Sunday, April 20, 2025

Ghalt Fehmi Ne Mara

یہ نصف صدی سے قبل کی بات ہے۔ مشعال بہت خوبصورت لڑکی تھی، جنوبی پنجاب کے ایک قصبے کی ر۔ رہنے والی، اس کا تعلق ایک سردار گھرانے سے تھا۔ اس کے ماموں کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے بالاج بخت کو سردار تسلیم کر لیا گیا تو مشعال کی منگنی بالاج سے کر دی گئی تھی، حالانکہ وہ شادی شدہ اور ایک بچے کا باپ بن چکا تھا، اس کے باوجود اس کے دل میں مشعال کی محبت مہکتی تھی۔ یہ آپس کے رشتے تھے ، خاندان سے باہر لڑکی کارشتہ نہیں ہو سکتا تھا اور خاندان میں کوئی اور رشتہ اس کے جوڑ کا نہیں تھا۔

منگنی کے وقت مشعال بارہ برس کی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ سر وقد ہو گئی ، تبھی باپ نے اس کا نکاح سر دار بالاج سے کر دیا، رخصتی ایک سال بعد ہو نا قرار پائی۔ ان کے اور بالاج کے گھر کے بیچ صرف ایک دیوار کا فاصلہ تھا۔ وہ جب چاہے اس کے گھر آجاسکتی تھی اور وہ بھی مشعال کے گھر جا سکتا تھا، یہ اس کی پھو پھی کا گھر تھا۔ ان کارشتہ ایسا تھا کہ کوئی انہیں روک نہیں سکتا تھا۔ سردار بالاج مطلق العنان طبیعت کا مالک تھا۔ بستی پر اس کے نام کا سکہ چلتا تھا۔ وہ جو چاہتا تھا وہی ہوتا تھا۔ سردار غیور بھی تھا اور خود سر بھی، جذباتی تھا اور ضدی بھی۔ اس کی بیوی اس کی ان خصوصیات سے اچھی طرح واقف تھی تبھی اس کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کر نا عبث جانتی تھی۔ وہ ایک قبیلے کے سردار کی عزت تھی، اس کی زندگی اور موت اس کی چہار دیواری تک محدود تھی۔ اس نے مشعال اور سردار کے بندھن کو ایک زندہ حقیقت جان کر ذہنی طور پر تو اس سے سمجھوتہ کر لیا تھا لیکن اس کے دل نے سمجھوتہ نہ کیا۔ اس کی زبان ضرور بند تھی مگر دل اندر ہی اندر سلگتارہتا تھا۔ مشعال، سردار کی ہونے والی دوسری بیوی تھی۔ یہ بات تسلیم شدہ تھی ، اس لئے نوکر چاکر اسے سردارنی کا درجہ دینے لگے تھے۔ بالاج بھی گھر آتے ہی پہلے پھو پھی کے گھر جاتا اور مشعال جہاں بھی ہوتی، سردار کے آنے کا سن کر بھاگی ہوئی آتی۔ سردار لوگ اپنی عورتوں کو گھر سے باہر لے جانا معیوب خیال کرتے تھے۔ یہ ان کی روایات اور خاندانی و قار کے خلاف تھا۔ اس کے باوجود بالاج دل کے ہاتھوں مجبور ہو جاتا اور مشعال کی فرمائش پر اکثر اسے اپنے ساتھ شہر لے جاتا، جہاں وہ اپنی پسند سے شاپنگ کر کے خوشی محسوس کرتی۔ وہ بھی اس کے آگے دنیا کی ہر شے ڈھیر کر دینا چاہتا تھا۔ کپڑے ، زیور ، سنگھار کا سامان ، اس کا بس نہ چلتا کہ آسمان سے تارے توڑ کر لے آتا۔ اس توجہ نے مشعال کو مغرور بنا دیا تھا۔ اسے سردار کی محبت پر بڑا مان تھا۔ وہ سمجھتی تھی کہ وہ اس کی ہر بات مان لے گا۔

