عفت میری رشتہ میں بھتیجی ہوتی تھی۔ گرچہ دور کا رشتہ تھا، پھر بھی اس کے والد قدیر بھائی کبھی کبھار ہماری خیریت دریافت کرنے آجاتے تھے۔ جب سنا کہ ان کی بیٹی بنگلہ دیش سے آئی ہے تو میں اس سے ملنے چلی گئی۔ وہ معصوم سی لڑکی تھی جو ڈھاکہ فال کے بعد وہاں ماں کے پاس رہ گئی تھی۔ ان دنوں قدیر بھائی مغربی پاکستان میں کاروبار کے سلسلے میں مقیم تھے۔ یوں وہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے سبب واپس اپنے کنبے میں نہ جاسکے اور یہاں ٹھہر کر حالات کے سدھرنے کا انتظار کرنے لگے۔ اس دوران انہوں نے اپنا کاروبار شروع کرنے پر توجہ مرکوز رکھی تاکہ جب مناسب وقت آنے پر بیوی بچوں کو لائیں تو ان کی رہائش اور روزی روٹی کا بہتر انتظام موجود ہو۔
حالات کے سدھرنے میں وقت لگ گیا۔ عفت جو ننھی منی سی تھی، بڑی ہوگئی لیکن اپنے باپ کو نہ بھولی جب اس کی ماں فوٹو دکھاتیں تو وہ کہتی۔ یہ میرے ابو ہیں اور مجھے ان کے پاس جانا ہے۔ عفت کی یادداشت غضب کی تھی اور وہ اپنے والد کو بہت یاد کرتی، تبھی اس کی نانی کہتی تھیں کہ ایک بار بچی کو باپ سے ملا لائو تاکہ اس کے دل کو سکون ملے۔
قدیر بھائی بھی دل سے چاہتے تھے کہ وہ اپنے بیٹے اور بیٹی سے ملیں لیکن ان کی بیوی بنگلہ دیش چھوڑ کر نہیں آنا چاہتی تھیں۔ وہ ڈھاکہ کی تھیں اور بنگلہ بولتی تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ قدیر واپس آجائے لیکن یہ نہ گئے البتہ بچوں کو یاد کرکے اُداس رہنے لگے۔ قدیر بھائی لاہور کے رہنے والے تھے۔ ان کے دادا اور والد نے ڈھاکہ میں بزنس کیا اور سکونت اختیار کرلی تھی۔ ان کی شادی ایک بنگالی گھرانے میں ہوئی۔ وہ بنگلہ زبان بولتے تھے۔
حالات کچھ درست ہوئے تو فون پر رابطہ رہنے لگا، تبھی قدیر نے سسر سے کہا کہ وہ صغیر اور عفت کو ملانے لے آئیں۔ کچھ دن میرے بچے ساتھ رہیں گے، پھر واپس ماں کے پاس بھجوا دوں گا۔ سسر بوڑھے آدمی تھے، وہ خود نہیں آسکتے تھے۔ وعدہ کرلیا کہ اگر تمہارا کوئی رشتہ دار آ جائے تو ہم بچوں کو تمہارے پاس چند روز کے لیے بھجوا دیں گے، واپس خود آکر چھوڑ جانا۔
قدیر نے منظور کرلیا۔ وہ کاروبار بند کرکے نہیں جاسکتے تھے البتہ ان کا چچا زاد اکثر مال خریدنے قریبی ممالک جایا کرتا تھا، اس کا نام شعیب تھا۔ وہ کبھی کبھار بنگلہ دیش بھی جاتا تھا۔ شعیب اور قدیر بھائی نے مل کر ایک فلیٹ خریدا تھا کیونکہ کرائے کی رہائش سے تنگ آ چکے تھے کہ جب چاہتا مالک مکان خالی کرنے کا نوٹس دے دیتا۔ فلیٹ چھوٹا سا تھا۔ اچھی حالت میں تھا اور پانی وغیرہ کی قلت بھی نہ تھی جب سے یہ رہائش لی تھی، دونوں کو سکون مل گیا تھا۔
