نویں جماعت اچھے نمبروں سے پاس کر لی تو امی ابو بہت خوش ہوئے کیونکہ ان کو امید نہ تھی کہ میں پاس بھی ہو جائوں گی۔ مجھ کو نئی کلاس میں جانے کی بہت خوشی تھی، مزید یہ کہ امی نے چھٹیوں میں ماموں جان کے ساتھ گائوں بھیجنے کا وعدہ کیا تھا لیکن یہ وعدہ اچھے نمبروں کے ساتھ مشروط تھا۔
کچھ وجوہ کی بنا پر امی اپنے میکے نہیں جاتی تھیں۔ میں اپنے ہوش سنبھالنے کے بعد پہلی دفعہ جا رہی تھی، تبھی پھولے نہ سماتی تھی۔ چھٹیاں ہوتے ہی ماموں لینے آگئے اور ہم گائوں روانہ ہو گئے۔ دوران سفر تمام راستہ سوچتی جا رہی تھی کہ وہاں کے لوگ کتنے سادہ ہوں گے جب کہ میں خود سادگی کو پسند کرتی تھی۔ سیدھی سادی لڑکی تھی ان دنوں دنیا کے نشیب و فراز کو اچھی طرح نہیں سمجھتی تھی کہ زمانے میں کیا ہو رہا ہے اور کیونکر ہو رہا ہے۔ بہرحال چند گھنٹوں کے سفر کے بعد ہم گائوں پہنچے۔ دیہات کی فضا میں ایک تازگی ہوتی ہے۔ کھلے آسمان تلے لہلہاتے کھیتوں نے روح میں ایک فرحت بھرا احساس بخش دیا۔ یہاں کے لوگ واقعی بہت ساده تھے۔ دیہاتی لڑکیاں آنِ واحد میں اکٹھی ہو گئیں اور انہوں نے میرے گرد گھیرا ڈال دیا جیسے میں کوئی آسمان سے اتری اپسرا ہوں۔ میں بہت خوش تھی۔ ان سادہ لوح لڑکیوں میں ایک بہت اچھی لگی۔ اس کی شوخیاں دل موہ لینے والی تھیں حالانکہ میں سنجیدہ اور سکون پسند تھی، پهر بھی وہ شوخ میرے دل کو بھا گئی تاہم ایک بات میں نے محسوس کی کہ یہ لڑکی خدیجہ کھل کر نہیں ہنستی تھی اور جب ہنستی تھی، اس کی ہنسی میں اداسی جھلکتی تھی۔ خدیجہ میں جانے کیا بات تھی کہ میری اس کی دوستی منٹوں میں ہو گئی جب کہ میں شہری اور وہ کلی طور پر دیہاتی لڑکی تھی۔ دیگر دیہاتی لڑکیوں کی مانند اس میں اُجڈ پن بالکل نہیں تھا۔ چند دنوں میں ہی اس کے ساتھ دوستی اتنی ہو گئی کہ اب ہم اکٹھی باہر جانے لگیں۔ باہر نکل کر مجھ کو احساس ہوا کہ یہاں کے لوگ خدیجہ کو اچھا نہیں سمجھتے۔ وہ اس سے بے رخی سے بات کرتے اور کسی کا رویہ تو بھرپور اہانت بھرا ہوتا تھا۔ اس کے گھر گئی، وہاں بھی اس کے ساتھ ایسا سلوک تھا۔ ایک بڑا بھائی جمال تھا اور ایک چھوٹی بہن تھی جس کا نام نازو تھا۔ وہ ایک اچھی فیملی تھی۔ اس کے باوجود خدیجہ وہاں خوش نہیں تھی، بس ایک نازو تھی جو اپنی بہن سے پیار کرتی تھی اور اس کا خیال رکھتی تھی۔ جب ماموں کو پتا چلا کہ میری دوستی اس لڑکی سے ہو گئی ہے تو ان کو برا لگا اور انہوں نے میرا اس کے ساتھ میل جول بند کرا دیا۔ میں پریشان ہو گئی۔ آخر ایسی کیا بات ہے کہ یہ لوگ اس بیچاری کو اتنا برا سمجھتے ہیں۔ ایک روز ماموں گھر پر نہیں تھے، وہ مجھ سے ملنے آگئی، تبھی میں نے پوچھ لیا، کیا ہے، کیوں تم لوگوں کو اچھی نہیں لگتی ہو۔ تمہارے بارے میں ان کی رائے صحیح نہیں ہے، اس کی کوئی وجہ ہے؟ وہ مجھے اس بارے میں بتانے سے جھجکنے لگی۔ کہنے لگی کیا کرو گی سن کر، یہ سمجھو کہ:
اے دوست لب کشائی کا موقع نہ دے مجھے
افسانہ میرے دل کا بڑا درد ناک ہے
ایسی دیہاتی اور آن پڑھ لڑکی کے منہ سے شعر سن کر میں ششدر ہوئی۔ سوچنے لگی کہ آخر کون سی بات ہے جس نے اس معصوم لڑکی کو اس عمر میں شاعری سکھا دی ہے۔ یقیناً اس شعر گوئی میں کوئی دوسرا شامل حال تھا۔ كون تها وه …؟ ایک دن دوپہر کے وقت نازو میرے پاس آئی۔ اس وقت نانی باہر تھیں اور نانا کھیتوں پرتھے، میں اور ممانی گھر پر تھیں۔ نازو کو کمرے میں لے آئی اور اصرار کیا کہ تم اپنی بہن کے بارے میں بتائو کیا معاملہ ہے … تب وہ یوں گویا ہوئی۔ سائرہ باجی، یہ خدیجہ آپی ہیں نا… اماں باوا کا کہنا نہیں سنتی تھی۔ اماں منع کرتی تھیں کہ پلیا سے اس طرف مت جایا کرو، وہ ہمارا علاقہ نہیں ہے بلکہ سرکاری علاقے میں آتا ہے، وہاں ایک ڈاک بنگلہ ہے جس میں سرکاری آفیسر آکر ٹھہرتے ہیں۔ یہ پھر بھی ادھر چلی جاتی تھیں۔ گائوں والے … آپ کو پتا ہے کہ اپنی بیٹیوں کو ڈاک بنگلوں کی طرف کبھی نہیں جانے دیتے۔ مگر کیوں…؟ میں نے پوچھا۔ اس لیے کہ ادھر جانے سے کبهی کبهی بربادی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ اب میں آپ کو بتائوں شاید اسی لیے بڑی بوڑھیاں برسوں سے کچھ ایسی کہانیاں سناتی آئی ہیں کہ ڈاک بنگلوں میں جنات رہتے ہیں اور یہ بھوت پریت، کنواری لڑکیوں کو چمٹ جاتے ہیں۔ تو کیا تمہاری بہن کو بھی کوئی جن بھوت چمٹ گیا ہے؟ سائرہ باجی… آپ کو نہیں پتا، خدیجہ آپی کی تو منگنی بھی ہو چکی تھی، اپنے تایا کے لڑکے سے مگر خالد ان کو بالکل اچھا نہیں لگتا تھا۔ وہ بات کرتا تو منہ پھیر لیتی تھی۔ اب آگے سنو … ایک بار یہ اکیلی اس طرف گئیں۔ ڈاک بنگلہ اکثر خالی پڑا رہتا تھا۔ چوکیدار تبھی صفائی کرتا جب وہاں کوئی افسر بابو آکر ٹھہرتا۔ بنگلے کے احاطے میں جامن، بیر اور آم کے درخت ہیں۔ شہتوت بھی لگے ہیں۔ یہ ان کو توڑنے کے لالچ میں جاتیں۔ کئی بار مجھے بھی بہلا کر ساتھ لے لیا کرتیں۔ اماں نے مجھ کو بہت ڈانٹا کہ تو اس کے ساتھ مت جایا کر، جب تو نہ جائے گی تو یہ بهی اکیلی جانے سے ڈرے گی مگر ہماری بہن بڑی نڈر ہے، یہ موقع ملتے اکیلی جا نکلتی، جانے کیوں اتنی سیلانی طبیعت ہے۔ بھلا یہ اتنے کھیت کھلیان کافی نہیں سیر سپاٹے کو، کیا ڈاک بنگلے پہ جانا ضروری تھا؟ خیر پھر یہ ہوا کہ ایک روز یہ وہاں گئیں تو ایک افسر آیا ہوا تھا، اس نے ان کو باتوں میں لگا لیا اور دوبارہ آنے کا وعدہ لیا۔ جامن توڑنے کے بہانے یہ روز چوری چھپے اس سے باتیں کرنے جانے لگیں۔ پہلے تو کسی کو پتا نہ چلا، پھر چوکیدار نے دیکھ لیا، بنگلے کے باغ میں بابو سے باتیں کرتے، وہ خانساماں بھی تھا۔ اس نے کچن کی کھڑکی سے ان کو دیکها تها مگر افسر کے ڈر سے خاموش رہا۔ افسر نے ان کو تحفے بھی دیئے اور شادی کا وعدہ کیا، کہا کہ میں دوبارہ آئوں گا تو بارات لے کر آئوں گا۔ یہ باتیں بابا چوکیدار نے سن لیں اور اس نے ابا کو کہا کہ خدیجہ کو اس طرف مت بھیجا کرو… ابا نے سمجھا کہ ویسے ہی کہا ہے۔ انہوں نے کوئی خاص توجہ نہ دی۔
ایک ماہ بعد ہی افسر دوبارہ آیا۔ یہ دوبارہ ادھر جانے لگیں۔ کچھ گائوں کے لوگوں نے دیکھ لیا۔ انہوں نے افسر کو گائوں سے واپس بھیج دیا اور ابا کو آکر بتایا۔ اب میرے باوا کے کان کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے آپی کو خوب مارا۔ دھمکیاں دیں مگر وہ افسر جاتے جاتے آپی سے وعدہ کر گیا کہ میں ضرور آئوں گا، تم شادی نہ کرنا بلکہ میرا انتظار کرنا۔ وه بابو تو چلا گیا ہماری بہن کی زندگی برباد ہو گئی۔ ایک سال تک وہ نہ آیا۔ یہ اس کی آس میں جیتی مرتی رہیں۔ دن رات اس کا انتظار کرتی تھیں، صرف مجھ سے ذکر کرتیں کیونکہ میں کسی سے آپی کی باتیں نہیں کہتی تھی۔ کبھی کہتیں… جا ذرا دیکھ کر آ ڈاک بنگلے کی بتیاں جلتی ہیں کہ نہیں… ان کو تو ادھر جانے کی بالکل اجازت نہ تھی۔ میں جا کر دیکھ آئی۔ ان کو بتاتی کہ ادھر کوئی نہیں ہے۔ گھپ اندھیرا ہے۔ چوکیدار بھی نہیں ہے، گیٹ پر تالا پڑا ہوا ہے۔ گھر والے ان کی شادی کرنا چاہتے تھے مگر یہ سنتی ہی نہ تھیں۔ اپنے منگیتر سے لڑتیں اور اس کو گھر آنے سے منع کرتیں جس پر تائی خفا ہو گئیں کہ ابھی سے یہ حال ہے، جب بہو بنے گی تو کیا کرے گی۔ تائی اب طرح طرح کی باتیں بنانے لگیں، گائوں والے بھی بدظن تھے، یہی وجہ ہے کہ لوگ ان کو اچھا نہیں سمجھتے اور ان سے صحیح طرح سے بات نہیں کرتے۔ وہ آپی کو آوارہ لڑکی کہتےہیں اور اپنی بیٹیوں کو ان سے ملنے سے روکتے ہیں۔ آپ شہری ہیں، آپی کو شہری بہت اچھے لگتے ہیں۔ وہ آپ سے پیار کرتی ہیں، آپ ہی ان کو سمجھایئے کہ وہ شادی کے لیے مان جائیں ورنہ بھائی ان کو باندھ کر ماریں گے۔ ابھی تو اماں کے منع کرنے پر چپ ہیں اور کچھ نہیں کہتے۔ میں نے نازو سے وعدہ کیا کہ میں اسے سمجھائوں گی۔ تین روز بعد میری ملاقات خدیجہ سے ہوئی۔ میں نے پوچھا کیا یہ سب صحیح ہے۔ وہ بولی۔ ہاں… مجھے اس بابو کا انتظار ہے، مگر تم کو کس نے بتایا ہے؟ میں نے کہا تمہارا ماتھا دیکھ کر سارا حال پڑھ لیا ہے۔ جس نے بھی بتایا ہو تو اس بات کو چھوڑو لیکن میری مانو، اپنے ماں باپ کی فرماں برداری کرو اور شادی کر لو۔ مجھے خالد پسند نہیں ہے۔ وہ دھوتی باندھتا ہے اور سر میں روز کڑوا تیل بہاتا ہے۔ ابھی ہم یہ باتیں کررہے تھے کہ میرے نانا آگئے۔ وہ مجھے کنویں کی منڈیر پر خدیجہ سے باتیں کرتے دیکھ کر ناراض ہوئے اور گھر لے آئے۔
