ساجدہ بیگم اپنے چھوٹے سے گھر کے کچے آنگن میں بوسیدہ کرسی پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ آنکھیں آسمان پر چھائے بادلوں پر جمی تھیں۔ ان کے دل میں اندیشے جنم لے رہے تھے اگر بارش ہوگئی تو ان کے ایک کمرے کے گھر میں بیٹھنے کو بھی جگہ نہیں ملے گی۔ تب ہی دروازہ کھلنے کی آواز سن کر انہوں نے اپنی نگاہوں کا رخ موڑا۔ سامنے ان کا بیٹا معین کھڑا تھا۔ معین کی عمر چودہ برس ہوچکی تھی۔ ابھی وہ چھٹی کلاس میں پہنچا تھا۔ بیگ کو تخت پر پٹختے ہوئے وہ ساجدہ بیگم سے مخاطب ہوا۔ ’’اماں! مجھے موٹر سائیکل چاہیے۔ فرقان کے ابا نے اسے تیس ہزار میں پرانی موٹر سائیکل خرید کر دی ہے۔ تم بھی کسی سے ادھار لے کر مجھے موٹر سائیکل دلا دو۔‘‘
معین کی بات سن کر ساجدہ نے اسے یوں گھورا جیسے اس کی ذہنی حالت پر شبہ ہو۔ پھر بولیں۔ ’’دماغ تو ٹھیک ہے تیرا۔ سلام نہ دعا، اسکول سے آتے ہی فرمائش شروع کردی ہے۔ جیسے تیرا باپ لاکھوں روپیہ چھوڑ کر مرا ہے۔‘‘
’’مجھے پتا ہے ابا ایک دھیلا چھوڑ کر نہیں گیا۔ میں تم سے یہ کہہ رہا ہوں کہ کسی سے ادھار لے کر میری خواہش پوری کردو۔ اماں! میرا بڑا دل چاہتا ہے کہ میں موٹر سائیکل پر اڑتا پھروں۔‘‘
’’اونچی اڑان کا اتنا ہی شوق ہے تو پڑھائی میں بھی دل لگا لیا کر۔ تیرے ماسٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ تو چھٹی کلاس میں پاس نہیں ہوسکتا۔ اسکول سے آتے ہی جاوی اور رحیمے کے پاس بیٹھ جاتا ہے۔ وہ دونوں لفنگے لڑکے ہیں۔ عمر میں بھی تجھ سے بڑے ہیں۔ ان کے ساتھ رہ کر تو کسی کام کا نہیں رہے گا میری…‘‘
’’اماں! بس بھی کرو۔ جب دیکھو ایک ہی راگ الاپتی رہتی ہو۔‘‘ وہ پیر پٹختا کمرے میں چلا گیا۔
شام کو وہ نعیم کی دکان پر کھڑا سگریٹ کے کش لگانے میں مصروف تھا کہ اسے نازنین جاتی دکھائی دی۔ نازنین نیلی آنکھوں اور بھورے بالوں والی پرکشش لڑکی تھی۔ پچھلے تین مہینے سے معین اس کے اردگرد منڈلا رہا تھا۔ معین نے اظہارِ عشق کرتے ہوئے اسے خط بھی لکھ ڈالا تھا۔ اب جواب کا منتظر تھا۔
نازنین کے پیچھے چلتے ہوئے ایکدم وہ اس کے سامنے آکر بولا۔ ’’تم نے میرے خط کا جواب نہیں دیا۔‘‘
جواب میں نازنین کے چہرے پر غصے کا تاثر ابھرا۔ ’’اپنی شکل دیکھی ہے کبھی تم نے جو میرے پیچھے پاگل ہورہے ہو۔ ٹھگنا سا قد اوپر سے اتنے کالے ہو کہ رات میں دکھائی بھی نہیں دیتے ہوگے۔ میں تو تمہاری ہمت کی داد دیتی ہوں، یہ جانتے ہوئے کہ میرے ابا پولیس میں ہیں، تم نے مجھے خط لکھ ڈالا۔ شکر کرو میں نے تمہارا خط اپنے ابا کو نہیں دکھایا ورنہ وہ تمہیں سیدھا لاک اَپ میں ڈال دیتے۔ آئندہ ایسی بے وقوفی مت کرنا ورنہ میں ابا سے کہہ کر تمہاری کھال اُدھڑوا دوں گی۔ آج گھر جاکر اپنی شکل آئینے میں دیکھنا، کوئی اندھی لڑکی ہی تمہارے عشق میں مبتلا ہوسکتی ہے۔ مجھے تو تمہاری شکل دیکھ کر الٹی ہونے لگتی ہے۔‘‘ نازنین نے نخوت بھرے لہجے میں اپنی بات مکمل کی اور ادا سے چلتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔
معین اپنی جگہ ساکت رہ گیا تھا۔ نازنین کے ہاتھوں ذلت کا نشانہ بننے کے بعد اس کا دماغ کام نہیں کررہا تھا۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا جو کسی نے اسے بدصورتی کا طعنہ دیا تھا۔ معین کو چھوٹی سی عمر میں ہی محلے کے دوستوں کی بدولت اپنے دبتے ہوئے نقوش اور کالی رنگت کا احساس ہوگیا تھا۔ لڑکے اسے معین کالیا کے نام سے پکارتے تھے۔
آج نازنین کا اس کی بدصورتی کو نشانہ بنانا، اس کی روح کو زخمی کرگیا تھا۔ سڑک پر کھڑا وہ سوچ رہا تھا اگر وہ خوبصورت ہوتا تو شاید نازنین کا رویہ اس کے ساتھ مختلف ہوتا۔
اگلے دن بھی اس کا موڈ سخت خراب رہا۔ اپنے کلاس فیلو ارسل کو معمولی سے مذاق پر اس کے سر پر سلاخ دے ماری تھی۔ بات ہیڈ ماسٹر تک پہنچی، انہوں نے فوراً ساجدہ بیگم کو بلوا کر ساری صورتحال بتانے کے بعد کہا۔ ’’محترمہ! آپ کا بیٹا چھٹی کا امتحان اس اسکول سے نہیں دے سکے گا۔ آپ اسے کسی دوسرے اسکول میں لے جائیں۔‘‘
