، یہی مسئلہ ہے۔ وہ دونوں اس وقت مجھے ایسے بے بس نظر آئے کہ میرا بس نہیں چلتا تھا، ان کی زندگی کی ڈگمگاتی ناؤ کو کنارے لگا دوں۔ اب کیا ہو سکتا ہے ؟ اپنے کئے کا علاج نہیں۔ جی ہو سکتا ہے چاچا نے اس کا انتظام کر دیا ہے۔ اچھا ! تم جاؤ، کل بات کریں گے۔ ابھی صاحب کا کھانا بنانا ہے۔
کچھ دنوں تک یہ دونوں الگ الگ کوارٹروں میں رہتے رہے، جن کے پیچ دیوار تھی۔ میں قدرے سکون میں تھی کہ چلو بچے ماں کی نگرانی میں ہیں۔ کچھ خرچا میں مدثر سے لے کر زبیدہ کو دیا کرتی تھی۔ چند ماہ بعد پتا چلا کہ ان کا دوبارہ نکاح ہو گیا ہے اور ان کے رشتہ داروں نے یہ کروایا ہے تاکہ بچے ماں باپ کے ساتھ ایک چھت تلے رہیں۔ معلوم ہوا کہ چاچا نے حلالہ کا انتظام کر دیا تھا، یوں ان کا دوبارہ نکاح کرا دیا گیا۔ میں حیرت کی تصویر بنی سوچتی رہ گئی کہ یہ نادان لوگ عجلت میں، پہلے غلط کام کر جاتے ہیں اور پھر اس کی مداوے کے لئے مزید غلط کام ، جو تا عمر غلط ہی رہتا ہے ، کئے چلے جاتے ہیں۔