Thursday, February 13, 2025

Ghar Ka Sukoon

 میری ماں ایک خوبصورت عورت تھیں، جبکہ والد صاحب معمولی شکل و صورت کے انسان تھے۔ ماں شادی سے پہلے کسی اور کو چاہتی تھیں، وہ ان کے اپنے کزن عباس تھے۔ امی کی شادی ان سے نہ ہو سکی، جس کا انہیں بے حد رنج تھا۔ یہی وجہ تھی کہ امی جان نے میرے والد صاحب کو کبھی دل سے شوہر قبول نہ کیا۔ دونوں کے درمیان ہمیشہ کسی نہ کسی بات پر کشیدگی رہتی تھی۔ان جھگڑوں میں قصور وار اکثر میری والدہ ہوتیں۔ ابا جان نرم مزاج اور بھلے مانس انسان تھے، جو فساد اور لڑائی جھگڑوں سے نفرت کرتے تھے۔ چونکہ امی ان کے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتی تھیں، اس لیے وہ بات بے بات ان کی زندگی کو اجیرن بنائے رکھتی تھیں، جس کی وجہ سے ہمارے گھر کی فضا ہمیشہ کشیدہ رہتی تھی۔ ایسی فضا میں بچے خود بخود متاثر ہوتے ہیں، اور ہم بھی پریشان و ناخوش رہتے تھے۔

ہمارے گھر میں اور بھی لوگ تھے، جیسے دادا، دادی، پھوپھی اور چچا۔ سبھی امی اور ابو کی کشیدگی سے پریشان رہتے تھے۔ میری دادی سمجھدار اور صابر عورت تھیں۔ وہ ہمیشہ بہو کی طرف داری کرتیں تاکہ ان کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے۔ وہ ابا جان کو بھی سمجھا بجھا کر چپ کرا دیتی تھیں۔ دادی جان کے اس طرزِ عمل کی وجہ سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امی ان کی قدر کرتیں، مگر ہوتا یہ کہ وہ اور زیادہ نڈر ہو جاتیں۔مجھے امی کی عادتیں قطعی پسند نہ تھیں۔ ان دنوں میں سات سال کی تھی، جبکہ میرا بھائی پانچ سال کا تھا۔ پھوپھی کی شادی ہونے والی تھی، گھر میں اس کی تیاری چل رہی تھی۔ چچا شہر کے کالج میں پڑھ رہے تھے۔

ایک دن امی اور ابو کا جھگڑا شدت اختیار کر گیا۔ امی اکثر ابو سے کہا کرتی تھیں کہ ماں کو پیسے مت دیا کرو اور ان سے بات بھی نہ کیا کرو۔ ابو جان سمجھاتے کہ بیگم، اگر میں اپنی ماں سے نہ بولوں گا اور انہیں پیسے نہ دوں گا تو کون دے گا؟ ان کے بڑھاپے کا سہارا کون بنے گا؟ اس پر امی چچا کا نام لیتیں، عارف بھی تو ہے، وہ کس لیے ہے؟ ابو جواب دیتے، لیکن ابھی تو عارف پڑھ رہا ہے۔ جب اس کی نوکری لگ جائے گی، تب بے شک ہم علیحدہ ہو جائیں گے، مگر فی الحال میں ان لوگوں کو بے سہارا نہیں چھوڑ سکتا۔یہی بات جھگڑے کی صورت اختیار کر گئی اور ابو جان کی طبیعت خراب ہو گئی۔ دادا انہیں شہر کے اسپتال لے گئے، جہاں انہیں داخل کر کے علاج شروع کر دیا گیا۔ جب دادا جان ابا کو اسپتال میں چھوڑ کر گھر واپس آئے تو امی نے طوفان کھڑا کر دیا، میں آپ لوگوں کے ساتھ اس گھر میں نہیں رہ سکتی، مجھے طلاق چاہیے۔دادا نے بہت سمجھایا کہ میرا بیٹا اسپتال میں ہے، بیمار ہے، تم کم از کم اس کے ٹھیک ہو کر گھر آنے کا انتظار تو کر لو۔ مگر امی نہ مانیں اور اٹھ کر اپنے میکے چلی گئیں۔ اس وقت میرا چھوٹا بھائی شازی اسکول گیا ہوا تھا۔ امی نے اس کے گھر لوٹنے تک کا بھی انتظار نہ کیا اور مجھے اپنے ساتھ لے کر میکے چلی آئیں۔