’’ماسٹر صاحب! آپ معین کو ایک موقع اور دے دیں۔ میں اسے سمجھائوں گی۔‘‘ ساجدہ بیگم گڑگڑائیں۔
’’کیا سمجھائیں گی آپ؟ ارسل کے سر پر آپ کے بیٹے نے لوہے کی سلاخ ماری ہے۔ اس کے ماں، باپ آکر ہم پر چڑھائی کررہے ہیں۔ مجھے آپ کی کوئی بات نہیں سننی۔ میں معین کو ٹی سی دے کر آج ہی فارغ کررہا ہوں۔‘‘ ہیڈ ماسٹر صاحب نے فیصلہ سنایا۔ ساجدہ بیگم، معین کے ساتھ جب ہیڈ ماسٹر کے کمرے سے باہر نکلیں تو ان کے پائوں من بھر کے ہورہے تھے۔ اپنا بیٹا انہیں ہاتھ سے جاتا ہوا نظر آرہا تھا۔
گھر پہنچتے ہی ساجدہ بیگم، معین پر برس پڑیں۔ ’’نحوست مارے، منحوس شکل۔ کیا ضرورت پڑی تھی اس لڑکے کو مارنے کی۔ اسکول سے تو تُو فارغ ہوگیا۔ اب بیٹھے رہنا محلے کے بدمعاش لڑکوں کے ساتھ۔‘‘
’’اماں! میرا پڑھائی میں دل نہیں لگتا ہے۔ تمہارے زبردستی کرنے پر میں اسکول چلا جاتا تھا۔ شکر ہے میری جان چھوٹی۔ اچھا ہے کل سے دیر سے اٹھوں گا۔‘‘
’’بدبخت! بند کر اپنی بکواس… خدا نے تجھے صورت اچھی نہیں دی۔ کم ازکم سیرت ہی اچھی دے دیتا۔‘‘ ساجدہ فکرمند لہجے میں بولیں۔ سارا دن ان کا پریشانی کے عالم میں گزرا۔ رات سونے کے لیے لیٹیں تو معین کے ابا کے متعلق سوچتی رہیں۔ معین کے ابا رفیق کا تعلق چھوٹے سے گائوں سے تھا۔ غربت نے انہیں شہر جانے پر مجبور کیا تھا۔ رفیق کے شہر آنے کے بعد ساجدہ بیگم کی کزن ثریا کے توسط سے ایک بنگلے پر چوکیدار کی حیثیت سے ملازمت مل گئی تھی۔ ساجدہ بیگم کو بھی اس بنگلے پر کھانا پکانے کا کام مل گیا تھا۔ رہائش کے ساتھ ساتھ دونوں میاں، بیوی کو اچھی تنخواہ مل رہی تھی۔ دن بڑے آرام سے گزر رہے تھے۔ معین بمشکل دو سال کا تھا کہ رفیق کی ناگہانی موت واقع ہوگئی۔ بنگلے پر کچھ افراد نے ڈاکے کی نیت سے گھسنے کی کوشش کی تو رفیق کے مزاحمت کرنے پر ڈاکوئوں نے اسے گولی مار دی۔ رفیق کی موت کے بعد بیگم فائق جو بنگلے کی مالکن تھیں، انہوں نے ساجدہ بیگم کو ملازمت سے نہیں نکالا۔ وہ بدستور وہاں کام کرتی رہیں۔ البتہ بیگم فائق نے ساجدہ سے کوارٹر خالی کروا کر نئے چوکیدار کو دے دیا تھا۔ ساجدہ نے کچی آبادی میں ایک کمرے کا چھوٹا سا گھر کرائے پر لے لیا تھا۔ ساجدہ کی گزر اوقات بڑی مشکل سے ہوتی تھی۔ ایک امید نے انہیں سہارا دیا ہوا تھا کہ معین کے بڑے ہونے کے بعد ان کے حالات بہتر ہوجائیں گے مگر اب معین کو بگڑتا دیکھ کر انہیں یوں لگ رہا تھا کہ اسے سدھارنا ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔ سوچتے ہوئے وہ بڑبڑائیں۔ ’’آج اس کا ابا زندہ ہوتا تو اسے مار مار کر سدھار دیتا۔ اس کا گھر سے باہر نکلنا بند کردیتا۔‘‘
سوچتے سوچتے ان کی آنکھ لگ گئی۔ صبح وہ اٹھیں تو انہیں ہلکا ہلکا بخار ہورہا تھا۔ ان کا سر چکرا رہا تھا۔ وہ سر تھامے بیٹھی ہوئی تھیں کہ معین نے پوچھا۔ ’’اماں! تم سر پکڑے کیوں بیٹھی ہو۔ تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘
’’تجھے کیا لینا دینا میری طبیعت سے۔ معین بڑا کم عقل ہے تُو اسکول سے نکال دیا گیا ہے اوپر سے تیری بے فکری کا یہ عالم ہے کہ رات کو دو بجے آوارہ گردی کرنے کے بعد گھر میں گھسا ہے۔ تیری بلا سے تیری ماں مرے یا جئے! تجھے میری کیا پروا ہے۔‘‘ ساجدہ نے اپنے دل کا غبار نکالا۔
’’اماں! تم تو ہر وقت مجھ پر گرم ہوتی رہتی ہو۔ طبیعت خراب ہے تو بنگلے پر جانے کی کیا ضرورت ہے۔ گھر پر آرام کرو۔ بیگم صاحبہ کو فون کرکے کہہ دو کہ آج تم چھٹی کرو گی۔‘‘
’’چھٹی تو میری ویسے ہی ہونے والی ہے۔ بیگم صاحبہ اپنے بیٹے کے پاس جانے والی ہیں۔‘‘ ساجدہ اداسی سے بولیں۔
’’اماں! تم فکر نہ کرو۔ شریف سے میری بات ہوگئی ہے۔ کل سے اس کی پان کی دکان پر بیٹھوں گا۔‘‘ معین نے فخریہ لہجے میں بتایا۔
’’معین! تیرے ابا کی بڑی خواہش…‘‘
