Thursday, October 10, 2024

Gham Nahi Bholta

ہم دو بہنیں تھیں، ایک میں ، دوسری لیلی۔ قدرتی بات ہے ماں باپ کو سبھی بچے پیارے ہوتے ہیں لیکن چھوٹی ہونے کی وجہ سے ماں مجھ پر زیادہ توجہ دیتی تھیں۔ ہم بہنوں میں ایک سال نوماہ کا وقفہ تھا۔ دیکھنے میں ، ہم برابر ہی لگتی تھیں۔لیلی شروع سے ہی مزاج کی تیز تھی۔ وہ میرے ساتھ جارحانہ رویہ رکھتی تھی اور جب موقعہ ملتا مار پیٹ بھی کر لیتی، اس وجہ سے امی کو میر ادھیان رکھنا پڑتا تھا۔ لیلی کی چیرہ دستیوں سے بچانے کے لئے وہ مجھے ہمہ وقت اپنے ساتھ رکھتیں اور جب کبھی میں لیلی کے زیر عتاب آجاتی تو دوڑ کر مجھ کو بچالیتیں اور اپنی بانہوں میں بھر لیتیں، تبھی لیلی کو دو چار چپت بھی لگ جاتے تھے۔ اپنی اس اہانت پر وہ دیر تک روتی رہتی۔ یوں بچپن سے ہی اس نے مجھ سے دشمنی پال لی۔

اس طرح کی لڑائیاں بہن بھائیوں میں ہوتی ہی ہیں مگر لیلی یہ سمجھنے لگی تھی کہ ماں صرف مجھے چاہتی ہیں ، اس سے پیار نہیں کرتیں۔ وہ اکثر ابا سے شکوہ کرتی کہ ماں چھوٹی کو گود میں اٹھائے رکھتی ہیں اور مجھے مارتی ہیں۔ والد نے مذاق میں میرا نام گود چڑھی رکھ دیا تھا وہاں لیلی کو نک چڑھی کہہ دیتی تھیں۔ معلوم نہیں کب لیلی کے دل میں حسد کی چنگاری نے آگ پکڑ لی اور پھر یہ آگ اندر اندر اسے سلگانے لگی۔ اس چنگاری کی تپش کو بچپن کے دنوں میں کسی نے محسوس نہ کیا تھا۔ بچپن بیت گیا اور ہم بہنوں نے شعور کی منزل پر قدم رکھ دیا۔ میں تو سمجھ دار ہو کر لیلی آپی سے محبت کرنے لگی مگر ان کے دل سے میرے لئے بغض و عناد نہ گیا۔ جب موقعہ ملتا، چھبتے ہوئے فقرے کستیں، میری چیزیں خراب یا گم کر دیتیں۔ میں بس رو کر چپ ہو جاتی، اس کے باوجود میں ان سے نفرت نہ کر سکی۔ میں ان کے لئے اچھا سوچتی تھی تاہم ان سے ڈرتی اور دبی دبی رہتی۔ وہ میرے بارے غلط باتیں کرتیں، الزام لگا تیں، تو بھی خاموش رہتی، البتہ اماں کو بڑی بیٹی کی ایسی باتیں بری لگتیں۔ وہ ان کو روکتی ٹوکتیں اور کبھی کبھار میری طرف داری میں برا بھلا بھی کہہ دیا کرتی تھیں۔ ظاہر ہے وہ ماں تھیں اور ماں اپنے سب بچوں کی فطرت کو جانتی ہے، یہ بھی کہ کس کی زیادتی ہے ، تب لا محالہ اس بچے کو آنکھیں دکھاتی ہے اور جو بے قصور ہو اس کی حمایت تو سبھی کرتے ہیں۔ یہ باتیں بھی لیلی کو کھلتی تھیں۔ جب والد ہمارے لئے چیز میں لاتے ، وہ پہلے اٹھا لیتی اور میرے حصے کی چیزوں کو توڑ کر خراب کر دیتی یا باہر پھینک دیتی، اس طرح میرے جوتے ، چوڑیاں، کلپ غرض جو بھی شے میرے حصے کی ہوتی، اس کو ضائع کرنے سے نہ چوکتی۔ میرے حصے میں آنسو ہی آتے۔ میں بچپن سے شریف الطبع تھی، تبھی اماں ابا سے شکایت لگانے کی بجائے خاموشی اختیار کر لیتی۔ مجھے جھگڑے سے خوف آتا تھا۔ نہیں چاہتی تھی کہ ہر روز چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا ہو اور ہمارے گھر کا ماحول خراب ہو۔ جس طرح ہم اپنے ماں باپ کی دو بیٹیاں تھیں، اسی طرح میرے چچا کے بھی بس دو ہی بیٹے تھے۔ فواد اور سعد ، فواد چالاک جبکہ سعد بھولا بھالا تھا۔ والد اور چچانے مشورہ کیا کہ لیلی کی شادی فواد اور میری سعد سے کر دی جائے، تاکہ گھر کی لڑکیاں گھر میں رہیں۔ اس بات پر سبھی نے اتفاق کیا۔ پہلے لیلی اور فواد کو رشتہ ازدواج میں باندھ دیا گیا اور ان کے تین برس بعد میر ا بیاہ سعد سے ہو گیا۔ جب تک چاچا چاچی زندہ رہے ، ہم سب ایک ہی گھر میں رہے۔ بڑا بیٹا ہونے کی وجہ سے سسر صاحب نے تمام اختیار پہلے ہی فواد بھائی کو سونپ رکھے تھے ، یوں بھی سیدھا سادہ ہونے کی وجہ سے سعد تمام معاملات سے الگ تھلگ ہی رہتا تھا۔

ہمارا گھر پہاڑی علاقے میں تھا، جہاں خودرو چراگاہیں تھیں اور گھاس خوب اگتی تھی۔ یہاں کے لوگوں کا اکثریتی پیشہ بھیڑ بکریاں پالنا تھا۔ ہمارے سُسر کی بھی چار پانچ سو بکریاں تھیں۔ وہ ایک بڑے ریوڑ کے مالک اور کافی خوش حال تھے۔ اس کے علاوہ زرعی اراضی بھی تھی۔ اراضی اور پیدوار کے معاملات ان کے بڑے بیٹے یعنی کہ لیلی آپی کے شوہر فواد بھائی سنبھالتے تھے اور ریوڑ کی دیکھ بھال سعد کے ذمے تھے۔ میرے شوہر اس کام میں خوش تھے۔ ان کو مالی معاملات سے کوئی سروکار نہ تھا، یہ معاملات فواد بھائی اور چاچا جی ہی سنبھالتے تھے۔ ایک جگہ کھانا پکتا اور دو وقت کی روٹی سب اکٹھے مل جل کر کھاتے تھے۔ اس کے سوا کسی چیز کی سعد کو چاہ نہیں تھی۔ چاچانے اپنے بڑھاپے کے سبب اراضی اور پید اور کی دیکھ بھال فواد کے ذمے ہی لگادی۔ وہی فصل اُٹھاتا، اس کی فروخت ، آڑھتوں سے لین دین اور حساب کتاب سب اس کے پاس تھا۔ ہمیں صرف ضرورت کی اشیاء، کپڑا، تیل ، صابن وغیرہ خرید کر دے دیا جاتا تھا۔ وہ ہم کو اپنی مرضی اور پسند کی اشیاء خرید کر لادیا کرتے جو لیلی مجھے اپنے ہاتھ سے دیتی اور خود کو مجھ سے بر تر خیال کرتی اپنا محتاج سمجھتی تھی کیونکہ وہ دینےوالی اور میں لینے والی تھی، ضرورت کی بھی چیز یں مجھے اس سے مانگنی پڑتی تھیں ۔ لیلی اس گھر کی بڑی بہو تھی۔ وہ جو چاہتی کرتی، جو لینا ہو تا لے لیتی ، جتنا چاہتی خرچ کرتی کیونکہ کیش تو اس کے شوہر کے پاس ہوتا تھا۔ میں اپنے آپ کو بے بس اور بہن کا محتاج سمجھتی تھی۔ اپنی کوئی آرزو پوری نہ کر سکتی تھی۔ وہ خوشبودار صابن سے نہاتی تھی اور مجھے کپڑے دھونے والا خراب صابن بھی مشکل سے ملتا تھا۔ میں لیلی پر رشک کرتی جبکہ وہ میری جیٹھانی ہی نہیں، سگی بہن بھی تھی۔ ایک ہی گھر میں ایک بہو کی حیثیت مالکہ کی، جبکہ دوسری بہو نو کرانی ایسی تھی۔ کبھی سعد سے شکوہ کرتی تو وہ کوئی اثر نہ لیتا، بلکہ اپنی کھال میں مست رہتا کہ جیسی زندگی اللہ کی طرف سے مل گئی ہے ، اسے صبر و شکر سے گزارو۔ شکوہ مت کرو۔ وہ سمجھاتا تھا اور میں مجبوراً چپ رہتی، مگر اس تفریق پر میرا دل کڑھتا بہت تھا کہ میں بھی اسی گھر کی بہو تھی۔ میں بھی اتنی ہی حق دار تھی جتنی میری بہن لیلی تھی مگر وہ اس حق کو تسلیم کرنے پر کسی طرح تیار نہیں تھی اور مجھ کو جوتی کی نوک پر رکھے ہوئے تھی۔ میری چاچی مسکین سی عورت تھیں۔ وہ اپنے کام سے کام رکھتیں۔ ہم صرف جیٹھانی دیوانی ہی نہیں، بلکہ سگی بہنیں بھی تھیں لہذا وہ ہمارے معاملات میں دخل دینا مناسب نہیں سمجھتی تھیں اور کسی کو کچھ نہیں کہتی تھیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ میرے شوہر کو بھی تو کسی بات کی شکایت نہیں تھی۔ اگر وہ میرے لئے آواز اُٹھاتا تو ضرور میرے ساس سسر بھی توجہ دیتے مگر وہ تو بس اللہ والا بندہ تھا۔ اس کی خود کی کوئی خواہش تھی اور نہ ارمان، جو مل جاتا کھا لیتے ، جو وہ پہنے کو دے دیتے پہن لیتے۔ جوتا پھٹ جاتا تو یہ نہ کہتے کہ نیالے دو۔ لگتا تھا کہ ان کا دل ہر قسم کے جذبات سے عاری ہے ، مگر میرے تو ارمان تھے۔ جب فواد بھائی لیلی کے لئے عید پر نئے جوڑے، پرس، جوتی، چوڑیاں اور پر اندے لاتے اور مجھ کو عام کاٹن اور ململ کا دوپٹہ ملتا تو مجھے اہانت محسوس ہوتی ، تب میرا دل خون کے آنسو رونے لگتا۔ سوچتی کہ آخر اتنی بے انصافی میرے ساتھ کیوں ؟ زمین تو دونوں بھائیوں کی برابر ہے ، مویشی بھی برابر کے ہیں، پھر آمدنی پر بھی تو دونوں بھائیوں کا برابر کا حق ہونا چاہئے۔ کیا ہوا جو فواد بھائی بڑے ہیں اور چاچا جی نے انتظام ان کے ہاتھوں میں سونپا ہوا ہے۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ چھوٹے بھائی اور اس کی بیوی کو نوکر کی جگہ رکھا جائے اور کھانے پینے کو بھی جھوٹادیا جائے۔ ہم بھی ان کی اولاد تھے ، چاکر بیلی تو نہ تھے کہ ہمارے ساتھ ایسا سلوک ہوتا۔

جب اپناہی بند ا مار ہا ہو تو پھر گلہ کس سے .. ! شوہر نے ساتھ نہ دیا تو میں نے بھی یہ سوچ کر صبر کرنا سیکھ لیا کہ کبھی تو بٹوارہ ہو گا۔ جب ہمارا حصہ ہمیں مل جائے گا تو میں بھی لیلی کے برابر ہو جاؤں گی۔ پھر وہ غمزدہ کر دینے والا وقت بھی آگیا، جب میرے ساس سسر دونوں تھوڑے تھوڑے وقفے سے اس دنیا سے چل ہے۔ اب گھر کا سر براہ اور املاک کا مالک میرا جیٹھ فواد ہو گیا۔ چاچا، چاچی کی موجودگی کی وجہ سے ہمارے ساتھ روپے پیسے میں ناانصافی کے باوجود آپس میں جھگڑا نہیں ہوتا تھا۔ ان کے رعب کی وجہ سے سب بظاہر سلوک سے رہتے تھے ، مگر ان کے انتقال کرتے ہی گھر میں انتشار اور اور بد سلوکی نے جنم لے لیا۔ میرے چاچا جی سیانے آدمی تھے وہ بڑے بیٹے کو لحاظ کی وجہ سے کچھ نہ کہتے تھے لیکن جانتے تو تھے کہ بڑا لڑ کا چھوٹے بھائی کے ساتھ انصاف نہیں کرتا، لہٰذا جب وہ زیادہ بیمار ہوئے تو انہوں نے دونوں بیٹوں کی ملکیت کے کاغذات اپنی زندگی میں ہی بنوا کر اپنے عزیز دوست یعنی چاچی کے بھائی رحیم بخش کے پاس رکھوا دیے تھے، جو ایک پٹواری تھے اور ان کو تاکید کر دی تھی کہ میرے مرنے کے بعد زمین دونوں بھائیوں میں برابر برابر تقسیم کر دینا۔ مکان اور مال مویشی کی تقسیم بھی منصفانہ کر دینا۔اس بات کا علم شاید فواد اور لیلیٰ کو نہیں تھا۔ والدین کے وفات پاتے ہی انہوں نے ہماری ضرورت کو پورا کرنے سے انکار کر دیا۔ تمام زیور بھی قبضے میں لے کر بیچ دیاور اس رقم سے اینٹوں کا بھٹہ لگا لیا۔ جب سونا اور میں خرچے کی خاطر تنگ پڑے تو انہوں نے میرے شوہر سے کہا کہ تم کوئی کام کرنا نہیں جانتے تو بہتر ہے کہ میرے اینٹوں کے بھٹے پر مزدوروں کی نگرانی کرو، ورنہ میں تم کو کھانے پینے کو ایک دھیلہ بھی نہیں دوں گا۔ بچارے سعد نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ وہ بڑے بھائی کا ادب کرتا تھا۔ اب اس کا یہی کام تھا کہ سویرے بھٹے پر جاتا، دو پہر کو آکر روٹی کھاتا اور کام کرنے والے مستریوں کی روٹی باندھ کر بھٹے پر چلا جاتا۔ ادھر لیلی اور زیادہ مجھ پر شیر ہو گئی۔ گھر کا سارا کام کرواتی ، پھر بھی برا بھلا کہتی رہتی، گالیوں سے بھی نہ چوکتی۔ دیور کا اسے پتا تھا کہ یہ تو کچھ کہے گا نہیں۔ اگر بیوی شکوہ کرے گی تو اس کو ہی چپ کرادے گا۔ ایک دن لیلی نے مجھ سے کہا۔ اناج کی بوری صاف کر دو۔ تمہارا شوہر چکی پر پیسنے کے لئے دے آئے گا، آٹا ختم ہو گیا ہے۔ اس روز مجھے بخار تھا اور جسم میں بہت درد ہو رہا تھا۔ میں نے کہا۔ آج اکیلی بوری صاف نہ کر سکوں گی، مجھے بخار ہے۔ تم تھوڑا سا آٹا چکی سے مول منگوالو، میں کل بوری صاف کر دوں گی۔ میرا اس قدر کہنا تھا کہ وہ مشتعل ہو گئی اور جوتا اٹھا کر مارنے کو دوڑی۔ ساتھ ہی کہتی جاتی تھی کہ حرام خور ! تم میاں بیوی دونوں مفت کی روٹیاں توڑ رہے ہو ، ہمارا دیا کھاتے ہو اور کام سے جی چراتے ہو۔ وہ جھگڑا کر رہی تھی کہ میری ساس کے بھائی پٹواری کریم بخش ادھر آنکلے ۔ انہوں نے جو یہ دیکھا تو میری بہن پر بہت خفا ہوئے۔ کہنے لگے۔ تو کس بات پر اس قدر چڑھ کر بول رہی ہے ؟ اور اس غریب پر ظلم کر رہی ہے۔ تجھ کو خبر ہے کہ رحمہ بھی اتنی ہی مالک ہے، جتنی تو ہے۔ میں آج ہی تحصیلدار سے کہہ کر ساری زمین جائیداد اور مال کا بٹوارہ کر ادیتا ہوں۔ کاغذات میرے پاس ہیں۔ اس مکان کے بیچوں بیچ کل میں خود دیوار بھی تعمیر کروادوں گا۔ تو سمجھتی کیا ہے اپنے آپ کو ؟ سگی بہن سے اتنی دشمنی …

