بڑھاپے کی وجہ سے والد صاحب میں اتنی ہمت نہ رہی تھی کہ کھیتی باڑی پر پہلے جیسی محنت کر پاتے۔ بھائی نے میٹرک کر لیا تھا اور میں دسویں میں تھی، تبھی والد نے فیصلہ کیا کہ اراضی فروخت کر کے شہر جائیں ۔ کم از کم بچے تو اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ چچا جان نے انہیں زمین بیچنے سے منع کیا مگر بابا نہ مانے۔ وہ جان گئے تھے کہ جتنی محنت وہ کھیت کھلیان پر کرتے ہیں ، ان کے بیٹے ہر گر نہیں کریں گے۔ بالآخر اولاد نے اسے فروخت ہی کرنا ہے لیکن تب ان کی پڑھائی کا وقت گزر چکا ہو گا اور زمین کی بندر بانٹ سے کسی کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ میں نے میٹرک کے پیپرز دیئے تو انہوں نے سامان باندھ لیا، اراضی وہ فروخت کر چکے تھے۔ لہٰذا اپنے خانوادے کے ساتھ لاہور شہر میں ایک اچھا سا گھر کرائے پر لے کر وہاں شفٹ ہو گئے۔ ہمارا رزلٹ آچکا تھا، اب کالج میں داخلے کا مرحلہ تھا۔ بھائی نے سائنس میں داخلہ لینا تھا اور میں نے آرٹس میں۔ جلد ہی مالک مکان کی مدد سے یہ مرحلہ بھی طے ہو گیا۔ دیہاتی پس منظر کے سبب مجھ میں اعتماد کی کمی تھی، اس لئے کلاس کی لڑکیوں سے گھل مل نہیں پارہی تھی، البتہ ایک خوش اخلاق لڑکی فاطمہ نے میری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو میں نے اسے تھامنے میں ذرا دیر نہ کی۔ اس کی انگریزی بہت اچھی تھی۔ میں نے اس کی رواں اور شستہ انگریزی کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ میرا بھائی مری کے کانوینٹ اسکول سے پڑھا ہوا ہے۔ میں روزانہ اس سے دو گھنٹے انگلش پڑھتی ہوں۔ مجھے اس پر بہت رشک آیا اور اپنی خوش قسمتی پر ناز بھی ہوا کیونکہ کالج کی دیگر لڑکیاں محض اس سبب مجھ کو منہ نہ لگاتی تھیں کہ مجھے انگریزی نہیں آتی تھی۔ وہ سب آپس میں انگلش میں بات کرتی تھیں جبکہ فاطمہ نے ان شہری لڑکیوں کو چھوڑ کر مجھ دیہاتن کو دوستی کے لئے چنا تھا کہ میں کلاس کی نک چڑی لڑکیوں کے تمسخر کا نشانہ بننے کے باعث احساس کمتری میں مبتلا ہونے لگی تھی۔
میں نے فاطمہ سے کہا۔ اگر اپنی امی سے اجازت لے کر میں ہفتے میں دو دن تمہارے گھر آکر تمہارے بھائی سے انگلش پڑھ لیا کروں تو کیا وہ مجھے پڑھا دیں گے ؟ وہ بولی۔ کیوں نہیں ، تم چاہو تو روز آ کر پڑھ لیا کرو۔ جب وہ مجھے پڑھانے بیٹھتے ہیں، اس وقت تم بھی آجایا کرو۔ تمہاری امی تو اعتراض نہ کریں گی ؟ میری امی پڑھی لکھی ہیں، سبھی گھر والے تعلیم یافتہ ہیں۔ بھلا وہ کیوں اعتراض کریں گے۔ میں بہت خوش ہوئی ، امی کو بتایا، انہوں نے اجازت دے دی۔ اب میں روز فاطمہ کے گھر جانے لگی۔ اس کے بھائی کا نام اور نگزیب تھا۔ وہ مجھے بھی اسی طرح توجہ سے پڑھانے لگا جیسے فاطمہ کو پڑھاتا تھا۔ میں بھی دل لگا کر پڑھنے لگی، یوں چھ ماہ میں ہی میری انگریزی بہت بہتر ہو گئی اور میں ٹیسٹوں میں اچھے نمبر لینے لگی اور میڈم کی نظروں میں بھی سرخرو ہو گئی۔ میں اپنی کامیابی پر پھولی نہ سمائی تھی، ساتھ ہی فاطمہ کی بھی شکر گزار تھی کہ اس کی وجہ سے ہی میں اپنی انگریزی بہتر کی۔ اس دوران اور نگزیب سے بھی میری اچھی خاصی بے تکلفی ہو چکی تھی ، جو دھیرے دھیرے پسندیدگی میں ڈھل گئی تھی۔ ایک دن اس سے شادی کے موضوع پر بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے میرے والد ، کسی وجہ سے ملازمت سے برطرف کر دیئے گئے تھے تو میرے ایک دوست نے میری مالی اعانت کی تھی۔ میں نے اس شرط پر ادھار لینے کی ہامی بھر لی کہ یہ قرض حسنہ ہو گا۔ اگر واپس لوگے تو میں تمہاری اس مہربانی کو قبول کرتا ہوں،کیونکہ میری خودداری کو یہ گوارہ نہ تھا کہ کلاس فیلو سے اس طرح مفت میں مالی امداد لوں۔ میرا خیال تھا کہ والد صاحب، ملازمت پر بحال کر دیئے جائیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا اور میں دوست کو قرضہ واپس نہ کر سکا۔ میں نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ جب تک اپنے دوست کا قرض ادا نہیں کروں گا ، تب تک شادی نہیں کروں گا۔ اگر قرض ادا کرنے کی کل ہی کوئی صورت نکل آئے تو کیا تم مجھ سے شادی کر لو گے ؟ وہ بولا۔ ہاں، میر اوعدہ رہا۔ میں ضرور تم سے شادی کرلوں گا۔
تب میں نے گھر جا کر امی کا سیف کھولا اور کچھ بھاری زیور چرا کر اور نگزیب کے حوالے کر دیئے۔ امی کے زیورات خالص سونے کے اور بھاری تھے کہ اگلے وقتوں کے بنے ہوئے تھے۔ چند زیورات سے ہی اور نگزیب کا قرضہ ادا ہو سکتا تھا۔ یہ زیورات انہوں نے مجھے شادی میں دینے تھے۔ میں نے اس سے کہا۔ ان کو بیچ کر قرض ادا کر دو اور پھر رشتے کے لئے میرے والدین سے بات کرو۔ دیر نہ کرنا، اور نہ میرا رشتہ کہیں اور ہو گیا تو تم ہاتھ ملتے رہ جائو گے۔ اور نگزیب نے زیور لے لئے۔ اس کے بعد ہماری ملاقاتیں شروع ہو گئیں۔ ہم کبھی کسی پارک میں ملتے اور کبھی کبھی ہوٹل میں ، لیکن ہر بار بل میں ہی ادا کرتی کیونکہ اس کے پاس پیسے نہ ہوتے تھے۔ گرچہ اس کے والد بر طرف ہو چکے تھے تاہم وہ اب بھی مالدار تھے۔ اور نگزیب کا کہنا تھا کہ والد چاہتے ہیں کہ میں خود کمانے لگوں، تبھی وہ ہم بچوں کے ہاتھ میں پیسے نہیں دیتے اور میں تو ابھی اور پڑھوں گا، پی ایچ ڈی کروں گا۔ بیرون ملک جاکر تعلیم حاصل کرنا میرا خواب ہے۔ ابھی سے دو ٹکے کی نوکریاں کر کے خود کو کیوں ضائع کروں ؟ انسان اپنا آدرش جتنا اونچا رکھتا ہے ، اسے زندگی میں مقام بھی اتنا ہی اعلی ملتا ہے۔ ہمارے اس تعلق کا علم کسی کو نہ تھا، فاطمہ کو بھی نہیں۔ اس معاملے میں ہم نے بہت احتیاط اور رازداری سے کام لیا تھا۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد میں گھر بیٹھ گئی۔ اب میں زیب سے مل نہیں سکتی تھی۔ مجبور ہو کر فاطمہ کا سہارا لیا۔ اس کی وجہ سے کبھی کبھار اس کے گھر میں زیب سے مل لیتی۔ فاطمہ کو میری دلی کیفیات کا اندازہ ہو گیا تھا۔ وہ بھی یہی چاہنے لگی کہ میں جائز طریقے سے اس کی بھا بھی بن جائوں۔ وہ اپنے بھائی سے بھی کہتی تھی کہ اگر تم نے شادی کرنا ہے تو نیلوفر سے ہی کرنا کیونکہ تم نے اس سے شادی کا وعدہ کر لیا ہے۔ وعدہ خلافی نہ کرنا۔ ایک بار پھر مجھے زیب نے اپنی کچھ مجبوریوں سے آگاہ کیا۔ اسے پریشان دیکھ کر میں نے ایک بار پھر امی کے زیورات میں سے کچھ زیور نکالے اور اسے دے دیئے۔ میں چاہتی تھی کہ وہ مجبوریوں کی منجدھار سے نکل آئے اور ہماری شادی میں کوئی اڑچن باقی نہ رہے۔