معین نے ساجدہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’اماں! ابا کی خواہشیں ان کی موت کے ساتھ ختم ہوگئیں۔ تم یہ بات اچھی طرح جانتی ہو کہ میرا دل پڑھائی میں بالکل نہیں لگتا۔ پھر بھی بضد ہو کہ میں پڑھوں۔ جلدی سے مجھے پراٹھا بنا دو۔ سخت بھوک لگ رہی ہے۔‘‘
’’صبر کر ابھی بناتی ہوں۔ تو میڈیکل اسٹور سے بخار کی گولی لا دے۔ سر درد سے پھٹا جارہا ہے۔‘‘
’’اماں! ابھی لاتا ہوں، پیسے تو دو۔‘‘ معین نے تابعداری سے کہا۔
ساجدہ نے اپنے دوپٹے کے پلو میں بندھے سو روپے اس کے حوالے کیے۔
’’اماں! میں ابھی تمہاری دوا لاتا ہوں۔ تم میرے لیے ناشتہ نہیں بنانا۔ میں باقی پیسوں کا ناشتہ کرلوں گا۔‘‘
’’معین! سن تو…‘‘ ساجدہ کی بات ادھوری رہ گئی۔ معین پیسے لیتے ہی تیزی سے گھر سے نکل گیا۔
٭…٭…٭
معین کو شریف کی دکان پر کام کرتے ہوئے ایک مہینہ ہوا تھا کہ شریف نے کچھ رقم اس کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا۔ ’’یہ لو اپنی تنخواہ کل سے کام پر مت آنا۔ میں نے تمہاری جگہ دوسرے لڑکے کو رکھ لیا ہے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ معین نے سوال کیا۔
شریف اسے گھورتے ہوئے بولا۔ ’’اب تو کس منہ سے یہ سوال کررہا ہے۔ میں نے تجھے نوکری پر رکھتے ہوئے کہا تھا کہ کسی کو ادھار مت دینا اور تو ادھار دینا تو دور کی بات، بڑی فراخدلی سے اپنے یاروں کو فری میں چیزیں بانٹ رہا تھا جیسے یہ تیرے ابا کی دکان ہو۔‘‘
’’شریف بھائی! زبان سنبھال کے، میرے ابا تک پہنچنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
جواب میں شریف نے اسے دو چار گالیاں دے ڈالیں۔ معین گالیاں سنتے ہی آپے سے باہر ہوگیا۔ وہ شریف کو مارنے کے لیے آگے بڑھا۔ شریف کے لیے معین پر قابو پانا کون سا مشکل تھا۔ اس نے معین کو پیٹ ڈالا۔ بڑی مشکل سے لوگوں نے معین کو شریف کی گرفت سے آزاد کرایا۔
وہ دکان سے سیدھا گھر پہنچا۔ ساجدہ نے اس کے بگڑے ہوئے حلیے کو دیکھتے ہوئے اس سے الجھنا فضول جانا۔ ویسے بھی انہیں کام پر جانے کی جلدی تھی۔
اس دن وہ گھر سے نکلیں تو سخت پریشانی کے عالم میں ایک تیز رفتار کار سے ٹکرا گئیں۔ انہیں لوگوں نے اسپتال پہنچایا جہاں کچھ دیر بعد وہ دم توڑ گئیں۔ ساجدہ کے انتقال کی خبر سن کر معین کے چچا صادق اسے اپنے گھر لے گئے۔ وہ اپنی بیوی ناصرہ کے ساتھ آٹھ برس پہلے شہر میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ وہ ایک اچکے اور نشئی شخص تھے۔ ساجدہ نے اپنی زندگی میں ان سے میل جول برائے نام رکھا تھا۔ صادق کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ ان کے گھر آکر معین سارا سارا دن لڑکوں کے ساتھ آوارہ گردی کرتا۔ یہاں اس پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ نہ گھر سے نکلتے ہوئے بتانے کی ضرورت تھی کہ وہ کہاں جارہا ہے۔ آوارہ لڑکوں کے ساتھ اب وہ مجرمانہ سرگرمیوں میں حصہ لینے لگا تھا۔ صادق اور اس کی بیوی ناصرہ کو صرف پیسوں سے غرض تھی۔ معین جو پیسے لا کر انہیں دیتا تھا، اس سے ان کی گزر اوقات بخوبی ہونے لگی تھی۔ اب ناصرہ کو لوگوں کے گھر جاکر کام کرنے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ اپنی چوری کرنے کی عادت کی بدولت وہ آئے دن کام پر سے نکالی جاتی تھی۔
٭…٭…٭
اکرم علی آفس سے گھر میں داخل ہوئے تو پڑھائی میں مشغول زنیرہ نے کتاب بند کرتے ہوئے انہیں سلام کیا اور جلدی سے ابو کے لیے پانی لے آئی۔ ’’ابو! میں کھانا گرم کردوں۔‘‘ زنیرہ نے پوچھا۔
’’تمہاری امی کہاں ہیں؟‘‘ اکرم علی نے پوچھا۔
’’وہ مجو خالہ کے گھر گئی ہیں۔‘‘
’’ایک تو تمہاری ماں ہر وقت کسی نہ کسی کے گھر بیٹھی رہتی ہے۔ کتنی بار سمجھا چکا ہوں کہ تمہیں تنہا چھوڑ کر نہ نکلا کرے مگر وہ میری سنتی ہی نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کمرے میں کپڑے تبدیل کرنے چلے گئے۔ کپڑے تبدیل کرکے نکلے تو زنیرہ ٹیبل پر کھانا لگا چکی تھی۔ جب تک وہ کھانا کھا کر فارغ ہوئے، کلثوم بانو گھر لوٹ آئیں۔ آتے ہی وہ اپنے شوہر کو دن بھر کی روداد سنانے لگیں۔ ’’ہمارے برابر والوں کے گھر میں چند دن ہوئے اے۔ سی لگ گیا ہے۔ ابھی دو مہینے پہلے انہوں نے بڑا فریج خریدا تھا۔ ایک ہم ہی ہیں جن کے گھر میں سالوں سے کوئی نیا سامان نہیں آیا اور یہ آپ کی مہربانیوں کا نتیجہ ہے۔ ساری زندگی کلرکی میں گزار دی۔ میں تو شکر کرتی ہوں کہ اللہ نے ہمیں ایک ہی اولاد دی ورنہ یہ گھر اور دکان بھی ہم نہیں لے پاتے۔ دکان کی بدولت، یہ آسرا تو ہے کہ اس کے کرائے سے ہمارا بڑھاپا کٹ جائے گا۔‘‘
