میرا نام شہر بانو ہے اور میری بہن کا نام گل بانو تھا۔ وہ اسّی برس کی عمر میں فوت ہوئی۔ یہ واقعہ ان دنوں کا ہے جب پاکستان کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا۔ ہمارا علاقہ پہاڑی تھا جہاں لوگ صلح سے رہتے لیکن اختلاف پر بندوقیں بھی نکل آتیں۔ جن دنوں گل بانو پانچ برس کی تھی، میرے والد کا تنازع ایک گھرانے کے سربراہ سے ہوگیا۔ یہ والد کا ایک کزن تھا اور نام احسان خان تھا۔ جھگڑا زمین کے تنازع پر تھا۔
والد صاحب کی عمر ان دنوں ساٹھ برس تھی اور ان کے چار بیٹے تھے جبکہ ہم دو ہی بیٹیاں تھیں۔ میں سب سے چھوٹی اولاد تھی، گل بانو مجھ سے بڑی تھی۔ احسان، دولت اور طاقت میں والد صاحب سے بہت زیادہ مضبوط تھا۔ اس کے بیٹے جوان اور زمین بھی زیادہ تھی۔ والدہ اور دادی نے بابا جان کو سمجھایا کہ تم احسان سے صلح کرلو، آدھی زمین لے کر آدھی اسے بخش دو۔ رنجش رہی تو ہماری آئندہ نسل پر بھی خطرات کے سائے منڈلاتے رہیں گے۔ جرگہ نے بھی صلح صفائی کی کوشش کی لیکن والد نہ مانے۔ ان کا کہنا تھا بات زمین کی نہیں آن کی ہے۔ میں حق پر ہوں تو کیوں ان لوگوں کے آگے گھٹنے ٹیک دوں۔
یہ تنازع چل رہا تھا کہ ایک دن احسان کی بکری ہمارے کھیت میں آگئی۔ بابا جان وہاں موجود تھے۔ انہوں نے احسان اور ان کے بیٹوں کو للکارا کہ اپنا جانور ہانک کر لے جائو ورنہ میں گولی مار دوں گا۔ ادھر سے کوئی جواب نہ آیا۔ انہوں نے سنی ان سنی کردی۔ تبھی بابا جان نے بندوق نکالی فائر کردیا۔ بکری گر کر تڑپنے لگی۔ فائر کی آواز پر احسان کے لڑکے بھاگے اور انہوں نے فوراً بکری کو ذبح کردیا۔ احسان نے للکار کر کہا کہ ابھی نماز کا وقت ہے، میں جلد تمہیں دیکھ لوں گا۔ یہ کہہ کر وہ مسجد کی طرف چلا گیا۔
والد صاحب گھر آگئے۔ بندوق دیوار پر لگی کھونٹی میں لگا دی اور نماز کی تیاری کرنے لگے۔ اگلے روز عید تھی۔ صبح ہی سب اٹھ گئے۔ مرد نماز عید ادا کرنے چلے گئے اور بچے نئے کپڑے پہن کر تیار ہونے لگے۔ گل بانو نے عید کا خوبصورت جوڑا زیب تن کرلیا تھا۔ وہ والد سے ضد کرنے لگی کہ اس نے میلہ دیکھنا ہے۔ بابا جان کو وہ بہت پیاری تھی۔ اس کی کوئی خواہش رد نہ کرتے تھے۔ یوں گل بانو نے والد کی انگلی پکڑ لی اور ان کے ہمراہ میلہ دیکھنے چلی گئی۔
دو گھنٹے میلے میں گھومنے کے بعد وہ گھر لوٹ رہے تھے کہ واپسی میں احسان سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ اس وقت والد نہتے تھے۔ اچانک احسان کی بندوق سے گولیاں برسنے لگیں اور میرا باپ زمین پر زخمی ہوکر گر پڑا۔ یہ منظر گل بانو کے لیے دہشت ناک تھا۔ سامنے باپ خون میں لت پت تڑپ رہا تھا۔ وہ چیخ کر بھائیوں کو پکارنے لگی۔ زمین کے چند فٹ ٹکڑے کی خاطر ایک انسانی زندگی بھینٹ چڑھ گئی اور بہانہ ایک بکری کی موت کا بنا۔ عید کا گھر ماتم کدہ بن گیا۔ شام کو والد کا جنازہ اٹھا جس میں چند لوگوں کے سوا تمام علاقے کے افراد شریک تھے۔
