Tuesday, October 15, 2024

Farishton Ki Dua

شادی کو دو سال گزر گئے تھے ، ساس سسر نندیں دیور جیٹھ سب کھٹے میٹھے رشتے موجود تھے۔ ساس عقیلہ بیگم بہت دانا اور مدبر خاتون تھیں۔ بڑے سبھاؤ سے گفتگو کرتیں ، سوچ سمجھ کر خرچ کرتیں ، اچھی نیت رکھتیں تو کام بھی اچھے ہی ہوتے۔ باقی یہ کہ مزاج کا فرق تو ظاہر ہے سگے بہن بھائیوں میں بھی ہوتا ہے۔ کٹھے کے ساتھ بیٹھا اور میٹھے کے ساتھ کھٹا ہو تو دل لگنے کا سامان بنا ہی رہتا ہے۔ زنیرہ کو جن باتوں میں اختلاف ہوتا وہ خاموش رہتی ، اس لیے ان دو سالوں میں راوی نے چین اور سکون کو غالب ہی لکھا۔ کبھی کبھار کزنز یا سہیلیوں کی سرال کے حال سن کر تقابلی جائزہ لیتی تو شکرانے کے نفل بھی ادا کر لیتی۔ نہ کرسکتی تو نیت ضرور کر لیتی ، مگرسب جانتےجانتے ہیں زندگی جمود کا نہیں روانی اور تسلسل کا نام ہے۔ پانی کے بہتے دھارے اپنے اندر بہت طوفان چھائے ہوئے ہیں۔ اس کی پر سکون زندگی میں بھی ہلچل مچ گئی۔ وہ خود نئی نئی ماں بنی تھی۔ میکہ دور نہیں بہت دور تھا لہذا بچی کو خود سنبھالنا پڑتا۔ بچی بھی عجیب تھی – ذرا سی بچی ساری رات جگاتی اور دن میں بھی تگنی کا ناچ نچواتی ۔ ماں کو فون پر رپورٹ دیتی تو وہ مخصوص لب و لہجہ میں تبصرہ کرتیں۔ ہمارے تو پانچوں پلے پلائے عرش سے اترتے تھے۔ بچے ایسے ہی چلتے ہیں ۔“ ایک ہی بچی نے دن میں وہ تارے دکھا دئیے- اوپر سے نند پردیس سے دیس میں تشریف لے آئیں ۔ جم جم آونت نت آؤ مگر اپنے گھر میں- میاں اپنا کام دھندہ سمیٹ کر آنا چاہتا تھا۔ ساس سسر تھے نہیں ، طے یہی پایا کہ جب تک میاں پاکستان واپس نہیں آتا اس کی نند اسماء فہیم میکہ میں ہی رہے گی۔ اب تک تو تمام رشتے ایک دوسرے کا احساس کرنے والے ہی تھے لیکن یہ اسما اپنے نام کی ایک تھیں۔ ایک دن ، دو دن ، دو ہفتے گزر گئے وہ ابھی بھی ماں کے گھر میں مہمان تھی۔ مہمان بھی اللہ معاف کرے ایسی کہ چمڑی ادھیڑ کر جوتا بنا کر پہنا دو پھر بھی راضی نہ ہو۔ ہر بات میں نکتہ اعتراض اٹھانا ، اچھے بھلے کاموں میں نقص نکالنا، کھانوں پر اعتراض اپنے اور اپنے بچوں کے لیے وی وی آئی پی پروٹوکول کی ہمہ وقت خواہش مند، ہر فرد اس کے آگے ہاتھ باند ھے جی حضوری کی کیفیت میں کھڑا رہے۔ شاید چھوٹی ہونے کے ناطے زیادہ لاڈ پیار وصول کیا تو اب اس کی حق دار رہنا چاہتی تھی۔ زنیرہ کو اس پر بھی اعتراض نہ تھا۔ اعتراض تو اس بات پر تھا اس کے بچے طوفان بد تمیزی برپا کیے رکھتے ۔ زنیرہ کی بچی کو کبھی ٹانگ سے کھینچتے کبھی ، دودھ کی بوتل منہ سے نکال لیتے ۔ مگر وہ بچوں کی طرف سے آنکھیں بند کیے رکھتی۔ زنیرہ کڑھتی ، جلتی رہتی، اس جلنے کڑھنے میں ایک حادثہ پیش آگیا۔

