Sunday, October 6, 2024

Fursat Nahi milti | Teen Auratien Teen Kahaniyan

میری شادی اپنے خالہ زاد سے ہوئی تھی۔ ان کی کافی زرعی زمین تھی۔ تعلیم یافتہ بھی تھے مگر ملازمت کواچھا نہ جانتے تھے۔ زمین کی پیداوار کو عزت جانتے تھے۔ جب تک خالو زندہ رہے۔ زندگی پرسکون گزری ہمیں کسی بات کی فکر نہ تھی۔ زمینوں کی دیکھ بھال وہ خود ہی کرتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد زمین میرے شوہر کی ملکیت میں آگئی۔ لیکن انہیں زمینداری کا کوئی تجربہ نہ تھا۔
ہم نہیں جانتے تھے کہ نانا نے دو شادیاں کی تھیں اور دوسری بیوی سے بھی ان کے دوبیٹے، ایک بیٹی تھے۔ یہ شادی انہوں نے خفیہ رکھی تھی۔ منیر ان کی دوسری بیوی کے بطن سے تھے ۔ گویا وہ میری سوتیلی خالہ کے بیٹے تھے۔
نانا کی وراثت میں ان کی دوسری بیوی کی اولاد کو حصہ نہ ملا، دوسری بیوی ظاہر ہوئی اور نہ اپنے بچوں کو ظاہر کیا۔ امی، خالہ اور ماموں ان لوگوں کی موجودگی سے لاعلم ہی رہے۔
ایک دن اتفاق سے میرے شوہر کی منیر سے کہیں ملاقات ہوگئی۔ باتوں باتوں میں اس نے بتایا کہ ان کے والد کی پہلی بیوی اور ان کے بچے ہیں لیکن نہیں معلوم کہاں ہیں۔ اپنے والد کا نام اور کچھ تفصیل بھی بتائی تو میرے شوہر نے کہا یہ میرے نانا کا نام ہے اور ان کے والد کا نام بھی یہی ہے جوآپ بتا رہے ہیں۔ کہیں میرے نانا تو آپ کے والد نہیں ہیں… اس حساب سے آپ میرے ہی نہیں میری بیوی کے بھی خالہ زاد ہوتے ہیں اور آپ کی والدہ ہم دونوں کی خالہ لگتی ہیں۔
یہ اندازہ درست ثابت ہوا۔ منیر واقعی ہماری سوتیلی خالہ کے بیٹے تھے جو وفات پاچکی تھیں۔ ہمیں، منیر اور ان کے بھائی سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ بھائی سمیر نے بعد میں ہم سے کچھ علاقہ نہ رکھا لیکن منیر اور طرح کے آدمی تھے۔ وہ اپنوں کی تلاش میں تھے اور اپنوں کی محبت کے پیاسے تھے۔
میری ساس نے سوتیلا سمجھ کر ان کو اوپری دل سے قبول کیا لیکن ہم دنوں میاں بیوی منیر سے مل کر واقعی خوش تھے تبھی وہ وقتاً فوقتاً ہمارے گھر آنے لگے۔ وہ جب آتے میرے بچوں کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور لاتے۔ بچے ان کا انتظار کرتے تھے۔ جب آتے تو وہ دوڑ کر جاتے اور ان سے لپٹ جاتے۔ منیر کی فطرت تھی کہ بچوں سے پیار کرتے تھے۔
ان دنوں میرے شوہر کچھ پریشان تھے۔ ان کا جھگڑا اپنے پڑوسی زمیندار سے ہوگیا جس نے ہماری کچھ زمین پر قبضہ کرکے اپنی فصل کاشت کرلی۔ دراصل اس کا اثرورسوخ کافی خاصا تھا۔ اس بات کا اسے زعم تھا اور کسی کو خاطر میں نہ لاتا تھا۔ کلیم کو کسی نے مشورہ دیا کہ ملک وڈا… سیدھے طریقے سے ماننے والا نہیں، اراضی تمہارے نام پر ہے۔ تم اس پر مقدمہ کردو۔ انہوں نے پنچایت میں فیصلہ لے جانے کی بجائے مقدمہ کردیا۔