’’اگر تمہاری فضول گفتگو ختم ہوچکی ہو تو میری ایک بات سن لو۔ شاہ میر کے لیے تم نے منگنی کی انگوٹھی خرید لی ہے؟‘‘ اکرم علی نے فکرمند لہجے میں پوچھا۔
’’انگوٹھی تو میں نے آج جاکر خرید لی تھی۔ ویسے آپ زنیرہ کی منگنی کرنے میں جلد بازی سے کام لے رہے ہیں۔ ابھی اس کی عمر محض چودہ برس ہے۔‘‘
’’تو کیا ہوا؟ کون سا اس کی ابھی شادی ہورہی ہے۔ بھائی جان کی شدت سے خواہش ہے کہ زنیرہ اور شاہ میر کی منگنی کردی جائے۔ مجھے بھی شاہ میر بہت پسند ہے۔‘‘
’’ظاہر ہے آپ کے بھائی کا بیٹا جو ٹھہرا۔ مجو کو اس رشتے کا سن کر بہت افسوس ہوا۔ کہنے لگی کہ میں نے اپنے بھانجے کے لیے زنیرہ کو سوچا ہوا تھا۔ آپ لوگوں نے بہت جلدی رشتہ طے کردیا۔ مجو کا بھانجا انگلینڈ میں پڑھ رہا ہے۔‘‘
’’کلثوم! میں نے اپنی بیٹی کے لیے جس کو بہتر سمجھا، اس سے رشتہ طے کردیا۔ تم یہ فالتو کی باتیں چھوڑو۔ آئندہ اتوار کو ہونے والی منگنی کی تیاری کرو۔‘‘
٭…٭…٭
اتوار کے دن اکرم علی کا چھوٹا سا گھر جگمگا رہا تھا۔ اکرم علی کے چہرے پر خاصی رونق تھی۔ آج ان کی لاڈلی بیٹی زنیرہ کی منگنی تھی جبکہ زنیرہ کا چہرہ تاثرات سے عاری تھا۔ ’’زنیرہ! ذرا اپنے چہرے پر مسکراہٹ تو سجا لو۔ تمہیں دیکھ کر تو لگ ہی نہیں رہا کہ آج تمہاری منگنی ہے۔‘‘ زنیرہ کی خالہ زاد عروہ اس کا دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے بولی۔
’’مجھ سے زبردستی نہیں مسکرایا جاتا۔ میں کون سا اس منگنی سے خوش ہوں۔‘‘ زنیرہ نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
’’اب ایسا بھی مت کہو۔ تمہاری باتوں سے یوں لگ رہا ہے جیسے تم کسی اور کو پسند کرتی ہو۔‘‘
’’ہرگز نہیں! میں ابھی کسی رشتے میں بندھنا نہیں چاہتی تھی۔‘‘
٭…٭…٭
معین اپنے دوست جواد عرف جاوی کے ساتھ ریسٹورنٹ میں بیٹھا کھانا کھا رہا تھا۔ ڈنر جاوی کی طرف سے تھا۔ دو تین روز پہلے اس نے جس شخص کو لوٹا تھا، اس کی جیب سے پچیس ہزار کی رقم نکلی تھی، ساتھ میں قیمتی موبائل بھی۔ جاوی اپنی کامیابی پر بے حد مسرور تھا۔ ’’یار! ایسا لمبا ہاتھ مارنے کا موقع روز مل جائے تو بہت جلد میں کروڑ پتی بن جائوں۔‘‘ جاوی نے کہا۔
’’بن چکا تو کروڑ پتی! جس طرح تو جوئے میں بازی لگاتا ہے، اس طرح پیسے تیرے پاس جمع ہونے سے رہے۔‘‘ معین نے صاف گوئی سے کہا۔
’’یار معین! یہ جوئے کی لت چھوٹنے والی نہیں۔ اس کی ہار میں بھی ایک مزہ ہے۔‘‘
’’ہاں! تو مزے کر مگر کروڑ پتی بننے کا خیال دل سے نکال دے۔‘‘
تھوڑی دیر بعد وہ دونوں کھانا کھا کر باہر نکلے تو بائیک پر نئے شکار کی تلاش میں گھومنے لگے۔ سنسان گلی میں ایک آدمی کو تنہا آتے دیکھ کر جاوی نے اس کے نزدیک بائیک روک دی۔ ’’چلو جلدی کرو جو کچھ تمہارے پاس ہے نکال دو۔‘‘ جاوی نے یہ کہتے ہوئے اپنے لباس سے پستول نکال لیا۔ پستول دیکھ کر وہ آدمی گھبرا گیا۔
’’چلو پیسے نکالو۔ سنا نہیں؟‘‘ معین درشت لہجے میں بولا۔
’’میرے پاس کچھ نہیں ہے۔‘‘ وہ آدمی گھبرائے بغیر بولا۔
’’اچھا! ابھی دیکھ لیتا ہوں۔‘‘ معین بائیک سے اتر کر اس کے لباس کی تلاشی لینے لگا۔ جاوی پستول تانے کھڑا تھا۔ معین کا ہاتھ جیسے ہی اس آدمی کی جیب میں گیا، اس نے اپنے دونوں ہاتھ ایکدم نیچے گراتے ہوئے معین کو کندھوں سے پکڑ لیا۔ معین خود کو اس آدمی کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کرنے لگا۔