اس کی تائی ساس کی بہن کا انتقال ہوا۔ زنیرہ کی ساس عقیلہ بیگم اور اس کے سسر دونوں تعزیت کے لیے گئے۔ واپسی میں موٹر سائیکل سے اترتے ہوئے بے دھیانی میں پاؤں ایسے برے طریقے سے مڑگیا کہ اوندھے منہ گریں، اب ٹانگ تڑوا بیٹھیں ۔ ایمبولینس میں ہسپتال لے جایا گیا ایکسرے اور ٹیسٹوں سے پتہ چلا کہ سر کی چوٹ تو خطرناک نہیں البتہ کو لہے کی ہڈی اور دوسرے گھٹنے کے قریب ٹانگ بری طرح ٹوٹ چکی ہے۔ ٹانگ کا آپریشن فی الحال نہیں کیا جاسکتا تھا پلاسٹر چڑھایا گیا۔ تیسرے دن ہسپتال سے گھر آئیں مگر معذور محتاج ہو کر، ان کے حادثے کی خبر سن کر کیا اپنا اور کیا پرایا سب دوڑے چلے آئے اور آنا بھی چاہیے تھا۔ عقیلہ آپا نے ہمیشہ دوسروں کے غم اور خوشیوں میں خوشدلی سے شرکت کی۔ شروع کے دو ہفتے تو ایسے گزرے کہ صبح، تہجد کے وقت ہی دروازے پر چیختی چنگھاڑتی گھنٹی سے آنے والوں کا آغاز ہوتا۔ کہاں پیرمحل اور کہاں سوات کا نواحی قصبہ کسی کی ٹرین رات دو بجے پہنچتی اور کسی کو موٹر وے بند ملتی تو سفر چار گھنٹے کا اضافی طے کرنا پڑتا۔ رات گئے تک آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا۔ ہر کمرے ہر جگہ پر تیماردار پائے جاتے۔ با آواز بلند باتیں بگھاری جارہی ہیں۔ ملکی غیر ملکی حالات پر پر گرما گرم بحث ہو رہی ہے ، چائے کے دور چل رہے ہیں ، کوئی ڈرائی فروٹ سے شغل فرما رہا ہے کسی کو ادرک کا قہوہ چاہیے ، آب و ہوا بدلنے سے پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔ کسی کو چکن سے نفرت تھی کسی کو بھنڈی کریلوں سے بواسیر ہوتی تھی ان کے لیے متبادل کیا بنایا جائے؟ صبح شام دودھ کی دس دس لیٹر کی بوتلیں آرہی تھیں۔ جتنا پکایا جاتا منٹوں میں ختم ہر دوسرے گھٹے میں چار چھ تیمار دار مزید آجاتے ۔ کہنے کو جوان جہان نند معاون کے طور پر موجود تھی۔ دیورانی ، جیٹھانی بھی کئی گھنٹے کی ڈیوٹی دینے کے لیے موجود ہوتیں، مگر نند نے تو میاں کی بیرون ملک ملازمت ختم ہونے اور بے روزگار ہونے کی وجہ سے مقامی اسکول میں ملازمت کر لی تھی۔ دو چار دن کی چھٹی لینے کے بعد اس کے پاس معقول بہانہ موجود تھا کہ نئی نئی نوکری ہے۔ اس سے زیادہ چھٹی مل نہیں سکتی ویسے بھی نوکری کی تے نخرہ کی ! الٹا جب اسکول سے واپس آتی تو جوتوں سے پاؤں نکال کر سامنے رکھی میز پرٹکا دیتی کہ کوئی آ کر دبائے – دیورانیاں ، جیٹھانیاں بھی آئے گئے کی میزبانی کر سکتی تھیں، گھر کی نگرانی اور تمام تر ذمہ داریاں تو زنیرہ کے اوپر تھیں۔ شروع شروع میں تو وہ سخت بوکھلا گئی بال بنانے کا ہوش ، نہ منہ دھونے کا کہاں سے سورج پیر نکالتا اور کہاں جاکے دفن ہو جاتا اسے بھی کچھ ہوش نہ تھی۔ تین ماہ کی بچی رو رو کر ہلکان ہو جاتی وہ بوکھلا جاتی ۔ بات بے بات رونے بیٹھ جاتی ۔ انسٹا گرام ، فیس بک، واٹس ایپ کس بلا کا نام ہے اور ٹی وی پر کون سے ڈرامے کا کون سا سیزن چل رہا ہے۔ اس کی جانے بلا .. وہ سب بھول گئی ، یاد تھا تو ادھوری نیند کے ساتھ اس ناگہانی آفت کا مقابلہ کرنا –