شعیب شادی شدہ تھا، اس کی بیوی بھی بنگالی تھی لہٰذا اس نے مغربی پاکستان آنے سے انکار کردیا تھا۔ گویا دونوں کا مسئلہ ایک ہی تھا۔ رشتہ داری کے علاوہ یہاں کاروباری شراکت بھی کرلی۔ تبھی ایک رہائش ان کے لیے اچھی رہی۔ اس بار شعیب کا دورہ بنگلہ دیش کا نکل آیا۔ اس نے کہا کہ میرا وہاں پندرہ روز کا قیام ہے ۔ اپنی بیوی کو سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ میرے ساتھ کراچی آ جائے، شاید سمجھ جائے ورنہ میں اس کو آزاد کردوں گا کیونکہ وہاں اتنا زیادہ خون خرابہ ہوا ہے کہ اب دوبارہ ادھر کاروبار جمانے کو دل نہیں چاہتا۔
کاش میں بھی اپنی بیوی کو سمجھا سکتا۔ فی الحال تم میرے سسر سے ملنا اور استدعا کرنا کہ اگر کنچن نہیں آتی تو کچھ عرصے کے لیے میرے بچوں کو یہاں بھجوا دیں۔ میں ان کیلئے بہت اداس ہوں۔
شعیب نے وعدہ کرلیا کہ وہ پوری کوشش کرے گا۔ اگر انہوں نے بچوں کو بھیجنے کی ہامی بھرلی تو بچوں کو لانے اور واپس بھجوانے کی کوئی سبیل ہوجائے گی۔ کچھ ضروری کاغذات نکاح نامہ اور برتھ سرٹیفکیٹ وغیرہ لے کر وہ بنگلہ دیش چلا گیا۔ قدیر بھائی کو امید نہ تھی، اس کی بیوی بچوں کو چند روز کے لیے پاکستان بھجوائے گی مگر جب شعیب نے منت سماجت کی اور واپس پہنچانے کا وعدہ بھی کیا تو اس خاتون نے عفت کو جو اس وقت نو، دس برس کی ہوگی، شعیب کے ساتھ بھیج دیا۔
بچی جب والد سے ملی تو بہت خوش ہوئی اور بھائی قدیر بھی نہال تھے کہ میری بچی آگئی ہے۔ اس کی بیوی نے بیٹے کو نہ بھیجا کہ کہیں دونوں بچوں کو پا کر قدیر اسے بھول ہی نہ جائے۔ بچوں کی وجہ سے ناتا جڑا ہوا تھا، امید تھی کہ کبھی واپس آ جائے گا۔
جب مجھے پتا چلا کہ بھائی قدیر کی بیٹی آئی ہے تو میں ملنے گئی۔ بہت پیاری وہ معصوم سی بچی تھی۔ اپنے باپ کو پاکر خوش نظر آرہی تھی۔ قدیر بھائی نے ایک بوڑھی ملازمہ رکھی ہوئی تھی۔ شعیب اور قدیر کے فلیٹ کی صفائی کرتی اور ان کے لیے کھانا بھی بناتی تھی۔ تمام گھریلو کام سرانجام دیتی۔ بوڑھی عورت کا ایک بیٹا تھا۔ وہ کسی فساد میں ہلاک ہوگیا تھا۔ اس کا کوئی نہ رہا تھا۔ قدیر کے گھر پناہ لے لی اور اس کو بیٹا بنا لیا۔ رات دن یہاں رہنے لگی۔ ان لوگوں کو بھی اپنے گھریلو کاموں کے لیے ایک بوڑھی اماں کی ضرورت تھی۔ دونوں اس کی ضروریات پوری کرتے اور اس کا خیال رکھتے تھے۔ وہ رات کو ان کے فلیٹ کے ٹی وی لائونج میں سو جاتی تھی۔
جب بچی آگئی تو اماں رضیہ خوش ہوگئی۔ دن بھر اکیلے رہنے کی وجہ سے اس کا دل گھبرا گیا تھا۔ بچی کی آمد اس کی زندگی میں بہار کی ہوا کا جھونکا تھا۔ وہ کچن میں کام کرتی اور عفت سے باتیں بھی کرتی جاتی۔ اس کو کہتی تم اپنے ابا سے بہت پیار کرتی ہو، ان کے پاس رہنا چاہتی ہو تو میں خود بنگلہ دیش جاکر تمہاری ماں کو سمجھائوں گی کہ وہ تمہارے ابا کے پاس یہاں آ جائیں۔ عفت کہتی، ہاں دادی ماں آپ ضرور میرے ساتھ بنگلہ دیش چلنا، میری اماں کو سمجھانا، مجھے ابا کے ساتھ رہنا اچھا لگتا ہے لیکن میں اماں اور بھیا کے لیے بھی اداس رہتی ہوں۔ ان کے بغیر بھی نہیں رہنا چاہتی۔