مقدمہ طول پکڑتا گیا اور بات بڑھتی گئی۔ جب انسان کسی بات کو انا کا مسئلہ بنالیتا ہے تو فیصلہ مشکل ہوجاتا ہے اور انا کی خاطر آدمی نفع نقصان کی بھی پروا نہیں کرتا۔ یہی حال کلیم اور عمر کا تھا۔ کلیم کے پاس نقد سرمایہ موجود نہ تھا وہ زمین بیچ کر فریق مخالف کو نیچا دکھانے کی خاطر مقدمہ بازی میں ملوث رہے، یہاں تک کہ ہم کوڑی کوڑی کو محتاج ہوگئے۔
ان دنوں مجھ سے اپنے شوہر کی پریشانی دیکھی نہ جاتی تھی۔ منیر آئے تو میں نے کلیم کی پریشانی کا ان سے تذکرہ کیا ۔ برے وقت میں کون کسی کا ساتھ دیتا ہے لیکن اس نے رشتے کی لاج نباہی اور کلیم کو قرض کی پیش کش کردی۔ نہایت مجبوری کے عالم میں انہوں نے منیر کی اس پیش کش کو قبول کرلیا۔
ہم منیر کے بہت مشکور تھے لیکن انسانی ضروریات زندگی بھلا کب کم ہوتی ہیں۔ کلیم کا ہاتھ کھلا تھا اور ہمارے زمیندارانہ اخراجات تھے۔ وہ بھی مجبور تھے۔ گاڑی ڈرائیور ، نوکر، ملازمہ ہمیں ہر سہولت کی صدیوں سے عادت تھی۔ میں تو غربت کا عذاب جھیل ہی نہ سکتی تھی یقیناً پاگل ہوجاتی اگر منیر ہمارا ساتھ نہ دیتے۔
جب برا وقت آتا ہے تو سب سے پہلے رشتے دار ہی بیگانے بن جاتے ہیں اور یہی نہیں وہ آپ کو نظروں سے بھی گرادیتے ہیں لیکن منیر نے ایسا نہ کیا۔ وہ روزآتے اور مجھے اور شوہر کو تسلی دیتے۔ انہوں نے ہر طرح سے ہمیں سہارا دیا یہاں تک کہ کلیم کو سادہ چیک دستخط کرکے دے جاتے کہ جتنی رقم کی ضرورت ہو نکلوالینا۔
منیر صرف میرا ہی خالہ زاد نہ تھا کلیم کا بھی اس کے ساتھ یہی رشتہ تھا۔ ہم اس کی شرافت سے متاثر تھے کہ کیسا فرشتہ صفت انسان ہے مگر میرے سسر کے بھائی ، بہن وغیرہ باتیں بنانے لگے کہ اس شخص کو جانے کیا لالچ ہے جو اس طرح ان پر اپنی رقم لٹا رہا ہے، روز گھر آجاتا ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ ہماری زمین کا فیصلہ نہیں ہوگیا۔ فیصلہ ہمارے حق میں ہوا تھا لیکن … اب میرے شوہر زمینداری سے بددل ہوگئے تھے۔ انہوں نے سوچا اس کو بیچ دینا چاہیے۔ آدھی سے زیادہ تو فروخت کرہی چکے تھے۔ رہی سہی بھی بیچ کر شہر منتقل ہوگئے اور اپنے ایک شہری دوست کے مشورے سے کاروبار کرنے کی ٹھان لی۔
بھلا زمینداری کرنے والا بزنس کیا جانے؟ انہوں نے کلی طور پر دوست پر تکیہ کرلیا اور اس کے مشورے سے کاروباری دنیا میں قدم رکھ دیا، یوں جلد ہی ایک بڑے بزنس مین سے مراسم ہوگئے تو اس نے کلیم کو اپنا پارٹنر بنا لیا۔ کام کی زیادتی کی وجہ سے دیر تک گھر سے باہر رہنے لگے۔ میں خوش تھی کہ وہ کام کرنے لگے تھے، کچھ عرصہ بعد امید تھی کہ ہم پہلے سے زیادہ خوشحال ہوجائیں گے اور کسی کے دست نگر نہ رہیں گے۔