آہستہ آہستہ دور والے عزیز رخصت ہوئے ہیں دو نندیں اور تائی ساس تھیں ۔ محلے والی خواتین بھی روازنہ خبر گیری کے لیے آتیں۔ نندوں کی سسرال ، دیورانی، جیٹھانی کا میکہ بھی گاہے بگاہےتیمار داری کے لیے موجود ہوتا ۔ اپنے میکے والوں کو اس نے ابھی آنے کا سگنل نہیں دیا تھا۔ عقیلہ بیگم کی سرجری ہو چکی تھی۔ سر کا زخم کچھ خراب ہوا تو وہاں بھی تین ٹانکے لگانا پڑے۔ لیکن ابھی صحت کی طرف کا سفر بہت آہستہ تھا۔ ذہن تھوڑا سا کام کے قابل ہوا تو اس نے تیز آواز والی گھنٹی بدلوائی۔ جوازمعقول تھا۔ امی جان کی آنکھ بمشکل بند ہو پاتی ہے تو اس کی آواز سے نیند اکھڑ جاتی ہے۔ پھر اس نے اپنے میکے والوں کو آنے کا گرین سگنل دیا۔ اس کا حلیہ دیکھ کر اس کی بہن اور امی چپ کی چپ رہ گئیں۔ سنولائی رنگت ، روکھے بال، امی کے کندھوں سے سر ٹکا کر وہ بے آواز روئی اور خوب روئی ۔ ہائے یہ مہربان گود جس میں سر رکھ کے وہ سارے دکھ بھول جاتی تھی۔

میکے والے دو دن رہے۔ بچی کی ساری ذمہ داری امی اور بہن نے لے لی۔ بچی کو نہلایا دھلایا ، ناخن تراشے اس کا کمرا درست کیا۔ بہن نے اس کے خوب مالش کی۔ آنکھیں تھیں کہ شعلے، جسم ٹوٹا ہوا جوڑ جوڑ میں درد … اس دوران بہن اس کے کانوں میں اپنی الجھنیں سوالات کی شکل میں انڈیلتی رہی۔ آپی یہ آپ کی نند یہ تو اسکول جاتے میک اپ میں جاتی ہیں۔ یہ تو روزانہ شاور بھی لیتی ہیں۔ اس اسکول سے آنے کے کے بعد دو گھنٹے ریسٹ بھی لیتی ہیں۔ کیا ان کو اپنی ماں کی تکلیف کا احساس نہیں ۔ کیا الکوحل وائپس سے زخم صاف کرنا اور دوائیں دینا بھی ان کی ڈیوٹی ہے ؟ آپ کی جیٹھانی آتی تو روزانہ ہیں، سبزی بناتی ہیں۔ ساس کا پیمپر بدلتی ہیں کیا وہ سالن گھر سے بنا کر نہیں لاسکتیں۔ آپ کی لانڈری گندے کپڑوں سے بھری پڑی ہے۔ بد بو بھی سر درد کرنے والی ۔ آپ نند سے کیوں نہیں کہتیں کہ وہ یہ ذمہ داریاں تو اپنے نام کروا لے – زنیرہ کے پاس کسی بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔ محبت اور تعلقات کے نام پر تیماردار آتے اور کئی کئی گھنٹے کے لیے آتے۔ کس کو کیا بھجوانا ہے یہ ذمہ داری، اس کی تھی۔ کبھی ساس کی ہائے ہائے اس کا جگر چھلنی کرتی ۔ کبھی تیمار داروں کا ہجوم تھکا دیتا۔ کبھی نندوں کا حساب کتاب اس کی طاقت کو کمزور کرتا۔ وہ کس سے کیا کہتی ؟؟ بسا اوقات تو مردانہ اور زنانہ دونوں کمرے ہی تیمار داروں سے بھرے ہوتے۔ ڈاکٹر کی طرف سے ساس کو مزید دو تین ماہ تک ریسٹ کی ضرورت تھی۔ ان دو ماہ میں ساٹھ دن اور ان ساٹھ دنوں میں آٹھ سو بیس گھنٹے ہوتے ہیں۔ اس کے لیے تو اب ایک پل بھی مشکل تھا اسے سخت بے زاری محسوس ہو رہی تھی یہ کیسا نظام ہے؟ بیمار تو مزے سے بستر پر ہے۔ تیمار دار بھی مزے سے، مفت میں آؤٹنگ کی آؤٹنگ اور کونڈا ہوگا بھگتنے والوں کا ۔