سردار کی بیوی عزت خانم اپنی آنکھوں سے شوہر کی محبت کا یہ کھیل دیکھتی رہتی اور اندر ہی اندر سلگتی رہتی مگر مہر بہ لب تھی کہ نکاح ہو چکا تھا اور اب رخصتی بھی چند ماہ بعد ہونے والی تھی۔ وہ بے چاری کیا کرتی، خاموشی سے اپنے بہتے ہوئے آنسو پونچھ لیتی اور پھر مسکراتی ہوئی صحن میں آجاتی۔ عزت بی بی سردار سے بہت ڈرتی تھی تبھی کچھ کہنے کا یارا نہ تھا، جبکہ مشعال کم عمر اور الہڑ تھی، خود کو اپنی سوتن سے برتر جانتی تھی۔ ایک فاتح کی طرح اس کے سامنے سر اونچا کر کے چلتی اور عزت خانم کو جلانے کے لئے اس کے سامنے بالاج کے ساتھ باتیں کرنے لگتی۔ عزت خانم ایک مجبور عورت کی مانند یہ سب دیکھ کر اپنی ٹھنڈی آہوں کو دل میں ہی گھونٹ لیتی تھی۔ ان آہوں نے آگ کی طرح سلگا سلگا کر راکھ کر کے اس کے پھیپھڑوں میں سوراخ کر ڈالے اور وہ ٹی بی کا شکار ہو گئی۔ اب اسے ہر وقت بخار رہتا۔ سردار پر عزت خانم کے اس خاموش اور سنگین احتجاج کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ کہتے ہیں مظلوم کی آہ رائیگاں نہیں جاتی۔ شاید اس کی خاموش آہوں نے بھی عرش تک رسائی پائی کہ مشعال کی قسمت کا ستارہ گردش کے گرداب میں پھنس گیا۔ سردار بالاج کو اپنے لوگوں کے کاموں کے سلسلے میں اکثر باہر رہنا پڑتا تھا۔ جب وہ علاقے سے باہر ہوتا مشعال کا جی گھبرانے لگتا، وہ اتاولی سی پھرنے لگتی۔ کبھی باپ کے گھر سے ماموں کے گھر اور کبھی ماموں کے گھر سے پھر باپ کے گھر آتی اور جاتی۔ اس طرح وہ سارا دن بے چین قیدی کی مانند دونوں گھرانوں کے بیچ چکر لگاتی رہتی تھی۔ وہ سوتن سے تو دل کی بات نہ کر سکتی تھی اور نہ یہ پوچھتی تھی کہ سردار کب آئے گا، کتنے دنوں بعد آئے گا اور کہاں گیا ہے۔ تبھی وہ نوکر لڑ کے خانو کا سہارا لیتی ، جس نے جنم ہی سردار کی حویلی میں لیا تھا۔ یہ دو نسلوں سے سردار کے وفادار چاکر تھے۔

خانو بالاج بخت کے گھر کے صحن میں کھیل کر بڑا ہوا تھا۔ اس کی پرورش بھی اسی گھرانے میں ہوئی تھی۔ سردار کے گھر کی خواتین اس سے پردہ نہ کرتی تھیں، لیکن وہ اب میں برس کا نوجوان ہو چکا تھا تبھی سوائے اشد ضرورت اسے گھر کے اندر قدم رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ جب گھر کی خواتین کو باہر سے کچھ منگوانا ہوتا یا کوئی بات کہنی ہوتی تو وہ اس سے دروازے کے پیچھے سے کلام کر سکتی تھیں۔ ایک روز انتہائی بوریت کے عالم میں جبکہ سردار کسی دوسرے علاقے میں گیا ہوا تھا، مشعال نے دروازے پر کسی کی آواز سنی اور دوڑی ہوئی در پر پہنچی۔ اسے معلوم تھا کہ یہ خانو کی آواز ہے۔ اس نے پوچھا۔ خانو کیا بات ہے ؟ سردار صاحب کہہ گئے تھے کہ وہ اپنے کسی دوست کی دعوت میں جارہے ہیں اور دو روز بعد آئیں گے ، گھر میں بتادو۔ ٹھیک ہے خانو، میں بڑی بیگم کو بتادیتی ہوں۔ اس دن مشعال کو معلوم ہو گیا کہ یہ چاکر لڑکا کتنا اہم ہے کیونکہ اسے سردار کے بارے میں باہر کی ہر بات کی خبر رہتی تھی۔ اب جب سردار باہر ہوتا اور مشعال کا جی گھبرانے لگتا تو اسے خیال آتا کہ خانو سے بات کرلے۔ وہ بڑی بیگم سے تو بات کر کے اپنے دل کا بوجھ ہلکانہ کر سکتی تھی۔ اب صرف نانی رہ جاتی تھی، جو ایک بوڑھی عورت تھی، اسے تو کھانسی چین نہ لینے دیتی تھی۔ اس کے پاس بیٹھنے سے مشعال کا جی اور بھی ماندہ ہو جاتا تھا۔ اب صرف ایک ہی فرد خانو بچا تھا، جو اس سے صرف دو سال بڑا تھا۔ وہ گھر کے اندر نہ آسکتا تھا مگر دروازے پر کھڑے رہ کر بات تو کی جاسکتی تھی۔ مشعال اس سے پردہ نہیں کرتی تھی، تبھی بے خوف ہو کر ملازمہ کے ذریعہ اسے ڈیوڑھی میں بلوا کر بالاج کے بارے میں پوچھتی کہ وہ کہاں گیا ہے اور کب لوٹے گا۔ وہ لڑکا بھی سردار کی سر گرمیاں مشعال کے گوش گزار کر دیا کرتا۔ اس طرح خانو اس کے کافی نزدیک ہو گیا یہاں تک کہ جب اسے بالاج کے بارے میں زیادہ تجس ستاتا، اسے گھر کے اندر پتھارے والے حجرے میں بلا لیتی۔ یہ کمروں سے متصل لیکن بیرونی دروازے کی جانب ایسا کمرہ تھا جو سردیوں کے موسم میں آگ تاپنے کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ یہ لوگ اس کو پتھارہ یا پتھاری کہتے تھے۔ جب گھر والوں کا جی مل بیٹھنے کو چاہتا، اس کمرے میں بیٹھ کر آگ بھی تاپتے اور گپ شپ بھی کرتے۔ خان کا حقہ بھی یہاں دھرارہتا اور ضرورت پڑنے پر کمرے کے درمیان چولہے میں انگارے دہکا کر اس پر قہوہ بھی بنایا جاتا تھا۔ جب باپ گھر میں نہ ہوتا تو وہ نوکرانی سے کہتی کہ خانو کو اندر بلا لو۔ خانواس کے حکم کی تعمیل کرتا ہوا پتھارے میں ایک طرف بیٹھ جاتا۔ ملازمہ قہوہ کا برتن چولہے پر رکھ دیتی۔ مشعال ہاتھ تاپتی جاتی اور سردار سے متعلق کرید کرید کر خانو سے باتیں بھی پوچھتی جاتی۔ وہ اسے بتاتا کہ کون سا معاملہ آیا اور سردار نے کیا فیصلہ کیا، جرگہ کب ہو رہا ہے اور کس وجہ سے بلایا جاہا ہے۔ بستی میں کس کا کس سے جھگڑا ہوا، کس نے کس پر گولی چلادی تھی۔ مشعال کے دل میں کوئی کھوٹ اور برائی نہ تھی۔ اس کو تو بس باہر کی خبریں جان کر مزہ آتا تھا۔ یہ باتیں اسے بڑی دلچسپ لگتی تھیں۔ غرض کہ خانو ایک چلتا پھر تا اخبار تھا اور یہی چیز تھی جس کی کشش میں وہ خانو کو پتھاری پر بٹھا رکھتی تھی۔

مشعال کو معلوم تھا کہ اس کا والد خانو سے باتیں کرنے کی اجازت نہیں دے گا اور نہ سردار کو یہ بات اچھی لگے گی، تاہم وہ ایک بے خوف لڑکی تھی شاید اسے اپنے والد اور سردار دونوں کی محبت پر کچھ زیادہ ہی اعتماد تھا۔ ملازمائیں دبے لفظوں اسے منع کرتی تھیں کہ وہ خانو کو پتھاری پر نہ بلایا کرے۔ کسی وقت بھی کوئی آفت آسکتی تھی، مگر مشعال کہتی کہ کچھ نہیں ہو گا۔ بابا اور سردار بالاج بخت کو خانو پر بھروسہ ہے۔ وہ اس کو اپنے بچوں کی طرح چاہتے ہیں، تاہم میں تم کو تاکید کرتی ہوں کہ ان دونوں کو نہیں بتانا کہ میں خانو کو پتھاری پر بلا کر بات کرتی ہوں۔ وہ اکیلی پتھاری پر خانو کے ساتھ نہیں بیٹھتی تھی۔ اپنی خاص خادمہ کو بھی ساتھ بٹھا کر رکھتی۔ اس کو کہہ رکھا تھا کہ جو نہی باباجان یا سردار کے آنے کی آہٹ سنو، فوراً مجھے بتادینا۔ میں خانو کو باڑے میں جانے کا کہہ دوں گی۔ عزت خانم بھی اس بات سے اندیشوں میں گھری رہتی تھی۔ وہ مشعال کو تو نہ روک سکتی لیکن اس نے ملازماؤں کو سختی سے تاکید کی ہوئی تھی کہ خبردار سردار کو اس بات کی بالکل بھی خبر نہ ہونی چاہئے۔ ان کی زبانیں تو از خود بند تھیں۔ ان کی عجب مجبوری تھی۔ وہ مشعال کو روک سکتی تھیں ، نہ ہی مالک سے کچھ کہہ سکتی تھیں، لیکن آنے والی کسی بری گھڑی سے خوفزدہ ضرور رہتی تھیں۔ خانو کا خالہ زاد بھائی جھلو بھی اس خاندان کا پرانا نمک خوار تھا۔ اس کو خانو اور مشعال کا یہ میل جول بالکل پسند نہ تھا۔ کئی بار اس نے خانو کو تنبیہ کی مگر اس نے خالہ کے بیٹے کی بات کو بالکل بھی اہمیت نہ دی، حتی کہ ایک بار گالی گلوچ سے اس کی تواضع بھی کر دی۔ اس پر جھلو نے قسم کھائی کہ میں نے تم کو سردار کی گولی سے نہ اڑوایا تو جھل خان میرا نام نہیں۔ خانو بولا۔ جاجا، بہت دیکھے ہیں تیرے جیسے حاسد ۔ مشعال بی بی چھوٹی سردارنی ہے۔ اس کا حکم ماننا میرا فرض ہے۔ وہ مجھے اہمیت دیتی ہے تو ، تو کیوں جلتا ہے ؟ میں جلتا نہیں مگر تجھ سے تیس برس بڑا ہوں۔ جو رواج ان کے ہیں ، تو نہیں جانتا میں جانتا ہوں۔ تیری یہ وفاداری، کسی دن تجھے موت کی جانب لے جانے والی ہے۔ چپ کر جانمک حرام ! سردار کی عزت پر الزام دھرتے تجھ کو شرم نہیں آتی۔ موت کی سزا ان کو ہوتی ہے جو بدچلنی کرتے ہیں اور ہم بدچلن نہیں ہیں۔ جھلو اب طیش میں آگیا۔ جواب دیا کہ یہ تو وقت بتلائے گا کہ نمک حرام میں ہوں یا تو۔ اب یہ جھلو نے اپنا فرض سمجھ لیا کہ جس روز مشعال خانو کو بلا کر باتوں میں مشغول ہو گی، وہ سردار کو اطلاع کر دے گا۔ اگلے روز جب سردار کسی جھگڑے کا فیصلہ کرنے دوسری بستی جار ہا تھا، جلو نے دبے لفظوں میں خواہش ظاہر کی کہ وہ بھی ساتھ جانا چاہتا تھا لیکن اب نہیں جائے گا۔ کیوں جھل خان ! تم تو ہمیشہ میرے ساتھ چلتے ہو۔ آج کیا ہوا ہے ؟ اس نے کہا۔ جان بخشی چاہتا ہوں، کہنے کا مجھ ہیں حوصلہ نہیں ہے۔ بولو بولو ، تم میرے خاص وفادار آدمی ہو۔ ڈرومت ، جو بات کہنا چاہتے ہو بے دھڑک کہہ دو۔ جناب نمک حراموں کی سزا موت ہونا چاہئے۔ تم کہنا کیا چاہتے ہو ؟ جناب ! کتے کی ذات شفاف پانی کو ناپاک کر دیتی ہے۔ سردار غصے سے تھرا اٹھا۔ کیا کہہ رہے ہو ؟ صاف کیوں نہے کہتے۔ جناب خانو اور چھوٹی بی بی صاحبہ کا کوئی میل نہیں ہے۔ آپ کے جانے کے بعد اکثر وہ گھر کے اندر جاتا ہے۔ اگر یہ بات سچ نہ ہوئی تو جان لے کہ تیرا ہی سر قلم ہو گا۔ جناب میں حاضر ہوں۔ جھلو نے سر جھکا کر کہا۔ آج آپ دو گھنٹے بعد تشریف لائیں آپ کو سامنے والے موڑ پر ملوں گا۔ اچھی طرح سوچ لے جھل خان۔ سردار! بات غلط ہوئی تو میرے بدن کے ٹکڑے چیل کوے کھائیں گے۔