زیب کا کہنا تھا کہ اس کے والد چاہتے ہیں، میں جلد از جلد نوکری تلاش کر کے کمانے لگوں تو پھر وہ میری شادی کر دیں گے ، لیکن یہاں جو بھی ملازمت ملتی ہے، تنخواہ اچھی نہیں ملتی، لہٰذا میں دبئی جانا چاہتا ہوں۔ وہاں میر ادوست ہے، جو مجھے اچھی ملازمت دلوا سکتا ہے لیکن وہاں جانے کے لئے ویزے وغیرہ کا خرچہ بھر نا پڑے گا۔ اس بات پر ہی میں نے اسے زیورات دیئے تھے۔ زیب نے کہا تھا کہ وہ دبئی جانا ہی اس لئے چاہتا ہے کہ میری خاطر زیادہ کما سکے۔ خیر ، زیورات فروخت کر کے اس نے ویزا لیا اور دبئی چلا گیا۔ میں نے بھی اپنے بہتر مستقبل کی خاطر اس جدائی کو برداشت کر لیا۔ ادھر میرے رشتے آرہے تھے ، دبئی جانے سے قبل میں نے زیب سے ذکر کیا تو اس نے کہا۔ میں تو جارہا ہوں ، ٹکٹ بھی لے چکا ہوں۔ تم فاطمہ سے کہو ، امی ابو اس کی بات زیادہ سنتے ہیں۔ میں نے فاطمہ سے کہا تو اس نے اپنے والدین کو بتایا کہ اور نگزیب بھائی، نیلوفر کو پسند کرتے ہیں۔ آپ نے بھی لڑکی دیکھی ہوئی ہے، بہت اچھی ہے۔ زیب بھائی مجھ سے کہہ کر گئے ہیں کہ میں آپ لوگوں کو یہ بات بتادوں۔ آپ فورا رشتہ مانگ لیں، ایسا نہ ہو میرے بھائی کی خوشی کسی اور کی ہو جائے، کیونکہ اس کے بہت رشتے آرہے ہیں۔ اس کے والدین نے مجھے دیکھا پر کھا ہوا تھا، لہٰذا، انہوں نے فورا امیری امی سے بات کی اور امی نے بھی یہ سوچ کر کہ یہ اچھے لوگ ہیں ، ابو کو منالیا۔ یوں غیر متوقع طور پر میرا رشتہ ہو گیا۔ میں تو اتنی خوش تھی جیسے سارے جہان کی خوشیاں مجھے مل گئی ہوں۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی میرے خوابوں کی تعبیر یوں اچانک مجھے مل جائے گی۔ جب زیب دبئی سے آیا اور میں نے اسے یہ خوشخبری سنائی تو وہ ذرا بھی خوش نہ ہوا، بلکہ اس کا چہرہ اتر گیا۔ میں حیران رہ گئی۔ کہا کہ دبئی جا کر تم کو کیا ہوا ہے، تم تو پہلے جیسے نہیں رہے ہو۔ اس نے کہا کہ حالات دور جانے سے بدل بھی جاتے ہیں اور میرا ہاتھ جھٹک کر چلا گیا۔
فاطمہ کو پتا چلا تو وہ زیب پر خوب بگڑی اور کہا۔ بھائی صاحب یہ کہاں کی شرافت ہے ؟ ایک شریف گھرانے کی سیدھی سادی لڑکی کو تم نے شادی کا یقین دلایا اور اب انکار کر رہے ہو جبکہ امی ابو نے بھی بطور بہو اس کو پسند کر لیا ہے۔ شادی نہیں کرنی تھی تو جھوٹ بول کر اس سے زیورات کیوں لئے تھے۔ زیورات کی بات فاطمہ نے ماں کو بھی بتادی۔ بولی۔ امی ! ایک مخلص اور سچی محبت کرنے والی لڑکی سے بھائی دھو کہ کرنا چاہ رہے ہیں۔ یہ اچھی بات تو نہیں ہے۔ اس کی ماں نے زیب سے بات کی تو وہ بولا۔ مجھے نیلو فکر سے شادی نہیں کرنی۔ آپ میرا انکار سمجھ لیں، میری کوئی مجبوری ہے۔ تمہاری کیا مجبوری ہے؟ مجھے تو بتادوں ہے کوئی مجبوری، آپ کو نہیں بتا سکتا۔ اب تمہارے باپ ان کو ہاں کر چکے ہیں۔ ہم نے رشتہ مانگا اور طے بھی ہو گیا۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ صرف رشتہ ہی طے ہوا ہے نا ! نکاح تو نہیں ہوا۔ رشتے طے ہو کر ٹوٹ بھی جاتے ہیں۔ زیب کے انکار پر اس کی ماں نے مرنے کی دھمکی دے دی، باپ نے بھی بیٹے کو سمجھایا کہ ہم شریفوں میں یہ طریقہ نہیں ہے کہ زبان دے کر مکر جائیں۔ کسی کی عزت سے کھیلنا اچھی بات نہیں ہے۔ ہماری بھی بیٹیاں ہیں۔ اگر کوئی ہمارے ساتھ ایسی حرکت کرے تو بتائو ہمیں کتنا دکھ ہو گا۔ زیب خاموش رہا۔ باپ کے سامنے کچھ بولنے کی جرات نہیں کر سکا۔ بہر حال اس کے گھر والوں نے دبائو ڈال کر اس کی شادی میرے ساتھ کرادی۔ سہاگ رات کو جب زیب نے میرا گھونگٹ اٹھایا تو ان کے چہرے پر عجیب سی مجبوری نقش تھی۔ خوشی کا احساس تھا ہی نہیں۔ خوشیوں کے پھول میری جھولی میں ڈالنے کی بجائے ، انہوں نے ایک خط میرے ہاتھ میں تھمادیا اور کہا کہ اسے پڑھ کر خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کر لو۔ میں ذرا دیر باہر چلا جاتا ہوں۔ جب تم خط پڑھ کر سوچ سمجھ لو گی ، تو واپس آکر تمہاری مرضی معلوم کرلوں گا۔ یہ کہہ کر وہ باہر چلے گئے۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے لفافہ کھولا۔ خط پڑھا تو میرے ہوش اڑ گئے۔ لکھا تھا۔ پیاری نیلوفر ! بے شک میں تم سے محبت کرتا ہوں، لیکن دبئی میں کچھ ایسے حالات میں جکڑا کہ مالک کی لڑکی سے شادی کرنا پڑی، ورنہ گرفتار ہو کر جیل چلا جاتا۔ اب تو میں ایک بیٹے باپ بن گیا ہوں۔ میری بیوی ایک عربی لڑکی ہے۔ اب ان حالات ہیں، اگر تمہیں منظور ہے تو میری بیوی بن جائو ، ورنہ کل صبح تمہاری مرضی ہو گی تو طلاق دے کر تم کو آزاد کر دوں گا۔ چاہو تو یہ خط میرے والد کو دکھا سکتی ہو لیکن اس کے بعد ، شاید میں عمر بھر گھر بھی واپس نہیں آسکوں گا۔ تم جو چاہو مجھ پر الزام لگا کر طلاق کا مطالبہ کر سکتی ہو۔ میں دنیا والوں کے سامنے تردید نہ کروں گا۔ میں نے روتے ہوئے، خوشی کی گھڑی میں اس سنگین حقیقت کو قبول کر لیا کیونکہ طلاق لے کر بھی خوشی تو حاصل نہ کر سکتی تھی۔ زیب پندرہ روز رہے۔ ان کی چھٹی ختم ہو رہی تھی۔ انہوں نے واپس دبئی جانا تھا۔ وہ مجھے ساتھ نہ لے جانا چاہتے تھے مگر میرے ساس سسر ، ان کے سر ہو گئے کہ اپنی دلہن کو ساتھ لے کر جائو۔ انہوں نے اپنے والد سے وعدہ کیا کہ پندرہ دن کے اندر اندر واپس آکر میں نیلوفر کو ساتھ لے جائوں گا ، اس دوران ویزے کے لئے مطلوبہ کاغذات نکاح نامہ و غیر ہ لے جارہا ہوں۔ پندرہ روز بعد میرے سسر نے زیب کو فون کیا۔ اب وہ سمجھ گئے کہ نیلوفر کو نہ بلوایا تو یہ دبئی پہنچ جائیں گے۔ بہر حال وہ ویزا لگوا کر دوبارہ آئے اور مجھے ساتھ لے گئے۔