میکے پہنچنے کے بعد امی نے عدالت میں طلاق کے لیے کیس دائر کر دیا۔ جب ابو جان نے دیکھا کہ امی کسی بھی صورت میں صلح کے لیے تیار نہیں، تو انہوں نے مزید کیس لمبا ہونے سے پہلے ہی انہیں طلاق دے دی۔ طلاق کے چھ ماہ بعد امی نے اپنے اسی کزن عباس سے دوسری شادی کر لی، جس سے وہ پہلے شادی کرنا چاہتی تھیں۔ مجھے بھی اپنے ساتھ عباس کے گھر لے آئیں۔مجھے نہیں معلوم کہ میرا یہ دوسرا ابو اچھا انسان تھا یا برا، مگر میں اس سے سخت نفرت محسوس کرتی تھی۔ جب وہ گھر آتا تو میں کمرے میں بند ہو جاتی اور اپنے ابو کا پیار یاد کر کے روتی رہتی۔کچھ دن بعد ابو جان نے دادا سے کہا، جا کر میری بیٹی عاشی کو لے آؤ۔ دادا نے چچا کو شہر سے بلوایا اور انہیں میری امی کے گھر بھیجا۔ میں کھڑکی سے باہر جھانک رہی تھی جب میں نے چچا کو آتے دیکھا۔ دوڑ کر امی کے پاس گئی اور انہیں بتایا کہ عارف چچا آئے ہیں۔امی نے چچا کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور آنے کا مقصد پوچھا۔ چچا نے کہا، عاشی کو لینے آیا ہوں۔ بابا جان نے کہا ہے کہ جب تمہارا دل چاہے، بچوں سے مل سکتی ہو، مگر اس معاملے پر عدالتوں میں جانے یا جھگڑا بڑھانے کی ضرورت نہیں۔

امی شاید یہی چاہتی تھیں، لہٰذا انہوں نے کہا، ٹھیک ہے۔ پھر مجھے آواز دی۔ میں دوڑ کر آئی اور چچا کے گلے لگ گئی۔ چچا مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ انہوں نے پوچھا، عاشی، میں تمہیں لینے آیا ہوں، چلو گی؟ میں نے فوراً کہا، ہاں، میں شازی کے لیے بہت اداس ہوں، مجھے اس کے پاس لے چلیے۔امی نے مجھے نہلا دھلا کر اچھے کپڑے پہنائے، پیار کیا اور چچا کے ساتھ روانہ کر دیا۔ گھر پہنچ کر میں بہت خوش ہوئی، دوڑ کر ابو کے گلے لگ گئی۔ سب نے مجھے بہت پیار کیا۔ ابو کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ شازی بھی خوشی سے مجھ سے لپٹ گیا اور بولا، عاشی، امی کیوں نہیں آئیں؟ وہ کب آئیں گی؟چند سالوں میں حالات کافی بدلے۔ چچا کی نوکری لگ گئی، پھر دادی نے ان کی شادی کر دی۔ چچی بہت اچھی تھیں، وہ مجھ سے محبت کرتی تھیں اور کبھی مجھے بور نہ ہونے دیتی تھیں۔ ایک سال بعد ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی، پھر چچا کی نوکری دوسرے شہر میں لگ گئی اور وہ چچی اور اپنی بیٹی کو لے کر چلے گئے۔دادا جان کا انتقال ہو گیا۔ گھر میں دادی، میں اور شازی رہ گئے۔ ابو کام پر چلے جاتے، ہم اسکول چلے جاتے اور دادی اکیلی رہ جاتیں۔ لوگ اکثر کہتے، بڑے بیٹے کی دوسری شادی کر دو۔ مگر ابو دوسری شادی کے لیے تیار نہ ہوتے۔ وہ کہتے، سوتیلی ماں آکر میرے بچوں کو پریشان کرے گی۔

جب شازی نے میٹرک کر لیا تو ابو نے اسے شہر کے کالج میں داخل کروا دیا۔ ایک دن میں گھر میں اکیلی تھی، دادی پڑوس میں گئی ہوئی تھیں اور ابو کام پر تھے۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے پوچھا، کون؟ جواب آیا، عاشی، دروازہ تو کھولو، تمہاری امی نے بھیجا ہے۔امی کا نام سن کر میں نے دروازہ کھول دیا۔ ایک نوجوان دروازے پر کھڑا تھا۔ اس نے کہا، میں عباس کا چھوٹا بھائی ہوں، یعنی تمہاری والدہ کا دیور۔ میں نے اسے اندر بلالیا، لیکن جب اس نے نازیبا رویہ اختیار کیا تو میں گھبرا گئی اور رونے لگی، جس پر وہ فوراً چلا گیا۔دو سال بعد دادی کا بھی انتقال ہو گیا، اور گھر میں صرف میں اور ابو رہ گئے۔ انتقال کی خبر سن کر امی اچانک ہمارے گھر آئیں۔ پندرہ دن گزر چکے تھے، مگر وہ آکر ابو کے سامنے کرسی پر بیٹھ کر رو رہی تھیں۔ معلوم ہوا کہ عباس سے ان کی طلاق ہو چکی ہے، کیونکہ وہ اچھا انسان نہیں تھا۔

