Thursday, October 10, 2024

Feeka Badmash

ان دنوں میٹرک کی طالبہ تھی اور پڑھنے کا بے حد شوق تھا، اس لئے سہیلیاں کم بناتی تھی۔ نائلہ میری واحد دوست تھی – وہ میری کلاس فیلو بھی تھی اور اس کا گھر ہمارے گھر سے نزدیک ہی تھا۔ میں کبھی کبھار اس کے یہاں چلی جایا کرتی تھی۔ نائلہ کا ایک بھائی تھا جس کا نام شاہد تھا۔ میں جب بھی ان کے گھر جاتی، وہ مجھے حسرت بھری نظروں سے دیکھتا۔ اس کا چہرہ بڑا معصوم نظر آتا تھا، شاید اس لیے وہ مجھے اچھا لگنے لگا۔ ہم دونوں بات کرنا چاہتے تھے لیکن موقع نہ ملتا تھا۔ ایک دن میں نائلہ کے گھر گئی تو اس کے والد کام پر گئے ہوئے تھے جب کہ وہ خود اپنی امی کے ہمراہ بازار گئی تھی۔ شاہد گھر پر اکیلا ہی تھا۔ یوں ہمیں ایک دوسرے سے بات کرنے کا موقع مل گیا۔ ابھی ہم ادھر ادھر کی باتیں کر رہے تھے کہ اس کی بہن اور والدہ آگئیں۔ دروازہ کھلا تھا اور ہم باہر بیٹھے باتیں کر رہے تھے لہذا انہوں نے کچھ محسوس نہیں کیا۔ ہمارے امتحان قریب آرہے تھے۔ میں نے کہا۔ نائلہ ! تمہاری تیاری کیسی جارہی ہے۔ وہ بولی کچھ زیادہ اچھی نہیں۔ فکر مت کرو، ہم اکٹھے تیاری کر لیں گے۔ میں روز شام کو آجایا کروں گی۔ وہ بولی۔ بہت خوب، یہ بہت اچھا رہے گا۔ اگلے روز امی سے اجازت لی اور پرچوں کی تیاری کا بہانہ کر کے میں نائلہ کے گھر گئی۔ یوں روز پڑھنے کا کہہ کر آجاتی، درحقیقت میں شاہد سے ملنے کی خاطر یہاں آتی تھی۔ تاہم نائلہ اور آنٹی کی موجودگی میں بہت کم اس سے بات کرنے کا موقع ملتا تھا۔ جب کھل کر بات نہ ہو پاتی تو ہم دونوں دل مسوس کر رہ جاتے تھے۔ دل میں گھٹن رہنے لگی۔ یہ گھٹن شاہد کو بھی محسوس ہوتی تھی۔ اس نے کئی بار کہا کہ ہم کسی ہوٹل میں چائے پیئیں۔ کچھ باتیں ہوں مگر میں ٹال جاتی کیونکہ گھر کا ماحول اس بات کی اجازت نہ دیتا تھا۔ ابو بہت سخت مزاج تھے۔ ابو نے منشیات فروشی کی وجہ سے خاصی دولت اکٹھی کر لی تھی۔ ایسے دھندوں میں غنڈہ عناصر سے بھی واسطہ رہتا تھا۔ والد صاحب بظاہر شریف اور سفید پوش تھے لیکن ان کا تعلق غلط قسم کے لوگوں سے تھا۔ ظاہر ہے کہ جس آدمی کا تعلق غلط قسم کے لوگوں سے ہو ، وہ خود بھی صحیح تو نہ ہو گا۔ والد صاحب کے اکثر دوست غنڈہ قسم کے تھے اور کچھ لوگوں کو انہوں نے باقاعدہ پال رکھا تھا تا کہ برے وقت میں کام آئیں۔ ایک غنڈے نے ان کی خاطر پانچ سال جیل بھی کاٹی تھی۔ اس کا نام رفیق تھا جسے سب فیکا کہتے تھے۔ یہ ایک پُر جوش جوان تھا جس کو میرے ابا بہت عزیز رکھتے تھے۔ وہ اکیلا تھا۔ عزیز و اقارب والدین کا کچھ پتا نہ تھا۔ یہ اکثر ہمارے گھر کی نگرانی پر مامور ہوتا۔ مجھے اس سے ڈر لگتا تھا کہ کہیں اس نے مجھ شاہد کے ساتھ کبھی ہوٹل وغیرہ جاتے دیکھ لیا تو میری خیر نہ ہو گی۔ ان دنوں میں شاہد کے خیالوں میں تھی۔ لہذا تعلیم سے دلچسپی کم ہو گئی تھی۔ نائلہ کو بھی شک ہو گیا کہ بانو پڑھنے کم اور شاہد سے ملنے زیادہ آتی ہے تاہم اس نے مجھے کچھ کہا اور نہ اپنی ماں کو ، کیونکہ وہ اپنے بھائی سے بہت محبت کرتی تھی – امتحان سر پر آگئے۔ میں نے پر چے بہت بے توجہی سے دیئے کیونکہ میں اور شاہد پرچے کے بعد ایک باغ میں چلے جاتے تھے جو امتحانی مرکز سے نزدیک ہی تھا۔ شاہد سے ملنے کی مجھے اس قدر جلدی رہتی کہ میں آدھ گھنٹے میں پرچہ کر کے آجاتی۔ اسی دوران ہم نے ایک دو مرتبہ ہوٹل میں چائے بھی پی۔ مگر کبھی بڑے ہوٹل میں جانے کا اتفاق نہیں ہوا اور میرے پرچے ختم ہو گئے۔ پرچے ختم ہوتے ہی میں گھر میں قید ہو کر رہ گئی۔ شاہد نے کئی بار مجھ سے میرے گھر پر ملنے کی کوشش کی۔ وہ نائلہ کو ہمارے گھر ساتھ لے کر آیا کرتا تھا، تب میں نے اس کو منع کر دیا کیونکہ مجھ کو فیکے سے ڈر لگتا تھا کہ کہیں وہ ابو سے شکایت نہ کر دے۔ اگر والدین کو علم ہو جاتا کہ میرے اور شاہد کے درمیان کوئی تعلق ہے، وہ ہم دونوں کو زندہ دفن کر دیتے۔ تبھی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی تھی۔ ایک بار جب میں ابو کے کمرے کے پاس سے گزر رہی تھی، مجھ کو امی اور ابو کی جھگڑنے کی آواز سنائی دی۔ وہ میری شادی کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔ لہذا میں وہاں رک گئی۔ تبھی ابو نے کہا کہ میں بانو کی شادی فیکے سے کر رہا ہوں۔ مگر امی اس پر رضامند نہیں تھیں۔ وہ کہہ رہی تھیں۔ تم خود غنڈے ہو تو بیٹی کی شادی بھی غنڈے سے کرنا چاہ رہے ہو۔ میں ایسا ہر گز نہ ہونے دوں گی۔ میں اپنی معصوم بچی کی زندگی برباد نہیں کر سکتی۔ فیکے کی بدولت میں نے یہ سب دولت کمائی ہے۔ وہ میرا وفادار اور خیر خواہ ہے۔ میں اس کو ہمیشہ کے لیے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں۔ اس کا بھی میرے سوا کوئی نہیں ، ہم ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی اور گہرے راز داں ہیں۔ اگر کبھی فیکا مجھے چھوڑ کر چلا گیا تو میں برباد ہو جائوں گا، لہذا نہیں چاہتا ہم دور ہوں۔ اس طرح ہمارا بند ھن اور مضبوط ہو جائے گا مگر یہ اسی صورت ممکن ہو گا جب میں اس کو اپنا داماد بنا کر اپنی چار دیواری کے اندر لے آئوں۔ اس میں ہم سب کا فائدہ ہے۔ لیکن وہ عمر میں بہت بڑا ہے جب کہ بانو کم سن ہے۔ آپ اپنی بیٹی پر یہ کیا غضب ڈھانا چاہ رہے ہیں۔ میں کسی صورت اس ادھیڑ عمر مرد سے اپنی چودہ پندرہ برس کی بیٹی نہ بیاہوں گی۔ جب ماں نے شدید مخالفت کی تو ابو نے ان کی خوب پٹائی کی۔ بالآخر ماں کو راضی ہو نا پڑا۔ راضی نہ ہو تیں تو کیا کرتیں۔ ہر شریف عورت اپنے شوہر کے آگے آواز نہیں اٹھا سکتی، لہذا انہوں نے ایک وفادار بیوی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے چپ سادھ لی اور پھر کہا ایک بات میری بھی مان لو۔ جب تک بانو میٹرک نہ کرلے اور اس کا رزلٹ نہ آ جائے ، تب تک اس کی شادی مت کرنا اور ابھی تم فیکے سے کوئی بات نہ کرنا۔ یہ گفتگو سن کر میں چونک گئی اور میرا سکون برباد ہو گیا۔ رات بھر مجھے نیند نہ آئی۔ دوسرے دن میں نے نائلہ کے گھر جانے کا فیصلہ کر لیا تا کہ شاہد کو اس صورت حال سے آگاہ کر دوں ۔ اگلے دن جب میں وہاں پہنچی تو شاہد کی امی بھی گھر پر موجود تھیں۔ اب بات نہ ہو سکتی تھی۔ میں نے بہانہ کیا اور کہا خالہ جان شاہد سے کہئے کہ مجھے محمود آباد اپنی موٹر سائیکل پر چھوڑ آئے۔ آنٹی نے اجازت دے دی اور بیٹے کو کہا کہ اس کو چھوڑ آئو۔ مجھ کو شاہد سے بات کرنے کا موقع مل گیا۔ میں نے اس کو بتایا کہ ابو میری شادی فیکے سے کر رہے ہیں جو ابو کا ساتھی ہے اور نگراں بھی ہے۔ مگر میں اس سے شادی کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ مجھے اس کی بڑی بڑی مونچھیں اور خوفناک آنکھیں دیکھ کر خوف آتا ہے۔ میں صرف تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ لہذا تم کچھ کرو۔ وہ بولا۔ میں ایسا کیا کر سکتا ہوں کہ تمہارے والد میری شادی تمہارے ساتھ کر دیں۔ میں دولت کا انبار یا منشیات کے ٹرک لاد کر تو نہیں لا سکتا۔ ہاں میں ایک ہفتے کے بعد اپنی امی کو تمہارے گھر بھیجوں گا۔ وہ عزت سے رشتہ مانگیں گی لیکن مجھے امید ہے کہ انکار ہو گا۔ بہر حال پھر دیکھیں گے۔ یہ کہہ کر اس نے مجھے گھر سے کچھ دور اتار دیا۔ ہفتہ بعد ہمارا رزلٹ آگیا لیکن شاہد کے گھر سے کوئی نہ آیا۔ میں میٹرک میں فیل ہو گئی تھی۔ اس بات سے ڈرتی تھی کہ کسی بھی دن میری شادی مقرر کر دی جائے گی۔ ابو کے ڈر کی وجہ سے میں کوئی بات نہیں کر رہی تھی کہ وہ کہیں شاہد کومروا نہ دیں۔ ایک روز شاہد ہمارے گھر آیا۔ میں نے امی سے کہا کہ نائلہ کی طبیعت بہت خراب ہے ، اس کا بھائی آیا ہے ، اگر آپ اجازت دیں تو میں اس کے ساتھ ان کے گھر چلی جائوں۔ امی نے اجازت دے دی تو ہم دونوں باغ میں چلے گئے۔ وہاں ہم ایک سبزہ زار میں بیٹھ گئے۔ شاہد مجھ سے کہنے لگا کہ میری امی میری شادی کسی اور جگہ کرنا چاہتی ہیں مگر میں شادی کروں گا تم سے ۔ میں نے کہا۔ شاہد ہم دونوں باہم رضامندی سے شادی کہیں باہر جا کر کر لیتے ہیں اور کسی اچھے شہر میں جاکر رہنے لگیں گے ۔ کچھ سوچنے کے بعد وہ گویا ہوا۔ ہاں تم کو فیکے سے بچانے کا بس یہی ایک راستہ ہے۔ تم کل ٹھیک چار بجے باغ آجانا۔ پھر ہم دونوں شادی کر لیں گے۔ اس کے بعد میرے گھر والے خود بخود راضی ہو جائیں گے کیونکہ امی ابو مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ وہ مجھے تنہا نہ چھوڑیں گے۔ اگلے روز امی سے پھر یہی کہا کہ نائلہ کی طبیعت پوچھنے جانا ہے اور یوں گھر سے نکل کر سڑک پر آگئی جہاں کچھ فاصلے پر شاہد میر انتظار کر رہا تھا۔ اس بار وہ مجھے شہر کے ایک مشہور ہوٹل میں لے آیا جہاں جانے کی ہم کو آرزو ہوا کرتی تھی۔آج کی رات ہمیں اسی ہوٹل میں گزارنی تھی۔ میں نے اس کو کہا کہ ہم پہلے شادی کر لیں۔ لیکن وہ کہنے لگا کہ شادی ایک دو روز بعد کریں گے کیونکہ میرے دوست لاہور گئے ہوئے ہیں، ان کو آجانے دو، وہ کل آجائیں گے۔ میں نے ان کو فون کر دیا۔ یہاں والے دوست اس معاملے میں میر اساتھ نہ دیں گے۔ یہ رات میری بربادی کی رات تھی۔ دوسرے دن اس کے دوست بھی آگئے۔ شاہد نے کہا کہ ہم رات کو شادی کر لیں گے۔ اس نے میر ا تعارف اپنے دوستوں سے کرایا۔ رات کے تقریباً دس بج چکے تھے۔ یہ آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ ایک دوست نے کہا یہاں سے چلنا چاہیے۔ وحید کے ڈیرے پر اس نے قاضی اور نکاح کا انتظام کیا ہے۔ یہ مجھے لے کر ہوٹل سے نیچے آئے اور گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اسی وقت ایک پولیس کی گاڑی جو گشت پر تھی، قریب آکر رکی۔ شاہد خوفزدہ ہو گیا۔ اس کے دوستوں نے کہا تم واپس اوپر ہوٹل جائو تا کہ پولیس تم کو گرفتار نہ کر سکے اور ہم بانو کو لے کر جارہے ہیں، بعد میں جب پولیس والے چلے جائیں تم بھی وحید کے ڈیرے پر آجانا۔ شاہد ہوٹل چلا گیا اور یہ لوگ مجھے گاڑی میں بٹھا کر ساتھ لے آئے۔ یہ مجھ کو اپنے کسی ٹھکانے پر لے آئے تھے جس کا شاہد کو علم نہ تھا اور یوں مجھ کو اس رات موقع پا کر بھڑیوں نے گھیر لیا۔ میں نے ان سے کہا کہ اپنے دوست کی دوستی کا تو کچھ خیال کرو، میں اس کی امانت ہوں، اس نے مجھ سے شادی کرنی ہے۔ شادی کی بات پر وہ قہقہے مار نے لگے کہ کیسی شادی ؟ کیا تم شادی کے قابل ہو ؟ ان انسان نما درندوں نے مجھے سونے سے مٹی بنادیا۔ صبح ہونے سے کچھ قبل وہ مجھے میرے گھر کے پاس چھوڑ کر چلے گئے۔ سب سے پہلے جس نے مجھے دیکھا، وہ فیکا تھا۔ وہ میرے پاس آیا اور پوچھا کہ تمہارا یہ حال کس نے کیا ہے۔ میں نے بتایا کہ جن درندوں نے میرا ایسا حال کیا ہے، میں ان کو نہیں جانتی۔ میں اپنی سہیلی کے گھر اس کی خیریت دریافت کرنے جارہی تھی کہ یہ غنڈے راستے میں مل گئے۔ انہوں نے مجھے زبردستی اٹھا کر گاڑی میں ڈال دیا اور بے ہوشی کی دوا سنگھا دی۔ پھر مجھے نہیں پتا کیا ہوا… صبح منہ اندھیرے وہ مجھے پھینک کر چلے گئے ہیں۔ فیکا مجھے اٹھا کر بیٹھک میں لے آیا۔ دو روز سے والد صاحب کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ اس نے امی کو بلوا کر مجھے ان کے حوالے کیا۔ میری زندگی اور میرے خواب اتنی جلد تباہ ہو جائیں گے ، یہ میں سوچ بھی نہ سکتی تھی۔ شاید ماں باپ کی نافرمانی کرنے والوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اب خوف والد صاحب کا تھا کہ جب فیکا ان کو تمام احوال بتائے گا تو وہ مجھے قتل کر ڈالیں گے ۔ ماں دو دن سے میری گمشدگی کا راز دل میں دبائے مجھ کو چپکے چپکے تلاش کر رہی تھی۔ نفل پڑھ رہی تھی کہ خدا کرے میں اپنے باپ کے آجانے سے پہلے مل جائوں۔ میں ان کو ملی تو مگر صحیح سلامت نہیں۔ امی نے فیکے کے آگے ہاتھ جوڑے کہ تم اس راز کو میرے شوہر کو مت بتانا ورنہ جانے وہ میری بچی سے کیا برتائو کریں فیکے نے یہ درخواست منظور کرلی۔ میں میٹرک پاس نہ کر سکی۔ والد صاحب نے فیکے سے مجھے بیاہنے کا عندیہ دے دیا فیکے نے میرے والد کی درخواست کو نہیں ٹھکرایا۔ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ میں شادی سے قبل برباد ہو چکی ہوں۔ میری شادی فیکے سے ہو گئی۔ جس روز میں دلہن بنی، مجھ کو شاہد کی یاد نے اس قدر رلایا کہ میری ہچکی بندھ گئی۔ ایسی دل کی حالت تھی کہ کسی سے کچھ کہہ سکتی تھی اور نہ اظہار کر سکتی تھی۔ جس روز میں غائب ہوئی تھی، ایک رات شاہد بھی گھر سے غائب رہا تھا۔ وہ اگلی رات گھر آگیا جب کہ اس کے دوست مجھے اغوا کر کے لے گئے۔ اس کی حالت سے ماں نے اندازہ کر لیا کہ اصل معاملہ کیا ہے مگر اس کے والدین نے اس بات کو دبانے کی خاطر شاہد کو گھر سے نہ نکلنے دیا۔ نائلہ اور آنٹی میری شادی میں بھی نہ آئیں۔ فیکے سے شادی کے وقت میں نے سوچا تھا کہ اس سے بہتر ہوتا کہ ماں باپ گھر میں داخل ہوتے ہی اس روز مجھے قتل کر دیتے جس دن میری زندہ لاش وہ غنڈے بیٹھک کے پاس پھینک کر چلے گئے تھے فیکے نے مجھے پھولوں کی طرح رکھا اور کبھی کوئی تکلیف نہ ہونے دی۔ وہ کہتا تھا تمہارا کوئی قصور نہیں۔ اے کاش تم کو اغوا کرنے والوں کو میں تلاش کر سکتا تو ان کو گولیوں سے بھون ڈالتا۔ اے کاش تم ان کے نام جانتیں یا ان کو پہچان سکتیں۔ میں آج دو بچوں کی ماں ہوں۔ ابو کا انتقال ہو چکا ہے اور فیکے نے ان کا سارا کاروبار سنبھالا ہوا ہے۔ میں آج بھی اس کو نا پسند کرتی ہوں لیکن جب اس کی نیکی یاد آتی ہے تو احترام کرتی ہوں کہ وہ میرے دو بچوں کا باپ بھی ہے

Latest Posts

Related POSTS