عفت دو چار دنوں میں رضیہ اماں کے ساتھ گھل مل گئی۔ حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ابھی عفت کو آئے کچھ ماہ ہوئے تھے کہ اس کی والدہ کے فون آنے لگے۔ قدیر میں نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ اب تم بھی اپنا وعدہ پورا کرو۔ بچی کو لے کر آجائو۔ میں عفت کے لیے اداس ہوں۔ قدیر نے بیوی کو ٹالنا شروع کردیا کہ اب آیا، تب آیا، صبر کرو، اتنے سال میں نے صبر کیا۔ ایک آدھ ماہ تم سے نہیں ہوتا۔
دراصل قدیر بھائی کی نیت بدل گئی تھی، وہ عفت کو لوٹانا نہیں چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ بیٹا کنچن کے پاس رہنے دیں گے اور بیٹی کو اپنے پاس رکھ لیں گے، مجھ سے بھی مشورہ کیا۔ میں نے کہا۔ قدیر بھائی اگر ایسا ارادہ کرلیا ہے تو دوسری شادی بھی کرلو تاکہ بچی کو ماں مل جائے، اکیلی بچی تمہارے پاس کیسے رہے گی۔ ابھی تو اکیلی نہیں ہے، رضیہ اماں اس کے پاس ہوتی ہے۔ جب بڑی ہوگی تو کسی اچھے گھر میں شادی کردوں گا۔اگر بچی نے واپسی کی ضد کی تو اسے ماں کے پاس بھجوا دوں گا۔ فی الحال تو رضیہ اماں سے بہل گئی ہے۔
تم اکیلے فلیٹ کے مالک نہیں ہو، شعیب بھی ہے۔ بے شک تمہارا قابل اعتبار دوست اور منہ بولا بھائی ہے اور عفت اس کو چچا سمجھتی ہے لیکن وہ اس کا سگا چچا نہیں ہے، آج تمہیں اس کا ساتھ دینا مناسب لگ رہا ہے، کل نہیں لگے گا۔
میں فلیٹ اس کو بیچ دوں گا یا خود لے لوں گا، وہ کہیں اور چلا جائے گا۔ گویا قدیر بھائی کے پاس ہر بات کا جواب موجود تھا۔ بیٹی کی محبت میں ایسے سرشار تھے کہ بچی کو ماں سے جدا کر رکھا تھا لیکن اسے خود سے جدا کرنا گوارا نہ تھا۔
اماں رضیہ عفت کا بہت خیال رکھتیں اور اس کو بہلانے میں کوئی کسر نہ رکھتی تھی۔ اسی بزرگ خاتون کا پیار پاکر عفت بھی ٹکی ہوئی تھی۔ دو سال گزر گئے اور قدیر بھائی نے بنگلہ دیش واپس نہ بھیجا۔ جب وہ آتے، کہتے کسی اچھی خاتون کو تلاش کردو۔ میں نکاح کرکے گھر بسانا چاہتا ہوں۔ بیٹی میرے پاس آگئی ہے، سکون قلب حاصل ہوگیا ہے، بیٹا رہے ماں کے پاس۔ مجھے پروا نہیں لیکن بیٹی کو میں وہاں نہیں چھوڑ سکتا۔
مجھے عفت کے بارے میں سوچ کر دکھ ہوتا تھا کہ وہ بیچاری دو پاٹوں کے بیچ پس گئی تھی، جب آتی اس کی بات ماں سے فون پر کروا دیا کرتی اور کنچن کو تسلی دیتی کہ فکر نہ کرو ایک روز قدیر کو راضی کرلوں گی، وہ عفت کو تمہارے پاس پہنچا دے بلکہ میں خود لے آئوں گی۔ وہ بیچاری دکھی ہوتی تھی کہتی کاش میں بچی کو اس کے باپ سے ملانے نہ بھجواتی لیکن کیا کرتی، خود عفت اصرار کرتی تھی کہ اس نے ابا کے پاس جانا ہے تبھی بھجوا دیا تھا۔