اب سارے گائوں میں چہ میگوئیاں تھیں کہ دیکھو تمکین کے لڑکے کب بندوقیں اٹھاتے ہیں اور بدلہ لیتے ہیں۔ دستور کے مطابق انہیں احسان سے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ تو لینا تھا۔ گائوں کے لوگوں کا خیال تھا کہ بہت جلد احسان خان کا جنازہ بھی اسی طرح اٹھے گا جیسے تمکین خان کا اٹھا ہے۔ دونوں گھرانوں کی عورتوں کے دل ابھی سے نوحہ کناں تھے کہ نجانے کتنے قتل ہوں گے اور یہ خونی داستان کتنی لمبی ہوجائے گی۔
میرا بڑا بھائی بہادر خان شہر سے پڑھ کر آیا تھا۔ اسے پڑھائی کا بہت شوق تھا۔ غالباً یہ ہمارے گائوں کا واحد پڑھا لکھا آدمی تھا۔ اس نے تینوں چھوٹے بھائیوں کو بلا کر کہا کہ میں اس قتل کے کھیل کو جاری رکھنا نہیں چاہتا لہٰذا تم لوگوں کو اجازت نہ دوں گا کہ کوئی باپ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے کسی کا خون بہائے۔ ہم اس بے عزتی پر تاوان طلب کرلیں گے یا والد کا قتل معاف کردیں گے اور یوں اس علاقے میں ایک اچھی روایت کی بنیاد رکھ دیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ احسان کے لڑکے ضرور ہمیں مال مویشی نہیں تو زمین بطور تاوان پیش کریں گے لہٰذا جلد بازی میں خون خرابے کو بڑھانے کی ضرورت نہیں ہے۔
سارے گائوں کی آنکھیں میرے بھائیوں کی بندوقوں پر لگی ہوئی تھیں لیکن وقت گزرنے لگا اور بندوقوں کے دہانے خاموش رہے، کوئی فائر نہ ہوا۔
ایک نسل بڑی ہوگئی۔ یہاں تک کہ اکثر ذہنوں سے یہ واقعہ محو ہوگیا۔ پھر علاقے کے لوگوں نے سنا کہ احسان اور تمکین کے بیٹوں نے آپس میں راضی نامہ کرلیا ہے۔ دشمنی ختم کرکے ایک دوسرے کے گھر آنے جانے لگے ہیں۔ یہ بات ان کے لیے باعث حیرت بھی تھی اور افسوس ناک بھی کیونکہ یہ بات علاقے کیوایت کے خلاف تھی۔ بہرحال یہ ان کا آپس کا معاملہ تھا۔ لوگ حیرت کے سوا کیا کرسکتے; تھے۔
اس واقعے کو پندرہ برس بیت گئے۔ میری شادی ہوچکی تھی اور اب گل بانو کی باری تھی۔ بڑے بھائی نے اس کی نسبت قریبی گائوں میں طے کردی تھی۔ جب شادی کی تاریخ رکھی جانے لگی تو لڑکے کو کسی نے طعنہ دیا کہ تم بے غیرت ہو جو ایسے بے غیرت لوگوں کی لڑکی سے شادی کررہے ہو کہ جنہوں نے اپنے باپ کے خون کا بدلہ نہیں لیا۔ یہ طعنہ گل بانو کے منگیتر کے دل میں ترازو ہوگیا اور اس نے میری بہن سے شادی کرنے سے انکار کردیا۔ اس نے کہا ایک بیٹا باپ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے کافی ہوتا ہے، یہاں تو لڑکی کے چار بھائی ہیں۔ افسوس کہ چاروں ہی بے غیرت ہیں۔ میں ایسے بے غیرتوں سے ناتا نہ جوڑوں گا۔ جب یہ بات میری بہن نے سنی تو وہ تڑپ کر رہ گئی۔ اسے وہ منظر یاد آگیا جب عید کے روز اس کے سامنے اس کے باپ کو گولی لگی تھی اور وہ زمین پر گر کر تڑپ رہا تھا اور اس کے خون سے بیٹی کے خوبصورت کپڑے رنگین ہوگئے تھے اور اب بے غیرتی کا طعنہ بندوق کی گولی بن کر اس کے دل پر آلگا تھا۔