جاوی نے اس آدمی کی ٹانگوں پر ٹھوکر رسید کرتے ہوئے معین کو اس کی گرفت سے آزاد کرایا۔ وہ آدمی لڑکھڑاتا ہوا سڑک پر جیسے ہی گرا۔ معین نے پاس کھڑے جاوی کے ہاتھ سے پستول لے کر فائر کردیا۔ دھماکے کی آواز کے ساتھ اس آدمی کے حلق سے چیخ برآمد ہوئی۔ معین نے آگے بڑھ کر اس کی جیب سے رقم اور موبائل نکال لیا اور بائیک پر جا بیٹھا۔ جاوی نے فوراً بائیک چلا دی۔
’’معین! تو نے گولی چلا کر اچھا نہیں کیا۔ ایک تو…‘‘ جاوی نے کہا۔
معین نے اس کی گفتگو کو منقطع کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں نے اس کے ساتھ جو کیا، ٹھیک کیا۔ میرے سامنے جو لوگ ہوشیار بنتے ہیں، میرا دل چاہتا ہے کہ ان کے بھیجے کو گولی سے اڑا دوں۔ سننے کی تو مجھے عادت ہی نہیں ہے۔‘‘
٭…٭…٭
شاہ میر سے زنیرہ کی منگنی کو تقریباً تین برس ہوچلے تھے۔ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود وہ اس منگنی کو قبول نہیں کر پائی تھی۔ شاہ میر کی فیملی سکھر میں رہتی تھی۔ زنیرہ سے منگنی کے ایک سال بعد اس کے والد علالت کے باعث چل بسے تھے۔ شاہ میر چند ہفتوں کے لیے کراچی آیا تو زنیرہ کے لیے اسے برداشت کرنا مشکل ہوگیا۔ وہ زنیرہ کو اپنی ملکیت سمجھتے ہوئے مستقبل کے حوالے سے باتیں کرنا شروع کردیتا تھا۔ زنیرہ کو اس کی باتوں سے شدید بیزاری ہوتی۔
زنیرہ کتاب کھولے پڑھائی میں مصروف تھی۔ شاہ میر اس کے کمرے میں چلا آیا اور بیڈ کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس نے شاپر سے جیولری سیٹ نکال کر زنیرہ کی طرف بڑھایا۔ ’’یہ آرٹیفیشل سیٹ میں تمہارے لیے لایا ہوں۔‘‘
زنیرہ نے شاہ میر کے ہاتھ سے سیٹ لے کر اسے بغور دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’کیا ضرورت تھی میرے لیے یہ سیٹ لینے کی۔‘‘
’’مجھے اچھا لگا میں نے لے لیا۔ سنو یہ کیا تم ہر وقت پڑھائی میں لگی رہتی ہو۔ چلو تیار ہوجائو، باہر گھوم کر آتے ہیں۔‘‘
’’میرا باہر جانے کا موڈ نہیں۔ آپ اکیلے چلے جائیں۔‘‘
’’کیوں اکیلا چلا جائوں۔ تم میری منگیتر ہو۔ میرا تمہیں ساتھ لے کر جانے کو دل چاہ رہا ہے۔ تمہیں میری بات ماننی چاہیے۔ جلدی اٹھ جائو۔ پڑھائی بعد میں کرلینا۔‘‘
’’مجھے آپ کے ساتھ کہیں نہیں جانا۔ آپ یہ منگیتر والا رعب مجھ پر نہ جمائیں۔ میرے لیے منگیتر کا رشتہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔‘‘ زنیرہ روکھے لہجے میں بولی۔
’’تم مجھے دیکھ کر اپنے چہرے پر اکثر بیزاری طاری کرلیتی ہو، کیا میں تمہیں اچھا نہیں لگتا۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ زنیرہ نے یہ کہتے ہوئے کتاب پر نظریں جما دیں۔
’’بہت خود پسند اور مغرور ہو تم! مگر کیا کروں خامیوں کے باوجود میں دل سے تمہیں اپنانے کو تیار ہوں۔‘‘
’’منگنی ٹوٹ بھی سکتی ہے۔ میں نے اس رشتے کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا۔‘‘ زنیرہ نے صاف گوئی سے کہا۔
’’کوئی اور دیکھ لیا ہے کیا؟‘‘ وہ غصے سے بولا۔
’’نہیں! لیکن اگر دیکھ بھی لوں تو کیا حرج ہے۔‘‘
’’تمہاری زندگی میں میرے علاوہ کوئی اور آیا تو جان سے مار دوں گا۔‘‘
’’آپ بلاوجہ جذباتی ہورہے ہیں۔ آپ جائیں یہاں سے، مجھے پڑھنا ہے۔‘‘
شاہ میر اسے گھورتا ہوا اٹھا اور تیز قدموں سے کمرے سے نکل گیا۔ صحن سے گزرتے ہوئے تخت سے ٹکرا گیا۔
’’ارے بیٹا! دیکھ کے تو چلو۔ اتنی جلدی میں کہاں جارہے ہو؟‘‘ کلثوم بانو نے اسے تیزی سے نکلتے دیکھ کر پوچھا۔
’’چچی! میں ذرا دیر کے لیے باہر جارہا ہوں۔ اپنی لاڈلی کو سمجھائیں۔ جب دیکھو فضول قسم کی باتیں کرکے میرا دل خراب کرتی ہے۔‘‘
’’تم فکر مت کرو، میں اسے سمجھا دوں گی۔‘‘ شاہ میر کو تسلی دینے کے بعد کلثوم بانو فوراً زنیرہ کے کمرے میں پہنچ گئیں اور بولیں۔ ’’زنیرہ! تم نے شاہ میر کو کیا کہا ہے، اس کا موڈ سخت خراب تھا۔ گھر آئے مہمان سے بدتمیزی کرکے تم کیا ثابت کرنا چاہتی ہو۔‘‘
’’میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ شاہ میر اپنے منگیتر ہونے کا رعب مجھ پر نہ جمائے۔ مجھے وہ کبھی پسند ہی نہیں رہا۔‘‘ زنیرہ نے پرسکون لہجے میں جواب دیا۔