جب کبھی پارٹنر کے گھر پارٹی ہوتی ان کے کاروباری شرکا اپنی فیملی کے ساتھ شریک ہوتے، لیکن میں نہ جاتی … ایک روز کلیم نے سمجھایا کہ ایسی پارٹیوں میں بیوی کو شوہر کے ہمراہ ہونا چاہیے، تم بھی آئندہ پارٹی میں ضرور چلنا۔ وہاں کا حال دیکھ کر تو ششدر رہ گئی۔ وہاں لوگ ناپسندیدہ مشروب نوش فرما رہے تھے، لیکن میرے شوہر نے جام کو ہاتھ نہ لگایا۔ تاہم مجھے اس اس قسم کی پارٹی میں شامل ہونا عجیب سا لگا۔
یہ میرے لئے ایک نئی دنیا تھی۔ اس دعوت میں بڑے بڑے لوگ مدعو تھے۔ اور میں سوچ رہی تھی کہ لوگوں کے پاس اس قدر دولت کہاں سے آجاتی ہے جو یوں بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔ گھر آکر میں نے اپنے کزن منیر کو بتایا کہ اس دعوت میں میاں بیوی دونوں جام نوش کررہے تھے۔ کلیم الگ تھلگ بیٹھے تھے۔ ان سے کہنا کہ مجھے دوبارہ اس قسم کی دعوت میں نہ لے جائیں۔
منیر نے کلیم کو سمجھایا میرے شوہر نیک کردار تھے۔ انہیں منیر کی بات سمجھ میں آگئی۔ دوبارہ مجھے ساتھ چلنے پر مجبور نہ کیا لیکن خود لازماً جاتے کہ کاروبار کا معاملہ تھا۔ رفتہ رفتہ وہ دیر سے گھر آنے لگے اور ان لوگوں کے رنگ میں رنگتے گئے۔ کہتے تھے کیا کروں مجبوری ہے۔ کاروبار میں سارا پیسہ پھنسا لیا ہے تو کامیابی کے لئے ان جیسا بننا پڑے گا۔
یہ حقیقت تھی کہ عذرِلنگ تھا۔ بہرحال انہیں راتوں کو گھر سے غائب رہنے کی عادت پڑ گئی۔ ان کے رویے میں بھی تبدیلی آتی جارہی تھی۔ صبح اٹھتے تو چڑچڑے ہوتے۔ جھلا کر بات کرتے۔ خمار ٹوٹ رہا ہوتا تو بدمزاج بن جاتے۔ بچے ان کے اس رویے کے عادی نہ تھے۔ وہ ان سے دور رہنے لگے۔ منیر ان کا حال دیکھ کر پریشان تھے۔ خود حالات کے ستائے ہوئے آدمی تھے۔ والدین کی وفات ہوچکی تھی، بھائی ان سے علیحدہ زندگی گزار رہا تھا۔ شادی بھی نہ ہوسکی تھی۔ ایسے حالات میں تنہا زندگی گزارنا ایک عذاب ہوتا ہے۔ اس عذاب سے گھبرا کر انہوں نے اپنوں کو تلاش کیا تھا۔ ہم مل گئے تو ہم سے اور خاص طور پر میرے بچوں سے دل لگا لیا تھا۔
اچانک ہی میری زندگی میں طوفان آگیا۔ کلیم اپنے بزنس پارٹنر کی بھتیجی سے دوسری شادی کر بیٹھے۔ اس لڑکی کے والدین وفات پاچکے تھے۔ پارٹنر نے اپنی بھتیجی کو بنگلہ جہیز میں دیا اور کلیم نئی بیوی کے ساتھ وہاں شفٹ ہوگئے۔ اب وہ ہفتہ میں دو بار ہم سے ملنے آتے تھے۔ بچے ہر دم اپنے باپ کی کمی کو محسوس کرتے۔ ایسے میں منیر کے سوا کون تھا جو میرے بچوں کا خیال کرتا۔ کلیم اپنے بیٹے کی سالگرہ کے دن بھی نہ آئے تو منیر نے بیٹے کی سالگرہ کا سارا انتظام کیا۔ وہی بچوں کو گھمانے پھرانے بھی لے جانے لگے۔