حالات نے اس کی نرم مزاجی کو سختی میں بدل دیا تھا وہ ہر وقت جھنجلائی رہتی۔ کاش وہ سکون سے سو سکے ۔ آنکھیں کھولے تو ساس پہلے کی طرح چل پھر رہی ہوں ۔ صبح شام کی روٹین پہلے جیسی ہو۔ اب تو اس کا سارا وجود پھوڑے کی طرح دکھنے لگا تھا جب امی لوگ واپس جا رہے تھے تو پھوڑا پھوٹ گیا۔ اتنے گئے گزرے دنوں کا دل و دماغ میں جمع شدہ مواد بہہ نکلا- امی ! لوگ کیوں دوسروں کا درد محسوس نہیں کرتے ؟ سگی بیٹی اگر زخم دھو کر پٹی بھی کر دے تو لوگ کہتے ہیں اللہ ایسی بیٹیاں ہر کسی کو دے۔ اور بہو سارے کام کر کے ہلکان ہو جائے تو دل چھلنی کرنے والے فقرے سننے کو ملتے ہیں۔ کیوں؟“ وہ دونوں ہاتھ منہ پر رکھے۔ چیخوں کا گلا گھونٹ رہی تھی آنسو بہہ بہہ کر ہاتھوں کی پشت سے پھسل کر زمین میں جذب ہو رہے تھے۔ امی نے اسے سینے سے لگایا۔

میری زونی یہ دنیا ہے۔ جنت ابدی نہیں ۔ لوگ ایک جیسی فطرت کے بھی نہیں ہو سکتے۔ تمہارے لیے یہ آزمائش ہے لیکن آزمائش ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتی ۔یا سزا بن کرملتی ہے یا اجر عظیم اور بشارتوں کی نوید دے کر – عقیلہ بہن بھی بھلی چنگی ہو جائیں گی۔ آہستہ آہستہ تمہیں بھی سب بھول جائے گا۔ بس یہ یاد رہے گا جب عینا تین ماہ کی تھی تو اس کی دادی کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ تمہارے لیے اب جو چیز نا قابل برداشت ہے یہ اس وقت حافظے سے بھی محو ہو جائے گی۔ تمہاری نند بھی بالآخر اپنے گھر میں شفٹ ہو جائے گی بس یہ یاد رکھو! یہ مشکل وقت ہے تو رحمتوں کے حصول کا بھی ہے۔