’’زنیرہ! آئندہ ایسے الفاظ منہ سے مت نکالنا۔ اس رشتے کی اہمیت سمجھو۔ یہ صرف شاہ میر کی خواہش نہیں ہے، تمہارے ابو اور مرحوم تایا کی بھی خواہش تھی۔ بزرگوں کے فیصلے اپنے بچوں کے حق میں بہتر ہوتے ہیں۔‘‘
’’میں آپ کی رائے سے اتفاق نہیں کرتی۔ بیٹیوں کی پسند بھی اہمیت رکھتی ہے۔‘‘
’’بس! اب مجھ سے مزید بحث میں مت الجھنا ورنہ شاہ میر سے تمہارا نکاح پڑھوا کر میں…‘‘ کلثوم بانو کی دھمکی ادھوری رہ گئی۔
زنیرہ بات کاٹ کر بولی۔ ’’امی! پلیز ایسا مت کیجئے گا۔ مجھے ابھی بہت پڑھنا ہے۔‘‘
’’میری بات غور سے سن لو زنیرہ! آئندہ ایسی کوئی بات مت کرنا جس سے شاہ میر کا دل دکھے۔‘‘ زنیرہ نے امی کی بات سن کر اثبات میں سر ہلا دیا۔ دل میں وہ کھول رہی تھی کہ شاہ میر نے اس کی شکایت کرکے اچھا نہیں کیا۔
٭…٭…٭
پولیس کے چنگل سے کئی بار بچ نکلنے کے بعد معین کی دیدہ دلیری اور سفاکی بڑھ گئی تھی۔ اس نے سمجھ لیا تھا کہ دنیا کو اپنے اشاروں پر نچانا ہے تو لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کرنا ہے۔ لوگ اسے بحیثیت جرائم پیشہ شخص کے پہچاننے لگے تھے۔ وہ معین کالیا کے نام سے مشہور تھا۔ رات کو وہ اکثر گھر سے غائب رہتا تھا۔ اس کا بیشتر وقت گھر سے باہر اپنے جرائم پیشہ دوستوں کے ساتھ گزرتا تھا۔ پچھلے سال معین کے چچا صادق کی موت واقع ہوگئی تھی۔ وہ سڑک کے کنارے مردہ حالت میں پایا گیا تھا۔ معین کی چچی نے صادق کی موت پر سکھ کا سانس لیا۔ وجہ اس کی وہ مار پیٹ تھی جو آئے دن رقم مانگتے وقت اس کے ساتھ کرتا تھا۔
برسات کا موسم تھا۔ وہ ایک ابر آلود صبح تھی۔ نیم تاریک کمرے میں لگے چھوٹے سے آئینے میں کھڑا معین اپنے بے ترتیب بالوں کو سنوارنے میں محو تھا تب ہی اس کی چچی ناصرہ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولیں۔ ’’کدھر جارہا ہے۔ تیاری دیکھ کر تو یوں لگ رہا ہے کسی لڑکی سے ملنے جارہا ہے۔‘‘
چچی کی بات سن کر معین نے سرد آہ بھری اور بولا۔ ’’اپنی اتنی اچھی قسمت کہاں! اس کالی رنگت کو دیکھ کر لڑکیاں دور ہی بھاگتی ہیں۔‘‘
’’مرد کی رنگت نہیں دیکھی جاتی۔ دیکھنا میں تیری شادی کتنی حسین لڑکی سے کرتی ہوں۔‘‘
ناصرہ کی بات سن کر معین ہنستے ہوئے بولا۔ ’’وقت آنے پر دیکھ لیں گے۔ فی الحال تو میں شانی کے پاس جارہا ہوں۔ باہر کھڑا وہ میرے انتظار میں سوکھ رہا ہوگا۔ تم گیٹ بند کرلینا۔‘‘ معین گھر سے نکل کر تیز قدموں سے چلتا ہوا گلی کے نکڑ پر پہنچا تو شانی کو اپنا منتظر پایا۔ وہ شانی سے آج کے پروگرام کے بارے میں بات کررہا تھا کہ اسے اگلی گلی سے ایک لڑکی کالج یونیفارم میں ملبوس اسٹاپ کی طرف آتی دکھائی دی۔ معین محویت سے اس لڑکی کو دیکھنے لگا۔ اس کی محویت اس وقت ٹوٹی جب شانی نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ’’معین بھائی! کدھر کھو گئے؟‘‘
’’یہ لڑکی کون ہے؟‘‘ معین نے شانی کے سوال کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پوچھا۔
’’یہ اکرم علی کی بیٹی ہے۔ نام زنیرہ ہے۔ پچھلے بارہ سال سے یہ لوگ اس علاقے میں رہ رہے ہیں۔ حیرت ہے تم نے اس کو پہلے نہیں دیکھا۔‘‘ شانی کے لہجے میں حیرت تھی۔
’’اتفاق ہے کہ آج سے پہلے یہ آفت مجھے دکھائی نہیں دی۔ مجھے یہ پسند آگئی ہے۔‘‘ معین کی نظریں بدستور زنیرہ پر جمی ہوئی تھیں جو اب بس میں سوار ہو رہی تھی۔
’’یہ تو روز ہی صبح کالج جانے کے لیے نکلتی ہے۔ اس کے ساتھ اس کی کزن عروہ بھی ہوتی ہے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ معین نے یہ کہتے ہوئے ایک سرد آہ بھری۔ ’’اب کل سے اس کے دیدار کے لیے نکلنا ہی پڑے گا۔‘‘
پھر وہ دونوں نزدیکی ہوٹل کی جانب بڑھ گئے۔
٭…٭…٭
زنیرہ کالج کے گیٹ سے باہر نکلی اور قدم اسٹاپ کی جانب بڑھا دیے۔ کافی لڑکیاں اس کے آس پاس چل رہی تھیں۔ زنیرہ ان کی موجودگی سے لاتعلق اپنی سوچوں میں گم چل رہی تھی کہ یکدم کوئی اس کے پاس آکر کھنکھارا اور اسے سلام کیا۔ زنیرہ نے جیسے ہی سلام کرنے والے کی طرف دیکھا تو اس کا دل خوف سے بند ہونے لگا۔ اس کے سامنے معین عرف کالیا کھڑا تھا جسے وہ اپنے علاقے کے آوارہ اور بدمعاش لڑکے کی حیثیت سے جانتی تھی۔
