یہ کئی برس قبل کا واقعہ ہے، غالباً تیس برس گزر چکے ہیں لیکن ذہنوں پر آج بھی تازہ ہے، لمحہ بھر کو ممانی رابعہ کی صورت نظروں سے محو نہیں ہوتی۔ وہ تھیں ہی اتنی خوبصورت۔ میری فرشتہ صفت ، ہنس مکھ ممانی بے گناہ ہی ماری گئیں۔ وہ میری خالہ کے رشتے کے بدلے میں آئی تھیں۔ خالہ اور ممانی کارشتہ ادلے بدلے کا تھا۔ خالہ گائوں بیاہی گئیں تو ممانی ہنگو آ گئیں، جہاں ہم رہا کرتے تھے۔ وہ ہمارے ساتھ ہی رہنے لگیں۔ جس وقت ان کی شادی ہوئی وہ بہت کم عمر تھیں بمشکل بارہ سال کی، لیکن اپنوں میں شادی ہوئی تھی اس لئے ان کے والدین بے فکر اور خود رابعہ مطمئن تھیں۔ نانی ان کی خالہ تھیں جو ان کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ ہمارے نانا غریب تھے لیکن ان کی محلے میں بہت تو قیر تھی۔ بہو بھی اچھے اخلاق کی آگئی ۔ صورت خدا نے ایسی دی کہ محلے کی عور تیں ان کو دیکھنے آتی تھیں۔ لمبا قد، بڑی بڑی آنکھیں۔ جو دیکھتا بس دیکھتا رہ جاتا تھا۔ ان کے شوہر یعنی میرے ماموں بھی ان کو خوبصورت اور شریف ملے تھے۔ ان کو بہت چاہتے تھے۔ جب شادی ہو رہی تھی اس وقت رابعہ کے والد کے چچازاد بھائیوں نے بہت مخالفت کی تھی لیکن باپ نے کسی کی ایک نہ سنی اور بیٹی کو ہمارے ماموں کے ساتھ بیاہ دیا۔ وقت ہنسی خوشی گزرتا رہا، یہاں تک کہ ان کی شادی کو دس سال بیت گئے ، مگر وہ اولاد کی خوشی سے محروم تھیں۔ بہت دعا، دوا کروائی۔ بالآخر صبر کر لیا۔ ماموں نے دوسری شادی کا مگر کبھی نہ سوچا کہ ان کو رابعہ جیسی شریک حیات مل ہی نہیں سکتی تھی۔ وہ ہم سے بہت پیار کرتی تھیں، ہم کو اپنی اولاد کی طرح سمجھتی تھیں اور ہم بھی ان کو ماں کی طرح چاہتے تھے ، ان کو کبھی بچوں کی کمی محسوس نہ ہونے دی لیکن وقت نے ان سے وفا نہ کی، جبکہ امی ، نانا، نانی، ماموں سب ہی رابعہ کے گن گاتے تھے اور ان سے باوفا تھے۔
ایک دفعہ جب عید قریب تھی، ممانی رابعہ کا بھائی ان کو لینے آیا وہ جانے لگیں تو ہم سے خوب محبت سے گلے ملیں، جاتے ہوئے ہمارے لئے اداس تھیں اور ہم بھی ان کے لئے اداس تھے ،اگر پتہ ہوتا کہ ہم پر ایسا وقت آئے گا کہ ہماری ممانی روٹھ کر چلی جائیں گی تو کبھی جانے نہ دیتے۔ عید کا دوسرا دن تھا، وہ میکے میں اپنے ماں باپ کے گھر تھیں کہ ان کے چچازاد بھائیوں کا چشمے پر کسی سے جھگڑا ہو گیا۔ وہ شخص چشمے سے پانی پی رہا تھا۔ اس آدمی سے ان لوگوں کی شاید دشمنی تھی، بہر حال وہ موقع پر مر گیا تو جھگڑنے والے ممانی کے رشتہ دار بہت پریشان ہوئے کہ اب کیا ہو گا۔ آپس میں صلاح و مشورہ کرنے لگے کہ اب تو ہم کو کوئی حل نکالنا ہو گا، ورنہ پھانسی چڑھ جائیں گے۔ صرف غیرت کے نام پر قتل سے ہی پھانسی سے بچائو ہو سکتا تھا۔ ان میں ایک شیطانی دماغ کا آدمی تھا۔ اس نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ ہم رابعہ کو اس مقتول کے ساتھ بدنام کردیں کہ اس کے ساتھ برے کر تو توں میں دیکھا تو مار دیا، جبکہ رابعہ والدین کے گھر بھاگ کر چھپ گئی ہے۔ ہم میں سے کچھ گواہ بن جائیں گے ۔ یہ لوگ جلدی جلدی رابعہ کے والدین کے گھر پہنچے۔ اس وقت وہ منہ دھورہی تھیں، جب اس نے ان لوگوں کو اتنے خطرناک تیور میں گھر کے اندر آتے دیکھا، پریشان ہو گئی۔ وہ اسی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ تب ہی کہا کہ کیا بات ہے تم لوگ کیوں ایسے گھر میں بھی آئے ہو۔ آواز بھی نہیں لگائی ۔ گھر کے اندر اس طرح آنے کا یہ کو نسا طریقہ ہے ؟ ممانی نلکے پر تھیں جب یہ لوگ نامناسب طریقہ سے آنگن میں آئے تو رابعہ ممانی نے دوڑ کر اپنا دوپٹہ جو چار پائی پر رکھا تھا اٹھا لیا اور سر ڈھانپتے بولیں۔ تم لوگ کیوں آئے ہو کیونکہ ان کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں۔ انہوں نے بپھر کر کہا۔ ہم تم کو قتل کرنے آئے ہیں ۔ یہ تم ہی تھیں نا؟ وہاں چشمے پر ، کیا وہاں پانی کم تھا جو یہاں نلکے پر منہ دھورہی ہو۔ میں منہ نہیں دھور ہی بلکہ نماز کے لئے وضو کر رہی ہوں۔ کیسی بات کرتے ہو؟ اور تم مجھے کیوں مارنے آئے ہو، میرا کیا قصور ہے۔ گھر میں رابعہ کے بوڑھے والدین تھے۔ آواز سن کر وہ ہجرے سے باہر آگئے اور ان لوگوں کے ہاتھوں میں بندوقیں دیکھ کر دہل گئے۔ بھائیوں یہاں تمہارا کون دشمن آچھپا ہے، جس کے پیچھے تم لوگ ہتھیار لے کر آگئے ہو۔ ہمارا نہیں تمہارا دشمن۔ تمہاری عزت اور ہمارے قبیلے کی حرمت کا دشمن اور وہ یہ ہے تمہاری بیٹی رابعہ .. ارے نہیں، یہ کیسی بات کر رہے ہو۔ رابعہ کے باپ کی بزرگی نے سمجھ لیا کہ یہ کچھ الٹا معاملہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس نے ان کی منت سماجت کی کہ میری پاکباز بیٹی کا قصور بتائو۔ اس کی شادی تو میں نے بارہ برس کی عمر میں کر دی تھی۔ تب سے اس نے میکے اور سسرال کے گھر کے سوا کوئی گھر نہیں دیکھا اور نہ ہی گھر سے اکیلے باہر قدم نکالا ہے۔ خدا سے ڈرو اور اس پر بهتان مت لگائو ۔ مگر وہ پتھر دل کہنے لگا۔ ہم نے تمہاری بیٹی کے ساتھ فلاں آدمی کو پکڑا ہے۔ یہ بات سنتے ہی بیچاری رابعہ چکراگئی، کہنے لگی، جھوٹ ہے سراسر جھوٹ ہے۔ رابعہ کے والد کو اندازہ ہو گیا کہ یہ وحشی جان لینے پر اترے ہوئے ہیں اور گھر میں کوئی جوان بازوان کو تھامنے والا بھی نہیں ہے ، تب ہی بوڑھا آدمی ناتوانی کے باوجود جرگہ والوں کی طرف بھاگا۔ ابھی جرگہ بیٹھنے ہی والا تھا کہ وہ ظالم کمرے کی طرف گئے، جہاں ممانی نے خود کو بچانے کی خاطر پناہ لی تھی اور کمرے کا اندر سے دروازہ بند کر لیا تھا۔ یہ تعداد میں چار تھے ، انہوں نے پہلے بندوقوں کے بٹ مار مار کر کھڑ کی کو توڑا پھر دروازے کی زنجیر پر فائر کئے اور پھر کمرے میں تھس گئے۔ ممانی دہائی دیتی رہ گئیں، انہوں نے رحم نہ کیا اندھادھند فائرنگ کرنے لگے ۔ وہ نازک سی ناتواں عورت سانس بھی نہ لے سکی اور دم توڑ دیا۔
جب رابعہ کے والدین اور بہنیں حجرے کے اندر گئیں وہ خون میں لت پت پڑی تھی۔ ماں نے بیٹی کو خون میں ڈوبا پایا تو نیم پاگل ہو گئی اور باپ نے تو دل پکڑا اور فرش پر ایسا گرا کہ پھر اٹھ نہ سکا۔ اب بہنیں بین کر رہی تھیں اور محلے کی عورتوں سے گھر بھر گیا تھا۔ جب ہم کو پتہ چلا کہ ہماری پیاری ممانی کا میکے میں یہ انجام ہوا ہے تو ہم لوگوں کو یقین نہ آیا۔ وہ تو پاکیزہ اور نیک اطوار تھیں۔ پانچ وقت نماز پڑھ ھتی تھیں، ہر وقت باوضو ر ہتی تھیں۔ جب ان کو مارا گیا اس وقت بھی نہ نماز کے لئے وضو ہی کر رہی تھیں میں کہ کہ وہ ظالم بندوقیں تانے سر پر پہنچے تھے۔ ماموں پر تو جیسے غم کا پہاڑ ٹوٹ گیا۔ وہ مرد ہو کر دھاڑیں مار کر رو رہے تھے۔ نانا اور نانی ایسے گر گئے جیسے کہ ان کی کمر ٹوٹ گئی ہو اور ہم ان کی نند کے بچے یوں تڑپ رہے تھے جیسے کہ وہ ہماری سگی ماں تھیں۔ ایسا مثالی پیار اس عورت نے دیا تھا کہ جس کا کوئی تصور بھی نہ کر سکتا تھا، تاہم یہاں یہ پہلا واقعہ نہ تھا ایسا تو ہمارے دیہاتوں میں ہوتا رہتا تھا، جب جاہل اور ظالم لوگ اپنے دشمن کو مار کر اپنی ہی کسی رشتہ دار عورت کو قتل کر کے اس کے پاس لے جا کر لاش کو پھینک دیتے تھے، کہتے تھے کہ ان دونوں کو ہم نے باہم نا جائز روابط رکھنے کے سبب غیرت میں مار دیا ہے۔ ان کو بات چیت کرتے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ زیادہ تر یہ مارنے والے قریبی رشتہ دار مثلاً والد، بھائی، چچا، ماموں ہوتے تھے۔ یوں بے گناہ عورتوں کو مار ڈالتے اور خود پھانسی کی سزا سے بچ جاتے تھے۔ غیرت میں اشتعال سے قتل سرزد ہونے پر پھانسی کی سزا نہیں ہوا کرتی تھی۔ خدا کا شکر ہے کہ اب حالات بدل رہے ہیں، عورت پر آخر یہ ظلم کب تک کچھ قانون بھی وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ ترمیم چاہتے ہیں اور اب ایسا کوئی بل پاس ہو گیا ہے۔ سنا ہے کہ غیرت کے نام قتل پر قاتل کو سزا ملے گی یہ اور معافی نہیں ہو گی۔ ایک واقعہ ہے، ایسے اور بھی بہت واقعے دیہاتوں میں ہوتے رہے ہیں۔
