Sunday, February 16, 2025

Geeli Mitti ki Thandek | Complete Urdu Story

اف اللہ، کتنی سردی ہے امی! انگیٹھی کے لیے کوئلے کہاں رکھتے ہیں؟ سردیاں شروع ہوتے ہی حسبِ معمول مہر کا واویلا شروع ہو چکا تھا، اور آج تو بادل بھی گھرے ہوئے تھے، لہٰذا کوئلوں کی یقینی شامت آئی تھی۔

کچن کے پیچھے اسٹور میں رکھے ہیں۔ احتیاط سے استعمال کرنا، ساری سردیاں انہی سے کام چلانا ہے۔ اس کے پوچھنے پر امی نے جواب دیا، اور ساتھ ہی احتیاط کی تاکید بھی کر ڈالی، جسے سن کر وہ ہمیشہ کی طرح جل کر رہ گئی۔

لو جی! ایک تو سردی سے بچنے کے لیے کوئلے جلاؤ، نہ بجلی کا بل، نہ ہی گیس کی ٹینشن، اس پر بھی احتیاط کی تاکید! ویسے یہ سردی ہمیں جیسے مڈل کلاس لوگوں کے گھروں میں آنا ہی نہیں چاہیے۔ یہ تو امیروں کی انجوائےمنٹ ہے۔ گاڑی ہو، گھر ہو یا دفتر، ہر جگہ ہیٹر کے مزے۔ گرما گرم لذیذ کھانے، رضائی میں بیٹھ کر خشک میوہ جات اور کافی کی عیاشی۔ ہم جیسے تو سارا سال کوئلے جمع کرتے ہیں، پھر جب سردیاں آئیں، تو احتیاط سے استعمال کریں! کیا فائدہ اتنی مشقت کا۔

کوئلے دہکانے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے قیمتی خیالات کا بھی اظہار کر رہی تھی، جس پر امی کو حسبِ توقع غصہ آ گیا۔

ہاں تو تمہیں کیا تکلیف ہے؟ مشقت تو میں ہی کرتی ہوں۔ اور مشقت بھی کیسی! سارا کام تو لکڑیوں پر ہی ہوتا ہے۔ میں اس میں سے بڑے بڑے کوئلے بجھا کر الگ کر لیتی ہوں۔ کون سا پہاڑ کھودنے پڑتے ہیں مجھے، جو تم یوں اپنا خون جلا رہی ہو۔

تو کیوں نہ جلاؤں خون! مانا کہ مشقت آپ کرتی ہیں، مگر استعمال تو مجھے ہی کرنے ہوتے ہیں۔ ہاں، اور وہ بھی احتیاط کے ساتھ! وہ احتیاط پر خاصا زور دے کر بولی۔ تب ہی آگ، جسے کب سے پھونکیں مار رہی تھی، مچل اٹھی اور کوئلے تیزی سے دہکنے لگے۔

اچھا، بک بک بند کرو اور آ کر برتن دھو، صبح سے ایسے ہی پڑے ہیں۔ امی نے بحث سمیٹنی چاہی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس پر ایک نئی بحث چھڑ جائے گی، اور وہی ہوا۔

دیکھا! اس لیے میں کہتی ہوں، امیروں کی موجیں ہیں۔ برتن، کپڑے، سب نوکروں کے ذمے۔ اور پھر بھی کبھی جو قسمت سے پانی میں ہاتھ ڈالنا پڑے، تو گیزر زندہ باد۔

تو تم کون سا برف میں ہاتھ ڈالے بیٹھی رہتی ہو۔ جب بھی کچھ کرنا ہو، پہلے موٹر چلا کر گرم پانی نکالتی ہو، پھر کسی کام کو ہاتھ لگاتی ہو۔ اب زبان بند کرو اور جلدی سے برتن دھو۔ کالج سے چھٹی کی ہے، تو کچھ ہاتھ بٹاؤ میرا۔