اس نے بھائیوں سے کہا۔ تم نے باپ کے خون کا بدلہ نہ لیا اور اب وہ ہمیں بے غیرت کہہ رہے ہیں۔ کیا واقعی تم بے غیرت ہو؟ وہ ٹس سے مس نہ ہوئے، کہنے لگے… بے غیرت وہ ہیں جو رشتہ کرکے اب انکار کررہے ہیں۔ وہ زبان دے کر پھر رہے ہیں۔ جب برسوں پہلے راضی نامہ ہوچکا، اب اس تذکرے کی کیا ضرورت ہے۔ لڑکی عرصے تک کسی ایک کے نام کی ہوکر رہے اور پھر رشتہ توڑ دیا جائے تو ہمارے گائوں میں بے عزتی کی بات تھی۔ گل بانو شدید کرب کا شکار ہوگئی۔ چونکہ بھائی، مقتول والد کے وارث تھے، راضی نامہ کرچکے تھے۔ انہوں نے اس طعنے کا کوئی اثر نہ لیا۔ گل بانو مایوس ہوگئی اور بے صبری سے عید کے دن کا انتظار کرنے لگی کہ اسی روز ہمارے پیارے بابا جان کو ابدی نیند سلایا گیا تھا۔
عید کا مبارک دن آگیا۔ صبح ہی سب نے نماز کا اہتمام کیا اور مرد قربانی کی رسم ادا کرنے چلے گئے۔ عورتوں اور بچوں نے نئے کپڑے پہن لیے۔ گل بانو نے بھی عید کا جوڑا زیب تن کیا اور اپنے والد کی قبر پر فاتحہ پڑھنے چلی گئی۔ قبر گھر کے قریب تھی۔
ابھی مرد قربانی کرکے گھر نہ لوٹے تھے کہ گل بانو نے والد کی بندوق اٹھالی جو بڑے بھائی کے کمرے میں الماری کے اوپر رکھی تھی۔ اس میں گولیاں موجود تھیں۔ وہ کچھ دیر گم صم کھڑی سوچتی رہی، پھر اس نے بندوق کو چادر میں چھپا لیا اور بھائیوں کے آنے سے قبل گھر سے نکل گئی۔ احسان کا گھر زیادہ دور نہ تھا جہاں قریب درختوں کے تنے اوپر تلے رکھے ہوئے تھے اور ٹرک پر ان کو لاد کر لے جانا تھا۔ وہ ان تنوں کی اوٹ میں چھپ کر کھڑی ہوگئی۔ آج اس کی نگاہوں میں ایک بار پھر وہی منظر زندہ ہوگیا تھا جب پندرہ برس پہلے عید کے روز اس کے پیارے بابا جان پر فائر کھول کر انہیں خاک و خون میں تڑپایا گیا تھا اور وہ ان پر جھکی بے بسی سے موت سے دست و گریباں ہوتے دیکھنے پر مجبور تھی۔ بچپن کا یہ واقعہ ایسا ناقابل فراموش تھا کہ اس منظر کو ساری دنیا کے سمندروں کا پانی بھی مل کر اس کے ذہن سے دھو نہیں سکتا تھا۔