گھر آکر خوب ڈانٹا اور پھر مجھے اسی وقت خالہ کے گائوں بھیج دیا۔ دو ہفتے کے بعد میں واپس آئی تو پتا چلا کہ خدیجہ کی شادی ہو رہی ہے۔ فوراً اس کی طرف گئی، وہ مجهے دیکهتے ہی زارو قطار رونے لگی۔ پوچھا، کیا ہوا ہے؟ کہنے لگی۔ سائرہ تمہارے جانے کے بعد وہ آفیسر بابو آیا تھا، دو تین دن ہم نہیں ملے… ابا کے ڈر سے میں ڈاک بنگلے کی طرف نہیں جا سکی۔ گھر والے میری شادی کر رہے ہیں مگر میں خالد کو دھوکا نہیں دینا چاہتی کیونکہ میرا دل اس افسر بابو کےساتھ ہے، خالد سے کیونکر پیار کر سکوں گی! ابھی وہ یہ بات کر رہی تھی کہ ایک گائوں کی بچی مٹھی میں کچھ دبا کر لائی اور خدیجہ سے کہا۔ یہ بابو نے دیا ہے۔ یہ کہہ کر وہ بھاگ گئی۔ اس وقت وہاں میرے اور خدیجہ کے سوا کوئی نہ تھا۔ خدیجہ پڑھی لکھی نہ تھی، اردو بھی ٹھیک طرح سے نہیں پڑھ سکتی تھی۔ بہرحال اس نے رقعہ میری طرف بڑھا کر کہا تم ہی اس کو پڑھ دو۔ میں نے پرچہ کھول کر پڑھنا شروع کر دیا۔ خدیجہ … رات کو اپنے چند جوڑے کپڑے اور زیورات لے کر آجانا۔ ہم یہاں سے شہر جا کر شادی کر لیں گے۔ یہ سن کر اس کی بانچھیں کھل گئیں اور چہره خوشی سے گلنار ہو گیا۔ کہنے لگی۔ دیکھا… میرا دل گواہی دیتا تھا کہ شہری بابو مجھے بھولا نہیں ہے۔ وہ ضرور مجھ کو یہاں سے لے جائے گا…. لمحہ بھر کو خوش ہوئی پھر افسردہ ہو گئی اور کہا، مجھ کو مشورہ دو میں کیا کروں؟ اور میں نے اسے جو مشورہ دیا، میں آج بھی سوچتی ہوں تو کہتی ہوں کہ کاش میں ایسا نہ کرتی۔ میں نے اس سے کہا کہ تم چلی جائو۔ تمہیں تمہارا پیار بھی مل جائے گا اور تم خالد کو بھی دھوکا نہ دو گی۔ پھر میں گھر آگئی… کل شام کو اس کا نکاح تھا اور پھر رخصتی مگر ہمارے گھر سے کوئی بهی اس کی
شادی میں نہیں جا رہا تھا۔ بہت بے چینی تھی مگر میں اس بارے میں اب صبح کے علاوہ کچھ معلوم نہیں کرسکتی تھی لہٰذا شام کے بعد سوگئی اور صبح جب میری آنکه کهلی تو نانی، نانا سے کہہ رہی تھیں۔ جلدی کرو وہ لوگ تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ میں آنکھیں ملتی صحن کی طرف جانے لگی۔ تبھی ممانی نے کہا۔ مائرہ تم کو پتا ہے کہ خدیجہ کا قتل ہو گیا ہے۔