امی، جو اس کے خیالات سے تنگ آ چکی تھیں، مزید کوئی رعایت دینے کے موڈ میں نہیں تھیں، مگر وہ بھی اپنے نام کی ایک ہی تھی۔ کوئلے چونکہ اب دہک چکے تھے۔۔۔لہذا  رضائی میں دبک گئی اور وہیں سے ہانک لگائی۔
کوئی برتن دُھلنے والا نہیں، اور میں نہیں دھونے والی۔ اگر یہی کام کرنے ہیں تو فائدہ کیا کالج سے چھٹی کرنے کا؟ ثمر دھو دے گی برتن۔ اور ہاں! اب کسی کام کے لیے مجھے آواز نہ دیجئے گا۔ کھانا بن گیا تو مجھے آواز دے دیجئے گا، ورنہ میں نہیں آنے والی۔ مجھے بہت سردی لگ رہی ہے۔ اس کے ان ارشادات پر امی نے بے بسی سے ثمر کی طرف دیکھا۔ ثمر ، جو اپنے چھ ماہ کے احمر کے ساتھ دو دن کے لیے ماں کے پاس آئی تھی، ماں کا ہاتھ تھام کر مسکرا دی۔کوئی بات نہیں، امی! آپ پریشان نہ ہوں۔ بس دو منٹ احمر کو سنبھالیں، میں ابھی برتن دھو دیتی ہوں۔اس نے احمر کو ماں کے حوالے کیا اور کچن میں گھس گئی۔ امی بند دروازے کو گھورتے ہوئے نواسے کو بہلانے میں لگ گئیں۔

یہ کوئی آج کا رونا نہیں تھا۔ بچپن سے ہی وہ سردی کی بہت کچی تھی۔ سردیاں آتے ہی “سردی، سردی” کی جو گردان شروع ہوتی، تو پھر موسم کے بدلنے پر ہی ختم ہوتی۔ اسکول اور کالج سے تو چھٹیاں ہوتی ہی تھیں، ساتھ میں ماں کا ہاتھ بٹانے سے بھی صاف انکار۔ بس رضائی میں دبک کر امیروں کے فوائد اور غریبوں کے نقصانات پر روشنی ڈالتی رہتی۔

بہت سمجھایا مگر وہیں “ڈھاک کے تین پات” والی بات۔ یہی وجہ تھی کہ سردیاں ختم ہونے پر اس کے ساتھ ساتھ گھر والے بھی آواز بلند کر کے شکر ادا کرتے تھے۔

اس سرد صبح کا آغاز ایک بری خبر سے ہوا تھا۔ چھوٹے ماموں کے چھوٹے سالے کا انتقال ہو گیا تھا۔ رشتہ قریبی ہونے کی وجہ سے امی اور ابو دونوں کا جانا ضروری تھا۔ رات بھی ہو سکتی تھی، لیکن مہر کو اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا تھا۔ تب ہی امی نے اسے بھی ساتھ چلنے کو کہا۔

اس نے سیاہ بادلوں سے ڈھکا آسمان اور فضا میں ہلکی دھند کو تیرتے دیکھا تو خوب شور مچایا، “افوہ! کیا ضرورت ہے اتنی سردی میں کہیں جانے کی؟ بعد میں جا کر تعزیت کر آئیے گا۔”
اس نے اپنی طرف سے شاندار مشورہ دیا تھا، جس پر امی نے غور کرنا تو دور، سننا بھی گوارا نہیں کیا۔

“کوئی فضول بکواس نہیں۔ جلدی سے کپڑے بدلو، تمہارے ابو موٹر سائیکل لے کر آتے ہی ہوں گے۔ شہزاد بھائی ہیں نا!”
شہزاد احمد ان ہی کے گاؤں میں رہتے تھے اور بھائیوں جیسے تعلقات تھے۔ اسی لیے بوقتِ ضرورت کام آ جاتے تھے۔

“کیا ضرورت تھی اس موسم میں انتقال فرمانے کی! لے کے مشکل میں ڈال دیا!” کپڑے بدلتے ہوئے بھی اس کی دہائیاں جاری تھیں، جس پر امی نے جھڑک دیا، “سرم تو میں۔ اب لو! انسان اپنی مرضی سے مرتا ہے جو یہ الزام بھی تم نے ان پر ڈال دیا!”