’’آپ مجھے دیکھ کر خوف زدہ نہ ہوں۔ میں آپ کے ساتھ کوئی گھٹیا حرکت نہیں کروں گا۔ میں نے اپنے جذبات کا اظہار اس خط میں کیا ہے، اسے پڑھ لینا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے معین نے ایک لفافہ زنیرہ کی جانب بڑھایا۔
زنیرہ خوف زدہ ہوکر پیچھے ہٹی اور بھاگتے ہوئے لڑکیوں کے ہجوم میں گم ہوگئی۔ معین اسے بھاگتے ہوئے دیکھتا رہا پھر مسکراتے ہوئے اس نے وہ لفافہ اپنی جیب میں رکھ لیا۔
معین پابندی
سے زنیرہ کا دیدار کرنے کالج پہنچتا رہتا۔ عروہ کی موجودگی کی وجہ سے زنیرہ کو حوصلہ تھا۔ عروہ کو اس کے ساتھ دیکھ کر معین نے اس دن کے بعد زنیرہ سے بات کرنے کی ہمت نہیں کی تھی۔ پیر کا دن تھا۔ عروہ نے طبیعت کی خرابی کی بنا پر چھٹی کرلی تھی۔ زنیرہ چھٹی میں تنہا باہر نکلی تو معین اسکائی بلیو شرٹ اور بلیک جینز میں ملبوس کالج کے گیٹ سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔ زنیرہ کو تنہا باہر آتے دیکھ کر وہ یکدم مسکرا دیا۔ زنیرہ مارے خوف کے جلدی سے واپس کالج میں چلی گئی۔ اسے اپنی کلاس فیلو زعیمہ آتی دکھائی دی۔ اسے حواس باختہ دیکھ کر زعیمہ پوچھ بیٹھی۔ ’’زنیرہ! کیا بات ہے، تم پریشان ہو؟‘‘
’’ہاں! اصل میں آج عروہ نے چھٹی کی ہے۔ میری اکیلے گھر جانے کی ہمت نہیں ہورہی۔‘‘
’’ڈونٹ وری! میرے پاپا مجھے لینے آتے ہوں گے، وہ تمہیں بھی ڈراپ کردیں گے۔‘‘ زعیمہ کی یہ پیشکش زنیرہ کو کسی نعمت سے کم نہیں لگی۔
زعیمہ نے آگے بڑھ کر گیٹ سے باہر جھانکا اور زنیرہ کو ساتھ چلنے کا اشارہ کیا۔ زنیرہ، زعیمہ کی کار میں گھر روانہ ہوگئی۔ کن انکھیوں سے اس نے دیکھا معین کالیا کالج کے گیٹ سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا اور منتظر نگاہوں سے اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔ اگلے دن عروہ طبیعت کی خرابی کے باعث پھر کالج نہ آسکی تو زنیرہ کو مجبوراً واپسی کا سفر تنہا طے کرنا پڑا۔ معین، زنیرہ کے پیچھے چلتے ہوئے یکدم اس کے سامنے آگیا۔ ’’آپ مجھے بہت اچھی لگتی ہو۔ میرے ساتھ چلو۔ مجھے آپ سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں۔‘‘
زنیرہ اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے بولی۔ ’’ہٹو میرے راستے سے، مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔‘‘ زنیرہ کے منہ سے ان الفاظ کے نکلتے ہی معین نے زنیرہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’چھوڑو میرا ہاتھ۔‘‘ زنیرہ کے منہ سے کپکپاتی آواز نکلی۔ معین نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور فوراً پیچھے ہٹ گیا۔ اس کے ہٹتے ہی زنیرہ بھاگنے کے انداز میں اسٹاپ کی جانب بڑھ گئی۔ معین اس کی بدحواسی پر زیرِلب مسکرانے لگا۔
کالج سے گھر تک کا فاصلہ زنیرہ نے کیسے طے کیا، یہ اس کا دل جانتا تھا۔ پہلے وہ سمجھ رہی تھی کہ معین اس کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر اس کا پیچھا چھوڑ دے گا مگر وہ اتنا شریف نہیں تھا۔
زنیرہ کے پاس اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ امی کو ساری بات بتا دے۔
زنیرہ گھر میں داخل ہوئی تو پریشانی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ کلثوم بانو نے اسے دیکھتے ہی پوچھا۔ ’’زنیرہ بیٹا! خیریت تو ہے؟ کیوں اتنی پریشان ہو؟‘‘ کلثوم بانو کے اس سوال کے جواب میں زنیرہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسے بات شروع کرے۔ اس نے بیگ بستر پر رکھا اور آنکھوں میں آئی نمی دوپٹے میں جذب کرتے ہوئے بولی۔ ’’امی! معین کالیا پچھلے ایک ہفتے سے میرے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ آج عروہ کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔ خوف سے میری جان نکل گئی تھی۔‘‘