خالہ یعنی میری ساس ان حالات کو دیکھ کر کڑھنے لگیں۔ وہ مجھے مورد الزام ٹھہراتیں کہ تمہاری وجہ سے میرا بیٹا گاؤں چھوڑ کر شہر آیا تھا، اب حال دیکھ لو۔ یہی نہیں ان کو منیر کے آنے پر بھی اعتراض ہونے لگا کہ ان کے سسرال والے باتیں بنا رہے تھے۔ ایک روز اسی بات پر لڑ جھگڑ کر وہ اپنی بیٹی کے گھر چلی گئیں۔
میں پریشانی میں بیٹھی رو رہی تھی کہ منیر آگئے۔ میں نے کہا۔
کلیم نے اتنا بڑا بنگلہ کرائے پر لے لیا ہے۔ مجھے اس میں اکیلے رہنے سے خوف آتا ہے۔ وہ رات کو گھر ہوتے نہیں۔ مجھے کوئی چھوٹا مکان ڈھونڈنا ہے جو محفوظ ہو، فلیٹ میں اکیلے رہا جاسکتا ہے لیکن اتنے بڑے بنگلے میں اس سنسان جگہ اکیلے رہنا ممکن نہیں ہے۔
میرا فلیٹ خالی پڑا ہے۔ میں تو دوست کے ساتھ رہتا ہوں۔ تم چاہو تواس میں رہ سکتی ہو۔
کلیم نے مجھے خرچہ دینے میں لاپروائی برتنی شروع کی تو بنگلے کا کرایہ بھی وقت پر ادا نہ ہو پاتا تھا تبھی میں نے کہا۔ تم کلیم سے بات کرو اگر وہ رضامند ہوجائیں تو میں تمہارے فلیٹ میں شفٹ ہوجاؤں گی۔
کلیم نے دفتر جاکر منیر سے بات کی، وہ بولے اس کی مرضی جہاں چاہے رہے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ شوہر کی رضا ملتے ہی میں نے سامان سمیٹا اور منیر کے فلیٹ میں منتقل ہوگئی۔ جب ساس کو پتا چلا کہ میں منیر کے فلیٹ میں چلی گئی ہوں تو وہ بہت برہم ہوئیں۔ کہ تم نے ہمیںکسی کو منہ دکھانے لائق نہیں چھوڑا۔ اللہ جانے یہ منیر کہاں سے ہمارے پیچھے لگ گیا ہے۔ کیا پتا نانا کا نواسہ ہے بھی کہ نہیں، اس کی ماں ہماری بہن تھی اس کا کیا ثبوت ہے؟ ہم نے تو اس کو کبھی دیکھا اور نہ اس سے ملے۔ اب میرے شوہر کے رشتے دار سوطرح کی باتیں بنا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تمہاری بہو منیر کے ساتھ مراسم رکھتی ہے۔ اسی وجہ سے شوہر اور بچوں کو شہر لے گئی ہے۔ اب تم واپس گاؤں چلو یا پھر منیر کے فلیٹ میں نہ رہو اور یہ بھی تم سے ملنے نہ آیا کرے۔ میں نے کہا کہ اس کے فلیٹ میں کلیم کی اجازت سے شفٹ ہوئے ہیں اور منیر بچوں کے باعث آتا ہے، آپ کہتی ہیں تو میں اس کو گھر آنے سے منع کردیتی ہوں لیکن اب شہر سے گاؤں نہ جاؤں گی۔ کلیم کا بزنس ، آفس اور گھر سب شہر میں ہیں۔ میرے بچے بھی یہاں کے اسکول جاتے ہیں۔ میں وہاں جاکر کیا کروں گی۔
کلیم مارے باندھے بچوں کی خاطر کبھی گھر کا چکر لگا لیتے تھے۔ جانتی تھی اگر گاؤں چلی گئی وہ وہاں مہینوں نہیں آئیں گے۔ میں بالکل ان کی زندگی سے کٹ جاؤں گی۔ سسرال میں بھی مجھے اور بچوں کو دیکھنے والا کون تھا۔ میں اپنی جگہ ٹھیک تھی مگر بقول میری سگی خالہ (ساس) ان کے سسرالی رشتے داروں نے طعنے دے دے کر ان کا جینا حرام کردیاتھا۔