عورت کا قصور ہو کہ نہ ہو، ان قاتلوں کو تو قانون کی آڑ میں جان بخشی درکار ہو جاتی تھی۔ بہر حال کافی عرصہ ہمارے ماموں اور ہمارا ماما سب گھرانہ افسردہ رہا۔ بالآخر نانا جان نے یہ فیصلہ کیا کہ اب وہ اپنے بیٹے کی شادی کر کے دوبارہ ان کا گھر بسادیں گے ، تاکہ افسردگی دل سے ہٹے اور نئی زندگی کی کوئی نوید ملے۔ میرے دو ماموں تھے، بڑے ماموں کی شادی رشتہ داروں میں ہوئی تھی اور وہ اپنی بیوی کے ہمراہ ہنگو کے قریب ایک دوسری بستی میں قیام پذیر تھے ، نانا نے بڑے ماموں کو بلوایا کہ تم ہی کچھ سبیل کرو اور نیاز محمد خان کی دوبارہ شادی کرائو ۔ ان دنوں ہمارے علاقے میں رشتہ بغیر بدلے کے نہیں ملتا تھا۔ چھوٹے ماموں کی عمر خاصی تھی اور بدلے کا رشتہ نانا کے گھر موجود نہ تھا۔ ان کی دونوں لڑکیاں بیاہی جا چکی تھیں۔ میں کم عمر تھی۔ مجھ سے بڑی بہن کا رشتہ بھی میرے بڑے بھائی کے بدلے طے ہو چکا تھا اور ماموں کے لئے لڑکی خرید کر لانے کی نانا میں سکت نہ تھی۔ بڑے ماموں نے کافی سوچا اور آخر کار یہ حل نکالا کہ وہ اپنی سولہ سال کی بیٹی کا رشتہ کسی خاندان میں دے کر اس کے بدلے اپنے بھائی کارشتہ لے لیں۔ میری یہ ماموں زاد زرینہ بہت خوبصورت تھی جو اسے دیکھتار شتہ لینے کی آرزو کرتا۔ اس کے حسن کی وجہ سے کسی بہت اچھے اور خوشحال گھرانے میں رشتہ مل سکتا تھا، لیکن اب اس کو قربان ہونا تھا، تا کہ چھوٹے ماموں کا گھر آباد ہو سکے۔ جس روز زرینہ دلہن بنی وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔ چاند سے مکھڑے پر زیور اس قدر سج رہا تھا جیسے کہ آسمان کی حور ہو لیکن وہ خوش نہ تھی، چہرہ اتر ہوا اور آنکھیں نیر بہارہی تھیں۔ پہلے اس کی شادی میرے دوسرے نمبر کے بھائی سے کرنے کا خیال تھا لیکن پھر چھوٹے ماموں کا گھر بسانے کی خاطر اماں اور بڑے ماموں کی آپس میں صلاح ہو گئی۔ بڑے ماموں نے میری والدہ سے وعدہ کیا کہ وہ اپنی تیسری بیٹی جو ابھی بہت چھوٹی صرف چھ سال کی تھی۔ میرے بھائی کو دیں گے ، تاکہ والدہ زرینہ کا رشتہ چھوڑ دیں، اپنے اجڑ گئے بھائی کا گھر بسانے کی خاطر … ای کیوں نہ مانتیں۔ چھوٹے ماموں سے تو بہت پیار تھا، پھر ان کی بیوی قتل ہو گئی تھی، وہ بہت دکھی بھی تھے۔ امی نے ہاں کر دی، یوں زرینہ کارشتہ ایسے شخص کو دے دیا گیا جس نے اپنی پہلی بیوی کی بیٹی کا ہاتھ میرے چھوٹے ماموں کے ہاتھ میں دینا قبول کر لیا۔ جس شخص نے ماموں کو رشتہ دے کر خود ان کی بیٹی سے شادی کی۔ اس کا نام قادر داد خان تھا۔ وہ بھیٹروں کا بڑا بیو پاری تھا، لیکن اس کی عمر پینسٹھ برس تھی۔ دو بیویاں وفات پاچکی تھیں اور اب تیسری بیوی زرینہ بنی تھی۔