زنیرہ کے سہمے ہوئے انداز کو دیکھ کر کلثوم بانو اسے تسلی دینے لگیں۔ ’’تمہیں ڈرنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ یہ بات تمہارے ابو کے علم میں لانا ضروری ہے۔‘‘
’’امی! آپ ابو کو ہرگز نہیں بتائیں گی، وہ مجھے گھر بٹھا دیں گے کہ کیا ضرورت ہے کالج جانے کی۔‘‘
’’ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ تمہارے ابو کی تو دلی خواہش ہے کہ تم اپنی تعلیم مکمل کرو۔‘‘
’’امی! آج عروہ کالج نہیں گئی تھی تب ہی تو معین کی دلیری بڑھ گئی۔ عروہ کو میرے ساتھ دیکھ کر وہ جملے بازی ضرور کرتا ہے مگر ہمارے قریب آنے کی ہمت نہیں ہوتی۔‘‘
’’دیکھو زنیرہ! تم اپنے اندر اعتماد پیدا کرو۔ تمہیں خوف زدہ دیکھ کر معین میں یہ جرأت پیدا ہوئی ہے۔ غصہ تو مجھے بھی بہت آرہا ہے۔ دل چاہ رہا ہے کہ اس کے گھر جاکر اس کی چچی کو کھری کھری سنا کر آئوں مگر فائدہ کچھ نہیں۔ اس سے پہلے کئی لوگوں نے اس کی چچی سے شکایت کی مگر حاصل کیا ہوا؟ وہ الٹا معین کی طرف داری کرتی ہے۔ اس ذلیل عورت کی شہ پا کر معین کی بدمعاشی دن بہ دن عروج پر پہنچتی جارہی ہے۔ عروہ بھی تو تمہاری ہم عمر ہے۔ اس سے کوئی الٹی سیدھی بات کرے تو اچھی طرح سنا دیتی ہے۔ تم عروہ سے خود اعتمادی سیکھو۔‘‘ کلثوم بانو نے رسان سے سمجھایا۔
’’ٹھیک ہے امی!‘‘ یہ کہتی ہوئی الماری سے اپنے کپڑے نکالنے لگی۔
اگلے دن عروہ کے ساتھ کالج جاتے ہوئے زنیرہ نے اسے معین کی کارستانی کے بارے میں بتایا۔
’’اس کمینے کی یہ ہمت کہ تمہارا ہاتھ پکڑ لیا اور تم ڈر کر خاموش رہیں۔‘‘ عروہ، زنیرہ کی بات سنتے ہی تیز آواز میں بولی۔
’’آہستہ بولو، ہم لوگ گھر میں نہیں ہیں۔ اس خبیث کی حرکت پر شور مچا کر میں نے اپنا تماشا نہیں بنوانا تھا۔‘‘
’’میں تمہاری جگہ ہوتی تو اس مردود کی ایسی مرمت کرواتی کہ ہوش ٹھکانے آجاتے۔‘‘
’’جانتی ہوں تمہیں تم ڈرنے والوں میں سے نہیں ہو۔‘‘ زنیرہ بولی۔ عروہ کے مزاج سے وہ بچپن سے واقف تھی۔ وہ دونوں اچھی دوست ہونے کے علاوہ ایک دوسرے کی راز دار بھی تھیں۔
کالج سے واپسی پر وہ دونوں اسٹاپ کی جانب بڑھیں تو زنیرہ کا دل خوف سے دھڑک اٹھا۔ معین کالیا سامنے کھڑا بہت توجہ سے اسے دیکھ رہا تھا۔ انہیں آگے بڑھتے دیکھ کر وہ ان کا تعاقب کرنے لگا۔ معین چند منٹ بعد ان کے آگے آگے چلنے لگا۔ چلتے ہوئے وہ پلٹ کر ایک نگاہ زنیرہ پر ضرور ڈال رہا تھا۔ عروہ اس کی اس حرکت پر تپ کر بولی۔ ’’عجیب مصیبت ہے مجھے تو اس کی شکل سے نفرت ہے۔ دل چاہ رہا ہے اس کی مرمت کروں۔‘‘
’’عروہ! خاموشی سے چلو، کیا ضرورت ہے اس لفنگے کے منہ لگنے کی!‘‘
عروہ اس کی بات سن کر خاموش ہوگئی۔ باقی کا سفر انہوں نے آپس میں کوئی بات کیے بغیر طے کیا۔ جونہی وہ دونوں گلی میں داخل ہوئیں، معین کالیا اس دکان کی جانب بڑھ گیا جس کے باہر اس کے دوست بیٹھے تاش کھیل رہے تھے اور ساتھ ہی وہ گلی میں آتی جاتی لڑکیوں پر تبصرے بھی کرتے جاتے تھے۔
معین کو بیٹھتے دیکھ کر جاوی اپنے چہرے پر خباثت بھری مسکراہٹ سجا کر بولا۔ ’’تو اپنی والی کو بحفاظت گھر چھوڑ آیا ہے۔ صرف نگہبانی کی ہے یا کچھ کہا سنا بھی…‘‘
’’کیا کہوں اس کے ساتھ اس کی کزن چپکی ہوتی ہے۔ موقع دیکھتے ہی اظہارِ محبت بھی کر ڈالوں گا۔‘‘
’’بہت افسوس ہوا یہ جان کر اتنے دنوں سے تو اس کے پیچھے خوار ہورہا ہے۔ آج تک بات بھی نہیں کرسکا۔ ہم لوگوں کو دیکھ جس لڑکی سے دوستی کرنا چاہتے ہیں، منٹوں میں کرلیتے ہیں۔ لعنت ہو تجھ پر ایک لڑکی کو نہیں گھیر سکا۔‘‘ اس کے ساتھی سلمان عرف سلو نے کہا۔
’’ہم لوگوں سے کچھ سیکھ لے۔ گرلز کالج کے باہر کھڑے ہوکر لڑکیوں سے دوستی کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ہر مہینے ہم نئی لڑکی سے دوستی کرتے ہیں۔ ایک تم ہو کہ…‘‘
معین کالیا نے جاوی کی بات کاٹ کر کہا۔ ’’جانتا ہوں کہ تیری جن لڑکیوں سے دوستی ہے، ایسی لڑکیوں کو گھیرنا میرے لیے مشکل نہیں مگر میرا دل اس بار جس لڑکی پر آیا ہے، وہ بہت بھولی بھالی اور معصوم ہے۔‘‘
(جاری ہے)