بالاج بخت خان کے گھر سے نکلتے ہی جھلو نے، خانو کی نگرانی پر خود کو معمور کر لیا۔ سردار کو گئے آدھ گھنٹہ گزر گیا تو ملازمہ خانو کے ٹھکانے پر گئی جو دھوپ میں چار پائی ڈالے لیٹا ہوا تھا۔ ملازمہ نے اسے دور سے اشارہ کیا اور واپس حویلی میں چلی گئی۔ خانو فورا اٹھا اور بیرونی دروازے پر پہنچا۔ اس نے دستک دی۔ وہ پتھاری والے حجرے میں بلوالیا گیا، جہاں وہ ایک طرف چوکی پر بیٹھ گیا۔ ملازمہ نے قہوے کی کیتلی چولہے پر رکھ دی تھی۔ سردار صاحب کدھر گیا ہے ؟ مشعال کا پہلا سوال تھا۔ پاس والی بستی میں ، ایک جھگڑے کا فیصلہ کرانے۔ کب تک واپسی ہو گی ؟ غرض اسی طرح کے سوالات کا سلسلہ حسب معمول جاری ہو گیا کہ کہیں خان کسی اور عورت کی طرف تو مائل نہیں ہے۔ اتنے میں قہوہ تیار ہو گیا۔ مشعال کے حکم پر خادمہ نے قہوے کا پیالہ اس کے آگے رکھا۔ وہ چھوٹے چھوٹے گھونٹ لینے لگا۔ بولا۔ بی بی صاحبہ جو کچھ پوچھنا ہے جلدی پوچھ لو۔ کل سردار نے میرے ذمہ کچھ کام لگایا تھا ، مجھے ان کے آنے سے پہلے وہ کام کرنے ہیں۔ وہ دوسری بستی گئے ہیں، اتنی جلدی آنے والے نہیں۔ تم بیٹھو، مجھے تم سے کچھ اور باتیں پوچھنی ہیں۔ اتنی کیا جلدی پڑی ہے۔ آج سردار کی طبیعت افسردہ تھی۔ گھر سے روانہ تو ہو گیا لیکن بیچ راستے سے واپس مڑا اور گھر کی طرف محو سفر ہو گیا۔ ملازمین کام کاج میں مصروف تھے۔ نانی اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اکیلی رہ جانے پر مشعال کا جی گھبرایا۔ وہ چولہے کے پاس بیٹھی آگ سینک رہی تھی۔ خانو آیا تو اس نے جوتے دہلیز کے باہر ہی اتار دیئے۔ وہ قہوہ پی چکا تھا۔ آج اسے انجانا ساخوف محسوس ہو رہا تھا، وہ جلد یہاں سے چلا جانا چاہتا تھا۔ جب وہ جانے کو اٹھنے لگا تو اچانک ہی مشعال بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کی شال پاس رکھے سردار کے حقہ کو لگی اور حقہ گر گیا، تبھی اس نے حقہ اٹھا لیا اور خانو سے کہنے لگی۔ اس کا پانی گر گیا ہے۔ تم اس پر نیا چلم رکھ کر پانی بھی بھر دو۔ کیا تمہارے پاس نیا گل ہے ؟ جی ہے۔ ابا حقہ پیتا ہے ، میں ابھی لاتا ہوں۔ وہ دوڑ کر باہر گیا اور گل لے آیا۔ گل دیتے ہوئے اس نے مشعال کی طرف دیکھا، جہاں الائو کی روشنی نے چراغاں کر رکھا تھا۔ وہ اپنے نام کی لاج تھی، سرخ گلابی دہکتا ہوا رنگ جسے واقعی مشعل جل رہی ہو۔ وہ اتنی خوبصورت تھی کہ اس پر ہزار بار اپنی جان بھی قربان کر سکتا تھا۔ اس نے ”گل “، یعنی مٹی کا بنا ہوا کپ سا چلم اس کے آگے کر دیا، پھر حقہ اس کو پکڑاتے ہوئے بولی۔ لو ، اسے پانی بھر دو۔ کیا تم حقہ پیتے ہو ؟ اِدھر یہ باتیں چل رہی تھیں اور اُدھر جھلو موڑ پر کھڑا تھا۔ سردار کو آتے دیکھ کر اس نے کہا۔ آپ ٹھیک وقت پر آگئے ہیں۔ اب سردار آگے آگے اور بد بخت آدمی اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ ادھر پتھاری والے کمرے میں مشعال اسی لمحے خانو کو حقہ پکڑا کر پوچھ رہی تھی کہ کیا تم حقہ پیتے ہو؟ یہ فقرہ بھی بالاج بخت خان نے اپنے کانوں سے سنا اور حقہ کو پکڑاتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا، تبھی اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اس نے بڑی بیگم کو آواز دی۔ عزت ! میری بندوق لائو۔ سردارنی برآمدے میں تھی، شوہر کے رخ پر تنائو دیکھ کر لرز گئی۔اتنے میں سردار نے جھلو کو آواز دی۔ اندر آجائو اور بندوق مجھے دے دو۔ یہ سن کر عزت خانم تیز قدم اٹھاتی اپنے کمرے ہیں دوڑی۔ وہ سمجھ گئی کہ آج اس کا شوہر ضرور خون بہانے کے ارادے سے بندوق مانگ رہا ہے۔ جھلو اندر آ گیا اور سردار کو بندوق تھما کر باہر چلا گیا۔

خوف کے مارے خانو کے ہاتھ سے حقہ اور چلم دونوں گر پڑے اور قدم حجرے کے فرش پر جم گئے۔ اس میں ہلنے اور بھاگنے کی سکت نہ رہی تھی۔ اسی وقت ضعیف ملازمہ آتی دکھائی دی، سردار گرجا۔ مائی تو ہٹ جامیرے سامنے سے۔ اسی وقت مشعال کو موقع مل گیا اور وہ دروازے سے باہر نکل بھاگتی ہوئی اپنے باپ کے گھر چلی گئی۔ وہ غلط تھے یا صحیح ، بالاج بخت کو یہ سوچنے کی فرصت نہ تھی۔ اس نے مشعال کو خانو کو حقہ تھماتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ بس یہی منظر اس کی غیرت پر تازیانہ لگانے کو کافی تھا۔ مشعال اس کی منکوحہ ، اس کی عزت تھی اور اس کے نوکر کو حقہ پیش کر رہی تھی۔ اس سے بڑی اور کیا توہین ہو سکتی تھی۔ اس نے گرج کر خانو کو للکارا۔ نمک حرام ! کلمہ پڑھ ، تیری موت کی گھڑی آگئی ہے۔ وہ سراسیمہ ہو کر مالک کے قدموں پر گر گیا۔ اس نے اپنی بے گناہی کی قسم کھائی اور بولا۔ بے شک مجھے چخہ منظور ہے۔ میری بے گناہی ثابت ہو جائے گی۔ تیرے لئے چخہ کی ضرورت نہیں ہے۔ تو میرے گھر کے اندر موجود ہے۔ میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں۔ تجھے گھر کے اندر آنے کی اجازت کس نے دی؟ اس قبیلے میں چخہ کی رسم ہوتی تھی۔ جس پر بدچلنی کا شبہ ہوتا تھا، اس کو انگاروں پر سے گزارا جاتا تھا۔ ان دہکتے انگاروں کو چخہ کہتے تھے۔ ان کے مطابق گناہ گار کے پائوں جل جاتے اور وہ ہلاک ہو جاتا جبکہ جو گناہ گار نہ ہوتا، وہ جلنے سے بچ جاتا اور ہلاک نہ ہوتا۔ تجھ کو میرے گھر میں آکر اہل خانہ کے سامنے آنے کی جرات کیسے ہوئی؟ یہ کہتے ہی اس نے خانو پر فائر کھول دیا۔ وہ گر کر تڑپنے لگا۔ فرش اور دیواریں خانو کے خون سے رنگین ہونے لگیں۔ ادھر مشعال گھر کے بیچ، دروازے کو پھلانگتی اپنی حویلی سے دوڑتی نانی کے کمرے میں پہنچی اور اس کے پلنگ کے نیچے چھپ گئی۔ وہ سسک سسک کر پھولی سانسوں سے کہہ رہی تھی کہ نانی ! سردار مجھے مارنے آرہا ہے، مجھ کو بچالو۔ نانی کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ہوا ہے۔ سردار مشعال کو تلاش کرتا ہوا نانی کے کمرے میں آیا۔ اس نے پوچھا۔ اماں جی ، مشعال کہاں ہے ؟ نانی کو بہر حال سنگینی کا احساس ہو گیا تھا۔ وہ بولی۔ مجھے پتا نہیں، کیا بات ہے؟ تم کیوں اسے ڈھونڈ رہے ہو ؟ نانی سچ بتادے ور نہ تجھ کو گولی مار دوں گا۔ وہ زخمی شیر کی طرح دھاڑا۔ عورت ماں ہو یا نانی ، ممتا کا دل رکھتی ہے۔ کہنے لگی۔ مار دے مگر مجھے مشعال کا کچھ پتا نہیں۔ اتنے میں شور سن کر مشعال کا باپ جو ابھی ابھی باہر سے آیا تھا، وہاں پہنچ گیا۔ اس نے ساس سے کہا۔ اماں، بتادے وہ کہاں ہے ؟ میں اس کا باپ ہوں، اس کی زندگی کا تمنائی ہوں۔ مجھ پر اعتبار کر۔ نانی مجبور ہو گئی اور اپنے پلنگ کے نیچے کی طرف اشارہ کر کے بولی۔ بیٹے قسم کھا! اسے مارو گے نہیں۔ باپ نے پیار سے پکارا۔ مشعال نکل آ، میرے ہوتے ہوئے کوئی تجھے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ آمیری بچی، باہر آجا۔ تو اپنے باپ کی امان میں ہے۔ مشعال نے باپ کی آواز سنی تو اس کو ڈھارس ہوئی اور وہ ڈری سہمی باہر نکل آئی۔ باپ نے پیار سے ہاتھ پکڑا اور بالاج بخت کے گھر لے چلا۔

جب وہ پتھاری والے کمرے میں آئے، جہاں خانو کے جسم سے  خون کے فوارے نکل گئے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر مشعال ڈر کر رونے لگی اور دہائی دینے لگی کہ خدا کا واسطہ ! مجھے مت مارنا۔ سردار نے بندوق سیدھی کی مگر گوئی نہ چلی۔ بندوق خالی ہو چکی تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر دیوار سے تلوار کھینچ لی اور مشعال کے والد کی طرف دیکھ کر بولا۔ یہ نوکر کے ساتھ تھی، میں سر پر پہنچ گیا۔ ماما، اب بتا تیری کیا رائے ہے؟ سردار بیٹے ! میری مرضی وہی ہے جو تیری ہے۔ جو تیرے دل میں ہے ، وہ سلوک کرلے۔ وہ بیٹی کو بالاج بخت خان کے سپرد کر کے باہر نکل گیا۔ سردار نے تلوار پھینک کر اس پر وار کیا۔ مشعال نے تلوار کو مٹھی میں پکڑ لیا۔ اس کی پانچوں انگلیاں کٹ گئیں۔ موت کا یہ کھیل کافی دیر جاری رہا۔ ملازمائیں دیکھتی رہ گئیں۔ عزت خانم دہائی دیتی رہ گئی کہ اس کو جان کی امان دے دے۔ خان بولا۔ ہٹ جاؤ ، دور ہو ، ورنہ تجھے بھی… کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ سردار کا ہاتھ روک سکتا۔ وہ مدد کو چلاتی رہ گئی لیکن کوئی اس کی مدد کو نہ آیا۔ اس نے محبت کے واسطے دیئے، بے گناہی کی قسمیں کھاتی رہی۔ جوانی کا زور تھا، جان آسانی سے نکلتی نہیں تھی۔ زندہ رہنے سے بھی پیار بہت تھا۔ تلوار کے وار سہ کر بھی اس کو پکڑتی رہی۔ زندگی کی آخری سانس تک حیات کی اس آخری جنگ میں اس نے اپنی ساری طاقت صرف کردی، پھر آخر کار گر پڑی۔ آخری وار میں سردار نے اس کی شہ رگ پر تلوار پھیر دی اور دونوں کی لاشوں کو گہری کھائی میں پھنکوایا اور خود تھانے پیش ہو گیا۔ چار سال کی قید بھگت کر وہ واپس آگیا۔ آج بھی وہ کمرہ اس بھیانک داستان کی نشانی کے طور پر اسی طرح موجود ہے، جس کی دیواروں پر خون کے دھبے ہیں۔ یہ خون دو بے گناہوں کا ہے، جن کو محض غلط فہمی کے نتیجے میں مار دیا گیا تھا۔

Latest Posts

Related POSTS