اس عرصے میں عباس نے امی کو بہت دکھ دیے اور پریشان رکھا۔ آخر کار، اس نے امی کو طلاق دے دی۔ امی نے رو رو کر ہر بات ابو کو تفصیل سے بتا دی۔ وہ بار بار کہہ رہی تھیں کہ اپنے ان بچوں کے واسطے تم مجھے معاف کر دو۔ مجھ سے بڑی بھول ہوئی جو میں نے اس بے وفا شخص کی خاطر اپنے پیارے بچوں اور اس گھر کو چھوڑ دیا تھا۔امی یہ بھی کہہ رہی تھیں کہ اگر آج میری ساس یا سسر زندہ ہوتے تو مجھے اس گھر سے نہ جانے دیتے، وہ مجھے دوبارہ روک لیتے۔ میں نے امی کی باتوں سے سمجھ لیا کہ وہ دوبارہ اس گھر میں لوٹ آنا چاہتی ہیں۔ تب میں نے ابو جان سے کہا کہ آپ امی جان کو معاف کر دیجئے۔ بے شک امی قصور وار تھیں، مگر انہیں اپنی غلطی کی کافی سزا مل چکی ہے۔ عباس سے ان کی طلاق ہو چکی ہے، اب آپ ان سے دوبارہ نکاح کر کے انہیں ان کا گھر واپس دے دیں۔جب میں نے بہت اصرار کیا تو ابو جان بولے کہ اچھا، میں سوچوں گا۔ پہلے شازی سے پوچھ لوں، تب تک تمہاری امی اپنے میکے چلی جائیں۔ میں پھر خود جا کر ان کے والد اور بھائیوں سے بات کروں گا۔جب سے امی کو طلاق ہوئی تھی، دادا جان اور دادی نے ہمیں ننھیال جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔ ہم اس کے بعد پہلی بار ابو کے ساتھ نانا کے گھر گئے۔ نانا جان ابو کے آنے کا مطلب سمجھ چکے تھے۔ انہوں نے میرے والد کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا کیونکہ ابو کا نانا جان سے کبھی جھگڑا نہیں ہوا تھا۔ نانا اب بھی ابو کی عزت کرنے پر مجبور تھے، اور ہم نواسوں کے ناتے بھی ان کا ابو سے ایک مضبوط رشتہ برقرار تھا۔میں اور شازی نے نانا جان کو منت سماجت کر کے راضی کر لیا، اور وہ امی کا نکاح دوبارہ ابو سے کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ چونکہ اس سارے معاملے میں قصور وار امی تھیں، لہٰذا سب نے ابو جان کے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا۔

چھ سال کے بعد امی دوبارہ اپنے گھر لوٹ آئیں، لیکن ایک نئی عورت کے روپ میں۔ وہ پہلے جیسی نہ تھیں، نہ ابو سے لڑتی جھگڑتی تھیں، بلکہ ان کی بے حد خدمت، عزت اور قدر کرتی تھیں۔ انہیں اپنی غلطیوں کا احساس ہو چکا تھا اور وہ نادم تھیں۔ ابو نے انہیں معاف کر کے عظمت کا ثبوت دیا، اور امی ان کی احسان مند اور شکر گزار تھیں۔اس کے بعد ہمارا گھر سکون کا گہوارہ بن گیا۔ میں اب شادی شدہ ہو چکی ہوں، شازی کی بھی شادی ہو گئی ہے، لیکن امی اور ابو آج بھی آرام اور سکون سے رہتے ہیں۔ ان کے درمیان کبھی کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔ میں اللہ کے اس معجزے پر شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے ابو کا گھر دوبارہ بسا دیا، اور وہ بھی مکمل سکون کے ساتھ۔ بے شک، انسان غلطی کر کے ہی سدھرتا ہے۔

Latest Posts

Related POSTS