لوگ حیرت زدہ تھے کہ منیر بغیر کسی طمع کے ہمارا اتنا خیال کیوں رکھتا ہے اور میں حیران تھی کہ منیر نے کبھی مجھ سے ایسی ویسی بات کی اور نہ کبھی بری نظر سے دیکھا تو ان سب کو کیا پریشانی لاحق ہوگئی ہے۔ ساس کی باتیں سن کر مجھے سچ مچ خوف آنے لگا تھا۔ یہ معاملہ سسرال والوں نے میرے شوہر کے کان میں ڈالا پھر اتنے کان بھرے کہ انہوں نے بدگمان ہوکر مجھے طلاق دے دی۔
میں کلیم کی بے وفائی سے ٹوٹ کررہ گئی۔ بے دست و پا ہوگئی۔ کہیں کی نہ رہی، اندھیروں میں ڈوب کررہ گئی۔ جانتی نہ تھی کہ میری ضد اتنا بڑا طوفان لائے گی۔ اب رات دن رونے سے کام تھا۔ ایک دن رورہی تھی کہ دستک ہوئی، منیر آیا تھا۔ اس نے کہا مجھے علم ہوا ہے کہ کلیم نے تمہیں طلاق دے دی ہے۔ اس لئے نہ آیا کہ تم میرے مکان میں ہو اور عدت میں تھیں۔ تمہارا اب کیا ارادہ ہے۔
میں نے کہا۔ لوگ کیا کہہ رہے ہیں، سنا ہے تم نے ،پھر بھی آگئے۔ اب تو تمہیں بالکل نہ آنا چاہیے۔ اس نے کہا۔ میرا دل گواہی دے رہا تھا کہ تم آج بہت پریشان ہو۔ میں آنا نہ چاہتا تھا مگر آگیا۔ میں تمہارا ہی نہیں کلیم کا بھی رشتے دار ہوں۔ پہلے اس کے کزن اور اب تمہارے کزن کی حیثیت سے آیا ہوں۔ اگر تمہارا یہی فیصلہ ہے کہ نہ آؤں تو بے شک آئندہ نہ آؤں گا۔ لیکن تمہیں کبھی ضرورت ہوتو مجھے اپنی ضرورت سے ضرور فون پر آگاہ کردینا۔ ایک ماہ وہ نہ آیا۔ کلیم نے بھی بچوں کی خبر نہ لی۔ وہ اسکول نہ جاسکے کیونکہ ڈرائیور بھی ملازمت چھوڑ گیا۔ میں اسے تنخواہ نہ دے سکی تھی۔ ایک روز منیر نے خود فون کیا۔
کیا فیصلہ کیا ہے تم نے … آگے زندگی کیونکرگزارو گی۔ ملازمت کرلوں گی۔ تم ملازمت پر جاؤ گی تو بچوں کو کون دیکھے گا، بہتر ہے گاؤں چلی جاؤ۔
اب وہاں جاکر کیا کروں گی۔ سگی خالہ سابقہ ساس بن چکی ہیں۔ کس کے پاس جاؤں۔ وہ بچے لینے آئے تھے میں نے ان کو نہ دیئے اور یہ بھی نہیں گئے ان کے ساتھ… ان کے بچے ان کے حوالے کردو۔ اور تم مجھ سے شادی کرلو۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا منیر۔ پہلے لوگوں نے کیا کم باتیں بنائی ہیں حالانکہ ہم بہن بھائی بن کر رہے ہیں۔ اب سب یہی کہیں گے جس کی خاطر شوہر نے طلاق دی اسی سے شادی کرلی۔ سچ تھا کہ اس کے تعلقات تھے منیر سے… یہ الزام میں خود پر ثابت نہیں کروانا چاہتی۔
لوگ کسی بے غرض اور نیک نیت انسان کو کہاں برداشت کرتے ہیں۔ لوگوں کی پروا مت کرو۔ ہاں تم نہیں چاہتیں تو مجھے گلہ نہیں مگر تم کو نوکری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ خرچہ مجھ سے لے لینا۔ بے شک رفیق حیات نہ بناؤ مگر مجھے تم جیسی شریک حیات کی ضرورت تھی۔ جس کو ملی اس نے قدر نہ کی۔