میرے ہاتھ سے پانی کا برتن چھوٹ گیا۔ کیا کہا ممانی… مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ دل کو دھچکا سا لگا۔ پہلے نانی ان کے گھر گئیں۔ کچھ دیر بعد میں بھی ممانی کے ہمراہ وہاں گئی تو نازو نے بتایا کہ آپی دلہن کے لباس میں تھی۔ نازو نے خود اس کے اصرار پر اس کو باہر تک پہنچایا تھا اور گھر سے تمام جمع پونجی بھی لے گئی تھی لیکن جب گھر میں اس کی غیر موجودگی کا پتا چلا تب بہت دیر ہو چکی تھی۔ جب بھائی اس کو ڈھونڈتا ڈاک بنگلے پہنچا تو وہ وہاں قابل اعتراض حالت میں ملی جبکہ زیور اور نقدی لے کر وہ افسر وہاں سے فرار ہو چکا تھا۔ خدیجہ کو اس نے نشہ آور کوئی شے پلا دی تھی۔ اس کا بھائی جمال بہن کو اس حال میں دیکھ کر غیرت سے آگ کا شعلہ بن گیا اور اس نے فوراً اپنی بہن کو قتل کر دیا اور خود تھانے پیش ہو گیا۔ ماں تو بین بھی نہ کر پا رہی تھی۔ وہ اوٹ پٹانگ باتیں کر رہی تھی۔ لگتا تھا پاگل ہو گئی ہے، باپ بیچاره سکتے میں آگیا۔ تب مجھ کو اپنی ناسمجھی اور عاقبت نااندیشی پر بڑا غصہ آیا کہ میں نے ہی خدیجہ کو مشورہ دیا تھا کہ وہاں چلی جائے۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ محبت کا یہ روپ بھی ہوتا ہے۔ میں نویں کی طالبہ تھی لوگوں کو سمجھنا اور زندگی کا تجربہ مجھے چھو کر بھی نہ گزرا تھا، بار بار خدیجہ کا معصوم چہرہ نگاہوں میں آتا تو آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگتے۔ سوچتی تھی، اے کاش میں گائوں ہی نہ گئی ہوتی، اگر گئی تھی تو خدیجہ سے نہ ملی ہوتی۔ اگر ملنا ہی تھا تو پھر اس کو ایسا مشورہ نہ دیا ہوتا۔ وہ بیچاری تو اپنے بھولپن میں پوچھ رہی تھی، اب مجھے مشورہ دو میں کیا کروں؟ اے کاش! میں اس کو وہاں جانے کا مشورہ نہ دیتی، اس کو روک لیتی، وہ شاید رک جاتی کیونکہ مجھ پر بہت اعتبار کرتی تھی، میری ہر بات مانتی تھی، لحاظ کرتی تھی۔ وہ گائوں کی سیدھی سادی لڑکی تھی اور جس لٹیرے نے اس کو دھوکا دے کر لوٹا، اس رہزن نے یہ بھی نہ سوچا کہ گائوں میں گھر سے نکل بھاگنے کی سزا لڑکیوں کو موت کی صورت میں ملتی ہے۔ جانے وہ کیسا پڑھا لکها افسر تھا کہ اس نے اس معصوم کو لوٹا ہی نہیں، جان کا نذرانہ بھی لے گیا۔ وہ خود تو آرام سے روپوش ہو گیا اور گائوں والے بھی اس کی آفیسری کی وجہ سے اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے لیکن خدیجہ کے ساتھ ساتھ اس کے بھائی کو جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے چکی پیسنا پڑی اور اس کے ماں باپ، بیٹی کی درد ناک موت پر خون کے آنسو رونے پر مجبور ہو گئے ۔ خدیجہ کی سزا اسی دنیا میں اسے مل گئی یا اس جہان میں بھی ملے گی، یہ تو اللہ ہی جانے مگر مجھے یقین ہے اس دھوکے باز ہوس پرست آفیسر کو دہری سزا ملے گی۔ جس نے ایک معصوم کی دوشیزگی کو خاک میں ملا کر اپنا ہی نہیں سارے ملک کا دامن میلا کر دیا۔