اس سے پہلے کہ وہ مزید باتیں سنتی، ابو جو موٹر سائیکل لے کر آئے تھے، گلی میں نظر آئے۔ مہر گلو خلاصی پر شکر ادا کرتی باہر آ گئی۔

موٹر سائیکل پر بیٹھتے ہی سرد ہوا نے جو استقبال کیا تو، باوجود اوپر نیچے گرم کپڑوں کے، وہ کپکپانے لگی۔

“اسی لیے میں کہتی ہوں کہ سردیاں امیروں کے گھر ہی اچھی لگتی ہیں۔ اب بھلا ہیٹر لگی گرم گاڑیوں میں بیٹھنے والوں کو کیا پتا کہ باہر کیسی غضب کی سردی پڑ رہی ہے!”
قریب سے گزرتی گاڑی کو دیکھ کر اسے پھر سے خود پر ہوا ظلم یاد آ گیا تھا، مگر امی نے جواب دینا گوارا نہ کیا اور اسے شاید اس سے کوئی خاص فرق بھی نہیں پڑتا تھا۔

“اور خبردار جو آپ نے فوتگی والے گھر میں جا کر مجھے ہاتھ بٹانے کی نصیحت کی ہو۔ کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاؤں گی میں۔ ساتھ چل رہی ہوں، اسی کو غنیمت جانیے!”
بجتے دانتوں کے ساتھ وارننگ دے کر اس نے شال کچھ اور زیادہ چہرے کے گرد لپیٹ لی۔

سفر اسی طرح جاری تھا کہ اس کی نظر خانہ بدوشوں کی جھگیوں کے سامنے کھیلتے تین بچوں پر پڑی، اور وہ جیسے جم کر رہ گئی۔ وہ تینوں انتہائی مخدوش لباس میں تھے۔ اس غضب کی سردی میں بھی ان کے جسموں پر ایک ایک نیکر، پھٹی پرانی شرٹ، اور خستہ حال سویٹر کے سوا کچھ نہ تھا۔ نہ سر پر ٹوپی تھی، نہ پاؤں میں جوتے۔

سردی کی شدت سے ان کے نیلے پڑتے چہرے اور کانپتی ٹانگیں اتنی دور سے بھی صاف دکھائی دے رہی تھیں، مگر وہ اس سے نظریں چرائے گیلی مٹی میں کھیلنے میں مشغول تھے، جو رات کی بارش کی دین تھی اور جس سے کھلونے بنا بنا کر وہ اپنا وقت بتا رہے تھے یا دھیان بٹا رہے تھے، مہر سمجھ نہ سکی۔

مگر اس گیلی مٹی کی ٹھنڈک سے اسے اپنا آپ جمتا ہوا محسوس ہوا۔ وہ ساکت تھی، اور سردی کا شدید احساس جیسے یک دم ختم ہو گیا تھا۔ امی اس سے کچھ کہہ رہی تھیں، مگر وہ جواب کیسے دیتی؟ اس کی تو زبان ہی گنگ ہو چکی تھی۔

امی حیران تھیں اور مزید حیران تب ہوئیں، جب وہ انہیں وارن کرنے کے باوجود اور ان کے کہے بغیر ہی فوتگی والے گھر میں ہاتھ بٹانے لگی اور ایک بار بھی سردی کی شکایت نہ کی۔ نہ وہاں، اور نہ ہی پھر کبھی۔

چاہے کیسا ہی موسم ہوتا، وہ بلا چوں چراں کالج چلی جاتی۔ امی جو کام کہتیں، خاموشی سے کر دیتی، اور سردی کا واویلا کرنا تو جیسے بھول ہی گئی تھی۔ امی حیرت زدہ تھیں، اور اس حیرت کا وہ برملا اظہار بھی کرتیں۔ آپا بھی اکثر اسے چھیڑا کرتیں، “کیا ہوا بھئی؟ کیا اب ہماری مہر کو سردی نہیں لگتی؟”

وہ کچھ کہنے کے لیے لب کھولتی، مگر گیلی مٹی کی ٹھنڈک اس کی رگ و پے میں ایسی سرایت کر چکی تھی کہ وہ کچھ بھی کہنے کے قابل ہی نہ رہتی۔

Latest Posts

Related POSTS