فرض کرو ہم تارے ہوتے اک دوجے کو دور دور سے دیکھ دیکھ کر جلتے بجھتے-
اور پھر اک دن
شاخ فلک سے گرتے اور تاریک خلاؤں میں کھو جاتے-
دریا کے دودھارے ہوتے
وہ گھاس پر نیم دراز گنگنار ہی تھی۔ جب ہی سونیا نے اس کی کمر پر دھمو کا جڑا۔ وہ تلملا کے اٹھ بیٹھی-
کیا تکلیف ہے یار۔
یہ آج کل تم کن ہواؤں میں اڑتی پھر رہی ہو۔ جب دیکھو گنگناتی ہی ملتی ہو یا میسج میسج کرتی رہتی ہو۔ سونیا نے اس کی تکلیف کو خاطر میں نہ لاتے ہوۓ رعب سے پوچھا تھا۔ وہ دھیرے سے ہنس دی۔
اسے محبت ہو جانا کہتے ہیں ڈیر-
اسے لعنت کہتے ہیں سنا تم نے ۔ سونیا ناگواری سے بولی ۔
نہیں یار! یہ واقعی اصلی والی محبت ہے۔ رمشہ ڈھٹائی سے ہنسی۔
کون ہے وہ؟ سونیا کی پیشانی شکن آلود ہو چکی تھی۔
بھائی کا دوست …… اور تم کس خوشی میں میری دادی اماں بنی ہوئی ہو ۔ دوست ہو ، دوستوں کی طرح ساتھ دو میرا۔ رمشہ کی ڈھٹائیاں عروج پر تھیں ۔
سونیا اسے افسوس سے دیکھ رہی تھی ۔ جو دوست، دوست کی بہن کے ساتھ چکر چلائے ، وہ دوست نہیں دشمن ہوتا ہے اور جہاں تک میرے ساتھ دینے کی بات ہے تو مخلص دوست وہ ہوتی ہے جو تمہیں برے کام سے منع کرے اور اچھے کام میں ساتھ دے۔ ہر الٹے سیدھے کام میں ساتھ دینے والی دوستیں مخلص نہیں ہوتیں ۔
سونیا یہ تم کیسی باتیں کر رہی ہو آج۔
سمیر میرے ساتھ مخلص ہے۔ وہ فلرٹ نہیں کر رہا جو تم اسے دشمن کہہ رہی ہو اور میں نے کون سا الٹا کام کر دیا ہے؟ رمشہ سنجیدہ ہو چکی تھی۔
تم کیسے گارنٹی سے کہہ سکتی ہو کہ وہ مخلص ہے تمہارے ساتھ۔ سونیا بحث پر اتر آئی تھی۔
اور تم کیسے کہ سکتی ہو کہ وہ ٹائم پاس کر رہا ہے۔ رمشہ کو غصہ آیا تھا اپنی بہترین دوست پر۔
کیونکہ ہر طرف یہی ہوتا نظر آ رہا ہے، جوسنجیدہ ہوں وہ لڑکی سے نہیں لڑکی کے والدین سے بات کرتے ہیں- سونیا نے سکون سے کہا تو رمشہ کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے سونیا، میں جھانسوں میں آنے والی نہیں ہوں ۔ سمیرایسا نہیں ہے۔ وہ بہت منفرد سا ہے۔اس نے مجھ سے کہا تھا کل کہ وہ ضرور اپنے گھر والوں کو بھیجے گا-
اور اگر وہ منفرد مرد یہ ہی باتیں کسی اور لڑ کی سے بھی کر رہا ہوا تو؟
سونیا کی بات پہ رمشہ نے نفی میں سر ہلایا۔
سمیر نے قسم کھا کر کہا تھا کہ میں پہلی لڑکی ہوں، اس کی زندگی میں آنے والی اور آخری بھی ۔
مرد کے منہ سے ایسی باتیں اچھی نہیں لگا کرتیں۔ لیکن وہ باز نہیں آتے پھر بھی ۔ سونیا نے دھیرے سے ہنس کر کہا۔
بڑی بدگمان ہوتم اس قوم سے ۔کہیں ، کوئی تجربہ تو نہیں ہوا؟ رمشہ نے کتابیں سمیٹتے استفسار کیا توسونیا نے اسے ایک اور دھمو کا جڑ دیا۔
میں اپنا مشاہدہ بیان کررہی ہوں-
مشاہدہ۔ کہتے ہیں ناں کہ سمجھ دار کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے تو میرے لیے مشاہدہ ہی کافی ہے سیکھنے کے لیے۔ یار، یہ لفاظی بند کرو اور سموسے لے کر آؤ جلدی سے ۔ رمشہ نے اس کی باتوں سے اکتا کر کہا۔
***
کل تم یونیورسٹی کیوں نہیں آ ئیں؟ سونیا نے سنگی بینچ پر رمشہ کے قریب بیٹھتے اور اس کے ہاتھ سے موبائل لیتے پوچھا۔
موڈ نہیں ہورہا تھا۔ اس نے مسکراتے ہوۓ بتایا۔ وہ سمیر کا میسج پڑھ رہی تھی۔
سونیا نے موبائل کی روشن اسکرین پر نظر میں دوڑائیں۔ اس کی پیشانی پر بل پڑے تھے۔
تیری یادوں سے بچ کر نکلوں مجھے ترکیب دے کوئی
میری جانب سے ہر رستہ تیری جانب نکلتا ہے
ابھی وہ اگلا حصہ پڑھ بھی نہ پائی تھی کہ سمیر کی کال آ گئی۔ رمشہ موبائل اس کے ہاتھ سے جھپٹتی ایک طرف چلی گئی۔ سونیا اسے غصیلی نظروں سے دیکھ کر رہ گئی۔ تقریبا بیس منٹ بعد وہ دوبارہ سنگی بینچ پرآ کر بیٹھی تو سونیا کو غصے میں دیکھ کر جھنجھلا سی گئی۔