اگلے دن وہ صبح ہی صبح آگئے۔ میں ان کو ماماجی کہتی تھی۔ ماماجی ساتھ مستری اور مزدور بھی لائے اور مکان کے در میان دیوار اٹھوانے لگے۔ انہوں نے فواد سے اجازت لی اور نہ سعد سے کچھ کہا۔ وہ بولے۔ میں تمام کاموں کا مختار کار خود ہوں۔ اس معاملے میں مجھے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ تین دن میں دیوار مکمل ہو گئی۔ یوں میرے جیٹھ اور جیٹھانی اس طرف ، میں اور سعد اس طرف رہ گئے۔ سعد نے پھر بھی کسی سے کچھ نہ کہا۔ وہ اسی طرح روز روٹی لے کر بھٹے پر جاتا اور اپنی ڈیوٹی دیتا رہا، جو بڑے بھائی نے اس کے ذمے لگائی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ لیلی اور فواد بھائی نے اس کے بعد آپس میں کیا صلاح کی کیونکہ ماما جی کی مداخلت اُنہیں بہت ناگوار گزری تھی، مگر وہ جانتےتھے کہ ماما جی کے مقابلے پر آئے تو وہ ان کو عدالت تک گھسیٹ لے جائیں گے ، یوں وہ بظاہر خاموش ہو گئے۔ ماما جی نے صاف کہہ دیا تھا کہ اس مرتبہ فصل آدھی سعد کے گھر جائے گی ، آدھی فواد کے گھر ، دیگر آمدنی ذرائع کا بھی حساب دینا ہو گا ، ورنہ میں زمین الگ کر دوں گا پھر جس کا جو جی چاہے ، کرے۔ جتنا محنت کریں گے ، اتنا ہی پھل کاٹیں گے مگر میرے جیتے جی بڑا بھائی چھوٹے کا حق نہیں مار سکے گا۔ اس معاملے کو چھ ماہ گزرے تھے۔ ایک دن سعد روٹی کھانے گھر آیا۔ میں نے مستریوں کی روٹی رومال میں باندھ کر اس کو دی۔ وہ روٹی لے کر چلا گیا اور جاتے جاتے کہہ گیا کہ فواد لالہ کام سے شہر گیا ہوا ہے۔ آج مجھ کو بھٹی دہکانی ہے ، اس لئے میں دیر سے گھر آؤں گا۔ روز وہ سر شام گھر لوٹ آتا تھا۔ آج شام نہیں آیا تو میں لیلی کے پاس گئی اور کہا۔ اپنے لڑکے کو بھیج کر ذرا پتا کرا دو۔ سعد ابھی تک نہیں لوٹا، میراجی گھبرا رہا ہے۔ وہ بولی۔ وہ وہیں سو گیا ہو گا۔ تم فکر نہ کرو، صبح آجائے گا، تم گھر جا کر سو جاؤ۔ فواد بھی شہر گیا ہوا ہے۔ وہ سعد کے ذمے بھٹی کا کام لگا کر گیا ہو گا۔ بھٹی کی آمدنی میں سے آدھی کا حق دار بننا ہے تو کام بھی کرنا ہو گا۔ لیلی کے تیور دیکھ کر میں چپ ہو گئی اور الٹے قدموں لوٹ گئی۔جوں جوں رات گزرتی جارہی تھی، میری بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔ کسی پل چین نہیں آرہا تھا۔ کبھی سوچتی کہ خود جا کر دیکھوں، سعد کیوں نہیں آیا، پھر خیال آتا کہ اتنی رات گئے اکیلی گھر سے نکلوں گی تو وہ ناراض ہو گا۔ یونہی سوچوں اور دلیلوں میں رات گزر گئی اور پلک نہ جھپکی۔ صبح ہوئی پھر دن چڑھنے لگا۔ سعد کو نہ آنا تھا، وہ نہ آیا۔ تبھی خود پر قابو نہ رہا اور میں دس بجے کے قریب گھر سے نکل پڑی۔ بھٹہ زیادہ دور نہیں تھا۔ سوچا، برا بھلا کہے گا تو کہے ، مگر اب میں جا کر دیکھوں گی ضرور کہ کیوں وہ نہیں آرہا۔ لیلی کو کچھ کہنا بیکار تھا۔ میں اس کے لب و لہجے کی سختی کو برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ جانتی تھی کہ بہن کیسا کررا جواب دے گی۔ بھٹے پر پہنچی تو دیکھامز دور بچے ہوئے گارے سے کچی اینٹوں سے سانچے بھر کر رکھتے جا رہے تھے اور بھٹی کی چمنی سے خوب کالا کالا دھواں اٹھ رہا تھا۔ بھٹی کا منہ بند ہو چکا تھا اور کچی اینٹیں پکنے کے لئے چنی جارہی تھیں۔ رات ہی سے بھٹی سالگا دی گئی تھی۔ میں نے ایک مزدور کو بلا کر پوچھا۔ سعد کہاں ہے؟ وہ بولا۔ مجھے خبر نہیں، شاید گھر میں ہو گا۔ گھر سے تو میں آرہی ہوں پتا کرنے کہ وہ کل یہاں آیا تو پھر رات کو بھی نہیں لوٹا۔ بی بی میں بیمار تھا، کل چھٹی پر تھا۔ مجھے کل کے بارے کچھ پتا نہیں۔ میں مستری سے پوچھ کر بتاتا ہوں۔ شاید اس کو پتا ہو۔ یہ کہہ کر وہ سامنے بیٹھے ہوئے آدمی کے پاس چلا گیا۔ اس سے بات کر کے آیا اور کہنے لگا۔ وہ کہتا ہے ، ہمیں پتا نہیں ، وہ کل روٹی دے کر واپس گھر چلا گیا تھا۔ پریشان ہو گھر آگئی مگر کسی پل چین نہیں تھا۔ فواد بھائی بھی ابھی تک شہر سے نہیں آیا تھا۔ میں پیدل ہی ماما کے ڈیرے پر چل پڑی۔

چار کوس کا فاصلہ میں نے منٹوں میں طے کر لیا اور ماماجی کو جا کر بتایا کہ کل سے سعد غائب ہے۔ وہ اینٹوں کے بھٹے پر گیا تھا اور فواد لالہ شہر گیا ہے۔ ماماجی بچارے اُسی وقت میرے ہمراہ آئے۔ انہوں نے بھٹے پر جا کر پتا کیا مگر کسی نے کچھ نہ بتایا۔ شام کو فواد بھائی بھی آگئے۔ ماما کے ساتھ وہ بھی سعد کی تلاش میں لگ گئے۔ دونوں قریبی گاؤں میں جہاں جہاں رشتہ داروں کے گھر تھے، وہاں پہنچے۔ سب سے پوچھا، سب نے ہی لا علمی کا اظہار کیا، پھر وہ سعد کی گمشدگی کی اطلاع کرنے تھانے چلے گئے۔ پولیس آئی اور بھٹے پر کام کرنے والے مستری اور مزدوروں کو پکڑ کر لے گئی۔ ان کو بہت مارا تو ایک مستری نے بتایا کہ جب مزدور چھٹی کر کے چلے گئے تھے تو ہم تین آدمی بھٹے پر موجود تھے کیونکہ ہم نے یہیں رہنا تھا اور بھٹی سلگانی تھی، ہم نے فواد لالہ کے کہنے پر سعد کو بھٹی میں ڈال دیا۔ اس نے اس کام کے لئے ہمیں بھاری رقم دی تھی۔ بھٹی کھلوائی گئی، مگر فواد کہاں تھا؟ وہ تو راکھ ہو چکا تھا۔ پولیس فواد کو گرفتار کر کے لے گئی اور اپنے ہی بھائی کو جلانے کے جرم میں اُسے جیل ہو گئی۔ کیس چل رہا تھا، میں فواد کو رورو کر کوستی تھی کہ خدا کرے اسے پھانسی ہو جائے۔ اس نے میرا تو گھر اجاڑا تھا، اپنا گھر بھی اجاڑ دیا تھا۔ زمین تو اسی طرح انصاف سے تقسیم ہوئی مگر لالچ نے خود اس کی اور سیدھے سادے سعد کی زند گیاں بھینٹ لے لیں۔ اب میری اپنی بہن لیلی سے بول چال بند ہو چکی تھی۔ ہمارے بچے بھی ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے تھے۔ گھر کے ساتھ گھر اور زمین کے ساتھ زمین جڑی ہوئی تھی لیکن دل ایک دوسرے سے کوسوں دور تھے۔ آج اس واقعہ کو پچاس سال بیت گئے۔ ہمارے بچے بڑے ہو گئے ، لیکن دل جو دور ہوئے تو یہ دوری آج بھی نہیں مٹی۔ شاید کبھی اب ہم ایک نہ ہو سکیں کہ سعد کا غم میں نہیں بھولی۔

Latest Posts

Related POSTS