اچانک اس کے ذہن پر اپنے باپ کا شفقت بھرا چہرہ ابھرا جو مسکر کر اسے دیکھ رہا تھا۔ اے میرے پیارے والد! انہوں نے شادی سے انکار کردیا ہے، بے غیرت بھائیوں کی بہن کہہ کر اور اب میں بھی آپ کے پاس آنا چاہتی ہوں۔ ایسے تکلیف دہ طعنے سن کر اس دنیا میں نہیں جی سکتی۔ یہ سوچتے ہوئے اس نے اوپر تلے رکھے درختوں کے تنوں کے درمیان سے جھانک کر دیکھا۔ سامنے احسان خان اپنے بیٹوں کے ہمراہ گھر کی جانب لوٹ رہا تھا۔ وہ آگے آگے تھا اور اس کے چھ بیٹے اس کے پیچھے چل رہے تھے۔ جونہی وہ قریب آئے، گل بانو نے دو تنوں کے درمیان سے اسے نشانے پر لیا اور لبلبی دبا دی۔ گولی احسان کی گردن پر لگی، خون کا فوارہ چھوٹا اور وہ زمین پر گر گیا۔ بیٹوں نے ادھر ادھر دیکھا۔ انہیں کہیں دشمن نظر نہ آیا۔ وہ باپ کی طرف لپکے اور اسے اٹھانے لگے۔ میری بہن تیزی
تنوں کے پیچھے سے نکل کر گھر کی طرف بھاگی۔ اسے بھاگتے ہوئے قریب سے گزرتے ایک پڑوسی نے دیکھ لیا۔
گھر آکر اس نے بھائیوں سے کہا۔ وہ کام جو تم نے کرنا تھا اور نہ کرسکے، وہ میں کرآئی ہوں۔ منصب خان نے مجھے بھاگتے ہوئے دیکھ لیا ہے۔ جلد ہی سارے گائوں کو پتا چل جائے گا کہ احسان پر گولی میں نے چلائی ہے۔ تم لوگ جلد چھت پر پہنچو اور مورچوں میں ایستادہ ہوجائو۔ وہ اب آرام سے بیٹھنے والے نہیں ہیں۔ گائوں میں فائر کی آواز گونجے اور کسی کو خبر نہ ہو، یہ کیسے ممکن تھا۔ یہ خبر عنبر خان تک بجلی کی سرعت سے پہنچی۔ قیاس تھا کہ وہ گل بانو کو رد کرچکے ہیں، اب نہ پلٹیں گے مگر حیرت اس امر پر ہوئی کہ انہوں نے اس خبر کا خوش دلی سے استقبال کیا۔ فوراً اپنے رشتے داروں کو اکٹھا کیا اور اطلاع کرا دی کہ گل بانو کی بارات لا رہے ہیں، اسے دلہن بنا کر تیار رکھیں۔
احسان کے سپوت سر جوڑے بیٹھے تھے کہ خود بندوقیں سیدھی کرلیں یا جرگے کے روبرو معاملہ لے کر جائیں کیونکہ گولی چلانے والے ہاتھ کسی مرد کے نہیں، ایک صنف نازک کے تھے اور یہ اپنی نوعیت کا انوکھا مقدمہ تھا۔ بارات ہمارے دروازے پر آپہنچی۔ سسرال والے خوشی کے اظہار کے طور پر اتنی فائرنگ کررہے تھے کہ زمین دہل رہی تھی۔ گل بانو نے عید کا جوڑا زیب تن کر رکھا تھا اور وہ دلہن ہی لگ رہی تھی۔ اگلے دن میری بہن کا سسر، احسان خان کے ڈیرے پر گیا اور ان سے تعزیت کے بعد بولا۔ بیٹو! ہمیں فخر ہے کہ ہماری بہو بے غیرت نہیں ہے۔ جو تاوان لینا ہے، مجھ سے لے لو کیونکہ گل بانو اب ہماری عزت ہے اور بات خون خرابے کی بجائے تاوان پر طے ہوجائے تو اچھا ہے۔ لڑکوں نے سوچا یہ معاملہ اسی طرح سلجھانا ٹھیک رہے گا ورنہ عنبر خان جیسے طاقتور سے دشمنی چل پڑی تو ہم سب کا صفایا ہوجائے گا۔ انہوں نے تاوان میں سو بھیڑیں اور کچھ زمین کا مطالبہ کیا اور عنبر خان نے یہ تاوان ادا کرنے میں تامل نہ کیا۔ یوں ایک بڑی دشمنی کا باب کھلنے سے قبل بند ہوگیا۔ آج میری عمر پچاسی سال ہے اور میں اس فانی دنیا میں تھوڑے دنوں کی مہمان ہوں۔ جب یہ واقعہ یاد آتا ہے تو سارا منظر پھر سے نگاہوں میں گھوم جاتا ہے۔ (ش… پشاور)