کیا ہوگیا یار، کیوں میرے اور میری محبت کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئی ہو۔
کیا رشتہ ہے تمہارا اس سے؟ سونیا کا لہجہ سپاٹ تھا۔
یار- تبلیغ کرنے مت بیٹھ جانا پلیز ۔ محبت کا تعلق ہے اس کے اور میرے درمیان ۔ اب کے رمشہ نے ایک ادا سے کہا۔
میں اسے گناہ کا تعلق کہوں گی رمشہ تمہیں شرم آنی چاہیے، ایک غیر مرد سے باتیں کر کے ٹائم ضائع کرتے ہوئے۔ کیا ہمارا مذہب اس سب کی اجازت دیتا ہے؟
مذہب کو درمیان میں مت گھسیٹو سونیا، اور میں سمجھ نہیں پا رہی کہ آخر اس بحث کا مقصد کیا ہے ۔ کیوں بوڑھی روح بنی ہوئی ہوتم ۔ وہ جھنجھلا کر بولی۔
یوں گھنٹہ بھر موبائل پر لڑکیوں سے ٹھٹھے مارنے والے لڑکے فلرٹی ہوتے ہیں۔ ایسے لڑکوں کی دس لڑکیوں سے دوستیاں ہوتی ہیں۔ میں تمہیں سراب سے بچنے کے لیے کہہ رہی ہوں اور بس ….. سونیا نے ٹھہرے ہوۓ لہجے میں کہا اور کتابیں سنبھالتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
رمشہ نے اس کا ہاتھ پکڑا۔ سونیا نے چونک کر اس کا چہرہ دیکھا۔ وہ بالکل سنجیدہ تھی۔
بیٹھو ادھر۔ میں ابھی تمہاری غلط فہمی دور کیے دیتی ہوں۔ مجھے اپنا موبائل دو ادھر۔ میں بار بار سمیر کی تو ہین برداشت نہیں کر سکتی۔
سونیا کچھ کچھ سمجھی تو تھی سو بیٹھ گئی اور اپنا موبائل اسے پکڑا دیا۔ رمشہ بڑی سنجیدگی سے میسج لکھ رہی تھی۔ سونیا تھوڑا آگے ہوکر پڑھنے لگی۔
ڈیر سمیر،
میں تمہاری کزن کی دوست ہوں۔ میں نے تمہیں کئی بار دیکھا ہے ۔ واہ کیا پرسنالٹی ہے تمہاری۔ بالکل چاکلیٹی ہیرو لگتے ہو۔ خیر، میں تم سے دوستی کرنا چاہتی ہوں ۔ میں جواب کی منتظر ہوں۔ صبغه-
سونیا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھری تھی۔ رمشہ میسج سینڈ کر کے جواب کا انتظار کرنے لگی۔ اس کے چہرے پر سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔ کچھ دیر بعد ہی میسج ٹون بجی۔سونیا تیزی سے آگے ہوئی۔
جواب حاضر ہے صبغہ جی- اللہ نے مجھے اس معاملے میں بڑا سخی بنایا ہے اور نرم دل بھی۔ میں لڑکیوں کے دل نہیں توڑا کرتا۔ آج سے اپنی دوستی پکی۔ ذرا اپنی تصویر تو بھیجو پلیز-
رمشہ کے اردگرد دھماکے ہور ہے تھے ۔ وہ بے یقینی سے اسکرین کو گھورے جارہی تھی۔
سونیا کا چہرہ ہنسی ضبط کرنے کے چکروں میں سرخ ہوا جار ہا تھا۔
مجھے یقین نہیں آ رہا سونیا، رمشہ کو اپنی آواز کنویں سے آتی محسوس ہوئی تھی۔ اب ایسے شخص کے لیے رونے مت بیٹھ جانا۔ بس اپنے راستے بدل لو۔ درست سمت میں چلو پھر کبھی ایسے دکھ اور دھوکے نہیں ملیں گے ۔ سونیا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
رمشہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر رو پڑی۔
سونیا- یہ میری زندگی میں آنے والا پہلا مرد تھا خدا کی قسم-
بھول جاؤ ۔ سونیا نے سکون سے کہا۔
موبائل کی میسج ٹون ایک بار پھر بجی تھی۔ سونیا نے دیکھا تو سمیر کا ہی میسج تھا۔
سونیا بلند آواز میں پڑھنے لگی۔
کہو اک دن
کہو اک دن
کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے سب کچھ تمہارا ہے
اگر سب کچھ یہ میرا ہے تو سب کچھ بخش دواک دن
وجوداپنا مجھے دے دو ، محبت بخش دواک دن
سونیا بند کرو یہ بکواس ۔ رمشہ کانوں پر ہاتھ رکھ کے چلائی۔
او کے او کے….. بلکہ اس کا۔ بکواس نمبر بھی بلیک لسٹ میں ڈالتی ہوں ابھی۔ فضول میں میرا نمبر اس کے پاس چلا گیا۔ سونیا بڑ بڑائی تھی۔
رمشہ نے نفی میں سر ہلاتے اپنی آنکھیں رگڑی تھیں۔
پھر اپنا موبائل اٹھا کر سمیر کا نمبر بلیک لسٹ میں ڈالنے لگی۔ ایک ممنون نگاہ اس نے سونیا پر ڈالی ۔اپنی مخلص دوست پر…..اور آئندہ کے لیے دل میں عہد کیا تھا، کبھی غیر محرم مردوں سے ادنی سا تعلق بھی نہیں رکھے گی۔
(ختم شد)
جویریہ مریم