وقت گزرتے پتا نہیں چلتا۔ عفت سولہ برس کی ہوچکی تھی کہ اماں رضیہ کا ایک روز ہارٹ فیل ہوجانے سے انتقال ہوگیا۔قدیر بھائی کو ابھی تک کوئی مناسب رشتہ دوسری شادی کے لیے نہ مل سکا تھا۔ اب ان کو بھی عفت کی فکر رہنے لگی کہ اکیلی ہوگئی تھی۔جب سے اماں رضیہ کا انتقال ہوا تھا، عفت اداس رہنے لگی تھی۔ تمام گھریلو کام جو اماں رضیہ کرتی تھی، اب اس کو سرانجام دینے پڑتے تھے۔ کھانا بنانا، گھر کی صفائی اور والد اور چچا کے کپڑے وغیرہ دھونا، استری کرنا۔ کبھی کبھی تھک جاتی تو تنہائی سے اکتا کر رونے لگتی، تبھی قدیر نے ارادہ کرلیا کہ وہ اب بنگلہ دیش جاکر عفت کو ماں کے حوالے کردے گا۔ اس عرصے میں اس کا کاروبار خوب جم چکا تھا، روپے پیسے کی کمی نہ رہی تھی۔ وہ باآسانی بذریعہ ہوائی جہاز ایک ملک سے دوسرے ملک آجا سکتا تھا۔ وہ بیٹی کو بھی تسلی دیتا تھا، میری بچی بس چند دن اور صبر کرلو، ہم جلد بنگلہ دیش جائیں گے اور تم اپنی ماں اور بھائی سے مل سکو گی۔
عفت خوش نہ تھی۔ قدیر بھی اس کے دکھ کو محسوس کرنے لگا تھا مگر وہ سخت کاروباری آدمی بن چکا تھا۔ بیٹی کو زیادہ وقت نہ دے سکتا تھا۔ رات گئے وہ اور شعیب گھر آتے تو ان کے آتے ہی وہ سو جاتی۔ وہ بھی دن بھر کے تھکے ماندے اپنے کمروں میں جاکر سو رہتے، صبح سویرے پھر کام پر نکل جاتے۔ کچھ دنوں سے شعیب کا رویہ عفت سے بدل گیا تھا اور بچی کو اپنے اس منہ بولے چچا سے خوف سا آنے لگا تھا۔ پہلے کبھی وہ اکیلے گھر میں نہ آتا تھا لیکن چند دنوں سے طبیعت کی خرابی کا کہہ کر وہ قدیر سے پہلے آجاتا، پھر اپنا کمرہ بند کرلیتا اور نشہ کرکے سو جاتا تھا۔
ایک روز میں مارکیٹ جاتے ہوئے قدیر کے فلیٹ کے نیچے سے گزری تو مجھے عفت کا خیال آگیا اور میں اوپر چلی گئی۔ میں نے بیل دی، اس نے دروازے کے اندر بنے سوراخ پر آنکھ لگا کر دیکھا۔ میں دکھائی دی تو دروازہ کھول دیا۔ اس وقت اس کی حالت قابل رحم تھی۔ وہ روکر مجھ سے لپٹ گئی اور بولی۔ پھپھو
مجھے ابھی اور اسی وقت اپنے گھر لے چلو، میں اب یہاں نہیں رہوںگی۔
میں نے گلے لگا کر اسے تسلی دی، تب اس نے گھبراہٹ کی وجہ بتائی۔ کہا پھپھو اچھا ہوا آپ آگئیں، میں یہی دعا کررہی تھی۔ چند دنوں سے چچا شعیب جلد گھر آجاتے ہیں جبکہ ابا بعد میں آتے ہیں۔ چچا نشہ کیے ہوتے ہیں، میری طرف دیکھتے ہیں تو مجھے خوف آتا ہے۔ آج وہ دوپہر کو آگئے تھے۔ اپنے کمرے میں بیٹھ کر نشہ کرتے رہے۔ شام کو باہر نکلے تو اول فول بکنے لگے۔ تبھی میں دروازہ کھول کر پڑوسن خالہ شفق کے پاس چلی گئی اور جب تک ابا گھر نہیں آگئے وہاں بیٹھی رہی۔ جب ان کی آواز سنی تو گھر آئی، رونے کی وجہ سے آنکھیں سرخ تھیں۔ ابا نے پوچھا کیا ہوا ہے۔ میں نے کہا نزلہ زکام ہوگیا ہے، خالہ شفق کو بھی یہی کہا تھا۔