تمہارا یہی فیصلہ ہے تو میں بیرون ملک چلا جاتا ہوں۔ ایک استدعا ہے کہ یہ فلیٹ تمہارے نام کرکے جانا چاہتا ہوں۔ اگر تم یہ بات مان لو تو ایک چھت، ایک ٹھکانہ تمہارے پاس رہے گا اور عمر بھر تمہارے کام آئے گا۔
کچھ دن سوچنے کے بعد میں نے یہ بات مان لی۔ اور منیر نے اپنا فلیٹ میرے نام کروا کر رجسٹری مجھے لادی۔ وہ بیرون ملک چلا گیا۔ اس کے بعد میں نے زندگی بھر کا کشٹ تنہا کاٹ کر اپنے بچوں کو جوان کیا۔ ان کو پڑھایا، ان کی شادیاں کیں اور اپنے تمام فرائض سے سبک دوش ہوگئی تو سوچا کہ اب سکھ کا سانس لے پاؤں گی۔
بڑھاپے میں بچے خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجائیں گے تو میری قدر کریں گے۔ میرے دکھ کا احساس کریں گے۔ مجھے عمررسیدگی میں آرام دیں گے۔ میری محنت، سمجھوں گی کہ ٹھکانے لگ گئی ہے۔
ایسا نہ ہوسکا۔ وقت نے ثابت کردیا کہ میرا فیصلہ درست تھا اور نہیں بھی کیونکہ بچے اپنی اپنی منزلوں تک پہنچ گئے لیکن میں نے اپنی منزل کھو دی۔ اصل منزل میرے بچوں کا باپ کلیم تھا۔ اس نے اپنی نئی جنت بسالی تو یہ منزل کھوٹی ہوگئی اور میری کشتی کھینے والا نہ رہا جو مجھ سے مخلص تھا۔ میری نیّا کو منجدھار سے نکالنا چاہتا تھا۔ میں نے اس کو ٹھکرا دیا۔ آج نہ منزل رہی اور نہ ساحل رہا۔ بچوں کو اپنی مصروفیات، اپنے بال بچوں اور گھربار سے فرصت نہیں کہ میری خبر لیں۔
میں آج بھی اسی فلیٹ میں رہتی ہوں جو منیر مجھے دے گیا تھا۔ اسی کی دی چھت نے پناہ دی ہے۔ میرے بچوں کے گھر میں ایک بوڑھی ماں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ان کے پاس وقت بھی نہیں ہے کہ آکر میری خیرخبر لے لیں۔ بیٹوں نے ایک ملازمہ دی ہوئی ہے جو میرے پاس رہتی ہے میری خدمت کے لئے، لیکن اولاد یہ نہیں سمجھتی کہ بڑھاپے میں ماں باپ کو صرف دیکھ بھال کی ہی نہیں اولاد کی محبت اور رفاقت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
بے شک میرے بیٹے میرے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ میرا پیٹ تو بھر جاتا ہے لیکن روح بھوکی پیاسی رہتی ہے۔ ان کی محبت کی بھوک اور دیدار کی پیاس مجھے بے آرام رکھتی ہے۔ بیٹی بھی کبھی کبھار فون کرتی ہے سال چھ ماہ بعد چکر بھی لگالیتی ہے اور سمجھتی ہے فرض ادا ہوگیا۔
کاش کوئی اولاد کو یہ سمجھا دے کہ جیسے اپنے بچے تم کو پیارے ہیں ویسے ہی مجھے بھی تم لوگ پیارے ہو…تم کیوں یہ بات بھول گئے ۔ کوئی ان کو کہے زندگی میں اتنے کام ہیں فرصت کبھی نہیں ملتی مگر ماں باپ ایسی ہستیوں کے لئے فرصت نکالنی پڑتی ہے۔
( س۔ق… کراچی)

Latest Posts

Related POSTS