یہاں آکر ماحول دیکھا تو حیرت کی تصویر بن گئی۔ زیب کو مجھ سے کوئی لگا تو نہ تھا۔ ان کی ساری محبت اپنی پہلی بیوی کے لئے تھی۔ انہوں نے مجھے اپنے ایک دوست کے گھر چھپادیا اور پہلی بیوی کو میرے بارے میں نہ بتایا۔ بہت کم میرے پاس آتے۔ جب میں روتی تو ان کا دوست اور اس کی بیوی مجھے تسلیاں دیتے۔ کہتے ، بھا بھی آپ نہیں جانتیں یہ بیچارا بس دل لگی میں پھنس گیا ورنہ اس کو شادی آپ سے ہی کرنا تھی۔ یہ دل لگی زیب کو مہنگی پڑی۔ نوکری میں ترقی اور زیادہ تنخواہ کے لالچ میں عربی سیٹھ کی دل پھینک لڑکی کی لگاوٹ دیکھ کر اس کی ہمت افزائی کی اور سمجھا کہ یہ وقتی ہے مگر وہ لڑکی بھی اتنی سنجیدہ تھی کہ اس کا ناطقہ تنگ کر دیا۔ یوں اس کو اپنائے ہی بنی۔ اگر اس کے ساتھ بے وفائی کرتا تو عمر بھر جیل میں ہی گزرتی – میرے دل پر جو گزرتی تھی، میں جانتی تھی۔ اپنی شرافت کی وجہ سے اس کے دوست کے در پر پڑی تھی۔ آخر اس کی بیوی کو رحم آیا، بولی۔ بھا بھی میں آپ کو وہ گھر دکھا دیتی ہوں، جہاں تمہارے میاں، اپنی بیوی کے ساتھ رہتے ہیں اور بڑی عیش بھری زندگی گزار رہے ہیں۔ کب تک ایسے روتی رہو گی ؟ جو حقیقت ہے ، اس کا سامنا کرو۔ یہ ایک دو روز کی بات نہیں، ساری زندگی کا سوال ہے۔ اپنی جوانی برباد مت کرو۔ اس سے کہو کہ یا تو تمہیں بھی جائز مقام دے یا پھر طلاق لے اپنی نئی زندگی شروع کرو۔ میں بھی تنگ آچکی تھی۔ میں نے اس کی بات مان کر خود میں ہمت پیدا کی اور ان کے گھر چلی گئی۔
جب میں وہاں پہنچی تو زیب اپنے بچے کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ میں نے کہا۔ میں بھی تمہارے بچے کو جنم دینے والی ہوں اور اسی گھر میں جنم دے کر پھر کہیں جائوں گی، تاکہ تمہاری امانت تمہارے پاس رہے اور تم فرصت میں اس کے ساتھ بھی کھیل سکو۔ یہ سن کر وہ غصے سے لال ہو کر اٹھا۔ اس سے پہلے کہ مجھے دھکے دے کر گھر سے نکالتا، ہماری آواز میں سن کر دوسرے کمرے سے اس کی بیوی لائونج میں آگئی اور پوچھنے لگی۔ یہ کون ہے ؟ وہ عربی میں بات کر رہی تھی، لیکن میں سمجھ رہی تھی کہ وہ کیا کہہ رہی ہے۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں یہ عورت ہی مجھے گھر سے نہ نکال دے اور میری بے عزتی کرے۔ وہاں اس کا چوکیدار نو کر بھی موجود تھا جو پاکستانی تھا مگر عربی جانتا تھا۔ اس عورت نے اسی نوکر سے عربی میں پوچھا کہ زیب نے عورت سے کیا کہا ہے اور عورت کیا کہہ رہی ہے۔ تب اس بوڑھے آدمی نے بتا دیا کہ یہ عورت خود کو اور نگزیب صاحب کی بیوی بتاتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ بچے کو جنم دینے والی ہے۔ میں تو مسلسل رورہی تھی، تبھی زیب غصے سے ان ے سے اٹھا اور پہلی بیوی سے کہا۔ یہ عورت فریبی اور دروغ گو ہے۔ میں اس کو نہیں جانتا، پھر وہ مجھے بازو سے پکڑ کر گھر سے نکالنے لگا تو وہ عورت درمیان میں آگئی۔ کہنے لگی۔ انسان بنو۔ تم دیکھ رہے ہو اس عورت کی حالت ؟ ایسی حالت میں تم نے اس عورت کو اس طرح دے ، اس عورت کو اس طرح دھکے دیئے تو یہ اپنا بچہ کھو دے گی اور تم قاتل قرار پائو گے۔ اگر تمہارے اس عورت سے اس وجہ سے تعلقات تھے کہ یہ تمہاری لونڈی، باندی یازر خرید تھی تو کوئی بات نہیں ہے۔ ہاں ، اگر تم نے اس کے ساتھ زناکاری کی ہے تو تم کو اس کی سزا ملنی چاہئے، پھر اس نے نوکر سے کہا کہ اس سے پوچھو کہ اس کے پاس اور نگزیب کی بیوی ہونے کا کوئی ثبوت ہے ؟ نو کر نے مجھے اردو میں بتادیا، میں نے اپنا پرس کھولا اور نکاح نامہ نکال کر دکھایا۔ وہ عورت نکاح نامہ دیکھ کر دنگ رہ گئی ، مگر وہ بہت حوصلے والی تھی۔
اس نے فورا اپنے والد کو فون کیا اور فیصلہ باپ پر چھوڑ دیا۔ میری حالت غیر ہو رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں ایک لمبے قد کا ایک شخص عربی لباس پہنے ہوئے آگیا۔ وہ کافی سنجیدہ اور رعب داب والا شخص تھا۔ دولت و ثروت اس کے سراپے سے ٹپکتی تھی۔ اس نے اپنی بیٹی کی زبانی تمام احوال سنا اور نکاح نامہ بھی دیکھا۔ میں سمجھ رہی تھی اب میرے ساتھ زیب کی بھی گردن زنی کا فیصلہ ہو گا ، لیکن مجھے اس شخص کے فیصلے پر بہت حیرت ہوئی۔ اس نے بیٹی سے کہا کہ اس کو تمہیں فی الحال گھر میں جگہ دینی ہوگی۔ جب تک اس کا بچہ جنم نہیں لے لیتا، اس کے بعد چاہو تو علیحدہ مکان میں رکھ سکتی ہو۔ یہ عورت بے گناہ ہے۔ اور نگزیب نے بھی اپنے والدین کی تابعداری میں اپنی منگیتر سے شادی کر کے کوئی گناہ نہیں کیا ہے۔ ماں باپ کی تابعداری ہی تو کی ہے ، البتہ اس نے ہم سے مصلحتاً جھوٹ بولا، حقیقت چھپائی ، یہ دھو کا ضرور ہے لیکن اس عورت کی مجبوری دیکھ کر ہمیں اور نگزیب کو معاف کرنا ہو گا بشر طیکہ ، یہ تمہیں اور اپنی دوسری بیوی کو برابر کے حقوق دے کیونکہ اس نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کو گناہ کہیں۔ اس نے نکاح کیا ہے اور ہمارے دین میں چار شادیوں کی اجازت ہے۔ باپ کے سمجھانے سے زیب کی عربی بیوی جو کافی پریشان تھی، کچھ شانت ہو گئی۔ اس نے مجھے گلے لگا یا اور بولی۔ گھبر ائو نہیں، تم ہمارے ساتھ سکون اور آرام سے رہو گی، کیونکہ ہر بیوی کو برابر کے حقوق دینا، اسلام کا حکم ہے ، اس لئے ہم تمہیں قبول کرتے ہیں اور اللہ کا حکم تسلیم کرتے ہیں۔ میں جو سوچ رہی تھی کہ اگر اس عورت نے مجھے دھکے دے کر نکال دیا تو کہاں جائوں گی ؟ حیران رہ گئی۔ اس عورت اور اس کے باپ کے دل میں دین کے احکامات الہی لیے ہوئے تھے۔ ان کو کسی حج کے سامنے مقدمہ پیش کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ ان کے دل میں انسانیت موجود تھی یوں فیصلہ میرے حق میں ہو گیا، البتہ عربی نے اور نگزیب کو کافی برا بھلا کہا۔ تو کرنے مجھے بتایا کہ وہ کہہ رہا تھا کہ اگر تم میرے نواسے کے باپ نہ ہوتے تو اس بے انصافی پر میں تمہیں سخت سزا دیتا۔ میری سوتن بھی فرشتہ صفت نکلی۔ اس نے مجھے بہنوں کی طرح اپنے ساتھ رکھا۔ آج میں خود کو اس کے قدموں کی دھول سمجھتی ہوں۔