میری بات سن کر شعیب چچا بولے۔ ہر وقت بلڈنگ کے گھروں میں جاتی ہے، کوئی گھر کیسا کوئی کیسا۔ جب میں نے روکا تو رونے لگی اور پڑوس میں جاکر بیٹھ گئی۔ بھائی قدیر ان کے بیٹے جوان ہیں وہاں روز روز نہ جایا کرے۔ تم اس کو اس کی ماں کے پاس پہنچا آئو یا پھر اس کی شادی کردو۔ اب اس کا اکیلے گھر میں رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ ابا اس دم تو چپ ہوگئے۔ آج کا کہا تھا کہ شام کو آجائوں گا اور تم کو پھپھو سلمیٰ کے گھر چھوڑ دوں گا۔ اچھا ہوا کہ آپ خود آگئیں، اب میں آپ کے ساتھ جائوں گی، یہاں اکیلی نہ رہوں گی، مجھے ڈر لگتا ہے۔
عفت بے شک بچی تھی مگر اتنی بچی بھی نہ رہی تھی، کافی سمجھ دار ہوچکی تھی۔ باپ سے کچھ نہ کہا مگر مجھ سے اپنے اندر کے خوف کا برملا اظہار کردیا کہ وہ شعیب کی نگاہوں سے ڈرنے لگی ہے۔ میں شام تک عفت کے پاس رہی اور جب قدیر بھائی آگئے تو میں نے ان سے کہا کہ عفت کو میرے ساتھ بھیج دیں۔ جب تک آپ بنگلہ دیش جانے کا پروگرام فائنل نہیں کرتے، یہ میرے پاس رہے گی۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے، میں ہاتھ منہ دھو لوں، خود آپ لوگوں کو چھوڑ آتا ہوں۔
ایک ماہ عفت میرے پاس رہی، پھر قدیر بھائی اس کو بنگلہ دیش لے گئے اور اس کی والدہ کے پاس چھوڑ کر آگئے۔ واپس آئے تو مجھ سے ملنے آئے۔ بولے، تم ہر دم کہتی تھیں عفت کو ماں کے حوالے کرآئو۔ لو خوش ہوجائو، اس کو ماں کے حوالے کر آیا ہوں۔
اچھا کیا ہے، مائیں ہی بچیوں کی صحیح حفاظت کرسکتی ہیں، اب تمہیں کیسا لگ رہا ہے۔ بہت پُرسکون ہوں۔ دل سے ایک بڑا بوجھ اُتر گیا ہے۔ اب سکون سے سو سکوں گا۔ اس کا مطلب ہے کہ تم نے سمجھ لیا بیٹی ماں کے پاس رہے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کی فکر سے تم بھی سکون کی نیند نہ سو سکتے تھے۔
ہاں، کنچن کو بہت سمجھایا کہ میرے ساتھ چلو، بچوں کو باپ سے جدا مت کرو، ہمارا گھر کب سے برباد ہے، بالکل برباد مت کرو۔ لیکن اس نے میری ہر التجا کو رد کردیا۔ کہنے لگی تم اپنے دیس میں خوش تو میں اپنے دیس میں خوش ہوں۔ میں اپنے والدین کو نہیں چھوڑ سکتی۔ بے شک مجھے طلاق دے دو، دوسری شادی کرلو۔ دوسری بیوی سے اولاد ہوجائے گی تو تمہاری ادھوری زندگی مکمل ہوجائے گی۔ صغیر اور عفت جب خودمختار ہوجائیں گے، تم سے ملنے آجائیں گے یا پھر تم جب چاہو آکر مل جانا۔ میں نہ روکوں گی لیکن میرے سامنے آئندہ جانے کی بات نہ کرنا۔ مجھے وہاں جاکر رہنا منظور نہیں۔ تبھی مایوس ہوکر میں نے اسے طلاق دی ورنہ کون خوشی سے اپنا گھر برباد کرتا ہے۔ یہ کہہ کر قدیر بھائی انتہائی افسردہ ہوگئے اور ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو ٹپک پڑے۔
ایک قدیر بھائی ہی نہیں، جانے کتنے گھرانوں کو ملک کے ٹکڑے ہوجانے سے برباد ہوجانا پڑا اور ایسے المیوں سے گزرنا پڑا جن کا ذکر شاید تاریخ میں کبھی نہ آئے۔ (ق۔م…لاہور)