بیمار کی دلجوئی کے لیے آنا تو سنت ہے لیکن تیمار دار، تیمار داری کی سنتیں بھول جاتے ہیں۔ کتنی دیر بیٹھنا ہے کیا دعا دیتا ہے۔ کسی قسم کی گفتگو کرنا ہے سب تو سر کار دو جہاں نے بتا دیا ۔ ہم بھول گئے ہیں لیکن یاد رکھو ، بیمار کے بہت سے گناہ اور خطائیں ایسی  ہوتی ہیں جو بیماری میں صبر کے ذریعے معاف ہوئی ہیں تو تیماردار کے بھی بہت سے گناہ اور بہت سی خطائیں ہیں جو نماز ، روزے ، حج ، زکوة سے نہیں صرف اور صرف تیمارداری کرنے سے معاف ہوتی ہیں۔ تب ہی تو احادیث مبارک میں ستر ہزار فرشتوں کی ان کے لیے دعائے مغفرت کی ۔ بشارت ہے۔ ستر ہزار فرشتے ۔ سن رہی ہوناں میری بات ۔ ” انہوں نے بیٹی کے منہ پر آئے بال درست کرتے ہوئے کہا۔ جی امی ! سن رہی ہوں۔ تو گھنٹہ دو گھنٹہ دو دن ، چار دن کے لیے آنے والے بس اتنی دیر ہی فرشتوں کی معیت میں رہتے ہیں تم تو ہمہ وقت ان کے قرب میں ہو۔ تمہاری بچی ان حالات میں بھی ماشاء اللہ تندرست ہے۔ اس کی راتوں کو جگانے والی عادت اللہ نے ختم کردی یہ فرشتوں کی معیت ہی ہے ناں تم ہمت سے سب کچھ بطریق احسن کر رہی ہوں یہ بھی اوپر والے کی کرم نوازی ہے ناں ۔ زندگی تو ہے ہی دھوپ چھاؤں کا نام کوئی تمھیں غیر ذمہ دار کہتا ہے تو کہے تمہارے نقص نکالتا ہے تو نکالے ۔ تم یہ کیوں نہیں سوچتی فرشتے ستر ہزارفرشتے تمہارے لیے دعا کرتے ہیں۔ لوگوں کی باتیں زیادہ اہم ہیں یا فرشتوں کی دعائیں ؟

ہاں لیکن تم لوگوں کی عادت نہیں بدل سکتی لیکن جب تم کسی بیمار کا حال پوچھنے جاؤ تو کوئی ایسی چیز ہمراہ لے جانا ، جو ان کی ضرورت : ہو یعنی، دلیہ یا سالن، چاول. پہلے سے بتا کر ، ایسا نہ ہو دس لوگ بیٹھے ہوں اور سب یہی لے آئیں پھر جا کر ان کا حال احوال پوچھو۔ ان کے لیے دعا کرو۔ صحت مند ہونے کا تذکرہ کرو نہ کہ ان کا جو ایسی ہی بیماری میں مبتلا رہ کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔ پھر اجازت لے کر واپس آ جاؤ۔ تم نے کبھی یاد نہیں کیا کہ میں جب تم بچوں کو اپنے ساتھ لے کر جاتی تھی تو اکثر روزے سے ہوتی تھی تاکہ ان کو چائے پانی کی ٹینشن نہ ہو اور بالغرض روزہ نہ بھی ہو توکہو کہ کھا کر آئیں ہیں ۔ یہ نہیں کہ بے تکلفی سے بتا دو کہ ناشتا بنا دو ہو یا کھانا کھانا ہے ۔ اور شاید تمہیں یہ بھی یاد ہو میں ہمیشہ ان کے ہاں کھچڑی دلیہ، گھر والوں کے لیے کوئی پکوان لے جاتی تھی۔ اور وہ بھی ڈسپوزاییل برتن میں تاکہ برتن خالی کرنے ، دھو کر دینے کا جھنجٹ بھی نہ ہو۔

اور الله کا شکر ہے ستر ہزار فرشتوں کی قربت کو سمیٹ کر ہی وا پس آئی – بہتر تم بھی ایسے کرو ، کیا معلوم تمہاری دیکھا دیکھی کوئی اور بھی تمہارا طریقہ اپنا لے۔ یہی وہ آسانیاں ہیں جو ہم دیں گے تو لینے کی توقع بھی رکھیں گے۔ ہے ناں” انہوں نے دلار سے زنیرہ کا ماتھا چوما اور زنیرہ کے دل میں ایسی سکنیت کا نزول ہو رہا تھا جو کبھی رمضان کی عبادت میں بھی نہیں محسوس ہوئی تھی۔ شاید یہی فرشتوں کی دعا تھی اس کے حق میں جو قبول ہو رہی تھی۔

Latest Posts

Related POSTS